┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: سرپرائز
از: عمیرہ_احمد
 آخری_حصہ

اسے اپنے شوہر کی پے پرواہی پر کڑھنے کی ضرورت نہیں ہے اگلے دو ماہ میں عمار کے توسط سے بہت سی باتیں اسکی علم میں آئیں تھیں
اور ان میں سے سب سے تکلیف دہ بات رضا حسین کا اس سے فیئر نہ ہونا تھا.
اس روز وہ بہت روئی لیکن اس نے رضا حسین پر کچھ ظاہر نہ ہونے دیا. رفتہ رفتہ اسکے مزاج میں تبدیلی آنے لگی تھی. پہلے وہ رضا کے
قریب رہنے کے بہانے ڈھونڈھتی تھی اب اسکی قربت سے بھاگتی تھی.
وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا اسے کیا ہوتا جا رہا ہے.

صرف اسکی خوشی کے لئے اس نے اپنی مصروفیات تک کم کر دیں مگر پھر بھی وہ خوش نہیں تھی. اب تو اس نے الگ گھر کا بھی مطالبہ کر دیا تھا.
رضا اسکی ہر بد تمیزی خاموشی سے سہ جاتا تھا مگر یہ مطالبہ ماننا اس کے لئے ازحد شرمندگی کا باعث تھا. یہی وجہ تھی کہ اس نے بہت
پیار سے اسے اس مسئلے پر سمجھانے کی کوشش کی تھی. مگر وہ نہیں منی تو اس نے اسکو اس کے حال پر چھوڑ دیا.
حریم شاید یہی چاہتی تھی.
دونوں کے بیچ بات چیت بند ہوگئی تھی. اس نے اپنا بستر بھی رضا سے الگ کر لیا تھا اسکے سارے کام بھی ملازمہ پر ڈال دے تھے. وہ اسکی
حرکتوں سے کتنا ہرٹ ہو رہا تھا اسے پرواہ نہیں تھی. عمار اب اس سے ملنے لگا تھا.
وہ شخص اپنی باتوں اور لفظوں میں جتنا خوبصورت تھا. حریم کو حیرت ہوتی تھی کہ اتنا خوبصورت مالدار ہونے کے باوجود اس جیسی بظاھر
عام سی لڑکی کو کتنی اہمیت دے رہا ہے. کیسے ہر ہر بات میں اسکی تعریف کرتا ہے. اسے پیار دیتا ہے اسکا خیال رکھتا ہے.
وہ اپنے نصیب پر جتنا بھی رشک کرتی کم تھا.
اس روز موسم بہت سرد تھا. صبح ہسپتال جانے سے پہلے رضا نے اسکو منانے کی کوشش کی تھی، مگر اس نے اس کوشش کو کامیاب ہونے نہیں دیا.
اگر وہ اس سے صلح کر لیتی تو الگ کمرے میں کیسے سوتی؟ اور ساری رات جگ کر اپنے محبوب سے اسکی من پسند باتیں کیسے کرتی؟
رضا مایوس لوٹ گیا تھا. پچھلے ایک ہفتے سے اسکی نیند اور خوراک متاثر ہو رہھی تھی. اسکی ماں نے اس سے کہ دیا تھا کہ وہ حریم کی بات
ماں لے وہ دونو بوڑھے میاں بیبی اکیلے رہ لیں گے مگر وہ نہیں مانا تھا اسکو یقین تھا حریم کا غصّہ جلدی ڈھل جاتے گا اور وہ اسکی بات مان
لے گی. رضا کے ہسپتال جانے کے بعد وہ اپنی ساس کے منع کرنے کے باوجود عمار سے ملنے چلی گئی. موسم خوبصورت اور سرد تھا مگر
من پسند ہم سفر کے ساتھ اس کا حسن مزید دوبالا ہوگیا. صرف اسکی فرمائش پر عمار نے اسکو پورا شہر گھمایا تھا.
اب شام ڈھلنے لگی تھی. واپسی کے سفر میں اس نے اس سے پوچھا تھا.
"عمار! آج نہیں تو کل تمہاری شادی ہو جاتے گی ممکن ہے جو لڑکی تمہاری زندگی میں تمہاری بیوی کی حثیت سے آئے تم اسے مجھ سے زیادہ
چاہنے لگو. اگر ایسا ہوا تو کیا تم مجھے بھول جاؤ گے."
"نہیں! میں شادی ہی نہیں کروں گا".
"گھر والوں نے مجبور کیا تب بھی نہیں"؟
"نہیں! مجھے کوئی مجبور نہیں کر سکتا".
"اچھا اگر میری شادی نہ ہوئی ہوتی تو کیا تم مجھ سے شادی کرلیتے"؟
"شادی ہوگئی تو کیا ہوا، میں جسموں سے محبت کا قائل نہیں ہوں. یہ تم اچھی طرح جانتی ہو".
مکمل توجہ ڈرائیونگ پر مرکوز کے اس نے سنجیدگی سے جواب دیا. حریم کے دل پر ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگی فرط جذبات میں اس نے عمار
کا بایاں بازو اپنے بازؤں کے حصار میں لیتے هوئے اپنا سر اسکے شانے پر ٹیکا دیا
"میں تمہیں پانا چاہتی ہوں عمار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اگر کوئی اور لڑکی تمہاری زندگی میں آئی تو میں مر جاؤں گی".
"آج ایسا کہا ہے آئندہ مت کہنا ورنہ میں بات نہیں کروں گا".
"ٹھیک ہے نہیں کہوں گی، مگر کیا تم مجھ سے شادی کر سکتے ہو"؟
"کر سکتا ہوں مگر میں کسی کا دل نہیں دکھا سکتا حریم. تمہارا شوہر ہے جو تم سے محبت کے دعوے کرتا ہے اسکا کیا ہوگا".
"وہ میرا شوہر ہے اور مجھ سے مخلص نہیں ہے تو میں اسکے ساتھ رہوں یا اسکو چھوڑ دوں کیا فرق پڑتا ہے؟"
"ہوں مگر میں تمہیں یہی مشوره دوں گا کہ تم کسی قسم کی جذباتیت میں کوئی فصیلہ مت کرو".
"یہ جذباتیت نہیں ہے. بہت سوچ سمجھ کر میں یہ قدم اٹھا رہی ہوں. یہ اور بات ہے کہ تم سے نہیں کہا کبھی کچھ".
عمار کی بازو کورتے هوئے کھڑکی کی طرف رخ کیا.
"عجیب کشمکش ہے جس میں، پھنسی ہوئی ہوں میں. کچھ سمجھ نہیں آتا کیا کروں. عمار تم میرے خوابوں کا حاصل ہو، تم بلکل ویسے ہی ہو جیسا
میرا خواب ہے. تو میں بھی کیوں نہ زندگی من پسند ہم سفر کے ساتھ بسر کروں. کیا میرا اپنی زندگی پر کوئی حق نہیں اور تم نے ہی تو کہا
تھا کہ مزید اپنی زندگی برباد مت کرو.
"ٹھیک ہے! لیکن کیا تمہیں یقین ہے کہ رضا حسین تمہیں آسانی سے آزاد کر دے گا".
"نہیں! وہ ایسا شخص ہے کہ اگر میں اسکی جان لینے کی کوصحیح بھی کروں ٹیب بھی وہ مجھ سے نفرت نہیں کرے گا. مگر پھر بھی میں
اکی جان لے سکتی ہوں."
"مگر میں تمہیں کسی کی جان لینے نہیں دوں گا، اتنا خود غرض نہیں ہوں کے اپنی خوشیوں کے لئے تمہیں مصیبت میں ڈالوں. تم صرف اس
سے ڈائیورس لو گی بس".
"ٹھیک ہے، اب پھر ہم اسی دن ملین گے جب میں اس فزول کے بندھن سے آزاد ہو جاؤں گی".
"سوچ لو، اتنے دن میرے بغیر رہا جاتے گا"؟
"ہاں تمہیں ہمیشہ کے لئے پانے کو چند دن کی عارضی جدائی کا زہر تو پینا پڑے گا".
"ٹھیک ہے جیسی تمہاری مرضی".
"میری ایک مدد کرو گے". گاڑی سے اترتے ہوے اچانک وہ پلٹی تھی.
"ہاں بولو".
"مجھے رضا سے علیحدگی کے لئے تمہاری مدد چاہیے".
"کیسی مدد"؟
"وہ کل ملائشیا جا رہا ہے. دو روز بعد آے گا. میں چاہتی ہوں جب وہ واپس آئے تو ہم دونوں کو ناقابل برداشت حالت میں دیکھ کر مشتعل ہوکر
غصّے میں طلاق دے ڈالے.
"آئیڈیا برا نہیں ہے مگر سوری. میں اسکے سامنے نہیں آؤں گا. ہمارے کچھ فیملی ریلیشن ہیں. میں نہیں چاہت کہ وقت سے پہلے میرا امیج
کہیں خراب ہو. میں اپنے کسی قریبی دوست کی مدد لیتا ہوں اگر تمہیں اعترض نہیں ہو تو".
"ٹھیک ہے بس وہ اور میں کمرے میں تنہا ہوں گے بس. رضا کے لئے یہی بہت ہے کہ میں نے اس سے بے وفائی کی ہے".
"اوکے، الله نے چاہا تو ویسا ہی ہوگا جیسا تم چاہتی ہو".
"تھینک یو عمار آئی لو یو ویری مچ." سرشاری سے کہتی اسکی گاڑی سے نکل آئی تھی.
اگلی صبح رضا ملائشیا جا، رہا تھا ۔پانچ بجے اس کی فلائٹ تھی ۔وہ تین بجے بیدار ہو گیا تھا حریم ابھی سو رہی تھی ۔اس نے اسے ڈسٹرب کیے بغیر وضو کیا تہجد پڑھی اور کمرے سے نکل گیا ۔تیاری اس نے کل رات ہی مکمل کر لی تھی ۔والدین سے ملنے کے بعد کمرے میں آیا تھا ۔حریم جاگتے ہوئے بھی سوئی بنی رہی ۔وقت تیزی سے گزر رہا تھا ۔
جلدی کرتے بھی تاخیر ہو رہی تھی ۔مکمل تیاری کے بعد اس نے زبردستی حریم کو جگایا اور اپنے مقابل کر لیا ۔اسے گلے لگاتے ہوئے اسکے کان میں بولا۔
میں جا رہا ہوں اپنا بہت خیال رکھنا واپسی پر بہت بڑا سرپرائز دوں گا ۔
میں بھی 
مسکراتے ہوئے حریم نے بھی کہا۔وہ اس کی پیشانی چومتے ہوئے کمرے سے نکل گیا ۔دو روز کے بعد اسکی واپسی تھی۔ائیرپورٹ پر پہنچتے ہی اس نے حریم کو اگاہ کے لیے کال کی۔مگر اس نے اسکی کال پیک نہیں کی وہ فون جیب میں ڈالے ٹیکسی لئے گھر چلا آیا۔
سنڈے کے باعث ملازم چھٹی پر تھے ۔گھر میں بھی کوئی نظر نہیں آ رہا تھا 
بڑی بی کے کمرے میں جھانکنے کے بعد اس کے قدم حریم کے کمرے کی طرف اٹھے ہی تھے سر شادی کے عالم میں اس نے کمرے میں قدم رکھا تھا مگر ۔۔۔۔۔
سامنے موجود منظر نے اسے ساکت کر ڈالا۔
سورج طلوع ہونا بھول سکتا تھا ۔دریا الٹا بہہ سکتا ہے ہوائیں رک سکتی ہیں مگر ۔۔۔۔۔۔۔
اسکی حریم اس درجہ گر نہیں سکتی ۔یہ وہ لڑکی تھی جسے اس نے جان سے عزیز رکھا تھا ۔
اس کے سارے خواب مٹی ہو گئے ۔حریم پھٹی پھٹی نگاؤں سے اس توانا شخص کو دیکھ رہی تھی ۔
جسے اس کی بے وفائی نے لموں میں چٹ کر ڈالا تھا ۔کتنا پکا تھا وہ اپنے وعدوں اور ارادوں کا طلاق لینے دینے کی نوبت نہ آتی۔اس سے پہلے وہ زندگی کی بازی ہار گیا تھا 
___________
مکمل سادہ لباس میں مبلوس افسردہ سی عماد کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی اور کہہ رہا تھا 
جو کچھ ہوا نہیں ہونا چاہیے تھا ۔سہی کہتے ہیں کہنے والے عورت کی لالچ اور ہوس کی کوئی حد نہیں ہوتی ۔
میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کے تم اتنی سفاک ہو سکتی ہو۔جاننا چاہتی ہو کے میں نے تم سے راہ رسم کیوں بڑھائے؟ 
خود کو تمارے سانچے میں ڈل کر اس شخص سے علیحدہ کیوں کرنا چاہا۔
وہ بولے جا رہا تھا حریم ساکت سن رہی تھی 
منگیتر تھا وہ میری بہن کا ۔بچپن کا اور میں اس کی بہن سے منسوب تھا ۔اس بہن سے جو میرا پہلا خواب تھی ۔
پہلا عشق تھا ۔صرف تماری وجہ سے نہ میری بہن کی شادی ہو سکی اور نہ میں اپنی محبت پا سکا۔سوچا تھا رضا سے تماری جان چڑوا کر اپنی بد نصیب بہن کا گھر آباد کر سکوں گا ۔مگر سارے پلان کا بیڑا غرق ہو گیا ۔تم اب جاؤ کسی ریل گاڑی کی پٹری پر سر رکھ کر جان دے دو۔
ہمیشہ پھول برسنے والے لب اس وقت سنگ باری کر رہے تھے ۔حریم لہولہان ہوتی روح کے ساتھ بیٹھی رہی ۔
وہ اٹھا اور باہر نکل گیا ابھی تک اس نے نہیں بتایا تھا کے رضا کی خوشی کے لیے اس کی ضد سے ہار مانتے ہوئے اس سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا تھا ۔۔بلکہ وہ گھر بھی اس کے نام کر دیا تھا ۔
بڑی بی کے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔
بڑے میاں کی نفرت اسکا وجود چھنی کر رہی تھی ۔کیا زندگی ایسا دھوکا بھی دیتی ہے
کتنی عجیب بات تھی ۔جو اپنی زندگی میں اس کی ایک نگاہ کو ترستا تھا ۔اس شخص کے مرنے پر پھر سے اس کے دل میں محبت سر اٹھانے لگی تھی ۔سورج ڈھل رہا تھا ۔
اس نے ایک نظر سے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا ۔اٹھی اور ایک دم قدم اٹھتی ہوئی جانے لگی رضا کی ایک ایک بات اس کا دامن پکڑ رہی تھی ۔شہر سے کافی دور آ کر وہ ریل کی پٹری پر بیٹھ گئی ۔
ایک سرپرائز اس نے رضا کو دیا تھا ۔جواب میں ایک سرپرائز اسے دے کر چلا گیا ۔ابھی تھوڑی دیر پہلے ایک سرپرائز اسے عماد سے ملا تھا ۔اب ایک سرپرائز اسے زندگی کو بھی دینا تھا ۔اندھی خواہشات والوں کے ساتھ تقدیر ایسے ہی کھیل کھیلتی ہے 

مجھ سے مخلص نہ تھا نہ واقف میرے جزبات سے 

اس کا رشتہ تھا فقط اپنے مفاد سے ۔

اب جو بچھڑا تو کیا روائیں جدائی پر تیری

یہ اندیشہ تو پہلی ملاقات سے تھا 

ختم شد

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─