┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 21
پارٹ 1

اسد نے انہیں پارلر اتارا تھا۔۔۔

 رکو میں تیار ہو کر آتی ہوں۔۔ جانا مت مجھے میرج ہال جانا ہے تمہارے ساتھ۔۔ پھر دو گھنٹے بعد دوبارہ لینے آٸیں گے حرم کو۔ تب تک وہ تیار ہو جاۓ گی۔۔ ابھی شزا اسکے پاس رکے گی۔۔ اور کیا بات عالیہ بھی آجاۓ۔۔حورعین نے تفصیل سے بتایا۔۔

ہمم۔۔کتنا ٹائم لگے گا۔۔ اسد نے پوچھا۔۔ 

ایک گھنٹا لگ جاۓ گا۔۔ حورعین نے جواب دیا۔۔ 

اففف۔۔ ایک گھنٹا۔۔ اتنی دیر میں تیار ہوگی تم۔۔ اسد حیران ہوا۔۔ 

جی بالکل۔۔ آخر کو دلہن کی بہن ہوں۔۔ حورعین نے کہا۔۔ 

اور میں تب تک کیا کروں گا۔۔ وہ بولا۔۔ 

ویٹ کرنا میرا۔۔ حورعین نے جواب دیا۔۔ حرم اور شزا کی موجودگی کی وجہ سے وہ لوگ پورا راستہ بات نہیں کر پاۓ تھے۔۔ اسد خوش ہو رہا تھا کہ اب انہیں بات کرنے کا موقع مل جاۓ گا۔۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے کا بھی۔۔ 

اور ان بیگز میں کیا ہے۔۔ وہ شاپنگ بیگز کی طرف دیکھ کر بولا۔۔ 

ڈریسز ہیں ہمارے۔۔ حورعین نے جواب دیا۔۔ اوکے اللہ حافظ۔۔ وہ جلدی جلدی میں کہتی شزا اور حرم کے پچھے بھاگی جو پارلر کے اندر جا چکی تھیں۔۔

 وہ شہر کا ایک مشہور سیلون تھا۔۔ اور حورعین کی ہمیشہ سے خواہش تھی کہ وہ یہاں سے تیار ہو۔۔ اور آج اسکی یہ خواہش پوری ہونے جارہی تھی۔۔ 

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ کدھر جارہے ہیں۔۔ عالیہ نے حمزہ کو دیکھا تو پوچھا۔۔حمزہ دبے قدموں لاٶنج سے گزتے ہوۓ باہر کی طرف جا رہا تھا۔۔ لاٶنج میں دادو بیٹھی تھیں۔۔ اور حمزہ ان سے چھپ کر جانا چاہتا تھا۔۔ وہ سب لوگ ڈاکٹر سمیع کے گھر پر تھے۔۔ بہت رونق لگی تھی۔۔ ہر طرف گہمہ گہمی سی تھی۔۔ بارات جانی تھی آج فرہاد آغا کی۔۔ اور حمزہ کو اپنی پڑی تھی۔۔ 

شششششش۔۔۔ تم آہستہ نہیں بول سکتی کیا۔۔ حمزہ اسکے اتنی زور سے بولنے پر جنجھلا گیا تھا۔۔ 

کیوں۔۔ زور سے بولنے پر پابندی ہے کیا۔۔ عالیہ نے پوچھا۔۔ مگر آپ یوں چھپ چھپ کر کہاں جا رہے ہیں۔۔ عالیہ نے مشکوک نظروں سے پوچھا۔۔ 

میں سیلون جا رہا ہوں۔۔ حمزہ نے آہستہ سے کہا۔۔ نظریں دادو پر جمی تھیں۔۔ مبادہ کہیں انکی نظر نا پڑ جاۓ۔۔ 

سیلون۔۔؟؟ مگر کیوں۔۔ عالیہ نے پوچھا۔۔ 

تیار ہونے اور کس لیۓ جاتے ہیں وہاں۔۔ حمزہ نے بھناتے ہوۓ کہا۔۔ 

لیکن کیوں۔۔ آپ کیوں تیار ہونے جا رہے ہیں۔۔ شادی تو فرہاد بھاٸ کی ہے۔۔ آپکی تو نہیں۔۔ اور فرہاد بھاٸ کو تو ابھی تک ہوش بھی نہیں کہ انہیں دلہا بننے جانا ہے۔۔ عالیہ نے کہا۔۔

اففف۔۔ یار تو میں دلہے کا چھوٹا بھاٸ ہوں۔۔ کوٸ ویلیو ہے میری بھی۔۔ اور پلیز اب تم جاٶ میری جان چھوڑو۔۔ حمزہ کہتا ہوا آگے بڑھا۔۔ 

اچھا بچو۔۔ اب مجھے آنکھیں دکھاٶ گے۔۔ ایک منٹ۔۔ابھی بھیجتی ہوں آپکو سیلون۔۔ دادوو۔۔۔ عالیہ نے زور سے چلاٸ۔۔

اووو شٹ۔۔ حمزہ نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھ اسے چپ کروایا۔۔
اچھا۔۔ سوری۔۔ میری ماں مجھے معاف کردے۔۔ اب نہیں کہتا کچھ بھی۔۔ حمزہ نے کہا۔۔ 

ہاں تو ٹھیک ہے پھر مجھے بھی ساتھ لے کر جاٸیں۔۔ میں بھی دلہے کی بہن ہوں۔۔۔ میری بھی تو ویلیو ہے نا۔۔ عالیہ نے کہا۔۔ 

اففف۔۔ کہاں پھنس گیا میں۔۔ حمزہ نے سر پیٹ ڈالا اپنا۔۔ 

جاٶ میری بہن تم چلی جاٶ۔۔ میں نہیں جاتا میں رہنے دیتا ہوں۔۔ حمزہ نے ایک طرف بیٹھتے ہوۓ کہا۔۔ 

اوکے جاٸیں آپ۔۔۔ عالیہ کو اس پر ترس آگیا۔۔ ویسے امپریس کس کو کرنا ہے آپ نے۔۔ عالیہ نے مسکراتے ہوۓ پوچھا۔۔ 

ہو ہی جاۓ گی کوٸ اللہ کی بندی۔۔ 

ارے کام چورو۔۔ دھیان سے کام کرو۔۔ تم لوگوں کو نہیں پتا آج بارات ہے۔۔ سارے نکمے کام کرنے والے رکھے ہوۓ ہیں اس سمیع نے۔۔ زرا ٹھیک سے کام نہیں کرتے۔۔ دادو کام کرنے والوں کے سر پر کھڑی تھیں اور ان بے چاروں کی شامت آٸ ہوٸ تھی۔۔ 

تب ہی فرہاد ڈاکٹر سمیع کے ساتھ جلدی جلدی میں اندر آیا تھا۔۔ وہ دونوں کچھ ڈسکس کرتے آرہے تھے۔۔

میں کیسے جاٶں باہر۔۔ دادو تو مولا جٹ بنی کھڑی ہیں۔۔ حمزہ نے کہا۔۔ 

آپ جاٸیں میں دیکھتی ہوں دادو کو۔۔ عالیہ نے کہا اور دادو کی طرف چلی گٸ۔۔ 

کیا ہوا دادو کیوں ڈانٹ رہی ہیں انکو۔۔ عالیہ نے پوچھا۔۔ 

ارے ناہنجارو نے ایک کام بھی چج سے نہیں کیا۔۔ دیکھو یہ سارے پھول ادھر پڑے ہوۓ ہیں۔۔ ابھی تک سجاوٹ مکمل نہیں ہوٸ۔۔ اور بارات کے جانے میں ایک گھنٹہ رہ گیا۔۔ ارے دلہن کیا اس بنا سجے سنورے گھر میں آۓ گی۔۔ دادو نے ہاتھ ہلا ہلا کر پورے لاہور کو سنا دیا۔۔ 

کیا ہوا دادو۔۔ کوٸ مسٸلہ ہو گیا ہے کیا۔۔ فرہاد پاس آیا۔۔ 

کوٸ ایک مسٸلہ ہو تو بتاٶں۔۔ اور تم۔۔ تیار نہیں ہوۓ ابھی تک۔ اتنی رسمیں کرنی ہیں سہرہ بندی کی۔۔ دادو فرہاد کو دیکھتے ہوۓ گرجیں۔۔ لو آگٸ فرہاد آغا کی۔۔ 

جی ہوجاٶں گا تیار ابھی ٹاٸم ہے۔۔ فرہاد نے کہا۔۔

کہاں ٹائم ہے۔۔ 3 بج گۓ ہیں شام کے اور کیا رات کو 12 بجے بارات لے کر جاٶ گے۔۔ دادو کا پارہ ہاٸ ہوا۔۔ 

نہیں دادو اب شام کو ہی بارات جاتی ہے۔۔ عالیہ نے کہا۔۔ 

تو چپ کر۔۔ تجھے بڑا پتا ہے۔۔ ہمارے زمانے میں تو اس وقت بارات واپس بھی آجاتی تھی۔۔ دادو نے عالیہ کی بھی کردی۔۔

اچھا اچھا ناراض نا ہوں میں جارہا ہوں تیار ہونے۔۔ فرہاد نے ہنستے ہوۓ کہا۔۔ 

کہاں جا رہے ہو۔۔؟ دادو نے پوچھا۔  

سیلون جا رہا ہوں آپ نے خود ہی تو کہا ہے میں دلہا ہوں۔۔ مجھے تیار ہوناچاہیۓ۔۔۔ فرہاد نے کہا۔۔ 

ہاں وہ تو ٹھیک ہے۔۔ مگر یہ ناس مارا سی لون کیا ہے۔۔ دادو نے کہا۔۔ 

ارے دادو حمام کو کہتے ہیں سیلون۔۔ عالیہ نے بتایا

ہاں ٹھیک ہے پھر جاٶ۔۔ اچھا سے مالش کروانا تیل لگوا کر سر میں۔۔ ارے ہمارے دور میں تو گھر میں ہی تیار ہو جاتے تھے۔۔ 

اور حمزہ جو ابھی تک گیا نہیں تھا اسکی ہنسی چھوٹ گٸ۔۔ ہنسی تو عالیہ اور فرہاد کو بھی آٸ تھی۔۔ مگر اتنی ہمت دادو کی بات پر ہنسیں۔۔ توبہ توبہ۔۔

جی جاتا ہوں بسس تھوڑا سا کام کرلوں۔۔فرہاد نے کہا۔۔ 

تم کیوں کام کرو گے۔۔ حمزہ کدھر ہے۔۔ اوۓ حمزہ۔۔ دادو نے حمزہ کو پکارہ اور پورا گھر ہلا دیا۔۔ 

لو جی۔۔ اب میری خیر نہیں۔۔اور حمزہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کہاں چھپے۔۔  

جج۔۔جی۔۔ دادو حمزہ نے فوراً لیبیک کہا۔۔ 

کہاں تھے تم۔۔ نا شرم نام کی کوٸ چیز ہے تمہارے پاس۔۔ تمہیں نظر نہیں آرہا کہ کام پڑا ہے اتنا سارا میں کرلوں۔۔ دلہا خود کر رہا ہے۔۔ 

جی وہ میں بھاٸ کے ساتھ سیلون جا رہا تھا۔۔ 

کیوں۔۔ اسکو گود میں اٹھا کر لے جاٶ گے گیا۔۔ نا یہ بچہ ہے کیا۔۔؟؟ 
اور فرہاد نے ہنسی چھپانے کیلیۓ منہ دوسری طرف کر لیا۔ 

اچھا۔۔ ٹھیک ہے نہیں جاتا۔۔۔ حمزہ نے جواب دیا۔۔ 

یہ سارا کام ختم کرواٶ جلدی۔۔ میں ذرا ان بہوٶں کو دیکھ لوں۔۔ دادو کہتی چلی گٸیں۔۔ 

اور حمزہ کا منہ بن گیا۔۔بے چارہ برا پھنسا تھا۔

            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک گھنٹہ انتظار کے بعد اس کو وہ آتی ہوٸ نظر آٸ۔۔ کامدار بھاری بھرکم شرارے کو جو زمین کو چھو رہا تھا ہاتھوں سے پکڑے۔۔ ہل والے جوتے پہنے۔۔ سینت سینت کر پاٶں رکھتی وہ اسد کی طرف بڑھ رہی تھی۔۔ کھلے بال شانوں پر بکھرے تھے۔۔ لاٸیٹ میک اپ کے ساتھ بلاشبہ وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔ اسد جو گاڑی سے ٹیک لگاۓ اکتاۓ ہوۓ انداز میں اسکا انتظار کر رہا تھا۔۔ ایک دم سیدھا ہوا اور پھر بس دیکھتا رہ گیا تھا۔۔ وہ جو سادہ سے کپڑوں میں اندر گٸ تھی۔۔ اب کیا قیامت بن کر باہر آٸ تھی۔۔ 

چلیں۔۔ حورعین اسکے پاس آکر بولی۔۔  

اسد۔۔ حورعین نے اسکے یوں دیکھنے پر پکارا۔۔ 

 ”اگر صاحب شریعت ہو تو اک فتوہ دو۔۔،،

رخِ یار پر مر جانا۔۔ خود خوشی ہے۔۔ یا شہادت۔۔ “

اسد نے شعر پڑھا۔۔ 

افف اب تم شاعر بھی بن گۓ۔۔ حورعین نے نظریں جھکاتے ہوۓ کہا۔۔ وہ اسطرح کی تعریف پر شرما گٸ تھی۔۔ 

مجھے لگتا ہے میں شاعر نہیں بلکہ پاگل ہو رہاں ہوں۔۔چھو دیکھ لوں تمہیں۔۔ کیا یہ تم ہی ہو۔۔ اسد نے کہا۔۔ 

پلیز چلیں اسد دیر ہو رہی ہے۔۔ حورعین نے نظریں چراتے ہوۓ کہا۔۔

ہممم۔۔ اوکے۔۔ وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ چکے تھے۔۔ 

You are looking so beautiful.. 

اسد نے کہا۔۔ 

تھینک یو۔۔ حورعین نے مسکرا کر جواب دیا۔۔ 

اسد گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا۔۔ کچھ دور جانے کے بعد اس نے پوچھا۔۔ 

کہاں جاٸیں ہم۔۔۔؟

کیا مطلب کہاں جاٸیں۔۔میرج ہال چلیں بارات آنے والی ہے سب انتظار کر رہے ہیں۔۔ حورعین نے کہا۔۔ 

اتنی بھی جلدی کیا ہے۔۔ اتنی مشکل سے تو آج موقع ملا ہے۔۔ تھوڑا وقت گزار لیتے ہیں اکیلے میں۔۔ وہ بتا رہا تھا۔۔ 

نہیں اسد۔۔ بالکل بھی نہیں۔۔ہمارا ایسے ملنا ٹھیک نہیں۔۔ حورعین نے ڈرتے ہوۓ کہا۔۔ 

ڈونٹ وری حورعین۔۔ ڈر کیوں رہی ہو۔۔ اور اسد نے اسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوۓ کہا۔۔

اور حورعین کے دل کی دھڑکن تیز ہوٸ۔۔ 

سب انتظار کر رہے ہونگے۔۔ وہ بولی۔۔ 

ٹھیک ہے جانِ اسد جیسے تم کہو۔۔۔ میری وجہ سے کبھی بھی تمہیں پریشانی نہیں ہوگی۔۔ہم میرج ہال ہی جا رہے ہیں۔۔ اسد نے کہا البتہ ہاتھ نہیں چھوڑا۔۔ وہ اپنے ہاتھ میں لیا ہوا تھا اور اپنے ہاتھ اسٹیرنگ پر رکھے ڈرائيونگ کر رہا تھا۔۔ 

اور حورعین نے سکون کا سانس لیا۔۔ اسکا انتخاب غلط نہیں۔۔ وہ سوچ رہی تھی۔۔ اسے اسد پر بہت پیار آیا تھا۔۔

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سنو۔۔ بارات نکل چکی ہے۔۔ بس دس پندرہ منٹ تک پہنچ جاۓ گی یہاں۔۔ ثانی آپی نے اعلان کیا۔۔ اور سب بارات کے استقبال کے لیۓ ریڈی ہونے لگ گۓ تھے۔۔ 

کسی چیز کی کوٸ بھی کمی نہیں ہونی چاہیۓ۔۔ آفاق تایا میرج ہال کے مینیجر سے بات کر رہے تھے۔۔ 

ہر چیز پرفیکٹ ہونی چاہیۓ۔۔ میرج ہال میں لاٸٹنگ کی گٸ تھی۔۔ کافی اچھا سماں بنایا گیا تھا۔۔ 

وہاج بھاٸ، زین اور نبیل بھی بہت مصروف نظر آرہے تھے۔۔ 

         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بارات کا استقبال بہت اچھے سے لیا گیا تھا۔۔ فرہاد دلہا نہیں کسی سلطنت کا شہزادہ لگ رہا تھا۔۔ وہ جو تھری پیس ڈریس پہننے والا تھا دادو کی وجہ سے اب بلیک شیروانی میں ملبوس تھا۔۔سب نے اسکی ہزاروں بلاٸیں لے ڈالی تھیں۔۔ حرم کی امی نے اسکی نظر اتاری تھی۔۔ وہ ایک شان کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھا تھا۔۔ جیسے کوٸ دربار لگنے ولاا ہو۔۔ اور وہ وہاں کا بادشاہ ہو۔۔ حرم کی طرف سے جتنے بھی رشتے دار اور اسکی کزنز تھیں۔۔ سب نے یہی کہا تھا کہ حرم بہت لکی ہے۔۔ کچھ نے حسد بھی کیا تھا اور کچھ نے رشک بھی۔۔ 

کیا ہوا آپ کچھ پریشان ہیں۔۔ حمزہ نے حورعین کے پاس آکر پوچھا۔۔ وہ کب سے دیکھ رہا تھا کہ وہ پریشانی سے ادھر ادھر کے چکر لگا رہی ہے۔۔ شاید کسی کا انتظار کر رہی تھی۔۔ پہلے تو وہ دیکھ کر کچھ بول ہی نا سکا۔۔ ثنا اور وہ ایک ساتھ تھیں۔۔ ثانی آپ، ثناء، حورعین اور شزا کے ایک جیسے ڈریس تھے۔۔ پورے آدھے گھنٹے سے وہ ایک کونے میں بیٹھے اسے دیکھ رہا تھا۔۔ 

بس کردیں HD بھاٸ اسکو نظر لگانے کا ارادہ ہے کیا۔۔؟؟ بنی سنوری عالیہ نے اسکے پاس آکر کہا۔۔ 

اللہ نے کرے۔۔ ویسے بھی پیار کرنے والوں کی نظر نہیں لگتی۔۔ حمزہ نے پیار سے کہا۔۔ 

پیار کرنے والوں کی نظر سب سے زیادہ لگتی ہے۔۔ عالیہ نے کہا۔۔ویسے وہ کچھ پریشان نظر آرہی ہے۔۔ جا کر پوچھ لیں۔۔۔ پھر وہ اسکے پاس آیا تھا۔۔

بلیک اور مہرون ڈنر سوٹ میں اسکی شخصیت پورے میرج ہال میں چھاٸ ہوٸ تھی۔۔

 حورعین نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔۔ پتا نہیں یہ سارا حسن آغا ہاٶس میں کیوں بھرا ہے۔۔ حورعین نے سب کو دیکھنے کے بعد سوچا تھا۔۔ حمزہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔ 

جی وہ میں اسد کا انتظار کر رہی ہوں۔۔ حورعین نے کہا۔۔ 

کیوں خیریت۔۔ میرا مطلب سب ٹھیک تو ہے نا۔۔؟؟ 

جی۔۔ وہ حرم اور شزا پالر میں ہیں۔۔۔ انہیں لینے جانا تھا۔۔ تھوڑی دیر بعد نکاح شروع کیا جاۓ گا۔۔ ویسے بھی موسم اتنا خراب ہو رہا ہے شاید بارش آجاۓ۔۔ اسد پتا نہیں گاڑی لے کر کہاں چلا گیا ہے۔۔حورعین نے پریشانی سے کہا۔۔ 

اووو۔۔ اگر آپ برا نا مانیں تو ہم چلیں انہیں لینے۔۔ میرے پاس گاڑی ہے۔۔ حمزہ نے ڈرتے ڈرتے پوچھ ہی لیا۔۔ وہ سب کی بولتی بند کرنے والا اسکے سامنے کتنا سوچ سمجھ کر بولتا تھا۔۔ 

ٹھیک ہے چلیں۔۔ حورعین نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔۔ 

اور پھر وہ دونوں پارکنگ ایریا کی طرف بڑھ گۓ۔۔ 

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ اندر آ سکتے ہیں۔۔ پارلر پہنچنے کے بعد حورعین نے گاڑی سے اترتے ہوۓ کہا۔۔اور اسد کچھ سوچتا ہوا اسکے ساتھ اندر آگیا۔۔ 

 اور جب اسد نے حرم کو دیکھا تو اسکے ہونٹ اووو کے انداز میں سکڑے تھے۔۔ وہ پہلی بار براۓراست حرم کو دیکھ رہا تھا۔۔ وہ براٸیڈل ڈریس میں بالکل تیار۔۔وہ صوفے سے ٹیک لگاۓ آنکھیں بند کیۓ بیٹھی تھی۔۔یہ کونسی دنیا کی پری ہے۔۔ وہ سوچ رہا تھا۔۔

اسلام علیکم۔۔ حمزہ کے سلام کہنے پر حرم نے آنکھیں کھولی تھیں۔۔ 

سبحان اللہ۔۔ حمزہ نے دل میں ہی کہا۔۔ 

ہاۓ۔۔۔فرہاد آغا تو گیا۔۔ فرہاد آغا آج تمہارے فنا ہونے کی باری ہے۔۔ حمزہ دل ہی دل میں مسکرادیا۔۔

حرم حمزہ کے بارے میں سن چکی تھی۔۔ وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گٸ۔۔ 

کیسی ہیں آپ۔۔ ؟؟ حمزہ نے اسکے سامنے بیٹھتے ہوۓ پوچھا۔۔

ٹھیک ہوں۔۔ اللہ کا شکر ہے۔۔ حرم نے مسکرا کر جواب دیا۔ 

اففف ایک تو آپ اتنی چھوٹی ہیں۔۔ مجھے سمجھ ہی نہیں آرہا میں آپکو کیا بلاٶں۔۔؟؟ حمزہ نے کہا۔۔ 
حرم مسکراٸ۔۔ 

میں 23 سال کا ہوں۔۔ فرہاد ساڑھے چوبیس سال کا ہے۔۔ پچیس کا ہونے والا ہے۔۔۔ اور ایک آپ ہیں صرف اور صرف ساڑھے انیس کی۔۔ یعنی کہ عالیہ کی عم عمر۔۔ اب آپ بتاٸیں آپ مجھ سے بھی چھوٹی ہیں۔۔ آپکا نام لوں۔۔ یا بھابھی بلاٶں آپکو۔۔؟؟ حمزہ نے پوچھا۔۔ 

جو آپکا دل کرتا ہے آپ بلا لیں۔۔ کوٸ پابندی نہیں۔۔ حرم نے کہا۔۔ 

اوکے تو ہاتھ ملاٸیں۔۔ میں ہوں آپکا کیوٹ، انوسینٹ، ڈیشنگ اینڈ سویٹ سا دیور حمزہ داٶد۔۔ عرف۔۔ HD۔۔۔ حمزہ نے ہاتھ آگے بڑھایا۔۔ 

اور میں ہوں حرم نور۔۔ حرم نے مسکراتے ہوۓ ہاتھ ملایا۔۔ 

آج سے تو آپ مسز آغا بن جاٸیں گی۔۔ تو ہماری فرینڈسپ پکی ہوٸ۔۔ حمزہ نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔ 

جی بالکل۔۔ حرم مسکراٸ۔۔ شزا اور حورعین دونوں کی باتیں سن کر ہنس رہی تھیں۔۔ 

شزا بات سنو۔۔حورعین نے باہر جاتے ہوۓ اسے بلایا۔۔ شاید کوٸ ضروری کام تھا۔۔ 

انکے جانے کے بعد حمزہ کے موبائل پر رنگ ہوٸ۔۔ وہ ایکسیوز کرتا ہوا باہر چلا گیا۔۔ 

حرم اتنے بھاری بھرکم لباس میں تھک چکی تھی۔۔ اس نے پھر صوفے سے ٹیک لگا لیا۔۔ 

کچھ دیر بعد حرم کے سامنے رکھے ہوۓ ٹیبل پر اسکے موبائل پر بھی بیل ہوٸ تھی۔۔ اس نے اٹھ کر فون اٹھایا اور بنا نمبر دیکھے کال ریسیو کی۔۔ 

ہیلو۔۔ خالص انگلش انداز میں ہیلو کیا گیا تھا۔۔ 

ہیلو۔۔ اسلام علیکم۔۔ حرم نے سلام کیا۔۔ لیکن دوسری طرف سے بس ہیلو ہیلو کی آوازیں آرہی تھیں۔۔ اور کچھ شور بھی ہو رہا تھا۔۔ 

شاید موسم خراب ہونے کی وجہ سے حرم کی آواز فون کرنے والے کو سنائی نہیں دے رہی تھی۔۔ 

وہ مسلسل ہیلو ہیلو کر رہا تھا۔۔ اور کبھی اپنے پاس موجود لوگوں کی باتوں کا جواب دے رہا تھا۔۔۔ کوٸ لڑکا تھا شاید۔

اوو کم آن ریم۔۔ جلدی کرو۔۔ ہم آلریڈی لیٹ ہو چکے ہیں۔۔۔ شاید کسی لڑکی نے کہا تھا۔۔ اور پھر فون ٹوں ٹوں کر کے بند ہو گیا۔۔ 

حرم نے اچنبھے سے فون کو دیکھا تھا۔۔ اور پھر اس نے نمبر چیک کیا تو حیران رہ گٸ۔۔ وہ پاکستان کا نمبر نہیں تھا۔۔

 شاید رونگ نمبر تھا۔۔ حرم نے سوچا اور موبائل واپس رکھنے ہی والی تھی کہ اچانک موبائل پر بپ ہوٸ۔۔ میسج آیا تھا کسی کا۔۔ حرم نے ان باکس دیکھا اور پھر نمبر دیکھ کر اسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گٸ تھیں۔۔ 

وہ دنیا کو ہر لفظ بھول سکتی تھی۔۔ اپنا نام بھول سکتی تھی۔۔۔ ہر ہندسہ بھول سکتی تھی۔۔ مگر۔۔۔ ہاں مگر۔۔ وہ 11 ہندسوں پر مشتمل وہ نمبر مر کر بھی نہیں بھول سکتی تھی۔۔ 

اسکے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ میسج آن کیا۔۔ 

”ایک نٸ زندگی مبارک ہو حرم۔۔ خدا پاک سے دعا ہے کہ وہ دنیا کی ہر خوشی آپکے قدموں میں ڈال دے۔۔ فرہاد آغا آپکو اتنا خوش رکھے کہ اسکا علاوہ آپ سب کچھ بھول جاٶ۔۔ میری دعاٸیں ہمیشہ آپکے ساتھ ہیں۔۔ شادی بہت بہت مبارک ہو۔۔“

وہ کپکپاتے ہونٹوں سے میسج پڑھ رہی تھی۔۔ درد کی ایک لہر اسکے دل سے اٹھی تھی۔۔اور پھر ہر جگہ پھیل گٸ۔۔ 

جاری ہے۔۔۔۔۔۔

      ❤❤❤❤❤❤

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─