┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 21
پارٹ 2

یہ کیا ہو گیا تھا۔۔ آخر یہ کیوں ہوا تھا۔۔ کیسی اذیت تھی جو حرم کے رگ رگ میں اتر گٸ تھی۔۔ 

وہ جو کہتی تھی کہ وہ سب بھول چکی ہے۔۔ آج اسے احساس ہوا تھا وہ تو کچھ بھی نہیں بھولی تھی۔۔ آج پھر وہ وہیں کھڑی تھی۔۔ اسے اتنا بڑا شاک لگا تھا کہ دماغ سن ہو کر رہ گیا تھا۔۔ 

کچھ دیر بعد شزا اور حورعین اندر آٸیں تھیں۔۔ وہ اسے ہاتھ سے پکڑ کر اٹھا کر گاڑی تک لے آٸیں تھیں۔۔ موسم خراب ہوچکا تھا۔۔ تیز ہوائیں چل رہی تھیں۔۔ حمزہ کچھ کہہ رہا تھا۔۔ مگر وہ کب سن رہی تھی۔۔ سماعت جواب دے گٸ تھی۔۔ 

کچھ دہر بعد وہ لوگ ہال میں پہنچ چکے تھے۔۔ اسے ایک الگ کمرے میں بٹھا دیا گیا تھا۔۔ سب سے پہلے عالیہ آٸ تھی اسے دیکھنے اور پھر وہ اسکے گھٹنے پکڑ کر نیچے زمین پر اسکے سامنے بیٹھ گٸ تھی۔۔ 

افففف۔۔ ہاۓ میرا بھاٸ۔۔ عالیہ نے کہا۔۔آج وہ نہیں بچے گا۔۔ 

اچانک حرم چونکی تھی۔۔ وہ تب سے کیا سوچے جا رہی ہے۔۔ اسکی شادی تھی۔۔ وہ یہ بھول چکی تھی۔۔ وہ بسس حیران نظروں سے سب کو دیکھ رہی تھی۔۔ 

باری باری سب اسے ملنے آۓ تھی۔۔ حرم کی امی اور ساجدہ آنٹی نے خوب پیار کیا تھا اسے۔۔ 

اور حرم نے سر کو پکڑ لیا۔۔ دردکی ایک لہر اسکے دماغ سے اٹھی تھی۔۔

کیا ہوا حرم۔۔ امی نے پوچھا۔۔ 

کچھ نہیں میرے سر میں بہت درد ہے۔۔ حرم نے کہا۔۔ 
اور صابرہ خاتون نے دیکھا تھا کہ حرم کی آنکھیں سرخ ہو رہیں ہیں۔۔ 

پریشان مت ہو حرم۔۔ سکون سے رہو۔۔ دماغ پر زیادہ بوجھ مت ڈالو۔۔ یہ لمحے ہوتے ہی کچھ ایسے ہیں۔۔ انہیں لگ رہا تھا کہ شاید حرم کے زہن پر شادی کا دباؤ ہے۔۔

تب ہی اچانک نکاح کیلیۓ مولوی صاحب اندر تشریف لاۓ تھے۔۔ اور حرم کا دل گبھرا رہا تھا۔۔ اتنی جلدی سب کچھ۔۔ میں فرہاد آغا کی ہونے جا رہی ہوں۔۔ مطلب کسی اور کو سوچنے کا بھی حق چھن رہا ہے مجھ سے۔۔ وہ سوچے جا رہی تھی۔۔ کیا ہو رہا ہے اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔ 

پھر اس نے ڈھرکتے دل اور کانپتے ہاتهوں کے ساتھ نکاح کے پیپرز پر ساٸن کیے تھے۔۔ اور اسکے ساتھ ہی اسکے اندر سے کچھ ختم ہوا۔۔ وہ آنکھیں بند کر گٸ۔۔ 

اسے تنگ مت کریں اسکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔ ثانی آپی نے حرم کی طرف دیکھتے ہوۓ سب سے کہا۔۔ 

اور فرہاد۔۔ اس کیلیۓ یہ سب نیا تو نہیں تھا۔۔ یہ سب پہلے بھی تو ہوا تھا۔۔ وہ کسی روبوٹ کی طرح ہنستے ہوۓ سب کیۓ جا رہا تھا۔۔ نکاح کے بعد سب سے گلے بھی ملا۔۔ آغا جی سے لے کر حمزہ تک۔۔ سب نے صدق دل سے اسکی خوشیوں کی دعا کی تھی۔۔ 

         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

سب میری طرف متوجہ ہوں۔۔ آج کے اس خوشی کے موقع پر ایک اور خوشی میں آپ لوگوں کے ساتھ بانٹنا چاہتا ہوں۔۔ آفاق تایا نے سٹیج پر کھڑے ہو کر سب کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے بعد کہا۔۔

سب حیران تھے۔۔ کہ کیا سرپراٸز ہوگا۔۔ اور حورعین کی دھڑکنوں نے شور پکڑا۔۔ 

تو خوشی یہ ہے کہ میں اپنے بیٹے اسدآفاق کی منگنی اپنی پیاری بھتیجی حورعین سے کرنے جا رہا ہوں۔۔ 

ایک دھماکہ ہوا تھا۔۔ سب حیران ہوۓ اور پھر وہ حیرانی خوشی میں بدل گٸ۔۔ آخر اسد کی ضد کے آگے تایا اور تاٸ ہار مان گۓ تھے۔۔ 

اور حمزہ کو وہ کوٸ ڈراٶنہ خواب لگ رہا تھا۔۔ اس نے اسد اور حورعین کی طرف دیکھا تھا۔۔ دونوں کے چہروں پر ایک سی مسکراہٹ تھی۔۔ وہ جہاں کھڑا تھا کھڑا رہ گیا۔۔ البتہ اس بات نے زمین اسکے پاٶں کے نیچے سے کھینچ لی تھی۔۔ 

آج کل کا ماڈرن دور ہے۔۔ تو میں اپنے دونوں بچوں کو سٹیج پر بلانا چاہوں گا۔۔ تاکہ اسد حورعین کو رنگ پہنا سکے۔۔ اپنے ہاتھوں سے۔۔ 

وہ دونوں سٹیج کی طرف بڑھے۔۔ 

نہیں۔۔ نہیں۔۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔ حورعین کسی اور کو کیسے۔۔ ؟؟ ساری دنیا کی خبر رکھنے والا HD حورعین کے دل کی بات کو کیسے نا جان سکا۔۔ کیوں اس نے یہ بات نہیں سوچی کہ وہ کسی اور کو بھی چاہ سکتی ہے۔۔ 

اسد اور حورعین سٹیج کی طرف بڑھ رہے تھے۔۔ اور حمزہ الٹوں قدموں سے دروازے کی طرف جا رہا تھا۔۔ مگر نظریں ابھی بھی دونوں پر جمی تھیں۔۔ اب وہ دونوں ایک ساتھ کھڑے تھے۔۔ اسد کچھ کہہ رہا تھا اور حورعین سر جھکاۓ ہنس رہی تھی۔۔ 

سب کچھ مکمل تھا۔۔ حمزہ کو لگا وہ وہاں ایک اضافی پیس ہے۔۔ پھر اسکی آنکھیں دھندلانے لگیں۔۔آنکھوں کے نمکین پانی نے ہر منظر دھندلا کر دیا۔۔ 

اسد نے رنگ نکال کر حورعین کا ہاتھ تھاما تھا۔۔ اور بسس۔۔ حمزہ میں اور کچھ دیکھنے کی سکت نہیں تھی۔۔ وہ ایک جھٹکے سے مڑا اور تیز تیز قدم اٹھاتا چلا گیا۔۔۔

 عالیہ نے پورا منظر افسردہ نگاہوں سے دیکھا تھا۔۔  

سب نے تالیاں بجاٸ تھیں۔۔ سب خوش تھے۔۔ سوائے نفیسہ تاٸ کے۔۔ جو زبردستی شادی میں لاٸ گٸ تھی۔۔ 

باہر بادلوں کے گرجنے نے تیز آواز پکڑی تھی۔۔ اور آغا جی نے کہا تھا کہ اب رخصتی کردی جاۓ۔۔ رات کے 8 بج چکے تھے۔۔ بارش بھی شروع ہونے والی تھی۔۔ 

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور اتنے تکلیف دہ پل حرم کیلیۓ کبھی نہیں آۓ۔۔ وہ جس کا اپنے گھر کے علاوہ کہیں اور دل نہیں لگتا تھا۔۔۔ وہ جس کی اپنی امی میں جان بستی تھی۔۔ وہ جب گھر نا ہوتی تو حرم سے کھانا نہیں کھایا جاتا تھا۔۔ آج وہ انہیں چھوڑ کر جا رہی تھی۔۔ حرم کو لگ رہا تھا کہ اسکا دل پھٹ جاۓ گا۔۔ آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔ چھوٹی جیا جب سے وہ پارلر سے آٸ تھی اس سے چپکے بیٹھی تھی۔۔ اور اب اسے پکڑا ہوا تھا۔۔ آپی آپ نہیں جاٸیں گی۔۔ 

ہر آنکھ نم تھی۔۔ جیا، حورعین، شزا، ثناء، ثانی آپی، ساجدہ آنٹی اور صابرہ خاتون سب اس سے لپٹ لپٹ کے روۓ تھے۔۔ 

بس کر جاٸیں آپ لوگ پلیز۔۔ زیادہ دور تو نہیں جارہی حرم۔۔ یہ آپ لوگوں کی ہی بیٹی ہے۔۔ اگر آپ لوگ اسطرح ری ایکٹ کریں گے تو وہ کیسے خود کو سنبھالے گی۔۔ نتاشہ بھابھی نے انہیں الگ کرتے ہوۓ کہا۔۔ 

اور پھر دس مبٹ بعد اسے قرآن پاک کے ساۓ میں ڈھیروں ڈھیر دعاٶں کے ساتھ رخصت کر دیا گیا۔۔ 

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمزہ کہاں ہے۔۔ سب پوچھ رہے تھے مگر وہ کہیں نظر نہیں آیا۔۔ بارات واپس ڈاکٹر سمیع کے گھر آچکی تھی۔۔بارش ہو رہی تھی۔۔ وہ لوگ حرم کو اندر لے کر آۓ تھے۔۔ بڑی سی شال جو سردی ہونے کی وجہ سے اسکے گرد لپیٹ رکھی تھی فاریہ بھابھی نے وہ اتاری۔۔ زیبا بیگم نے تیل کی رسم کی۔۔

ارے بہو کی نظر اتارو اسکا صدقہ دو جلدی۔۔ دادو نے آتے ہی رولا ڈال دیا۔۔ 

فرہاد ابھی اندر بھی نہیں گیا تھا کہ اسکے موبائل پر بیل ہوٸ۔۔ نمبر اجنبی تھا۔۔ فرہاد نے کال اٹینڈ کی۔۔ 

شہرین بات کر رہی ہوں۔۔اگر آپ دس منٹ کے اندر اس جگہ پر نا پہنچے تو میں یہاں سے نیچے کود کر جان دے دونگی۔۔

فون بند ہوچکا تھا۔۔ فرہاد حیران رہ گیا۔۔ 

اپنا واٹس اپ چیک کریں اگر یقین نہیں آتا تو ویڈیو دیکھ لیں۔۔ شہرین کا میسج آیا تھا۔۔ 

اور فرہاد نے ویڈیو دیکھی وہ شہرین ہی تھی۔۔ فرہاد نے اسکی تصویر دیکھی تھی۔۔ وہ شادی پر بھی نہیں آٸی تھی۔۔ 

وہ اندر نہیں گیا۔۔ بلکہ بارش میں واپس گاڑی میں بیٹھا اور زن سے گاڑی بھگا کر لے گیا۔۔ 

عالیہ جو اسے بلانے آٸ تھی۔۔ حیرانگی سے اسے جاتا دیکھ رہی تھی۔۔ 

یہ ہو کیا رہا ہے۔۔؟ وہ حیران ہوٸ۔

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”سنو،،،
   بہت آساں نہیں ہوتا۔۔۔ 
   اسی کو بےوفا کہنا۔۔ 
  کہ۔۔ جسکے ساتھ چلنے کے
  ہزاروں خواب دیکھے ہوں۔۔ 
 کہ۔۔۔
جس کو ٹوٹ کر چاہو۔۔ 
  اسے دل سے بھلا دینا۔۔

سنو۔۔،،،
        بہت آساں نہیں ہوتا۔۔ 
    محبت میں یونہی رستہ 
   بدل لینا۔۔۔“

بارش ایک متواتر سے ہو رہی تھی۔۔ حمزہ اپنی گاڑی کو ایک سنسان جگہ پر لے گیا تھا۔۔ اب وہ بارش میں گاڑی سے باہر ٹاٸر کے ساتھ ٹیک لگاۓ بیٹھا تھا۔۔ 

جو آگ اسکے اندر لگی تھی اس نے محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ کتنی ٹھنڈ پڑ رہی ہے۔۔ اندر سے دل رو رہا تھا۔۔ اور باہر بارش میں اس کے آنسوں جزب ہو رہے تھے۔۔ 

اسے کچھ ہوش نہیں تھا۔۔۔ پچھلے ایک گھنٹے سے وہ اسی پوزیشن میں بیٹھا تھا۔۔ جو ہوا وہ ناقابل یقین تھا اسکے لیۓ۔۔ 

کتنا مشکل ہوتا ہے نا جسکو اتنا چاہا ہو۔۔ اسے کسی اور کا ہوتے دیکھنا۔۔ تکلیف کی انتہا ہو جاتی ہے جب آپکا محبوب کسی اور کو میسر ہو۔۔ 

پہلا پیار تھا۔۔ درد کچھ زیادہ ہی ہو رہا تھا۔۔ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا۔۔ وہ تو خوش ہے۔۔ پر درد مجھے کیوں ہورہا ہے۔۔ وہ خود سے سوال کر رہا تھا۔۔ 

اگر اسے کوٸ اس وقت اس حالت میں دیکھ لیتا تو حیران رہ جاتا۔۔ کوٸ پہچانتا ہی نا اسکو۔۔ کہ یہ وہی HD ہے۔۔ جسکے آگے ایک دنیا جھکتی ہے۔۔ 

بار بار حورعین اور اسد کے مسکراتے ہوۓ چہرے اسکی آنکھوں میں گھوم رہے تھے۔۔ بہت سا شور بہت سے شوخ جملے۔۔ 

نہیں۔۔ پلیز نہیں۔۔ میں تکلیف برادشت نہیں کر سکتا۔۔ حمزہ نے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو پکڑا تھا۔۔ 

شاید آج بارش نے بھی بند ہونے سے انکار کر دیا تھا۔۔ جانے اور کتنا ٹائم حمزہ کے ساتھ اسکے درد میں شریک ہونا تھا۔۔ اور کون جانے وہ کتنا ٹائم وہاں بیٹھے رہنے والا تھا۔۔ 

”سوچا تھا اس سے بچھڑیں گے تو مر جاٸیں گے۔۔ 
جان لیوا خوف تھا۔۔ ہوا کچھ بھی نہیں۔۔ اور رہا کچھ بھی نہیں۔۔ “

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو اسد۔۔ فرہاد آغا بات کر رہا ہوں۔۔ فرہاد نے گاڑی چلاتے ہوۓ اسد کو فون کیا۔۔ بارش کی وجہ سے وہ ریش ڈرائيونگ نہیں کر پارہا تھا۔۔  

اسد حیران ہوا کہ فرہاد آغا کا فون۔۔ وہ اس ٹائم۔۔ 
پلیز جلدی اس جگہ پر پہنچو۔۔۔ فرہاد نے اسے جگہ بتاٸ اور فون بند کردیا۔۔ 

کچھ دیر بعد وہ شہرین کی بتائی ہوٸ جگہ پر پہنچ چکا تھا۔۔ وہ آرام سے بیٹھی تھی۔۔اور اسی کا انتظار کر رہی تھی۔۔ 

کیا بدتمیزی ہے یہ۔۔ شہرین کو دیکھ کر فرہاد کا خون خول اٹھا۔۔ 

اور جو آپ نے کیا میرے ساتھ وہ کیا تھا۔۔؟ شہرین نے بھی غصے سے پوچھا۔۔ 

وہ سب ایک غلط فہمی کی وجہ سے ہوا تھا۔۔ اس میں میری کوٸ غلطی نہیں۔۔ فرہاد نے کہا۔

اچھا۔۔۔ آپکی نہیں لیکن حرم کی تو غلطی ہے نا۔۔ اس نے مجھ سے آپکو چھینا۔۔ آج اسکی جگہ میں آپکی بیوی ہوتی۔۔

تم جیسی گھٹیا لڑکی کو میں ایک نظر دیکھنا بھی پسند نا کروں۔۔ فرہاد نے نفرت سے کہا۔۔ 

پر آپکو دیکھنا پڑے گا فرہاد آغا۔۔میں آپکو چاہتی ہوں۔۔اور اگر آپ نے ابھی مجھ سے نکاح نہیں کیا تو میں سوساٸیڈ کرلوں گی۔۔ اور اسکی ذمہ دار وہ حرم ہوگی۔۔ کیونکہ میں ریکارڈ کر چکی ہوں کہ اگر مجھے کچھ ہوا یا میری موت ہوگٸ۔۔ تو سب حرم کی وجہ سے ہوا۔۔  

اٹس انف۔۔ فرہاد غرایا۔۔ 
اسد۔۔۔ فرہاد نے کہا اور پھر اسد سامنے آیا۔۔ 

وہ بھی غصے سے بھرا ہوا۔۔ اسد کو دیکھ کر شہرین حیران رہ گٸ تھی۔۔ 

چٹاخ۔۔ اسد نے آگے بڑھتے ہوۓ ایک زوردار تپھڑ شہرین کے منہ پر مارا۔۔ اور موبائل اسکے ہاتھ سے چھین کر بلڈنگ سے نیچے پھینک دیا۔۔ جتنی اونچاٸ وہ گرا تھا۔۔ یقیناً اسکا۔چورا ہوچکا ہوگا۔

شرم نہیں آتی تمہیں شہرین۔۔ اسد نے غصے سے کہا۔۔تمہیں میں کرواتا ہوں سو ساٸیڈ۔۔ بابا جان کی عزت کا خیال نہیں آیا تمہیں۔۔وہ تو شکر ہے انہوں نے مجھے فون کردیا اگر پولیس کو بتا دیتے تو۔۔

ریلیکس اسد۔۔ فرہاد نے آگے بڑھ کر اسکے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔۔ 

یہ نادان ہے۔۔ اسکو پیار سے سمجھاٶ کہ نیکسٹ ایسی کوٸ حرکت نا کرے۔۔ فرہادنے کہا۔۔ 

سوری فرہاد بھاٸ۔۔ آپ جاٸیں اب دس بج چکے ہیں۔۔ اتنی رات ہو چکی ہے سب آپکا انتظار کر رہے ہونگے۔۔ اسد نے معذرت کرتے ہوۓ کہا۔۔ اسکو میں خود دیکھ لونگا۔۔ اسد نے کہا۔۔ 

اور فرہاد نے واپسی کیلیۓ قدم بڑھا دیے۔۔ 

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمزہ گھر واپس آیا تو سب لاٶنج بیٹھے تھے۔۔ عجیب سی خاموشی چھاٸ تھی۔۔ وہ سب کو یوں بیٹھا دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔۔ اسکا خیال تھا کہ اتنی رات ہو چکی ہے۔۔ سب سونے چلے گۓ ہونگے۔۔ 

کہاں تھے تم۔۔ ڈاکٹر سمیع نے اسکے بھیگے کپڑوں کو دیکھتے ہوۓ غصے سے پوچھا۔۔ 

وہ میں راستہ بھول گیا تھا۔۔ غلطی سے کسی اور رستے پر چل پڑا تھا۔۔ لیکن بڑی دیر بعد پتا چلا کہ وہ میرا رستہ نہیں ہے۔۔ اب واپس آگیا ہوں۔۔ حمزہ نے کہا۔۔ 

عالیہ اسکی بات کا مطلب سمجھ چکی تھی۔۔وہ کسی ہارے ہوۓ جواری کی طرح لگ رہا تھا۔۔ وہ پہلے والا حمزہ تو کہیں سے نہیں لگ رہا تھا۔۔ 

اور فرہاد کہاں ہے۔۔ آغا جی نے پوچھا اور حمزہ چونکا۔۔ 

کیا مطلب۔۔۔ فرہاد گھر نہیں ہے کیا۔۔ وہ حیران ہوا۔۔ 

لو کرلو بات۔۔۔ دونوں حد سے زیادہ لاپرواہ ہیں۔۔ دادو کو غصہ آیا۔۔

تبھی پورچ میں ایک اور گاڑی رکنے کی آواز آٸ تھی۔۔ تھوڑی دیر بعد فرہاد آغا اندر آیا۔۔ 

لو دوسرا شہزادہ بھی آگیا۔۔ سجاد بھاٸ نے کہا۔۔ 

اب تم کہاں تھے۔۔ ڈاکٹر سمیع نے غصے سے پوچھا۔۔ 

وہ بھی بھیگا ہوا تھا۔۔ 

کہیں نہیں ایک ضروری کا تھا۔۔ وہی کرنے گیا تھا۔۔ فرہاد نے جواب دیا۔۔۔ 

نا ایسا کونسا کام تھاجو آج رات ہی کرنا ضروری تھا۔۔ آغا جی کو بھی غصہ آیا ہوا تھا۔۔ 

سوری۔۔ فرہاد نے کہا۔۔ وہ دونوں مجرموں کی طرح سر جھکاۓ کھڑے تھے۔۔ 

اچھا اب آپ لوگ بس کر جاٸیں۔۔ جاٶ حمزہ تم چینج کرلو اتنی ٹھنڈ پڑھ رہی ہے تم سارے بھیگے ہوۓ ہو۔۔ بیمار ہوجاٶ گے۔۔ نتاشہ بھابھی نے کہا اور وہ چپ کر کے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔ 

فرہاد ان سے ملو یہ ہیں میری بیسٹ فرینڈ ڈاکٹر عفت۔۔ فاریہ بھابھی نے صوفے پر بیٹھے ایک وجود کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔۔ 

اسلام عیلکم۔۔ فرہاد نے سلام کیا لیکن وہ سمجھا نہیں کہ اس وقت ڈاکٹر کا کیا کام۔۔ 

فرہاد آغا مجھے آپ سے اکیلے میں کچھ بات کرنی ہے۔۔ ڈاکٹر عفت نے کہا۔۔  

جی لیکن خیریت تو ہے نا۔۔ فرہاد نے پوچھا۔۔ 

ہاں وہ بس حرم کی طبیعت خراب ہو گٸ تھی۔۔ اسی سلسلے میں بات کرنی ہے۔۔ فاریہ بھابھی نے کہا۔۔ 

کیا کہا حرم کی طبیعت خراب۔۔ وہ حیران ہوا۔۔ اور پھر وہ پریشان سا ڈاکٹر عفت کے پیچھے ڈرائيونگ روم کی طرف بڑھ گیا۔۔ 
 
      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ہوا کچھ یوں تھا کہ جب فرہاد کو شہرین کی کال آٸ اور اسکے جانے کے بعد سب حرم کے پاس تھے۔۔ اسکی بند ہوتی سرخ آنکھوں کو دیکھ کر نتاشہ بھابھی نے ہوچھا تھا۔۔ 

حرم تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔۔ 

نہیں مجھے لگتا ہے میں ٹھیک نہیں ہوں۔۔ میرے سر میں بہت درد ہو رہا ہے۔۔ اور بہت ٹھنڈ بھی لگ رہی ہے۔۔ حرم نے کہا تھا۔۔ اور پھر سارے پریشان ہو گۓ۔۔ 

حمزہ اور فرہاد غائب تھے۔۔ ڈاکٹر سمیع بھی ہاسپٹل کا راٶنڈ لینے گۓ تھے۔۔ مجبوراً فاریہ بھابھی نے اپنی دوست ڈاکٹر عفت کو کال کی تھی۔۔ 

حرم کو چیک کرنے کے بعد وہ انکے اس ہی رک گٸیں تھی۔۔ تب سے فرہاد کا انتظار ہو رہا تھا۔ڈاکٹر عفت کو اس سے کوٸ ضروری بات کرنی تھے۔۔ 

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

بیٹھ جاٸیں۔۔ ڈاکٹر عفت نے بیٹھتے ہوۓ اپنے سامنے رکھے صوفے کی طرف فرہاد لو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔ 

جی ڈاکٹر صاحب سب خیریت تو ہے نا۔۔فرہاد بیٹھ چکا تھا۔۔

فرہاد آغا آپ مجھے یہ بتاٸیں کہ آپکی یہ شادی لو میرج ہے یا ارینج۔۔۔ انہوں نے پوچھا۔۔ 

ارینج بھی ہے اور حرم کو میں نے پسند کیا تھا۔۔ فرہاد نے کہا۔۔ الجھن اسکے چہرے سے صاف ظاہر تھی۔۔

کیا حرم پر کوٸ پریشر تھا۔۔ یا پھر اسے مجبور کیا گیا تھا اس شادی کیلیۓ۔۔ وہ پوچھ رہیں تھیں۔۔ 

نہیں ایسی تو کوٸ بات نہیں ہے۔۔ میں نے حرم سے پوچھا تھا وہ خوش تھی۔۔ 

تو پھر ایسی کونسی بات تھی جسکی وجہ سے اسکا بلڈ پریشر اتنا ہاٸ ہوا۔۔ 

کیا۔۔ بی پی ہاٸ۔۔فرہاد چونکا۔۔ 

جی انیس سے بیس سال کی عمر میں 180 پلس بی پی ہونا کوٸ اچھی بات نہیں ہے۔۔ 

اور فرہاد حیران رہ گیا۔۔ 
جی وہ بہت زیادہ سٹریس میں ہے۔۔ اور کسی شاک کے زیرِ اثر بھی۔۔ 

لیکن اسے ایسا کونسا سٹریس تھا۔۔ فرہاد نے پریشانی سے پوچھا۔۔ 

کچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔ شادی کا بھی ہو سکتا ہے۔۔ مجھے پتا چلا ہے کہ آپکی شادی بہت جلدی میں ہوٸ ہے۔۔

جی۔۔ یہ تو سچ ہے۔۔فرہاد نے جواب دیا۔۔

 ویل آپکو بہت زیادہ احتياط کرنی پڑے گی۔۔ آپ خود ڈاکٹر ہیں۔۔ اتنا بی پی ہاٸ ہونا حرم کیلیۓ کتنا خطرناک ہو سکتا ہے یہ آپ خود جانتے ہیں۔۔ اور ویک نیس بھی بہت ہے اس میں۔۔آپ اسکو ایزی فیل کروائیں۔۔ ہسبنڈ کم فرینڈ بننے کی کوشش کریں۔۔ پرسکون رکھیں اسکو۔۔ 

جی بہتر۔۔ میں اپنی پوری کوشش کرونگا۔۔ فرہاد نے کہا۔۔ 

ویسے آپکی واٸف بہت انوسینٹ سی ہیں۔۔ شادی مبارک ہو بہت بہت۔۔ ڈاکٹر عفت نے اور کچھ ہدایات کرنے کے بعد کہا۔۔۔
پتا نہیں یہ کیسی شادی تھی۔۔ 

تھینک یو۔۔ فرہاد نے مسکراتے ہوۓ کہا اس نے تو ابھی تک حرم کو دیکھا ہی نہیں تھا۔۔ اور پھر وہ ڈرائينگ روم سے باہر نکل آیا۔۔ 

جاٶ اب اپنے کمرے میں۔۔ اور کسی چیز کی ضرورت ہو تو ہمیں بتا دینا۔۔ نتاشہ اور فاریہ بھابھی نے اسے دیکھتے ہوۓ کہا۔۔ 

اور وہ چپ چاپ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔ صبح سے اب تک اتنا کچھ ہو چکا تھا کہ اسکا خود کا دماغ کام نہیں کر رہا تھا۔۔ کمرے کے پاس پہنچنے کے بعد اس نے اپنی بھیگی ہوٸ شیروانی اتاری جو ابھی تک پہنے ہوۓ تھی۔۔ پھر وہ کمرے میں داخل ہو گیا۔۔ 

کمرے میں اندھیرا تھا۔۔ فرہاد نے لاٸیٹ آن کی۔۔ اور پھر اسکی نظر بیڈ پر پڑے وجود پر پڑی۔۔

کیسا لمحہ تھا وہ۔۔ قیامت خیز۔۔ اسے ڈرپ لگی تھی۔۔ قطرہ قطرہ زندگی حرم کے اندر اتر رہی تھی۔۔ وہ وہ سکون آور دوائيوں کے زیرِ اثر سوٸ پڑی تھی۔۔ فرہاد کی نظریں اسے دیکھ کر پلٹنا بھول گٸ تھیں۔۔ ہاتھ میں پکڑی شیروانی کب سےہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر چکی تھی۔۔ اور وہ بت بنا کھڑا تھا۔۔۔۔ 

جاری ہے۔۔۔۔۔۔


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─

        ❤❤❤❤❤