┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 22
پارٹ 1

ہزاروں لمحے خاموشی کی نظر ہوۓ تھے۔۔ ہر طرف خاموشی چھاٸ تھی۔۔ اور فرہادآغا کی نظریں سکون سے سوٸ حرم پر جمی تھیں۔۔ ایسا نہیں تھا کہ خوبصورت لڑکيوں کی اسے کمی تھی یا اس نے ماڈرن اور خوبصورت لڑکیوں کو دیکھا نہیں تھا۔۔ ہر ایک لڑکی خوبصورت ہوتی ہے یہ اسکا ماننا تھا۔۔ مگر۔۔ ہاں مگر۔۔ 

اس نے آج تک اتنی خوبصورت دلہن نہیں دیکھی تھی۔۔ جانے ایسا کیا تھا اسکے معصوم چہرے میں۔۔ وہ سب کچھ ہار بیٹھا تھا۔۔ اسے تو دعوی تھا کہ محبت نہیں ہے اسے۔۔ لیکن اس پل کیا ہوا تھا۔۔ 

”وادیِ #ناران_کاغان میں موجود جھیل #سیف_الملوک پر پریوں کی شہزادی #رشہ ایک شان سے اتری۔۔ اس نے اپنے #نورانی_ملکوتی پر پھیلاۓ۔۔ جن سے دودھیا روشنی نکل کر #صفہ_قرطاس کے سفید پنوّں میں ڈھل گٸ۔۔ رات کی سیاہی نے ستاروں سے چمک لے کر روشناٸ کا کام کیا۔۔ اور پھر چاندنی رات میں۔۔ برستی بارش کے دوران۔۔ #صفحہ_قرطاس پر ایک لفظ لکھا گیا تھا۔۔ ہاں ایک لفظ۔۔ 
        #محبت۔۔۔ 

محبت۔۔ محبت۔۔ محبت۔۔ ہر طرف سے ہواٶں نے صداٸیں لگائيں۔۔ وقت نے اپنی رفتار آہستہ کرلی۔۔ اور محبت کسی وحی کی طرح #فرہاد_آغا پر وارد ہوٸ۔۔۔ اور تقدیر محبت کے اس حادثے پر خوبصورتی سے مسکراٸ۔۔“

اچانک ہوا چلنے کے باعث کمرے کی کھڑکی کا ایک پٹ کھل گیا۔۔ اور فرہاد کسی طلسم سے باہر آیا جسکے وہ زیراثر تھا۔۔ 

اس نے چونک کر دیکھااور پھر اپنی شیروانی اٹھاٸ۔۔ اسکے اندر پتا نہیں کیا ہو رہا تھا۔۔ پہلی بار جب ڈاکٹر سمیع کے ہاسپٹل میں حرم اس سے ٹکراٸ تھی۔۔۔ تب بھی اسکا دل گھبرایا تھا۔۔ لیکن آج تو وہ گبھرانے کے ساتھ ساتھ۔۔ اتنی تیزی سے دھڑک رہا تھا کہ فرہاد کو آواز سناٸ دے رہی تھی۔۔ 

وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا ونڈو کے پاس آیا اور بند کیا۔۔۔ پھر وہ چلتا ہوا حرم کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ چکا تھا۔۔ ہیٹر آن ہونے کی وجہ سے کمرہ گرم تھا۔۔ اسے اس بات کا بھی احساس نہیں تھا کہ اسکے کپڑے بھیگے ہوۓ ہیں۔۔اس نے ساٸیڈ پر رکھے ٹیبل کے دراز سے سگریٹ نکالا اور اسے سلگایا۔۔ حرم کے چہرے کو دیکھتے دیکھتے وہ کہیں پیچھے چلا گیا۔۔ 

بس کرو روشنی اور کتنی شاپنگ کرو گی۔۔

مجھے دنیا کی سب سے خوبصورت دلہن بننا ہے۔۔ اتنی خوبصورت کہ فرہاد آغا دیکھے تو بس پتھر کا ہو جاۓ۔۔ پاگل ہو جاۓ۔۔ 

پاگل تو تم مجھے بنا چکی ہو۔۔ اب کیوں پتھر کا بنانا چاہتی ہو۔۔ 

ہاہاہا۔۔ بس تم دیکھتے جاٶ۔۔میں چاہتی ہوں کہ بس تم مجھے دیکھو۔۔ بس مجھے۔۔ مجھ سے تمہاری نظریں ایک پل کیلیۓ بھی نا ہٹیں۔۔ 

یار میں تمہارا ہوں۔۔ بس تمہارا۔۔ 

سییی کی آواز سے وہ چونکا۔۔ سگریٹ اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر گیا۔۔ وہ خیالوں سے باہر نکل آیا۔۔ 

بےشک وہ پاگل بنا تھا۔۔ لیکن ۔۔ ہاں لیکن۔۔ پتھر تو وہ آج ہوا تھا۔۔ یہ فیلنگز۔۔ یہ احساس۔۔ یہ تو آج ہوا تھا۔۔ پہلی بار۔۔ وہ جو کہتا تھا کہ محبت اسکی زندگی سے نکل چکی ہے۔۔ آج اسے پتا چلا تھا کہ محبت تو کبھی اسکی زندگی میں آٸ ہی نہیں۔۔ ہاں مگر۔۔ آج وہ کسی آسیب کی طرح نازل ہوٸ تھی۔۔ 

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمزہ اپنے کمرے میں آیا تھا۔۔ اسکا سر بھاری ہو رہا تھا۔۔ شدید ٹھنڈ بھی لگ رہی تھی۔۔ دل کا درد اتنا شدید تھا کہ اس نے جسم کی تکليف کو محسوس ہی نہیں ہونے دیا۔۔ اب اسے کچھ محسوس ہو رہا تھا۔۔ 

وہ ایسے ہی بیڈ پر گر گیا۔۔سر میں بہت درد ہو رہا تھا۔۔ کچھ دیر لیٹے رہنے کے بعد اس نے اٹھنا چاہا مگر بے سود۔۔ ایک چکر آیا اور وہ واپس گر گیا۔۔ اور پھر کچھ دیر بعد وو ہوش و ہواس سے بےگانہ جوتوں اور بھیگے کپڑوں سمیت بیڈ پر پڑا تھا۔۔ 

”کسی کی جان جاتی ہے۔۔
کسی کا کچھ نہیں جاتا۔۔“

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

کہتے ہیں نکاح کے دو بول میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ ایک اجنبی شخص جان سے عزیز لگنے لگتا ہے۔۔ کچھ ایسا ہی تھا۔۔ وہ بیڈ پر پڑا وجود فرہاد آغا کو اپنی ہر چیز سے عزیز لگ رہا تھا۔۔ 

اچانک وہ کچھ سوچتے ہوۓ صوفے سے اٹھا تھا۔۔ چلتے ہوۓ حرم کے پاس آیا اور ڈرپ کو چیک کرتے ہوۓ اسکی سپیڈ آہستہ کی۔۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اسے زرا سی بھی تکليف ہو۔۔ کمبل ٹھیک طرح سے اسکے اوپر اوڑھایا۔۔ ایک دل چاہا تھا کہ وہ اسے چھو کر دیکھے۔۔ آخر کو وہ اب پوری کی پوری اسکی تھی۔۔ لیکن نہیں۔۔ کچھ سوچتے ہوۓ وہ واپس چلا گیا اور صوفے پر بیٹھ گیا۔۔ 

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اور حرم کے گھر میں سناٹا چھایا تھا۔۔ رو رو کر صابرہ خاتون کی طبیعت خراب ہو چکی تھی۔۔ مشکل سے انہیں چپ کروایا گیا۔۔ سب تھکے ہوۓ تھے تو جلدی سو گۓ۔۔ حورعین نے صابرہ خاتون کو بھی زبردستی کھانا اور پین کلرز کھلا کر سونے کیلیۓ لٹا دیا۔۔ مگر نیند تو کوسوں دور تھی۔۔ 

پھر وہ اپنے کمرے میں آٸ تھی۔۔تھک تو وہ خود بھی گٸ تھی۔۔ شزا اور ثناء دونوں سوٸ ہوٸیں تھیں۔۔ حرم نہیں تھی وہاں۔۔ اسے شدت سے حرم کی کمی محسوس ہوٸ تھی۔۔ اسکی آنکھیں نم ہوٸیں۔۔۔ حرم اپنا موبائل اسے دے گٸ تھی۔۔ اور حورعین کی سمارٹ فون استعمال کرنے کی خواہش بھی پوری ہوگٸ تھی۔۔ اس نے موبائل سے حرم کی پکس نکالیں جو اس نے آج بنائيں تھی اور پھر انہیں دیکھنے لگ گٸ۔۔ 

کچھ دیر بعد اسد کی کال آگٸ۔۔ وہ اسی کا ویٹ کر رہی تھی۔۔جتنی مرضی نیند آٸ ہو بات کیا بنے نا وہ خود سوتا تھا اور نا اسے سونے دیتا تھا۔۔ پھر حورعین نے مسکراتے ہوۓ کال ریسیو کی۔۔ اب تو ان میں باقاعدہ ایک رشتہ بن گیا تھا۔۔ رو اب کسی کا ڈر خوف بھی نہیں تھا۔۔۔ 

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے تین گھنٹوں سے فرہاد اسی صوفے پر اسی پوزیشن میں بیٹھا تھا۔۔ مجال ہے جو ایک پل کیلیۓ بھی اسکی نظر حرم سے ہٹی ہو۔۔ 

پاس ہی موجود مسجد میں تہجد کی اذان شروع ہوٸ تھی۔۔ اور اسکے ساتھ ہی حرم کے وجود میں حرکت ہوٸ۔۔ وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔۔ 

کیسی عجیب بات تھی۔۔ وہ لڑکی جو ایک طرح سے بے ہوش پڑی تھی۔۔ اذان کے ساتھ کیسے اسکے جسم میں جان آگٸ تھی۔۔ 

حرم نے کسماتے ہوۓ آنکھیں کھول دیں۔۔ کچھ دیر لیٹے رہنے کے بعد اس نے زہن پر زور ڈالا کہ وہ کہاں ہے۔۔ اور کچھ پل سوچنے کے بعد اسے سب یاد آگیا۔۔ وہ ایک بیٹھنے کیلیۓ ایک دم اٹھی۔۔ 

پھر سی کی آواز اسکے منہ سے نکلی تھی اور وہ دوبارہ لیٹ گٸ۔۔ ڈرپ والے بازو پر زور ڈالنے کے باعث اسکی سوٸ چب گٸ تھی۔۔ اور فرہاد تڑپ کر اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔ 

پلیز حرم لیٹی رہو۔۔۔ ہلنا مت۔۔ فرہاد اسکے پاس آیا۔۔ اور حرم اسے یوں دیکھ کر گھبرا گٸ۔۔ 

وہ اب اسکے پاس بیڈ ہر بیٹھ چکا تھا۔۔ اس نے ڈرپ اتارنے کیلیۓ اسکا ہاتھ پکڑا۔۔ کیونکہ ڈرپ اب تک ختم ہو چکی تھی۔۔۔ اور حرم کے ہاتھ میں لغزش ہوٸ۔۔ اسکا نازک سا دل کانپ کر رہ گیا۔۔  

فرہاد نے اسکی طرف دیکھا تھا وہ اسکی گھبراہٹ محسوس کر چکا تھا۔۔ 
افففف۔۔ کیوں دیکھا تھا اس نے۔۔ ان بڑی بڑی کھلی آنکھوں میں۔۔ جنہیں کب سے کھلی دیکھنے کیلیۓ تڑپ رہا تھا کہ یہ جھکی بند آنکھیں کھلیں گی تو کیا قامت ہوگی۔۔ 

گولڈن، مہرون، پیچ اور سکن کلر کے امتزاج کے لہنگے میں جسکی شرٹ لونگ اور بازو فل تھے۔۔وہ کسی پری سے کم نہیں لگ رہی تھی۔۔ ہلکے میک اپ کے ساتھ۔۔ ریڈ اور اورنج کلر کی لپ اسٹک لگاۓ وہ کسی اور دیس سے آٸ اینجل لگ رہی تھی۔۔ گولڈن کلر کی جیولری جن میں جھمکے زیادہ نمایا تھے اس پر خوب جچ رہی تھی۔۔ 

ماتھا پٹی نے اسکی پیشانی کو کور کیا ہوا تھا۔۔ بھاری بھرکم ڈوپٹہ پنوں کی مدد سے سر پر مشکل سے ٹکایا گیا تھا۔۔ لمبی سایہ دار پلکیں لرز رہیں تھیں۔۔
 
فرہاد نے بہت مشکل سے نظریں ہٹاٸیں تھیں۔۔ 

ٹیک اٹ ایزی حرم۔۔پلیز ریلیکس ہو جاٶ۔۔ فرہاد نے آہستہ سے کہااور پھر ہاتھ سے پن اتارنے لگا۔۔ وہ ایک ڈاکٹر تھا۔۔ حرم اسے دیکھ رہی تھی۔۔ اسے ابھی تک یقین نہیں آیا تھا کہ اسے اسکی بنا دیا گیا ہے۔۔ اتنا وجیہہ شخص۔۔ جسے پہلی بار دیکھ کر حرم نے افففففف کیا تھا کہ مردوں کو اتنا وجیہہ نہیں ہونا چاہیۓ۔۔ سفید کپڑوں میں بکھرے بالوں کے ساتھ وہ دلہاتو کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا۔۔ 

اسے سوٸ چبی تھی۔۔ اور اسکا ہاتھ کانپا۔۔ ساتھ ہی اسکا دھیان فرہاد سے ہٹ گیا۔۔ 

سوری۔۔ فرہاد نے کہا۔۔ اور اسکے پیچھے تکیہ رکھا کہ ٹیک لگا کر بیٹھ جاٶ۔۔ کتنا خیال رکھ رہا تھا وہ اسکا۔۔ 

ہممم۔۔ تو اب بتاٶ۔۔ کیسی ہو۔۔ فرہاد نے مسکراتے ہوۓ پوچھا وہ اسے ریلیکس کرنا چاہتا تھا۔۔   

ٹھیک ہوں۔۔ حرم نے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا۔ 

اچھا تو کس بات کی ٹینشن تھی۔۔جو اتنا سٹریس لیا۔۔؟؟ 

کسی بات کی بھی نہیں بسس وہ اتنی جلدی میں شادی ہوگٸ۔۔ تو۔۔۔ حرم نے کہا۔۔

تمہیں پتا ہے میں نے تم سے شادی کیوں کی ہے۔۔؟؟ وہ پوچھ رہا تھا اور حرم کو اس کا تم کہااچھا لگا۔۔ 

نہیں۔۔ حرم نے چونک کر دیکھا۔۔ 

بھٸ تم نے ہی تو کہا تھا کہ مجھے دوستی کرنا پسند نہیں۔۔ اور بنا ریلیشن کے بات بھی نہیں کرنا چاہتی تو۔۔۔ 

تو۔۔ حرم نے ہونکوں کی طرح پوچھا۔۔۔

تو میں تم سے بات کرنا چاہتا تھا فرینڈ شپ بھی کرنا چاہتا تھا۔۔ اس لیۓ پھر مجھے شادی کرنا پڑی۔۔ اب تو کرلو گی نا مجھ سے فرینڈ شپ۔۔ ؟؟ فرہاد نے معصویت سے پوچھا۔۔ 

اور حرم کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گٸیں۔۔ صرف فرینڈ شپ کیلیۓ آپ نے مجھ سے شادی کی۔۔ حرم کو یقین نا آیا۔۔ 

ہاں نہیں تو کیا۔۔ بالکل۔۔ واٸف میں افورڈ نہیں کرسکتا بھٸ اسکے نخرے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔۔ اور تم اتنی معصوم ہو۔۔ مجھے اتنی معصوم فرینڈ چاہیۓ تھی۔۔ فرہاد نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔ 

فرینڈز۔۔ فرہاد نے ہاتھ آگے بڑھایا۔۔ اسی ڈاکٹر عفت کی کہی ہوٸ ہر بات یاد تھی۔۔ جب تک حرم دل اور دماغ سے اس رشتے کو قبول نا کر لیتی تب تک وہ اسے فرینڈ ہی بنا کر رکھتا۔۔۔ 

اور حرم نے خوشی اور حیرت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ ہاتھ آگے بڑھایا۔۔ اور فرہاد نے اس انداز سے آخری دفعہ بات کس سے کی تھی اس تو خود بھی یاد نہیں تھا۔۔ 

ایک منٹ پھر اس نے بیڈ کے ساٸیڈ والا دراز سے ایک باکس نکالا۔۔ وہ جیولری باکس تھا۔۔ اس نے کھولا۔۔ اور پھر اس نے حرم کے سامنے کیا۔۔ یہ تمہارا آج کا گفٹ۔۔ 

خوبصورت گولڈن کلر کے کنگن جن میں ڈاٸمنڈ لگے تھے۔۔ اسکے سامنے تھے۔۔ بلاشبہ وہ بہت خوبصورت تھے۔۔ حرم نے حیرت سے دیکھا۔۔ 

اتنا مہنگا گفٹ۔۔ 

نہیں مہنگا نہیں ہے۔۔ ہمارے خاندان میں ہر نٸ دلہن کو ایسے ہی کنگن دیے جاتے ہیں۔۔ اگر تم پہن لو گی تو انکی قیمت پوری ہو جاۓ گی۔۔ فرہاد نے کہا۔ 

اوکے پہن لیتی ہوں۔۔ حرم نے کہا اور کنگن پہننے کی کوشش کی لیکن نہیں پہن سکی کیونکہ ایک ہاتھ پر ڈرپ لگی تھی جس کی وجہ سے اسے درد محسوس ہوتا تھا۔۔ فرہاد نے اسکی مشکل دیکھ لی تھی۔ لاٶں میں پہناٶں۔۔ اس نے ہاتھ سے کنگن لیتے ہوۓ کہا اور پھر احتياط کے ساتھ اسے پہنا دیے۔۔ 

بہت پیارے ہیں۔۔ حرم نے تعریف کی۔۔ 

اوکے میں چینج کرلوں۔۔اب تم آرام کرو۔۔ فرہاد نے اٹھتے ہوۓ کہا ۔۔ وہ اس کے اتنے پاس مزید نہیں بیٹھ سکتا تھا۔۔ حرم سے آنے والی جیسمین کی خوشبو اسکے دل کے تالوں کو کسی اور ہی لہر میں بہا رہی تھی۔۔ 

وہ اٹھ کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔۔ کیا بتاتا اسکو کہ کتنی مشکل سے پایا تھا اسے۔۔ 

اسکے جانے کے بعد حرم نے کمرے پر نظر دوڑھاٸ۔۔ اور پھر حیران رہ گٸ۔۔ وہ کمرہ بالکل ویسے ہی تیار کیا گیا تھا جیسے اسے پسند تھا۔۔ کمرے کی ہر چیز نٸ تھی۔۔ خوابیدہ۔۔ مہرون کلر کے پردے۔۔ بیڈ شیٹ۔۔ ہر چیز مہرون تھی۔۔ فرنيچر بالکل نیا لگ رہا تھا۔۔ گلاب کے پھولوں کی پتیاں۔۔ پورے کمرے میں پھیلی تھیں۔۔ بیڈ کے ساٸیڈ ٹیبل۔۔ صوفے کے سامنے والے ٹیبل۔۔۔ ہر جگہ پھول کی پتیوں سے دل بنا کر درمیان میں کینڈل جلاٸ ہوٸیں تھیں۔۔ 

وہ آہستہ سے اٹھتے ہوۓ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آٸ۔۔ اور اپنے سر لگی پنیں اتارنے لگی۔۔ تاکہ ڈوپٹہ اتارنے کے بعد چینج کر سکے۔۔ لیکن ویک نیس اتنی ہو چکی تھی کہ اس سے بازو اوپر نہیں اٹھاۓ جا رہے تھے۔۔ 

فرہاد ڈریسنگ روم سے باہر آیا تو حرم کو یوں کھڑے دیکھا۔۔ اوو ہو۔۔ حرم اٹھی کیوں۔۔ لیٹے رہتی۔۔ 

وہ مجھے بھی چینج کرنا ہے۔۔ یہ اتنا وزنی لباس ہے۔۔ حرم نے کہا۔ 

دل تو فرہاد کا چاہا تھا کہ وہ کبھی چینج نا کرے۔۔ بلکہ ہمیشہ یونہی بیٹھی رہے اور وہ اسکو دیکھتا رہے۔۔ 

یہ پنیں نہیں اتر رہیں۔۔۔ حرم نے روہانسی ہو کر کہا۔  

اوکے میں اتارتا ہوں۔۔۔ وہ اسکے پاس آیا اور احتياط سے پنیں اتارنے لگ گیا۔۔ حرم نے بہت مشکل سے اپنے دل کو دھڑکنے سے روکا تھا۔۔ 

یہ لو۔۔ اتنی سی بات تھی۔۔ فرہاد نے ساری پنیں اتارنے کے بعد کہا۔۔ 

آپکا شکریہ بہت بہت۔۔ حرم نے کہا۔۔ 

ویسے تم مجھے میرے نام سے بلا سکتی ہو۔۔ فرہاد آغا نام ہے میرا۔۔ 

کیا میں آپکو #ہادی بلا سکتی ہوں۔۔ کچھ دیر بعد حرم نے پوچھا۔۔ اور فرہاد کا کبرڈ سے کچھ نکالتا ہوا ہاتھ ساکن ہوا۔۔ 

” میں آج سے تمہیں #فادی بلاٶں گی۔۔ اففف۔۔ فرہاد کتنا بورنگ سا اور اولڈ نیم ہے۔۔ تم پر بالکل بھی سوٹ نہیں کرتا۔۔ فرہاد سے فادی نک نیم اچھا ہے۔

جو مرضی بلا لو۔۔ ویسے شرم نہیں آۓ گی تمہیں اپنے ہونے والے شوہر کو نام سے بلاتے ہوۓ۔۔ 

نہیں بالکل بھی نہیں۔۔ فادی نیم از گریٹ۔۔ “

بتایا نہیں آپ نے۔۔ اگر نہیں پسند تو رہنے دیں۔۔ حرم نے اسے یوں خاموش دیکھ کر پوچھا۔۔

اور وہ حرم کی آواز پر ایک بار پھر خیالوں سے باہر نکل آیا۔۔ 

کیوں فرہاد ایک اولڈ فیشن نیم ہے اس لیۓ۔۔ فرہاد نے استزاہیہ ہنسی ہنستے ہوۓ کہا۔

بالکل بھی نہیں۔۔ آپ سے کس نے کہا۔۔ انفیکٹ۔۔ مجھے فرہاد نیم بہت پسند ہے۔۔ آپکو پتا ہے دیوتا ناول کا ہیرو فرہاد_تیمور۔۔ گریٹ پرسینلٹی۔۔ آپ بھی بالکل ویسے ہیں۔۔ حرم نے بیڈ پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔

تو پھر ہادی کیوں بلانا چاہتی ہو۔۔ 

اسکی بھی ایک ریزن ہے وہ بعد میں بتاٶں گی۔۔ ہاں پر مجھے فرہاد بلاتے ہوۓ تھوڑی سی شرم آۓ گی۔۔ حرم نے کہا۔  

 اوکے۔۔ فرہاد کو اسکا انداز اتنا پسند آیا۔ 

تھینک یو۔۔ وہ کہتے ہوۓ بیڈ سے اٹھنے لگی تھی کہ اچانک چکر آبے کی وجہ سے واپس بیٹھ گٸ۔۔ 

کیا ہوا۔۔ فرہاد اسکی طرف آیا۔ 

وہ مجھے بھوک لگی ہے۔۔ آپکو پتا ہے ہادی میں نے کل سے کچھ بھی نہیں کھایا۔۔ حرم نے معصومیت سے کہا۔۔ 

اوو۔۔ پہلے کیوں نہیں بتایا پاگل۔۔۔ اور ہادی کو اتنا دکھ ہوا۔۔ 

اوکے پانچ منٹ رکو۔۔ میں ابھی کچھ کھانے کیلیۓ لے کر آتا ہوں۔۔ وہ کہتے ہوۓ کمرے سے نکل گیا۔۔ 

جاری ہے۔۔۔۔

    ❤❤❤❤❤❤❤


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─