┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 22
پارٹ 2

فرہاد جب نیچے آیا تو پورا گھر اندھیرا میں ڈوبا ہوا تھا۔۔ یقیناً سب سو چکے تھے۔۔ وہ چلتے ہوۓ کچن میں آیا۔۔ لاٸیٹ آن کی۔۔فریزر کھولا تو کافی کچھ کھانے کیلیۓ رکھا ہوا تھا۔۔کچھ سوچتے ہوۓ اس نے کھانا نکالا۔۔ اوون میں رکھ کر گرم کیا۔۔ کھایا تو اس نے بھی صبح سے کچھ نہیں تھا۔۔ پھر وہ ایک ٹرے میں کھانا رکھ کر کچن سے باہر نکل آیا۔۔ 

ابھی وہ سیڑھیاں چڑھنے والا تھا کہ اسے حمزہ کے کمرے کی لاٸیٹ آن نظر آٸ۔۔  

حمزہ سویا نہیں ابھی تک۔۔ وہ ٹرے کو لاٶنج میں موجود ٹیبل پر رکھ کر اس کے کمرے کے قریب آیا۔۔ 
حمزہ۔۔۔ جاگ رہے ہو کیا۔۔ فرہاد نے پوچھا۔۔ مگر کوٸ جواب نہیں آیا۔۔ 
حمزہ۔۔ فرہاد نے پھر پکارا۔۔ اور پھر اس نے دروازے کا ہینڈل گھمایا۔۔ حیرت انگیز طور پر وپ کھل گیا۔۔ حمزہ تو ہمیشہ لاک کرکے سوتا ہے۔۔ الٹے سیدھے کام جو کرنے ہوتے ہیں اس نے۔۔ 

فرہاد اندر آیا تو اس نے بےترتیب سے انداز میں حمزہ کو بستر پر لیٹے دیکھا۔۔ جوتے بھی نہیں نکالے تھے اس نے۔۔ 

پاگل انسان نے چینج بھی نہیں کیا۔۔ جب وہ گھر آیا تھا تو فرہاد نے اسکے بھیگے ہوۓ کپڑے دیکھ لیۓ تھے۔۔ 

حمزہ اٹھو یار۔۔ فرہاد نے اسے ہاتھ لگایا۔۔ اور پھر ایک سرت سے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔۔ اسکو تو بخار ہے۔۔ 

حمزہ۔۔ فرہاد نے بلاتے ہوۓ اسے سیدھا کیا۔۔ پیشانی پر ہاتھ رکھا تو فل تپ رہی تھی۔۔ 
اوو ماۓ گاڈ۔۔ اتنا تیز بخار۔۔ وہ ایک ڈاکٹر تھا۔۔ اور اسے ہاتھ لگانے سے ہی پتا چل چکا تھا کہ بخار سو ڈگری سے اوپر ہوگا۔۔ 

فرہاد نے اسکے جوتے اتارے۔۔ پھر اسکا اوپر والا کوٹ اتارا۔۔۔ اسے کمبل اوڑھایا۔۔ پھر وہ سرت سے کمرے سے باہر نکل گیا۔۔ 

جب وہ کھانا لے کر اوپر آیا تو حرم ڈریسنگ کے سامنے بیٹھی جیولری اتار رہی تھی۔۔ 

سوری میں لیٹ ہوگیا تھوڑا۔۔ یہ لو کھانا کھاٶ۔۔ اور آٸندہ پلیز اتنی دیر تک بھوکا مت رہنا۔۔ اس کے اندر کا ڈاکٹر جاگ اٹھا۔۔ 

تھینک یو۔۔ حرم نے کہتے ہوۓ ٹرے اس سے لی۔۔ آپ بھی کھا لیں۔۔ 

نہیں مجھے بھوک نہیں ہے۔۔ حمزہ کو دیکھ کر اسکی بھوک اڑ گٸ تھی۔۔ 

اچھا ایسا کرو کھانا کھا لو۔۔۔ اور پھر سو جانا۔۔ میں کچھ دیر میں آتا ہوں۔۔۔ 

آپ اس وقت کہاں جا رہے ہیں ہادی۔۔ حرم نے پوچھا۔۔ 

جا تو کہیں نہیں رہا۔۔ ادھر ہی ہوں۔۔ہادی نے مسکرا کر کہا۔۔ 

اچھا پھر ٹھیک ہے۔۔ جب تک میں کھانا نا کھا لوں تب تک آپ ادھر ہی رہیں۔۔ 

اچھا بابا۔۔ ادھر ہی ہوں۔۔ فرہاد نے بیٹھتے ہوۓ کہا۔۔ 

اور ویسے بھی ابھی مجھے نیند نہیں آرہی۔۔ نماز بھی پڑھنی ہے۔۔ اور۔۔ 

کس وقت کی نماز۔۔ ابھی تو فجر کی اذان نہیں ہوٸ۔۔ 

تہجد کی۔۔ اور شکرانے کے نوافل بھی۔۔ حرم نے کہا۔۔ 

کس بات کا شکر ادا کرنا ہے۔۔ ہادی نے پوچھا۔۔ 

ہادی کی شکل میں اتنا اچھا فرینڈ۔۔ جو کھانا لا کر دے۔۔مجھے عطا کرنے کیلیۓ شکر تو بنتا ہے نا اللہ پاک کا۔۔ حرم نے معصومیت سے کہا۔۔ 

ہاہا اچھا۔۔ فرہاد کو آج رات سے پہلے تک وہ بہت سمجھدار لگی تھی ۔۔۔۔ اسے آج پتا چلا تھا کہ وہ بہت معصوم ہے۔۔ 

وہ کھانا کھا چکی تھی۔۔ فرہاد اپنی جگہ سے اٹھا اور بیڈ کے ساٸیڈ ٹیبل سے کچھ اٹھایا اور سامنے لا کر رکھ دیا۔۔ 

یہ کیا ہے۔۔؟؟ حرم نے دیکھتے ہوۓ کہا۔۔

اسکو میڈیسن کہتے ہیں۔۔ 

مجھے نہیں کھانی۔۔ حرم نے منہ بنایا۔۔

کیوں نہیں کھانی۔۔

منہ کڑوا ہو جاتا ہے۔۔ آپکو پتا ہے ہادی یہ نا میرے ادھر اٹک جاتی ہے۔۔ حرم نے گلے کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔۔ اس لیۓ مجھے نہیں کھانی۔۔ ۔ 

فرہاد نے بہت مشکل سے اپنی ہنسی ضبط کی۔۔ 
اچھا چلو میں کھلاتا ہوں پھر نہیں اٹکے گی۔۔ اور ہادی نے میڈیسن نکال کر اسکے ہاتھ پر رکھی۔۔ یہ لو پانی۔۔ 

حرم نے منہ بناتے ہوۓ میڈیسن کھا لی۔۔  
Good girl...
ہادی نے اسکا گال تپتھپایا۔۔ اچھا میں آتا ہوں۔۔۔ وہ کہتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا۔۔ حرم کو اسکے چہرے پر پریشانی نظر آگٸ تھی مگر پوچھ نا سکی۔۔ 

وہ تیز تیز سیڑھیاں اترتا نیچے آیا۔۔ اور سیدھا حمزہ کے کمرے میں گیا۔۔۔ بخار کم کرنے کی میڈیسن نکالی۔۔ اور پھر حمزہ کو اٹھایا۔۔ کافی دیر بعد حمزہ نے آنکھیں کھولی تھیں۔۔ 

حمزہ یہ میڈیسن کھاٶ۔۔ فرہاد نے پکڑ کر حمزہ کو اٹھایا۔۔ اس سے بیٹھا نہیں جارہا تھا۔۔ اسے میڈیسن کھلانے کے بعد۔۔وہ اسکے پاس بیٹھ گیا۔۔ وہ اسکے ہاتھوں کو رگڑ رہا تھا۔۔ سردی کا بخار تھا۔۔ اس وقت کسی کو بھی اٹھانا اس نے مناسب نہیں سمجھا۔۔ 

ایسا۔۔ کیوں۔۔ ہوا۔۔۔ حمزہ کچھ بڑبڑا رہا تھا۔۔ 

حمزہ آنکھیں کھولو۔۔ فرہاد حمزہ سے بہت پیار کرتا تھا۔۔ 

میں۔۔ میں۔۔اسے۔۔ بہت۔۔ چاہتا۔۔ حمزہ غنودگی کی حالت میں تھا۔۔ اسے پتا نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیا بول رہا ہے۔۔ 

ہادی حیران تھا کہ اسے ہوا کیا ہے۔۔ ایسا تو کبھی بھی نہیں ہوا تھا۔۔ 

پورے پچیس منٹ بعد حمزہ کا بخار کافی حد تک کم ہو چکا تھا۔۔ وہ اٹھا اور پھر اس روم میں گیا جہاں ڈاکٹر سمیع کچھ میڈیسنز اور انجیکشنز وغیرہ رکھتے تھے تاکہ کسی بھی ایمرجنسی میں کام آ سکیں۔۔ 

کچھ سیکنڈز بعد وہ ایک انجیکشن لے کر آیا تھا۔۔ پھر اس نے وہ انجیکشن حمزہ کو لگایا۔۔ 
صبح کی اذانیں شروع ہوگٸ تھیں۔۔ حمزہ کا بخار اتر چکا تھا کافی حد تک۔۔ پھر اس نے کمبل اچھے طریقے سے اسے اوڑھایا۔۔ اب حمزہ گہری نیند سو رہا تھا۔۔ 
وہ لاٸیٹ آف کر کے کمرے کا دروازہ بند کرتا باہر آیا۔  

وہ پہلا دلہا تھا جس نے اپنی فرسٹ ناٸیٹ ایسے گزاری تھی۔۔ 

پھر وہ اوپر نہیں گیا بلکہ نماز پڑھنے چلا گیا۔۔ 

جب وہ واپس آیا تو اسکا خیال تھا کہ حرم سو چکی ہوگی۔۔ لیکن وہ جاگ رہی تھی۔۔ اس نے چینج کر لیا تھا۔۔ 

وہ واٸیٹ کلر کا ٹراٶزر پہنے اس پر پیچ کلر کی شرٹ اور پیچ کلر کے ڈوپٹے سے حجاب کیۓ۔۔ کمرے کی لان کی طرف کھلنے والی ونڈو کھولے اس میں بیٹھی تھی۔۔ 

آپ آگۓ۔۔ اس نے فرہاد کو دیکھتے ہوۓ پوچھا۔۔ 

سوٸ نہیں حرم۔۔ ہادی نے پوچھا۔۔ 

نہیں مجھے نیند نہیں آٸ۔۔ حرم نے کہا۔۔ 
یہاں سے لان کا منظر کتنا اچھا نظر آرہا ہے نا۔۔ وہ بولی۔۔ ہلکی ہلکی بارش کی بھوندیں برس رہیں تھیں۔۔ کبھی تیز ہو جاتیں اور کبھی مدہم۔۔

ونڈو میں بیٹھی ہو حرم تمہیں ٹھنڈ لگ جاۓ گی۔۔ 

ہمارا گھر چھوٹا سا ہے۔۔ زیادہ بڑا نہیں ہے۔۔ اس میں لان نہیں ہے۔۔ اور مجھے لان بہت اچھا لگتا ہے۔۔ حرم نے اسکی بات کو نظر انداز کرتے ہوۓ کہا۔۔ 

وہ چلتے ہوۓ اسکے پاس آیا۔۔ نیچے چلیں۔۔ ہادی نے پوچھا۔۔ 

چلیں۔۔ حرم نے حیران ہوتے ہوۓ اسے دیکھا اور پھر خوش ہوتے ہوۓ کہا۔۔۔ 

یہ شال لے لو پہلے۔۔ اس نے بلیک کلر کی گرم شال حرم کو پکڑاٸ۔۔ حرم نے فٹا فٹ اسے اوڑھا۔۔ 

چلیں۔۔ وہ ایکساٸٹڈ تھی۔۔ 

ہادی نے حیران ہوتے ہوۓ اسے دیکھا۔۔ عجیب نہیں بلکہ عجیب تر لڑکی تھی۔۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہونے والی۔۔ کوٸ اپنی شادی کی پہلی رات کو ایسے کام کرتا ہے کیا۔۔؟؟ جیسے وہ کر رہی تھی۔۔ 

وہ دونوں نیچے آۓ تھے۔۔ صبح کا اجالہ پھیلنا شروع ہو چکا تھا۔۔۔

جوتے نکال لوں۔۔ حرم نے پوچھا۔۔وہ لان میں ننگے پاٶں پھرنا چاہتی تھی۔۔ 

بالکل بھی نہیں۔۔ گرمی نہیں سردیوں کا موسم ہے پاگل لڑکی۔۔ 

اوو ہاں مجھے بھول گیا تھا۔۔ حرم نے ہنستے ہوۓ شرارت سے کہا۔۔ 

فاریہ بھابھی اٹھ کر آٸیں تھیں۔۔انہوں نے اپنے کمرے سے دونوں کو لان میں گھومتے ہوۓ دیکھ لیا تھا۔۔۔ وہ حیران ہوٸیں۔۔ 

کمال ہے۔۔ نۓ شادی شدہ جوڑوں کو مشکل سے اٹھایا اور انکے کمرے سے باہر نکالا جاتا ہے۔۔ اور یہ کونسا جوڑا ہے جو سب کے جاگنے سے پہلے اٹھ کر لان کی سیر کر رہا ہے۔۔ فاریہ بھابھی نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔ 

حرم اور۔فرہاد دونوں جھینپ گۓ تھے۔۔ 

میرا دل کر رہا تھا یہاں گھومنے کو۔۔ حرم نے کہا۔۔ 

کیسی طبیعت ہے حرم تمہاری اب۔۔ اور فرہاد ایک ڈاکٹر ہونے کے باوجود کیسے لاپرواہ سے ہسبنڈ ہو تم۔۔ صبح صبح اتنی ٹھنڈ اسے لے کر یہاں گھوم رہے ہو۔۔ 

ہادی کی کوٸ غلطی نہیں ہے فاریہ بھابھی۔۔ میں نے ہی کہا تھا۔۔ حرم نے فوراً کہا۔۔ 

اور فاریہ بھابھی نے حیرانی سے دونوں کو دیکھا۔۔ 

آج سے میرا نام ہادی ہے۔۔ وہ مسکرایا۔۔ 

لگتا ہے اچھی خاصی فرینڈشپ ہو گٸ ہے دونوں میں۔۔ فاریہ بھابھی نے ہنستے ہوۓ کہا۔۔ 

جی۔۔ وہ دونوں بھی ہنس دیے۔۔  

وہ حرم جو رات کو قیامت لگ رہی تھی۔۔ اب بالکل چھوٹی سی اور معصوم نظر آرہی تھی۔۔ ہادی نے نظریں ہٹا لیں۔۔ مبادہ کہیں نظر ہی نا لگ جاۓ۔۔ 

اور یہ سارا منظر اپنے کمرے سے زیبا بیگم نے دیکھا تھا۔۔ انہوں نے تین سال بعد فرہاد کو اتنا خوش دیکھا تھا۔۔ اور پھر ان خوشيوں کے داٸمی ہونے کی صدق دل سے دعا کی۔۔ 

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زی۔۔ اتنی صبح صبح #ٹریوی_فاٶنٹین آنے کی کیا ضرورت تھی۔۔ زی اور شالے ٹریوی فاٶنٹین کے سامنے کھڑی تھیں۔۔ 

زی نے فاٶنٹین میں ایک سکہ اچھالا۔۔ 
ایک وش ہے میری اس کیلیۓ پرے کرنے آٸ ہوں۔۔ زی نے جواب دیا۔۔ 

اففف یار۔۔۔ ایسی کونسی وش ہے تمہاری۔۔ ایسا کیا چاہیۓ جو تمہیں سکون نہیں لینے دیتا۔۔ شالے نے کوفت سے کہا۔۔ 

#رہنما۔۔۔ اور فاٶنٹین پر بیٹھے کبوتروں نے ایک اڈاری بھری تھی۔۔ سندیسہ تھا کہ اسکی وش پوری ہو چکی ہے۔۔ سندیسہ تھا کہ اسکی دعا قبول ہو چکی ہے۔۔ سندیسہ تھا کہ بہت جلد اسکا رہنما اس زمین پر قدم رکھنے والا تھا۔۔ 

”عمل ہو گیا۔۔۔ فیکون ہوگیا۔ وہ آرہی ہے۔۔ وہ آرہی ہے۔۔ “

آواز پر دونوں نے چونک کر پیچھے دیکھا۔۔ ایک درویش پھٹے پرانے کپڑوں میں لمبے الجھے بالوں کے ساتھ چلتا جا رہا تھا۔۔ 

وہ آرہی ہے۔۔وہ کہتا جا رہا تھا۔۔ ایک بار پھر کبوتروں نے اڈاری بھری۔۔ 

ہے سٹاپ۔۔ زی نے چلا کر کہا۔۔ اور پھر اسکے پیچھے بھاگی۔۔   

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حرم بھابھی آپ ابھی تک تیار نہیں ہوٸیں۔۔ عالیہ نے اسے دیکھتے ہوۓ کہا۔۔ آپ کے گھر والے آنے والے ہیں۔۔ مانا آج ریسیپشن نہیں ہے۔۔ وہ ہم اسلام آباد میں کریں گے مگر اسکا مطلب یہ تو نہیں نا کہ آپ اتنا سمپل رہیں۔۔ وہ روہانسی ہوٸ۔۔ 

ناراض کیوں ہو رہی ہو۔۔ اچھا چلو بتاٶ کونسا ڈریس پہنوں میں۔۔۔ چلو خود تیار کردو مجھے ۔۔۔حرم نے اسکا اترا ہوا منہ دیکھ کر کہا۔۔ 

بیٹھیں میں دیکھتی ہوں۔۔ عالیہ خوش ہوتے ہوۓ اٹھی۔۔ اور کبرڈ کی طرف چلی گٸ۔۔ 

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمزہ بھاٸ۔۔ HD بھاٸ۔۔ اٹھ جاٸیں۔۔ ابھی تک سو رہے ہیں آپ۔۔ حرم بھابھی کے گھر والۓ آٸیں ہیں۔۔ 

حمزہ نے آنکھیں کھولیں۔۔ اسکا سر ابھی بھی بھاری ہو رہا تھا۔۔ 

ہمیں آج اسلام آباد واپس بھی جانا ہے۔۔ پتا ہے نا آپکو۔۔ عالیہ نے کھڑکی سے پردے ہٹاتے ہوۓ کہا۔

کمرے میں روشنی پھیل گٸ۔۔ حمزہ اٹھ بیٹھا تھا۔۔ رات والا سارا واقع اسکے زہن میں گھوم گیا۔۔ رات فرہاد اسکے کمرے میں آیا تھا اسے اب یاد آرہا تھا۔۔ 

فرہاد کدھر ہے۔۔ حمزہ نے پوچھا۔ 

فرہاد نہیں آج سے وہ ہادی بھاٸ ہیں۔۔ حرم بھابھی کا آڈر ہے۔۔ اور حرم کے نام کے ساتھ حورعین کا چہرہ اسکی آنکھوں میں گھوم گیا۔۔ ایک اذیت کی لہر پر اسکے جسم میں دوڑ گٸ۔۔  

ہممم۔۔۔ میں آتا ہوں تیار ہوکر۔۔ 

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

جب وہ تیار ہو کر آیا تو لاٶنج میں میلا لگا تھا۔۔ حرم کے گھر والے آچکے تھے۔۔ 
پہلی نظر جو اسکی جس پر پڑی تھی وہ تھی حورعین۔۔ تیار شیار حرم کے پاس بیٹھی کسی بات پر مسکراتی وہ حمزہ کو گنگ کر گٸ تھی۔۔ 

وہ وہیں سے پلٹ جانا چاہتا تھا جب ہادی نے اسے دیکھا۔۔ 

حمزہ آجاٶ۔۔ طبیعت کیسی ہے اب تمہاری۔۔ ہادی نے پوچھا۔۔ 

وہ سب کو سلام کرتا شکستہ قدموں سے چلتا ہوا انکے پاس جا کر بیٹھ گیا۔۔ 

ٹھیک ہوں۔۔ حمزہ نے آہستہ سے کہا۔۔ وہ حورعین کی طرف دیکھنے سے گریز کر رہا تھا۔۔

اوو کیا ہوا تھا آپکو۔۔ حورعین نے پوچھا۔۔ 

اور حمزہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔۔ جانے کیا تھا ان نگاہوں میں کہ حورعین حیران رہ گٸ۔۔ 

”کوٸ آیت پڑھ کر پھونک میری آنکھوں پر۔۔ 
یہ تمہیں دیکھنے کی ضد کرتی ییں۔۔“

کچھ نہیں ہلکہ سا بخار ہو گیا تھا۔۔ حمزہ نے نظریں چراٸیں۔۔ 

 وہ بکھرا بکھرا سا حمزہ ایک نیا حمزہ تھا۔۔ اسکی آنکھوں کی چمک کہیں کھو گٸ تھی۔۔ حورعین جانے کیوں اسے دیکھ رہی تھی۔۔ اور سوچ رہی تھی۔۔ 

   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ لیں فاٸل۔۔ اس میں حرم کے سارے ڈاکومنٹس ہیں۔۔ شزا نے فاٸل ہادی کے سامنے کی۔۔ 

تھینک یو سو مچ۔۔ وہ مسکرایا۔ 

ہادی بھاٸ۔۔ شزا نے پکارا۔ 

جی۔۔ ہادی نے کہا۔

کیا کریں گے آپ اس فاٸل کا۔۔ اور ہاں پلیز آپ سے ریکویسٹ ہے کہ حرم کو نیکسٹ پڑھنے کی پر میشن دے دیجیۓ گا۔ اسے بہت شوق ہے پڑھنے کا۔۔ شزا نے کہا۔ 

ہممم۔۔ جانتا ہوں۔ فرہاد مسکرایا۔۔ اسی لیۓ تو یہ فاٸل منگواٸ ہے آپ سے۔۔ آپ بے فکر رہو۔۔ حرم میری زمہ داری ہے۔۔ میں اسے باخوبی نبھاٶں گا۔۔ ہادی نے مسکراتے ہوۓ کہا۔ 

ہادی چاچو۔۔ عاشا نے اسے پکارا۔۔ آپکو ممابلا رہی ہیں۔  

ایک ہی دن میں حرم کے دیکھا دیکھی سب اسے ہادی بلانے لگ گۓ تھے۔۔ 

آرہا ہوں۔۔ہو کہتا ہوا اندر کی طرف بڑھ گیا۔۔

          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حرم کے گھر والے واپس بھی جا چکے تھے۔۔سب کی پیکنگ مکمل تھی۔۔ اب وہ لوگ اسلام آباد جانے کیلیۓ تیار تھے۔۔ 

حرم اپنے گھر والوں سے مل کر بہت خوش ہوٸ تھی۔۔ اور اداس بھی۔۔ یہ تو وپی جانتی تھی کہ اس نے خود پر کیسے کنٹرول کیا ہوا ہے۔۔ کوٸ اور جگہ ہوتی تو و ہ اب تک کی ہزار دفعہ رو چکی ہوتی مگر یہ اسکا سسرال تھا۔۔ چناچہ دل مسوس کر بیٹھی تھی۔۔

سارا سامان گاڑیوں میں رکھا جا چکا تھا۔۔ 

اتنی رونق لگی ہوٸ تھی۔۔ اب پھر میں اکیلی ہو جاٶں گی۔۔ فاریہ بھابھی نے اداسی سے کہا۔۔ 

اب آپ اسلام آباد آجاٸیں۔۔ اگر سمیع کو فرصت نہیں ملتی تو وہ بے شک نا آٸیں مگر آپکو بیجھ دیں۔۔بالکل بھی آپکو آنے نہیں دیتے عالیہ نے غصے سے کہا۔ 

سن لیا سمیع تونے۔۔ خبرادار جو اب میری بچی کو روکا تو۔۔ دادو نے کہا۔ 

نا اس حمزہ کو کیا سانپ سونگ گیا ہے۔۔ ہاۓ ہاۓ۔۔ اس خوشی ک موقع پر دیکھو تو کیسی شکل بناٸ ہوٸ ہے۔۔ دادو کی توپوں کا رخ اب حمزہ کی طرف ہو گیا تھا۔۔ اور حمزہ گڑبڑا گیا۔۔ 

نہیں دادو ایسی کوٸ بات نہیں۔۔ 

لگتا حمزہ کو اس بار لاہور راس نہیں آیا۔۔ ڈاکٹر سمیع نے کہا۔۔ 

چل شہزادے اپنے اسلام آباد چلتے ہیں۔۔ وہاں جا کر بالکل ٹھیک ہو جاۓ گا۔۔ آغا جی نے کہا۔ 

بالکل۔۔ الٹے سیدھے کام کرنے کو مل جاٸیں گے اسے۔۔ سجاد آغا نے کہا۔۔ 

ہاہا توبہ۔۔ آپ لوگوں نے تو مجھکو شیطان ہی سمجھ لیا ہے۔۔ حمزہ نے ہنستے ہوۓ کہا۔۔ 

تم اس سے بھی آگے کی چیز ہو HD صاحب۔۔ ہادی نے جواب دیا۔۔ 

بھابھی مجھے بچاٸیں۔۔ یہ لوگ مجھ پر الزام لگا رہے ہیں۔۔۔ حمزہ نے نتاشہ بھابھی کی طرف دیکھا۔۔ 

مت تنگ کرو میرے پیارے اور معصوم سے دیور کو۔۔ نتاشہ بھابھی نے کہا۔۔ 

توبہ توبہ۔۔ معصوم۔۔ دادو نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔۔ 

حرم بھابھی آپ بتاٸیں۔۔ میں شکل سے معصوم ہوں نا۔۔ حمزہ نے حرم سے پوچھا۔۔ 

جی ہاں بالکل۔۔ آپ بہت معصوم ہیں۔ ۔ 

جی جی۔۔ بس شکل سے ہی۔۔ یہ کیا چیز ہے یہ آپکو اسلام آباد جا کر پتا چل جاۓ گا۔۔ ڈاکٹر سمیع نے ہنستے ہوۓ کہا۔۔ اور اسکی بات پر سب ہنس دیے۔۔ 

پھر وہ لوگ فاریہ بھابھی اور ڈاکٹر سمیع سے ملنے کے بعد اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ چکے تھے۔۔ 
ایک میں سجاد بھاٸ انکی فیملی اور عالیہ تھے۔۔ 
دوسری میں حمزہ، آغا جی، دادو اور زیبا بیگم۔۔ اور تیسری گاڑی میں صرف حرم اور ہادی تھے۔۔ 

تینوں گاڑیاں آگے پیچجے گھر سے نکلیں تھیں۔۔۔

حمزہ کا دل اداس تھا۔۔ پچھلی بار وہ لاہور سے واپس گیا تو بہت خوش تھا۔۔ پر اب کی بار نہیں۔۔ 

” تیرا شہر، تیرے لوگ،تیری روایتیں۔۔ 
تم اگر لاہور شہر کے نا ہوتے تو ہمارے ہوتے۔۔ “

حمزہ نے تصور میں حورعین کو مخاطب کیا۔۔ گاڑیاں اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھیں۔۔ 

جاری ہے۔۔۔۔۔۔

 ❤❤❤❤❤❤

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─