┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 23
پارٹ 1

فضا میں اڑتے ہوائی جہاز نے اٸیر پورٹ پر لینڈ کیا ۔۔ کچھ دیر بعد وہ دونوں اٸیر پورٹ سے باہر آۓ تھے۔۔  

فروری اس شہر کیلیۓ برف کا تحفہ لے کر آتا تھا۔۔ لگتا تھا کچھ دیر پہلے برف باری ہوٸ تھی۔۔ ہر چیز سفید لباس سے ڈھکی نظر آرہی تھی۔۔ 

#چودہ_فروری۔۔۔۔ یورپ والوں کیلیۓ #محبت کا دن۔۔۔ 
ہاں آج 14 فروری تھی۔۔ چاہنے والوں نے اٸیر پورٹ کے باہر سرخ گلاب کے پھولوں سے اپنے آنے والے محبوب کیلیۓ سفید برف پر سرخ کارپٹ بنا دیا۔۔ ہر طرف گلاب کے پھولوں کی پتیاں بکھری پڑی تھیں۔۔ 

اور سفید برف پر سرخ گلاب کی پتیوں نے جو حسن بکھیرا تھا وہ اس نے آج دیکھا تھا۔۔ 

وہ بہت خوش تھی۔۔ خوشی اسکے چہرے سے عیاں تھی۔۔ اسکی آنکھوں اور چہرے کی چمک اسکی خوشی کی انتہا بتا رہی تھی۔۔ 

وہ سفید برف پر بنے سرخ کارپٹ پر چلتے چلتے اٸیر پورٹ سے کافی باہر نکل آۓ تھے۔۔ 

یہاں بیٹھو۔۔ میں ابھی آتا ہوں۔۔ اس نے پتھر سے بنے پینچ کے قریب رکتے ہوۓ کہا۔۔اس نے اپنا ہینڈ بیگ بینچ پر رکھ دیا۔۔وہ جا چکا تھا۔۔ 

اس نے مسکراتے ہوۓ ہر طرف دیکھا۔۔ یہ اسکا ہوائی جہاز کا پہلا سفر تھا۔۔۔ اس نے چاروں طرف نظر دوڑاٸ۔۔ لوگ اپنے پیاروں سے مل رہے تھے۔۔ کچھ محبتوں کے پنچھی بھی نظر آرہے تھے۔۔۔ 

دو چیزیں۔۔ جو اسے یہاں پہلی نظر میں نظر آگٸی تھیں۔۔ وہ تھیں۔۔ پہلی برف۔۔ اور دوسری گلاب کی بکھری پتیاں۔۔  
اس نے ہنستے ہوۓ اپنی شال کو درست کیا۔۔ سردی کا احساس ہوا تھا۔۔
شام کے ساڑھے چار بج رہے تھے۔۔ پاکستان میں اس وقت ساڑھے سات بج چکے ہونگے۔۔۔ اس نے ٹائم دیکھتے ہوۓ سوچا۔۔۔ 
اب وہاں پر اکا دکا لوگ نظر آرہے تھے۔۔ تقریباً سب جا چکے تھے۔۔ 
وہ ابھی تک نہیں آیا تھا۔۔ اسکے بینچ سے کچھ فاصلے پر ایک اور بینچ پر ایک نوجوان جوڑا بیٹھا تھا۔۔ دونوں مسکرا مسکرا کر ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ باتیں کر رہے تھے۔۔ 

اس نے چاروں طرف دیکھا۔۔ پھر حجاب میں لپٹا مسکراتا ہوا چہرہ آسمان کی طرف کیا۔۔ 

  ”سنا ہے بہت #طلسم ہے تم میں۔۔ سنا ہے تم طلسماتی شہر کہلاتے ہو۔۔ سنا ہے تم محبتوں کا شہر کہلاتے ہو۔۔ سنا یے یہاں #محبت کسی #آسیب کی طرح نازل ہوتی ہے۔۔ سنا ہے جو ایک بار یہاں آجاۓ پھر وہ ہمیشہ کیلیۓ یہاں کا ہو جاتا ہے۔۔ سنا ہے کہ بہت سی #داستانیں رقم ہیں تم میں۔۔ سنا کہ ہے بہت سے #اتحاز بھرے پڑے ہیں تم میں۔۔ سنا ہے بہت سے #راز دفن ہیں تم میں۔۔ 
تو پھر #خوش آمدید کہو مجھے۔۔ کیونکہ میں آگٸ ہوں۔۔ میں آگٸ ہوں۔۔ ایک اور داستان رقم کرنے۔۔ میں آگٸ ہوں ایک اور #اتحاز بنانے۔۔۔ آگٸ ہوں میں۔۔ ایک اور #طلسم بکھیرنے۔۔۔ 
#Welcome to me #Rome...
#Say welcome to me.. 

وہ خوشی سے چلا چلا کر بولی تھی۔۔ 
اور سامنے بینچ بیٹھے جوڑے نے چونک کر اسے دیکھا۔۔ اس کو مسکرتا ہوا دیکھ کر وہ دونوں بھی مسکرادیے۔۔ لڑکے نے وکٹری کا نشان بنایا۔۔ 

 دور دور #ٹریوی فاٶنٹیں پر بیٹھے کبوتروں نے ایک بار پھر اڈاری بھری۔۔ یعنی #سواگت کیا گیا تھا اسکا۔۔۔ 

اور اس سے بھی دور۔۔ #وینس میں جو کہ پانی کا شہر کہلاتا ہے۔۔ پانی کے درمیاں بنی ایک چھوٹی سی #مسجد کے باہر۔۔ #دھمال ڈالتے #درویش کے پاٶں میں بھی جوش آیا۔۔ اور وہ تیزی سے گھومنے لگا تھا۔۔ 

آگٸ ہے وہ۔۔ وہ آگٸ ہے۔۔ 
وہ صدا لگاۓ جا رہا تھا۔۔۔ 

            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب وہ لوگ اسلام آباد پہنچے تو رات کے آٹھ بج رہے تھے۔۔ کھانے وہ لوگ راستے میں ہی کھا چکے تھے۔۔ 
حرم فل تھک چکی تھی۔۔ اسے اتنا لمبا سفر کرنے کی عادت نہیں تھی۔۔اور اوپر سے سردی بھی تھی۔۔ عالیہ نے اسے اسکا کمرہ دکھایا تھا۔۔ 

حرم نے مشکل سے عشا کی نماز ادا کی۔۔ ابھی وہ سونے کا سوچ رہی تھی کہ عالیہ اسکے پاس آگٸ۔۔۔ 

حرم بھابھی کیا کرنے لگی ہیں آپ۔۔ عالیہ ایکساٸیٹڈ تھی۔۔ 

کچھ نہیں سونے کا سوچ رہی ہوں۔۔ اتنا لمبا سفر تھا تھک گٸ ہوں۔۔ حرم نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔ تھکن اسکے چہرے سے عیاں تھی۔۔

فرہاد نے ان دونوں کو باتیں کرتا دیکھا تھا تو دروازے سے ہی واپس چلا گیا۔۔ 

اچھا۔۔۔ عالیہ نے کہا۔۔ 

کوٸ ضروری بات تھی کیا۔۔؟؟ حرم نے پوچھا۔۔ 

نہیں میں سوچ رہی تھی کہ آپکو گھر دکھا دوں ہمارا۔۔ لیکن آپ ریسٹ کریں۔۔ صبح دکھا دونگی۔۔ ویسے بھی اب یہ آپکا گھر ہے۔۔ عالیہ نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔ 

چلو ابھی دیکھ لیتے ہیں۔۔ اس میں کونسی بڑی بات ہے۔۔ حرم نے جواب دیا۔

ارے نہیں نہیں۔۔ آپ آرام کریں۔۔ صبح ملتے ہیں۔۔ عالیہ نے مسکراتے ہوۓ اسکا گال چوما۔۔ اور چلی گٸ۔۔ 

اور حرم میں واقعی کچھ اور دیکھنے کی سقت نہیں تھی۔۔ وہ بیڈ پر لیٹ گٸ۔۔ کمبل لیا۔۔ بےشک جگہ نٸ تھی۔۔ اور اسے نٸ جگہ پر نیند بھی نہیں آتی تھی۔۔ لیکن تھکاوٹ اس الجھن پر بھاری پڑ چکی تھی۔۔ اور کچھ دیر بعد وہ گہری نیند کی وادی میں اتر چکی تھی۔۔ 

          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرہاد جب کمرے میں آیا تو عالیہ نہیں تھی وہاں۔۔ اسکا خیال تھا کہ عالیہ حرم کو بھی اپنے ساتھ لے گٸ ہوگی۔۔ مگر یہ کیا۔۔ حرم تو سوٸ ہوٸ تھی۔۔ 

وہ دھیرے دھیرے چلتا اسکے قریب آیا تھا۔۔ معصوم چہرہ سوتے ہوۓ۔۔ لیمپ کی دھیمی روشنی میں مزید معصوم لگ رہا تھا۔۔ ایک پل میں اسکا زہن میں ہزاروں خیال آۓ تھے۔۔ دل نے پھر ١٠٠ سے اوپر کی سپیڈ پر بھاگنا شروع کر دیا تھا۔۔ 

اوہو۔ فرہاد۔۔ پاگل ہوگۓ ہو۔۔ اپنے جزباتوں پر بھی تمہارا کنٹرول نہیں رہا اب کیا۔۔ وہ خود کو ڈپٹتا ہوا بیڈ سے اٹھ گیا۔۔ 
لیمپ آف کیا۔۔ اور خود کمرے کے اندر بنے سٹڈی روم میں چلا گیا۔۔ جہاں زیادہ تر اسکی میڈیکل کی بکس رکھی تھیں۔۔ 

         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلی صبح حرم کی آنکھ سات بجے کھلی تھی۔۔ نماز۔۔ وہ سوچتے ہوۓ ایک دم اٹھ بیٹھی۔۔ 

گڈ مارننگ۔۔ فرہاد ڈریسنگ کے سامنے کھڑا تیار ہو رہا تھا۔۔ اسے اٹھتے ہوۓ دیکھا تو کہ دیا۔۔ 

وہ فریش فریش ہمیشہ کی طرح کمال لگ رہا تھا۔۔ 
افففف۔۔ اس شخص کو اتنا وجیہہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔۔ حرم نے نظریں ہٹاتے ہوۓ سوچا۔۔ 

گڈ مارننگ۔۔ وہ مسکرادی۔۔ 

اگر نیند پوری ہو گٸ ہو تو جلدی سے تیار ہو جاٶ۔۔ سب ناشتے پر ویٹ کر رہے ہیں۔۔ فرہاد نے کہا۔۔ 

اچھاا بس ١٠ منٹ دیں مجھکو۔۔ وہ اٹھتے ہوۓ بولی۔۔ 

ٹھیک ہے میں دس منٹ بعد آتا ہوں۔ آغا جی سے مل لوں۔ ایک کام ہے۔۔ فرہاد کہتا کمرے سے چلا گیا۔۔ 

وہ ابھی تیار ہو رہی تھی۔۔ تبھی نتاشہ بھابھی آگٸ۔۔ 

کیا میں اندر آسکتی ہوں۔۔ انہوں نے دروازہ ناک کرتے ہوۓ پوچھا۔۔ 

ارے بھابھی آپ۔۔۔ آجاٸیں پلیز۔۔ آپ کو پوچھنے کی ضرورت نہیں۔۔ 

گڈ مارننگ ڈیٸر۔۔ نتاشہ بھابھی نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔ میں نے سوچا دیکھ لوں۔۔ کہ پیاری سی حرم تیار ہوٸ کہ نہیں۔۔ 

میں تیار ہوں۔۔ حرم نے ڈریسنگ ٹیبل سے اٹھتے ہوۓ کہا۔ 

ہیں۔۔۔ یہ تیار ہو تم۔۔؟؟ نتاشہ بھابھی نے اسکے سادہ دے دھلے دھلاۓ منہ کی طرف اشارہ کیا۔۔ 
بیٹھو یہاں۔۔ میں کرتی ہوں تیار۔۔ 

اوکے۔۔ حرم نے ہنستے ہوۓ جواب دیا۔۔ 

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب وہ تیار ہو کر نیچے آٸ تو کسی ٹاپک پر زیبا بیگم سے باتیں کرتے فرہاد نے چونک کر دیکھا تھا۔۔ کچھ دیر کیلیۓ وہ بھول گیا تھا کہ وہ کہاں بیٹھا ہے۔۔

 لاٸیٹ اورنج کلر کے کامدار ریشمی سوٹ میں جس کے نیچے چوڑی دار پاجامہ تھا۔۔ کانوں میں چھوٹے چھوٹے جھمکے ڈالے۔۔ لاٸیٹ اورنج ہی لپ اسٹک لگاۓ۔۔ بالوں کا ایک طرف سے رول بناۓ۔۔ ڈوپٹہ اچھی طرح سے سر پر لیۓ۔۔۔ اور مہرون شال کو اچھی طرح لپیٹے۔۔ وہ فرہاد تو کیا وہاں موجود ہر شخص کے دل میں اتر رہی تھی۔۔ 

آہمممم۔۔ آہمممم۔۔ عالیہ نے اسکی وجہ مبزول کرواٸ۔۔

فرہاد چونکہ۔۔ اس نے اپنی توجہ پھر سے زیبا بیگم کی طرف مبزول کرلی۔۔

حرم سب کو سلام کرتے ہوۓ فرہاد کے ساتھ والی چیٸر بیٹھ چکی تھی۔۔ 

سب نے حرم کی تعریف کی تھی۔۔ ناشتہ ایک خوشگوار ماحول میں کیا گیا تھا۔۔ 

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حرم جلدی سے ریڈی ہو جاٶ۔۔ وہ ٹیرس پر کھڑی عالیہ کے ساتھ باتیں کر رہی تھی۔۔ جب فرہاد وہاں آیا۔۔ وہ فون پر کسی سے بات کر رہا تھا۔۔ دن کے چوبس گھنٹوں میں سے بیس گھنٹے وہ بزی رہتا تھا۔۔

ہم کہیں جا رہے ہیں کیا ہادی۔۔۔؟ حرم نے پوچھا۔۔ عالیہ فرہاد کو دیکھ کر چلی گٸ تھی۔۔

جی پاسپورٹ بنوانے جا رہے ہیں۔۔ فرہاد نے جواب دیا۔۔ 

کس کا۔۔؟؟ حرم نے پوچھا۔۔ 

تمہارا اور کس کا۔۔ 

پر کیوں۔۔ ؟؟

کیونکہ نیکسٹ ویک تک میں لنڈن جا رہا ہوں۔۔ اسپیشلاٸزیشن کیلیۓ۔۔ فرہاد نے کہا۔۔

مجھے چھوڑ کر جا رہے ہیں آپ ہادی۔۔ ؟؟ وہ پوچھنا چاہتی تھی۔ لیکن پوچھا تو کیا۔۔ 

ہاں تو آپ جا رہے ہیں نا۔۔ پھر پاسپورٹ کیوں۔۔ ؟؟

کونکہ شاید ایک مہینے بعد میں تمہیں بھی اپنے پاس بلوا لوں۔۔ 

اوو شاید۔۔ مطلب پکا نہیں۔۔ حرم نے سوچا۔۔ 

اب چلیں۔۔ یا ریڈی ہونا ہے۔۔ 

جی میں ریڈی ہوں۔۔ چلیں۔۔ 

وہ کہتے ہوۓ اسکے پیچھے چل پڑی۔۔ 

           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہیلو۔۔۔۔ کوٸ ہے۔۔ میں آگیا۔۔ 
HD is back.. 
حمزہ نے گھر میں داخل ہوتے ہی کہا۔۔ کیونکہ لاٶنج میں کوٸ بھی نہیں تھا۔۔ 

آجاٶ حمزہ۔۔ اتن لیٹ۔۔ نتاشہ بھابھی نے کچن سے نکلتے ہوۓ کہا۔۔ 

کتنے برے دیور ہیں آپ۔۔ آپ زرا نہیں پتا کہ ایک نٸ بھابھی اس گھر میں آٸ ہے۔۔ اسے کمپنی دینی ہے۔۔ آپ تو غاٸب ہی ہو گۓ۔۔ عالیہ منہ بناتے ہوۓ کہا۔۔

Sorry everybody...

دراصل میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔۔ سیٹ ہونے میں تھوڑا ٹائم لگ گیا۔۔ حمزہ نے کہا۔۔ 

دو دن لگ گۓ تھے۔۔ اسے اپنے آپ کو سنھبالے میں۔۔ ٹوٹے ہوۓ وجود کو۔۔ دل کو۔۔ اس نے خود ہی جوڑا۔۔ دوسروں کو بتا کر وہ کسی کو بھی پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔ 

اب وہ آیا تھا۔۔ بالکل پہلے والا حمزہ بن کر۔۔ وہی مسکراہٹ۔۔ وہی شیطانی۔۔ بس ایک چیز کم ہو گٸ تھی۔۔ وہ تھی آنکھوں کی چمک۔۔۔

حرم بھابھی کدھر ہے بھٸ۔۔ وہ بولا۔۔ 

ابھی کچھ دیر پہلے آٸ ہے۔۔ بھاٸ کے ساتھ گٸ تھی پاسپورٹ بنوانے۔۔ اپنے کمرے میں ہے میں بلا کر لاتی ہوں۔۔ عالیہ نے اٹھتے ہوۓ کہا۔۔

میں بلا لاتی ہوں۔۔ سیڑھیاں اترتی زیبا بیگم نے کہا۔۔اور واپس اوپر چلی گٸیں۔۔ 

حرم نے عصر کی نماز پڑھنے کے بعد جاۓ نماز اٹھایا ہی تھا کہ اسکے موبائل پر بیل ہوٸ۔۔ یہ موبائل اسے آج ہی فرہاد نے لاکر دیا تھا۔۔ نٸ سم۔۔ سب کے نمبر خود سیو کر دیے تھے۔۔ 

ہیلو۔۔ اسلام علیکم امی۔۔ دوسری طرف صابرہ خاتون تھیں۔۔ 

اور زیبا بیگم کا دروازے پر دستک دیتا ہاتھ رک گیا تھا۔۔پہلے وہ حرم کو نماز پڑھتا دیکھ کر حیران ہوٸ تھیں۔۔ وہ واپس جانے کی بجائے وہیں کھڑی ہو گٸ۔۔ 

جی امی میں ٹھیک ہوں۔۔ جی ہادی بہت اچھے ہیں۔۔ بہت خیال رکھتے ہیں۔۔ 

یہاں سب بہت اچھے ہیں۔۔ عالیہ نتاشہ بھابھی سب ہی۔۔ مما بھی بہت اچھی ہیں۔۔ 

فرہاد اور باقی سب کے دیھکا دیکھی وہ بھی زیبا بیگم کو مما بلانا شروع ہو گٸ تھی۔۔ 

جی بسس آپ لوگوں کی بہت یاد آتی ہے۔۔ حرم کی آواز بھر گٸ۔۔ 

فرہاد بیٹے کی ماں بھی اب تمہاری ماں ہے۔۔انکی عزت کرو۔۔ انہیں بھی ماں سمجھو۔۔ صابرہ خاتون اسے سمجھا رہی تھی۔۔ 

جی جانتی ہوں۔۔ پر ابھی میری مما سے اتنی فرینک نیس نہیں ہوٸ۔۔ لیکن وہ بہت اچھی ہیں۔۔ 

میں خوش قسمت ہوں مجھے ایسے لوگ ملے ہیں۔۔ امی آپ دعا کیجیۓ گا میرے لیۓ۔۔ کہ جان بوجھ کر یا انجانے میں بھی مجھ سے کوٸ ایسی غلطی نا ہو جو اس گھر کے کسی بھی فرد کی دل ازاری کا باعث بنے۔۔ حرم کہہ رہی تھی۔۔ 

دروازہ پر کھڑی زیبا بیگم شرمندہ ہو گٸ۔۔ انہوں نے اس معصوم سی لڑکی کو کتنا غلط سمجھا تھا۔۔ وہ حرم کو کسی اور سے ملاتی رہی۔۔ لیکن وہ تو حرم تھی نا۔۔ کوٸ اور تو نہیں۔ ۔۔
انہی نے دروازے پر دستک دی۔۔ 

ارے مما آپ۔۔ حرم انہیں دیکھ کر حیران ہوٸ۔۔ 

اندر آجاٸیں۔۔ مجھے بلا لیا ہوتا۔۔ میں آجاتی۔۔ اور پلیز آپکو اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ حرم نے پیار سے کہا۔۔ 

میں دیکھنے آٸ تھی میری بیٹی کیا کر رہی ہے۔۔ بس سب سے باتیں ہو جاتی ہیں ایک میں ہی رہ جاتی ہوں۔۔ تو سوچا اب کروں۔۔ زیبا بیگم اپنے رویے کا کفارہ کر رہی تھیں۔۔ 

جی۔۔۔ جی۔۔ کیوں نہیں۔۔ حرم نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کتنی عجیب بات تھی نا اس نے قدم روما شہر کی سرزمین پر رکھے تھے۔۔ اور دھمال وینس شہر کی سر زمین پر پڑ گٸ تھی۔۔ 

اچانک اسکے پاس سے من چلوں کا گاڑی میں موجود ایک ٹولا گزا۔۔ 
انہوں نے ڈھیروں پھول حرم پر پھینکے۔۔ اور اسکے بعد اس بینچ پر موجود جوڑے پر۔۔ شاید وہ سب کا استقبال کر رہے تھے۔۔ وییلنٹاٸن کے دن پر۔۔ اسکی خوشی میں۔۔ 

تھینکس گاٸز۔۔ بینچ پر بیٹھے لڑکے نے چلا کر کہا تھا۔۔ مگر تب تک گاڑی وہاں سے گزر چکی تھی۔۔ 

یہ تھا اسکا روم میں استقبال۔۔ پھولوں۔۔ برف۔۔ اور زندہ دلی کے ساتھ۔۔ 

پہلی چیز جو اس نے آتے ہی وہاں سیکھ لی تھی۔۔ وہ تھی محبت۔۔ 

#روم.. محبت کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔۔ 

Excause me Mam.. 
اچانک اسکے پیچھے سے آواز ابھری۔۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔۔ تو ایک لڑکا ہاتھ میں سفید پھول اور ایک خوبصورت کارڈ لیۓ کھڑا تھا۔۔ 

This is for you.. 

وہ دونوں چیزیں اسے پکڑا کر چلا گیا۔۔ سفید پھول اسکے پسندیدہ تھے۔۔ 

اچھا تو اس لیۓ نہیں آۓ وہ ابھی تک۔۔ یہ لینے گۓ ہونگے میرے لیۓ۔۔ وہ مسکرادی۔۔ پھر اس نے کارڈ کھولا۔۔۔

Welcome to Rome Aish.. 

روما میں سواگت ہے تمہارا #ایش۔۔۔ 

اردو اور انگلش دونوں میں لکھا گیا تھا۔۔ وہ اچنبھے سے دیکھنے لگی۔۔ وہ نام اسکا نہیں تھا۔۔

This is not for me.. 

اس نے مڑ کر کہا مگر تب تک وہ لڑکا جا چکا تھا۔۔ 

پھر اس نے وہ پھول اور کارڈ بینچ پر رکھ دیے۔۔ 

#حرم۔۔ اچانک ایک بار پھر اس کو کسی نے پیچھے سے پکارا۔۔ 

اوو ہادی کہاں رہ گۓ تھے آپ۔۔ حرم نے فرہاد کو دیکھتے ہوۓ کہا۔۔ 

سوری میں تھوڑا لیٹ ہو گیا۔۔ چلیں۔۔ بخش بابا لینے آگۓ ہیں۔۔ 

جی چلیں۔۔۔ حرم نے کہا۔۔ 

اور یہ بکے کس کا ہے۔۔ فرہاد نے پوچھا۔۔ 

پتا نہیں۔۔ غلطی سے کوٸ لڑکا مجھے دے گیا۔۔ 

کوٸ بات نہی۔۔ اب چلو۔۔ فرہاد نے گاڑی کی طرف اشارہ کیا۔۔ 

اور وہ دونوں اس طرف چل دیے۔۔ 

جاری ہے۔۔۔۔۔

    ❤❤❤❤❤❤


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─