┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄
*•▪♡ شمشیرِ بے نیام ♡▪•》*
*حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ*
*( قسط نمبر-67)*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*
*شرجیلؓ بن حسنہ نے خالدؓ بن ولید کو لڑائی کی ساری روئیداد سنائی اور یہ بھی بتایا کہ رومی سالار توما اگر مرا نہیں تو وہ لڑائیکیلئے ناکارہ ہو گیا ہے ۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کی کتنی نفری شہید اور کتنی نفری زخمی ہو گئی ہے۔’’اگر رومیوں نے ایسا ہی ایک اور حملہ کیا تو شاید ہم نہ روک سکیں۔‘‘شرجیلؓ نے خالدؓ سے کہا۔’’مجھے کمک کی ضرورت ہے۔‘‘’’حسنہ کے بیٹے!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ایسا حملہ کسی اور دروازے سے ہم میں سے کسی اور پر بھی ہو سکتا ہے۔کسی بھی دستے کی نفری کم نہیں کی جاسکتی……ابنِ حسنہ!خدا کی قسم، تو ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں تھا۔کیا اپنے اتنے زیادہ ساتھیوں کے خون نے تیرا حوصلہ کمزور کر دیا ہے؟‘‘’’نہیں ابنِ ولید!‘‘شرجیلؓ نے کہا۔’’اگر مجبوری ہے تو میں ایک آدمی کی بھی کمک نہیں مانگوں گا۔‘‘’’میں تجھے تنہا نہیں چھوڑوں گا۔ تفصیل سے پڑھئے*
*‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تجھ پر حملہ ہوا تو ہم دیکھتے رہیں گے، اگر حملہ تیری برداشت سے باہر ہوا تو ضرار تیری مدد کو پہنچے گا۔پھر بھی ضرورت پڑی تو میں آجاؤں گا……تیرے پاس جتنی بھی نفری رہ گئی ہے اسے تیار رکھ۔ رومیوں کے سالار کو اگر آنکھ میں تیر لگا ہے تو ایک دو دن رومی باہر آکر حملہ نہیں کریں گے۔‘‘خالدؓ کی رائے صحیح نہیں تھی،توما نے ایک معجزہ کر دکھایا تھا۔وہ صحیح معنوں میں جنگجو تھا۔چونکہ وہ شاہی خاندان کافرد تھا، اس لیے سلطنتِ روم کی جو محبت اس کے دل میں تھی وہ قدرتی تھی۔بعد میں پتا چلا تھا کہ اس کی آنکھ میں تیر لگا تو اسے اٹھا کر اندر لے گئے۔جراح نے دیکھا کہ تیر اتنا زیادہ اندر نہیں اترا کہ توما کی ہلاکت کا باعث بن جائے۔کھوپڑی کی ہڈی کو تیر نے مجروح نہیں کیا تھا۔یہ صرف آنکھ میں اترا لیکن نکالا نہیں جا سکتا تھا۔*
*’’کاٹ دو اسے!‘‘توما نے جراح سے کہا۔’’باقی اندر ہی رہنے دو،اور اس آنکھ پر پٹی باندھ دو،دوسری آنکھ پر پٹی نہ آئے۔میں آج رات ایک اور حملہ کروں گا۔‘‘’’سالارِ اعلیٰ!‘‘جراح نے کہا۔’’کیا کہہ رہے ہیں آپ؟آپ لڑائی کے قابل نہیں۔‘‘’’اس ایک آنکھ کے بدلے مسلمانوں کی ایک ہزار آنکھیں ضائع کروں گا۔‘‘توما نے کہا۔’’میں انہیں صرف شکست نہیں دوں گا، میں ان کے وطن عرب تک ان کا تعاقب کروں گا۔میں اپنے کام کو اس وقت مکمل سمجھوں گا جب ان کے ملک کو اس قابل رہنے دوں گا کہ وہاں صرف جانور رہ جائیں گے۔‘‘توما کے یہ الفاظ متعدد مؤرخوں نے لکھے ہیں اور واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے۔ان میں یورپی تاریخ دان ہنری سمتھ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ان سب کی تحریروں کے مطابق توما کے حکم سے جراح نے تیر آنکھ کے قریب سے کاٹ دیااور اوپر پٹی کس کر باندھ دی۔یہ جذبے اور عزم کی پختگی کا کرشمہ تھا کہ تومانے اتنے شدید زخم کو برداشت کر لیا اور حکم دیا کہ آج ہی رات باہر نکل کر مسلمانوں پر حملہ کیا جائے گا۔’’اتنی ہی فوج بابِ توما کے سامنے اکٹھی کی جائے جتنی میں دن کے حملے میں لے کر گیا تھا۔‘‘توما نے حکم دیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔چلتے چلتے اس نے شراب پی اور ہتھیار بند ہو کر باہر نکل گیا۔*
*اُن راتوں کو چاند پورا ہوتا تھا۔فضاء صاف رہتی تھی۔اس لئے چاندنی شفاف ہوتی تھی۔توما نے بڑا اچھا طریقہ اختیار کیا۔اس نے اپنے تمام دستوں کے کمانڈروں کو حکم دیا کہ تین اور دروازوں بابِ صغیر، بابِ شرق، اور بابِ جابیہ۔سے باہر جا کر مسلمانوں پر اس طرح حملے کریں کہ اپنے آپ کو لڑائی میں اتنا زیادہ نہ الجھائیں بلکہ انہیں اپنے ساتھ لڑائی میں مصروف رکھیں، وہ خود بڑا حملہ بابِ توما سے کر رہا تھا۔دوسرے دروازوں سے حملے کرانے سے اسکا مطلب یہ تھا کہ شرجیلؓ کو کسی طرف سے مدد نہ مل سکے۔’’تمہارا دشمن اس وقت حملے کی توقع نہیں رکھتا ہوگا۔‘‘توما نے اپنے نائب سالاروں سے کہا۔’’تم انہیں سوتے میں دبوچ لو گے۔‘‘توما کی فوج چار دروازوں سے باہر نکلی۔وقت آدھی رات کا تھا۔چاندنی اتنی صاف تھی کہ اپنے پرائے کو پہچانا جا سکتا تھا، مسلمانوں پر چار جگہوں سے حملے ہوئے،ایک دروازے کے سامنے سالار ابو عبیدہؓ تھے، دوسرے کے سامنے یزیدؓ بن ابو سفیان تھے، ابو عبیدہؓ نے رومیوں کو جلدی بھگا دیا اور رومی قلعے میں واپس چلے گئے۔یزیدؓ بن ابو سفیان کی حالت کمزور سی ہو گئی۔رومیوں نے ان پر بڑا ہی شدید ہلہ بولا تھا۔یزیدؓ نے مقابلہ تو کیا لیکن رومی ان پر حاوی ہوتے جا رہے تھے ۔ضرار بن الازور مدد دینے کے کام پر معمور تھے ۔انہیں پتا چلا کہ یزیدؓ کو مدد کی ضرورت ہے تو وہ دو ہزار سوار اور پیادہ مجاہدین کے ساتھ یزیدؓ کے پاس پہنچ گئے۔ضرار کی جسمانی حالت لڑنے کے قابل نہیں تھی،ان کے بازو میں تیر لگا تھا اور جسم پر دو تین اور گہرے زخم تھے۔پھر بھی وہ میدانِ جنگ میں موجود تھے اور ان کی برچھی پورا کام کر رہی تھی۔ضرار نے اپنی اور یزیدؓ کی فوج کو ملا کر حملے کا حکم دیا۔یہ بڑا ہی شدید حملہ تھا،رومیوں پر ایسا رعب طاری ہوا کہ وہ قلعے میں واپس چلے گئے۔ان کی لاشیں اور زخمی پیچھے رہ گئے۔تیسرے دروازے کے سامنے رافع بن عمیرہ کے دستے تھے۔ان پر بھی رومیوں نے شدید حملہ کیا اور رافع کے پاؤں اکھاڑ دیئے۔مسلمان بڑی بے خوفی سے لڑرہے تھے لیکن رومیوں کا دباؤ بڑا سخت تھا۔اتفاق سے خالدؓ نے دیکھ لیا اور وہ چار سو سواروں کو ساتھ لے کر رافع کے پاس پہنچے۔’’میں فارس جلیل ہوں!‘‘خالدؓ نے نعرہ لگایا۔’’میں خالد ابنِ ولید ہوں۔‘‘خالدؓ نے رومیوں پر صرف چار سو سواروں سے حملہ کر دیا۔رومی جو رافع کے دستوں پر غلبہ پا رہے تھے ، پیچھے کو دوڑ پڑے، اور دروازے میں داخل ہو کر دروازہ بند کر دیا۔*
*اصل لڑائی تو بابِ توماکے سامنے ہو رہی تھی۔توما نے خود وہاں حملہ کیا تھا۔شرجیلؓ کی نفری تھوڑی تھی۔مجاہدین کی تعداد کم رہ گئی تھی،اور وہ دن کی لڑائی کے تھکے ہوئے بھی تھے ۔شرجیلؓ نے اب بھی پہلوؤں کے تیر اندازوں کو استعمال کیا ۔رومی تیر کھا کھاکر گرتے تھے*
*لیکن حملے کیلئے آگے بڑھے آرہے تھے۔شرجیلؓ نے دن کے حملے میں توما کی گرجدار آواز سنی تھی، انہوں نے رات کو بھی اسی آواز کی للکار سنی تو وہ حیران رہ گئے کہ توما حملے کی قیادت کر رہا ہے۔یہی وجہ تھی کہ رومی تیروں کی بوچھاڑوں میں بھی آگے بڑھے آرہے تھے۔چاندنی رات میں دونوں فوجوں کی بڑی سخت ٹکر ہوئی۔شرجیلؓ کے مجاہدین نے حملہ روک لیا اور بڑی خونریز لڑائی ہوتی رہی۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ لڑائی کم و بیش دو گھنٹے جاری رہی اور وہ دونوں فوجوں کے آدمی گرتے رہے۔شرجیلؓ کو کسی طرف سے بھی مدد ملنے کی توقع نہیں تھی۔ لڑائی شدت اختیار کرتی گئی۔شرجیلؓ کو توما کی آواز حیران کر رہی تھی، اور توما شرجیلؓ کو ڈھونڈ رہا تھا۔اس کی دلیری غیر معمولی تھی۔اسے چاندنی میں مسلمانوں کا پرچم نظر آگیا، اور وہ شرجیلؓ کو للکار کر ان کی طرف بڑھا۔شرجیلؓ اس کے مقابلے کیلئے تیار ہو گئے۔*
*’’ایک آنکھ کے بدلے ایک ہزار آنکھیں لوں گا۔‘‘توما نے کہا۔’’خدا کی قسم!تو دوسری آنکھ بھی دینے آیا ہے۔‘‘شرجیلؓ نے کہا۔دونوں آمنے سامنے آگئے،اور دونوں گھوڑوں سے اترآئے۔دونوں کے ہاتھوں میں تلواریں اور ڈھالیں تھیں اور دونوں تیغ زنی کے ماہر تھے۔شرجیلؓ کو توقع تھی کہ توما کی ایک ہی آنکھ ہے اور اس کی دوسری آنکھ بھی زخمی ہے اس لیے وہ لڑ نہیں سکے گالیکن وہ پوری مہارت سے لڑ رہا تھا۔شرجیلؓ کو یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ تیر ابھی توما کی آنکھ میں ہی ہے۔شرجیلؓ کا ہر وار توما بچا جاتا تھا، اور توما کا ہر وار شرجیلؓ بچا رہے تھے۔شرجیلؓ نے ایک وار بڑا ہی زور دار کیا، ان کی تلوار پہلے توما کی آہنی خود پر لگی، اور وہاں سے پھسل کر کندھے پر لگی جہاں آہنی زرہ تھی۔اتنا زور دار وار لوہے پر پڑا تو تلوار ٹوٹ گئی۔توما نے للکار کر وار کیا، جو شرجیلؓ نے ڈھال پر لیا۔وہ اب تلوار کے بغیر تھے ،وار صرف روک سکتے تھے۔توما بڑھ بڑھ کر وار کر رہا تھا۔شرجیلؓ کے دو مجاہدین نے دیکھ لیا کہ شرجیلؓ تلوار کے بغیر خطرے میں ہیں تو وہ شرجیلؓ اور توما کے درمیان آگئے۔شرجیلؓ نے اِدھر اُدھر دیکھا،وہ کسی کی تلوار ڈھونڈ رہے تھے ۔کچھ دور انہیں اپنے ایک شہید مجاہد کی لاش کے قریب اس کی تلوار پڑی نظر آئی۔انہوں نے دوڑ کر تلوار اٹھا لی اور واپس آئے لیکن توما وہاں نہیں تھا،شرجیلؓ نے اپنے دونوں مجاہدین سے پوچھا کہ توما کہاں ہے؟انہوں نے بتایا کہ وہ پیچھے ہٹتے ہٹتے لڑائی کے ہنگامے میں گم ہو گیا ہے۔انہوں نے اسے گھوڑے پر سوارہوتے دیکھا تھا۔*
*شرجیلؓ کے اعصاب پر بڑا تکلیف دہ دباؤتھا۔انہیں پوری طرح یقین نہیں تھا کہ وہ رومیوںکو شکست دے سکیں گے۔لڑنے میں شرجیلؓ اور ان کے دستے نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔انہوں نے چند سو سواروں کو الگ کرکے پہلو سے رومیوں پر ایک زور دار ہلّہ بولا۔کچھ تو اس ہلّے نے کام کیا،کچھ رومی مایوس ہو گئے اور وہ پیچھے ہٹنے لگے،رومیوں میں یہ خوبی تھی کہ وہ بے ترتیب ہو کر نہیں بھاگتے تھے بلکہ ترتیب اور تنظیم سے پیچھے ہٹتے تھے۔شرجیلؓ نے انہیں پیچھے ہٹتے دیکھا تو ان کے پیچھے نہ گئے کیونکہ مسلمانوں کی نفری تھوڑی رہ گئی تھی۔شرجیلؓ خطرہ مول لینا نہیں چاہتے تھے،پیچھے جانے کے بجائے انہوں نے تیراندازوں کو آگے کرکے پیچھے ہٹتے ہوئے رومیوں پر تیروں کا مینہ برسا دیا۔رومی اپنی لاشوں اور زخمیوں کو پیچھے چھوڑتے،دروازے میں جا کر غائب ہو گئے۔رومی جس دروازے سے بھی باہرآئے تھے وہ لاشیں اور زخمی پھینک کر اُسی دروازے سے اندر چلے گئے۔سب سے بڑا حملہ توما نے کیا تھا وہ بھی ناکام رہا۔اگر بات ناکامی تک ہوتی تو رومی ایسے حملے پھر بھی کر سکتے تھے لیکن انہیں جو جانی نقصان اٹھانا پڑاوہ ان کی برداشت سے باہر تھا۔ان کی نفری پہلے ہی کچھ اتنی زیادہ نہیں تھی اور اب تو آدھی رہ گئی تھی،توما کیلئے ایک دشواری یہ پیدا ہو گئی کہ جب شہر پناہ کے دروازے بند ہو گئے اور توما شہر میں آکر رکا تو کئی شہریوں نے اسے گھیر لیا۔’’سالارِ معظم!‘‘ایک آدمی نے کہا۔’’ہم سلطنتِ روم کے وفادار ہیں۔ہم نہیں چاہتے کہ روم کی شہنشاہی کو مزید نقصان پہنچے۔ہم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ صلح کی بات کی جائے۔‘‘’’شہریوںمیں جو بے چینی اور بد امنی پھیل چکی ہے اسے آپ نہیں دیکھ رہے۔‘‘ایک اور نے کہا۔’’فوج جو نقصان اٹھا چکی ہے وہ آپ کے سامنے ہے اور آپ خود بھی زخمی ہیں، خطرہ ہی ہے کہ شہری جو اب نیم فاقہ کشی تک پہنچ گئے ہیں اپنی ہی فوج کیلئے نقصان کا باعث بن جائیں گے۔‘‘توما جابر قسم کا سالار تھا۔اس کی دلیری اور عزم کی پختگی میں کوئی شک نہیں تھا لیکن اس کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ جو شہری اس کے ساتھ بات کرتا تھا وہ اس شہری کی طرف دیکھنے لگتا تھا۔یہ وہ توما تھا جو کسی کی بات برداشت نہیں کرتا تھا۔اس کے چہرے کے تاثرات میں شکست صاف نظر آرہی تھی۔اس نے اپنی اس آنکھ پر ہاتھ رکھ لیا جس کے اندر تیر کا ایک ٹکڑا موجود تھااور اوپر پٹی بندھی ہوئی تھی۔صاف پتا چلتا تھا کہ اسے یہ زخم پریشان کر رہا ہے۔’’مجھے سوچنے دو۔‘‘اس نے ہاری ہوئی آواز میں کہا۔’’میں صلح کر لوں گا لیکن کوئی ایسی شرط نہیں مانوں گا جو روم کی شہنشاہی کی تذلیل کا باعث بنے۔‘‘*
*جزاکم اللہ خیرا*
*جاری
*اسلامک ہسٹری*
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─