┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

*《•▪♡ شمشیرِ بے نیام ♡▪•》*

*حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ*

*( قسط نمبر-66)*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*تم نہ کہتے تو بھی ہم اس بستی کی طرف دیکھنا گوارا نہ کرتے۔‘‘ایک مسلمان سوار نے کہا۔’’ان لوگوں سے کہو کہ ہم سے نہ ڈریں، ہم تم سب کے محافظ ہیں،ہم پانی پی کر چلے جائیں گے۔‘‘دونوں عربوں نے بستی کے لوگوں سے کہا کہ وہ ڈریں نہیں اور اپنے گھروں میں رہیں۔ان عربوں نے سواروں کو اور ان کے گھوڑوں کو پانی پلایا،اور اس دوران وہ سواروں کے ساتھ باتیں بھی کرتے رہے۔باتوں باتوں میں ان عربوں نے سواروں کو بتایا کہ ایک گھوڑے پر رومیوں نے ایک آدمی کو باندھ رکھا تھااس کا سر ننگا تھا اور اس کی قمیض بھی نہیں تھی اور اس کے ایک بازو پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔’’اسے انہوں نے یہاں پانی پلانے کیلئے روکا تھا۔‘‘ایک عرب نے بتایا۔’’وہ تمہارا ساتھی معلوم ہوتا تھا۔‘‘مسلمان سواروں کو شک نہ رہا۔یہ ضرار تھے۔سواروں نے ان عربوں سے مزید معلومات لیں۔ضرار کے ساتھ تقریباً ایک سو رومی تھے۔وہ رومی لشکر کی پسپائی سے بہت پہلے وہاں سے گزرے تھے اور وہ حمص کی طرف جا رہے تھے۔مسلمان سواروں نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ وہ پیچھے جاکر سپہ سالار کو ضرار بن الازور کے متعلق یہ اطلاع دے۔’’الحمدﷲ!‘‘خالدؓ نے یہ خبر سن کر کہا۔’’ضرار زندہ ہے اور وہ زندہ رہے گا۔انہوں نے اسے قتل کرنا ہوتا تو کر چکے ہوتے۔وہ اسے اپنے بادشاہ کے پاس لے جا رہے ہیں……ابنِ عمیرہ کو بلاؤ۔‘‘رافع بن عمیرہ آئے تو خالدؓ نے انہیں ضرار کے متعلق جو اطلاع ملی تھی، پوری سنا کرکہا کہ وہ ایک سو سوار چن لیں جو جان پر کھیلنے والے شہسوار ہوں،انہیں ساتھ لے کر حمص کی طرف ایک ایسا راستہ اختیار کریں جو راستہ نہ ہو۔مطلب یہ تھا کہ راستہ چھوٹا کرکے حمص کی طرف جائیں اور ان ایک سو رومیوں کو روکیں، اور ابن الازور کو رہا کرائیں۔رافع جب سواروں کا انتخاب کر رہے تھے تو ضرار کی بہن کو پتا چل گیا کہ رافع ضرار کو آزاد کرانے جا رہے ہیں،وہ رافع کے پاس دوڑی گئیں اور کہنے لگیں کہ وہ بھی ان کے ساتھ جائیں گی۔’’نہیں بنت الازور!‘‘رافع نے کہا۔’’خدا کی قسم!جو کام ہمارا ہے، وہ ہم ایک عورت سے نہیں کرائیں گے۔تجھے تیرا بھائی چاہیے۔وہ تمہیں مل جائے گا۔نہیں ملے گا تو ہم بھی واپس نہیں آئیں گے۔‘‘’’میں اگر سپہ سالار سے اجازت لے لوں!‘‘’’ابنِ ولید تجھے اجازت نہیں دے گا الازور کی بیٹی!‘‘رافع نے کہا۔خولہ مایوس ہو گئیں۔رافع چنے ہوئے ایک سو سواروں کے ساتھ بڑی عجلت سے روانہ ہوگئے۔انہوں نے حمص کی طرف جانے والے راستے کا اندازہ کر لیا تھا۔وہ اس راستے سے دور دور تیز رفتار سے گھوڑے دوڑاتے گئے، وہ زیادہ دور نہیں گئے ہوں گے کہ ایک طرف سے ایک گھوڑا سر پٹ دوڑتا آ رہا تھا۔وہ رومی نہیں ہو سکتا تھا،رومی ہوتا تو اکیلا نہ ہوتا۔وہ خالدؓ کا قاصد ہو سکتا تھا ، کوئی نیا حکم لایا ہوگا۔وہ قریب آیا تو اس کا سبز عمامہ اور چہرے پر کپڑے کا نقاب نظر آیا۔’’ابنِ عمیرہ!‘‘سوار نے للکار کر کہا۔’’اپنے بھائی کو آزاد کرانے کیلئے میں آگئی ہوں۔‘‘*
*’’کیا سپہ سالار نے تجھے اجازت دے دی ہے؟‘‘رافع نے پوچھا۔’’اپنے بھائی کو قید سے چھڑانے کیلئے مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔‘‘خولہ بنت الازور نے کہا۔’’اگر تو مجھے اپنے سواروں میں شامل ہونے نہیں دے گا تو میں اکیلی آگے جاؤں گی۔‘‘’’خدا کی قسم بنتِ الازور!‘‘رافع نے کہا۔’’میں تجھے اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔آہمارے ساتھ چل۔‘‘یہ جواں سال عورت ساتھ چل پڑی۔ایک سو رومی سوار ضرار بن الازور کو گھوڑے پر اس حالت میں بٹھائے لے جا رہے تھے کہ ان کے ہاتھ رسیوں سے بندھے ہوئے تھے اور پاؤں اس طرح بندھے ہوئے تھے گھوڑے کے پیٹ کے نیچے سے رسی گزار کر دونوں ٹخنوں سے بندھی ہوئی تھی۔رومی ان پر پھبتیاں کستے اور ان کا مذاق اڑاتے جا رہے تھے، اور ضرار چپ چاپ سنتے جا رہے تھے،ایک جگہ راستہ نشیب میں چلا جاتا تھا، اس کے دائیں بائیں علاقہ کھڈوں کا تھا،جب رومی اس نشیب میں سے گزر رہے تھے تو اچانک دائیں بائیں، آگے اور پیچھے سے رافع کے سواروں نے ان پر ہلہ بول دیا۔رومیوں کیلئے یہ حملہ غیر متوقع تھا۔وہ اس طرح جا رہے تھے جیسے میلے پر جا رہے ہوں۔ضرار کی بہن خولہ نے اپنے بھائی کو دیکھا تو اس نے رومیوں پر اس طرح حملے شروع کر دیئے جس طرح وہ پوری رومی فوج پر کر چکی تھی۔رافع بھی ایسے ہی جوش میں تھے۔ان کے سوار ہزاروں میں سے چنے ہوئے تھے۔انہوں نے رومیوں کا ایسا برا حال کر دیا کہ ان میں سے جو مرے نہیں یا زخمی نہیں ہوئے تھے بھاگ اٹھے۔خطرہ یہ تھا کہ رومی ضرار کو قتل کردیں گے۔ان کی بہن تلوار اور برچھی چلاتی ضرار تک پہنچ گئی،رومیوں نے ان کی یہ کوشش کامیاب نہ ہونے دی لیکن رافع نے ایسا ہلہ بولا کہ رومی سوار بکھر گئے۔پھر فرداً فرداً بھاگ اٹھے۔سب سے پہلے ضرار نے رافع سے ہاتھ ملایااور جب بہن بھائی ملے تو وہ منظر رقت انگیز بھی تھا اور ولولہ انگیز بھی۔بہن اپنے بھائی کے زخم دیکھنے کو بیتاب تھی۔بعض مؤرخوں نے خولہ کے یہ الفاظ لکھے ہیں:’’میرے عزیز بھائی!میرے دل کی تپش دیکھ ، کس طرح ترے فراق میں جل رہا ہے۔‘‘’’اپنے زخم دکھاؤ ضرار!‘‘بہن نے بیتابی سے کہا۔’’مت دیکھو خولہ!‘‘ضرار نے بہن سے کہا۔’’اور یہ زخم مجھے بھی نہ دیکھنے دو۔یہ زخم دیکھنے کا وقت نہیں۔‘‘ضرار نے رافع اور ان کے سواروں سے کہا۔’’چلو دوستو!رومی کہاں ہیں؟دمشق کے محاصرے کا کیا بنا؟‘‘*
*رومی لڑ بھی رہے تھے اور پسپا بھی ہو رہے تھے۔یہ ان کی تنظیم بھی تھی اور جرات بھی کہ وہ بھاگ نہیں رہے تھے۔ایک ایسی جگہ آگئی جس کے دونوں طرف چٹانیں اور کچھ بلند ٹیکریاں تھیں۔رومی لشکر کو سکڑنا پڑا۔خالدؓ نے اپنے دونوں پہلوؤں کے سالاروں سے کہا کہ وہ چٹانوں کی دوسری اطراف میں نکل جائیں،اور سر پٹ رفتار سے رومیوں کے عقب میں چلے جائیں۔رومی نہ دیکھ سکے کہ چٹانوں کے پیچھے سے ان پر کیا آفت ٹوٹنے والی ہے۔خالدؓ نے تعاقب کی رفتار کم کر دی۔رومی سمجھے ہوں گے کہ مسلمان تھک گئے ہیں۔انہوں نے پسپائی روک لی۔خالدؓ نے اپنے دستوں کو روک لیا۔*
*اچانک عقب سے رومیوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔سامنے سے خالدؓ نے شدید حملہ کر دیا۔رومیوں کی یہ حالت ہو گئی کہ وہ گھوڑوں کو چٹانوں اور ٹیکریوں پر چڑھالے گئے،اور دوسری طرف اتر کر بھاگنے لگے۔توقع یہ تھی کہ رومی رسد وغیرہ کا جو ذخیرہ ساتھ لا رہے تھے وہ مسلمانوں کے ہاتھ آجائے گا۔لیکن رومیوں نے گھوڑا گاڑیوں اور اونٹوں کو پہلے ہی حمص روانہ کر دیا تھا۔حمص کی طرف جانے والی رہگزر پر رومیوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔زخمی تڑپ اور کراہ رہے تھے۔ان کے گھوڑے اِدھر اُدھر آوارہ پھر رہے تھے۔مجاہدین نے حکم ملتے ہی اپنے ساتھیوں کی لاشیں اور زخمیوں کو اٹھانا، زخمی اور مرے ہوئے رومیوں کے ہتھیاروں کو اکٹھا اور ان کے گھوڑوں کو پکڑنا شروع کر دیا۔’’کاش!میرے پیچھے دمشق نہ ہوتا۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’میں دشمن کے ایک آدمی کو بھی دمشق تک نہ پہنچنے دیتا۔‘‘خالدؓ نے تعاقب ترک کر دیا۔لیکن اس خطرے کے پیشِ نظر کہ رومی کہیں اکٹھے یا حمص سے کمک منگوا کرواپس نہ آجائیں۔اپنے ایک سالار سمط بن الاسود کو بلایا۔’’ایک ہزار سوار اپنے ساتھ لو اور رومیوں کے پیچھے جاؤ۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’انہیں کہیں اکٹھے نہ ہونے دینا۔جنگی قیدی نہیں لینے۔جو سامنے آئے اسے ختم کرو۔فوراً روانہ ہو جاؤ۔‘‘’’ولید کے بیٹے!‘‘خالدؓ کو کسی کی پکار سنائی دی۔’’وہ آگیا میرا ننگا جنگجو!‘‘خالدؓ نے ضرار کو آتے دیکھ کر نعرہ لگایا۔ضرار کو اپنے زخموں کی پرواہ نہیں تھی، وہ گھوڑے سے کود کر اترے۔خالدؓ بھی کود کر اترے اور تاریخِ اسلام کے دو عظیم مجاہد ایک دوسرے کے بازوؤں میں جکڑ گئے۔خولہ گھوڑے پر سوار تھی۔اس کا چہرہ نقاب میں تھا۔صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔جن کی چمک اور زیادہ روشن ہو گئی تھی۔*
*’’خدا کی قسم ابن الازور!‘‘خالدؓنے کہا۔’’تیری بہن نے تیری خاطر میرا بھی منہ پھیر دیا تھا۔‘‘’’اس بہن پر اﷲکی رحمت ہو۔‘‘ضرار نے کہا۔’’تو مجھے بتا میں کیا کروں؟‘‘’’کیا تو محسوس نہیں کر رہا کہ تجھے آرام کرنا چاہیے؟‘‘خالدؓ نے کہا۔’’پہلے جرّاح کے پاس جا، اور اسے اپنے زخم دِکھا۔‘‘ضرار بن الازور جراح کے پاس تو چلے گئے لیکن صرف پٹیاں بندھوا کر واپس آگئے۔سالار سمط بن الاسود رومیوں کے تعاقب میں گئے۔رومی بری طرح بھاگے جا رہے تھے ان کی آدھی نفری تو لڑائی اور پسپائی میں ختم ہو گئی تھی اور باقی نصف بکھر گئی تھی۔سمط جب حمص کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ رومی حمص کے قلعے میں داخل ہونے جا رہے ہیں۔اس دور میں حمص ایک قلعہ بند قصبہ ہوا کرتا تھا۔سمط وہاں جا کر رُک گئے۔انہیں معلوم نہیں تھا کہ قلعہ کے اندر کتنی فوج ہے، پھر بھی انہوں نے اپنے ہزار سواروں کو قلعے کے اردگرد اس انداز سے دوڑایا جیسے وہ محاصرہ کرنا یا قلعے پر حملہ کرنا چاہتے ہوں۔قلعے کا دروازہ کھلا اور تین چار آدمی جو فوجی نہیں تھے باہر آئے۔وہ رومی نہیں مقامی باشندے تھے۔سالار سمط بن الاسود نے انہیں اپنے پاس بلایا۔*
*’’کیوں آئے ہو؟‘‘سمط نے پوچھا۔’’امن اور دوستی کا پیغام لے کر آئے ہیں۔‘‘ایک نے کہا۔’’رومی مزید لڑائی نہیں چاہتے۔‘‘’’کیا تمہارا شہنشاہ ہرقل بھی مزید لڑائی نہیں چاہتا؟‘‘سمط نے پوچھا۔’’ہم شہنشاہِ روم کی ترجمانی نہیں کر سکتے۔‘‘حمص کے ایک شہری نے کہا۔’’ہم یہ پیہغام لائے ہیں کہ حمص والے نہیں لڑنا چاہتے۔آپ جس قدر سامانِ خوردونوش چاہتے ہیں ہم سے لے لیں۔آپ جتنے دن بھی یہاں قیام کرنا چاہتے ہیں کریں۔آپ کی فوج اور گھوڑوں کو خوراک ہم مہیا کریں گے۔‘‘کسی بھی تاریخ میں نہیں لکھا کہ سالار سمط نے حمص میں رومیوں سے صلح کی کیا شرائط منوائی تھیں۔وہ واپس آگئے۔خالدؓ اپنے لشکر کے ساتھ دمشق جا چکے تھے۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ خالدؓ جب دمشق پہنچے تو شہر کے اندر مایوسی اور خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی۔شہر والوں کو پہلے یہ اطلاع ملی تھی کہ انطاکیہ سے کمک اور رسد آرہی ہے۔اب انہیں اطلاع ملی کہ کمک کو مسلمانوں نے راستے میں ختم کر دیا ہے۔دمشق میں رومی سالار توما تھا جو شہنشاہِ ہرقل کا داماد تھا۔چند ایک شہری وفد کی صورت میں توما کے پاس گئے۔’’کیا آپ کو کسی نے بتایا ہے کہ لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں؟‘‘ایک شہری نے کہا۔’’کیا تم لوگ یہ نہیں جانتے کہ یہ بزدلی ہے؟‘‘توما نے کہا۔’’ہم نے ابھی محاصرہ توڑنے کی کاروائی کی ہی نہیں،کیا تم لوگ مجھے یہ مشورہ دینے آئے ہو کہ میں مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال دوں؟‘‘’’ہم سالارِ معظم کو شہر کی صورتِ حال بتانے آئے ہیں۔‘‘وفد کے ایک اور آدمی نے کہا۔’’شہر کے لوگ یہ سن کے ہراساں ہیں کہ جس فوج نے محاصرہ کر رکھا ہے اور ہماری کمک کو بھی ختم کر دیا ہے وہ اس شہر میں بھی داخل ہو جائے گی پھر گھر ہمارے لوٹے جائیں گے بچے ہمارے کچلے جائیں گے،اورلڑکیاں ہماری اٹھائی جائیں گی۔‘‘’’ہم یہاں تک نوبت نہیں آنے دیں گے۔‘‘سالار توما نے کہا۔’’سالارِ معظم!‘‘ایک اور شہری نے کہا۔’’آپ کو یقیناً معلوم ہو گا کہ نوبت کہاں تک پہنچ چکی ہے۔شہر میں خوراک کی اتنی کمی رہ گئی ہے کہ لوگوں نے دوسرے وقت کا کھانا چھوڑ دیا ہے، دو تین دنوں بعد صرف پانی رہ جائے گا۔غور کریں۔لوگ فاقہ کشی سے تنگ آکر بغاوت بھی کرسکتے ہیں۔یہ صورت سلطنتِ روم کیلئے اچھی نہیں ہوگی۔‘‘*
*’’کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ بغاوت کی سزا کیا ہے ۔‘‘توما نے شاہی رعب سے کہا۔*
*’’ہم جانتے ہیں سالارِ اعلیٰ!‘‘وفد کے ایک آدمی نے کہا۔’’ہم آپ کوقحط اور اس سے پیدا ہونے والی بغاوت کے نتائج بتانے آئے ہیں، کیا اس تباہی سے اور لوگوں کو بھوکا مارنے سے بہتر نہ ہوگا کہ آپ مسلمانوں سے صلح کر لیں؟‘‘’’دشمن سے صلح کا مطلب ہوتا ہے ہتھیار ڈالنا۔‘‘توما نے کہا۔’’میں لڑے بغیر کوئی ایسا فیصلہ نہیں کروں گا جو روم کی عظیم سلطنت کی توہین کا باعث ہو۔ہم اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں اور تم لوگ ایک وقت کی بھوک برداشت نہیں کر سکتے……جاؤ۔کل تک انتظار کرو۔‘‘وہ ستمبر ۶۳۴ء کے تیسرے ہفتے کی ایک صبح تھی۔رومی سالار توما نے شہر کے ہر دروازے کی حفاظت کیلئے جو دستے متعین کیے ہوئے تھے ، ان سب میں سے زیادہ سے زیادہ نفری نکال کر اکٹھی کی، اور وہ دروازہ کھلوایا جو اس کے اپنے نام سے موسوم تھا۔بابِ توما۔ اور اپنی قیادت میں مسلمانوں کے اس دستے پر حملہ کر دیا جو اس دروازے کے سامنے متعین تھا۔یہ پانچ ہزارمسلمان سواروں کا دستہ تھا۔جس کے سالار شرجیلؓ بن حسنہ تھے۔توما کے حملے کا انداز آج کے دور کی جنگ کا سا تھا۔اس نے دیوار اور بُرجوں سے مسلمانوں پر تیروں کی بوچھاڑیں مارنی شروع کیں اور اس کے ساتھ فلاخنوں سے سنگ باری کی۔تیروں اور پتھروں کے سائے میں توما نے اپنی فوج کو تیز حملے کیلئے آگے بڑھایا تھایہ طریقہ کارگر تھا۔مسلمان پیچھے ہٹنے پر مجبور نظر آنے لگے تھے اور ان کا دھیان تیروں اور پتھروں سے بچنے میں لگ گیا تھا۔’’کوئی پیچھے نہیں ہٹے گا۔‘‘سالار شرجیلؓ نے چلّا کر کہا۔’’تمام تیر انداز آگے ہو جاؤ۔‘‘مسلمان تیر اندازوں نے جوابی تیر اندازی شروع کر دی۔رومیوں کے پتھر اور تیر چونکہ اوپر سے آرہے تھے اور زیادہ بھی تھے اس لیے مسلمانوں کا نقصان زیادہ ہو رہا تھا۔پہلی بوچھاڑوں میں کئی مسلمان شہید ہو گئے۔ان کے تیروں نے رومیوں کا کچھ نقصان کیا لیکن یہ مسلمانوں کے مقابلے میں کم تھا۔مؤرخ واقدی، طبری اور ابو سعید نے ایک واقعہ بیان کیا ہے، رومی تیروں سے شہید ہونے والوں میں ایک مجاہد ابان بن سعید بھی تھے جن کا پورا نام ابان بن سعید بن العاصؓ تھا۔فوراً ہی ابان کی شہادت کی خبر پیچھے ان خیموں تک پہنچ گئی جن میں مسلمان خواتین اور بچے تھے۔ابان بن سعید کی بیوی بھی وہیں تھیں۔ان کی شادی ہوئے چند ہی دن گزرے تھے۔یہ خاتون لشکر کے ساتھ زخمیوں کی دیکھ بھال اور پانی پلانے کے فرائض کیلئے آئی تھیں،اور محاذ پر ہی اسے ابان شہید نے اپنے عقد میں لے لیا۔کسی بھی مؤرخ نے اس خاتون کا نام نہیں لکھا،اسے پتا چلا کہ اس کا خاوند شہید ہو گیا ہے تو وہ اٹھ دوڑی اور شرجیلؓ کے دستے میں جا پہنچی*
*’’کہاں ہے میرے خاوندکی لاش؟‘‘وہ چلّانے لگی۔’’کہاں ہے سعید کے بیٹے کی لاش؟‘‘پانچ ہزار گھوڑ سواروں میں جن پر تیر اور پتھر برس رہے تھے ، ابان بن سعید شہید کی بیوہ دوڑتی اور شہید کی لاش کا پوچھتی پھرتی تھی۔کسی نے اسے پیچھے جانے کوکہا اور یہ بھی کہ اس کے خاوند کی لاش اس کے پاس بھیج دی جائے گی لیکن وہ تو صدمے سے دماغی توازن کھو بیٹھی تھی۔کسی نے اسے وہ جگہ دِکھادی جہاں ابان کی لاش پڑی تھی۔ابھی لاشیں نہیں اٹھائی جا سکتی تھیں،ابان تیر انداز تھے۔ان کے جسم میں تین تیر اترے ہوئے تھے،اور وہ گھوڑے سے گر پڑے تھے۔ان کی کمان لاش کے قریب پڑی تھی اور ترکش میں ابھی کئی تیر موجود تھے۔ان کی بیوی نے کمان اور ترکش اٹھائی اور دوڑ کر تیر اندازوں کی صف میں جا پہنچی۔سامنے دیوار پر ایک پادری کھڑا تھا۔اس کے ہاتھ میں ایک بڑے سائز کی صلیب تھی،جو اس نے اوپر کر رکھی تھی۔یہ اس دور کا رواج تھا کہ صلیب فوج کے ساتھ رکھتے تھے تاکہ فوج کا یہ احساس زندہ رہے کہ وہ صلیب کی ناموس کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ابان شہید کی بیوہ اپنے تیر اندازوں سے آگے نکل گئی۔اس کے قریب تیر گرنے اور زمین میں اترنے لگے۔اپنے تیر اندازوں نے اسے پیچھے آنے کو کہا۔لیکن وہ کسی کی سن ہی نہیں رہی تھی،اس کی بے خوفی خولہ بنتِ الازور جیسی تھی۔وہ جوں جوں آگے کو سرکتی جا رہی تھی۔اس کے قریب رومیوں کے آئے ہوئے تیر زمین پر کھڑے ہوتے جا رہے تھے۔یہاں تک کہ ایک تیر اس کے پہلو میں کپڑوں میں لگا اور وہیں لٹک گیا۔یہ تیر بھی اسے آگے بڑھنے سے نہ روک سکا۔آخر وہ رُک گئی اور اس نے کمان میں تیر ڈالا اور کمان سامنے کرکے شست باندھتے کچھ دیر لگائی،اس نے کمان اتنی زیادہ کھینچ لی جتنی زیادہ ایک تندرست مرد کھینچ سکتا ہے، اور اس نے تیر چھوڑ دیا۔اس کا تیر رومی تیروں کی بوچھاڑوں کو چیرتا ہوا اس پادری کی گردن میں اُتر گیا جسنے صلیب کو تھام رکھا تھا ۔پہلے اس کے ہاتھ سے صلیب گری اور لڑھکتی ہوئی باہر آپڑی۔پادری بھی پیچھے یا دائیں بائیں گرنے کے بجائے دیوار پر گرا اور صلیب کے پیچھے پیچھے باہر کی طرف آپڑا۔ابان شہید کی بیوہ نے نعرہ لگایا اور پیچھے آگئی۔’’میں نے انتقام لے لیا ہے……سہاگ کے بدلے صلیب گرا دی ہے……‘‘وہ تیر اندازوں سے آملی اور تیر چلاتی رہی۔صلیب اور پادری کے گرنے کا اثر مسلمانوں پر یہ ہوا کہ ان کا حوصلہ بڑھ گیا اور ان کا حوصلہ اس لیے بھی بڑھا کہ یہ تیر ایک عورت نے چلایا تھا۔صلیب کے گرنے کا اثر جو رومیوں پر ہوا وہ ان کے لڑنے کے جذبے کیلئے اچھانہ تھا۔*
*دروازہ بابِ توما کھل چکا تھا۔تومانے دیکھ لیا تھا کہ اس کی تیر اندازی اور سنگ باری نے مسلمانوں کی حالت کمزور کر دی ہے۔اس نے حملے کاحکم دے دیا۔عجیب بات یہ ہے کہ اس نے سواروں کے مقابلے میں سوار نہ نکالے۔ا ن پیادوں سے حملہ کرایا،اور کمان خود باہر آکر کی۔وہ سپاہیوں کی طرح لڑرہا تھا۔مؤرخ واقدی اور بلازری نے لکھا ہے کہ توماکی آواز ایسی تھی جیسے اونٹ بدمستی کی حالت میں بڑی بلند اور غصیلی آوازیں نکالتا ہے۔شرجیلؓ نے بڑی تیزی سے اپنے سواروں کو آمنے سامنے کی لڑائی کی ترتیب میں کرلیا۔تومانے یہ چال چلی کہ اپنے دستوں کو پھیلا دیا۔اس کی فوج کی تعداد مسلمانوں کی نسبت زیادہ تھی۔اس کے پیادے سواروں کا مقابلہ بڑی بے جگری اور مہارت سے کررہے تھے ۔شہر کے دوسرے دروازوں کے سامنے مسلمانوں کے جو دستے متعین تھے۔وہ اس وجہ سے شرجیلؓ کی مدد کو نہیں آرہے تھے کہ ایسا ہی حملہ دوسرے دروازوں سے بھی ہو سکتا تھا۔توماگرج اور دھاڑ رہا تھا۔اسے مسلمانوں کا پرچم نظر آگیا۔اس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کا سالار وہاں ہے، وہ سیدھا اِدھر آیا،شرجیلؓ نے اسے دیکھ لیا اور تلوار سونت کر اس کے مقابلے کیلئے تیار ہو گئے۔دونوں نے ایک دوسرے کو للکارا، ان میں دس بارہ قدم فاصلہ رہ گیا ہوگا کہ ایک تیر توما کی دائیں آنکھ میں اُتر گیا،اس نے ہاتھ اس آنکھ پر رکھ لیے،اور وہ بیٹھ گیا۔شرجیلؓ نے آگے بڑھ کر اس پر حملہ نہ کیا۔توما کے محافظوں نے اس کے گرد حصار بنالیا پھر اسے اٹھا کر لے گئے۔مؤرخوں نے متفقہ طور پر لکھا ہے کہ وہ تیر ابان بن سعید کی بیوہ نے چلایا تھا۔اپنے سالارکے گرنے سے رومیوں کا حوصلہ بھی گر پڑا اور وہ پیچھے ہٹنے لگے۔شرجیلؓ کے پہلوؤں والے تیر اندازوں نے تیروں کی بوچھاڑیں مارنی شروع کر دیں۔رومی تیزی سے پیچھے ہٹے اور قلعے کے دروازے میں غائب ہوتے چلے گئے اور پیچھے جو لاشیں چھوڑ گئے ان کا کوئی حساب نہ تھا۔’’رومیوں کا سپہ سالار مارا گیا ہے۔‘‘مسلمانوں نے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔’’ہم رومیوں کے قاتل ہیں……رومی سالار کو ایک عورت نے مارڈالا ہے……توما رومی کو اندھاکرکے مارا ہے……باہر آؤرومیو!اپنی صلیب اور پادری کو اٹھا لے جاؤ۔‘‘دیوار پر کھڑے رومی یہ نعرے سن رہے تھے،اور یہ نعرے شہر کے اندر بھی سنائی دے رہے تھے۔یہ نعرے رومی فوج اور دمشق کے شہریوں کے حوصلے اور جذبے کیلئے تیروں کی طرح مہلک تھے۔مسلمانوں کا جانی نقصان بھی کچھ کم نہیں تھا۔بہت سے مجاہدین رومیوں کے تیروں اور پتھروں سے شہید اور زخمی ہو گئے۔پھر اتنی تعداد لڑائی میں شہید ہوئی۔شرجیلؓ پریشان سے ہو گئے اور خالدؓ کے پاس گئے-*
*(جاری ھے)*

*وضاحتی نوٹ::::*اس قسط میں بھی اور پورے ناول میں غلطی کی وجہ سے حضرت شرحبیل ؓ کا نام شرحبیل کی جگہ شرجیل لکھا گیا ہے۔۔کیوں کہ میں موبائل استعمال کرتے ہوئے یہ ناول آپ تک پہنچا رہا ہوں اس لیے موبائل میں اس نام کو پورے ناول سے چینج کرنا میرے لیے ممکن نہیں ہے۔۔۔اس لیے آپ سب سے درخواست ہے کہ جہاں بھی یہ نام آے وہاں اسے شرجیل کی جگہ شرحبیل پڑھا اور سمجھا جاۓ۔۔۔اللّه پاک ہماری جانے انجانے میں ہونے والی تمام خطاوں کو معاف فرماۓ۔۔۔آمین۔۔۔*
*بہت شکریہ*
*اپنی دعاوں میں یاد رکھیں*

*جزاکم اللہ خیرا۔*

*جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*
      *اسلامک ہسٹری*
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─