┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: میرے_ہمدم
از: عروش_ملک
آخری_قسط_09

زمل نے رو رو کر اپنی حالت بگاڑ لی تھی نتیجہ بخار کی صورت میں سامنے تھا۔ وہ شدید بخار میں تپ رہی تھی۔وہ نیم غنودگی کی حالت میں پڑی تھی۔ سب گھر والے کمرے میں جمع تھے کسی کو روحان کی کوئی خبر نہ تھی۔حنان مسلسل اسے فون کررہا تھا لیکن اس کا موبائیل بند تھا۔ چچی جائے نماز پر بیٹھی اس کی تندرستی کی دعائیں مانگ رہی تھیں۔ عالیہ اور ثمرہ بھابی اسے پٹیاں کر رہی تھیں۔ آدھے گھنٹے بعدجب روحان نے فون اٹھایا تو حنان نے اسے خوب لعن طعن کر کے اسے گھر بلایاتھا۔ زمل کی خراب حالت کا سن کر وہ پریشان ہو گیا تھا اس لئے بھاگتا ہوا گھر پہنچا تھا۔ سب نے ان دونوں کو کمرے میں اکیلا چھوڑ دیا ۔ روحان، زمل کی پیٹیاں کرتے ہوئے مسلسل خود کو کوس رہا تھا۔ ''یہ تو ہے ہی پاگل مجھے سوچنا چاہئے تھا۔ ایسے ری ایکٹ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ زمل کو کتنا برا لگا ہوگا۔ آج میری وجہ سے اس کی یہ ھالت ہے مجھے ٹیمپر لوز نہیں کرنا چاہئے تھا۔ یااللہ سوری آج غلطی ہو گئی۔ آئندہ نہیں ہو گی۔پلیز زمل کو ٹھیک کردیں۔ یہ میرے پاس امانت ہے۔ اگر تایا جان کو اصل بات معلوم ہو گئی تو کتنے خفا ہوں گے مجھ سے۔ اللہ تعالیٰ آپ نے مجھے اس کی ذمہ داری سونپی تھی اور میں نے اِس 

کے ساتھ بُرا رویہ اختیار کیا ۔ سربراہی کا مطلب غرور تو نہیں ہوتا''۔ وہ شدت سے نادم تھا اور اللہ سے زمل کی صحتیابی کی دعا مانگ رہا تھا۔ لیکن اسے زمل کی حالت میں کوئی سدھار نظر نہ آرہا تھا۔ آخر وہ خود بھی تو ڈاکٹر تھا نا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

دودن اس نے بہت مشکل سے گزارے ۔ زمل کی حالت بہت خراب تھی ۔ وہ رات بھر کراہتی رہتی۔ روحان پوری پوری رات جاگ کر اس کا سر دباتارہتا وہ ہلکی سی بھی پکار دیتی تو وہ ہمہ تن گوش ہوجاتا۔ ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ تھی۔ لاہور میں ماڈل ٹاون میں دھماکہ ہوا تھا۔ سب ڈاکٹروں کو بلا لیا گیا تھاوہ سارا سارا دن ہسپتال میں بزی ہوتا۔ لیکن زمل کا خیال اس کے دل و دماغ سے محو نہ ہوتا تھا۔ جبکہ یہ بھی جانتا تھا کہ گھر میں سب کے سب اس کے گرد جمع تھے۔ دودن بعد اسے آج ہوش آیا تھا۔ روحان ہسپتال میں تھا لیکن اسے یہ خبروصول ہو چکی تھی۔ اس نے اللہ کا شکرادا کیا۔ جب سب نے اس کی خبر گیری کر لی اور واپس چلے گئے تو عالیہ اس کے قریب آئی۔''بھابھی آپ بھیا سے تیماداری کروانے کے چکروں میں تھیں نا خوب فائدہ اٹھایا بیماری کا''۔ زمل کے منہ کا زاویہ لفظ بھائی پر بگڑا۔ ''عالیہ مجھے پانی پلادو''، زمل کا گلا خراب تھا اس لئے بھاری آواز نکل رہی تھی۔ عالیہ نے جلدی سے پانی دیا اور آرام کرنے کا کہتی کمرے سے چلی گئی۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رات کےوقت روحان جب گھر آیا تو وہ کافی بشاش لگ رہا تھا۔کھانے سے پہلے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ وہ خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی کہ اپنی پیشانی پر کسی کا ٹھنڈا ہاتھ محسوس کر کے آنکھیں کھول لیں۔ روحان اس کا بخار چیک کر رہا تھا۔ اس کی آنکھیں کھلتی دیکھ کر گڑ بڑا گیا۔ ''اب طبیعت کیسی ہے؟''روحان نے نرمی سے پوچھا۔'' ٹھیک'' جواب دے کر رخ موڑ گئی۔ روحان کو اس کی خفگی کا اندازہ ہو گیا اس لئے خاموشی سے اٹھ گیا اور فریش ہونے چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد جب فریش ہو کر نکلا تو عالیہ زمل کو دوا کھلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ ''زمل کھا لو'' عالیہ نے التجا کی۔''نہیں عالیہ میرا منہ کڑوا ہو گیا ہے مزید نہیں''۔ ''زمل تم پھر سے بیمار ہو جاو گی پہلے ہی دودن بعد ہوش آیا ہے''۔ عالیہ نے اس سے کہا۔''کاش ہوش آتا ہی نہ''۔ اس کی بات پر روحان اور عالیہ دونوں ہی چونک گئے۔ ''کیا مطلب؟'' عالیہ نے پوچھا، ''کچھ نہیں تم یہ لے جاو میں ٹھیک ہوں''۔ زمل نے بھی ضد کی۔ عالیہ نے بھائی کو دیکھا اور اسے دوا پکڑا کر چلی گئی۔ روحان اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گیا زمل نے رُخ موڑ لیا۔ '' میرا غصہ خود پر نکالنے سے کیا ہوگا؟'' روحان کو دکھ ہوا کہ اس نے ایک احساس لڑکی کا دل توڑا ہے۔ '' مجھے کسی پر غصہ نہیں ہے اور نہ ہی کسی پر اُتارنا ہے''۔ بھاری میں آواز میں جواب دیا۔ ''پھر یہ دوا کھالو تم خود بھی ایک ڈاکٹرہو ان کی اہمیت اچھی طرح جانتی ہو''۔ روحان نے اسے سمجھانا چاہا۔ ''مجھے نیند آرہی ہےہٹیں یہاں سے''۔ زمل نے کہا تو وہ اٹھ کھڑا ہو گیا اور پھر لائٹس آف کر دیں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ جلدی سے ری کور کر رہی تھی لیکن روحان سے احتراز برت رہی تھی۔ اسے اس کے تھپڑ سے بہت تکلیف ہوئی تھی۔ اس کا مان ٹوٹا تھا۔ وہ کھڑکی کے پاس کھڑی لان میں دیکھ رہی تھی۔ جب روحان کمرے میں داخل ہوا۔ وہ اس کے کام بیماری کی حالت میں بھی خود کرتی تھی۔ صبح جب وہ اٹھتا اس کے کپڑے استری ہوتے، جوتے پالش ہوتے اور جگہ پر موجود ہوتے۔ٹائی، ریسٹ واچ، والٹ ہر چیز سلیقے سے سائیڈ ٹیبل پر سجی ہوتی۔ لیکن وہ خود غائب ہوتی۔ 

جب اس کا پاوں زخمی ہوا تھااور وہ یہ کام کرتی تھی تو روحان نےمیڈ سے کروانے کا کہا تھا لیکن اس نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ ''یہ میری زمہ داری ہے،میں خود کروں گی''۔ زمل نے اب بھی اپنی ذمہ داری سے منہ نہیں موڑا تھا۔روحان قدم قدم چلتا اس کے قریب گیا۔''زمل'' اس نے اسے پکارا لیکن وہ آج بھی خاموش رہی۔ ''میں شرمندہ ہوں ، میں نے غلط کیا''۔ زمل نے رخ موڑا، وہ ایک ہفتے بعد اپنے رویےکی معذرت کر رہا تھا۔ زمل کا دل بھر آیا ، آنسو آنکھوں کے رستے بہنے لگے۔ وہ شکستہ دل سے کہہ رہاتھا، وہ سن رہی تھی۔ ''میں اوور ریکٹ کر گیا تھا، تم نے بات ہی ایسی کی تھی زمل! ماہی صرف میری دوست ہے۔ میں اسے ایک دوست کی حیثیت سے ٹریٹ کرتا ہوں ، وہ امیچور ہے، اس کے ماما بابا کی آپس میں نہیں بنتی، اسے کسی دوست کی تلاش تھی میں نے اس کی تلاش ختم کی، کیونکہ ایسا ممکن تھا کہ وہ غلط ہاتھوں میں لگ جاتی، نشے کی عادی 

ہو جاتی مجھے دونوں باتیں منظور نہیں تھیں بس اس لئے میں اس کے ساتھ۔۔۔۔۔'' وہ خاموش ہوا تو نظریں اٹھا کر سامنے دیکھا جو آنسو بہا رہی تھی۔''زمل سوری'' اس نے پھر سے کہا۔''وہ اسے سائیڈ پر کرتی آگے بڑھ گئی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رات وہ دیر سے واپس آیا تھا۔پہلے ہی کچھ شکست خوری کا عالم تھا اوپر سے تھکن وہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ زمل کھانا لینے گئی تھی۔ واپس آئی تو اس کے چہرے پر تھکن کے آثار دیکھے۔ وہ صوفے کے پیچھے کھڑے ہو کر اس کا سر دبانے لگی۔ ''دوسروں کا خیال کرتے ہیں کبھی اپنا بھی کر لیا کریں''۔ اس نے سرگوشی کے انداز میں کہا۔ اس کا سر دبانا روحان کو اندر تک سکون پہنچا گیاتھا۔ اس نے زمل کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ بٹھایا۔ ''اگلی دفعہ غصہ کیا تو نہیں مانوں گی''۔ زمل نے تنبیہہ کی۔ ''اوکے'' روحان مسکرا دیا۔ زمل نے اپنا سر روحان کے کندھے پر ٹکا دیا۔ اس کی ساری تھکن دور ہو گئی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ختم شدہ

─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─