┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: میرے_ہمدم
از: عروش_ملک
سیکنڈ_لاسٹ_قسط
قسط_نمبر_08

اگلے کئی روز تک ماہین کو روحان کے اردگرد منڈلاتے ہوئے دیکھا گیا۔ پرانی چہ میگوئیوں نے پھر سے سر اٹھایا۔ زمل کو اس معاملے میں روحان پر یقین تھا۔ وہ روحان کے ڈپارٹمنٹ آج شاید پہلی دفعہ گئی تھی۔ روحان اسے دیکھ کر حیران ہوا۔ "روحان مجھے تمہاری جیکٹ چاہئے، آج بہت سردی ہے پلیز" زمل نے التجا کی۔ روحان کچھ دیر خاموش رہا۔ "روحان میں تم سے بات کر رہی ہوں جیکٹ کہاں ہے تمہاری؟تم صبح پہن کر آئے تھے نا؟" زمل نے غصے میں پوچھا، "وہ میرے پاس نہیں ہے۔" روحان نے سچ بتایا۔"کہاں ہے؟" زمل نے حیران ہو کر پوچھا۔وہ مجھے اس کی ضرورت نہیں تھی تو میں نے کسی کو دے دی روحان نے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا ڈونٹ ٹیل می کہ وہ تم نے ماہین کو دی ہے زمل مشکوک ہوٸ نہیں یار وہ زعیم لے گیا ہے روحان نے نظریں ملا ۓ بغیر کہا بہت خوب بیوی کی فکر نہیں دوستوں کی بڑی ہے زمل جل کر بولی تو تم گھر سے پہن کر آتی نہ زمل اسکی سنے بغیر آگے بڑھ گٸ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
واپسی پر کار میں مکمل خاموشی تھی زمل رُخ موڑے بیٹھی تھی۔ (اب دونوں ہی روحان کی گاڑی میں آتے تھے)۔ روحان نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن زمل نے کوئی جواب نہ دیا۔ جیسے ہی کار گھر کے آگے رکی وہ تیزی سے اُتر کر کمرے میں چلی گئی۔ روحان بھی گہرا سانس لے کر کمرے میں داخل ہوا۔ زمل واش روم میں تھی ۔ روحان بیڈ پر بیٹھ گیا وہ  
جیسے ہی نکلی وہ فریش ہونے کیلئے واش روم میں چلا گیا۔ زمل کو اس کی جیکٹ بیڈ پر نظر آئی تو ایک خیال اس کے ذہن میں آیا۔ زمل نے فوراً اپنے خیال پر عمل کرتے ہوئے استری پوری سپیڈ پر چلا کرروحان کی جیکٹ پر رکھ دی اور خود انابیہ کو فون کر کے بے مقصد باتیں کرنے لگی۔ اتنی دیر میں جیکٹ مکمل طور پر جل چکی تھی۔ زمل بظاہر فون میں مشغول تھی۔ روحان باہر نکلاتو عجیب سی بدبو سے ناک بند کرتا ہوا آگے دیکھا کی اس کی نئی برانڈد جیکٹ استری کے نیچے پڑی تھی۔ وہ تیزی سے استری کی طرف بڑھا اسے ہٹایاتو نیچے سے جیکٹ کے آرپار نظر آرہا تھا۔ اس نے گھور کر زمل کی طرف دیکھا اور فون بند کرنے کا اشارہ کیا۔ زمل کا فون بند کرنے کا ارادہ نہیں تھالیکن اس کا بگڑا موڈ دیکھ کر اپنا ارادہ ترک کردیااور فون بند کر دیا۔ "کیا ہوا؟" توبہ یہ اداکاری۔ "یہ کیا ہے؟" روحان نے جلی ہوئی جیکٹ زمل کے سامنے کی جس میں سے روحان باآسانی زمل کو دیکھ سکتا تھا۔" جیکٹ ہے۔" معصومیت کے سارے ریکارڈ زمل نے توڑ ڈالے۔"یہ مجھے بھی نظر آرہا ہے۔" وہ جھنجھلا گیا۔ "تو؟" پھر عظیم نے نیازی کا مظاہرہ۔ زمل اس پر گھبرا بھی رہی تھی کہ کہیں دو جڑ ہی نہ دے لیکن اپنے کارنامے پر اطمینان بھی تھا کہ لگ بھی جائیں تو کیا کام تو مکمل ہو گیا نہ۔ "تو یہ تم نے کیوں کیازمل" اب روحان نے بےچارگی سے پوچھا۔ ''میں نے کیا کیا؟'' وہ صدمے سے بولی۔ ''زمل تمہیں پتا ہے نہ یہ میری پسندیدہ جیکٹ ہے۔" روحان نے ٹھہر ٹھہر کر کہا۔ ''رئیلی تو پھر کسی اور کو نہ دیتے نا لوگ کب پرائی چیز کا خیال رکھتے ہیں''۔ وہ سمجھ داری سے بولی۔''زمل'' دانت پیس کر بولا، ''جی'' زمل نے آنکھیں ٹپٹپائیں۔ دونوں سنجیدگی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے پھر زور زور سے ہنسنے لگے۔دونوں بیڈ پر بیٹھ کر قہقے لگانے لگے۔ روحان کچھ دیر رک کر اسے دیکھنے لگا، جو اپنی آنکھ کا کونا صاف کر رہی تھی۔ ہنستے ہنستے آنکھوں میں پانی آنے لگا تھا۔ روحان کو اپنی طرف دیکھنے پر اس نے روحان کو دیکھا۔"تم ماہین سے جیلس ہوتی ہو؟''عجیب سے انداز میں پوچھا گیا،''نہیں'' بے ساختہ نکلا ،'' ہوں۔۔۔۔'' روحان نے گھور کر دیکھا۔ ''شاید ہاں'' اب سوچ کر کہا گیا۔ روحان کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ اُبھری ۔ ''نہیں میں شاید اسے ناپسند کرتی ہوں''۔ زمل اُلجھی اُلجھی سی کہہ رہی تھی۔ ''اچھا چلو چھوڑو اور جاومیرئ لئے کافی بنا کر لاو''۔ اس نے کافی بنانے کا کہا تو زمل نے کنکھیوں 
سے اُسے گُھورا، ''میں نہیں بناوں گی۔'' وہ منہ پُھلا کر بیٹھ گئی۔ جب بات اس کی سمجھ میں آئی تو بولا، ''اچھا یار سوری کہہ تو دیا تھا میں نے'' رُوحان نے معاف یاددلائی۔ ''اب کُچھ نہیں کہیں گے نہ اگر گِر بھی گئی تو''۔ زمل نے مُسکراہٹ دبا کر پوچھا ''نہیں پکا'' روحان نے وعدہ کرنے کے انداز میں کہا۔ زمل کافی بنانے چلے گئ
___________
زمل کچھ کتابیں لینے کیلئے لائبریری میں آئی تھی کہ روحان کو ماہین کے ساتھ بیٹھے دیکھ کر ٹھٹک گئی،ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو وہ روحان کے پاس گئی تھی کہ اُسے لائبریری سے کچھ کتابیں لینی ہیں۔ آج حریم اور انابیہ چھٹی پر ہیں تو وہ اس کے ساتھ چلے، لیکن روحان نے سہولت سے انکار کر دیا تھا کہ اپنے کام خود کرو کسی پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہے مجھ پر بھی نہیں ، تمہیں ابھی بساکھیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ تو وہ غصے سے کُھولتی خود ہی لائبریری کی طرف چل دی اور خود کو کُوستی رہی کہ فضول میں اس شخص کی مدد مانگی۔ وہ ابھی اپنے خیالوں میں کھوئی تھی کہ اس نے دیکھا کہ ماہین اپنی کوئی کتاب لینے کیلئے کھری ہو رہی تھی لیکن روحان نے اُسے بیٹھنے کااشارہ کیا اور خود وہ کتاب اُٹھا لایا۔ ماہین نے اس کے کان میں کوئی سرگوشی کی تو وہ کھلکھلا کر ہنس دیا۔وہ دونوں دنیا و مافہیا سے بے گانہ تھے۔زمل کو اپنا آپ جلتا ہوا محسوس ہوا وہ فوراً وہاں سے ہٹ گئی۔ واپسی پر وہ زمل کی خاموشی سے وہ بے چین ہوا تھا لیکن پوچھا کچھ نہیں ۔ گھر واپس آکر بھی اس کی سنجیدگی اور خاموشی نہ ٹوٹی۔ حالانکہ وہ پہلے ۔ سارا دن روحان کو، عالیہ کو یونی کے ٹیچرز کی باتیں، دوستوں کی باتیں بتاتی رہتی تھی۔گھر والوں نے اس کی خاموشی کو تھکاوٹ کا نام دیا لیکن روحان کا دل نہیں مان رہا تھا۔ دوپہر میں وہ کمرے میں کھانا لے کر آئی اور خود سٹڈی ٹیبل کی طرف چل دی۔''تم نہیں کھاو گی''۔ '' نہیں مجھے بھوک نہیں ہے''۔ روحان چلتا ہوا اس کے قریب آیا۔ ''زمل کوئی پریشانی ہے؟'' اس کے اتنے نرم انداز پر اس کا دل بھر آیا لیکن خاموش رہی۔ ''زمل'' پھر نرمی سے پکارا لیکن خاموشی نہیں ٹُوٹی۔ روحان نے کندھوں سے پکڑ کر اس کا رُخ اپنی جانب کیا۔ وہ اس کے بہتے آنسو دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ ''کیا ہوا زمل؟'' وہ پریشانی میں گھٹنے ٹکائے اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ اس نے اپنے آنسو پونچھے اور اُٹھ کھڑی ہوئی وہ بھی کھڑا ہو 

گیا۔ ''کُچھ نہیں'' وہ جانے لگی روحان نے اس کا ہاتھ پکڑ اپنی طرف کھینچا اور کرسی سے لگا کر پوچھنے لگا۔ ''سچ سچ بتاو کیا بات ہے؟'' لہجے میں سختی تھی۔ ''میں آپ کو جواب دینا ضروری نہیں سمجھتی''۔ وہ غصے میں کھولتی ہوئی بولی۔ وہ ششدہ رہ گیا۔ صبح میں ٹھیک تھی یونی میں ایسا کیا ہوا وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔ ''ہے جواب دینا ضروری ، میں جب جب چاہوں تم سے جواب طلبی کر سکتا ہوں۔ '' روحان نے ضبط سے کام لیا۔ ''اور آپ کس کے آگے جوابدہ ہیں روحان شاہد کیا کوئی آپ سے جواب طلبی نہیں کرسکتا''۔ لہجہ تلخ تھا۔ ''میری جواب طلبی کس بات کیلئے''۔ وہ پریشانی سے بولا۔ ''ماہین کے ساتھ ہوٹلنگ کی، اس کے ساتھ واک کی اور اس کے ساتھ جو عشق کی نئی داستاں۔۔۔۔۔۔'' زمل کی بات منہ میں ہی رہ گئی کہ ایک زناٹے دار نے اس کا چہرہ سرخ کردیا۔ وہ بے یقینی کی کیفیت میں کھڑی رہی۔ ''یہ تمہاری سطحی سوچ کا صلہ'' روحان تاسف سے کہتے ہوئے لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر چلا گیا۔ وہ بے یقینی سے اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔۔۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔

─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─