┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: میرے_ہمدم
از: عروش_ملک
قسط_نمبر_07

بلآخر مہندی کا دن آن پہنچا۔زمل زرد رنگ کے جوڑے میں ہلکے سے میک اپ کےساتھ اسٹیج پر بیٹھی تھی۔ سٹیج کے ساتھ ہی نیچے بیٹھی لڑکیاں ڈھولکی بجا رہی تھیں۔اور گانے گنگنا کر شام کو فربہ خوبصورت بنا رہی تھیں۔پورے گھر کو برقی قمقوں سے سجایا گیا تھا۔سٹیج کو گیندےکے پھولوں سےسجایا گیا تھا۔ زمل اس سجاوٹ کے درمیان خود بھی زرد پھول لگ رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں روحان کو بھی چنرین کے سائے کے نیچے لایا گیا۔ اس نے ایک چور نظر زمل پر ڈالی تھی۔ بلاشبہ وہ خوبصورت تھی۔لیکن آج مزید دلکش لگ رہی تھی۔اسے سٹیج پر زمل کے ساتھ بٹھایا گیا۔چونکہ نکاح ہو چکا تھا۔سب سے پہلے زاہدہ چچی نے مہندی لگائ۔ اور پھر مٹھائ کھلا کر دونوں کی خوشحالی کی دعا مانگ کرنیچے آئیں۔اسکے بعد دیگر بڑی خواتین بھی مہندی لگانےبکی غرض سے آئیں۔ اور پھر لگا کر چلی گئیں۔ اور پھر پھپھو زبیدہ نے زمل سے اسکی ماں نہ ہونے کا افسوس بھی کیا تھا۔ " ہائے تمہاری ماں آج یہاں ہوتیں تو کتنی خاش ہوتیں۔ میں تو روحان کو تمہاری اجالا کے لیے مانگنے لگی تھی لیکن ابا نے پھر تمہارے ساتھ نکاح کروادیا۔تو میں خاموش ہو گئ کہ چلو بن ماں کے بچی ہے۔ پرائے گھروں میں کہاں بھٹکے گی۔"زمل کے مسکراتے لب سکڑ گئے۔ روحان زریاب کے ساتھ باتوں میں لگا ہوا تھا۔زریاب اٹھ کر ممانی جان سے ملنے چلا گیا تو روحان کا دھیان پھپھو کی طرف گیا۔ان کی آخری بات اسکے کانوں میں پڑی تو اس نے زمل کی طرف دیکھا۔ جسکے چہرے کے جیسے سارے رنگ اڑ گئے تھے۔وہ زرد پڑ رہی تھی۔روحن نے اسک ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔ 
 " پھپھو میری بیوی پر کسی کو ترس کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔اسکی قسمت میں جو ہے وہ اسے مل چکا ہے۔اسے جھولی میں ڈال کر کسی نے کچھ نہیں دیا۔اور پھر میں کسی خوش نصیب کو ہی مل سکتا ہوں۔"وہ سنجیدگی سے بولتا ہوا آخر میں شرارت سے بول گیا۔ پھپھو کا فق پڑتا چہرہ مصنوئ مسکراہٹ سے سج گیا۔وہ اٹھ کر نیچے چلی گئیں ۔ پھر اجالا بھی مہندی لگانے آگئ۔اجالا اچھی لڑکی تھی۔ اسے روحان میں کوئ دلچسپی نہ تھی۔وہ زمل کےلیے خوش تھی۔وہ مہندی لگا کر گئ تو دیگر کزنز نے دھاوا بول دیا تھا۔زمل پورے فنکشن میں خاموش رہی اور خالی خالی نظروں سے سب دیکھتی رہی۔ رات کو دیر سے فنکشن ختم ہوا تو سب سونے کے لیے چلے گئے۔ زمل نے بھی چینج کیا اور گہری سانس لے کر بیڈ پر لیٹ گئ۔ "اف اللہ! یہ دنیا والے مجھے چین سے کیوں نہیں جینےدیتے۔ ہر کوئ میرے زخم۔ہرے کرنے آجاتا ہے۔ جیسے انہیں میری مما کی موت کا مجھ سے زیادہ دکھ ہوا ہو۔میرا تو کوئ قصور نہیں اس میں اور پتہ نہیں سب کو

صبح صبح گهر میں خوب چہل پہل تهی. چچی نے آکر اسے اٹهایا اور پارلر جانے کو کہا ... پارلر میں اسے جہاں اور نمرہ بهابی چهوڑنے گئے تهے. زمل نے لائٹ پارٹی میک اپ کروانے کی ضد کی تهی.سب نے کہا کہ دلہن اور باقی عورتوں میں فرق نہیں لگے گا لیکن اس کی ضد تهی کہ میک اپ لائٹ ہی ہو. ڈارک میک اپ میں زیادہ پیسے لگتے ہیں تقریبا دس بیس ہزار تو کہیں نہیں گیا.پهر اسی ڈر سے دلہنیں وضو بهی نہیں کرتیں اور شادی کے دن نماز سے چهٹی ہو جاتی ہے. جب رشتے کا آغاز ہی اللہ کا نام لیئے بغیر ہو گا تو نباہ کیسے ہو گا. عالیہ اور نمرہ بهابی نے واٹر پروف میک اپ کا بهی کہا لیکن اس نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ میک اپ میں کچهه اجزاء ایسے بهی ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے وضو نہ ہو سکے تو ہو سکے تو پهر اس میک اپ کی حالت میں نناز کیسے پڑهو گی؟بالاآخر سب نے ہتهیار ڈال دئیے.جب یہی بات روحان کو معلوم ہائی تو اس نے بهی لاپرواہی کا اظہار کیا...'وہ ایسے ہی خوبصورت ہے عالیہ اور پهر یہ نقلی چہرہ (میک اپ) کب تک سجائے رکهے گی کبهی تو اسے اتارنا ہی پڑنا...میں نے اسے سادگی میں پسند کیا ہے. وہ مجهے سادہ ہی اچهی لگے گی'.
عالیہ کو اپنے بهائی کی سوچ پر فخر محسوس ہوا.ان میں سے کوئی بهی حسن پرست نہیں تها جب اللہ تعالی نے ہی سب کو بنایا ہے اور پهر چار قسمیں کها کر بتایا ہے کہ میں نےانسان کو خوبصورت تخلیق کیاہے تو پهر کسی کے کردار کو چهوڑ کر حسن پرپرکهنا انسان کی کم عقلی ہے. وہ سادگی سے تیار کمرے میں بیٹهی تهی.اس کے کانوں میں سونے کے جهمکے لٹک رہے تهے.گلے میں خوبصورت موتیوں کی مالا لٹک رہی تهی.وہ ناک میں نتهه ڈالے سب کے ہوش اڑانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تهی.اس کے لبوں پر درخ لپ اسٹک اسے مزید خوبصورت بنا رہی تهی.عالیہ نے لال چنری اس کے سر پر اڑا دی.اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی.بابا اس کے کمرے میں آئے اور اس لال عروسی جوڑے میں دیکهه کر خوشی سے نہال ہو گئے.'میری بیٹی خوش تو ہے نہ؟' انہوں نے شفقت اس کے سر پر ہاتهه رکها. 'آپ خوش ہیں بابا؟' اس نے الٹا ان سے سوال کیا. 'ہاں میں بہت خوش ہوں،روحان تمہیں بہت خوش رکهے گا.'
زمل نے ان کا ہاتهه تهام کر چوم لیا.
♥♥♥♥♥♥♥♥
ثمرہ بهابی اسے سٹیج پر روحان کے ساتهه بیٹها گئیں.روحان کو وہ سادگی میں بهی بہت خوبصورت لگ رہے تهی.وہ کوئی دل پهینک انسان نہیں تها. وہ کردار کا ایک مضبوط انسان تها.وہ خوش مزاج بهی تها لیکن سنجیدگی بهی اس کے مزاج کا خاصا تهی. مرد پر والہانہ پن کبهی جچتا بهی نہیں.وہ سخت مزاج ہی اچها لگتا ہے.اس کی زیادہ خوش مزاجی اس کی سربراہی کو ختم کر دیتی ہے.اس کے احترام میں کمی کا باعث بنتی ہے.اس کی انا کے قتل کا سبب.اگر مرد میں دم ہو تو کسی ماں کو یہ خوف نہیں ہو گا کہ آنے والی بہو اس سے اس کا بیٹا چهین لے گی.....
دوده پلائی کی رسم شروع ہوگئ کیونکہ زمل کی کوئئ بہن نہ تهی .اسلئے عالیہ اور اجالا نے اپنے ذمے لے لی.کافہ تکرار کے بعد وہ دونوں دس ہزار روپے پر راضی ہو گئیں.
کهانے کے بعد سب نے مبارکباد دی اور زمل کو کمرے میں چهوڑ دیا گیا.★★★★★★★★★♥♥♥♥♥♥♥

اگرچہ شادی میں مردوں اور عورتوں کا الگ انتظام تھالیکن زمل نے پھر بھی سب کےسامنے کھانے سے انکار کردیا۔ زمل کو روحان کے کمرے میں بٹھادیا گیا تھا ۔۔عالیہ اس کے لیے کھانا لے کے آئ۔زمل نے آرام سے کھانا کھایا۔لیکن عالیہ اور اجالا نے قریب بیٹھے اسے بہت تنگ کیا۔ وہ ایسے بنی بیٹھی تھی جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔ جب زمل کھانا کھا چکی تو چچی نے روحان کو کمرے میں جانے کا کہہ دیا۔ لیکن عالیہ کو منظور نہیں تھا۔اس نے دروازہ بند کر دیا اور پھر دروازہ پر کھڑی ہو کر پیسے مانگنے لگی۔ "عالیہ تم انتہائ منگتی ہو آج بھائ کی جیب خالی کرانے کا ارادہ ہے۔"روحان نے اسے گھورا۔ ہاہاہا۔۔۔۔۔ "بھائ میں نےبسوچا کہ آگے بھابھی نے آپ کی جیبیں خالی کرانی ہیں شاپنگ کر کرکے تو میں اپنا حصہ آج ہی لے لوں۔" عالیہ نے محظوظ ہوتے ہوئے کہا۔
اچھا اب کچھ ترس کھاو غریب بھائ پہ صطح سے ایک ہی جگہ بیٹھاتھا۔ میں تھک گیا ہوں اس نے تھکن زدہ لیجے میں کہا۔ ٹھیک ہےبیس ہزار نکالیں یہ میں غریب بھائ پر ترس کھا کر کہہ رہی ہوں ورنہ ارادہ پچاس ہزار کا ہے۔عالیہ نے احسان جتانے والےانداز میں کہا۔اس نے گھور کر عالیہ کو دیکھا جو بتیسی نکال رہی تھی۔ "مجھے پتہ ہے تم نے صبح برش کیا تھاکہہ کر روحان نے جلے دل سے کہہ کروالٹ آگے کر دیا۔ "بڑی جلدی مان گئے آپ ۔بڑی جلدی ہے اندر جانے کی؟" عالیہ نے اسکی بات پر اثر انداز ہوئے بغیر کہا اور نوٹ گننے لگی۔ پورے بیس ہزار گن کر سوچ میں پڑ گئ۔ "میں سوچ رہی ہوں کہ آپ نے کونسا روزروز ہاتھ میں آنا تو آپ سے پچاس ہزار لے لیتی ہوں۔ اس سے پہلے کہ روحان اسے دو لگاتا وہ بھاگ گئ۔ روحان نے مسکرا کر اسے جاتا ہوا دیکھا اور پھر دروازہ کھول دیا۔ بیڈ کے گرد گلاب کے پھول کی لڑیاں لٹک رہی تھیں۔ وہ اندر داخل ہوا زمل سام ے نماز پڑھ رہی تھی وہ عروسی لباس میں ہی تھی۔روحان کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر خود بھی وضو کر کے آگیا اور نماز پڑھی۔ دونوں نے نماز بروقت ختم کی ۔لیکن روحان نے نماز ختم کرنے کے بعد دو نفل ادا کیے۔زمل خاموشی سے اٹھی اور واش روم چلی گئ۔ پھر چینج کر کے واپس آئ تو روحان واش روم۔چلا گیا۔دونوں میں ایک لفظ کا تبادلہ بھی نہ ہوا۔روحان چینج کرکے لوٹا تو وہ بیڈ پر دراز تھی۔روحان نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر دوسرینسائیڈ پر لیٹ گیا اور لیمپ آف کردیا۔زمل نے بھی اپنی سائیڈ کا لیمپ آف کردیا۔

          ******************

وہ دونوں ایک دوسرے سے رخ موڑے اجنبی سے سورہے تھے۔ نہیں وہ سو نہیں رہے تھے بلکہ سونے کی کوشش کر رہے تھے۔ زمل سے ایک ہی بیڈ پر روحان کے ساتھ سویا نہیں جارہا تھا۔لیکن وہ اٹھ کہ کہیں جا بھی نہیں سکتی تھی۔اوپر سے گھپ اندھیرا جس سے وہ ڈررہی تھی۔ اسکی کروٹیں بدلنے کے طاوث کمرے میں بار بار چوڑیوں کی کھنک پیدا یو رہی تھی۔روحان ذرا سی آہٹ پر اٹھ جاتا ۔ اور یہاں تو مکمل شور تھا۔ بلآخر اس نے تنگ آکر کہہ دیا۔ "پلیز یہ چوڑیاں اتاردو" وہ ملتجی ہوا۔ "کیوں" وہ پہلے ہی جھنجھلائ ہوی تھی۔اسے کونسا خود شوق تھا چوڑیاں پہننے کا اور پھر اسکے شور سے نیند حرام کرنے کا۔ہی دل میں انکی نظر بھی اتاری۔ کچھ دن بعد وہ دعوےوں میں مصروف رہے۔ کچھ ہی دنوں بعد زمل نے یونی واپس جوائن کر لی۔ اور روحان بھی مصروف ہو گیا۔ زندگی بھی اپنی ڈگر پر چل پڑی۔ زمل اپنے کپڑےطالماری میں سیٹ کر رہی تھی جب روحان کمرے میں داخل ہوا تھا۔ آجکل وہ ہاوس جاب پر صبح آٹھ بجے جاتا اور رات کو دیےمر سے گھر لوٹتا۔ آج وہ دوپہر میں گجر سے ایک فائل لینے آیا تھا۔اسکی نظر زمل پر پڑی تو ازے کافی لانے کوکہا۔زمل نے جلدی سے کافی بنائ اور کمرے میں لے آئ۔ وہ سٹڈی ٹیبل پر بیٹھا ایک فائل دیکھ رہا تھا۔ زمل اسکے قریب آکر رکی۔ "کافی" زمل نے اسکے تھکن زدہ چہرے پر نظر ڈالی۔ "سائیڈ ٹیبل۔پر رکھ دو""اس کے شور سے مجھے نیند نہیں آرہی۔" اس نے اصل مدعو بیان کیا۔ "مجھے کونسا نیند آرہی ہے۔لیکن چچی نے اسے اتارنے سے منع کیا تھا۔"اس نے سچ بتایا۔"میں صبح امی سے بات کر لوں گا ابھی انہیں اتاردو" وہ چڑ کر بولا۔وہ بھی چوڑیوں کے شور سےعاجز آچکی تھی لہزا اتار دیں۔کچھ ہیب دیر میں روحان گہری نیند میں تھا۔لیکن اسے کسی طور پر سکون نہیں آرہا تھا۔رات کے کسی پہر اس پہ نیند طاری ہوئ ۔ابھی بمشکل آنکھ لگی ہی تھی کہ کھڑکی سے کچھ آواز سنائ دی وہ اچھل کر اٹھ بیٹھی۔"روحان"اس نے وحشت زدہ ہو کر اسے پکارا لیکن آج شاید زیادہ ہی تھکا ہوا تھا۔ "روحان "اس نے پھر آواز دی۔ بلآخر اس نے اسکا کندھا جھنجھوڑ ڈالا۔وہ بڑبڑ کر ٹھ بیٹھا۔ اسکی حسیات کو بیدار ہونے میں کچھ وقت لگا۔"کیا ہوا" " کھڑکی کے باہر کوئ ہے۔" اس نے خوف سے بتایا۔ "کون ہے" سوال زمل سے کیا۔ " مجھے کیا پتہ آپ کا کمرہ ہے آپکو پتہ ہونا چاہیے۔" زمل چڑ گئ۔ "کوئ نہیں ہے" روحان نے جان چھڑائ اور لیٹنے لگا۔ "نہیں مجھے آواز آئ تھی " زمل نے اسے اٹھانا چاہا۔ " یار تم نے اپنی آواز سن لی ہو گی" زمل کے سر پر لگی تلووں ہر بجھی۔"نہیں مجھے تو آپ کی کسی محبوبہ کی آواز لگی۔" زمل بھی پھر زمل تھی۔ "ہیں میری محبوبہ۔۔۔۔" زمل نے روحان کی بات کاٹ دی۔ "روحان پلیز ایم سیریس۔" اچھا میں دیکھتا ہوں وہ سنجیدہ ہو کر اٹھ بیٹھا۔اور کھڑکی کھولی ہی تھی کہ اندر کسی نے چھلانگ لگا لی زمل کی چیخ نکلی۔روحان نے پہلے اندر آنے والے کو دیکھا پھر زمل کو۔ زمل چیخ کر بیڈ پر کھڑی ہو چکی تھی۔ بلی اسکے قریب سے گزری تو اسنے ایک اور چیخ نکل گئ۔ جبکہ روحان کھڑکی کے پاس کھڑا ہو کر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔"روحان" زمل وحشت سا چیختی ہوئ بیڈ پر چھلانگ لگا کر روحان کے قریب آئ۔بلی بیڈ کے اوپر سے گزر کر صوفے کے نیچے گھس گئ۔"روحان اسے باہر نکالیں" وہ خوف زدہ سی بولی۔ "کیوں جناب آپ ہی تو اسے اندر لے کر آئ ہیں۔آج اسے ہمارے ساتھ ہی سونے دیں" وہ محظوظ ہوتا ہوا بولا۔ "ٹھیک ہے آپ شوق سے اسکے ساتھ جائیں میں باہر جا رہی ہوں۔"وہ غصے سے باہر جانے لگی کہ روحان نے اسے روک دیا۔ "رکو میں بھیجتا ہوں بیچاری کو سردی میں باہر تم بیڈ پر بیٹھو۔" روحان نے بلی کو صوفے کے نیچے سے نکالا تو وہ یڈ کی طرف اچھلتی ہوئ کھڑکی سے باہر نکل گئ۔زمل نے پھر ہلکی سی چیخ ماردی۔روحان کھڑکی بند کرتے ہوئے پھر ہنسنے لگا۔ "روحان آپ نے یہ جان بوجھ کے کیا ۔ بہت برے ہیں آپ" زمل نے روہانسی ہو کر کہا۔اور قریب پڑا کشن اسے دے مارا۔ روحان اسکی حرکت پر حیران رہ گیا۔وہ اسکی طرف بڑھا۔ "زمل" لیکن وہ کمبل اوڑھ کر سوتی بنی۔ روحان گہرا سانس لے کر رہ گیا۔

              ****************

صبح ولیمے کی تقریب عروج پر تھی۔ دلہا دلہن دونوں ہی نیلے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس تھے۔ سب نے انکی تعریف کی اور دل ہی دل میں انکی نظر بھی اتاری۔ کچھ دن بعد وہ دعوےوں میں مصروف رہے۔ کچھ ہی دنوں بعد زمل نے یونی واپس جوائن کر لی۔ اور روحان بھی مصروف ہو گیا۔ زندگی بھی اپنی ڈگر پر چل پڑی۔ زمل اپنے کپڑےطالماری میں سیٹ کر رہی تھی جب روحان کمرے میں داخل ہوا تھا۔ آجکل وہ ہاوس جاب پر صبح آٹھ بجے جاتا اور رات کو دیےمر سے گھر لوٹتا۔ آج وہ دوپہر میں گجر سے ایک فائل لینے آیا تھا۔اسکی نظر زمل پر پڑی تو ازے کافی لانے کوکہا۔زمل نے جلدی سے کافی بنائ اور کمرے میں لے آئ۔ وہ سٹڈی ٹیبل پر بیٹھا ایک فائل دیکھ رہا تھا۔ زمل اسکے قریب آکر رکی۔ "کافی" زمل نے اسکے تھکن زدہ چہرے پر نظر ڈالی۔ "سائیڈ ٹیبل۔پر رکھ دو"اس نے نظر اٹھا کر اسے دیکھااور پھر جواب دیا۔ زمل مڑی ہی تھی کہ اسکا دوپٹہ روحان کی چیئر سے اٹکا اور کافی گئ روحان کی فائل پر۔ زمل کی پشت میز سے لگی تو اسکی کراہ نکل گئ۔اسے شدید درد محسوس ہوا۔ روحان کی نظر فائل پر موجود تھی۔یکدم اسکا چہرہ سفید پڑ گیا۔اس نے زمل کو بازو سے سختی سے پکڑا اور اسکے قریب لے جاکر غرایا۔ "یہ کیا حرکت ہے؟ مجھے لگا تھا اتنے دنوں میں تمہارا خرافاتی دماغ سکون حاصل کر چکا ہے۔لیکن نہیں تم کبھی سکون سے رہ ہی نہیں سکتیں۔تمہیں کیا کسی کی عزت جائے یا محنت ضائع ہو۔"روحان اسکا بازو جھٹکتا فائل پر جھکا۔ زمل کے پاوں پر کافی گری تھی لیکن اسے ان الفاظ سے زیادہ تکلیف ہوئ۔اس نے بھینچی آنکھیں کھولیں اور پھر ہمت کر کے کہا۔ "روحان میں نے جان بوجھ کر نہیں۔۔۔۔۔۔۔" اسکے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔ روحان باہر چلا گیا۔ روحان کے جاتے ہی عالیہ اندر آگئ۔ "کیا ہوا زمل بھائ کیوں چلا رہے تھے؟اور یہ تمہارے پاوں پر کیا ہوا ہے۔" عالیہ اپنے کمرے میں جارہی تھی جب روحان کی آواز اسکے سماعتوں سے ٹکرائ۔ "کچھ نہیں یہ کافی میرے پاوں پر گر گئ تھی نا اسلیے۔"زمل نے نہ سچ بتایا نا جھوٹ۔عالیہ نے بھی اسے نہیں بتایا کہ اس نے بھی بھائ کی باتیں سن لی تھیں۔اور اسکے پاوں کے زخموں کا ذکر انہوں نے نہیں کیا تھا۔عالیہ نے اسے بیڈ پر بٹھایا اور اسکے منع کرنے کے باوجود اس کے پاوں پر مرہم لگانے لگی۔ اس کے بعد چچی نے بھی اسے آرام کرنے کی تلقین کیا اور بیڈ پر بیٹھے رہنے کی تلقین کی۔

              ***************

رات کو بارہ بجے روحان واپس آئیا۔ سب لاونج میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ وہ جب آیا تو چچی نے عالیہ کو کھانا لگانے کو کہا۔وہ حیران ہوا پہلے یہ صرف زمل کی ذمہ داری تھی۔اس نے کھانا کھالیا اور لاونج میں آکر بیٹھ گیا۔زمل یہاں نہیں تھی۔وہ اٹھ کر کمرے کی طرف بڑھنے لگا کہ امی نے اسے پکار کر زمل کے زخم کر بارے میں بتایا تھا۔اسے اپنا صبح والا واقعہ یاد آیا تھا۔تو وہ شرمندہ ہوا لیکن اسے حیرانی ہوئ کی زمل نے کسی کو اصل بات کی بھنک نہیں لگنے دی تھی۔وہ کمرے میں آئا تو زمل سو رہی تھی۔اس کی نظر بے ارادہ اسکے چہرے پہ گئ تواسکے معصوم سے چہرے کو دیکھ کر اسکی ساری تھکان اتر گئ۔وہ بیگ صوفے پر اچھالتا ہوا واشروم گھس گیا۔اسے صبح والا زمل کا چہرہ یاد آیا جب خوف سے اسنے آنکھیں بھینچ لی تھیں۔اس نے سر جھٹکا اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنےآکر کھڑا ہو گیا۔ جس میں اسے زمل نظر آجبجو شاید شور سے اٹھ بیٹھی تھی۔اور اسے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔وہ بیڈ کی دوسری جانب آکر دراز ہو گیا۔"کیا ہوا؟" اسکی نظریں خود پر محسوس کر کے اسنے اسکی جانب رخ موڑ کر پوچھا۔ "کچھ نہیں روحان آپ نے فائل کا کیا کیا؟" زمل نے ڈرتے ڈرتے پو چھا کہ پھر جھڑک نہ دے۔ "کچھ نہیں سر احمد کو دے دی ایک پیشنٹ کی تھی۔ جسکا کچھ دنوں بعد آپریشن ہے۔"اس نے تفصیل بتائ۔وہ سر ہلا گئ۔ تھو ڑی خاموشی کے بعد زمل پھر بولی۔ "میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا تھا میرا دوپٹہ چییئر سے پھنس گیا تھااور۔۔۔۔۔۔۔"زمل نے اپنی پوزیشن کلیئر کی۔وہ جب کوئ کارنامہ انجام دیتی تھی تواس پر اڈٹ جاتی تھی۔لیکن جھوٹ نہ بولتی تھی۔روحان خود اسکے جھکے سر کو دیکھ رہا تھا۔ " نہیں غلطی میری تھی ہاسپٹل کی فرسٹیشن تم پر نکال رہا تھا۔سوری" روحان شرمندہ ہوا۔" " کوئ بات نہیں۔"زمل نے مسکرا کر معافی قبول کی۔ "تمہارا پاوں اب کیسا ہے" روحان نے فکر مندی سے پوچھا۔ "ٹھیک ہے آپ کو کس نے بتایا۔" زمل نے اسے جتایا نہیں تھا لیکن اسے اپنی بے خبری پر افسوس ہو رہاتھا۔ "امی نے " اس نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔پھر دونوں سو گئے۔..


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─