┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


*《•▪♡ شمشیرِ بے نیام ♡▪•》*

*حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ*

*( قسط نمبر,-68)*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*
*دراصل توما ذہنی طور پر شکست تسلیم کر چکا تھا۔اس کے سامنے اب یہی ایک مسئلہ رہ گیا تھا کہ کوئی ایسی صورت پیدا ہو کہ مسلمانوں کے ساتھ باعزت سمجھوتہ ہوجائے۔مؤرخوں کے بیانات کے مطابق اسے کسی نے یہ بتایا تھا کہ مسلمانوں کے نائب سالار ابوعبیدہؓ نرم مزاج اور صلح جو انسان ہیں۔اگر ان تک رسائی ہوجائے تو باعزت سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔خالدؓ کے متعلق وہ جانتا تھا کہ وہ مکمل شکست اور ہتھیار ڈالنے سے کم بات نہیں کرتے۔توما نے اپنے مشیروں کو بلایا۔باہر مسلمانوں کی کیفیت یہ تھی کہ ان کے حوصلے بڑھ گئے تھے اور وہ للکار ہے تھے کہ رومیو!شہر ہمارے حوالے کردو۔ لیکن شہر میں داخل ہونے کا کوئی ذریعہ نظر نہیں آتاتھا۔خالدؓ نے فیصلہ کرلیا کہ مجاہدین کو ایک دو دن آرام کیلئے دے کر شہر کے دروازے توڑنے کی یا دیوار میں سرنگ لگانے کی کوشش کریں گے۔صبح طلوع ہوئی تو اﷲنے ایک غیر مسلم کو خالدؓ کے سامنے کھڑا کردیا۔یہ ایک یونانی تھا جس کا نام یونس ابن مرقس تھا۔وہ رات کے وقت جب رومی اندر بیٹھے اپنے زخم چاٹ رہے تھے، شہر کی دیوار سے ایک رسّے کے ذریعے اترا تھا۔اس نے کہا کہ وہ ایک لڑکی کو حاصل کرنے کیلئے اپنی جان کا خطرہ مول لے کر آیا ہے۔یہ لڑکی بھی یونانی تھی اور یہ ۱۸ ستمبر ۶۳۴ء )۱۹ رجب ۱۳ھ( کا واقعہ ہے۔۱۸ ستمبر ۶۳۴ء کی رات تھی۔خالدؓ کو بتایا گیا کہ قلعے کے اندر سے ایک آدمی آیا ہے جو اپنا نام یونس ابن مرقس بتاتا ہے۔’’وہ قلعے سے نہیں آیا۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’اگر قلعے کے اندر ہی سے آیا ہے تو صاف نیت سے نہیں آیا،اگر باہر سے آیا ہے تو بھی اس کی نیت ٹھیک نہیں ہو سکتی۔وہ رومیوں کا جاسوس ہوگا……اسے میرے پاس بھیج دو۔‘‘وہ ایک جواں سال آدمی تھا۔خوبرو اور پھرتیلا تھا۔خالدؓ کے دو محافظوں نے اس کی تلاشی لی۔اس نے کمر بند میں ایک خنجر اڑسا ہوا تھا جو اس نے چھپا کر نہیں رکھا تھا۔یہ اس سے لے کر اسے خالدؓ کے خیمے میں بھیج دیا گیا۔خالدؓ نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا پھر اس پر نظریں جما دیں۔’’سالارِ اعلیٰ مجھے شک کی نگاہوں سے دیکھ سکتے ہیں۔‘‘اس جواں سال آدمی نے کہا۔’’میں آپ کے دشمن کے قلعے سے آیا ہوں۔آپ کو مجھ پر شک کرنا چاہیے……میرا نام یونس ابن مرقس ہے اور میں یونانی ہوں۔آپ کی اور رومیوں کی جنگ کے ساتھ مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔‘‘’’یونان کے جوان!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ اپنے آنے کا مقصدفوراً بتا دو؟‘‘’’مقصد میرا ذاتی ہے۔‘‘یونس ابن مرقس نے کہا۔’’اگر آپ یہ پورا کردیں تو میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں۔‘‘’’تُو میری کیا مدد کر سکتا ہے؟‘‘’’میں آپ کو قلعے کے اندر پہنچا سکتا ہوں۔‘‘یونس ابن مرقس نے کہا۔’’پھر دمشق آپ کا ہوگا۔‘‘*
*بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اہلِ دمشق اپنا کوئی سالانہ جشن منا رہے تھے۔ایسے جشن میں وہ اتنی زیادہ شراب پیتے اور رنگ رلیوں میں ایسے مگن ہوتے تھے کہ انہیں اپنے پرائے کی ہوش نہیں رہتی تھی،اور فوج بھی اس میں شریک ہوتی تھی لیکن اب ایسی حالت میں دمشق والوں کا ایسا جشن منانا کہ وہ اپنے ہوش و حواس بھی کھو بیٹھیں قابلِ یقین نہیں لگتا تھا۔دمشق کے اندر کی حالت بیان کی جا چکی ہے۔وہاں تو قحط اور خوف و ہراس کی کیفیت تھی۔روم کی فوج کی بے شمار نفری ماری جا چکی تھی۔لاشیں باہر گل سڑرہی تھیں اور زخمی اندر کراہ رہے تھے۔ان حالات میں جشن کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ایک یورپی مؤرخ ہنری سمتھ نے اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے وہ حقیقی لگتا ہے۔اس نے شام سے رومیوں کی پسپائی کے بیان میں لکھا ہے کہ دمشق کے محاصرے میں رومیوں کی حالت اتنی بری ہو گئی تھی کہ وہ ہتھیار ڈالنے پر آگئے تھے۔ان کے مذہبی پیشواؤں نے رومی سالار توما سے کہا تھا کہ ان سے خدا ناراض ہے۔خدا کو راضی کرنے کیلئے مذہبی قسم کے جشن کا اہتمام کیا گیا تھا۔دمشق میں دوسرے عقیدوں کے لوگ بھی تھے جو اپنے انداز سے مذہبی تقریب منعقد کر رہے تھے۔چونکہ یہ مذہب کا اور فتح کیلئے دعا کا معاملہ تھا اس لیے ا س میں ہرکسی کی شرکت لازمی تھی۔فوج کو بھی اس میں شامل ہونا تھا۔اس یورپی مؤرخ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایسا کوئی خطرہ نہیں تھا کہ مسلمان قلعے پر چڑھائی کردیں گے،یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔مسلمانوں کی اپنی حالت ایسی مضبوط نہیں رہی تھی کہ وہ ہلہ بول دیتے۔یہ تو خالدؓ کا عزم تھا اور انہیں اپنے تمام سالاروں کا بھرپور تعاون حاصل تھا کہ دمشق کو چند دنوں میں سر کرنا ہے۔یونس ابن مرقس کے متعلق تمام مؤرخ متفق ہیں۔اس نے خالدؓ کو قائل کر دیا کہ وہ انہیں قلعے میں داخل کر دے گا اور اس کے عوض وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی اسے دلا دی جائے۔خالدؓنے اس یونانی پر اعتبار کر لیااور اسے سب سے پہلے اسلام کی دعوت دی۔’’میں نے اسلام کے متعلق بہت کچھ سنا ہے۔‘‘یونس ابن مرقس نے کہا۔’’لیکن مجھے کوئی بتانے والا نہیں تھا اور میرا ہاتھ تھامنے والا کوئی نہ تھا۔مجھے اپنے پاس رکھیں، میں اسلام قبول کرتا ہوں۔کیا مجھے اپنا نام بدلنا پڑے گا؟‘‘’’نہیں !‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تمہارا نام پہلے ہی اسلامی ہے۔‘‘خالدؓ نے اسے مسلمان کر لیا اور اس سے پوچھنے لگے کہ کمند کہاں اور کس طرح لگائی جائے،اور اندر کی طرف دروازے کی حفاظت کا کیا انتظام ہے؟*
*یونس ابن مرقس نے انہیں پوری تفصیل سے سب کچھ بتایا۔یونس ابن مرقس کو اتنا ہی معلوم تھا کہ دو تین دن لڑائی نہیں ہو گی،اور کل رات لوگ ایک جشن یا تقریب منائیں گے۔اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ رومی سالار توماہمت ہار چکا ہے،اور وہ کوئی اور چال چل رہا ہے۔یہ چال توما اور اس کے مشیروں نے مل کر سوچی تھی۔جس طرح مسلمانوں کے پاس اسی علاقے کے جاسوس موجود تھے ۔اسی طرح رومیوں کے پاس ایسے جاسوس موجود تھے جو خالدؓ اور اس کے تمام سالاروں کے کردار اور عادات کے تعلق پوری واقفیت رکھتے تھے۔یہ عرب کے عیسائی تھے اور مکہ ،مدینہ اور انہی علاقوں کے رہنے والے یہودی بھی تھے۔یہ سب صرف جاسوس ہی نہیں تھے بلکہ ان میں سے دو چار توما کے مشیر بھی بنے ہوئے تھے۔توما نے باہر نکل کر مسلمانوں پر حملے کیے تھے پورا زور لگا لیا تھا مگر صرف جانی نقصان کے اسے کچھ بھی حاصل نہ ہو اتھا۔شہریوں نے اسے الگ پریشان کر رکھا تھا۔ شہر میں خوراک ختم تھی اور اس کی اپنی حالت یہ تھی کہ ایک تیر کا اگلا حصہ اس کی آنکھ میں اترا ہوا تھا اور اوپر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ ’’پھر بھی میں شہر کو تباہی اور لوٹ مار سے اور لوگوں کے قتلِ عام سے بچانا چاہتا ہوں۔‘‘ توما نے اپنے سلاروں اور مشیروں کو بلاکر انہیں اپنی صورتِ حال بتائی اور کہا کہ ہم لڑ نہیں سکتے۔مسلمان آسانی سے اندر نہیں آسکتے لیکن اناج اور رسد کا جو حال ہے وہ تم سب جانتے ہو مسلمانوں نے صرف محاصرہ ہی جاری رکھا تو لوگ بھوک سے مرنے لگیں گے۔‘‘’’اور وہ بغاوت بھی کر سکتے ہیں۔‘‘ایک مشیر نے کہا۔’’بغاوت کریں یا نہ کریں۔‘‘توما نے کہا۔’’ یہ میرافرض ہے کہ انہیں ہر تکلیف سے بچائے رکھوں۔مجھے تمہارے مشوروں کی ضرورت ہے ۔کیا کوئی ایسی صورت ہو سکتی ہے کہ ہم شہر خالی کرنا چاہیں تو مسلمان ہمیں اجازت دید یں اور ہمیں کوئی نقصان نہ اٹھانا پڑے۔‘‘’’خالدابنِ ولید بڑا جابر سالار ہے ۔‘‘ایک یہودی مشیر نے کہا۔’’وہ ہمیں پر امن طریقہ سے نہیں نکلنے دے گا۔ا س کی فوج کا جو نقصان ہو چکا ہے وہ بھی نہیں بخشے گا۔ ہمیں کہے گا اسلام قبول کرو۔‘‘’’یہ میں کبھی نہیں کروں گا۔‘‘توما نے کہا۔’’اگر آپ نہیں کریں گے تو وہ آپ سے اتنا تاوان مانگے گا جو آپ اپنے خزانے کے علاوہ لوگوں کے گھروں سے اکٹھا کریں تو بھی مشکل سے پورا ہوگا۔‘‘یہودی مشیر نے کہا۔*
*توما گہری سوچ میں پڑ گیا۔*

*نوٹ : عید کے دن ہونے کی وجہ سے ٹائم نہیں مل سکا*

*جزاکم اللہ خیرا*

*جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*
       *اسلامک ہسٹری*
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─