┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄
*《•▪♡ شمشیرِ بے نیام ♡▪•》*
*حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ*
*( قسط نمبر-65)*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*
*رومیوں نے دمشق کا دفاع تو بڑا اچھا کیا تھا لیکن شہر میں رسد اور خوراک کی اتنی کمی تھی کہ دس دنوں کے محاصرے میں ہی شہری ہر چیز کی قلت محسوس کرنے لگے تھے۔ہرقل کو اطلاع مل چکی تھی۔اس نے کمک بھیجی اور اس کے ساتھ خوراک کا ذخیرہ بھی بھیج دیا تھا۔*
*ضرار بن الازور کو بتایا گیا کہ رومی فوج کے ساتھ مال و اسباب بے حساب آرہا ہے تو ضرار نے جوش میں آکر حسبِ معمول زِرہ، خود، اور قمیض اتار پھینکی اور نیم برہنہ ہو کر انہوں نے اعلان کیا کہ بہت موٹا شکار آرہا ہے۔رومی جب پہاڑیوں میں آئے تو ضرار کی للکار پر مجاہدینِ اسلام گھات سے نکل کر رومیوں پر ٹوٹ پڑے۔توقع یہ تھی کہ رومی اچانک حملے سے گھبرا کر اور بوکھلا کر بھاگ اٹھیں گے لیکن ان کا درِ عمل ایسا بالکل نہیں تھا۔انہوں نے یہ چال چلی کہ پیچھے ہٹنے لگے اور درہ عقاب کے قریب اس جگہ جا رُکے جو ہموار میدان تھا اور یہ پہاڑی کی بلندی تھی۔انہوں نے سامان کی گاڑیاں پیچھے بھیج دیں اور ان کے پیچھے کی فوج آگے آگئی۔ان کی تعداد مسلمانوں سے دگنی تھی اور ان کے انداز سے صاف پتا چلتا تھا کہ مسلمانوں کا یہ حملہ ان کیلئے غیر متوقع نہ تھا، وہ اس کیلئے تیار تھے ،انہوں نے قدم جما لیے۔ضرار بن الازور نے دشمن کو اس کیفیت میں دیکھا کہ اس نے نہ صرف یہ کہ حملہ روک لیا ہے بلکہ وہ سامنے سے بھی اور دائیں بائیں سے بھی حملے کر رہا ہے۔مسلمانوں کا جوش و خروش کچھ کم نہ تھا لیکن رومی جس منظم انداز سے لڑ رہے تھے اس سے یہی ایک خطرہ نظر آنے لگا تھا کہ وہ مسلمانوں کو بھگا کر اور کاٹ کر آگے نکل جائیں گے۔ضرار کو خالدؓ نے جس حرکت سے منع کیا تھا ،انہوں نے وہی حرکت کی۔پہلے تو وہ منظم انداز سے رومیوں پر حملے کراتے رہے لیکن دیکھا کہ رومی پیچھے ہٹنے کے بجائے چڑھے آرہے ہیں تو ضرار جوش میں آگئے اور چند ایک مجاہدین کو ساتھ لے کر رومیوں پر ٹوٹ پڑے۔انہوں نے اپنی مخصوص جرات اور شجاعت کا مظاہرہ کیا اور جو رومی ان کے سامنے آیا وہ کٹ گرا اور اس طرح وہ اندھا دھند بہت آگے نکل گئے۔’’یہ ہے برہنہ جنگجو!‘‘کسی رومی نے نعرہ لگایا۔یہ کوئی سالار ہو سکتا تھا۔اس نے للکار کر کہا۔’’گھیرے میں لے لو، اسے زندہ پکڑو۔*
*ضرار نیم برہنہ ہو کر لڑنے اور دشمن کو ہر میدان میں حیران کن نقصان پہنچانے میں اتنے مشہور ہو گئے تھے کہ انطاکیہ تک ان کی شجاعت کے چرچے پہنچ گئے تھے،رومیوں نے اس نیم برہنہ جنگجو کو پہچان لیا۔ضرار کے دائیں بازو میں ایک تیر لگ چکا تھا، مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ضرار کے جسم پردو زخم اور بھی تھے۔بہرحال ان کے بازو میں تیر اترنے پر سب متفق ہیں،ضرار نے تیر کھینچ کر بازو سے نکال پھینکا۔تیر نکالنا بڑا ہی اذیت ناک ہوتا ہے۔وہاں سے گوشت باہر نکل آتا ہے لیکن ضرار بن الازور عاشقِ رسولﷺ تھے۔وہ تو جیسے اپنے جسم اور اپنی جان سے دست بردار ہو گئے تھے۔یہ تیر اور تلواریں تو جیسے ان کا کچھ بگاڑ ہی نہیں سکتی تھیں،رومیوں کا تیر کھا کر انہوں نے تیر یوں نکال پھینکا جیسے ایک کانٹا نکال پھینکا ہو۔ان کا دایاں ہاتھ تلوار کو مضبوطی سے تھامے رہا اور رومی کٹتے اور گرتے رہے۔رومی انہیں زندہ پکڑنے کا تہیہ کر چکے تھے۔انہوں نے ضرار کے آدمیوں کو جو ان کے ساتھ آگے نکل گئے تھے، بکھیر کر الگ الگ کر دیااور ضرار کو گھیرے میں لے لیااس موقع پر انہیں ایک یا دو زخم آئے۔آخر کئی رومیوں نے مل کر انہیں پکڑ لیا،اور انہیں باندھ دیا،رومی بلند آواز سے چلّانے لگے:’’مسلمانو!ت¬مہارا سالار ہمارا قیدی ہو گیا ہے۔‘‘’’ہم نے تمہارے ننگے سالار کو پکڑ لیا ہے۔‘‘’’ہم شہنشاہِ ہرقل کو تحفہ دیں گے۔‘‘رومیوں کی للکار بلند ہوتی جا رہی تھی،وہ ٹھیک کہتے تھے۔شہنشاہِ ہرقل کیلئے ضرار سے بڑھ کر کوئی اور تحفہ اچھا نہیں ہو سکتا تھا،رومی انہیں باندھ کر پیچھے لے گئے۔ان کے زخموں سے خون بڑی تیزی سے بہا جا رہاتھا جس سے یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ وہ ہرقل تک زندہ نہیں پہنچ سکیں گے،رومیوں نے ان کی مرہم پٹی کردی۔اس دور کی جنگوں میں فوجیں یوں بھی شکست کھا جاتی تھیں کہ سپہ سالار مارا گیا، پرچم گر پڑا، اور پوری کی پوری فوج بھاگ اٹھی، لیکن مسلمانوں کا معاملہ اس کے برعکس تھا۔ضرار جیسا سالار پکڑا گیا تو دشمن کی للکار سن کر کہ اس نے ان کے سالار کو پکڑ لیا ہے، مسلمانوں نے حملوں کی شدت میں اضافہ کر دیا۔وہ لپکتے ہوئے شعلے اور کڑکتی ہوئی بجلیاں بن گئے۔رافع بن عمیرہ ضرار کے نائب سالار تھے، انہوں نے گرج کر اعلان کیا کہ اب کمان ان کے ہاتھ میں ہے، انہوں نے سامنے سے رومیوں پر حملے بھی کرائے ۔خود بھی حملوں کی قیادت کی اوردشمن کی صفوں کو توڑ کر آگے جانے کی کوشش کی۔لیکن رومیوں کی صفیں مل کر بڑی مضبوط دیوار بن گئی تھیں۔رافع ضرار کو رہا کرانے کی کوشش میں تھے۔لیکن ان کی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی تھی۔*
*مسلمان اپنے سالار کو دشمن سے چھڑانے کیلئے جان کی بازی لگائے ہوئے تھے۔*
*دوپہر سے ذرا بعد کا وقت تھا۔خالدؓ دمشق کے اردگرد گھوم پھر کر جائزہ لے رہے تھے کہ دیوار کہیں سے توڑی جا سکتی ہے یا نہیں۔دو سالار ان کے ساتھ تھے۔’’خدا کی قسم!دمشق ہمارا ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’رومیوں کو کمک نہیں مل سکتی۔ضرار اور رافع ان کی کمک کو بھگا چکے ہوں گے۔‘‘خالدؓ چپ ہو گئے۔ایک گھوڑ سوار ان کی طرف تیز آرہا تھا۔’’قاصد معلوم ہوتا ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا اور گھوڑے کو ایڑ لگاکر اس کی طرف بڑھے۔’’سالارِ اعلیٰ !‘‘گھوڑ سوار نے گھوڑا ان کے قریب روک کر کہا۔’’رومیوں نے ضرار بن الازور کو پکڑ لیا ہے ۔ابنِ عمیرہ نے ان کی جگہ لے لی ہے۔انہوں نے ابن الازور کو رہا کرانے کی بہت کوشش کی ہے لیکن رومیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ہم ناکام ہو گئے ہیں۔ابنِ عمیرہ نے مجھے اس پیغام کے ساتھ بھیجا ہے کہ کمک کے بغیر ہم رومیوں کو نہیں روک سکیں گے۔‘‘’’کیا میں نے اسے منع نہیں کیا تھا کہ اپنے آپ کو قابو میں رکھنا؟‘‘خالد نے برہم سا ہو کر کہا۔’’رومی ہمارے اتنے قیمتی سالار کونہیں لے جا سکتے۔‘‘خالدؓنے تمام سالاروں کو بلایا اور انہیں ضرار کی گرفتاری اور بیت لہیا میں رومیوں کے سامنے مسلمانوں کی کمزور حالت کے متعلق بتایا۔’’میں خود ابنِ عمیرہ کی مدد کیلئے جانا چاہتا ہوں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’لیکن محاصرہ کمزور ہو جائے گا۔رومی باہر آکر تم پر حملہ کردیں گے،ہماری نفری پہلے ہی کم ہو کر رہ گئی ہے،اگر میں نہیں جاتا اور میں کمک نہیں بھیجتا تو ہمارے پانچ ہزار سوار مارے جائیں گے اور رومیوں کی کمک سیدھی یہاں آکر ہلہ بول دے گی۔بتا سکتے ہو مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘‘’’رافع کی مدد کو پہنچنااور رومیوں کی کمک کو روکنا زیادہ ضروری ہے۔‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ابنِ ولید! تو سمجھتا ہے کہ تیرا جانا ضروری ہے تو ابھی چلا جا۔ہمیں اور دمشق کے محاصرے کو اﷲ پر چھوڑ۔رومیوں کو باہر آکر حملہ کرنے دے۔وہ زندہ اندر نہیں جا سکیں گے۔‘‘دوسرے سالاروں نے ابو عبیدہؓ کی تائید کرکے خالدؓ کو یقین دلایا کہ ان کی نفری کم ہو بھی گئی تو بھی وہ محاصرے کو درہم برہم نہیں ہونے دیں گے۔’’اگر مجھے جانا ہی ہے تو میں فوراً نہیں جاؤں گا۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’میں ایسے وقت یہاں سے سواروں کو لے کر نکلوں گا جب دشمن ہمیں نہیں دیکھ سکے گا……ابو عبیدہ!میری جگہ لے لے۔میں آدھی رات کے بعد چار ہزار سوار لے کر نکل جاؤں گا۔تم سب پر اﷲ کی سلامتی ہو،اﷲتمہارا حامی و ناصر ہو۔چار ہزار سواروں کو تیاری کی حالت میں الگ کردو اور انہیں بتا دو کہ آدھی رات کے بعد روانہ ہونا ہے۔‘‘بیت لہیا کم و بیش بیس میل دور تھا۔سورج غروب ہونے تک وہاں رومیوں اور مسلمانوں میں لڑائی ہوتی رہی۔رافع بن عمیرہ نے شام تاریک ہونے کے بعد بھی مجاہدین کو رومیوں کے عقب میں پہاڑیوں کے درمیان سے گزار کر بھیجا مگر ہر ٹولی ناکام واپس آئی۔*
*’’جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے، ضرار بن الازور موت کے قریب ہوتا جا رہا ہے۔‘‘رافع نے کئی بار کہا۔’’ﷲکرے وہ زندہ ہو، ﷲاسے زندہ رکھے۔ہم اسے چھڑا کر ضرور لائیں گے۔*
*رات گزر گئی،صبح کا اجالا ابھی پوری طرح نہیں نکھرا تھا کہ خالدؓچار ہزار سواروں کے ساتھ رافع کے پاس پہنچ گئے۔خالدؓآدھی رات گزر جانے کے بہت بعددمشق سے روانہہوئے تھے۔انہوں نے چار ہزار سواروں کو شام کے بعد خاموشی سے محاصرے سے ہٹا کر پیچھے کرنا شروع کر دیا تھااور سوار پیچھے جاکر اکٹھے ہوتے جا رہے تھے۔یہ جگہ دمشق سے ذرا دورتھی۔خالدؓ انہیں ساتھ لے کر روانہ ہوئے تو شہر میں محصوررومیوں کو خبر تک نہ ہوئی۔خالدؓ اور ان کے سوار دستے کو دیکھ کر رافع اور ان کے سواروں نے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔خالدؓ نے بڑی تیزی سے دشمن کا اور رافع کے سواروں کا جائزہ لیا، اور دونوں دستوں کو ضرورت کے مطابق ترتیب میں کرکے حملے کا حکم دے دیا۔حملہ ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک گھوڑ سوار مسلمانوں کی صفوں سے نکلا اور گھوڑا سر پٹ دوڑاتا خالدؓ سے بھی آگے نکل گیا۔اس کے ایک ہاتھ میں تلوار اور ایک ہاتھ میں برچھی تھی۔خالدؓ کو اس پر غصہ آیا اور انہوں نے چلا کر اسے پکارا لیکن وہ رومیوں کی اگلی صف تک پہنچ چکا تھا، جسم کے لحاظ سے وہ موٹا تازہ نہیں تھا۔اس کے سر پر سبز رنگ کا عمامہ تھا، اور اس نے اپنا چہرہ ایک کپڑا باندھ کر چھپایا ہوا تھا۔اس کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔’’یہ خالد ہے!‘‘ رافع بن عمیرہ نے کہا۔’’ایسی جرات خالد کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔‘‘رافع ایک پہلو پر تھے جہاں سے خالدؓ نظر نہیں آتے تھے۔خالدؓ نے حملہ روک لیا اور وہ رافع کے پاس گئے۔ رافع انہیں دیکھ کر حیران ہوئے۔’’ابنِ ولید!‘‘رافع نے خالدؓ سے کہا۔’’اگر وہ تو نہیں جو رومیوں پر اکیلا ٹوٹ پڑا ہے تو وہ کون ہے؟‘‘’’میں یہی تجھ سے پوچھنے آیا ہوں۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’میں نے ابن الازور کو اسی حرکت سے روکا تھا۔‘‘’’وہ دیکھ ابنِ ولید!‘‘رافع نے کہا۔’’وہ جو کوئی بھی ہے ذرا دیکھ!‘‘وہ جو کوئی بھی تھا مسلمانوں کو بھی اور رومیوں کو بھی حیران کر رہا تھا۔جو رومی اس کے سامنے آتا تھا وہ اس کی برچھی یا تلوار کا شکار ہو جاتا تھا۔یہ سوار رُکتا نہیں تھا۔ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے ہاتھ میں برچھی ہونے کے باجود اس نے گھوڑے کو اپنے قابومیں رکھا ہوا تھا۔ایک رومی کو گراکر وہ دور چلا جاتا کوئی اس کے تعاقب میں جاتا تو یہ سوار یکلخت گھوڑے کو روک کر یا گھماکر اپنے تعاقب میں آنے والے کوختم کردیتا۔خالدؓ بھی )مؤرخوں کے مطابق ( دم بخود ہو گئے تھے۔ایک بار وہ رومیوں کو گرا کر اس نے گھوڑا دور سے موڑا تو خالدؓکے قریب سے گزرا۔خالدؓ نے چلا کر اسے رکنے کو کہا لیکن سوار نہیں رکا۔دیکھنے والوں کو صرف اس کی آنکھیں نظر آئیں۔ان آنکھوں میں کچھ اور ہی چمک تھی۔بلکہ ان آنکھوں میں دل کشی سی تھی۔اس کی تلوار اوراس کی برچھی کی انّی خون سے سرخ ہو گئی تھی۔وہ ایک بار پھر رومیوں کی طرف جارہا تھا۔*
*’ابنِ ولید!‘‘رافع نے غضب ناک آواز میں کہا۔’’توحملے کا حکم کیوں نہیں دیتا؟خدا کی قسم!یہ جنگ اس اکیلے سوار کی نہیں۔‘‘مجاہدین اس سوار کی حیرت ناک شجاعت کو دیکھ کر جوش سے پھٹ رہے تھے اور وہ بھی حملے کا مطالبہ کر رہے تھے۔خالدؓ نے حملے کا حکم دے دیا۔*
*اب مجاہدینِ اسلام نے جو حملہ کیاتویہ ایسے غضب ناک سیلاب کی مانند تھا جو بند توڑکر آیا ہو،اس ایک پر اسرار سوار نے مجاہدین کے لشکر میں قہر بھر دیا تھا۔مجاہدین نے خالدؓ کی بتائی ہوئی ترتیب سے حملہ کیا لیکن وہ سوار اپنے لشکر سے الگ تھلگ اپنی طرز کی لڑائی لڑتا رہا،خالدؓاس تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن وہ تو جیسے پاگل ہو چکا تھا یا وہ خود کشی کرنے کے انداز سے لڑ رہا تھا۔ایک بار پھر وہ خالدؓ کے قریب سے گزرا۔’’رک جا اے جان پر کھیلنے والے!‘‘خالدؓ چلّائے۔’’کون ہے تو؟‘‘سوار نے گھوڑا ذرا روکا۔خالدؓ کی طرف دیکھا۔کپڑے کے نقاب سے اس کی چمکتی ہوئی آنکھیں نظر آئیں اور اس نے گھوڑے کو ایڑ لگادی۔خالدؓنے اپنے دو محافظوں سے کہا کہ اس سوار کو گھیر کر لے آئیں ورنہ یہ مارا جائے گا۔’’دیکھو، یہ تھک بھی گیا ہے۔‘‘ دونوں سواروں نے گھوڑے دوڑا دیئے اور اسے جالیا۔’’کیا تو نے سنا نہیں سالارِ اعلیٰ نے تجھے بار بار پکارا ہے؟‘‘ایک محافظ نے اسے کہا۔سوار محافظوں کو چپ چاپ دیکھتا رہا۔’’سالارِاعل¬یٰ تجھ سے خفا نہیں۔‘‘دوسرے محافظ نے کہا۔’’آ اور اس سے خراجِ تحسین وصول کر۔‘‘سوار نے ایک بار پھر گھوڑے کا رخ دشمن کی طرف کر دیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ ایڑ لگاتا۔ ایک محافظ نے اپنا گھوڑا ا س کے آگے کر دیا اور دوسرے نے اس کی لگام پکڑ لی۔عجیب بات یہ تھی کہ سوار نے کوئی بات نہ کی اور نقاب سے صرف اس کی آنکھیں نظر آتی رہیں، یہ عام سی آنکھیں نہیں تھیں۔محافظ اسے اپنے ساتھ لے گئے اور خالدؓ کے سامنے جا کھڑا کیا۔اس نے برچھی اور تلوار سے اتنے زیادہ رومیوں کو ہلاک کیاتھا کہ دونوں ہتھیار پورے کے پورے لال ہو گئے تھے اور ان سے خون بہہ بہہ کر اس سوار کے ہاتھوں تک چلا گیا تھا اور کپڑوں پر بھی چھینٹے پڑے تھے۔خالدؓ نے اس کی آنکھوں میں دیکھا تو اس نے نظریں جھکا لیں۔’’آنکھوں سے تو نو عمر لڑکالگتا ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تو نے اپنی شجاعت کاسکہ میرے دل پر بٹھا دیا ہے۔تیری قدر میرے سوا اور کوئی نہیں کر سکتا۔ خدا کی قسم!میں تیرا چہرہ دیکھوں گا اور تو بتا کہ تو ہے کون؟‘‘’’تو میرا امیر ہے اور میرا سالار ہے۔‘‘سوار نے کہا۔’’اور تو میرے لیے غیر مرد ہے،میں تیرے سامنے اپنا چہرہ کیسے بے نقاب کر دوں۔جسے تو میری شجاعت کہتا ہے یہ ایسا اشتعال اور غصہ ہے جو میرے اختیار سے باہر ہے۔‘‘’’تجھ پر اﷲکی رحمت ہو۔‘‘خالدؓنے اس سوار کی بات سن کر کہا۔’’کس کی بیٹی ہے تو؟کس کی بہن ہے تو؟‘‘’’میں الازور کی بیٹی خولہ ہوں۔‘‘اس نے جواب دیا۔*
*’’ضرار بن الازور کی بہن!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’خدا کی قسم!‘‘خولہ بنتِ الازور نے کہا۔’’میں اپنے بھائی کو رومیوں کی قید سے چھڑا کر دم لوں گی۔‘‘’’خوش نصیب ہے الازور جس کے گھرمیں ضرار جیسے بیٹے اورخولہ جیسی بیٹی نے جنم لیا ہے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’یہ لڑائی صرف تیری نہیں بنتِ الازور!ہمارے ساتھ رہ اور دیکھ کہ ہم تیرے بھائی کو کس طرح رہا کراتے ہیں۔‘‘اس دور میں عورتیں بھی اپنے خاوندوں بھائیوں کے ساتھ میدانِ جنگ میں جایاکرتی تھیں۔خولہ اپنے بھائی ضرار کے ساتھ آئی تھیں۔انہیں پتا چلا کہ رومیوں نے ان کے بھائی کو قید میں لے لیا ہے تو انہوں نے اسے ذاتی جنگ سمجھ لیا۔سپہ سالار خالدؓ کی بھی پرواہ نہ کی اور رومیوں پر ٹوٹ پڑیں۔عورتیں اور بچے دمشق کی مضافات میں تھے ۔خولہ وہاں سے خالدؓ کے چار ہزار مجاہدین کے پیچھے پیچھے چل پڑی تھیں۔جوں ہی رومی اور مسلمان آمنے سامنے آئے خولہ نے گھوڑے کو ایڑ لگادی اور رومیوں پر ٹوٹ پڑیں۔خولہ نے ایسی مثال قائم کر دی جس نے مجاہدینِ اسلام کو نیا حوصلہ اور نیا ولولہ دیا۔اب مسلمانوں کی نفری بھی زیادہ ہو گئی تھی، اور قیادت خالدؓ کی تھی۔خالدؓ کے ساتھ جو چار ہزار سوار گئے تھے وہ تازہ دم تھے۔اس کے علاوہ پورا لشکر ضرار کے قیدی ہو جانے پر آگ بگولہ تھا۔رومیوں کیلئے اس حملے کو برداشت کرنا ناممکن ہو گیا۔انہوں نے جم کر لڑنے کی کوشش کی لیکن خالدؓ کی چالوں اور ان کے لشکر کے غیض و غضب کے سامنے رومی ٹھہر نہ سکے۔رومیوں کی فوج چونکہ ایک منظم اور تربیت یافتہ فوج تھی اس لیے اس کی پسپائی بھی منظم تھی۔اسے پسپا کرنے میں خالدؓ کو بہت زور لگانا پڑا۔رومیوں کی پسپائی سے یہ مقصد تو پورا ہو گیا کہ دمشق کے دفاعی دستے کمک اور رسد سے محروم رہے۔رومیوں کا یہ کمال تھا کہ وہ جو رسد ساتھ لائے تھے وہ اپنے ساتھ ہی لے جا رہے تھے۔اب دوسرا مقصد سامنے تھا اور وہ تھا ضرار کی رہائی۔اس مقصد کیلئے خالدؓ نے رومیوں کا تعاقب جاری رکھا۔رومی اور تیزی سے پسپا ہونے لگے۔خالدؓ نے ہر داؤ کھیلا مگر رومیوں نے کوئی داؤکامیاب نہ ہونے دیا، خالدؓ نے تعاقب کی رفتار کم نہ کی۔ان کی کوشش یہ تھی کہ رومی کہیں رکنے نہ پائیں۔خالدؓخود پیچھے رہ گئے۔یہ بہن کا ایثار تھا جو اﷲنے قبول کیا، اور یہ ضرار کا عشقِ رسولﷺ تھا جو اﷲکو اچھا لگا۔ضرار کی سرفروشی کو اﷲنے نظر انداز نہ کیا۔پتا چلا کہ ضرار رومیوں کی قید میں زندہ ہیں۔یہ خبر دینے والے دو عربی تھے جو اس علاقے میں آکر آباد ہوئے تھے،خالدؓ کے دو چار سوار ایک چھوٹی سی ایک بستی کے قریب سے گزرتے گزرتے رک گئے۔وہ پانی پینا چاہتے تھے۔بستی کے لوگ اس خیال سے خوفزدہ ہو گئے کہ یہ فاتح فوج کے آدمی ہیں اس لئے یہ لوٹ مار کریں گے اور جوان لڑکیوں پر ہاتھ ڈالیں گے۔آبادی میں ہڑبونگ سی مچ گئی۔دو آدمی مسلمان سواروں کے پاس آئے۔’’ہم بھی عربی باشندے ہیں۔‘‘انہوں نے سواروں سے کہا۔’’ہم مسلمان تو نہیں پھر بھی عرب کی مٹی کا واسطہ دے کر کہتے ہیں کہ ہماری خاطر اس بستی پر ہاتھ نہ اٹھائیں-*
*جزاکم اللہ خیرا۔*
*جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*👇🏻
*اسلامک ہسٹری*
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─