┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

*《•▪♡ شمشیرِ بے نیام ♡▪•》*

*حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ*

*( قسط نمبر-64)*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*کچھ دستے مختلف مقامات پر رومیوں کی کمک کو روکنے کیلئے بھیج دیئے گئے۔یہ وجہ تھی کہ مجاہدین کی تعداد بیس ہزار رہ گئی تھی۔دمشق بڑا شہر تھا۔اس کے چھ دروازےتھے اور ہر دروازے کا نام تھا۔ باب الشرق، باب توما، باب حابیہ، باب فرادیس، باب کیسان، اور باب صغیر۔ خالدؓ نے ہردروزے کے سامنے دودو تین تین ہزار نفری کے دستے کھڑے کردیئے۔ہر دروازے کیلئے ایک سالار مقررکیا۔رافع بن عمیرہ، عمروؓ بن العاص، شرجیلؓ بن حسنہ، ابوعبیدہؓ، یزیدؓ بن ابی سفیان۔ یزیدؓ کی ذمہ داری میں دو دروازے دے دیئے گئے۔ضرار بن الازور کو منتخب سواروں کا دو ہزار نفری کا دستہ اس مقصد کیلئے دے دیا گیا کہ وہ قلعے کے اردگرد گھومتے پھرتے رہیں اور اگر رومی باہر آکر کسی دستے پر حملہ کریں تو ضرار اس کی مدد کو پہنچیں۔شہر کی دیوار پر رومی کمانیں اور برچھیاں لیے کھڑے تھے۔ان میں دوسرے سالاروں کے علاوہ دمشق کے دفاع کا ذمہ دار سالار توما بھی تھا جو شہنشاہِ ہرقل کا داماد بھی تھا۔خالدؓ نے حکم دیا کہ رومیوں کے دونوں قیدی سالاروں عزازیر اور کلوس کو آگے لایا جائے۔دونوں بندھے ہوئے لائے گئے۔انہیں دیوار کے اتنا قریب لے جایا گیا جہاں وہ دیوار پر کھڑے رومیوں کو نظر آسکتے تھے۔’’کیا تم دونوں اسلام قبول کرو گے؟‘‘خالدؓ نے دونوں سے بلند آواز میں پوچھا۔’’نہیں۔‘‘دونوں نے اکٹھے جواب دیا۔خالدؓ نے ضرار بن الازور کو آگے بلایا اور کہا کہ انہیں ان کے انجام تک پہنچادو۔ضرار نے تلوار نکالی اور دونوں کی گردنوں پر ایک ایک وار کیا۔دونوں کے سر زمین پر جا پڑے، ان کے دھڑ گرے ، تڑپے، اور ساکت ہو گئے۔دیوار سے تیروں کی بوچھاڑ آئی لیکن خالدؓ اور ضرار ان کی زد سے نکل آئے تھے۔دمشق کا محاصرہ رومیوں کی تاریخ کا بہت بڑا واقعہ بلکہ حادثہ اور المیہ تھا اور مسلمانوں کی تاریخ کا بھی یہ بہت بڑا اور بعض تاریخ نویسوں کیلئے حیران کن واقعہ تھا۔حیران کن تو رومیوں کیلئے بھی تھا کیونکہ روم کی فوج اس دور کی بہترین فوج اور ناقابلِ تسخیر جنگی طاقت سمجھی جاتی تھی۔رومی فوج دہشت اور تباہی کا دوسرا نام تھا۔اس فوج نے ہر میدان میں فتح پائی تھی۔کسریٰ کی فوج بھی اس سے کم نہ تھی لیکن رومی فوج نے اسے بھی شکست دے کر الگ بٹھا دیاتھا۔لیکن اتنی دور سے آئے ہوئے اور اتنے تھوڑے سے مسلمان اسی رومی فوج کو شکست پہ شکست دیئے چلے جا رہے تھے اور انہوں نے دمشق کو محاصرے میں لے لیا تھا جو رومیوں کا بڑا ہی اہم اور قیمتی شہر تھا۔قیصرِ روم نے تو سوچا بھی نہ تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کی بہترین اور دہشت ناک فوج کو اس مقام پر لے آئے گی کہ اس کیلئے رومیوں کی روایات اور وقار کا تحفظ محال ہو جائے گا۔*
*مسلمانوں کیلئے بھی شام میں فاتحانہ داخلہ اور دمشق کا محاصرہ بہت بڑا واقعہ تھا۔ایک تو نفری دشمن کے مقابلے میں بہت تھوڑی تھی جو زخمیوں اور شہیدوں کی وجہ سے کم سے کم ہوتی چلی جا رہی تھی ، دوسرے اپنے وطن سے دوری۔ پسپائی کی صورت میں ان کیلئے کوئی پناہ نہیں تھی۔اس صورت میں انہیں کھانے پینے کو بھی کچھ نہیں مل سکتا تھا۔مختلف ادوار کے جنگی مبصروں اور وقائع نگاروں نے لکھاہے کہ خالدؓ کے لشکر نے جس کی نفری ہمیشہ خطرناک حد تک کم رہی ہے۔تاریخ نویسوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔اگر جنگی مہارت اور قیادت کی بات کی جائے تو سرِ فہرست دو فوجیں آتی ہیں۔ایک قیصرِ روم کی فوج دوسری کسریٰ کی فوج۔یہ دونوں فوجیں عسکری اہلیت اور قیادت کی وجہ سے مشہور تھیں۔بیشک خالدؓکی جنگی قیادت ، تیز رفتار نقل و حرکت اور میدانِ جنگ میں چالوں کا مقابلہ کم ہی سالار کر سکتے تھے لیکن عقیدے کی سچائی اور جذبے کی شدت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔گھروں اور اہلِ و عیال سے اتنی لمبی جدائی سپاہیوں کے جذبے کو کمزور کر دیا کرتی ہے لیکن مسلمانوں کی فوج میں ایسی کمزوری دیکھنے میں نہیں آتی تھی۔اس کیفیت کو مبصروں نے عقیدے اورجذبے کا کرشمہ کہا ہے۔’’میرے عزیر رفیقو!‘‘خالدؓنےاپنے سالاروں سے دمشق کے مضافات میں کہیں کہا۔’’سوچو ہم کہاں تھے اورد یکھو ہم کہاں ہیں۔کیا اب بھی کفار اﷲکو وحدہ لا شریک نہیں مانیں گے اور کیا وہ تسلیم نہیں کریں گے کہ اﷲنے ہمارے قبیلے کو رسالت عطاکی ہے جو برحق ہے اور کوئی دلیل اسے جھٹلا نہیں سکتی؟……اور تم اﷲ کا شکر ادا نہیں کرو گے جس نے تمہیں اتنے طاقتور دشمن پر فتح دی ہے ؟کوئی شمار نہیں اس کی رحمتوں کا لیکن ان کیلئے جو اس کی رسی کو مضبوطی سے پکڑتے ہیں۔‘‘’’بیشک، بیشک!‘‘کئی آوازیں سنائی دیں۔’’اور اے برہنہ جنگجو!‘‘خالدؓنےضرار بن الازور سے جو خود، زرہ اور قمیض اتارکر لڑا کرتے تھے ، کہا۔’’خدا کی قسم!تو اپنے آپ کو قابو میں نہیں رکھے گا تو ایک دن تو ہی نہیں ہم سب افسوس کر رہے ہوں گے۔‘‘*
*’’ولید کے بیٹے!‘‘ضرار نے کہا۔’’دینِ اسلام کے دشمن کو دیکھ کر اپنے آپ پر قابو نہیں رہتا لیکن اس میں کوتاہی نہیں کروں گا کہ تیرے ہر حکم کی تعمیل مجھ پر فرض ہے۔‘‘*
*ضرار بن الازور کے بولنے کا انداز اتنا شگفتہ تھا کہ سب ہنس پڑے۔خالدؓ کے ہونٹوں پر جانفزا مسکراہٹ آ گئی۔انطاکیہ کی فضاء ہنسی اور مسکراہٹوں سے محروم ہو گئی تھی۔اس شہر کو رومی شہنشاہ ہرقل نے اپنا جنگی ہیڈ کوارٹر بنا لیا۔اسے جنگ کی جو خبریں روز بروز مل رہی تھیں ان سے اس کی ذہنی اور جذباتی حالت ویسی ہی ہو گئی تھی جو مدائن میں شہنشاہ اُردشیر کی ہوئی تھی،اور صرف شکست کی خبریں سن سن کروہ صدمے سے مر گیا تھا۔مرج الصفر میں رومیوں کو جو شکست ہوئی تھی اس نے تو ہرقل کو باؤلا کر دیاتھا۔پھر اسے اپنے سالاروں کے مارے جانے کی اطلاعیں ملنے لگیں۔’’عزازیر زندہ ہے۔‘‘ہرقل نے بڑے جوش سے کہا۔’’کلوس ہے……یہ دونوں عرب کے ان بدوؤں کو دمشق تک نہیں پہنچنے دیں گے۔‘‘’’شہنشاہِ معظم!‘‘محاذسے آئے ہوئے قاصد نے کہا۔’’وہ دونوں زندہ نہیں۔‘‘’’کیا تم مجھ سے یہ جھوٹ منوانا چاہتے ہو؟‘‘ہرقل نے غضب ناک آواز میں کہا۔’’کیا تم جھوٹ کی سزا سے واقف نہیں؟‘‘’’سب کچھ جانتے ہوئے یہ خبر سنا رہا ہوں شہنشاہِ معظم!‘‘ قاصد نے کہا۔’’ان دونوں کو مسلمانوں نے زندہ پکڑ لیا تھا اور دونوں کو انہوں نے دمشق کی شہرِ پناہ کے قریب لاکر قتل کر دیا ہے۔‘‘’’اور میری بیٹی کے خاوند کی کیا خبر ہے؟‘‘شہنشاہِ ہرقل نے اپنے داماد سالار توما کے بارے میں قاصد سے پوچھا۔’’سالار توما دمشق کے اندر ہیں۔‘‘قاصد نے جواب دیا۔’’اور محاصرہ توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘’’دمشق کا محاصرہ ہم توڑیں گے۔‘‘شہنشاہِ ہرقل نے کہا۔ہرقل نے انطاکیہ میں اسی لیے ڈیرے ڈالے تھے کہ فوج تیار کرکے جہاں بھی کمک کی ضرورت ہو گی وہاں فوج بھیجے گا۔اس نے پہلے ہی لوگوں کو فوج بھی بھرتی ہونے کیلئے تیار کرنا شروع کر دیا تھا۔گرجوں میں پادری صرف اس موضوع پر وعظ کرتے تھے کہ لوگوں کا فوج میں بھرتی ہونا کتناضروری ہے۔وہ کہتے تھے کہ عیسائیت کاخاتمہ ہو جائے گا۔اور وہ اسلام سے لوگوں کو خوفزد کرتے تھے۔خالدؓ جب دمشق کی طرف بڑھ رہے تھے اس وقت ہرقل نے اعلان کیاتھا کہ جو فوج تیار ہو ئی ہے وہ اس کے معائنے اور احکام کیلئے اسے دکھائی جائے۔یہ فوج اس کے سامنے لائی گئی تو اس نے ایسے جوشیلے اور جذباتی انداز سے فوج سے خطاب کیا کہ سپاہی آگ بگولا ہو گئے۔’’تمہیں کوئی شہنشاہ حکم نہیں دے رہا۔‘‘شہنشاہِ ہرقل نے کہا۔’’یہ خدا کے بیٹے کا حکم ہے کہ اس کے دشمنوں کو تباہ کر دو۔صلیب کی آن پر مر مٹو۔میں آج شہنشاہ نہیں ، تم جیسا ایک سپاہی ہوں۔‘‘*
*۹ستمبر ۶۳۴ء )۱۰ رجب ۱۳ ھ( کا دن تھا۔دمشق کے محاصرے کا گیارہواں دن تھا محاصرے کے دس روز یہ سرگرمی رہی کہ دمشق کے کسی نہ کسی دروازے سے رومیوں کے ایک دو دستے باہر آتے اور مسلمانوں پر حملہ کرتے لیکن زیادہ آگے نہ آتے۔مختصر سی جھڑپ لے کر قلعے میں واپس جانے کی کرتے۔خالدؓنے ابھی قلعے پر کسی بھی قسم کا ہلہ نہیں بولا تھا۔خالدؓ نے دیکھ بھال کیلئے ہر طرف جاسوس بھیج رکھے تھے۔محاصرے کے گیارہویں روز ایک جاسوس اس حالت میں خالدؓ کے پاس آیا کہ اس کا گھوڑا پسینے میں نہایا ہوا تھا اور جب گھوڑا رکا تو کانپ رہا تھا۔سوار کی اپنی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی،اس سے اچھی طرح بولابھی نہیں جاتا تھا،خالدؓنے پہلے تو اسے پانی پلایا پھر پوچھا کہ وہ کیا خبرلایا ہے۔’’رومیوں کی ایک فوج آرہی ہے۔‘‘جاسوس نے کہا۔’’تعداد دس ہزار سے زیادہ ہوگی ،کم نہیں۔‘‘’’تم نے اسے کہاں دیکھا ہے؟‘‘خالدؓنے پوچھا۔’’حمص سے آگے نکل آئی ہے۔‘‘جاسوس نے جواب دیااور ایک جگہ کا نام لے کر کہا۔’’ہمارا اک دستہ وہاں موجود ہے۔رومی فوج کل کسی بھی وقت وہاں تک پہنچ جائے گی۔ہمارے دستے کی نفری اس کے مقابلے میں بہت تھوڑی ہے۔اسی لیے میں کہیں ایک ثانیہ بھی نہیں رُکا۔ہمارا دستہ مارا جائے گا اور رومی دمشق تک آجائیں گے۔‘‘خالدؓنے جاسوس کو رخصت کردیا۔ان کیلئے یہ خبر حیران کن بھی نہیں تھی، پریشان کن بھی نہیں تھی۔انہیں معلوم تھا کہ ہرقل انطاکیہ میں ہے اور وہاں وہ آرام اور سکون سے نہیں بیٹھا ہوا بلکہ وہ دمشق کو بچانے کے انتظامات کر رہا ہے۔یہ رومی فوج جس کی اطلاع ایک جاسوس لایا تھا، انطاکیہ سے شہنشاہِ ہرقل نے اپنی دمشق والی فوج کیلئے کمک کے طور پربھیجی تھی۔مؤرخوں نے اس کی تعداد بارہ ہزار لکھی ہے۔خالدؓنے اسی توقع پر کہ رومیوں کی کمک آئے گی، دمشق کی طرف آنے والے راستوں پر پہلے سے ہی تھوڑی تھوڑی نفری کا ایک ایک دستہ بھیج دیا تھا۔ان کے سپرد یہ کام تھا کہ کمک کو روکے رکھیں مگر یہ جو فوج آرہی تھی اس کی نفری بہت زیادہ تھی۔خالدؓ نے اسی وقت سالاروں کو بلایا اور انہیں بتایا کہ دشمن کی زیادہ نفری آرہی ہے اور اسے روکنے کیلئے اپنی نفری بہت تھوڑی ہے۔*
*’’رومیوں کی اس کمک کو روکنا ہے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’اور اپنی نفری جو اس کے راستے میں موجود ہے اسے جانینقصان سے بچانا ہے۔ہمیں محاصرے کو ذرا کمزور کرنا پڑا گا۔‘‘’’اس کمی کو ہم اپنے جذبے سے پورا کرلیں گے۔‘‘سالار شرجیلؓ نے کہا۔’’ابنِ ولید!تو جتنی نفری کافی سمجھتاہے ، یہاں سے نکال کے بھیج دے۔‘‘’’پانچ ہزار سوار کافی ہوں گے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’رومیوں کی نفری دس ہزار سے زیادہ ہے۔‘‘’’بہت ہے۔‘‘ضرار بن الازورنے کہا۔’’اور مجھے یقین ہے ابنِ ولید! تو مجھے مایوس نہیں کرے گا۔ان پانچ ہزار سواروں کا سالار میں ہوں گا۔‘‘’’تیری خواہش کو میں رد نہیں کروں گا ابن الازور!‘‘خالدؓنے کہا۔’’لیکن احتیاط کرنا کہ جوش میں آکر دشمن کی صفوں میں نہ گھس جانا، اگر ایسا ضروری ہو جائے تو تجھے پیچھے نہیں رہنا چاہیے……اور یہ بھی سن لے ابن الازور!اگر تو نے دیکھا کہ تو دشمن کو سنبھال نہیں سکے گا تو فوراً کمک مانگ لینا میں بھیج دوں گا۔وہاں پہلے سے جو اپنا دستہ موجود ہے ، اسے بھی اپنی کمان میں لے لینا،یہ ساری نفری تیرے ماتحت ہوگی۔اپنا نائب خود ہی چن لے۔‘‘’’رافع بن عمیرہ!‘‘ضرار نے کہا۔’’لے جا اسے !‘‘خا لدؓنے کہا۔’’اور اتنی جلدی وہاں پہنچ جیسے تو اڑتا ہوا گیا ہو۔‘‘ضرار بن الازور کو درہ عقاب )ثنیۃ العقاب( کے قریب پہاڑی علاقے میں پانچ ہزار سواروں کے ساتھ پہنچناتھا۔وہ جگہ دمشق سے کم و بیش بیس میل دور تھی،ضرار تو جیسے اڑتے ہوئے وہاں پہنچ گئے۔انہوں نے وہاں جو نفری موجود تھی اسے بھی اپنی کمان میں لے لیا۔یہ علاقہ پہاڑی ہونے کی وجہ سے گھات کیلئے موزوں تھا،رومی فوج ابھی تک وہاں نہیں پہنچی تھی۔ضرار نے بڑی تیزی سے اپنی تمام نفری کو گھات میں چھپا دیا۔اس کے ساتھ ہی اس روز کا سورج غروب ہو گیا۔ضرار نے سنتری اس ہدایت کے ساتھ مقرر کیے کہ وہ ٹیکریوں اور چٹانوں کے اوپر چلے جائیں ، باہر نہ جائیں،پوری احتیاط کی جا رہی تھی کہ دشمن کو گھات کا پتہ نہ چلے۔رات گزر گئی صبح طلوع ہوئی اور اس سے تھوڑی ہی دیر بعد دشمن کی فوج آگئی،اور یہ صحیح معنوں میں فوج تھی۔نفری زیادہ، تنظیم نہایت اچھی۔دیکھا گیا کہ اس فوج کے ساتھ بیشمار گھوڑا گاڑیاں تھیں جو سامان سے لدی ہوئی تھیں اور اونٹوں کی تعداد بھی بے حساب تھی۔جن پربوریاں لدی ہوئی تھیں۔یہ بعدمیں پتا چلا تھا کہ یہ سامان خوردونوش تھا جو دمشق جا رہا تھا۔خالدؓ دمشق کی اس صورتِ حال سے بے خبر تھے۔*

*وضاحتی نوٹ::::*اس قسط میں بھی اور پورے ناول میں غلطی کی وجہ سے حضرت شرحبیل ؓ کا نام شرحبیل کی جگہ شرجیل لکھا گیا ہے۔۔کیوں کہ میں موبائل استعمال کرتے ہوئے یہ ناول آپ تک پہنچا رہا ہوں اس لیے موبائل میں اس نام کو پورے ناول سے چینج کرنا میرے لیے ممکن نہیں ہے۔۔۔اس لیے آپ سب سے درخواست ہے کہ جہاں بھی یہ نام آے وہاں اسے شرجیل کی جگہ شرحبیل پڑھا اور سمجھا جاۓ۔۔۔اللّه پاک ہماری جانے انجانے میں ہونے والی تمام خطاوں کو معاف فرماۓ۔۔۔آمین۔۔۔*

*بہت شکریہ جزاک اللّه خیر۔۔۔*

*اپنی دعاوں میں یاد رکھیں*

*جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔👇🏻
          *اسلامک ہسٹری*

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─