┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

*《•▪♡ شمشیرِ بے نیام ♡▪•》*
 
*حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ*

*( قسط نمبر-63)*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*مسلمان سوار اس خیال سے آگے نہ گئے کہ دشمن گھیرے میں لے لے گا،ویسے بھی انہیں آمنے سامنے کی لڑائی نہیں لڑنی تھی۔وہ جس رفتار سے گئے تھے اسی رفتار سے گھوڑے موڑتے ہوئے دور کا چکر کاٹ کر آگئے۔چند ایک سالار خالدؓکے ساتھ تھے۔سب کو توقع تھی کہ اب رومی حملے کیلئے آئیں گے۔ان کی فوج تین گنا تھی مگر انہوں نے کوئی جوابی حرکت نہیں کی۔’’خدا کی قسم!رومی کچھ اور چاہتے ہیں۔‘‘خالدؓ نے اپنے سالاروں سے کہا۔’’یہ ہمارے ساتھ کھیلنا چاہتے ہیں اور میں اپنے لشکر کے انتظار میں ہوں۔‘‘’’ان کے ساتھ کھیلو ابنِ ولید!‘‘سالار ضرار بن الازور نے کہا۔’’یہ لڑنا نہیں چاہتے۔ہمارا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔‘‘’’اور انہیں شاید معلوم نہیں کہ ہمارا لشکر ابھی دور ہے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’یہ بھی سوچ ابنِ ولید!‘‘سالار شرجیلؓ نے کہا۔’’کیا یہ چوکس نہیں کہ ہمارا لشکر شاید کسی اور طرف سے ان پر حملہ کر دے گا؟‘‘’’میں ان کا دھیان پھیر دیتا ہوں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔رومیوں کی توجہ اپنی طرف کرنے کیلئے خالدؓ نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ دشمن کو انفرادی مقابلوں کیلئے للکارا۔پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس دور میں جب فوجوں کی لڑائی سے پہلے دونوں فوجوں میں سے ایک ایک آدمی سامنے آتا اور ان میں انفرادی لڑائی ہوتی تھی۔خالدؓنے ضرار بن الازور، شرجیلؓ بن حسنہ اور امیرالمومنین ابوبکرؓ کے بیٹے عبدالرحمٰن کو مقابلے کیلئے آگے کیا۔یہ تینوں سالار تھے۔وہ دونوں فوجوں کے درمیان جا کر گھوڑے دوڑانے اور دشمن کو للکارنے لگے۔رومیوں کی صفوں سے تین سوار نکلے۔وہ بھی سالاری کے رتبے کے آدمی تھے۔رومی جنگجو قوم تھی۔اس قوم نے تاریخ ساز تیغ زن اور شہسوار پیدا کیے ہیں۔خالدؓ کے ان تین سالاروں کے مقابلے میں جو رومی نکلے وہ زبردست لڑاکے تھے۔کھلے میدان میں مقابلے شروع ہو گئے۔یہ تین جوڑیوں کامقابلہ تھا۔تینوں جوڑ الگ ہو گئے۔گھوڑے دوڑ رہے تھے گھوم رہے تھے،اور برچھیوں سے برچھیاں ٹکرا رہی تھیں۔دونوں فوجوں کے نعرے گرج رہے تھے ۔گھوڑے اپنی اُڑائی ہوئی گرد میں چھپتے جا رہے تھے ۔پھر گرد سے ایک گھوڑا نکلا۔اس کا سوار ایک طرف لڑھک گیا تھا۔گھوڑا بے لگام ہو کر اِدھر اُدھر دوڑ رہا تھا۔وہ ایک رومی سالار تھا جو بڑا گہرا زخم کھا کر گھوڑے سے گر رہا تھا۔رومیوں کی صفوں سے ایک گھوڑا سر پٹ دوڑتا نکلا اور گرتے ہوئے سوار کے پیچھے گیا۔اس نے گھوڑے کے سوار کو گھوڑے کی پیٹھ پر کردیا لیکن وہ مر چکا تھا۔تھوڑی ہی دیر بعد ایک اور رومی سوار گرا پھر تیسرا بھی گر پڑا،تینوں رومی مارے گئے۔ضرار بن الازور کا انداز وہی تھا کہ مقابلے میں اترتے ہی انہوں نے خود، زِرہ اور قمیض اتار کر پھینک دی تھی۔مقابلہ ختم ہوا تو تین رومیوں کی لاشیں ایک دوسرے سے دور دور پڑی تھیں۔ضرار، شرجیلؓ اور عبدالرحمٰن رومیون کی اگلی صف کے قریب جا کر گھوڑے دوڑاتے اور انہیں للکارتے۔*
*’’رومیو!یہ لاشیں اٹھاؤ۔آگے آؤ بزدلو!‘‘’’ہے کوئی اور موت کا طلبگار!‘‘’’ہم رومیوں کے قاتل ہیں۔‘‘’’رومیو!یہ زمین تم پر تنگ ہو گئی ہے۔‘‘ادھر مجاہدینِ اسلام نے وہ شوروغل بپا کر رکھا تھا کہ آسمان ہلنے لگتا تھا۔ایک اور آدمی گھوڑا دوڑاتا میدان میں آیااور اس نے تلوار لہرا کر گھوڑا چکر میں دوڑایا۔عبدالرحمٰن بن ابی بکر اس کی طرف گئے تو ضرار نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور چلّائے۔’’پیچھے رہ ابی بکر کے بیٹے!اسے میرے لیے چھوڑ دے۔‘‘وہ عبدالرحمٰن کے قریب سے گزر گئے۔رومی نے گھوڑا ان کی طرف موڑا لیکن ضرار نے اس کے گھوڑے کو پوری طرح سے مڑنے بھی نہیں دیا،انہوں نے تلوار کی نوک رومی کے پہلو میں اتاردی۔لیکن اتنی نہیں کہ وہ گر پڑتا۔ضرا ر نے اسے مقابلے کا موقع دیاتھا۔اس نے مقابلہ کیا لیکن اس کا دم خم پہلے زخم سے ہی ختم ہو چکا تھا۔ضرار اس کے ساتھ کھیلتے رہے آخر ایسا بھرپوروار کیا کہ وہ گھوڑے پر دُہرا ہوا اور پھر لڑھک کے نیچے آپڑا۔مدینہ کے ان تین سالاروں کے مقابلے میں چند اور رومی آئے اور مارے گئے۔ضرار، شرجیلؓ اور عبدالرحمٰن نے صرف یہی نہیں کیا بلکہ رومیوں کی اگلی صف کے قریب جاکر گھوڑے دوڑاتے اور انہیں للکارتے تھے بلکہ کوئی رومی صف سے آگے ہوکر ان کی طنزیہ للکار کا جواب دیتا تو وہ ان تینوں میں سے جس کے سامنے ہوتا اسے برچھی یا تلوار سے ختم کر دیتا۔اس طرح انہوں نے چند ایک رومیوں کو بھی زخمی کیا اور قتل بھی۔خالدؓ پہلے تو تماشہ دیکھتے رہے پھر وہ جوش میں آگئے۔انہوں نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور آگے چلے گئے۔’’پیچھے آجاؤ تم تینوں!‘‘خالدؓ نے بڑی بلند آواز میں کہااور میدان میں گھوڑا دوڑانے لگے۔ان کے ہاتھ میں برچھی تھی ۔مؤرخوں نے ان کی للکار کے الفاظ لکھے ہیں۔’’میں اسلام کا ستون ہوں۔‘‘’’میں اﷲکے رسولﷺ کا صحابی ہوں۔‘‘’’میں خالد بن ولید ہوں۔‘‘’’میں اپنی فوج کا سپہ سالار ہوں۔میرے مقابلے میں سپہ سالار آئے۔‘‘واقدی اور طبری نے لکھا ہے کہ رومی سالاروں عزازیر اور کلوس کے درمیان چپقلش تھی۔جب خالدؓنے کہا کہ ان کے مقابلے میں سپہ سالار آئے تو رومی سالار عزازیر نے اپنے ساتھی سالار کلوس کی طرف دیکھا اور کہا کہ کلوس اپنے آپ کو سپہ سالار سمجھتاہے،میں تو اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں،کلوس یہ سن کر خاموش رہا اور مقابلے کیلئے آگے بھی نہ بڑھا۔’’ہمارا سالار کلوس ڈر گیا ہے۔‘‘عزازیر نے طنزیہ کہا۔اس نے کلوس کو کچھ اور طعنے بھی دیئے۔کلوس کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ خالدؓکے مقابلے میں ہچکچا رہا ہے۔لیکن عزازیر اس پر طعنوں کے تیر چلا رہا تھا۔ان سے تنگ آکر کلوس نے گھوڑا بڑھایا اور خالدؓکی طرف گیا۔*
*چار مؤرخوں نے متفقہ طور پر بیان کیا ہے کہ خالدؓ کے ہاتھ میں برچھی تھی۔کلوس ان کی طرف آیا تو اس کا انداز حملے والا نہیں تھا اور اس نے خالدؓ کو کچھ ایسا اشارہ کیا تھا جیسے کوئی بات کرنا چاہتا ہو۔خالدؓ نے اس کے اشارے کی پرواہ نہیں کی، دشمن کا دوستانہ اشارہ دھوکا بھی ہو سکتا تھا۔ خالدؓنے اپنا گھوڑا اس کی طرف دوڑایا اور اس پر برچھی کا وار کیا۔کلوس تجربہ کار جنگجو تھا۔اس نے اپنے آپ کو اس وار سے صاف بچا لیا۔خالدؓ نے آگے جا کر گھوڑا موڑا اور کلوس پر دوسرے حملے کیلئے گئے۔اب کہ انہوں نے سنبھل کر کلوس کو برچھی ماری۔کلوس نے اب پھر ان کا وار بیکار کر دیا۔خالدؓنے برچھی پھینک دی۔کلوس نے دیکھا کہ اب خالدؓ خالی ہاتھ آرہے ہیں۔تو اس نے تلوار تانی۔خالدؓ نے گھوڑ اس کی طرف لیا اور گھوڑے کو زیادہ آگے نہ جانے دیا،اسے فوراً روک کر موڑا اور کلوس پرآئے۔کلوس نے گھوڑا موڑا وہ بہتر پوزیشن میں آکروار کرنا چاہتا تھا۔ لیکن خالدؓنے پیچھے سے آکر اسے مضبوطی سے پکڑ لیا اور گھوڑے سے گرا دیا۔انہوں نے گھوڑے سے کود کر کلوس کو دبوچ لیاکلوس زمین پر پڑا تھا۔اس نے اٹھنے کی ذرا سی بھی کوشش نہ کی۔خالدؓ نے اپنے محافظوں کو پکارا کہ آئیں ۔دو تین محافظ دوڑے گئے۔خالدؓنے انہیں کہا کہ کلوس کو قیدی بنا لیں۔اس طرح کلوس مرنے سے بچ گیا اور قیدی بن گیا۔جب کلوس کو قیدی بنا کر خالدؓکے محافظ لے گئے تواسے پیچھے لے جانے کے بجائے سامنے کھڑا کر دیا گیا۔تاکہ رومی اسے دیکھتے رہیں۔خالدؓ پھر گھوڑے پر سوار ہو گئے،اور گھوڑا چکر میں دوڑاتے اور رومیوں کو للکارتے تھے اور ان کا مذاق بھی اڑاتے تھے۔کلوس کا گھوڑا ایک جگہ رُک گیا تھا ۔خالدؓکے اشارے پر ان کا ایک محافظ کلوس کا گھوڑا پکڑ لایا۔خالدؓ کی للکار کے جواب میں اب رومی سالار عزازیر سامنے آیا۔’’او کلوس!‘‘سالار عزازیر نے خالدؓکو للکارنے کے بجائے اپنے ساتھی سالار کلوس کو للکار کر طعنہ دیا۔’’دیکھ لے اپنا انجام بزدل کمینے!تو مجھے رسوا کر رہا تھا۔اب میری تلوار کا کمال دیکھ۔‘‘اس نے خالدؓ پر حملہ کرنے کے بجائے گھوڑا عام چال سے خالدؓ کی طرف بڑھایا،اور خالدؓ سے طنزیہ لہجے میں کہا۔’’عربی بھائی!میں تجھ سے کچھ پوچھوں گا۔میرے قریب آجا۔‘‘’’او اﷲکے دشمن!‘‘خالدؓ نے اس کے طنز کو سمجھتے ہوئے کہا۔’’میں تیرے قریب گیا تو تیرا سر تیرے جسم کے ساتھ نہیں رہے گا۔تو ہی آجا۔‘‘عزازیر نے تلوار نکالی اور خالدؓ کی طرف آیالیکن وہ ہنس رہا تھا جیسے خالدؓ کو کچھ سمجھتا ہی نہ ہو۔وہ خالدؓ سے کچھ دور رک گیا۔’’عربی بھائی!‘‘اس نے کہا۔’’تجھے میرے مقابلے میں آنے کیلئے کس نے کہا ہے؟کیا تو نے سوچا نہیں کہ تو میرے ہاتھوں مارا جائے گا تو تیرے ساتھی سالار تیرے بغیر کیاکریں گے-*
*’’ﷲسے دشمنی رکھنے والے رومی!‘‘خالدؓنے کہا۔’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ میرے ساتھیوں نے کیا کردکھایا ہے؟انہیں اگر میری اجازت ہوتی تو یہ تیرے اس سارے لشکر کو اسی طرح کاٹ دیتے جس طرح تیرے یہ ساتھی کٹے ہوئے مردہ پڑے ہیں۔میرے ساتھی آخرت سے محبت کرتے ہیں۔یہ دنیا اور یہ زندگی تو ان کیلئے کچھ بھی نہیں……تو ہے کون؟میں تجھے نہیں جانتا۔‘‘’’او بد قسمت عربی!‘‘عزازیر نے خالدؓ کا مذاق اڑانے والے لہجے میں کہا۔’’میں اس ملک کا جابر سالار ہوں میں تیرے لیے قہر ہوں۔میں فارسیوں کے لشکر کا قاتل ہوں۔ترکوں کے لشکر کو برباد کرنے والا ہوں۔‘‘’’میں تیرا نام پوچھ رہا ہوں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’میں موت کا فرشتہ ہوں۔‘‘عزازیر نے کہا۔’’میرا نام عزازیر ہے لیکن میں عزرائیل ہوں۔‘‘’’خد اکی قسم !جس موت کا تو فرشتہ ہے وہ موت تجھے ڈھونڈ رہی ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’وہ تجھے جہنم کے سب سے نیچے والے حصے میں پہنچائے گی۔‘‘عزازیر کو خالدؓکے اس طنز پر بھڑک اٹھنا چاہیے تھا۔لیکن اس نے اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھا۔’’میرے عربی بھائی!‘‘اس نے خالدؓ سے کہا۔’’تو کلوس کے ساتھ کیا سلوک کر رہا ہے جو تیری قید میں ہے؟‘‘’’وہ دیکھ رومی سالار!‘‘خالدؓ نے جواب دیا۔’’تیرا سالار بندھا ہوا ہے۔‘‘عزازیر کا رویہ اور لہجہ اور زیادہ ٹھنڈا ہو گیا۔’’کیا وجہ ہے کہ تونے ابھی تک اسے قتل نہیں کیا؟‘‘عزازیر نے کہا۔’’تو نہیں جانتا کہ رومیوں میں اگر کوئی سب سے زیادہ عیار اور شیطان ہے تو وہ کلوس ہے……تو اسے قتل کیوں نہیں کرتا؟‘‘’’کوئی وجہ نہیں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’صرف یہ ارادہ ہے کہ تم دونوں کو اکٹھا قتل کروں گا۔‘‘ان دونوں رومی سالاروں کی آپس میں دشمنی اتنی زیادہ تھی کہ وہ خالدؓ کی کسی بات پر بھڑکتا ہی نہیں تھا۔’’میری ایک بات پر کان دھر عربی سالار!‘‘عزازیر نے دوستانہ لہجے میں کہا۔’’اگر تو کلوس کومیرے سامنے قتل کر دے تو میں تجھے ایک ہزار دینار، دس قبائیں ریشم کی اور اعلیٰ نسل کے پانچ گھوڑے دوں گا۔‘‘’’او روم کے جابر سالار!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’یہ سب تو مجھے کلوس کو قتل کرنے کا انعام دے رہا ہے ، یہ بتا کہ میرے ہاتھوں قتل ہونے سے بچنے کیلئے تو مجھے کیا دے گا؟اپنی جان کی قیمت بتا دے؟‘‘’’تو ہی بتا۔‘‘عزازیر نے کہا۔’’کیا لے گا؟‘‘’’جزیہ!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’اگر نہیں تو اسلام قبول کرلے۔‘‘اب عزازیر بھڑکا۔’’آعرب ے بدو!‘‘عزازیر نے کہا۔’’اب میرا وار دیکھ۔ہم عظمت کی طرف جاتے ہیں۔تو ذلت میں جاتا ہے۔آ، اپنے آپ کو میرے ہاتھوں قتل ہونے سے بچا۔‘‘*
*اس نے تلوار ہوا میں لہرائی اور خالدؓ پر حملہ کرنے کیلئے گھوڑے کو ایڑ لگائی۔خالدؓ اس سے تیز نکلے۔انہوں نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی۔عزازیر ان کے قریب ہی تھا۔خالدؓ نے تلوار کا وار کیا جو عزازیر نے پھرتی سے ایک طرف ہٹ کر بے کار کر دیا۔اس کے بعد خالدؓ نے ہر طرف سے آکر اس رومی سالار پر وار کیے مگر وہ بڑی پھرتی سے اِدھر اُدھر ہو کر وار بچاتا رہا۔اس نے بعض وار اپنی تلوار پر روکے۔مؤرخ واقدی نے اس دور کی تحریروں کے حوالے سے خالدؓ اور عزازیر کے مقابلے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔عزازیر وار روکتا تھا اور وار کرتا نہیں تھا۔رومی لشکر سے تو دادوتحسین کا شور اٹھ ہی رہا تھا ۔مسلمانوں نے بھی عزازیر کی پھرتی کی داددی۔خالدؓ نے اپنا ہاتھ روک لیا۔’’اے عرب کے سالار!‘‘عزازیر نے کہا۔’’کیا میں تجھے قتل نہیں کر سکتا؟……میں تجھے زندہ پکڑوں گا اور تجھ سے یہ شرط منواؤں گا کہ تو جدھر سے آیا ہے ،اپنے لشکر کے ساتھ اُدھر ہی چلاجائے۔‘‘’’خداکی قسم!اب تو میرے ہاتھوں زندہ گرفتارہوگا۔‘‘خالدؓ نے بھڑک کر کہا اور اس پر جھپٹے۔عزازیر نے گھوڑے کو تیزی سے موڑااور بھاگ نکلا۔خالدؓ نے گھوڑا س کے پیچھے ڈال دیا۔عزازیرنے گھوڑا تیز کر دیااور دونوں فوجوں کے درمیان چکر میں گھوڑا دوڑانے لگا۔اب مسلمانوں کالشکر نعرے لگانے لگا۔خالدؓ اس کے تعاقب میں رہے۔*
*۔عزازیر اپنا گھوڑا ذرا آہستہ کرلیتا اور جب خالدؓ اس تک پہنچتے تو وہ گھوڑے کو ایڑ لگا دیتا۔اس دوڑ اور تعاقب میں بہت سا وقت گزر گیا۔خالدؓ کا گھوڑا سست پڑنے لگا اور اس کا پسینہ پھوٹ آیا۔عزازیر کا گھوڑا خالدؓ کے گھوڑے سے بہتر اور زیادہ طاقتور تھا،عزازیر نے دیکھ لیا کہ خالدؓ کا گھوڑا رہ گیا ہے اس نے اپنا گھوڑا گھمایا اور خالدؓ کے اردگرد چکر کاٹنے لگا۔’’او عربی!‘‘عزازیر نے للکار کر کہا۔’’تو سمجھتا ہے میں تیرے ڈر سے بھاگ اٹھا ہوں۔میں تجھے کچھ دیر اور زندہ دیکھنا چاہتا تھا۔میں تیری روح نکالنے والا فرشتہ ہوں۔‘‘خالدؓنے دیکھا کہ ان کا گھوڑا عزازیر کے گھوڑے کاساتھ نہیں دے سکتا تو وہ اپنے گھوڑے سے کود کر اُترے۔ان کے ہاتھ میں تلوار تھی۔عزازیر نے خالدؓکو آسان شکار سمجھا،اور ان پر گھوڑا دوڑا دیا۔خالدؓ کھڑے رہے۔عزازیر قریب آیا تو اس نے گھوڑے سے جھک کر خالدؓ پر وار کیا۔خالدؓ بچتے نظر نہیں آتے تھے،لیکن انہوں نے سر نیچے کرکے وار کو بیکارکر دیا۔عزازیر گھوڑے کو گھما کر آیا۔خالدؓ پہلے کی طرح کھڑے رہے۔اب کے پھر عزازیر نے اُن پر وار کیا،خالدؓ نے نہ صرف یہ کہ جھک کر اپنے آپ کو بچا لیا،بلکہ دشمن کے گھوڑے کی اگلی ٹانگوں پر ایسی تلوار ماری کہ گھوڑے کی ایک ٹانگ کٹ گئی،اور دوسری گھوڑے کے بوجھ کے نیچے دوہری ہو گئی۔گھوڑا گرااور عزازیر گھوڑے کے آگے جا پڑا۔وہ بڑی تیزی سے اٹھا لیکن خالدؓنے اسے پوری طرح اٹھنے نہ دیا۔تلوار پھینک کر اسے دبوچ لیا اور اسے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا۔اسے پھر اٹھایا اور پہلے سے زیادہ زور سے پٹخا۔عزازیر کو اس خوف نے بے جان کر دیا کہ خالدؓ اسے مار ڈالیں گے لیکن خالدؓ نے اسے گھسیٹا اور اسی طرح اپنے لشکر کی طرف لے گئے اور کلوس کے پا س جا کھڑا کیا۔’’یہ لے!‘‘خالدؓنے اسے کہا۔’’اپنے دوست کلوس سے مل۔‘‘خالدؓ نے حکم دیا کہ عزازیر کو بھی باندھ دیا جائے۔*
*ادھر اﷲنے دشمن کے دو سپہ سالار مسلمانوں کو دے دیئے اُدھر شور اٹھا کہ باقی لشکر آگیا ہے۔خالدؓ اپنے اسی لشکر کے انتظار میں تھے اور وقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔اس لشکر کے ساتھ تاریخ اسلام کے دو عظیم سالار تھے۔عمروؓ بن العاص اور ابو عبیدھؓ۔*
*خالدؓ نے ذرا سا بھی وقت ضائع کیے بغیر اپنی فوج کو جنگی ترتیب میں کیا۔چار ہزار جانباز سواروں کے دستے طلیعہ کو اپنی کمان میں رکھا اور حملے کا حکم دے دیا۔یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں کی تعداد دشمن کے برابر تھی بلکہ کچھ زیادہ ہی تھی۔رومیوں نے مقابلہ تو کیا لیکن ان کے انداز میں جارحیت نہیں تھی، وہ دفاعی جنگ لڑ رہے تھے۔ان کا حوصلہ اور جذبہ تو اسی ایک وجہ سے ٹوٹ گیا تھاکہ ان کے دو سپہ سالار مسلمانوں کی قید میں تھے،اور باقی سالار انفرادی مقابلوں میں مارے جاچکے تھے۔اس رومی فوج میں پہلی جنگوں سے بھاگے ہوئے آدمی بھی تھے۔ان پر مسلمانوں کا خوف طاری تھا۔انہوں نے مسلمانوں کو قہر اورغضب سے لڑتے اور اپنے ساتھیوں کو کٹتے دیکھا تھا۔انہوں نے بے دلی سے مقابلہ کیا اور پیچھے ہٹتے گئے۔انہیں لڑانے والا کوئی تھا ہی نہیں۔مسلمانوں نے انہیں پسپائی سے روکنے کیلئے ان کے عقب میں جانے کی کوشش کی لیکن پیچھے درختوں سے اٹی ہوئی وادی تھی جس میں وہ غائب ہوتے جا رہے تھے۔ان کی پیٹھ کے پیچھے دمشق تھا جو قلعہ بند شہر تھا۔فاصلہ بارہ میل تھا۔یہ رومیوں کیلئے ایک کشش تھی۔پناہ قریب ہی تھی۔چنانچہ وہ فرداً فرداً درختوں کے جھنڈ میں سے گزرتے دمشق کی طرف بھاگ رہے تھے۔رومی ایسی بری طرح مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہو رہے تھے کہ میدانِ جنگ ان کی لاشوں اور تڑپتے ہوئے زخمیوں سے اَٹ گیا۔دوڑتے گھوڑے اور پیادے انہیں کچل رہے تھے۔رومیوں نے اپنے پہلوؤں کے دستوں کو عام پسپائی کیلئے کہہ دیا۔*
*۔مسلمانوں نے تعاقب نہ کیا کیونکہ خالدؓ اپنی نفری کو بچانا چاہتے تھے۔وہ بڑے کوچ کے تھکے ہوئے بھی تھے۔بچے کچھے رومی دمشق پہنچ گئے اور شہر کے اردگرد دیوار نے انہیں پناہ میں لے لیا۔مسلمانوں نے مالِ غنیمت اکٹھا کیا۔عورتوں نے زخمیوں کو اٹھایااور انہیں مرہم پٹی کیلئے پیچھے لے گئیں۔شہیدوں کی لاشیں ایک جگہ رکھ کر جنازہ پڑھایا گیا اور انہیں الگ الگ قبروں میں دفن کیا گیا۔خالدؓ نے رات وہیں گزارنے کا حکم دیااور تمام سالاروں کو اپنے پاس بلایا اور انہیں بتایا کہ دمشق کے محاصرے کو کامیاب کرنے کیلئے ضروری ہوگا کہ دمشق کی طرف آنے والے تمام راستوں کی ناکہ بندی کردی جائے تاکہ دشمن اپنے دمشق کے دستوں کو کمک اور رسد نہ پہنچا سکے۔خالدؓ نے فحل کے قلعے کے قریب پہلے ہی ایک گھوڑ سوار دستہ چھوڑ دیا تھا۔وہاں سے امداد آنے کی توقع تھی۔خالدؓ نے دو گھوڑ سوار دستے دو مقامات پر بھیج دیئے۔ان کیلئے حکم تھا کہ ان راستوں سے کمک آئے تو اس پر حملہ کردیں۔۲۰ اگست ۶۳۴ء )۲۰ جمادی الآخر ۱۳ھ(خالدؓ نے دمشق پہنچ کر اس شہر کو محاصرے میں لے لیا۔دمشق کے اندر جو رومی فوج تھی اس کی تعداد سولہ ہزار کے لگ بھگ تھی،خالدؓ کے لشکر میں بیس ہزار مجاہدین تھے۔شہیدوں اور شدید زخمیوں کی وجہ سے تعداد اتنی کم رہ گئی تھی۔*
*کچھ دستے مختلف مقامات پر رومیوں کی کمک کو روکنے کیلئے بھیج دیئے گئے۔یہ وجہ تھی کہ مجاہدین کی تعداد بیس ہزار رہ گئی تھی۔دمشق بڑا شہر تھا۔اس کے چھ دروازے تھے اور ہر دروازے کا نام تھا۔ باب الشرق، باب توما، باب حابیہ، باب فرادیس، باب کیسان، اور باب صغیر۔ خالدؓ نے ہردروزے کے سامنے دودو تین تین ہزار نفری کے دستے کھڑے کردیئے۔ہر دروازے کیلئے ایک سالار مقررکیا۔رافع بن عمیرہ، عمروؓ بن العاص، شرجیلؓ بن حسنہ، ابوعبیدہؓ، یزیدؓ بن ابی سفیان۔ یزیدؓ کی ذمہ داری میں دو دروازے دے دیئے گئے۔ضرار بن الازور کو منتخب سواروں کا دو ہزار نفری کا دستہ اس مقصد کیلئے دے دیا گیا کہ وہ قلعے کے اردگرد گھومتے پھرتے رہیں اور اگر رومی باہر آکر کسی دستے پر حملہ کریں تو ضرار اس کی مدد کو پہنچیں۔شہر کی دیوار پر رومی کمانیں اور برچھیاں لیے کھڑے تھے۔ان میں دوسرے سالاروں کے علاوہ دمشق کے دفاع کا ذمہ دار سالار توما بھی تھا جو شہنشاہِ ہرقل کا داماد بھی تھا۔خالدؓ نے حکم دیا کہ رومیوں کے دونوں قیدی سالاروں عزازیر اور کلوس کو آگے لایا جائے۔دونوں بندھے ہوئے لائے گئے۔انہیں دیوار کے اتنا قریب لے جایا گیا جہاں وہ دیوار پر کھڑے رومیوں کو نظر آسکتے تھے۔’’کیا تم دونوں اسلام قبول کرو گے؟‘‘خالدؓ نے دونوں سے بلند آواز میں پوچھا۔’’نہیں۔‘‘دونوں نے اکٹھے جواب دیا۔خالدؓ نے ضرار بن الازور کو آگے بلایا اور کہا کہ انہیں ان کے انجام تک پہنچادو۔ضرار نے تلوار نکالی اور دونوں کی گردنوں پر ایک ایک وار کیا۔دونوں کے سر زمین پر جا پڑے، ان کے دھڑ گرے ، تڑپے، اور ساکت ہو گئے۔دیوار سے تیروں کی بوچھاڑ آئی لیکن خالدؓ اور ضرار ان کی زد سے نکل آئے تھے۔دمشق کا محاصرہ رومیوں کی تاریخ کا بہت بڑا واقعہ بلکہ حادثہ اور المیہ تھا اور مسلمانوں کی تاریخ کا بھی یہ بہت بڑا اور بعض تاریخ نویسوں کیلئے حیران کن واقعہ تھا۔حیران کن تو رومیوں کیلئے بھی تھا کیونکہ روم کی فوج اس دور کی بہترین فوج اور ناقابلِ تسخیر جنگی طاقت سمجھی جاتی تھی۔رومی فوج دہشت اور تباہی کا دوسرا نام تھا۔اس فوج نے ہر میدان میں فتح پائی تھی۔کسریٰ کی فوج بھی اس سے کم نہ تھی لیکن رومی فوج نے اسے بھی شکست دے کر الگ بٹھا دیاتھا۔لیکن اتنی دور سے آئے ہوئے اور اتنے تھوڑے سے مسلمان اسی رومی فوج کو شکست پہ شکست دیئے چلے جا رہے تھے اور انہوں نے دمشق کو محاصرے میں لے لیا تھا جو رومیوں کا بڑا ہی اہم اور قیمتی شہر تھا۔قیصرِ روم نے تو سوچا بھی نہ تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کی بہترین اور دہشت ناک فوج کو اس مقام پر لے آئے گی کہ اس کیلئے رومیوں کی روایات اور وقار کا تحفظ محال ہو جائے گا۔*

*جزاکم اللہ خیرا۔*

*جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
         *اسلامک ہسٹری*

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─