┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

*《•▪♡ شمشیرِ بے نیام ♡▪•》*

*حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ*

*( قسط نمبر-62)*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*خالدؓاجنادین میں سات روز رہے۔انہوں نے اپنے سالاروں سے کہا کہ دشمن کو کہیں سستانے اور دم لینے کی مہلت نہ دو۔اسے اتنی مہلت نہ دو کہ وہ اپنی بکھری ہوئی جمیعت کو اکٹھا کر سکے۔اس اصول کے تحت دمشق کی طرف ان کا کوچ بہت تیز تھا۔انہوں نے اپنے جاسوس پہلے بھیج دیئے تھے۔اب خالدؓ نے جاسوسی کا نظام مزید بہتر بنا دیاتھا۔وہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے تھے کہ قیصرِ روم کی سلطنت بہت وسیع ہے، اور اس کے مطابق اس کی فوج بھی زیادہ ہے اور برتر بھی۔ایسی فوج پر غلبہ پانے کیلئے اس کے احوال و کوائف کا قبل از وقت معلوم کرنا ضروری تھا،اور اتنا ہی ضروری ان علاقوں کے خدوخال کا جاننا تھا جہاں جہاں اس فوج کے دستے موجود تھے ان کی نقل و حرکت کے متعلق قبل از وقت معلومات حاصل کرنا بھی سودمند تھا۔راستے میں بیت المقدس آتا تھا۔خالدؓ نے اس اہم شہر کو نظر انداز کر دیا اورا س سے کچھ فاصلے سے آگے چلے گئے۔لیکن ایک مقام کو نظر انداز کرنامشکل تھا۔اس بستی کا نام فحل تھا جو ایک مضبوط قلعہ تھا۔خالدؓاس کے قریب پہنچے تو ایک فقیر نے جو پاگل لگتا تھا، خالدؓ کا راستہ روک لیا۔ خالدؓبن ولید نے اسے اپنے پاس بلالیا۔’’کیاخبرلائے ہو؟‘‘خالدؓ نے اس سے پوچھا۔وہ خالدؓ کا جاسوس تھا۔’’اس بستی کا نام فحل ہے۔‘‘جاسوس نے کہا۔’’آپ دیکھ رہے ہیں یہ قلعہ ہے۔اس کے اندر فوج ہے۔باہر کچھ بھی نہیں۔رومیوں سے ہماری جہاں کہیں بھی ٹکر ہو گی، اس قلعے سے رومیوں کو کمک اور دیگر مدد ملے گی۔‘‘خالدؓ نے اس قلعے کا محاصرہ ضروری نہ سمجھا۔وہ اپنی نفری کم نہیں کرنا چاہتے تھے۔دمشق کی تسخیر کوئی معمولی مہم نہیں تھی۔بلکہ اپنی شکست کے امکانات بڑھتے جا رہے تھے،خالدؓ نے اپنے ایک نائب سالار ابوالاعور کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ وہ ایک سوار دستہ اپنے ساتھ رکھے اور فحل کے قریب کہیں تیاری کی حالت میں موجودرہے۔یہاں سے فوج باہر نکلے تو تیروں کی بوچھاڑیں مارے اور کسی کو باہر نہ نکلنے دے۔خالدؓ وہاں رُکے نہیں۔ابوالاعور نے ایک سوار دستہ وہاں روک لیا اور اس قلعہ بندبستی کے جتنے دروازے تھے ان سب کے سامنے سوار متعین کر دیئے۔سواروں کو گھوڑوں سے اترنے کی اور محدود سے فاصلے تک گھومنے پھرنے کی اجازت دے دی گئی-*
*خالدؓ کی فوج جس کی تعداد بتیس ہزار سے کم ہو گئی تھی ،بظاہر بے ترتیب قافلے کی صورت میں دمشق کی جانب جا رہی تھی ، لیکناس کے ہر دستے کو اپنے فرائض کا علم تھا۔ان میں ہراول دستہ بھی تھا اور ان میں عقب اور پہلوؤں کے حفاظتی دستے بھی تھے اور یہ تمام دستے چوکنے ہو کر چلے جارہے تھے،کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت ان پر حملہ ہو سکتا تھا،داؤد عیسائی نے خالدؓکو خبردار کیا تھا کہ وہ تو ابھی روم کی شہنشاہی میں داخل ہوئے ہیں اور اس شہنشاہی کی حدود بہت وسیع ہیں۔اس وقت تک رومی فوج کے دستے جہاں جہاں تھے وہاں ہرقل کا یہ حکم پہنچ چکا تھا کہ مسلمانوں کی فوج کو روکاجائے۔اس حکم کے تحت دمشق کی طرف جانے والے راستوں پر رومیوں نے اپنے جاسوس بھیج دیئے تھے ۔دریائے یرموک کے کنارے واقوصہ ایک قصبہ تھا۔کسی رومی جاسوس نے خالدؓ کے لشکر کو آتے دیکھ لیااور پیچھے جاکر اطلاع دی۔جب خالدؓ واقوصہ کے قریب پہنچے تو رومی فوج کے بہت سے دستے خالدؓکا راستہ روکنے کیلئے تیار کھڑے تھے۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اجنادین کی لڑائی سے بھاگے ہوئے کئی رومی فوجی واقوصہ پہنچ چکے تھے۔انہیں بھی ان دستوں میں شامل کر لیا گیا تھا جو مسلمانوں کو روکنے کیلئے جنگی ترتیب میں کھڑے تھے مگر ان میں لڑنے کا جذبہ سرد تھا۔ کیونکہ ان پر مسلمانوں کا خوف طاری تھا،جن کمانداروں اور سپاہیوں نے ابھی مسلمانوں سے جنگ نہیں لڑی تھی ، وہ اجنادین کے بھگوڑوں سے پوچھتے تھے کہ مسلمان لڑنے میں کیسے ہیں؟’’دیکھ لو!‘‘انہیں کچھ اس قسم کے جواب ملے۔’’تیس ہزار نے نوّے ہزار کو اس طرح شکست دی ہے کہ سپہ سالار سے چھوٹے سے سالار تک ایک بھی زندہ نہیں……انہوں نے ہماری آدھی نفری مار ڈالی ہے*
*۔زخمیوں کا کوئی حساب ہی نہیں……مت پوچھو دوستو، مت پوچھو۔ میں تو انہیں انسان سمجھتا ہی نہیں۔ان کے پاس کوئی جادو ہے یا وہ جنات جیسی کوئی مخلوق ہیں……ان کا ایک ایک آدمی دس دس آدمیوں کا مقابلہ کرتا ہے……ان کے سامنے کوئی جم کر لڑ ہی نہیں سکتا……پوچھتے کیا ہو، وہ آرہے ہیں۔خود دیکھ لینا۔‘‘’’وہ‘‘آئے اور ’’انہوں‘‘نے دیکھ لیا۔دیکھ یہ لیا کہ مسلمان جو بے ترتیب قافلے کی طرح آرہے تھے۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ جنگی ترتیب میں ہو گئے۔عورتیں اور بچے پیچھے رہ گئے،اور ان کا حفاظتی دستہ اپنی جگہ پر چلا گیا۔خالدؓ اپنے محافظوں وغیرہ کے ساتھ آگے ہو گئے اور دونوں فوجیں آمنے سامنے آگئیں۔پہلے بیان ہو چکا ہے کہ خالدؓکی جنگی چالوں کااور مجاہدین کو لڑانے کا انداز ایسا تھا کہ دشمن بوکھلا جاتا پھر مسلمانوں کے حملے کی شدت سے دشمن کے سپاہیوں پر خوف طاری ہو جاتا تھا۔ان میں سے جو سپاہی بھاگ نکلتے تھے ، وہ جہاں جاتے اس خوف کو اپنے ساتھ لے جاتے، اور فوج میں پھیلاتے تھے۔یہ ثابت کرنے کیلئے کہ وہ بلاوجہ نہیں بھاگے، وہ اس خوف کو مبالغے سے اور ایسے طریقے سے بیان کرتے کہ سننے والے یہ سجھ لیتے کہ مسلمانوں میں کوئی مافوق الفطرت قوت ہے۔اس طرح خالدؓنے دشمن پر ایک نفسیاتی اثر ڈال رکھا تھا جو ہر میدان میں ان کے کام آتا تھا۔*
*یہ قوت مافوق الفطرت ہی تھی جو عقیدے کی سچائی ، ایمان کی پختگی اور جذبے کی شدت سے پیدا ہوئی تھی۔مسلمان اﷲکے حکم سے لڑتے تھے ، ان کے دلوں میں کوئی ذاتی غرض یا لالچ نہیں تھا۔واقوصہ کے میدان میں جب رومی مسلمانوں کے مقابلے میں آئے تو ان کے انداز میں جوش و خروش تھا اور جارحیت بھی شدید نظر آتی تھی لیکن خالدؓنے جب حملہ کیا تو رومیوں میں لڑنے کا جذبہ اتنا شدید نہ تھا جتنا ہونا چاہیے تھا۔خالدؓنے سامنے سے حملہ کیا اور دونوں پہلوؤں کے کچھ دستوں کو پھیلا کر اس حکم کے ساتھ آگے بڑھایا کہ دشمن کے پہلوؤں کی طرف جاکر حملہ کریں۔مؤرخوں کے مطابق رومی سامنے سے حملے کو روکنے کیلئے ایسی صورت اختیار کر بیٹھے کہ اپنے پہلوؤں کو نہ دیکھ سکے۔ان پر جب دائیں اور بائیں سے بھی حملہ ہوا اور ان کے دائیں بائیں کے دستے مسلمانوں کے دباؤ سے اندر کو سکڑنے اور سمٹنے لگے تو وہ گھبرا گئے،اور ان پر وہ خوف طاری ہو گیا جوخالدؓ کے نام سے منسوب تھا،اس خوف نے رومیوں کے پاؤں اکھاڑ دیئے۔ان رومی دستوں کیلئے حکم یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ دنوں تک روکے رکھیں۔وجہ یہ تھی کہ دمشق میں جو رومی فوج تھی اس میں دوسری جگہوں سے دستے بھیج کر اضافہ کیا جا رہا تھا۔ہرقل ا س کوشش میں تھا کہ اس کے یہ دستے مسلمانوں سے پہلے دمشق پہنچ جائیں۔اس کیلئے ضروری تھا کہ واقوصہ میں مسلمانوں کی فوج کو روک لیا جاتا اور ایسی لڑائی لڑی جاتی جو طول پکڑ جاتی۔ایسی لڑائی کے طور طریقے مختلف ہوتے ہیں۔خالدؓ نے رومیوں کو کچھ سوچنے کی مہلت ہی نہ دی۔رومی بے شمار لاشیں اور زخمی میدان میں چھوڑ کر بھاگ گئے۔خالدؓوہاں اتنا ہی رُکے کہ اپنے شہیدوں کا جنازہ پڑھ کر دفن کیا، زخمیوں کو ساتھ لیا،اور مالِ غنیمت اکٹھا کیا اور چل پڑے۔یہ اگست*
*۶۳۴ء کا تیسرا ہفتہ )جمادی الآخر ۱۳ ھ(تھا۔*
*شہنشاہِ ہرقل انطاکیہ جا پہنچا اور وہاں اپنا ہیڈ کوارٹر بنالیا۔حمص سے انطاکیہ کو روانہ ہونے سے پہلے اس نے دمشق کی رومی فوج کے سالاروں توما، ہربیس، اور عزازیر کو پیغام بھیج دیا تھا کہ وہ فوراً انطاکیہ پہنچیں ۔ہرقل کے پہنچتے ہی تینوں سالار انطاکیہ پہنچ گئے۔’’کیا تم نے سن لیا ہے کہ تمہارے سالار وردان اور قبقلار بھی مارے جا چکے ہیں؟‘‘شہنشاہِ ہرقل نے ان سے پوچھا۔’’کیا تم بھی قیصرِ روم کی عظمت کو ذہن سے اتار دو گے؟کیا تمہاری نظروں میں بھی صلیب کا تقدس ختم ہو چکا ہے؟‘‘’’مسلمان ابھی تو ہمارے سامنے آئے ہی نہیں۔‘‘سالار توما نے کہا۔’’ہمیں ابھی نہ آپ نے آزمایا ہے نہ مسلمانوں نے۔انہیں آنے دیں۔میں آپ کی بیٹی کے آگے شرمسار نہیں ہوں گا۔‘‘توما شہنشاہِ ہرقل کا داماد تھااور وہ دمشق کا سپہ سالار تھا۔بڑا پکا مذہبی آدمی تھا اور اپنے مذہب عیسائیت کے فروغ اور تحفظ کیلئے سرگرم رہتاتھا۔’’توما!‘‘ہرقل نے اسے کہا۔’’تم مذہب میں اتنے مگن رہتے ہو کہ دمشق کے دفاع کی طرف پوری توجہ نہیں دے رہے۔‘‘’’میں تو یہ سمجھتاہوں کہ مذہب نہ رہا تو دمشق بھی نہیں رہے گا۔‘‘توما نے کہا۔’’کیا آپ نہیں جانتے کہ مسلمانوں کے خلاف جنگ بھی مذہب میں شامل ہے؟……میں یہاں اکیلا تو نہیں۔جنگی معاملے سالار ہربیس کے پاس ہیں،اور سالار عزازیر بھی میرے ساتھ ہے۔کیا عزازیر فارسیوں کو اور پھر ترکوں کوکئی لڑائیوں میں شکستیں نہیں دے چکا ہے؟‘‘’’جتنا بھروسہ مجھے عزازیر پر ہے اتنا تم دونوں پر نہیں۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’عزازیر تجربہ کار سالار ہے۔تم دونوں کوابھی ثابت کرناہے کہ تم عزازیر کے ہم پلہ ہو۔‘‘عزازیر رومیوں کا بڑا ہی قابل اور دلیر سالار تھا۔اس نے بہت سی لڑائیاں لڑیں اور ہر میدان میں فتح حاصل کی تھی،عربی زبان پر اسے اتنا عبور حاصل تھا کہ وہ عربی بولتا تو شک ہوتا تھا کہ عرب کا رہنے والا ہے۔دمشق کی فوج کا کمانڈر دراصل وہی تھا۔انطاکیہ میں کُلوس نام کا ایک رومی سالار تھا۔اسے ہرقل نے پانچ ہزارنفری کی فوج دے کر دمشق جانے کو کہا۔*
*’’شہنشاہِ ہرقل!‘‘کُلوس نے کہا۔’’میں حلفیہ کہتا ہوں کہ میں آپ کے سامنے اس وقت آؤں گا جب میری برچھی کی انّی کے ساتھ مدینہ کے سالار خالد بن ولید کا سر ہوگا۔‘‘’’تم مجھے صرف حلف سے خوش نہیں کر سکتے۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’میں صرف ابنِ ولید کا سر نہیں، تمام مسلمانوں کی لاشیں دیکھناچاہتا ہوں……فوراً دمشق پہنچو۔ وہاں کمک کی ضرورت ہے۔سب چلے جاؤ اور دمشق کو بچاؤ۔‘‘*
*تمام سالار فوراً روانہ ہو گئے ۔ہرقل کا ایک مشیرِ خاص ہرقل کے پاس موجود رہا۔’’شہنشاہِ ہرقل!‘‘اس مشیر نے کہا۔’’سالار کُلوس کو دمشق نہ بھیجتے تو اچھا تھا۔اگر اسے بھیجنا ہی تھا تو سالار عزازیر کو دمشق سے نکال لیتے۔‘‘’’کیوں؟‘‘’’کیا شہنشاہ بھول گئے ہیں کہ ان دونوں میں ایسی چپقلش ہے جو دشمنی کی صورت اختیار کر جایا کرتی ہے۔‘‘مشیر نے کہا۔’’ان کی آپس میں بول چال بند ہے……دراصل کُلوس عزازیر کی اچھی شہرت سے حسد کرتا ہے، کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے۔‘‘’’کیا تم یہ خطرہ محسوس کر رہے ہوکہ وہ لڑائی کے دروان ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے؟‘‘ہرقل نے پوچھا۔’’ہاں شہنشاہِ روم!‘‘مشیر نے کہا۔’’میں یہی خطرہ محسوس کررہا ہوں۔‘‘’’ایسا نہیں ہوگا۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’انہیں یہ احساس تو ضرور ہوگا کہ وہ مل کرنہ لڑے تو بڑی بُری شکست کھائیں گے،اور وہ مجھے خوش کرنے اور ایک دوسرے کو میری نظروں میں گرانے کیلئے جوش و خروش سے لڑیں گے……اور اگر انہوں نے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو انہیں یقیناًمعلوم ہو کہ ان کی سزا کیا ہوگی۔‘‘مشیر خاموش ہو گیا لیکن اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار پہلے سے زیادہ ہو گئے۔خالدؓ کے مجاہدین دمشق کی جانب بڑھے جا رہے تھے۔رومی سالار عزازیر نے دمشق پہنچتے ہی شہر کے دفاع کو مضبوط بنانا شروع کر دیا۔دمشق کی شہرِ پناہ کے چھ دروازے تھے اور ہر دروازے کا ایک نام تھا۔عزازیر نے دمشق کو محاصرے سے بچانے کا یہ انتظام کیا کہ زیادہ فوج شہر کے باہر رکھی تاکہ مسلمانوں کو شہر تک پہنچنے ہی نہ دیا جائے۔انہیں شہر سے باہر ختم کر دیا جائے۔شہر میں خاص طور پر منتخب کیے ہوئے دستے رکھے گئے۔ان میں ایک محافظ دستہ تھا جسے جانباز دستہ کہا جاتا تھا۔اس ایک میل سے کچھ زیادہ لمبے اور چار فرلانگ چوڑے شہر کی آبادی میں اس خبرنے ہڑبونگ بپاکردی تھی کہ مسلمان شہرکو محاصرے میں لینے آرہے ہیں۔اس خبرسے پہلے مسلمانوں کی دہشت شہر میں داخل ہو چکی تھی۔سالار شہریوں کو بھی شہر کے دفاع کیلئے تیار کر رہے تھے لیکن شہریوں سے انہیں تعاون نہیں مل رہا تھاشہری تو اپنا مال و دولت اور اپنی جوان لڑکیوں کو چھپاتے پھر رہے تھے۔ان میں سے بعض نے اپنے کنبوں کو اپنے ساتھ لے کر بھاگنے کی بھی کوشش کی لیکن فوج نے انہیں روک دیا۔مجاہدین کا لشکر دمشق سے زیادہ دور نہیں رہ گیا تھا۔جاسوس جو آگے گئے ہوئے تھے وہ باری باری پیچھے آتے ، رپورٹ دیتے اور پھر آگے چلے جاتے تھے۔اب مجاہدین کی جذباتی کیفیت ایسی تھی جیسے ان کا کوئی گھر نہ ہو، کوئی وطن نہ ہو، بیوی نہ ہو، بچہ نہ ہو، بس اﷲہی اﷲہو، جس کے نام کا وہ ورد کرتے جاتے یا چند مجاہدین مل کرکوئی جنگی ترانہ گاتے تھے۔انہوں نے اپنا رشتہ اﷲکے ساتھ اور رسول اﷲﷺکی روحِ مقدس کے ساتھ جوڑلیا تھا۔انہوں نے اپنی جانیں اﷲکی قربان گاہ پر رکھ دیں تھیں۔رومیوں کیلئے وہ جسم تھے لیکن اپنے لیے وہ روحیں تھیں، اور اپنے جسموں اور تکالیف اور ضروریات سے وہ بے نیاز ہو گئے تھے-*
*انہیں تو جیسے یہ احساس بھی نہیں رہا تھا کہ ان کی تعداد بہت کم ہے اوردشمن کی تعداد کئی گنا ہے۔ان کے سپہ سالار خالدؓ کی جذباتی کیفیت بھی ایسی ہی تھی لیکن تاریخ کے اس عظیم جرنیل کی نگاہ حقائق پر تھی۔وہ سوچتے رہتے تھے کہ اتنی کم نفری کو اتنی زیادہ نفری کے خلاف کس طرح استعمال کیا جائے کہ مطلوبہ نتائج حاصل ہوں۔انہوں نے رومیوں کو دیکھ لیا اور تسلیم کر لیا تھا کہ یہ ایک عمدہ فوج ہے۔انہوں نے یہ بھی پیشِ نظر رکھا تھا کہ رومی اپنے ملک میں ہیں اور جو سہولتیں انہیں حاصل ہیں وہ ہمیں نہیں مل سکتیں۔شکست کی صورت میں مسلمانوں کیلئے وہاں کوئی پناہ نہیں تھی۔اس صورت میں انہیں قید یا قتل ہونا تھا۔ان احوال و کوائف کے پیشِ نظر خالدؓ نے اپنی فوج میں کچھ تبدیلیاں کی تھیں۔ایک تو انہوں نے جاسوسی کے انتظامات اور ذرائع کو پہلے سے بہتر بنا کر انہیں منظم کردیا،چند اور تبدیلیوں میں قابلِ ذکر یہ ہے کہ خالدؓنے ایک سوار دستہ بنایا جس میں چار ہزار منتخب گھوڑ سوار رکھے۔یہ تیز رفتار اور متحرک دستہ تھا۔اسے طلیعہ کہتے تھے۔متحرک سے مراد یہ ہے کہ اس رسالے نے جم کر نہیں بلکہ بھاگتے دوڑتے ، اور اِدھر اُدھر ہو جاتے اور دشمن کو گھما پھرا کر لڑاتے جنگ میں شریک رہنا تھا۔خالدؓ نے اس دستے کی کمان اپنے ہاتھ میں رکھی،دمشق کی جانب کوچ کے دوران یہ سوار دستہ مسلمانوں کے لشکر کے ہراول میں تھا۔کوچ کا چوتھا دن تھا۔ہراول کا یہ سوار دستہ ایک بستی مراج الصفر کے قریب پہنچا تو آگے گئے ہوئے دو جاسوس آئے۔خالدؓ اس دستے کے ساتھ تھے۔جاسوسوں نے انہیں بتایا کہ تھوڑی دور آگے رومی فوج تیاری کی حالت میں پڑاؤ کیے ہوئے ہے۔جاسوسوں کے اندازے کے مطابق وہ مقام دمشق سے بارہ تیرہ میل دور تھا۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اس رومی فوج کی تعداد بارہ ہزار تھی،اور اس میں زیادہ تر سوار تھے،اس کے دو سالار تھے،ایک عزازیر اور دوسرا کلوس۔یہ وہی سالار تھے جن کی آپس میں دشمنی تھی۔انہیں دمشق کے سپہ سالارتوما نے اس منصوبے کے تحت بھیجا تھا کہ مسلمانوں کے لشکر کو دمشق تک نہ پہنچنے دیا جائے۔اگر اسے تباہ نہ کیا جا سکے تو اتنا کمزور کر دیا جائے کہ واپس چلاجائے۔اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو اتنی سی کامیابی ہر قیمت پر حاصل کی جائے کہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ دن دمشق سے دور رکھا جائے تاکہ دمشق کے دفاع کیلئے مزید دستے وہاں پہنچائے جا سکیں اور شہر میں اتنی خوراک پہنچا کر جمع کی جا سکے کہ محاصرہ طول پکڑ اجائے تو شہر میں قحط کی صورت پیدا نہ ہو۔خالدؓ کیلئے یہ مسئلہ پیدا ہوگیا کہ ان کے ساتھ ہراول کا صرف یہ سوار دستہ تھا جس کی نفری چار ہزار تھی۔باقی لشکر ابھی بہت دور تھا۔ہراول کی رفتار تیز تھی۔دشمن کی موجودگی کی اطلاع پر خالدؓ نے رفتار سست کردی۔اس کا ایک مقصد یہ تو تھا کہ پورا لشکر آجائے،اور دوسرا یہ کہ دشمن کے قریب شام کو پہنچیں تاکہ رات کو آرام کیا جاسکے،اور علی الصباح لڑائی شروع کی جائے۔*

*اگر جاسوس آگے گئے ہوئے نہ ہوتے تو خالدؓ لاعلمی میں چار ہزار سواروں کے ساتھ دشمن کے سامنے جا پہنچتے۔پھر صورتِ حال ان کے حق میں نہ رہتی۔رومیوں کے اس بارہ ہزار لشکر نے بڑی اچھی جگہ پڑاؤ ڈالاہوا تھا،وہاں ایک وادی تھی جس میں گھنے درخت تھے اور ایک پہاڑی تھی۔رومی اس پہاڑی کے سامنے اور وادی کے منہ میں تھے،انہوں نے لڑائی کیلئے یہ جگہ منتخب کی تھی جو ان کو کئی جنگی فائدے دے سکتی تھی۔مسلمان اس پھندے میں آسکتے تھے۔خالدؓ نے اپنی رفتار ایسی رکھی کہ سورج غروب ہونے سے ذرا پہلے دشمن کے سامنے پہنچے۔دشمن سے ان کا فاصلہ ایک میل کے لگ بھگ تھا۔خالدؓ نے اپنے دستے کو روک لیا اور وہیں پڑاؤ کرنے کو کہا۔سورج غروب ہو گیا اس لیے یہ خطرہ نہ رہا کہ دشمن حملہ کردے گا۔جمادی الثانی ۱۳ ہجری کے چاند کی اٹھارہویں تاریخ تھی۔آدھی رات کو چاندنی بڑی صاف تھی۔خالدؓپاپیادہ آگے چلے گئے۔رومیوں کے سوار گشتی سنتری گشت پر تھے۔خالدؓ ان سے بچتے پہاڑی تک گئے۔وہ زمین کے خدوخال کا جائزہ لے رہے تھے۔رات گزرتے ہی انہیں یہاں لڑنا تھا،وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے سوار دستے کیلئے بھاگنے دوڑنے کی جگہ ہے یا نہیں۔خالدؓکیلئےپریشانی یہ تھی کہ ان کا لشکر بہت دور تھا۔انہوں نے پیغام تو بھیج دیاتھا کہ رفتار تیز کریں۔پھر بھی لشکر جلدی نہیں پہنچ سکتا تھا۔اس کی رفتار تو پہلے ہی تیز تھی۔مسلمانوں کا کوچ ہوتا ہی تیز تھا۔۱۹ اگست ۶۳۴ء )۱۹جمادی الثانی ۱۳ ھ(کی صبح طلوع ہوئی۔فجر کی نمازسے فارغ ہوتے ہی خالدؓنے اپنے سوار دستے کو جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا۔رومی بھی تیاری میں آگئے۔خالدؓ نے رومیوں کی ترتیب دیکھی تو انہیں شک ہو اکہ رومی حملے میں پہل نہیں کرنا چاہتے۔خالدؓ بھی پہل کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔انہیں اتنا وقت درکار تھا کہ باقی لشکر پہنچ جائے۔خالدؓنے رومیوں کا ارادہ معلوم کرنے کیلئے اپنے سوار دستے کے ایک حصے کو حملہ کرکے پیچھے یا دائیں بائیں نکل جانے کا حکم دیا،تقریباًایک ہزار گھوڑے سمندری طوفان کی موجوں کی طرح گئے ۔رومیوں نے حملہ روکنے کے بجائے یہ حرکت کی کہ پیچھے ہٹنے لگے۔*

*جزاکم اللہ خیرا۔*

*جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔👇🏻
        *اسلامک ہسٹری*

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─