┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 36
پارٹ 1

واٶٶٶ حرم تم نے کمال کر دیا۔۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ تم اتنا اچھا انٹرو دو گی۔۔ وہ جیسے ہی اپنے ٹیبل کی طرف بڑھی۔۔ عرش نے اسے گلے لگاتے ہوۓ کہا۔

ویل ڈن سسٹر۔۔ واصے بھی مسکرایا۔۔

مزہ آگیا سچ میں۔۔ اور میتھس والے راز نے تو اچھا خاصا فن کری ایٹ کردیا۔۔ بیلا بھی حیران تھی۔۔

مجھے خود نہیں پتا میں کیا بول رہی تھی۔۔ حرم نے ہنستے ہوۓ کہا۔۔

جو بھی بولا بہت اچھا بولا۔۔ ایٹ لیسٹ اس سیشن میں تو زی تمہیں ہرانے سے رہی۔ عرش کو پورا یقین تھا کہ حرم ہار نہیں سکتی۔

ہے لٹل لیڈی۔۔ رون فوراً ٹپکا۔۔ 
یہ مت سمجھ لینا کہ تم جیت گٸ۔۔اگزامز میں زبان نہیں دماغ کام آۓ گا۔۔ سمجھ آٸ۔۔ وہ اپنی سناتا اسکے سر میں چت رسید کرتا آگے بڑھ گیا۔۔ مجال جو اسے بولنے کا موقع دیا ہو۔۔

منحوس۔۔ سارے موڈ کے ستیاناس کر دیتا ہے۔۔ بیلا کے خون میں رون کیلیۓ ناپسندیدگی تھی۔۔ 

کچھ نہیں ہوتا بیلا۔۔ حرم نے اسے کول کیا۔

دیکھ لینا اس کا مڈر میرے ہاتھوں لکھا ہے۔۔ رون دی ڈون کا مڈر بیلا کرے گی۔۔ بیلا کو نا تو اپنا واٸلن بھولتا تھا اور نا ہی اپنی سیلری۔۔ 

اور بیلا کی بات سن کر ان تینوں کو ہنسی آٸ تھی۔

ہے حرم۔۔ گڈ پلے۔۔۔ چینگ اور سونگ دونوں بہنیں حرم کی طرف لپکیں۔ 

کیا وہ جمی والی بات درست ہے۔۔؟؟ کیا تم فیوچر جانتی ہو۔۔

نو۔۔ اٹس رونگ۔۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔ مجھے نہیں پتا وہ ایسا کیوں کہتا ہے۔۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔ حرم نے انکا زہن صاف کیا۔۔

ہے حرم۔۔ یہ بتاٶ کہ رون دی ڈون کس سال مرے گا۔۔ انگلش ڈیپارٹمنٹ کا ماٸیکل بھی حرم کے پاس آیا۔۔ جمی کی کہی گٸ بات نے سٹوڈنٹس کو حرم کے پیچھے لگا دیا تھا۔۔

پر کیوں۔۔۔ رون کے مرنے سے تمہیں کیا ملے گا۔۔؟؟ حرم نے حیرانی سے ماٸیکل سے پوچھا جو رون کا اصلی والا دشمن تھا۔۔

اس کے مرنے کے بعد ہی میں ایملی سے شادی کر سکتا ہوں۔۔ وہ کمینا اپنے جیتے جی تو ایسا ہونے نہیں دے گا۔۔ ماٸیکل نے دانت پیستے ہوۓ کہا۔

تو میرے جیسے کمینے سے دور رہو نا تم۔۔۔ رون جن کی طرح حاضر ہوا۔۔ 
ویل تمہاری اس حرکت نے ثابتکر دیا کہ ماٸیکل بھی رون دی ڈون سے ڈرتا ہے۔۔ رون نے خباثت سے کہا۔۔

ماننا پڑے گا رون دی ڈون ہر انسان کے زہن پر تیری دہشت چھاٸ ہے۔۔ رون نے خود اپنا کندھا تھپتھپایا۔۔ 

تم سےکون ڈرے گا۔۔ ماٸیکل رون کی طرف بڑھا۔۔ 

اسٹاپ اٹ۔۔ رومان دونوں کے بیچ میں آیا۔۔ ورنہ کیا پتا ایک منٹ کے اندر روشنیوں کا ہال کشتی کے اکھاڑے میں بدل جاتا تھا۔۔ 

ایٹ لیسٹ آج کے دن تو باز آجاٶ۔۔ رومان نے غصے سے رون کو گھورا۔۔ 

تم اپنے کام سے کام رکھو۔۔ اور اس ڈرپوک کو یہاں کس نے بلایا ہے۔۔ رون نے رومان کا ہاتھ جٹھکا۔۔ 

میں نے سبھی سٹوڈنٹس کا انواٸیٹ کیا تھا۔۔ 

یونيورسٹی رون دی ڈون کی نہیں ہے جو اسکی مرضی چلے گی۔۔ ماٸیکل کو اسکے ڈرپوک کہنے پر غصہ آیا تھا۔۔

تم زرا دھیان سے رہنا اب۔۔ رون نے انگلی اٹھا کر ماٸیکل کو وارننگ دی اور وہاں سے چلا گیا۔۔

ریلیکس ماٸیکل۔۔۔ رومان نے ماٸیکل کو سمجھایا۔۔ وہ بھی غصے سے پاٶں پٹھکتا چلا گیا۔

افففف۔۔۔ رومان نے ایک گہری سانس لی۔۔ شکر ہے سب ٹھیک ہے۔۔ پھر اسکی نگاہیں حرم کو ڈھونڈنے لگیں۔۔ جو ماٸیکل اور رون کے جھگڑنے کے دوران وہاں سے چلی گٸ تھی۔۔

کچھ دیر ادھر ادھر دیکھنے کے بعد بالآخر وہ اسے ایک کونے میں کھڑی نظر آگٸ۔۔ اسکے پاس آرٹ ڈیپارٹمنٹ کے کچھ سٹوڈنٹس کھڑے تھے۔۔ رومان کچھ سوچتا ہوا اسکی طرف بڑھ گیا۔۔

         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گرینی، مسز ولیم اور ماٸیک ایش کو لینے ہاسپٹل آۓ تھے۔۔ مسز ولیم نے آگے بڑھ کر اپنی بیٹی کو گلے لگایا۔۔ بیشک وہ انکی اکلوتی بیٹی تھی۔۔

ماٸیک بھی اسے دیکھ کر پر سکون ہوا تھا کہ وہ مل گٸ۔ لیکن ساتھ ہی اسکی حالت ماٸیک کا دل دکھا گٸ تھی۔۔

کیا ہے ایسا اس لڑکے میں ایش کہ اسکے لیۓ تم نے اپنا گھر چھوڑ دیا۔۔ آخر کیوں۔۔؟؟ مسز ولیم نے ایش سے شکوہ کیا۔

جبکہ ایش نے چونک کر انہیں دیکھا۔۔ وہ کہنا چاہتی تھی کہ وہ سیم کیلیۓ گھر چھوڑ کر نہیں گٸ تھی۔۔ وہ تو اپنی اوپر لپٹی بدنصیبی کی وہ مہر ختم کرنے گٸ تھی جو راٸل پیلس میں پیدا ہونے کی وجہ اسے اس پر لگی۔۔ لیکن وہ خاموش رہی۔۔

چلو گھر چلتے ہیں ایش۔۔ گرینی نے اسے پیار کیا۔

اور ایش جانتی تھی یہ پیار اسے آخری بار نصیب ہو رہا ہے۔۔ شاید کل سے وہ سب لوگ اس سے شدید نفرت کریں گے۔ 

اپنا نہیں تو ہمارا ہی کچھ خیال کرلو ایش۔۔ ماٸیک نے بےبسی سے کہا۔

سوری۔۔ ایش نے بس اتنا ہی کہا۔

میں ابھی آتا ہوں۔۔ کچھ پیپرز ساٸن ہو جاٸیں پھر چلتے ہیں گھر۔۔ ماٸیک کہتا باہر نکل گیا۔

ڈیڈ نہیں آۓ۔۔ ؟؟ ایش نے پوچھا۔۔

مسز ولیم اور گرینی دونوں نے سر جھکا لیا۔۔۔ ایش سمجھ گٸ تھی کہ وہ ابھی بھی ناراض ہیں۔۔ اور اب اسے یہ ناراضگی ساری عمر سہنی تھی۔۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہیلو مس نور۔۔۔ رومان نے حرم کو پکارہ۔۔

جی۔۔ حرم نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ اور رومان کو دیکھ کر سبھی سٹوڈنٹس وہاں سے چلے گۓ۔۔

میری امید سے زیادہ اچھا انٹرو دیا آپ نے۔۔ یقین نہیں ہو رہا تھا کہ آپ مس نور ہی ہیں۔۔ 

تھینک یو۔۔ میں نے وہی کہا جو سچ تھا۔۔ کوٸ خاص بات نہیں کی۔۔ حرم نے جواب دیا۔

ہوپ سو اس بار ساٸنس ڈیپارٹمنٹ کو ہار کا منہ نہیں دیکھنا پڑے گا۔۔ 

 ان شاء اللہ۔۔۔ اگر اللہ پاک نے چاہا تو۔۔۔ ورنہ میں کچھ بھی نہیں کرسکتی۔۔ 

اللہ پاک۔۔ کتنا عجیب سا لفظ تھا نا۔۔ رومان کا زہن اس نام میں الجھ کر رہ گیا۔۔ وہ پیداٸشی مسلمان تھا۔۔لیکن یہ نام پکارنے والا اسکے آس پاس کوٸ بھی نہیں تھا۔۔ جبکہ زی نے رومان کو حرم کے پاس کھڑے دیکھا تو وہ سر سے پاٶں تک سلگ گٸ تھی۔۔

رومان کچھ کہنا چاہتا تھا کہ حرم کے موبائل پر بیل ہوٸ ۔۔ حرم نے دیکھا تو فرہاد کی کال تھی۔۔ اچانک حرم کے چہرے کی چمک بڑھ گٸ تھی۔۔ جسے رومان نے محسوس کیا تھا۔۔ وہ ایکسیوز کرتی ہال سے باہر چلی گٸ۔۔ کیونکہ وہاں شور بہت زیادہ تھا جبکہ رومان سوچ رہا تھا کہ ایسا کون سا شخص ہے جو حرم کو اتنا عزیز ہے۔۔؟؟ وہ سب کچھ چھوڑ کر اسکے پاس آتا ہے تاکہ وہ اس سے بات کر سکے اور حرم کبھی اسے امپورٹنس ہی نہیں دیتی۔۔ 

وہ انتظار کر رہا تھا اس دن کا جب حرم سر سے لے کر پاٶں تک صرف اسکی ہوگی۔۔ اسکی شہد رنگ چمکتی آنکھیں۔۔ اسکے مسکراتے ہونٹ۔۔ اسکے غصے پر اسکی باتوں پر۔۔ اسکے پل پل پر جب رومان کا حق ہوگا۔۔ 

رومان سوچا اور پھر مسکرادیا۔۔ایک گہری سانس لے کر وہ آگے بڑھ گیا کہ ابھی اتنی بھی جلدی کیا ہے۔۔۔؟؟ 

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”مجھے راہ حق پر چلنا ہے۔۔ مجھے ہدایت و ایمان کی وہ روشنی وہ نور چاہیۓ جو میری زندگی کو نورانی بنادے۔۔ اس راستے پر چلنے کیلیۓ مجھے ایک راہنما کی ضرورت ہے۔۔ کیا کوٸ راہنما مل سکتا ہے۔۔؟؟ 

ایش نے گھر آنے کے بعد سمعان کو میسج کیا۔۔ 

Read The Holy Quran.. and search about Holy prophet Hazrat Muhammad ﷺ.. 
وہ آخرت تک کیلیۓ سب سے بڑے راہنما ہیں۔۔

پانچ مند بعد سمعان کا ریپلاۓ آیا تھا۔۔ اور پھر ایش نے کوٸ جواب دیے بنا اپنا لیپ ٹاپ سامنے رکھا اور اس پر سرچ کرنا شروع کردیا۔۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے لگتا ہے کہ رون کچھ گڑبڑ کرنے والا ہے۔ حرم نے اپنی چیٸر پر بیٹھنے کے بعد کہا۔ اس نے باہر رون کو دیکھا تھا جب وہ فرہاد کی کال سننے گٸ تھی۔

کیا واقعی۔۔۔ عرش نے حیرانی سے پوچھا۔

مجھے لگتا ہے شاید وہ آج ایسا کچھ نا کرے۔۔ واصے نے مثبت سوچتے ہوۓ کہا۔

رون سے اچھاٸ کی امید ہرگز نا رکھو۔۔ حرم نے ٹھیک کہا وہ خون چوستا ہے ویمپاٸرز کی طرح۔۔ بیلا نے غصے سے کہا۔

خیر چھوڑو۔۔ مجھے کافی بھوک لگی ہے۔۔ عرش نے بتایا۔۔ پتا نہیں یہ ڈنر کب شروع ہوگا۔۔

ڈنر سے پہلے ایک اور مزیدار چیز serve کی جاۓ گی۔۔ بیلا نے خوشی سے کہا۔

اور اسکی بات سچ نکلی کچھ دیر بعد ہی ہر طرف واٸن نظر آنے لگی۔۔ حرم کا منہ تو حیرت سے کھل گیا۔۔

شراب۔۔۔ توبہ استغفار۔۔۔ میں گھر جا رہی ہوں۔۔ حرم ایک دم اٹھی۔۔ 

کیا ہوا بیٹھو تو۔۔ عرش نے اسے بٹھایا۔۔

نہیں مجھے حرام چیزیں نہیں کھانی پینی۔۔ تم لوگوں کو ڈنر کرنا ہے تو شوق سے کرو۔

بیلا اٹھ کر دوسرے ٹیبل پر جا چکی تھی۔وہ جانتی تھی عرش،واصے اور حرم اس چیز کو پسند نہیں کرتے۔۔ 

رومان ایک شان سے گلاس تھامے کھڑا تھا۔۔ 

یہ مسٹر شاہ بھی۔۔ حرم کو حیرت کا جھٹکا لگا۔۔ 

وہ سب کچھ کرتا ہے۔۔ وہ صرف پیداٸشی مسلمان ہے وگرنہ اسکا ہر کام۔۔ ہر چیز باقی سب جیسی ہے۔۔ 

میں مزید یہاں نہیں رک سکتی۔۔حرم کو کوفت ہو رہی تھی۔۔ اسے موبائل نکال کر فرہاد کو میسج کیا کہ مجھے لینے آ جاٸیں۔۔ 

اچانک حرم کی نظر ماٸیکل پر پڑی تھی جو اپنے پیٹ کو تھامے چہرے کے عجیب تاثرات چھپانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔ 

ہے ماٸیکل۔۔ آر یو اوکے۔۔ اسکے فرینڈ نے پوچھا اور ماٸیکل اپنا گلاس رکھتا ایکسیوز ہال سے باہر نکل گیا۔۔

میں ابھی آتی ہوں۔۔ حرم اپنی کولڈ ڈرنک رکھتی اٹھی اور ماٸیکل کے پیچھے ہال سے نکلی۔۔ جیسے ہی وہ اوپر آٸ ماٸیکل اسے کہیں نظر نہیں آیا تھا۔۔ ابھی تو یہیں تھا۔۔ 

ہے لٹل لیڈی تم یہاں کیا کر رہی ہوں۔۔ 

حرم رون کی آواز سن کر ایک دم اچھلی۔۔ 

وہ۔۔ مم۔۔۔ میں۔۔۔ کال کرنے آٸ تھی۔۔ حرم نے مشکل سے جواب دیا۔۔

ہمم۔۔۔ ہوگیا تو نیچے بیسمنٹ ہال میں جاٶ۔۔ رون نے سنجیدگی سے کہا۔۔حرم اسکے سنجیدہ ہونے پر حیران رہ گٸ تھی۔۔ اسکا صرف لہجہ اور چہرہ سنجیدہ تھا۔۔ اسکی آنکھیں کچھ گڑبڑ کرنے کا اشارہ دے رہی تھیں۔۔ 

حرم اپنی الجھن سمیت واپس ہال میں آ گٸ تھی۔۔ وہ اپنے ٹیبل کی طرف جارہی تھی جب رومان نے اسے پکارہ۔۔ 

جی۔۔ حرم نے رکتے ہوۓ کہا۔

کہاں گٸ تھیں آپ۔۔۔ رومان نے پاس آتے ہوۓ پوچھا۔۔ اسکے ہاتھ میں اب بھی واٸن کا گلاس تھا۔۔ حرم بے اختيار ایک قدم پیچھے ہوٸ۔۔ رومان نے اسکی یہ حرکت نوٹ کی تھی۔ 

کیا ہوا۔۔ سب ٹھیک ہے نا۔۔؟؟ وہ فکرمندی سے پوچھ رہا تھا جبکہ حرم نے چہرہ دوسری طرف کر لیا۔۔ رومان کو اسکی آنکھوں میں واضح ناگواری نظر آٸ تھی۔۔ 

اسے سمجھ نہیں آٸ کہ حرم کو اچانک کیا ہوا ہے۔۔

آپ کچھ لیں گی نہیں۔۔ آٸ مین۔۔۔ اسکا اشارہ اپنے گلاس کی طرف تھا۔۔ 

آپکی حرام چیزیں آپکو مبارک مسٹر شاہ۔۔ ہمارا مزہب ان چیزوں کی اجازت نہیں دیتا۔۔ حرم کی آنکھوں میں ہی نہیں لہجے میں بھی ناگواری تھی۔۔ اسے اب سمجھ آٸ تھی کہ سٹوڈنٹس کو رومان شاہ کی پارٹیز کیوں پسند تھیں۔۔ مہنگی سے مہنگی شیمپین وہاں موجود تھیں۔۔ 

آ جاٶ حرم میں نیچے تمہارا ویٹ کر رہا ہوں۔۔۔ فرہاد کا میسج آیا۔۔ جسے پڑھنے کے بعد حرم کے چہرے پر واضح اطمينان پھیلا تھا۔۔ جسے رومان نے بہت ہی محسوس کیا۔

میں جا رہی ہوں۔۔ ہادی مجھے لینے آگۓ ہیں۔۔ آپ پلیز واصے اور عرش کو بتا دیجیے گا۔۔ وہ اب نارمل انداز میں کہہ رہی تھی۔۔

لیکن ابھی تو رزلٹ۔۔ رومان نے کچھ کہنا چاہا۔ 

آج کی ونر بھی ہمیشہ کی طرح آپکی زی ہی ہوگی۔۔ کوٸ نٸ بات تو نہیں ہے۔۔ پھر میں یہاں رک کر کیا کرونگی۔۔ ویل تھینکس ۔۔ سب کچھ اتنا اچھا ارینج کرنے کیلیۓ۔۔ وہ کہتی بنا اسکا جواب سنے باہر کی برف بڑھ گٸ۔۔ 

اچانک کی رومان کو سب بکواس لگنے لگا تھا۔۔ وہاں کی رونق اسے وہشت زدہ کر رہی تھی۔۔ سب کچھ تو اس سے تھا جو بنا کچھ سنے جاچکی تھی۔۔ کچھ دیر بعد وہ بھی وہاں سے چلا گیا۔۔ بنا کسی کو بتاۓ۔۔

اور رومان شاہ کے جانے کے بعد رون دی ڈون نے جو کیا تھا وہ یونيورسٹی کا کوٸ بھی سٹوڈنٹ خاص طور پر ماٸیکل تو قیامت تک بھی نہیں بھول سکتا تھا۔۔ 

          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں وہ مجھے پسند نہیں کرتی۔۔ رومان کو حرم کی آنکھوں سے چھلکتی ناگواری نہیں بھول رہی تھی۔۔ جسکے لیۓ اس نے اتنا سب کچھ کیا تھا وہ بنا کچھ سنے۔۔ بنا کچھ کھاۓ پیۓ وہاں سے چلی گٸ۔۔

آخر تم باقی لڑکیوں جیسی کیوں نہیں ہو حرم۔۔۔ رومان نے چلا کر کہا۔۔

وہ اپنے پرانے گھر آیا تھا۔۔ وہ گھر جو زیبا بیگم اور عالم شاہ کا۔۔ اس گھر کی چھت کے کنارے پر ٹانگیں نیچے لٹکاۓ وہ تصور میں حرم سے مخاطب تھا۔۔ ہلکی ہلکی سی خماری اسکی آنکھوں سے جھلک رہی تھی۔۔ 

تم زی جیسی کیوں نہیں ہو۔۔؟؟تم بیلا جیسی کیوں نہیں ہو۔۔؟؟ تم شالے اور میشا جیسی کیوں نہیں ہو۔۔؟؟ کیوں تم اتنی منفرد ہو۔۔؟؟ کیوں میں تم تک نہیں پہنچ پاتا۔۔ ؟؟ کیوں میں کوشش کے باوجود تمہیں کچھ بتا نہیں پاتا۔۔ 

کیوں تم اتنی الگ ہو کہ اب میں سب لڑکیوں میں تمہیں کھوج رہا ہوں۔۔ پر تم ایک ہی ہو۔۔ اور میں چاہتا ہوں کہ تم بس میری بنو۔۔ بس رومان شاہ کی حرم نور۔۔ 

اسکا لہجہ اب جزبات سے چور تھا۔ رومان نے باٸیں ہاتھ میں پکڑی سگریٹ کا ایک اسٹرونگ سا کش لگایا۔۔ اور دھواں ہوا میں پھینکا۔۔ اس دھوٸیں میں بھی اسے حرم کا چہرہ نظر آرہا تھا۔۔ 

تمہیں پتا ہے حرم نور میری سب سے بڑی خواہش کیا ہے۔۔؟؟ تم میری سب سے بڑی خواہش بن گٸ ہو۔۔ میرا شدت سے دل چاہتا ہے کہ تمہارے چہرے کے نمکین نقوش کو میں محسوس کروں۔۔

اب میں مزید انتظار نہیں کر سکتا۔۔ میں بہت جلد تمہیں اپنی فیلنگز کے بارے میں بتادونگا۔۔ 

رومان شاہ خود حرم نور کو پرپوز کرے۔۔ رومان شاہ زندگی میں پہلی بار کسی کو اسی سے مانگے گا۔۔ 

میں تمہیں تم سے مانگوں کا حرم نور۔۔ تمہیں میرا ہونا ہوگا۔۔ تمہیں رومان شاہ کا ہونا ہوگا۔۔

تم اپنے آپ کو دنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی تصور کروگی حرم۔۔ میں تمہیں اتنا چاہوں گا تم سب کچھ بھول جاٶ گی۔۔

وہ سب کے سامنے سنجیدہ رہنےوالا انسان اندر سے کسی لڑکی کیلیۓ اتنا پاگل ہے۔۔ اگر کوٸ دیکھ لیتا تو یقین ہی نا کر پاتا۔۔ اور زی دیکھ لیتی اسے اس طرح۔۔ شاید وہ تو مر ہی جاتی۔۔

کچھ یاد آنے پر اس نے اپنا موبائل نکالا اور اس میں سے حرم کی وہ تصویر نکالی جو اس نے فاٶنٹین پر بناٸ تھی۔۔ جب وہ مسکرا رہی تھی۔۔

تمہیں پتا ہے جب تم ہنستی ہو نا آس پاس کی ہر چیز مسکراتی ہے۔۔ ایسا لگتا ہے پھولوں میں جان پڑ گٸ ہو۔۔ اور وہ بھی مسکرا دیے ہوں۔۔ 

جب تم ہنستی ہو میرا دل کرتا ہے تمہیں چھو کر دیکھوں کہ واقعی تم حقيقت میں ہو یا صرف مجھے ہی نظر آتی ہو۔۔ رومان خود اپنی آخری بات پر مسکرادیا۔۔ اور پھر اس نے موبائل کو ہونٹوں کے قریب کیا۔۔ وہ اسے چھونا چاہتا تھا۔۔ اور پھر ناجانے کیوں رک گیا۔۔

نہیں۔۔ ایسے نہیں۔۔ مجھے تم حقيقت میں چاہیۓ ہو۔۔ اس نے موبائل واپس رکھ دیا۔۔ 

وہ اکیلا یہاں آیا تھا کیونکہ وہ فرصت سے اسے سوچنا چاہتا تھا۔۔ بنا کسی کی موجودگی کے وہ اس سے ڈھیروں باتیں کرنا چاہتا تھا۔۔

”چلو یہ فرض کرتے ہیں۔۔ 

کہ،
تم مشرق میں مغرب ہوں۔۔

چلو یہ مان لیتے ہیں 

بڑا لمبا سفر ہے یہ۔۔۔

مگر یہ بھی حقيقت ہے،،

تمہاری زات کا سورج۔۔،،

بہت سا رستہ چل کر۔۔

میری ہستی میں ڈوبے گا۔۔۔!!
 
                     #داستان_محبت

اس نے میسج ٹاٸپ کرنے کے بعد حرم کو سینڈ کر دیا۔۔ ان لفظوں میں وہ بہت کچھ کہہ چکا تھا۔

 
انسان نہیں جانتا کہ یک طرفہ محبت کسی آسیب سےکم نہیں ہوتی۔۔ یہ انسان کو بہت برے طریقے سے جکڑتی ہے۔۔ اسے توڑ مروڑ دیتی ہے۔۔ پاگل بنا دیتی ہے۔۔ انسان چاہ کر بھی اس سے پیچھا نہیں چھڑا پاتا۔۔۔ یہ انسان کی رگوں میں اترتی ہے۔۔ اور قبر تک اسکے ساتھ جاتی ہے۔۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایش ساری رات نہیں سوٸ تھی۔۔ وجہ صاف ظاہر تھی۔۔ وہ ساری رات حضرت محمدﷺ کے بارے میں پڑھتی رہی۔۔ کتنی دفعہ وہ روٸ تھی۔۔ وادی ِ طاٸف کا واقعہ پڑھنے کے بعد اس نے لیپ ٹاپ بند کر دیا تھا۔۔

کوٸ اتنا درد کیسے سہہ سکتا ہے۔۔؟؟ کوٸ اتنا پرفیکٹ کیسے ہو سکتا ہے۔۔ ؟؟ وہ سوچتی رہی تھی۔۔ یہی تو تھا وہ راہنما جو اسے چاہیۓ تھا۔۔ اسے رونا آ رہا تھا کہ اس نے اپنی زندگی بیس سال راٸیگاں کر دیے۔۔ وہ کہاں کھوٸ رہی۔۔ کن فضول کاموں میں الجھی رہی۔۔۔ 

پھر اس نے سورۃ رحمن کا انگلش میں ترجمہ پڑھا ہر ایک آیت پر اسکی آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔۔ اسکا نازک سا دل پھٹنے والا ہو گیا تھا۔۔ 

اور یہ بھی سچ ہے ہدایت اسے ہی ملتی ہے جس کو طلب ہو۔۔ ایش کو کچھ انوکھا چاہیۓ تھا۔۔ کچھ اتنا انوکھا کہ اسے دیکھ کر اسکے قدم وہی پر جم جاٸیں۔۔ اور اسے آج وہ مل گیا تھا۔۔ وہ پچھتا رہی تھی کہ اس نے آج تک اتنی کتابیں پڑی ہیں۔۔ یہ کیوں نہیں پڑھی۔۔ یہ قرآن پاک جو ہر کتاب کی بنیاد تھی۔۔ وہ کیوں نہیں پڑھ پاٸ۔۔ 

ساری رات گزر گٸ تھی۔۔ اسکے دل میں ایک عجیب سا عزم پیدا ہو گیا تھا۔۔ وہ جو طاٸف کی وادی میں اپنی امت کیلیۓ پتھر کھا سکتا تھا۔۔ اس راہنما کیلیۓ وہ اپنے ماں باپ چھوڑ سکتی تھی۔۔۔ اسے اب حوصلہ ہو رہا تھا۔۔ 

 بس دل دکھ رہا تھا آج اسکا اس گھر میں آخری دن تھا جہاں اسکی زندگی کے بیس سال گزرے تھے۔۔ وہ ہر چیز کو چھو کر دیکھ رہی تھی۔۔ آنکھیں نم تھیں۔۔ لیکن دل پرسکون تھا۔۔

     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  مجھے یقین نہیں ہوتا کہ ایک لڑکے کیلیۓ وہ مجھ سے ضد لگا رہی ہے۔۔ ایک لڑکے کیلیۓ وہ گھر چھوڑ کر مجھ سے ناراض ہو کر چلی گٸ۔۔۔

How radiculous..!! 
مسٹر ولیم کے لہجے میں حقارت تھی۔۔

نادان ہے وہ۔۔ معاف کردیں اسے۔۔ مسز ولیم نے بیٹی کی ساٸیڈ لی تھی۔۔

ہممم۔۔۔ مسٹر ولیم نے بس اتنا ہی کہا۔۔ اور مسز ولیم جانتی تھی وہ اپنی مرضی کریں گے۔۔ جب انکا دل چاہے گا تب وہ ایش سے ملیں گے۔۔۔۔ کیونکہ وہ تھے بھی اناپرست۔۔ 

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایش صبح صبح کہاں جا رہی ہو۔۔۔؟؟ مسز ولیم نے اسے باہر جاتے دیکھا تو پوچھا۔۔

میں اپنی زندگی کا سب سے اہم کام کرنے جا رہی ہوں۔۔ مما میرے لیۓ پرے کریں۔۔ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاٶں۔۔ ایش نے عجیب سے لہجے میں کہا تھا۔۔ کتنے سالوں بعد اس نے مسز ولیم کو مام کی جگہ مما پکارہ تھا۔۔ مسز ولیم کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔

کیا ہوا میری بچی کو ایسا کونسا ضروری کام ہے جسکے لیۓ وہ مجھے پرے کرنے کیلۓ کہہ رہی ہے۔۔ مسز ولیم نے اسکے پاس آتے ہوۓ پیار سے پوچھا۔

بہت ہی اہم ہے مما۔۔ میں کچھ غلط نہیں کرنے جارہی۔۔ میں اپنی زندگی کا سب سے اچھا کام کرنے جا رہی ہوں۔۔ پلیز مجھے کبھی بھی غلط مت سمھیۓ گا۔۔ ایش نے آگے بڑھ کر اپنی مما کو گلے لگایا۔۔ شاید آج سے وہ اپنی ماں سے ملنے اور پیار کرنے کا حق کھو دے گی۔۔آج کے بعد وہ سب ایش سے نفرت کریں گے۔۔ ایش کی آنکھوں میں نمی چھاٸ تھی۔۔ جسے وہ چھپا نہیں پا رہی تھی۔

 گاڈ بلیس یو ماۓ ڈیٸر۔۔ مسز ولیم کے اپنی بیٹی کو پیار کیا۔۔

باۓ مما۔۔۔ ایش نے مشکل سے اپنے آپ کو مسز ولیم سے الگ کیا۔۔ اور پھر باہر نکل گٸ۔۔ اب اسکا ارادہ مارکیٹ جانے کا تھا۔۔

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج موسم بہت سہانا تھا۔۔ ایش سمعان کے گھر آٸ تھی۔۔سمعان گھر نہیں تھا۔۔ دروازہ اسکی بہن زارا نے کھولا تھا اور وہ ایش کو دیکھ کر حیران رہ گٸ۔۔ 

آپ۔۔؟؟ آٸیں اندر آٸیں پلیز۔۔ زارا اسے دیکھ کر بہت خوش ہوٸ تھی۔۔

ایش جھجکتے ہوۓ اندر آٸ تھی۔۔ یہ چھوٹا سا گھر اسے بہت اچھا لگا تھا۔۔ جس میں تین چار کمرے آگے برآمدے تھا۔۔ چھوٹا سا صحن جس کے بیچ میں ایک چھوٹا سا فاٶنٹیں بنا تھا جس پر سفید اور رنگ برنگے کبوتر بیٹھے تھے۔۔ زارا انہیں دانا ڈال رہی تھی۔۔

آپ اندر آ جاٸیں۔۔ بھاٸ تو گھر نہیں ہیں۔۔ زارا نے ایش کو صحن میں کبوتروں کے پاس رکتے دیکھا تو کہا۔۔

دنیا میں پرندوں کی کمی نہیں خوبصورت سے خوبصورت۔۔ رنگین سے رنگیں۔۔ ہر طرح کے پرندے ہیں۔۔ پھر ایک کبوتر ہی کیوں مندروں اور مسجدوں کے اندر پایا جاتا ہے۔۔ کیوں یہ اتنا پاکیزہ سا لگتا ہے کہ عبادت گاہوں سے انہیں کوٸ بھی نہیں نکالتا۔۔؟؟ کیوں آخر کیوں۔۔؟؟ 

وجہ ہے اس پرندے کا خدا سے لو لگانا۔۔۔ ایک پرندہ اگر خدا کے گھر میں رہ کر معتبر ہو سکتا ہے تو اگر انسان اس خدا کا بن جاۓ تو خدا اسے کتنا معتبر بنا دے گا۔۔ یہ کبھی کسی نے سوچا ہی نہیں۔۔

کبھی سوچا ہے کہ ایک خالی صفحے پر اگر کچھ لکھا ہو۔۔ کوٸ غزل کوٸ شاعری۔۔ یا کچھ اور کسی بھی زبان میں۔۔ اور وہ نیچے زمین پر پڑا ہو تو ہم اسے اتنی اہمیت نہیں دیتے۔۔ لیکن اسی خالی صفحے پر اگر عربی میں کچھ لکھا ہو۔۔ وہ نیچے گر جاۓ تو ہم اندر تک کانپ جاتے ہیں۔۔اسے اٹھاتے ہیں۔۔ چومتے ہیں۔۔ کیوں۔۔ ایک صفحے کو دوسرے صفحے پر فوقیت حاصل ہو گٸ۔۔۔ کس بنا پر اسے یہ فوقیت حاصل ہوٸ۔۔ وجہ ہے وہ عربی زبان جس میں قرآن پاک نازل کیا گیا۔۔ 

ایک صفحے کو ایک زبان کو دوسری چیزوں پر فوقیت حاصل ہو جاتی ہے تو وجہ ہے۔۔ قرآن پاک۔۔ کیونکہ وہ اللہ کی کتاب ہے۔۔ اگر ایک خالی کاغذ ایک زبان قرآن پاک سے جڑ کر اتنی معتبر ہو سکتی ہے۔۔ تو سوچا ہے کبھی کہ اگر انسان قرآن پاک سے جڑ جاۓ تو وہ کتنا معتبر ہو جاۓ گا۔۔ 

لیکن انسان بےوقوف ہے۔۔ وہ جڑے تب نا۔۔ 

میں یہیں بیٹھ جاتی ہوں۔۔ بابا جی ہیں گھر۔۔ ایش نے زارا سے پوچھا۔۔ 

جی میں انہیں بلاتی ہوں۔۔ زارا ایک کمرے کی طرف بڑھ گٸ۔۔

کچھ دیر بعد بابا جی ایش کے سامنے تھے۔۔ 

 یہ ایش وہ ایش نہیں تھی۔۔ وجہ اسکے کپڑے تھے۔ وہ سادہ سی قمیض اور ٹراٶزر پہنی ہوۓ تھی۔۔ لانگ اوور کوٹ نے اسے ڈھانپا ہوا تھا۔۔ سر پر سفید سٹالر لپٹا تھا۔۔ 

وہ اس حلیے میں تھی جس میں سمعان اسے دیکھنا چاہتا تھا۔۔ اگر وہ اسے اس وقت دیکھ لیتا تو دل و جان ہار جاتا۔۔ 

آج میں اپنی زات سے بدنصیبی کا سایا مٹانے آٸ ہوں بابا جی۔۔ایش نے نرمی سے کہا۔۔

کیا سمعان کیلیۓ کر رہی ہو یہ سب۔۔؟؟ بابا جی نے پوچھا۔۔

نہیں بابا جی۔۔ ایش نے تڑپ کر انہیں دیکھا۔۔
 
وہ تو مجھے دھتکار چکے ہیں۔۔ مجھے ان سے اب کوٸ واسطہ نہیں۔۔ کوٸ غلا بھی نہیں۔۔ وہ نا ملتے تو میں اپنے خدا کو پہچان ہی نا پاتی۔۔ 

مجھے مسلمان ہونا ہے باباجی۔۔ اپنے لیۓ۔۔ اپنے نبی ﷺ کیلیۓ۔۔ جسکے لیۓ یہ کاٸنات بنادی گٸ ہے۔۔ میں اسکی امت میں سے ہونا چاہتی ہوں۔۔ میں خوش نصیبوں میں سے ہونا چاہتی ہوں۔۔ میری مدد کیجیۓ۔۔ 

 ٹھیک ہے۔۔بابا جی اسکی بات سمجھ گۓ تھے۔ 

زارا بیٹا ایش بیٹی کو وضو کرواٶ۔۔ 

اور زارا نے ایش کو وضو کروایا اسے طریقے بھی ساتا ساتھ سکھایا۔۔ 

اب وہ پاکیزہ اور معطر معطر سی بابا جی کے سامنے بیٹھی تھی۔۔ انہی کبوتروں کے بیچ۔۔ 

 اسلام قبول کرنے کیلیۓ سب سے ضروری ہے اللہ پر ایمان لانا۔۔۔ حضرت محمدﷺ کو انکا آخری نبی ماننا۔۔ 

بابا جی ایش کو بہت کچھ سمجھایا تھا کہ اگر وہ اسلام قبول کررہی ہے تو اسے اس پر ثابت قدم رہنا ہوگا ہر حال میں۔۔ 

تو پڑھو۔۔ باباجی نے پہلا کلمہ پڑھا۔۔

  لا الہ الا اللہ،
   نہیں کوٸ معبود سواۓ اللہ کے۔۔ 
   ایش نے زیر لب دہرایا۔۔ 

مُحَمَّد و رسول اللہ۔۔۔ 
    اور مُحَمَّد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔۔ 

ایش نے دہرایا۔۔ اسکا سر جھک گیا۔۔ یہ جھکا سر گواہی دے رہا تھا کہ اسکا اندر بھی جھک گیا ہے۔۔ اور صحن کے بیچوں بیچ بیٹھے کبوتروں نے ایک اڈاری بھری۔۔ انہوں نے ایش کو سلام پیش کیا تھا۔۔ ایش کی روح تک سکون اترا تھا۔۔ 

وہ داٸرہ ایمان اور اسلام میں داخل ہوٸ تھی۔۔ زارا کے چہرے پر مسکاہٹ پھیلی تھی۔۔ وہی مسکراہٹ جو ایش اور باباجی کے چہرے پر تھی۔۔ وہی مسکراہٹ جو آسمان اور زمین اور اسکے درمین موجود فرشتوں کے نورانی چہروں پر تھی۔۔ وہی مسکراہٹ جس پر ہواٶں نے دم سادھ لیا تھا۔۔ وہی مسکراہٹ جس پر وقت تھما تھا۔۔ اور وہی مسکراہٹ جس پر تقدیر نے سر جھکایا۔۔ 

اور کتنی پیاری گواہی ہے نا۔۔ 

”اشھدان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمد عبدہ و رسول۔۔ “

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوٸ عبادت کے لاٸق نہیں اور مُحَمَّد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔۔

ایش نے دہرایا تھا۔۔ تبھی صحن کا دوازہ ایک جھٹکے سے کھلا اور سمعان اندر داخل ہوا۔۔  

           ❤❤❤❤❤
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔ 

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─