┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄
ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 36
پارٹ 2
صحن کا دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا تھا اور سمعان اندر داخل ہوا۔۔ وہ ایش کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔۔ سب سے حیرانگی والی بات اسکے کپڑے تھے۔۔ وہ پاکیزہ پاکیزہ سی سیدھا اسکے دل میں اتری۔۔
ایش نے ایک نظر اسے دیکھنے کے بعد چہرہ پھر بابا جی کی طرف کرلیا۔۔ وہ بھی رکے نہیں۔۔ ایش کو متواتر سے کلمے پڑھاتے رہے۔۔ سمعان تو بس حیرت کا بت بنا سب دیکھ رہا تھا۔۔
ایش مسلمان ہو رہی تھی۔۔ ہاں وہ واقعی مسلمان ہو رہی تھی۔۔ لیکن کس لیۓ۔۔۔؟؟ کیا اسکے لیۓ۔۔ اگر اسکےلیۓ ہوتی تو اسکی موجودگی میں ہوتی۔۔
کیا واقعی اس نے اپنے راہنماﷺ کو پا لیا تھا۔۔
ایک پل کیلیۓ بھی سمعان کی نظریں ایش سے نہیں ہٹی تھیں۔۔ جبکہ ایش نے دوبارہ اسکی طرف نہیں دیکھا تھا۔۔
باباجی نے آخری کلمہ پڑھانے کے بعد درود شریف پڑھایا
لو بیٹا اب آپ داٸرہ اسلام میں داخل ہو چکی ہیں۔۔ بہت بہت مبارک ہو۔۔ باباجی نے آگے بڑھ کر ایش کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔
مبارک ہو۔۔ زارا نے بھی اسے گلے لگایا۔
ایک اور بات بیٹا۔۔ آپ اپنا نام بدلنا چاہیں گی یا۔۔ باباجی نے بات ادھوری چھوڑی۔۔
آپ ہی کوٸ مناسب سا۔۔
ایش کہنے والی تھی کہ سمعان ایک دم بول پڑا۔۔
#نورالایش۔۔۔
ہاں آج سے ایش کا نام نورالایش ہے۔۔۔ نور میرا فیورٹ اور ایش تمہارا فیورٹ۔۔ وہ ایش کے سامنے آتے ہوۓ بولا۔۔۔
شکریہ۔۔۔ ایش نے نظریں جھکا کر کہا۔
اب وہ نظریں کم ہی اٹھاتی تھی۔۔
میں خدا تک پہنچ چکی ہوں بابا جی۔۔ میں خود کو اسکے سپرد کر چکی ہوں۔۔ لیکن مجھے کوٸ ایسا طریقہ بتاٸیں جس سے خدا میرا ہو جاۓ۔۔میں اسے پانا چاہتی ہوں۔۔ ایش نے پوچھا۔۔اسکی آواز خوشی کی شدت سے کانپ رہی تھی۔۔
اللہ ﷻفرماتا ہے۔۔
”اے مُحَمَّد ﷺ تیرے رب کی قسم۔۔ میں صرف تیرا ہوں۔۔ صرف تیرا۔۔ اگر کوٸ چاہتا ہے میں اسکا ہو جاٶں۔۔ تو وہ مجھے تیرے سانچے میں ڈھل کر دکھا دے۔۔ میں اسکا بھی ہو جاٶں گا۔۔۔ میں اسکا بھی ہو جاٶں گا۔۔“
شدت جزبات سے باباجی کی آواز رندھ گٸ تھی۔۔
اللہ ﷻ کو اپنا بنانے کیلیۓ پیارے نبی ﷺ کو پہلےاپنا بنانا پڑے گا۔۔ اسکے سانچے میں ڈھلنا پڑے گا۔۔ اسکے رستے پر چلنا پڑے گا۔۔ اسکی انگلی تھامنی ہوگی۔۔ وہ ہمارے راہنما ہیں۔۔ وہ ہم سب کے راہنما میں۔۔ وہ ہمیں اللہ سے ملوانے کا زریعہ ہیں۔۔ اسکے راستے پر چلو۔۔ چلتے جاٶ۔ ۔۔ آخر ایک دن تم خدا کو پا لو گے۔۔
#میرے_راہنما_مُحَمَّد_ﷺ
ایش نے زیر لب دہرایا۔۔ اور ایش نے اپنا آخرت تک کیلیۓ کا راہنما پا لیا تھا۔۔ بیشک قیامت تک کیلیۓ آپﷺ کی زات ہمارے لیۓ ہدایت کا زریعہ ہیں۔۔وہ سب ک راہنما ہیں۔۔ اور وہ ہی تو ہیں #میرے_راہنما_ﷺ
جسے اللہ پاک نے ہدایت دینی ہو اسے قدم قدم پر راہنما عطا کیا جاتا ہے۔ تاکہ وہ انکی راہنماٸ میں چل کر سب سے بڑے اور آخرت تک کے #راہنما_ﷺ کو پا لے۔۔
ایش کو ہدایت دی جانی تھی۔۔ کونکہ اسے شروع ہی سے اسکی طلب تھی۔۔ اسے جو چیز چاہیۓ تھی وہ چرچ میں نظر نہیں آتی تھی۔۔۔ اس لیۓ اسنے وہاں جانا چھوڑ دیا۔۔
پھر اسے سمعان ملا۔۔ راہنماٶں کی دنیا کا پہلا راہنما۔۔ اگر وہ نا ملتا تو شاید ایش کبھی خود کو پہچان ہی نا پاتی۔۔ سمعان نے سخت لفظوں سے ہی۔۔ لیکن اسکی راہنماٸ کی۔۔اس نے اسے سب سے بڑے راہنما تک پہنچا دیا تھا۔۔ اور ایسے لوگ بھی نصیب والوں سے ملتے ہیں۔۔
میں مسجد جارہا ہوں۔۔ بچوں اور لوگوں میں مٹھاٸ بانٹوں گا۔۔ بہت ہی نیک کام ہوا ہے آج۔۔ اس مبارک دن کی خوشی میں۔ باباجی کہتے دروازے کی طرف بڑھے گۓ۔۔
میں بھی چاۓ بنا لوں۔۔ زارا بھی وہاں سے کھسک گٸ۔۔
اب وہ دونوں اکیلے رہ گۓ تھے۔۔ایش نظریں جھکاۓ کھڑی تھی۔۔اسکی آنکھوں میں خوشی کی نمی سی چھاٸ تھی۔۔
کیا سب میرے لیۓ کیا ہے۔۔؟؟ سمعان نے اسے جھکے سر کو دیکھ کر پوچھا۔
ایش نے ایک دم نظریں اٹھاٸ۔۔ گلابی آنکھوں میں شکایت تھی۔۔ سمعان کو لگا تھا وہ ان آنکھوں میں ڈوب جاۓ گا۔۔
نہیں۔۔ آپکے لیۓ نہیں کیا۔۔ لیکن آپکی وجہ سے ضرور کیا ہے۔۔
آپ سے اب مجھے نا کوٸ واسطہ ہے نا کوٸ شکایت۔۔ ہاں البتہ میں آپکی شکر گزارہوں۔۔ آپ مجھے بدنصیب نا کہتے تو میں کبھی خود پر لپٹی بد نصیبی کی سیاہی کو پہچان ہی نا پاتی۔۔
میں آپکا شکریہ ادا کرتی ہوں آپ نے مجھے #میرے_راہنما_ﷺ سے ملوا دیا۔۔
بیشک آپ میرے پہلے راہنما ہیں۔۔ اور حضرت مُحَمَّد ﷺ میرے آخری راہنما۔۔ انکے علاوہ اب مجھے کسی اور کی ضرورت نہیں رہی۔۔ وہ مسکرادی۔۔
سمعان بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر وہ کچھ بول ہی نا پایا۔۔ پہلی بار ایش نے اسے لاجواب کیا تھا۔۔
مجھے اب جانا ہے۔۔ میرا مقصد پورا ہو چکا ہے۔۔ امید ہے آٸندہ میری شکل آپکو نظر نہیں آۓ گی۔۔ یہ بات کہتے ہوۓ ایش کا اپنا دل رو رہا تھا۔۔ آخر کو وہ شخص اسکی محبت تھا۔
وہ دروازے کی طرف بڑھ گٸ۔۔
نورالایش۔۔
سمعان نے کتنے پیار سے پکارہ تھا اسے۔۔ وہ ایک دم رکی۔۔
خدا خدمت خلق سے بھی ملتا ہے۔۔
سمعان کچھ اور کہنا چاہتا تھا لیکن کچھ یاد آنے پر وہ بات بدل گیا۔ کچھ اور ہی کہہ دیا۔۔
شکریہ۔۔ وہ مسکراٸ۔۔۔ اور دروازہ کھول کر باہر نکل گٸ۔۔
ایش جا چکی تھی۔۔ نورالایش۔۔ اسکی نورالایش۔۔ اب اسے سمجھ آیا تھا۔۔۔ ایش سے ہی کیوں ملوایا گیا اسکو۔۔ آج اسکی وہ منت پوری ہو چکی تھی جسکے لیۓ اس نے وظیفہ کیا تھا۔۔
ایسی ہی لڑکی چاہیۓ تھی اسے۔۔ہمیشہ ہمیشہ کیلیۓ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو کیسا رہا تمہارا انٹرو۔۔ تمہارے مقابلے کا پہلا راٶنڈ۔۔۔؟؟ فرہاد نے حرم کے سامنے بیٹھتے ہوۓ پوچھا۔۔ وہ لوگ گھر پہنچ چکے تھے۔۔
بہت اچھا۔۔ لیکن۔۔
لیکن کیا۔۔؟؟
مجھے بھوک لگی ہے۔۔ وہ بھی شدید۔۔ حرم نے معصومیت سے کہا۔
تم نے کھانا نہیں کھایا۔۔فرہاد نے اسے گھورا۔۔
تمہیں پتا ہے رات کا کھانا ہماری صحت کیلیۓ بہت ضروری ہے۔۔ اسکے اندر کا ڈاکٹر جاگ اٹھا تھا۔۔
آپ کچھ دیر کیلیۓ اپنے اندر کے ڈاکٹر کو سلا کر دو منٹ کیلیۓ کک بن کر مجھے کھانا لادیں۔۔ حرم نے جان بوجھ کر اسے چڑایا۔۔
بری بات ہے حرم تمہیں کھانا چاہیۓ تھا۔۔ ہمیشہ اپنی مرضی کرتی ہو۔۔
آپکو پتا ہے وہاں کیا تھا۔۔ وہاں سب لوگ شراب پی رہے تھے۔ابھی تو رزلٹ بھی اناٶس نہیں ہوا تھا۔۔ مجھے غصہ آگیا تو میں آگٸ۔۔حرم نے منہ پھلا کر بتایا۔۔
کیا۔۔ تم فنگشن مڈ میں چھوڑ آٸ ہو۔۔؟؟ فرہاد کو اور غصہ آیا۔۔
تو اور میں کیا کرتی۔۔؟؟
تم کھانا تو کھا سکتی تھی نا۔۔ تمہاری فرینڈز کو بھی برا لگا ہوگا۔۔ وہ سب کیا سمجھ رہے ہونگے۔۔
میں مسلم ہوں ہادی۔۔ میں حرام چیزیں نہیں کھا سکتی۔۔
حلال تو کھا سکتی ہو نا۔۔ ایک شراب ہی حرام تھی نا وہاں۔۔ باقی سب تو حلال کھانا تھا نا۔۔
بس میرا دل نہیں کیا ہادی۔۔
ایک میزبان کو بہت دکھ ہوتا ہے جب اسکا مہمان اسکے کھانے کو ٹھکرا کر چلا جاۓ۔۔ اور کھانے کو ٹھکرانا غلط بات ہے۔۔ وہ اسے سمجھا رہا تھا۔۔ اور حرم پچھتا رہی تھی اس نے ہادی کو رومان والی بات کیوں بتاٸ کہ وہ اسے یہ کہہ کر آٸ ہے کہ تمہاری حرام چیزیں تمہیں مبارک ہوں۔۔ بیشک اب اسے بھی برا فیل ہو رہا تھا کہ اسے رومان کو ایسا نہیں کہنا چاہیۓ تھا۔۔
افف توبہ میرا غصہ۔۔ ہمیشہ غلط کام کرواتا ہے مجھ سے۔۔ حرم نے اپنے آپ کو ڈپٹا۔۔
سوری ہادی۔۔ اگین نہیں کرونگی۔
سوری مجھے نہیں بلکہ اسے بولنا صبح جا کر جسے سنا کر آٸ ہو۔۔ فرہاد نے مسکراہٹ چھپا کر کہا۔
آپ نے بھی تو کھانا نہیں کھایا ہوگا۔۔ ہے نا۔۔؟؟ حرم جانتی تھی پھر بھی تصدیق چاہی۔
کھا لیا تھا میں نے۔۔میں تمہارے جیسا پاگل تھوڑی ہوں۔۔ اب کی بار منہ پھلانے کی باری فرہاد لی تھی۔۔
آپ بیٹھیں میں کھانا گرم کر کے لاتی ہوں۔۔ حرم نے اٹھتے ہوۓ کہا۔۔کیوں وہ جانتی تھی فرہاد نے بھی نہیں کھایا ہوگا۔
خود ہی تو کہا ہے کہ مجھے شیف کا فریضہ سرانجام دینا چاہیۓ۔۔ تو بیٹھو ادھر میں یہ کام کر لونگا۔۔فرہاد نے اسکا ہاتھ پکڑا۔۔
نہیں۔۔ میں خود کرونگی۔۔ آپکا کام بس رات کی چاۓ بنانا ہے۔۔ جو آپ باخوبی پورا کرتے ہیں۔۔ حرم نے اپنا ہاتھ چھڑوایا۔۔ اور کچن کی طرف بڑھ گٸ۔۔
ویسے میں سوچ رہا تھا کہ مجھے سیلری ملنی چاہیۓ۔۔ وہ اسکے پیچھے ہی کچن کے دروازے میں آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔
سیلری۔۔؟؟ پر کس لیۓ؟؟ حرم نے پوچھا۔
روز بنا ناغہ چاۓ جو بناتا ہوں۔۔ چار مہینے ہو گۓ ہیں۔۔ لگاتار بنا رہا ہوں۔۔ فرہاد نے معصوم سا چہرہ بناتے ہوۓ کہا۔
اوووو ہاں۔۔ کہہ تو آپ ٹھیک رہے ہیں۔۔ افف ایک ڈاکٹر بےچارہ روز چاۓ بناتا ہے۔۔ کسی کو پتا چلے گا تو کیا سوچے گا آپکے بارے میں۔۔ حرم کا چہرہ دوسری طرف تھا۔۔ پھر بھی فرہاد اسکے چہرے پر پھیلی شرارت محسوس کر سکتا تھا۔۔
کیا کہے گا یہی کہے گا کہ کتنی ظالم بیوی ہے۔۔ اپنے شوہر سے کام کرواتی ہے۔۔ حرم کا کام کرتا ہاتھ ایک دم رکا۔۔ اسے اتنا عجیب لگتا تھا جب وہ شوہر اور بیوی کے رشتے سے خود کو اور فرہاد کو دیکھتی تھی۔۔
یہ آپکو پہلے سوچنا چاہیۓ تھا نا کیوں کی ایک ظالم لڑکی سے شادی۔۔ حرم کھانے کی ٹرے کو ہاتھ میں اٹھاتے ہوۓ بولی۔۔
راستہ دیں۔۔ اس نے فرہاد کو کچن کے دروازے میں براجمان دیکھا تو کہا۔
وہ مسکرا کر ایک طرف ہو گیا۔
کیونکہ وہ ظالم لڑکی بہت اچھی ہے اس لیۓ۔۔
آ جاٸیں پھر ظالم لڑکی آپکو کھانے کی دعوت دے رہی ہے۔۔ حرم نے مسکرا کر کہا۔
اور میری سیلری کا کیا سوچا پھر۔۔۔؟؟ وہ اسکے سامنے بیٹھتے ہوۓ پوچھ رہا تھا۔۔
کتنی سیلری چاہیۓ آپکو۔۔؟؟ حرم نور آپکو دے گی۔۔ مگر چاۓ تو آپکو ہی بنانی پڑے گی۔۔
پیسے نہیں چاہیۓ مجھے۔۔؟؟
ہاٸیں۔۔ تو پھر اور کیا چاہیۓ۔۔ حرم جو چاولوں کا چمچ منہ میں ڈالنے لگی تھی۔ فرہاد کی بات سن کر اسکا ہاتھ رکا۔۔
کچھ اور چاہیۓ۔۔ وہ بھی میری پسند کا۔۔۔ فرہاد اسکی بڑی بڑی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ بولا جو اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔۔
اووو اچھا تو آپکو پیشنٹس چاہٸیں۔۔ معاٸنہ کرنے کیلیۓ ہے نا۔۔۔ میں صبح یونيورسٹی میں سٹوڈنٹس سے کہوں گی کہ جسکو ہیلتھ کی جو بھی پرابلم ہو وہ آپکے ہاسپٹل چلا جاۓ۔۔حرم نے اپنی طرف سے بڑی سمجھ داری کی بات کی تھی۔
افففف۔۔ اور فرہاد اپنا سر پیٹ کر رہ گیا تھا۔۔
کیا ہوا۔۔؟؟ حرم نے فرہاد کو اس طرح کرتے دیکھا تو پوچھا۔۔
کچھ نہیں۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔ تم کھانا کھاٶ ڈٸیر۔۔۔ یہ تمہارے بس کی بات نہیں۔۔ فرہاد نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔۔
وہ تو میں کھا ہی رہی ہوں۔۔ مجھے نا آپکو ایک اور بات بتانی تھی۔۔ وہ نا۔۔ ابھی وہ کچھ کہنے والی تھی ایک دم اسے کھانسی ہوٸ۔۔اچھو لگا اور مرچیں اسکے گلے میں لگ گٸ تھیں۔۔
کیا کرتی ہو حرم۔۔ فرہاد ایک دم اٹھ کر اسکے پاس آیا۔۔ حرم سے بولا نہیں جا رہا تھا۔۔
یہ پانی پیو۔۔اسی لیۓ کہتے ہیں کھانا خاموشی سے کھانا چاہیۓ۔۔جبکہ حرم کی آنکھوں سے پانی نکلنا شروع ہو گیا تھا۔۔
وہ ہادی مم۔۔ میں۔۔
چپ کرو اب۔۔۔ کچھ دیر خاموش رہو۔۔
حرم نے اسکی طرف دیکھا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔۔ اس نے اپنا گلہ پکڑ رکھا تھا۔۔ شاید زیادہ ہی مرچیں اسکے ہلق سے جا لگی تھیں۔۔
فرہاد اسکی بھیگی آنکھوں کو کہاں دیکھ سکتا تھا۔۔
ریلیکس ڈیٸر اٹس اوکے۔۔ فرہاد نے اسکے کندھے کے گرد اپنا بازو پھیلا کر اسے اپنے قریب کیا۔۔ اور پھر خود ہی اپنے آپ کو سرزنش کرنے لگا۔۔ کب سے وہ اسے دیکھ رہا تھا۔۔ اسے حرم پر بےشمار پیار آ رہا تھا۔۔
میری ہی نظر لگ گٸ۔۔ مجھے زرا بھی عقل نہیں ہے۔۔ فرہاد آغا تم پاگل ہو۔۔ سٹوپڈ۔۔بےوقوف۔۔ اسطرح کوٸ کسی کو دیکھتا ہے کیا۔۔ وہ خود کو دل ہی دل میں گالیاں دے رہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈراٸنگ روم میں موجود ہر شخص ایش کو دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔۔ وجہ اسکا حلیہ تھا۔۔ مسٹر ولیم جو کب سے اسکا انتظار کر رہے تھے۔۔ اسے اس طرح کپڑوں اور سر پر موجود سٹالر میں دیکھ کر حیران رہ گۓ تھے۔۔
مجھے آپ سب سے کچھ کہنا ہے۔۔۔ وہ آنکھیں جھکاۓ کھڑی تھی۔۔
یہ کیا حال بنایا ہوا ہے ایش۔۔؟؟ ماٸیک بھی وہيں تھا۔۔
آج سے میری یہی پہچان ہے۔۔۔
کیا مطلب ہے تمہارا۔۔؟ ایش یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے۔۔ کس طرح کے کپڑے پہنے ہیں۔۔ اور کہاں سے آ رہی ہو اس وقت۔۔؟؟ مسز ولیم نے اس سے پوچھا۔
میں نام صرف ایش نہیں بلکہ آج سے میرا نام نورالایش ہے۔۔
واٹ۔۔۔؟؟ ماٸیک ایک دم کھڑا ہوا اسکے ساتھ ہی مسز ولیم بھی کھڑی ہوگٸیں۔۔ جبکہ گرینی تو اپنی وہیل چیٸر سے اٹھ نہیں سکتی تھیں۔
صرف ایک انسان سکتے کی حالت میں تھا۔۔ اور وہ تھا مسٹر ولیم۔۔ جو گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
میں نے اسلام قبول کر لیا ہے مما۔۔ میں آج سے مسلمان ہو چکی ہوں۔۔ اور میرا نام ہے نورالایش۔۔
وہ دھماکے کر رہی تھی۔۔ مسز ولیم کی ٹانگوں کی جان نکل گٸ۔۔ وہ ایک دم ہی گرنے والے انداز میں صوفے پر بیٹھ گٸ۔۔
یہ کیا کہہ رہی ہو تم ایش۔۔ پاگل ہو گٸ ہو۔۔ تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔۔ ماٸیک نے آگے بڑھ کر اسے کندھوں سے پکڑ کر جھنجوڑا۔۔
دور۔۔ دور رہیں مجھ سے۔۔ ہاتھ مت لگاٸیں۔۔ ایش نے تڑپ کر کہا اور ایک جھٹکے سے اپنے بازو ماٸیک کی گرفت سے آزاد کرواۓ۔۔ وہ تو دنگ ہی رہ گیا تھا۔۔
گرینی منہ پر ہاتھ رکھے حیرانی کا مجسمہ بنے اسے دیکھ رہی تھیں۔۔
مما میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔۔ میں نے کہا تھا نا کہ مرے لیۓ دعا کیجیۓ گا۔۔ دیکھیں اللہ پاک نے مجھے قبول کر لیا ہے۔۔
مسٹر ولیم کو تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ اسکی بیٹی تھی۔۔ ایش ولیم۔۔ دی راٸل پرنسز۔۔۔
وہ تو کوٸ اور تھی۔۔ روح تک گاٸل نظر آ رہی تھی۔۔ کس چیز نے اسے ایسا بنا دیا تھا۔۔
مسٹر ولیم مشکل سے اپنی جگہ سے اٹھے تھے۔۔ اور پھر ایش کی طرف بڑھے۔
ڈیڈ۔ آٸ سویٸر۔۔ اسلام از اے ٹرو ریلیجن۔۔ ایش کچھ بتا رہی تھی۔۔
چٹاخ۔۔۔ مسٹر ولیم نے اتنی زور سے اسکے چہرے پر تپھڑ مارا تھا جسکی گونج سے پورا پیلس ہل گیا تھا۔
ڈیڈ۔۔ ایش نے پھر کچھ کہنا چاہا۔۔
چٹاخ۔۔۔ کی زوردار آواز ایک بار پھر گونجی۔۔ اور ایش دور جا گری۔۔
اسکے نازک سے ہونٹ سے خون رسنے لگا تھا۔۔ اگر سمعان دیکھ لیتا تو شاید مسٹر ولیم کا خون پی جاتا۔۔
تم نے اس بدزات کیلیۓ اپنے مزہب کو چھوڑا۔۔ اس سے شادی کرنے کیلیۓ تم نے اپنے مزہب کو چھوڑا۔۔ مسٹر ولیم سے غصے کے باعث بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔۔
نہیں ڈیڈ۔۔ سیم کی کوٸ غلطی نہیں۔۔ میں نے یہ سب اسکے لیۓ نہیں کیا۔۔ میرا اس سے کوٸ واسطہ نہیں۔۔ پلیز میرا یقین۔۔
شٹ اپ۔۔۔ اپنی بکواس بند کرو۔۔ مسٹر ولیم دھاڑے۔۔
ماٸیک کو بیشک غصہ آیا تھا جو ایش نے کیا۔۔ لیکن وہ اس کو یوں تڑپتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔ وہ رو رہی تھی۔۔ اسکے منہ سے خون نکل رہا تھا۔۔
ڈیڈ میں آپکی ہر بات مانوں گی۔۔ پر یقین کریں۔۔۔ مم۔۔ میں نن۔۔ نے کچھ غلط نہیں کیا۔۔وہ تڑپ کر مسٹر ولیم کی طرف بڑھی۔۔
چٹاخ۔۔ ایک اور تپھڑ مسٹر ولیم نے ایش کے دوسرے نازک گال پر مارا تھا۔۔
بس کریں انکل۔۔ ماٸیک آگے بڑھا۔۔ جو بھی تھا وہ ایش کو چاہتا تھا۔۔ اپنے سامنے وہ اسے اسطرح مار کھاتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔
تم میرا غرور تھی ایش۔۔ اور آج تم نے میرا غرور توڑ دیا۔۔
آج سے تمہارا ہم سے ہر رشتہ ہر تعلق ختم۔۔۔ ایش ولیم مر چکی ہے۔۔ایک ایکسیڈنٹ میں وہ مر گٸ۔۔ ماٸیک یہ خبر سارے نیوز پیپرز اور نیوز چینلز میں دے دو۔۔
کتنا کٹور باپ تھا وہ۔۔ جس بیٹی کو شہزادیوں کی طرح پالا تھا آج اسی بیٹی کو زندہ ہونے کے باوجود مردہ قرار دے رہا تھا۔۔
تمہارے لیۓ اس گھر میں آج سے کوٸ جگہ نہیں۔۔ دفع ہو جاٶ یہاں سے اور کبھی مڑ کر نہیں دیکھنا۔۔۔
پاپا پلیز۔۔ ایش نے جاتے ہوۓ مسٹر ولیم کے پاٶں پکڑ لیۓ۔۔ اور پاپا کی پکار پر مسٹر ولیم کے دل میں ایک درد سا اٹھا تھا۔۔
میں آپ لوگوں سے دور نہیں رہ سکتی۔۔ میں آپ لوگوں سے بہت پیار کرتی ہوں۔۔۔ پلیز مجھے خود سے الگ مت کریں۔۔ آپ لوگ جو کہیں گے میں کروں گی۔۔بس مجھے مسلمان رہنے دیں۔۔
دور رہو ہم سے۔۔ مسٹر ولیم نے حقارت سے اسکا ہاتھوں سے اپنے پاٶں چھڑواۓ۔۔ جیسے کسی ناپاک چیز نے انہیں چھو لیا ہو۔۔
حالانکہ وہ انکی اپنی بیٹی تھی۔۔ وہ بیٹی جس سے انہوں نے دنیا میں سب سے زیادہ پیار کیا تھا۔۔
تم نے سنا نہیں تم مر چکی ہو۔۔ ایش ولیم مر چکی ہے۔۔ مسٹر ولیم نے انتہائی نفرت سے کہا اور روم سے باہر نکل گۓ۔۔
مما۔۔ آپ تو میرا یقین کریں۔۔ وہ مسز ولیم کی طرف بڑھی۔۔ لیکن شاید انہیں بھی ایش سے نفرت ہو گٸ تھی۔۔ انہوں نے بھی اپنا فرض پورا کرتے ہوۓ اسکے نازک گال پر اپنی انگلیوں کے نشان چھوڑ دیے۔۔
سنا نہیں تم نے۔۔ مر چکی ہو تم ہمارے لیۓ۔۔ دفع ہو جاٶ یہاں سے۔۔ آٸندہ اپنی منحوس شکل مت دکھانا۔۔ وہ اسے درو پھینکتی باہر نکل گٸیں۔۔
ماٸیک کا دل پٹھنے کو تھا۔۔ جس لڑکی سے وہ انتہا کی محبت کرتا تھا آج اس نے کتنا بڑا زخم دیا تھا۔۔ وہ نا اس سے نفرت کر پا رہا تھا اور نا ہی اسے آگے بڑھ کر تھام سکتا تھا۔۔ جتنا بڑا وہ گناہ کر کے آٸ تھی۔۔ اسکی معافی نہیں تھی۔
ایش سسکیوں سے رودی تھی۔۔ کتنا درد ہوتا ہے نا جب آپکے اپنے آپ سے اپنا دامن چھڑا لیں۔۔ زمین پر پھر کہیں جگہ نہیں ملتی۔۔
ایش۔۔ گرینی نے اسے پہی مرتبہ پکارہ۔۔
گرینی۔۔ وہ تڑپ کر انکی طرف بڑھی۔۔
گرینی آپ تو جانتی ہیں نا ایش کبھی کچھ غلط نہیں کرتی۔۔ آپکو تو اپنی ایش پر بھروسہ کرنا چاہیۓ۔۔
ایش پر تو بھروسہ ہے۔۔ لیکن نورالایش پر نہیں۔۔۔
اب تم بتاٶ تم کون ہو۔۔ ایش ولیم یا نورالایش۔۔؟؟ گرینی نے عجیب سے لہجے میں پوچھا۔
اور ایش نے گرینی کے گھٹنوں پر رکھے ہاتھوں کو اٹھایا۔۔ ایک دم اسکے آنسوں تھمے۔۔
میں نورالایش ہوں گرینی۔۔
تو پھر جو ولیم کا فیصلہ ہے وہی ہم سب کا۔۔ گرینی نے مشکل سے اپنے آنسو ضبط کیۓ۔۔ آواز تو انکی بھرا گٸ تھی۔۔
مجھے معاف بھی تو کیا جا سکتا ہے نا۔۔
اگر تم ماٸیک سے شادی کرلو تو۔۔ گرینی نے کہنا چاہا۔۔
سوری گرینی۔۔ میں ماٸیک سے شادی نہیں کر سکتی۔۔
پر کیوں۔۔ سوال ماٸیک کی طرف سے آیا تھا۔۔
کیونکہ ہمارے مزہب میں ایک مسلمان لڑکی کی شادی ایک غیر مسلم لڑکے سے نہیں ہو سکتی۔۔ اس بات کی اجازت نہیں ہے۔۔ ایش نے اپنے آنسوں صاف کرتے ہوۓ ہموار لہجے میں کہا۔۔
چھم سے ماٸیک کے اندر کچھ ٹوٹ گیا۔۔ وہ واقعی اسکی ایش نہیں رہی تھی۔۔ وہ کوٸ اور ہی تھی۔۔
جبکہ گرینی خاموش رہیں۔۔ کس بنا پر ایش نے اتنی مار کھا لی تھی۔۔ کیوں ثابت قدم تھی وہ اب تک۔۔ گرینی نے سوچا تھا۔۔
ٹھیک ہے۔۔ میں جا رہی ہوں۔۔ میں نے پاپا کے پاٶں اس لیۓ پکڑے کہ ہمارے مزہب میں ماں باپ کا احترام بہت لازمی ہے۔ انکی ہر بات کو سر آنکھوں پر رکھا جاتا ہے۔۔ ہر حکم مانا جاتا ہے۔۔سواۓ اس حکم کے جو اللہﷻ اور اسکے رسولﷺ کے حکم کے خلاف ہو۔۔
پر شاید میں واقعی آپ سب کیلیۓ مر گٸ ہوں۔۔
جانے دو اسے چار دن باہر رہے گی نا تو اسکی عقل ٹھکانے آ جاۓ گی۔۔ باہر سے اسے مسٹر ولیم کی دھاڑنے کی آواز سناٸ دے رہی تھی۔۔
میں بھی دیکھتا ہوں وہ ایش ولیم کے بجاۓ نورالایش بن کر کیسے جیتی ہے۔۔ شہزادیوں والی زندگی چھوڑ کر وہ عام انسان کی زندگی کیسے جیتی ہے۔۔ چار۔۔ چار دن بعد ہی مسلم ہونے کا بھوت اسکے سر سے اتر جاۓ گا۔۔ مسٹر ولیم کے لہجے میں انتہا کی نفرت تھی۔۔
پاپا کو بتادیجیۓ گا میں انکے گھر سے کچھ نہیں لے کر جا رہی۔۔۔ میں عام زندگی جینے جا رہی ہوں۔۔ یہ میرا فیصلہ ہے۔۔ وہ گرینی سے کہتے دروازے کی طرف بڑھی۔۔
ایش مت جاٶ۔۔ چھوڑ دو ضد۔۔ گرینی نے اسے پکارہ۔۔
ضد نہیں ہے یہ گرینی۔۔۔ ضد تو پاپا لگا رہے ہیں۔۔
ایش تم پاگل ہو گٸ ہو۔۔ ایک لڑکے کی خاطر۔۔ ماٸیک آگے بڑھا
میرا آپ سے کوٸ تعلق نہیں ہے ماٸیک۔۔ یہ سچ ہے کبھی ہم بہت اچھے دوست تھے۔۔ مگر میں اپنا فیصلہ نہیں بدلنے والی۔۔ ایش کے لہجے میں چٹانوں کی سی سختی تھی۔۔
میں نے بس خود سے بدنصیبی کی کالک کو دھویا ہے۔۔ وہی سیاہی وہی کالک جو مجھے اب آپ لوگوں پر لپٹی نظر آرہی ہے۔۔ اس نے ماٸیک سے کہا۔۔
ہو سکے تو مجھے معاف کردینا۔۔ میں نے آپکا دل توڑا ہے۔۔ پر سوری میں آپ سے شادی نہیں کر سکتی۔۔
وہ ٹھوس لہجے میں کہتی باہر نکل گٸ۔۔
دیکھ لینا تم وہ اسی بد زات کے پاس جاۓ گی۔۔ شرم آرہی ہے مجھے یہ سوچ سوچ کر۔۔ مسٹر ولیم ابھی بھی غصے میں تھے۔۔ اور ایش اپنی نم ہوتی آنکھوں کے ساتھ پیلس سے باہر نکل گٸ۔۔
وہ پیلس چھوڑ گٸ تھی۔۔ ہمیشہ ہمیشہ کیلیۓ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سچائی راستہ ہی ایسا ہے جس پر آپکو اکیلۓ چلنا پڑتا ہے۔۔ حق پر چلنے اور اسکو ماننے والے بہت کم لوگ ہیں۔۔ اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب ماں باپ بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔۔ صرف ایک انسان ہوتا ہے اور اسکا خدا۔۔
ایش خود نہیں جانتی تھی وہ کہاں جاۓ گی۔۔ اسے بہت دکھ ہوا تھا۔ وہ جانتی تھی اسے اب پیلس میں کوٸ قبول نہیں کرے گا۔۔ لیکن اسکا ڈیڈ اسکے ساتھ ایسا سلوک کرے گا وہ یہ نہیں جانتی تھی۔۔ دل الگ رو رہا تھا اور آنکھیں الگ۔۔
وہ ایک پارک میں آگٸ تھی۔۔ معصوم بچے وہاں کھیل رہے تھے۔ اور وہ انہیں دیکھتی رہی۔۔ اسے اپنابچپن یاد آ رہا تھا۔ جب وہ مسز اور مسٹر ولیم ایسے ہی آٶٹنگ پر جاتے تھے۔
کہاں جاٶں میں۔۔؟؟ ٹھکانے بہت سے تھے مگر سب اسے ایش ولیم کے حوالے سے جانتے تھے۔۔ اب وہ نورالایش تھی۔۔ ایک نٸ پہچان تھی اسکی۔۔ اور اس پہچان کے ساتھ اسے اسکا کوٸ فرینڈ یا فیملی میمبر قبول نہیں کرتا۔۔۔
جب ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو ستر دروازے اللہ پاک کھول دیتا ہے۔۔ اسے امید تھی کہ وہ اسکی مدد ضرور کرے گا۔۔
کیونکہ اسکے رستے پر چلنے والوں کا وہ رستہ خود آسان بنا دیتا ہے۔
اور اسکی مدد کیلیۓ بھی اللہ پاک نے #عاٸشہ_احمد کو بھیجا تھا جو کب سے ایش کو دیکھ رہی تھی۔۔ اسکا سوجا ہونٹ جس سے خون نکل کر خشک ہو چکا تھا۔۔ کسی درد کی داستان کا پتا دے رہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا کیسے ہو سکتا ہے آنی۔۔اس عام سی لڑکی کو زی کے برابر رکھا ہے۔۔
آج کے رزلٹ میں وہ مجھ سے کم نہیں بلکہ میرے برابر رہی ہے۔۔ اسے ٹین پواٸنٹس دیے ہیں۔۔ اور ٹین ہی مجھے۔۔
کتنا برا مزاق ہے نا۔۔ ایسے ہو سکتا ہے کہ ایک عام سی لڑکی کو زی کے برابر رکھا جاۓ۔۔
زی کو انتہا کا غصہ آیا ہوا تھا۔۔ پروفيسرز اور سٹوڈنٹس کی ووٹنگ کے بعد زی اور حرم کو ایکول پواٸنٹس ملے تھے۔۔ اور وہی زی سے برداشت نہیں ہو رہے تھے۔۔
میں اسے چھوڑوں گی نہیں۔۔ اسکی اتنی اوقات نہیں کہ وہ زی کا مقابلہ کرے۔۔
ریلیکس ہو جاٶ زی۔۔ ہوتا رہتا ہے۔آنی نے اسے سمجھایا۔۔
نیور۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔ ریم کہاں ہے۔۔ مجھے اس سے بات کرنی ہے۔۔
وہ گھر نہیں آیا۔۔ آنی نے بتایا۔
کیا مطلب گھر نہیں آیا۔ وہ ہاسٹل میں بھی نہیں تھا۔ زی حیران ہوٸ۔۔
کہاں جا سکتا ہے۔۔ میں اسے دیکھتی ہوں۔۔ زی کہتے ہوۓ گھر سے نکل گٸ۔۔
❤❤❤❤
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─