┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 37
پارٹ 1

ہیلو۔۔ کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں۔۔؟؟ ایش اپنے ہی خیالوں میں کھوٸ تھی۔۔ آواز پر اس نے چونک کر دیکھا۔۔ ایک لڑکی نرم مسکراہٹ سے اسکی طرف دیکھ رہی تھی۔۔ وہ ایش کے جواب کی منتظر تھی۔

جی بیٹھ جاٸیں۔۔ 

شکریہ۔۔ آپکا نام کیا ہے۔۔؟؟؟

ایش ولیم۔۔ وہ کہنے والی تھی۔لیکن پھر کچھ یاد آنے پر خاموش ہوگٸ۔۔

نورالایش۔۔۔ وہ مسکراٸ۔۔

واٶٶٶ ناٸس نیم۔۔۔ کیا کرتی ہیں آپ۔۔؟؟ وہ ایش سے بات کرنا چاہ رہی تھی۔۔ ایش نے پہلی بار حاضر دماغی سے اسکے حلیے پر نظر ڈالی۔۔

وہ سیاہ عبایہ میں تھی۔۔ سر پر خوبصورتی سے کیا ہوا حجاب اسکے چہرے کو نرم سا تاثر دے رہا تھا۔۔ 27 یا 28 سال اسکی عمر ہوگی۔

ابھی تو کچھ نہیں کرتی۔۔ تبھی تو یہاں بیٹھی ہوں۔۔ ایش نے جواب دیا۔۔

میرا نام عاٸشہ احمد ہے۔۔ میں یہاں پاس میں ہی رہتی ہوں۔۔میں میرڈ ہوں اور وہ پیاری سی بچی میری بیٹی ہے۔۔ عاٸشہ نے سامنے کھیلتی چھ سالہ بچی کی طرف اشارہ کیا۔۔

ایش کچھ کہنے والی تھی اچانک عاٸشہ کے موبائل پر رنگ ہوٸ اور وہ ایکسیوز کرتی اٹھ گٸ۔۔۔

ایش ایک بار پھر سے سوچوں کی دنیا میں کھو گٸ۔

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کے تقریباً تین بجے کا وقت تھا جب حرم کی آنکھ کھلی۔۔ وجہ موبائل پر بجتی بیل تھی۔۔ موبائل کب سے بج رہا تھا۔۔ 

حرم نے نمبر چیک کیا۔۔ حورعین کی کال تھی۔۔ 

حورعین کی کال اس وقت۔۔ حرم کے چہرے پر پریشانی کی لکیریں ابھریں۔۔ 

اللہ خیر کرے۔۔

ہیلو ۔۔ اسلام علیکم۔۔۔حرم نے کال ریسیو کی۔

وعلیکم اسلام۔۔ ہیلو حرم مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔ تم اٹھ گٸ ہو نا۔۔

اتنی رات کو کیا بات کرنی ہے۔۔؟ 

اتنی رات کہاں۔۔ چھ بج رہے ہیں صبح کے۔۔

میڈم روما میں ابھی تین بجے کا وقت ہے۔۔

اووو ہاں۔۔ میں بھول گٸ تھی۔

اچھا سنو آج میری یونيورسٹی میں ویلکم پارٹی ہے۔۔ تو بتاٶ میں کیا ڈریسنگ کروں۔۔ 

جو دل کرے وہ کرلو۔۔ لیکن اچھی سی کرنا۔۔ حرم نے مسکرا کر جواب دیا۔

تم بتاٶ نا تم اپنی یونيورسٹی میں کیسی ڈریسنگ کرتی ہو۔۔ میں بھی ویسی ہی کرونگی۔۔سب سے الگ دکھنا چاہتی ہوں۔

میں تو ویسے ہی کرتی ہوں جیسے پاکستان میں کرتی تھی۔۔

کیا تم روما کی یونيورسٹی میں حجاب لے کر گھومتی ہو۔۔؟؟ حورعین کو شاک لگا۔

جی بالکل۔۔ ملک بدلا ہے تہزیب تو مزہب تو نہیں نا بدلا۔۔ حرم نے جواب دیا۔

اففف توبہ حرم اب تو خود کو چینج کرلو۔۔ تمہیں اماں اور بہن جی بنے رہنے کا کچھ زیادہ ہی شوق ہے۔۔ بےچارے ہادی بھاٸ اتنے ڈیسنٹ بندے کو تم جیسی واٸف ملی ہے۔۔ کیا سوچتے ہونگے وہ بھی۔۔ 

حورعین کی بات سن کر ایک لمحے کیلیۓ حرم کا رنگ فق ہوا۔۔ حورعین یونيورسٹی جانے کے بعد کچھ زیادہ ہی بدل گٸ تھی۔۔

وہ کیا سوچتے ہیں مجھے نہیں پتا لیکن میں ایسی ہی ہوں۔۔ اور ایسی ہی رہوں گی۔۔ حرم نے سخت لہجے میں کہا۔

تو اسکا مطلب تم سے امید لگانا فضول ہے۔۔چلو میں خود ہی کوشش کرتی ہوں۔۔

اچھا سنو حورعین۔۔ زیادہ اوور مت تیار ہونا۔۔ حجاب کر لینا پلیز۔۔

افف یار حرم صبح صبح میں لیکچر سننے کے موڈ میں ہرگز نہیں ہوں۔۔ رات کو بات ہوگی باۓ۔۔ 

حرم کے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ کال ڈسکنیکٹ کر چکی تھی۔جبکہ حرم ایک ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گٸ تھی۔۔

اب اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔۔حرم نے موبائل چیک کیا تو عرش کے کافی میسجز آۓ ہوۓ تھے۔۔ اس نے نیٹ آن کیا۔ عرش نے اسے ایک ویڈیو سینڈ کی تھی۔۔ 

اور جیسے ہی حرم نے ویڈیو دیکھنا شروع کی اسکا منہ حیرت اور خوف کا باعث کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔

غور سے دیکھنے پر اس نے ویڈیو میں موجود شخص کو پہچان لیا تھا۔۔ وہ ماٸیکل تھا۔۔ حرم ایک دم اچھلی۔۔

لیکن وہ کہاں تھا۔۔؟؟ جہاں بھی تھا بہت بری حالت میں تھا۔۔

اسکے منہ پر کپڑا بندھا تھا۔ اسے کسی بیلٹ سے باندھا گیا تھا اور شاید وہ ہاسٹل کی ہی بلڈنگ تھی جہاں سے اسے نیچے لٹکایا گیا تھا۔۔

وہ ہل رہا تھا۔۔ اسکے ہاتھ بندھے تھے۔۔ لیکن وہ ٹانگوں کو زور زور سے جھٹک رہا تھا۔۔ 
اسکے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ تکليف میں ہے۔۔

یہ یہاں کیسے۔۔؟؟ کس نے باندھا اسکو۔۔؟؟ حرم نے سوچ رہی تھی۔

تبھی اسے عرش کی ویڈیو کال آٸ وہ شاید حرم کو آن لاٸن دیکھ چکی تھی۔۔

ہیلو عرش یہ سب کیا ہے۔۔ یہ ماٸیکل کو کیا ہوا ہے کس نے کیا ہے۔۔

رون ڈی ڈون کے علاوہ اور کون کر سکتا ہے۔۔ ویسے یار یہ ویڈیو دیکھ کر ہمارا تو ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا ہے۔۔

تمہیں ہنسی آ رہی ہے۔۔ بیچارے کی حالت دیکھو۔۔ 

ابھی تمہیں پوری بات کا نہیں پتا۔۔ 

کیا مطلب۔۔؟؟ کیا نہیں پتا مجھے۔۔؟؟ 

رات کو پارٹی میں رون نے ماٸیکل کے ڈرنک میں کچھ ملا دیا تھا جس سے اسکا پیٹ خراب ہو گیا۔۔ ہاہاہاہا۔۔ عرش نے قہقہہ لگایا۔۔ اور حرم کو اب سمجھ آیا تھا کہ ماٸیکل رات کو پیٹ پر ہاتھ رکھنے کے بعد ہال سے کیوں چلا گیا تھا۔

ہنسو مت آگے بتاٶ۔۔

افف یار حرم تم نے سین مس کردیا۔ 

آگے بتاٶ عرش۔۔حرم نے اسے گھورا۔

پھر رون نے ماٸیکل کو پکڑ لیا اور اس سے کشتی کرنے کے بعد اسکو باندھا اور ہاسٹل کی پچھلی بلڈنگ سے نیچے اسکو لٹکا دیا۔۔ 

بیچارہ ماٸیکل پیٹ کے درد کے ساتھ لٹکا رہا۔۔ اسکی حالت پتلی ہوگٸ۔۔ 

ہنسی تو حرم کو بھی آٸ تھی۔۔ لیکن وہ ضبط کر گٸ۔۔

میں نے کہا تھا کہ رون کچھ گڑبڑ کرنے والا ہے۔۔حرم نے یاد دلایا۔

کسی کو بھی پتا نہیں چلا کہ ماٸیکل کہاں غاٸب ہوا ہے۔۔

وہ تو اب کچھ دیر پہلے رون اسکے پاس گیا اسکی ویڈیو بناٸ پھر اسکی جی ایف ایملی اور اسکے فرینڈز کو سینڈ کی۔۔وہ بھاگے بھاگے آۓ۔۔ اور ماٸیکل کی حالت دیکھ کر بیچارے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گۓ۔۔ 

اور ایملی۔۔ ؟؟ حرم نے پوچھا۔

وہ اسکے خراب کپڑوں کو دیکھنے کے بعد الٹیاں کرتی واپس بھاگ گٸ۔۔ 

اہاہاہاہاہااہاہا۔۔ عرش اور حرم کا ایک ساتھ قہقہہ بلند ہوا۔

ماٸیکل کے فرینڈز نے بامشکل اسے اتارہ اور ماٸیکل سر پر پاٶں رکھتا گرتا پڑتا بھاگا۔۔
آٸندہ وہ رون سے پنگا نہیں لے گا۔۔

اللہ معاف کرے رون انسان ہے یا شیطان۔۔؟؟ حرم نے ہنستے ہوۓ پوچھا۔

شیطان کا بھی باپ ہے۔۔ اب تم خود سوچ لو اگر کمپیٹیشن ہاری تو رون تمہارے ساتھ کیا کرے گا۔۔؟؟ عرش نے کہا۔

اففف توبہ۔۔ اللہ معاف کرے۔۔ ایسی باتیں مت کرو میرا دل بیٹھا جارہا ہے سوچ سوچ کر۔مجھے تو وہ اپنی کولڈ ڈرنک میں ڈال کر مکس کر کے پی جاۓ گا۔۔ حرم نے روہانسی ہوتے ہوۓ کہا۔

 سہی کہا تم نے۔۔ اس لیا کسی بھی قیمت پر تمہیں یہ کمپیٹیشن جیتنا ہے۔۔آٸ سمجھ۔۔؟؟ 

آگٸ ہے۔۔۔ 

اچھا اب میں سوجاٶں۔۔ ساری رات سے ہم ہاسٹل والے جاگ رہے ہیں۔۔ تم تو بنا بتاۓ بھاگ گٸ تھی۔۔

ٹھیک ہے سوجاٶ گڈ ناٸیٹ۔۔حرم نے کہتے ہوۓ کال ڈسکنیکٹ کی۔

اب اسے ٹینشن ہو رہی تھی۔۔ وہ زی سے جیت نہیں سکتی تھی لیکن اگر وہ ہار گٸ تو اسکی خیر نہیں۔۔ 

کیا کروں میں۔۔ افف اللہ میری مدد کریں۔۔حرم نے صدق دل سے اللہ کو پکارہ۔

تبھی اسکی نظر ان باکس میں موجود داستان محبت والے میسج پر پڑی۔۔

پوٸٹری اچھی تھی۔۔ اس نے پہلے بھی پڑھی تھی۔۔ ان الفاظ سے وہ بیجھنے والے کے جزبات کی شدت کا اندازہ کر سکتی تھی۔۔ لیکن پوٸٹری پڑھنے کے بعد اسے مزید غصہ آیا۔۔  

اب یہ کون ہے۔۔۔؟؟ اففف۔۔ توبہ یہ روم ہے یا میسٹریس ورلڈ۔۔ حد ہوگٸ۔۔ کبھی ایش تو کبھی داستان محبت۔۔۔

حرم نے سر پکڑ لیا۔۔ لیکن سوچنے سے کچھ نہیں ہونے والا تھا۔۔وہ وضو کرنے کیلیۓ اٹھ کھڑی ہوٸ۔۔ شاید دعاٶں سے ہی وہ جیت جاۓ۔۔

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گہرے کالے بادل تو صبح سے ہی چھاۓ تھے۔۔ اچانک تیز ہوا چلی اور اسکے ساتھ بارش نے روما کو بھیگانا شروع کردیا۔۔ 

پارک ایک دم سے ہی خالی ہونے لگا۔۔ بچے اور عورتیں نے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی۔۔ 

ایک ایش ہی وہاں بیٹھی تھی۔۔ اسکے پاس کوٸ گھر نہیں تھا۔۔ وہ کہاں جاتی۔۔

گل بیٹا چلو گھر۔۔ دیکھو موسم کتنا خراب ہے۔۔ بارش شروع ہو چکی ہے ہم بھیگ جاٸیں۔۔ عاٸشہ نے اپنی بیٹی کو پکارہ۔

وہ اسے لے کر پارک سے نکلنے والی تھی کہ اچانک اسکی نظر دوبارہ ایش پر پڑی۔۔ جو اسی بینچ پر بیٹھی تھی۔۔ ٹھنڈی ہواٸیں ہڈیوں کے اندر سے گزر رہی تھیں۔۔ 

نورالایش۔۔۔ آپ نے گھر نہیں جانا۔۔؟؟ عاٸشہ نے اسکے پاس جا کر پوچھا۔

ایش نے چونک کر اسے دیکھا۔۔

میرا کوٸ گھر نہیں ہے۔۔ وہ بس اتنا ہی کہہ پاٸ۔۔

اسکی بات سن کر عاٸشہ کو دکھ ہوا۔۔

پلیز اٹھیں یہاں سے۔۔ چلیں میرے ساتھ۔۔ بارش ابھی بہت تیز ہو جاۓ گی۔۔ بھیگ گٸ تو بیمار ہو جاٶ گی۔۔ عاٸشہ نے اساک بازو پکڑتے ہوۓ اسے اٹھایا۔۔

آپکے ساتھ۔ لیکن کیوں۔۔ اور کہاں۔۔؟؟ ایش نے مزاحمت کی۔

ہم گھر جارہے ہیں۔۔میرے گھر۔۔پلیز ابھی کوٸ سوال مت کرو اور جلدی جلدی چلو۔۔ 

عاٸشہ نے ایک چھاتہ اسے پکڑایا۔۔ وہ کافی بھیگ گٸ تھی۔۔

ایش نے چپ چاپ اسکے ساتھ چلنا شروع کردیا۔۔ کیونکہ ابھی اسے کوٸ اور راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔۔

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

     ”جا جا کر راہنما مانگ۔۔ اسے ڈھونڈ۔۔ وہ تجھے اس راستے پر لے جاۓ گا۔۔ جس پر تیرا ہمسفر کھڑا ہے۔۔ “

وہ آگٸ ہے۔۔ وہ آگٸ ہے۔۔ 

کمرہ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔ بیڈ پر پڑا وہ وجود سردی کے باعث پیسینے میں بھیگا ہوا تھا۔۔ 

آج کے راٶنڈ میں حرم نور اور زی شاہ ایکول ہیں۔۔ دونوں کے پواٸنٹس ایکول ہیں۔۔ 

منظر تبدیل ہو رہے تھے۔۔ آوازیں گڈ مڈ ہو رہی تھیں۔۔

اسکی اتنی اوقات نہیں کہ وہ زی کا مقابلہ کر سکے۔

مجھے راہنما چاہیے۔۔؟؟ کہاں ملے گا۔۔؟؟ اچانک ایک منظر ٹہر جاتا ہے۔۔ 

سامنے ایک شخص کھڑا ہوتا ہے۔۔ لانگ اوور کوٹ پہنے۔۔ بلیک بڑا سا ہیٹ سر پر رکھے جس سے اسکا چہرہ چھپا ہوتا ہے۔۔

وہ۔۔۔۔ وہ ایک طرف انگلی سے اشارہ کرتا۔۔

اور وہ اس طرف چلنا شروع کر دیتی ہے۔۔

وہاں جو بھی ملے اسکا ہاتھ تھام لینا۔۔۔ وہ تجھے راہنما تک پہنچا دے گا۔۔

پیچھے سے آواز آٸ تھی۔۔ وہ پیچھے مڑ کر دیکھتی ہے لیکن وہاں کوٸ بھی نہیں ہوتا۔۔

وہ چلتی جاتی ہے۔۔لوگوں کی بھیڑ لگی ہوتی ہے۔۔ 

زی۔۔ ہے زی۔۔ کم ہیٸر۔۔ ہر طرف سے آوازیں آ رہی ہوتی ہیں۔۔لوگ اسے پکار رہے ہوتے ہیں۔۔

زی۔۔ کہاں جا رہی ہو بیٹا۔۔ اچانک آنی اسکے سامنے آتی ہے۔۔

وہ مم۔۔ میں اس طرف۔۔ 

اس طرف مت جاٶ زی۔ وہ تمہار رستہ نہیں ہے۔۔ 

نہیں مجھے وہاں جانا ہے۔۔ 

مت جاٶ ادھر۔۔ آنی غصے سے دھاڑتی ہے۔۔ 

وہ چلتی جاتی ہے۔۔ پیچھے سے آنی اسے ڈانٹ رہی ہوتی ہے۔۔

اور پھر وہ کھڑی ہوتی۔۔ ہاں وہی۔۔ 
کون ہو تم۔۔۔؟

اور وہ پیچھے مڑ کر اسے دیکھتی ہے۔۔ خوبصورت مسکراتا چہرہ۔۔ 

آٶ زی۔۔ آ جاٶ۔۔ وہ اسے بلا رہی ہوتی ہے۔۔

نن۔۔ نہیں۔۔ زی ایک قدم پیچھے ہٹتی ہے۔۔

تم۔۔۔ یہاں۔۔ 

حرم نور۔۔ وہ چلاتی ہے۔۔ اور اپنی چینخ کے ساتھ ہی اسکی آنکھ کھل جاتی ہے۔۔ زی ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ جاتی ہے۔۔۔ خوبصورت پیشانی پر ننھے ننھے پسینے کے قطرے ابھرے تھے۔۔

پچھلے چار ماہ سے۔۔ جب سے حرم آٸ تھی وہ ایک ہی خواب دیکھ رہی تھی۔۔ آج اسے وہ ہیٹ والا شخص بھی نظر آیا جو اسے ریسٹورینٹ میں ملا تھا۔۔

ہر روز اسکے اس خواب میں اضافہ ہو رہا تھا۔۔۔ آج حرم نے اسے بلایا تھا۔۔ 

یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔ کیوں وہ لڑکی مجھے روز نظر آتی ہے۔۔ زی اپنے بستر سے نیچے اترتی ہے۔ 

وہ شخص مجھے اسکے پاس بیجھتا ہے جبکہ آنی مجھے اس طرف جانے سے منع کرتی ہے۔۔ 

آخر کیا رشتہ ہے حرم نور کا مجھ سے۔۔؟؟ وہ جتنا سوچ رہی تھی اسکا زہن اتنا ہی الجھ رہا تھا۔۔

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح حرم یونيورسٹی جانے کیلیۓ تیار ہو رہی تھی جب اچانک دروازے پر بیل ہوٸ۔ فرہاد اپنے کمرے میں تھا۔ وہ نیچے تھی۔۔ کچھ سوچتے ہوۓ وہ دروازے کی طرف بڑھی۔۔ اسے کھولا لیکن باہر کوٸ نہیں تھا۔۔ 

تبھی اسکی نظر دروزے میں پڑے کارڈ اور فلاورز پر پڑی۔۔ وہ جانتی تھی یہ کس نے بیجھے ہونگے۔۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اسکا نام کیا ہے۔۔

”کمپیٹیشن کا پہلا راٶنڈ جیتنے پر مبارک ہو ایش۔۔۔ ہمیشہ کی طرح تم ہی ونر ہوگی۔ دیکھ لینا۔۔ ویسے کارڈ پڑھنے کے بعد اتنا غصہ مت کیا کرو۔۔ ایک پیاری سی سماٸل دیا کرو۔۔وہ سماٸل جس سے تمہارے چہرے کی رونق بڑھ جاتی ہے۔۔“

حرم ایک دم گڑبڑا گٸ تھی۔۔ اسکو کیسے پتا کہ چلا کارڈ پڑھنے کے بعد مجھے غصے آتا ہے۔۔

کچھ سوچتے ہوۓ وہ اندر گٸ۔۔ ایک پین اٹھایا۔۔ 

اور کارڈ پر کچھ لکھنے کے بعد وہ کارڈ کو باہر ایک طرف رکھ آٸ تھی۔۔ جانتی تھی جو بھی بھیجتا ہے وہ اس کارڈ کو اٹھا کر ضرور دیکھے گا۔۔

آپا ناشتہ بن گیا۔۔ حرم نے پھولوں کو ایک گلدان میں لگاتے ہوۓ پوچھا۔۔

جی بیٹا بن گیا ہے۔۔ فرہاد کبھی بلا لو۔۔ 

میں ریڈی ہوں آپا۔۔ وہ مصروف سا سیڑھیاں اتر رہا تھا۔۔۔ نظریں ہاتھ میں پکڑی فاٸل ہر جمی تھیں۔۔

اور حرم کی نظریں فرہاد کا جاٸزہ لے رہی تھیں۔۔ وہ ہمیشہ کی طرح کی شاندار لگ رہا تھا۔جانے کیوں وہ اسے دیکھے گٸ۔۔ فرہاد کو نظروں کی تپش کا احساس ہوا تھا شاید تبھی اس نے حرم کی طرف دیکھا وہ اسی کو دیکھ رہی تھی۔۔ فرہاد کے دیکھنے پر گڑبڑا کر چہرہ دوسری جانب کرلیا۔۔

ایک خوبصورت سی مسکراہٹ فرہاد کے لبوں کو چھو گٸ۔۔ اسے حرم کی یہ حرکت بہت پسند آٸ تھی۔

اچانک حرم کے موبائل پر واٸبریشن ہوٸ تھی۔۔ اس نے موبائل اٹھایا کر دیکھا تو ان ناٶن نمبر سے میسج تھا۔۔

  ”رابطے میں اضافہ کیجیۓ صاحب۔۔
یادوں سے اب گزارا نہیں ہوتا۔۔“

   A beautiful morning for a beautiful Angle..
#داستان_محبت 

میسج پڑھنے کے بعد حرم کا دماغ گھوم گیا۔۔ اسکا دل کر رہا تھا کہ ابھی اس شخص کو کال کرے اور اردو میں جتنی بھی گالیاں اسے آتی ہیں سب سنادیں۔۔ 

حرم آ جاٶ۔۔ ناشتہ لگ چکا ہے۔۔ فرہاد نے اسے موبائل پکڑے دیکھا تو کہا۔ 

اس دنیا میں حرم نور کے ہاتھوں دو مڈر ہونگے۔۔ایک کارڈ بیجھنے والے کا۔۔ اور دوسرا اس محبت کی داستان کا۔۔ زرا میرے ہاتھ لگ جاٸیں دونوں۔۔ 

حرم بڑبڑاتی ناشتے کی میز کی طرف بڑھ گٸ۔۔

ان دونوں کے جانے کے بعد واقعی وہ شخص وہی کہیں چھپا کھڑا تھا۔۔ 

ج اسے یقین ہوگیا کہ فرہاد کی گاڑی کافی آگے جاچکی ہے تو وہ اس کارڈ کی طرف بڑھا۔۔
کارڈ کھول کر پڑھا تو اس پر لکھا تھا۔۔ 
       بزدل انسان 

اور ساتھ ہی غصے والی اموجی بنی تھی۔۔۔ 

بزدل انسان پڑھ کر اسکا زبرست قہقہہ بلند ہوا تھا۔۔ اسکا چہرہ ہڈھ سے چھپا ہوا تھا۔۔ پھر وہ مسکراتا جس طرف سے آیا تھا اسی طرف بڑھ گیا۔۔

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        یہ لو یہ کپڑے پہن لو۔۔ تمہارے سارے کپڑے بھیگ چکے ہیں۔۔ ٹھنڈ لگ جاۓ گی۔۔ عاٸشہ نے کچھ کپڑے ایش کے سامنے لا کر رکھے۔۔ایش نے اسے دیکھا۔۔ شفیق سی مسکراہٹ اسکے چہرے پر پھیلی تھی۔۔ اور پھر کپڑوں کو۔۔ 

کیا دیکھ رہی ہو نورالایش۔۔ یہ بالکل نۓ ہیں۔۔میری چھوٹی سسٹر کچھ دنوں بعد آنے والی ہے۔۔ تو یہ میں اسکے لیۓ لاٸی تھی۔۔ لیکن ان پر تمہارا نام لکھا ہے شاید۔۔

شکریہ۔۔ ایش بس اتنا ہی کہہ پاٸ۔۔ 

شکریہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ پہلے چینج لرلو۔ پھر باتیں کرتے ہیں۔۔ وہ اسے ایک کمرے میں لے آٸ تھی۔۔

اور ایش کپڑے اٹھاتے ہوۓ باتھ روم کی طرف بڑھ گٸ۔

جب وہ باہر آٸ تو عاٸشہ اسی کے انتظار میں وہیں پر کھڑی تھی۔۔

چلو آجاٶ اب کھانا کھاتے ہیں۔۔ وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر نیچے لے گٸ۔

بیٹھ جاٶ۔۔ عاٸشہ نے اسے ایک کرسی پر بٹھایا۔

پریشان مت ہو۔۔ یہاں کوٸ بھی نہیں ہے۔۔ میرے ہزبنڈ کام کے سلسلے میں زیادہ تر ملک سے باہر ہوتے ہیں۔ تم یہاں پر آرام سے رہ سکتی ہو۔۔ اور ایش کو عاٸشہ احمد کوٸ فرشتہ لگ رہی تھی۔

جی۔۔ایش نے بس اتنا ہی کہا۔

کھانا کھا لو پھر باتیں کرتے ہیں۔۔ عاٸشہ نے مسکرا کر کہا اور کھانا کھانے لگ گٸ۔۔

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماٸیک ایش کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر پاگل ہو گیا تھا۔۔ لیکن وہ جانے کہاں کھو گٸ تھی۔۔

بس ایک جگہ رہ گٸ تھی جہاں وہ نہیں گیا تھا۔۔ اور جانا بھی نہیں چاہتا تھا۔۔ وہ تھا سمعان حیدر کا گھر۔۔

بادل ناخواسطہ وہ وہاں چلا گیا۔۔ لیکن اسے شاک لگا یہ جان کر کہ ایش وہاں نہیں آٸ۔۔

اسے پوری امید تھی کہ ایش سمعان کے پاس گٸ ہوگی۔

یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے مسٹر حیدر۔۔ تم جانتے ہو انکل آنٹی دونوں نے ایش پر ہاتھ اٹھایا۔۔ زندگی میں پہلی بار۔۔ 

باہر بارش ہو رہی تھی۔۔سمعان اسے مسجد سے ملہکہ برآمدے میں لے آیا تھا۔

سمعان کو سن کر حیرت ہو رہی تھی۔۔۔ اس سے زیادہ اسے غصہ آ رہا تھا۔ اس نازک سی لڑکی کے ساتھ اتنا برا سلوک کیا گیا۔۔

میں ایش کو بہت چاہتا ہوں۔۔ اگر مجھے وہ نہیں ملی یا اسے کوٸ نقصان پہنچا تو یاد رکھنا مسٹر حیدر میں تمہیں اریسٹ کروا دونگا۔۔ ماٸیک بتا رہا تھا جبکہ سمعان کا دماغ کہیں اور تھا۔

وہ کچھ اور سوچ رہا تھا۔ 

سن رہے ہو نا تم۔۔ ماٸیک نے اسے کندھے سے پکڑ کر ہلایا۔۔

ایش کا گناہ یہ ہے کہ اس نے تمہیں چاہا مسٹر حیدر۔۔ اس نے مجھے ریجیکٹ کردیا۔۔ تم سوچ بھی نہیں سکتے مجھے کتنا دکھ ہوا۔ 

میں نے ایش کا پرپوزل اسیپٹ نہیں کیا۔۔ میں نے اسے ریجیکٹ کردیا تھا۔۔ میں نہیں جانتا وہ کہاں ہے۔۔ سمعان نے دھماکہ کیا۔۔

واٹ۔۔ ایش نے تمہیں پرپوز کیا تھا۔۔ تم نے ایش کو ریجیکٹ کیا۔۔ ایش ولیم کو۔۔؟؟ ماٸیک کو یقین نہیں ہو رہا تھا۔۔

جی۔۔ میں نے ایش ولیم کو ریجیکٹ کر دیا تھا۔۔ سمعان نے مضبوط لہجے میں کہا۔۔ یہ اور بات تھی نورالایش کیلیۓ اسکا دل تڑپ رہا تھا۔۔

ماٸیک اسے حیرت سے تک رہا تھا۔۔ جبکہ باہر برستی بارش دونوں کو تک رہی تھی جو ایک ہی لڑکی پر مرتے تھے۔۔ 

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حرم یونيورسٹی پہنچی تو اسکا سامنا سب سے پہلے رون سے ہوا تھا جو یونيورسٹی کے گیٹ کے پس کرسی رکھے اس پر گنڈوں کی طرح لیٹنے والے انداز میں بیٹھا تھا۔۔ 

ہے لٹل لیڈی ادھر آٶ۔۔ اس نے حرم کو دیکھا تو اسے پکارہ۔۔ جبکہ حرم اسکے اسطرح بلانے پر گھبرا گٸ تھی۔۔ ناجانے وہ اب کیا کرنے والا تھا۔۔

    ❤❤❤❤❤❤❤ 
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔ 

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─