┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 37
پارٹ 2

 کیا ہے۔۔؟؟ حرم نے رون کے پاس جا کر پھاڑ کھانے والے انداز میں کہا حالانکہ اسکا دل گھبرا رہا تھا۔

اور رون ایک دم سیدھا ہوا۔۔ اس نے کافی اچھے طریقے سے حرم کو بلایا تھا اور وہ میڈم آگے سے کھانے کو پڑ رہی تھی۔

تمہیں پتا ہے رات ماٸیکل کے ساتھ کیا ہوا تھا۔۔؟؟

نہیں مجھے کیسے پتا ہوگا۔۔ اور کیوں پتا کروں میں۔۔ مجھے کیا لینا دینا اس نے۔۔؟؟ حرم صاف مکر گٸ۔

رون نے ابھرو اچکا اسے دیکھا کہ واقعی اسے ماٸیکل کی خبر نہیں ملی۔۔ حالانکہ پوری یونی میں جنگل کی آگ کی طرح یہ خبر پھیل گٸ تھی۔ اور اسے سٹوڈنٹس خود اسے آ آ کر حاضری دے رہے تھے۔۔

تمہیں ہر حال میں یہ کمپیٹیشن جیتنا ہے لٹل لیڈی۔۔ ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا۔۔ اور ہاں آج سے زیادہ وقت تم مجھے لاٸبریری میں نظر آٶ۔۔پڑھتی ہوٸ۔۔ سمجھ آٸ نا۔ رون نے اسے وارن کیا۔

گنڈا،موالی،۔۔ حق تو ایسے جتا رہا ہے جیسے میں اس کی نوکر ہوں اور یہ مالک۔۔ حرم بڑبڑاٸ۔۔

اتنا کافی ہے رونا۔۔ ٹام نے چیزیں ایک طرف رکھتے ہوۓ کہا۔

آج یونی میں ففٹی پرسنٹ آف پر سیل لگی تھی۔۔۔ جو چیزیں رون نے اپنی ٹرن کے دوران سٹوڈنٹس سے چھینی تھیں۔۔ انہیں آج وہ بیچنے والا تھا۔ 

اب جاٶ۔۔ منہ کیا دیکھ رہی ہو میرا یہاں کھڑی ہو کر۔۔؟؟ رون نے حرم کو چیزوں کی طرف تکتے دیکھا تو کہا۔

تمہاری شکل کب دیکھ رہی ہوں میں۔۔ میرا ٹیسٹ اتنا بھی خراب نہیں ہوا ابھی۔۔ حرم کونسا کم تھی۔۔ اسکی بات سن کر رون کا چہرہ سرخ ہوا۔۔

تمہاری ابھی ہمارے ڈیپارٹمنٹ کو ضرورت ہے لٹل لیڈی۔۔ نہیں تو سب سے پہلا مڈر رون کے ہاتھوں لٹل لیڈی کا ہوتا۔ اسکی زبان چلنے ک باعث۔۔ اب جاٶ یہاں سے۔۔

اور حرم اسے گھورتی۔۔ دل ہی دل میں سناتی آگے بڑھ گٸ۔

 ”شاید ہی تمہاری طرح کسی اور نے رون سے جھگڑا کیا ہو۔۔ اس طرح کی باتیں سنائی ہوں۔۔ اچھی لگتی ہو اس طرح لڑتے جھگڑتے۔۔ #داستان_محبت۔۔“

حرم کو فوراً ہی میسج وصول ہوا تھا۔۔ اسکا دماغ الٹ گیا۔

حد ہے بےشرمی کی بھی۔۔ 

میں نے تمہارا خون پی جانا ہے اگر آٸندی میسج کیا تو۔۔

حرم نے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ ریپلاۓ کیا۔

 اور زرا فاصلے پر کھڑے رومان کا قہقہہ بلند ہوا۔۔ 

جنگلی بلی۔۔ وہ بڑبڑایا اور پھر اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گیا۔

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 میں نہیں جانتی آپ کون ہو۔۔ کہاں سے ہو۔؟؟ کیا کہانی ہے آپکی۔۔؟؟ لیکن میں اتنا ضرور کہوں گی کہ آپ یہاں رہ سکتی ہو۔۔ جب تک دل چاہے۔۔۔ عاٸشہ نے ایش کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا۔۔

شکریہ میں جلد ہی کوٸ انتظام کرلوں گی رہنے کا۔۔

کوٸ بات نہیں۔۔ یہ بتاٶ سٹڈی کرتی ہو یا جاب۔۔؟؟ 

اور ایش سوچ میں پڑ گٸ تھی۔۔ جس کالج میں وہ پڑتی تھی اب اسکی فیس ادا کرنے کیلیۓ اسکے پاس پیسے نہیں تھے۔۔ اس لیۓ اب وہ وہاں نہیں جا سکتی تھی۔۔ اور جاب اس نے پارٹ ٹائم سٹارٹ کی تھی۔۔۔ بینک میں ۔۔ اپنے تجربے اپنے شوق کیلیۓ۔۔

دونوں کام کرتی تھی۔۔ ایش نے مسکرا کر جواب دیا۔

اور اب۔۔؟؟ عاٸشہ نے پوچھا۔

اب کا پتا نہیں۔۔ ایش اداس ہوٸ۔۔ 

چلو کوٸ بات نہیں۔۔ سو جاٶ آرام کرو۔۔ صبح بات کرتے ہیں۔۔عاٸشہ نے اٹھتے ہوۓ کہا۔

سنیں۔۔ ایش نے اسے پکارہ۔۔

ویسے آپ میرا نام لے سکتی ہو۔۔اگر دل چاہے تو آپی بلا سکتی ہو۔۔ 

ٹھیک ہے میں آپکو آپی بلاٶں گی لیکن آپ بھی مجھے تم کہیں گی۔۔۔ ایش نے مسکرا کر جواب دیا۔۔ 

ہاں یہ اچھی بات ہے۔۔ عاٸشہ مسکراٸ۔۔

کیا آپ عشا کی نماز پڑھ کر سوٸیں گی۔۔؟؟ 

جی۔۔ کیو کیا ہوا۔۔؟؟ 

مجھے بھی پڑھنی ہے۔۔ کیا میں آپکے ساتھ پڑھ سکتی ہوں۔۔؟؟ ایش نے پوچھا۔۔ وہ کافی کچھ یاد کرچکی تھی۔۔ جن میں پانچ وقت کی نمازوں کے نام بھی شامل تھے۔

ہاں بالکل۔۔ آ جاٶ پھر پڑھتے ہیں۔۔۔ عاٸشہ نے مسکراتے ہوۓ کہا اور ایش اسکے پیچھے چل دی۔۔

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوری یونيورسٹی میں رون کے رات والے کارنامے پر تبصرے ہو رہے تھے۔

ویسے کیا کارنامہ سر انجام دیا ہے رات رون نے قسم سے مزہ آگیا۔۔ عرش نے ہنستے ہوۓ کہا۔

ہاں جی کیوں نہیں تم لوگوں کو مزہ ہی آنا ہے۔۔ اگر ماٸیکل مر جاتا تو۔۔؟؟ حرم نے چڑ کر پوچھا۔

وہ پورا سانڈ ہے۔ اتنی جلدی نہیں مرتا۔۔ عرش کے جواب پر حرم سمیت سب کا قہقہہ ابھرا۔۔

سنا ہے رون نے سیل لگاٸ ہے۔۔ وہ سٹوڈنٹس کی چیزیں آج ففٹی پرسنٹ آف میں انہیں واپس بیچ رہا ہے۔۔؟؟ واصےنے بتایا۔۔

ہاں میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔۔ کافی زیادہ چیزیں تھیں۔۔ حرم کو یاد آ یا۔۔

اور ففٹی پرسنٹ آف اس خوشی میں ہے کہ رات کے راٶنڈ میں ساٸنس ڈیپارٹمنٹ بزنس ڈیپارٹمنٹ کے ایکول رہا ہے۔۔ عرش نے صحیح والی خبر دی۔۔

کیا واقی۔۔؟؟ بیلا حیران ہوٸ۔۔
میرا واٸلن۔۔ میں اپنا واٸلن لے کر آتی ہوں۔۔ وہ ایک دم کھڑی ہوٸ۔۔

عرش کچھ کہنے لگی تھی مگر وہ سنے بنا ہی دھوڑ لگا چکی تھی۔۔

بیلا کو تو رون پھر ڈبل قیمت میں ہی واٸلن واپس کرے گا۔۔عرش نے افسوس سے کہا۔۔ رون کی پکی دشمنی تھی بیلا سے۔

میں دیکھتا ہوں۔۔ یہ نا ہوں وہاں میدان جنگ کھلا ہو۔۔ واصے نے ہنستے ہوۓ کہا اور اٹھ کر بیلا کے پیچھے چلا گیا۔۔

وہ لوگ اس وقت کیفے میں بیٹھے تھے۔۔ اور اب صرف عرش اور حرم ہی رہ گٸ تھیں اپنے ٹیبل پر۔۔ 

حرم کو عجیب سا احساس ہو رہا تھا۔ نظروں کی تپش اسے اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھی۔۔

حرم نے کیفے میں چاروں طرف نظریں دوڑاٸ۔۔ پھر اسکی نظر ایک ٹیبل پر پڑی۔۔ وہاں زی بیٹھی تھی۔۔۔ میشا اور شالے کے ساتھ۔۔ جمی بھی انکے ساتھ تھا۔۔ 

وہ عجیب پر اسرار سے انداز میں حرم کو دیکھ رہی تھی۔۔حرم کو حیرت ہوٸ۔۔

یہ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہی ہے۔۔ حرم نے نظریں عرش کی طرف کرتے ہوۓ کہا جبکہ زی ابھی بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔

یہ آج جل ککڑی کو کیا ہوگیا ہے۔۔ حرم نے دل میں سوچا۔۔ 

کون دیکھ رہا ہے۔۔؟؟ عرش کی پشے زی کی طرف تھی اس لیۓ وہ دیکھ نہیں پاٸ۔۔

زی شاہ۔۔ کب سے حرم نور کو دیکھے جا رہی ہے۔۔۔ کیا چل رہا ہے اسکے دماغ میں۔۔۔ حرم نے سامنے پڑا کافی کا کپ اٹھاتے ہوۓ کہا۔

کیا۔۔زی۔۔ کہاں ہے زی۔۔؟؟ عرش اچھلی۔۔

تمہارے پیچھے ہے۔۔ اب مڑ کر مت دیکھنا۔۔ 
مگر حرم کے کہنے کے باوجود عرش نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا۔ وہ بھی شاید سمجھ گٸ تھی کہ اسکے اس طرح دیکھنے کو حرم محسوس کر چکی ہے۔۔ اس لیۓ اس نے نظرروں کا رخ پھیر لیا۔۔ 

اور کچھ دیر بعد وہ اٹھ کر کیفے س باہر نکل گٸ۔۔

اس میڈم کی بھی سمجھ نہیں آتی پل میں تولہ پل میں ماشہ۔۔ عرش نے اسے جاتے ہوۓ دیکھا تو کہا۔

اسکا دل اچھا ہے۔۔۔ بس تھوڑا سا حسن کا غرور ہے۔۔ حرم نے کچھ سوچتے ہوۓ جواب دیا۔

تم ہر چیز میں اچھاٸ کیسے ڈھونڈ لیتی ہو حرم۔۔ حالانکہ مجھے تو وہ بس نک چڑی ہی لگتی ہے۔۔ عرش نے مسکراتے ہوۓ پوچھا۔۔ 

تم نے اسکا دل نہیں دیکھا نا۔۔ 

کیا تم نے دیکھا ہے۔۔؟؟ عرش چونکی۔۔

نہیں۔۔ لیکن میں نے محسوس کیا ہے۔۔ حرم نے پراسرار سے انداز میں کہا۔

سچ کہتا ہے جمی۔۔ تم واقعی جادوگرنی ہو۔۔کبھی کبھی کتنی پراسرار سی باتیں کرتی ہو۔۔بھلا دل کو بھی محسوس کیا جا سکتا ہے کیا۔۔۔؟؟ 

ایک دل ہی کو تو ہم محسوس کر سکتے ہیں عرش۔۔

حرم نے کھوۓ کھوۓ سے انداز میں کہا۔
مجھے نا زی تھوڑی پر اسرار سی لگتی ہے۔۔ اکیلی اکیلی سی۔۔ فرینڈز کے ساتھ ہو کر بھی اسکی آنکھیں ہمیشہ کسی تلاش میں رہتی ہیں۔۔۔ 

حرم بس کرو۔۔ کتنا سسپنس پیدا کر دیا ہے تم نے زی کو لے کر۔۔ اسے بھلا کس کی تلاش ہوگی۔۔ سب کچھ تو ہے اسکے پاس۔۔ عرش نے کہا۔۔

جب ہمارے پاس سب کچھ ہوتا ہے نا عرش تب ہی کچھ ایسا ہوتا ہے جو سب سے ضروری ہوتا ہے۔۔ جو ہمیں چاہیۓ ہوتا ہے۔۔ اور جسکی کمی ہر چیز کی موجودگی پر بھاری پڑ جاتی ہے۔۔ پھر چاہے ہمارے پاس جتنی مرضی قیمتی چیزیں ہوں۔۔ ہمارا دل دماغ وہیں اٹک جاتا ہے۔۔اسکی کمی ہمیں جینے نہیں دیتی۔۔ ہر پل۔۔ 

اففف بس کرو حرم۔۔ تم کبھی کبھی بہت عجیب باتیں کرتی ہو۔۔ کسی اور دنیا سے آٸ لگتی ہو۔۔ عرش کے زور سے کہنےپر حرم چونک کر خیالوں سے باہر آٸ۔۔ وہ واقعی کسی اور دنیا میں پہنچی ہوٸ تھی۔۔ 

عرش اور کچھ بھی کہہ رہی تھی مگر حرم کا دماغ زی میں الجھا تھا۔۔ کچھ تھا جو اسے زی کی طرف کھینچتا تھا۔۔ 

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے دن ایش کالج نہیں گٸ۔۔ اس نے باکسنگ، میوزک، آرٹ تقریباً سبھی کلاسز چھوڑ دی تھیں۔۔ وہ بس بینک آٸ تھی۔۔ جہاں وہ دو تین گھنٹے جاب کرتی تھی۔۔ 

لیکن بینک کا مینجر اسے دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔۔جب ایش نے بتایا کہ وہ مسلم ہو چکی ہے۔۔ تو مینیجر کے چہرے پر واضح ناگواری ابھری۔۔

ہم آپکو اس ڈریسنگ کے ساتھ یہاں جاب کرنے کی پرمیشن نہیں دے سکتے مس ولیم۔۔ 

نورالایش۔۔ اس نے مینیجر کی تصیح کی۔۔ 

واٹ ایور۔۔ اگر آپکو کام کرنا ہے تو آپکو پہلے جیسی ڈریسنگ کرنی ہوگی۔۔ مینیجر کو ایش کے حجاب سے سخت کوفت ہو رہی تھی۔

سوری سر۔۔ میں اب اپنی ڈریسنگ چینج نہیں کر سکتی۔۔ 

اوکے تو آپکے لیۓ یہاں کوٸ جگہ نہیں ہے۔۔ مینیجر نے کہا اور اسکی کوٸ بات سنے بنا ہی وہاں سے چلا گیا۔

ایش چپ چاپ اٹھ کر باہر آگٸ۔ 

یہ وہ بینک تھا جہاں کا مینیجر جس نے ابھی ایش کو باہر نکالا تھا وہ کبھی ایش ولیم کا فین ہوا کرتا تھا۔۔ اسکی زبردست سی ڈریسنگ،اسکا کانفیڈنس،اسکی سبز آنکھوں کی چمک، اسکی زہانت سامنے والے انسان کو چونک جانے پر مجبور کرتی تھی۔۔ اور آج اسی مینیجر نے اسے بینک سے بار نکال دیا۔

کیوں کرتے ہیں مغرب والے مسلمانوں سے اتنی نفرت۔۔ حالانکہ وہ خودایک راٸل پرنسز تھی۔۔ لیکن صرف اسلام قبول کرنے پر سب اس سے دور ہو گۓ تھے۔   

ایش بوجھل قدموں کے ساتھ واپس گھر آگٸ تھی۔۔ اسے یوں اداس دیکھا تو عاٸشہ نے اس سے وجہ پوچھی۔ 

مسلمانوں سے اتنی نفرت کیوں کی جاتی ہے آپی۔۔ یہ دنیا انہیں اتنا نیچے کیوں گرا دینا چاہتی ہے۔۔؟؟ 
 
 یہ ایک سچاٸ ہے نورالایش مغرب والے مسلمانوں سے ہمیشہ ہی نفرت کرتے رہے ہیں۔۔۔ ہر غیر مسلم ملک میں مسلمانوں کے ساتھ کچھ ایسا ہی سلوک ہوتا ہے۔۔۔ پاکستان بننے سے پہلے بھی مسلمانوں کو نوکریاں نہیں دی جاتی تھیں۔۔ وجہ صرف یہ کہ وہ مسلمان تھے۔۔ ایک اللہ ﷻ کو مانتے تھے۔۔ 

عاٸشہ نے کہنا شروع کیا۔۔ جبکہ ایش اسے غور سے سن رہی تھی۔۔

اور اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی۔۔ آج بھی وہی حال ہے۔۔ نا جانے کیوں مغرب والے مسلمانوں سے اتنا ڈرتے ہیں۔۔ انہوں نے اپنے ڈر کو اپنی نفرت میں چھپا دیا تھا۔۔ وہ مسلمانوں کو ہمیشہ نیچے بہت نیچے دبا کر رکھنا چاہتے ہیں۔۔ انہیں مسلمانوں سے آج بھی اتنا ہی ڈر لگتا ہے۔ جتنا صدیوں پہلے لگتا تھا۔۔۔ جب دنیا پر مسلمانوں کا راج تھا۔۔ 

اسی لیۓ وہ مسلمانوں کو بس دباکر رکھنا چاہتے ہیں کہ مسلمان کہیں پھرنا اٹھ کھڑے ہوں۔۔ کہیں پھر نا دنیا میں انکی حکومت ہو۔۔ 

ایک مسلمان کی کیا غلطی ہے اس میں۔۔ ایش نے پوچھا۔۔

غلطی ہے ڈیٸر۔۔ بہت بڑی غلطی۔۔آج کا مسلمان کامیابی کے راستے سے دور بھاگ رہا ہے۔۔ کامیابی تو چاہتا ہے۔ مگر موٶذن کی پکار کا جواب نہیں دیتا جب وہ کہتا ہے۔۔ 

حی الفلاح۔۔۔ آٶ کامیابی کی طرف۔۔ 

وہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی دنیا میں اس قدر بزی ہو چکا ہے کہ اسے کوٸ فرق ہی نہیں پڑتا کہ مسلمانوں کے ساتھ کیسا سلوک کر رہی ہے یہ دنیا۔۔

شام، فلسطین اور کشمیر جیسی دیگر ریاستوں اور ممالک میں مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہاٸ جا رہی ہیں۔۔ مگر ہم جیسے مسلمانوں کے سر پر جوں تک نہی رینگتی۔۔ ہمیں بس یہ ٹینشن ہوتی ہے کہ ہمارا انٹرنیٹ نہیں چل رہا۔۔ 

جی ایف ناراض ہو گٸ ہے۔۔۔ بی ایف نے چھوڑ دیا ہے۔۔ صبح و شام سوشل میڈیا پر مصروف رہنے کی وجہ سے۔۔ فحش ویبساٸٹس دیکھنے اور چلانے کی وجہ سے ہم نفسیاتی مریض بنتے جارہے ہیں۔۔ اپنی اس حالت اس قدر پستی کے ہم خود زمہ دار ہیں۔۔ پھر بھی ہم سمجھتے نہیں سیکھتے نہیں۔۔ 

 یہ وہ وقت ہے اگر ہم نے اپنی اصلاح نہیں کی۔۔ خود کو مضبوط نا بنایا۔۔ سوشل میڈیا کی دنیا سے نکل کر مسلمانوں کیلیۓ کچھ نا کیا۔۔ تو غیر مسلمز کے دل میں جو تھوڑا سا ڈر موجود ہے کہ مسلمان اگر جاگ گۓ تو دنیا پر انکی حکومت ہوگی۔۔ وہ بھی ختم ہو جاۓ گا۔۔

پھر مسلمان اس دنیا میں ہیں یا نہیں۔۔ دنیا کو اس سے فرق نہیں پڑے گا۔۔ عاٸشہ نے گہراٸ سے مسلمانوں کی پستی کی وجہ کا مشاہدہ کیا تھا۔۔ اور اسکی بات کسی حد تک ٹھیک بھی تھی۔۔ 

ہم مسلمان خود ہیں۔۔ اپنی پستی اور زلت کے زمہ دار۔۔ 

میں پاکستان سے ہوں ایش۔۔ ہماری پاک فوج سے دنیا کانپتی ہے۔۔ اگر اتنا جزبہ اتنا ولولہ اتنی ہمت اور اتنا پیار اسلام کیلیۓ ملک کے عام نوجوانوں میں بھی ہو نا جتنا پاک فوج میں ہے تو ہمارا مقام دنیا میں بہت اونچا ہو جاۓ۔۔ لیکن ہماری نوجوان نسل سمجھے تب نا۔۔ عاٸشہ کو اپنی نوجوان نسل جو کہ تباہی کے دہانے ہر کھڑی تھی اس پر بہت دکھ تھا۔۔ بہت افسوس تھا۔ وہ ایک اچھی مسلمان تھی۔۔ اور مسلمانوں کو یوں تباہ برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔  

اللہ ﷻ ہماری نوجوان نسل کو ہدایت دے آمین۔۔ عاٸشہ نے صدق دل سے دعا کی۔۔ 

اچھا تم پریشان مت ہو ایش۔۔ میں کھانا لگاتی ہوں۔۔ پھر تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔۔ عاٸشہ کہتے ہوۓ اٹھ کھڑی ہوٸ جبکہ ایش اسی کی باتوں کو سوچ رہی تھی۔۔ 

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سمعان نے اسے ہر جگہ ڈھونڈا تھا۔۔ وہ کسی کلاس کیلیۓ نہیں گٸ تھی۔۔ اسکی آخری امید وہ بینک تھا۔۔۔ اور وہاں آیا تھا۔۔ لیکن مینیجر کی بات سن کر اسے بہت غصہ آیا تھا کہ اس نے ایش کو جاب سے نکال دیا۔۔صرف اسکے حجاب اسکی ڈریسنگ کی وجہ سے تھے ۔۔ 

اسےآج بھی وہ دن یاد تھا جب ایش انٹرویو دینے آٸ تھی اس بینک میں۔۔ گرے جینز پہنے واٸٹ شرٹ کے اوپر گرے کوٹ پہنے۔۔ بالوں کو سلیکے سے کندھے پر پھیلاۓ سمعان کو وہ ایک بزنس وومین لگی تھی۔۔ اسکے بات کرنے کے انداز نے مینیجر کو بہت امپریس کیا تھا۔ اور آج اسی مینیجر نے اسے جاب سے نکال دیا تھا۔۔

کہاں ہو نورالایش تم۔۔۔ کہاں چلی گٸ ہو۔۔؟؟ 

میرا سب کچھ چھین کر چرا کر خود مجھ سے لاتعلق ہو کر کہاں چلی گٸ ہو۔۔؟؟ وہ گاڑی ڈرائيو کرتے ہوۓ تصور میں ایش سے مخاطب تھا۔۔ 

یہ سچ تھا جس قدر سمعان کو اس سے چڑ تھی۔۔۔ اب اتنا ہی وہ اسے دیکھنے کو بےتاب تھا۔۔ لیکن پتا نہیں وہ کہاں چلی گٸ تھی۔۔ 
اور جاتی بھی کیوں نہی۔۔ پہلے اس نے ہی ٹھکرایا تھا اسے۔۔ پھر اس کے ماں باپ نے بھی ٹھکرادیا۔۔ تو اس کے پاس کیا بچا تھا۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔ وہ گم نا ہو جاتی تو اور کیا کرتی۔۔؟؟

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک بات بتاٸیں عاٸشہ آپی۔۔ ایش نے عاٸشہ کے پاس بیٹھتے ہوۓ کہا۔ ایش کی اردو کافی اچھی ہوتی جارہی تھی۔۔ 

جی پوچھو۔۔ وہ مسکراٸیں۔۔

آپ اپنے ملک سے اتنا پیار کرتی ہیں تو آپ اٹلی میں کیوں رہ رہی ہیں۔۔؟؟ 

یہاں رہنے کا بھی ایک مقصد ہے۔۔ میں اور میرے ہزبنڈ ایک اولڈ ہاٶس چلا رہے ہیں۔۔ وہ تو زیادہ تر شہر یا ملک سے باہر ہی ہوتے ہیں۔۔ میں ہی دیکھتی ہوں سارا انتظام۔۔ 
اب تم پوچھو گی کہ میں یہ کام پاکستان میں بھی تو کر سکتی تھی۔۔ 

وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں تو پھر بھی کسی حد تک لوگوں کو اپنے ماں باپ سے پیار ہے۔۔لیکن یہاں پر جو کچھ مسلمان ہیں۔۔وہ مغرب کے رنگ میں رنگ چکے ہیں۔۔۔ اپنے بوڑھے ماں باپ کو گھروں سے نکال پھینکتے ہیں۔۔۔ ہم بس انہی بوڑھے لوگوں کی خدمت کرتے ہیں۔۔ 

احمد کے ماں باپ انکے بچپن میں ہی وفات پا گۓ تھے۔۔ اس لیۓ وہ بوڑھوں لوگوں میں اپنے ماں باپ کا عکس دیکھتے ہیں۔۔ عاٸشہ اپنے شوہر کے بارے میں بتا رہی تھی۔۔

دنیا میں اچھے لوگ بھی ہیں۔۔ ایش نے سوچا تھا۔۔

صبح میں بھی آپکے ساتھ چلوں گی آپکے اولڈ ہاٶس۔۔ ایش نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔

ایک بات کہوں ایش اگر برا نا مانو۔۔۔ عاٸشہ کے زہن میں ایک خیال آیا تھا۔۔ 

جی بولیں۔۔ آپکو پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔

کیا تم میرے اولڈ ہاٶس میں جاب کرو گی۔۔؟؟ فارغ بھی تو ہو۔۔ وہاں پر بہت ساری نرسز اور میڈز بھی ہیں۔۔ تمہیں بس یہ دھیان رکھنا ہوگا کہ وہاں کا سارا سٹاف ٹھیک طریقے سے کام کرتا ہے یا نہی۔۔؟؟؟ اگر تم چاہو تو۔۔۔ زبردستی نہیں ہے۔۔ عاٸشہ مسکراٸ۔۔

کتنی سیلری ملے گی مجھے۔۔ ایش نے شرارت سے پوچھا۔۔ 

جتنی تم چاہو۔۔ عاٸشہ مسکراٸ۔۔ 

اور خدا خدمت خلق سے بھی مل جاتا ہے۔۔ 
ایش کے زہن میں سمعان کے کہے گۓ الفاظ گونجے۔۔ 

میں ریڈی ہوں۔۔ ایش نے مسکرا کر جواب دیا۔۔ چلو قدرت اسے خدمت خلق کا موقع بھی دے رہی تھی۔۔ اور ایش اسے کھونا نہیں چاہتی تھی۔۔۔ 

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حورعین نے حرم کو ویڈیو کال کی تھی۔۔ اور حرم اسے دیکھ کر حیران رہ گٸ تھی۔۔ سلیو لیس گھٹنوں تک آتی فراک پہنے وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔۔ چہرے سے لگ رہا تھا وہ پارلر سے تیار ہوٸ تھی۔۔ وہ اپنے فرینڈز کے ساتھ بیٹھی تھی۔اور اسکے پیچھے لڑکوں کا گروپ تھا۔۔ 

حورعین تم اس طرح کی کپڑے پہن کر ڈوپٹہ گلے میں ڈال کر لڑکوں کے درمیان کیسے گھوم رہی ہو۔۔؟؟ حرم کو بہت دکھ ہوا تھا۔ 

اوو کم آن حرم اب تو ایسا ہی فیشن ہے۔۔ تم نے شاید دیکھا نہیں یہاں لڑکیوں کی ڈریسنگ مجھ سے بھی کمال کی ہے۔۔ حورعین نے اک ادا سے کہا تھا۔۔ کندھے پر پڑے اسکے بال کٹنگ کہ نشاندہی کر رہے تھے۔۔ 

تم نے بال بھی کٹوا لیۓ۔۔؟؟ 

ہاں دیکھو اچھی کٹنگ ہے نا۔۔ حورعین نے مسکراتے ہوۓ پوچھا۔۔

حورعین۔۔ اور نہیں کچھ اپنے نام کی ہی لاج رکھ لیتی۔۔ حرم نے صدمے سے چور تھی۔

ہاۓ حورعین کس سے باتیں کر رہی ہو۔۔ وہاں اسکے مزید فرینڈز آگۓ تھے۔۔ اور حورعین اسکی بات کو نظر انداز کر گٸ۔۔

میری سس ہے۔۔۔ روما سے۔۔ حورعین نے خوش ہوتے ہوۓ بتایا۔۔ 

واٶٶ۔۔ روما سے۔۔ ایک لڑکی نے موبائل حورعین کے ہاتھ سے چھینا۔۔ 

کچھ لڑکے بھی موبائل پر جھکے۔۔ 

ہیلو۔۔ حرم۔۔۔ آپ حرم ہیں نا۔۔ ؟؟ وہ پوچھ رہے تھے۔۔ 

جی۔۔ حرم مشکل سے مسکراٸ۔ 

یہ آپ اس وقت کہاں ہیں۔۔؟؟ 

یہ یونيورسٹی آف روم ہے۔۔ میں اس وقت لاٸبریری سے باہر کھڑی ہوں۔۔ حرم نے مسکرا کر جواب دیا۔۔

She is sooooo sweet and innocent.. 
حورعین کی ایک دوست نے حرم کی تعریف کی۔۔

یار حورعین لگتا نہیں یہ تمہاری سسٹر ہے۔۔ ناٸس حجاب۔۔ کتنی معصوم اور پیاری ہے۔۔ کاش ہماری یونی میں بھی ایسی لڑکیاں ہوتیں۔۔ 

حورعین کے گروپ کے ایک لڑکے نے کہا تھا۔۔ 

میں بعد میں کال کرونگی۔۔ حرم نے کال ڈسکنیکٹ کردی۔۔ 

شرم کرو۔۔ وہ میرڈ ہے۔۔ حورعین نے اس لڑکے کو گھورا۔

اوو رٸیلی۔۔ بٹ شی از ناٸس یار۔۔ 

اوو پلیز چینج دی ٹاپک۔۔ حورعین سے حرم کی تعریف برداشت نہیں ہوٸ۔۔

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونيورسٹی سے گھر آنے کے بعد حرم نے حورعین کو کال کی تھی۔۔ لیکن اس نے ریسیو نہیں کی۔۔ بیل جا رہی تھی لیکن وہ ریسیو نہیں کر رہی تھی۔۔

کہاں ہو۔۔۔؟؟ آخر کار حرم نے اسے میسج کیا۔

اسد کے ساتھ۔۔ حورعین کا ریپلاۓ آیا۔۔ 

اسد کے ساتھ۔۔ حرم کا منہ حیرت سے کھل گیا۔۔ چار بجے کا وقت تھا یعنی پاکستان میں اس وقت سات بج رہے ہونگے۔۔ وہ اس وقت اسد کے ساتھ کیا کر رہی ہے۔۔ 

تم اسد کے ساتھ اس وقت کیا کر رہی ہو۔۔۔؟ حرم نے غصے سے پوچھا۔

اپنے فیانسی کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے۔۔ حورعین بہت ہی خوش تھی۔۔ اسے یہ بھی نہیں پتا تھا کہ وہ کیا بول رہی تھی۔

تایا ابو کے گھر ہو کیا۔۔؟

نہیں مونال ریسٹورینٹ۔۔ حورعین کا جواب آیا تھا۔۔ اور حرم تو شاکڈ ہی رہ گٸ تھی۔۔ 

امی کو پتا ہے۔۔؟؟ حرم نے پوچھا۔

ہاں۔۔ اب مجھے تنگ مت کرو۔ میں بزی ہوں۔۔۔ ڈنر کرنے لگیں ہیں ہم۔۔۔ حورعین نے میسج کیا۔

حورعین تمہارا کوٸ حق نہیں بنتا کہ تم اسد کے ساتھ اس طرح اور اس وقت یوں اکیلے گھومو پھرو۔۔ 

اوو شٹ۔۔ حرم میں نے کہا نا مجھے ڈسٹرب مت کرو۔۔ یہ میری لاٸف ہے میں اپنی مرضی سے جینا چاہتی ہوں۔۔ 

حرم کو اسکے جواب پر غصہ آیا تھا۔۔ وہ بڑی بہن تھی۔۔ حورعین کو سمجھانا اسکا فرض تھا۔۔ حرم نے اسے دوبارہ کال کی۔۔ لیکن حورعین نے اسکی کال کاٹنے کے بعد نمبر آف کردیا۔۔

ساری رات حرم پریشان رہی۔۔ جو حورعین کر رہی تھی۔۔ وہ ٹھیک نہیں تھا۔۔ نہیں وہ کچھ سمجھنے کو تیار نہیں تھی۔۔ 

اور سچ بات ہے انسان ٹھوکر کھاۓ بنا سمجھتا ہی نہیں۔۔

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن تیزی سے گزر رہے تھے۔۔ حرم کا زیادہ ٹائم پڑھنے میں گزرتا تھا۔۔ وہ دعائيں مانگ رہی تھی۔۔ وظیفے کر رہی تھی کہ کسی ر طرح اللہ اسکی عزت رکھ لے۔۔ 

اس دن انکی لاسٹ اساٸمنٹ سبمٹ ہونی تھی۔۔ حرم نے بہت محنت کے ساتھ اس مکمل کیا تھا۔ 

شکر ہے یہ اساٸمنٹس کا جھنجٹ تو ختم ہوا۔۔ بس اللہ پاک اب اچھے اچھے مارکس دے ہم سب کو۔۔ حرم عرش اور بیلا کے ساتھ اساٸمنٹ سبمٹ کروانے جا رہی تھی۔ 

ہاں اللہ کرے۔۔ عرش نے بھی دعا کی۔۔ 

لیکن رون کے ہوتے ہوۓ یہ کیسے ممکن تھا۔۔ آج اسکی ٹرن تھی۔۔ 

وہ کسی جن کی طرح حاضر ہوا اور حرم کے ہاتھ سے اساٸمنٹ چھین کر یہ جا وہ جا۔۔ 

حرم تو حق دق سی رہ گٸ تھی۔۔

کتنی دیر تو وہ بول ہی نا پاٸ۔۔

حرم وہ تمہاری اساٸمنٹ لے گیا ہے۔۔ بیلا نے اسکا کندھا ہلایا۔۔

ہاۓ میری اساٸمنٹ۔۔ حرم کو جھٹکا لگا۔۔

رون میری اساٸمنٹ۔۔۔ وہ بھاگی۔۔ 

کتنی دیر ڈھونڈنے کے بعد وہ اسے مل گیا تھا۔۔ رومان نے اسے پکڑ لیا تھا۔۔

رون میری اساٸمنٹ دے دو پلیز۔۔ حرم کا سانس پھولا ہوا تھا۔
 رون چھینی ہوٸ چیز واپس نہیں کرتا۔۔ 

پلیز آج لاسٹ ڈے ہے میں نے سبمٹ کروانی ہے۔۔ پلیز دے دو۔۔ حرم نے اسکی منت کی۔۔

کبھی بھی نہیں۔۔۔ 

رون دے دو اسکی اساٸمنٹ۔۔ رومان نے آگے بڑھ کر کہا۔۔

ریم تم ہمارے معاملے سے دور رہو۔۔۔ یہ میرا اور لٹل لیڈی کا معاملہ ہے۔۔

رون دے دو اساٸمنٹ اسے۔۔ اگر اس نے سبمٹ نہیں کرواٸ تو وہ فیل ہو جاۓ گی۔۔ اور پھر کمپیٹیشن کا کیا۔۔ عرش نے رون کو سمجھانا چاہا۔۔

میرا ڈیپارٹمنٹ تو ہر بار ہی ہارتا ہے۔۔ اس بار ہار جاۓ گا تو کونسا نٸ بات ہے۔۔ رون نے سچ کہا۔

پلیز میری اساٸمنٹ دے دو رون تمہیں جو چاہیۓ میں دونگی۔ کتنے پیسے لو گے واپس کرنے کے پلیز دے دو۔۔ حرم رونے والی ہو گٸ تھی۔۔ ایک دم ہی سارے سٹوڈنٹس وہاں جمع ہو گۓ تھے۔۔ 

رون دے دو میں شرافت سے کہہ رہا ہوں۔۔ رومان سے حرم کا رونا برداشت نہیں ہوا۔۔

رون کا جب دماغ گھومتا تھا تو وہ ایسے ہی کرتا تھا۔۔ 

اوکے۔۔ اگر تمہیں اساٸمنٹ چاہیۓ تو جو میں کہوں گا وہ کرنا ہوگا۔۔ رون نے شرط رکھی۔۔

میں تیار ہوں۔۔ جلدی بولو۔۔ حرم جانتی تھی وہ اتن جلدی نٸ اساٸمنٹ نہیں بنا سکتی۔۔

تمہیں پروفيسر مورگن کی ساٸنس لیب میں جانا ہوگا۔۔ حرم نہی جانتی تھی کہ رون نے کتنا بڑا دھماکہ کیا تھا۔۔ 

سارے سٹوڈنٹس کے منہ کھلے رہ گۓ تھے۔۔ 

پروفیسر مورگن۔۔۔ نو حرم۔۔ نیور۔۔ سٹوڈنٹس نے سرگوشیاں کی۔۔ 

ٹھیک ہے میں جانے کیلیۓ تیار ہوں بتاٶ کہاں ہے انکی لیب۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔

نو مس نور۔۔ آپ وہاں نہیں جاٸیں گی۔۔ رومان آگے بڑھا۔۔

کیوں کیا ہے اس لیب میں۔۔؟؟ حرم نے حیران ہوتے ہوۓ پوچھا۔۔

پروفيسر مورگن بہت ہی سٹرکٹ ہیں۔۔وہ زیارہ کسی سے بات نہیں کرتے۔۔زیادہ وقت وہ لیب میں گزارتے ہیں جہاں وہ مختلف تجربات کرتے ہیں۔۔ اگر کوٸ بنا پوچھے انکی لیب میں چلا جاۓ تو وہ اس سٹوڈنٹ کو یونيورسٹی سے باہر نکلوا دیتے ہیں۔۔ عرش نے خوفناک لہجے میں بتایا۔۔ 

میں انہیں بتادونگی کہ یہ ضروری تھا۔۔ میری مجبوری تھی۔۔ حرم نے کہا۔

رون نے ایک بار زی کو بھی یہ Dare دی تھی۔۔ پروفيسر نے اسے یونيورسٹی سے باہر نکلوا دیا تھا۔۔ وہ تواسے آٸ کیو لیول کی وجہ سے ڈین نے زی کو معاف کرکے اسکا واپس ایڈمیشن کرلیا۔۔ واصے نے بتایا۔۔

ہاں یہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔ بیلا نے اسکی تصدیق کی۔۔ 

حرم کافی ڈر گٸ تھی۔۔ اسکے آگے کنواں تھا تو پیچھے کھاٸ۔۔ 

اب میں کیا کروں۔۔؟؟ 
جلدی فیصلہ کرو لٹل لیڈی۔۔ نہں تو میں اساٸمنٹ۔۔ رون نے خباثت سے ہنستے ہوۓ لاٸٹر جلایا۔۔

میں جاٶں گی۔۔ پلیز اسے کچھ مت کرنا۔۔ 

اوکے۔۔۔ اگر پروفیسر نے تمہیں یونی سے باہر نہیں نکلوایا تو تمہیں تمہاری اساٸمنٹ مل جاۓ گی۔۔ 

زی بھی اپنے گروپ کے ساتھ وہاں آگٸ تھی۔۔

سب سے خطرناک کھیل تھا یہ۔۔ حرم کا مستقبل ایک طرح سے داٶپر لگ رہا تھا۔۔۔ 

اوکے میں ریڈی ہوں۔۔ بتاٶ کس طرف ہے لیب۔۔ ؟

نو۔۔ حرم نو۔۔۔ 

پلیز ڈونٹ گو۔۔ سٹوڈنٹس حرم کو ہاتھ ہلا ہلا کر منع کر رہے تھے۔۔ 

حرم نے اپنے آنسوں پیتے ہوۓ ایک گہری سانس لی۔۔ اور پھر دل سے دعا مانگنے کے بعد وہ لیب کی طرف چل پڑی۔۔ 

       ❤❤❤❤❤
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔ 

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─