┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 38
پارٹ 1

مت جاٶ حرم۔۔ تمہارا فیوچر خراب ہو جاۓ گا اگر پروفيسر مورگن نے تمہیں یونيورسٹی سے نکلوا دیا تو۔۔ تمہیں نہیں پتا وہ بہت بڑے ساٸنٹسٹ ہے اور ڈین بھی انہی کی بات مانتے ہیں۔۔عرش حرم کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔۔ 

جانا ضروری ہے عرش۔۔ مجھے ایک کوشش تو کرنی چاہیۓ۔۔ حرم نے جواب دیا۔

ہم رون سے بات کر سکتے ہیں۔ شاید اسے ترس آ جاۓ۔۔ 

وہ کبھی نہیں مانے گا عرش اور میں فیل نہیں ہونا چاہتی۔۔بس تم میرے لیۓ دعا کرو۔۔ 

ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی۔۔بیسٹ آف لک۔۔ عرش نے کہتے ہوۓ ایک گہری سانس لی۔۔

شکریہ۔۔ حرم نے سپاٹ سے لہجے میں کہا۔۔ وہ لین ایریا میں آگۓ تھے۔۔ حرم نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سٹوڈنٹس کا ایک ہجوم انکے ساتھ آیا تھا۔

اب تم یہاں رکو۔۔ مجھے اکیلیۓ ہی آگے جانا۔۔ حرم نے کہا اور دل میں درور شریف کا ورد کرتے لیب کی طرف بڑھ گٸ۔۔ 

باہر کھڑے سبھی سٹوڈنٹس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گٸ تھی۔۔ کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا تھا۔۔ ریم کھا جانے والی نظروں سے رون کو گھور رہا تھا۔۔ 

کیا ہے۔۔ بچے کی جان لو گے کیا۔۔؟؟ رون نے معصوم شکل بناتے ہوۓ کہا۔

اگر اسے کوٸ پرابلم ہوٸ نا تو یاد رکھنا رون تمہاری خیر نہیں۔۔ریم غصہ سے کہتا وہاں سے چلا گیا۔۔

 حرم لیب کا دروازہ کھولنے کے بعد اسے پار کر گٸ تھی۔۔ اندر ایک نٸ دنیا تھی۔۔ لیب بہت بڑی تھی۔۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی آگے بڑھ رہی تھی۔۔لیب میں عجیب سی سمیل پھیلی تھی۔ مختلف جانوروں اور پودوں کے نمونے وہاں موجود تھے۔۔ حرم نے ہاتھ میں پکڑی کتاب کو گلے سے لگایا۔۔ وہ آگے بڑھتی جا رہی تھی۔۔ 

اچانک اسے اپنے پیچھے ایک آہٹ سی محسوس ہوٸ۔۔۔ 

Who the hell are you...??
وہ یقیناً پروفيسر مورگن تھے۔۔ جو اتنی زور سے چلاۓ تھے۔۔حرم ایک دم اچھلی تھی۔۔ اسکا نازک سا دل پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو تیار تھا۔۔

ہو آر یو۔۔۔؟؟ پروفيسر ایک بار پھر چلاۓ۔۔ 

حرم کو لگ رہا تھا کہ اگر وہ پلٹی تو پھتر کی ہو جاۓ گی۔۔ لیکن اسے پلٹنا تھا۔ وہ دھیرے دھیرے مڑی۔۔ 

سوری پروفيسر۔۔ وہ ایکچوٸلی۔۔ حرم کچھ کہنا چاہ رہی تھی۔ لیکن پروفيسر مورگن شاید خود پتھر کے ہوگۓ تھے۔۔۔ وہ پٹھی پٹھی نگاہوں سے حرم کو دیکھ رہے تھے۔۔ 

انکے ہاتھوں میں موجود سلاٸڈز نیچے گر چکی تھیں۔۔ حرم کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ پروفيسر کو ہوا کیا ہے۔۔؟؟ 

ایش۔۔۔ ایش ولیم۔۔۔ 

پروفیسر نے کہا وہ بے یقنی کے عالم میں اسے دیکھ رہے تھے۔۔

          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  ایش اولڈ ہاٶس آٸ تھی عاٸشہ کے ساتھ۔۔ اولڈ ہاٶس کی بلڈنگ کافی بڑھی تھی۔۔ وہاں ہر چیز کا پروپر انتظام تھا۔۔

سینکڑون نرسیں اور میڈز وہاں کام کرتی نظر آرہی تھی۔۔ 

گڈ مارننگ میم۔۔۔ عاٸشہ کو دیکھ کر وہ سب اسے سلام کر رہی تھیں۔۔ 

کچھ ڈاکٹرز بھی وہاں موجود تھے جو بوڑھے بزرگوں کا چیک اپ کر رہے تھے۔۔

اولڈ ہاٶس میں صفائی ستھراٸ کا بھی انتظام اچھا تھا۔۔ ہر کمرہ صاف اور ہوادار تھا۔۔ بزرگوں کیلیۓ بڑا سا گارڈن بنا تھا۔ جہاں وہ کھلی ہوا میں سانس لے سکتے تھے۔۔

تقریباً سارا سٹاف ہی ڈیوٹی پر موجود تھا۔۔ 

یہ ہیں نورالایش۔۔ یہاں کی نیو مینیجر۔۔ عاٸشہ نے سٹاف روم میں موجود سٹاف سے ایش کا تعارف کروایا۔۔ 

ویلکم میم۔۔ سٹاف نے اسے خوشدلی سے ویلکم کیا تھا۔

ایش کو سب بہت اچھا لگ رہا تھا۔۔ اسکی باکسنگ اور میوزک کلاس سے بھی زیادہ انٹرسٹنگ۔۔ 

میری، نورالایش کو لے کر جاٸیں اور ہاٶس کی سیر کرواٸیں۔۔ واٸشہ نے ایک لڑکی سے کہا۔۔

یس میم۔ وہ مسکرا کر سر ہلاتی آگے بڑھی تو ایش اسکے پیچھے چل پڑی۔۔

میری نے ایش کو ہر ایک کمرہ ہر ایک جگہ دکھا دی تھی۔۔ کتنی نرسیں۔۔ کتنی میڈز ڈیلی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں وہ سب کی ڈیٹیل اسے بتا رہی تھی۔۔ اور ایش اثبات میں سر ہلا رہی تھی۔۔ 

تقریباً ایک گھنٹے بعد ایش واپس عاٸشہ کے آفس میں آٸ تھی۔۔ 

جی تو کیسا لگا آپکو ہمارا چھوٹا سا اولڈ ہاٶس۔۔؟؟ 

بہت زبرست۔۔ ایش مسکراٸ۔۔

ویسے آپ ایک بات تو بتاٸیں۔۔؟؟ 

ہمممم پوچھو۔۔ 

یہاں کے لوگ مسلمانوں سے اتنی نفرت کرتے ہیں پھر بھی آپکے اولڈ ہاٶس میں کثر تعداد غیر مسلمز کی ہے۔۔۔ یہاں غیر مسلمز بوڑھے لوگ زیادہ ہیں۔۔ کیا آپکو ان سے نفرت نہیں ہوتی۔۔ آپ نے انہں کیو رکھا ہوا ہے۔۔؟؟ 

ہمارا دین ہمیں محبت کا درس دیتا ہے نورالایش ۔۔ اگر ہم انہیں یہاں سے نکال دیں۔۔ یا انکے ساتھ وہی سلوک کریں جو یہ لوگ مسلمز کے ساتھ کرتے ہیں تو ان میں اور ہم میں کیا فرق رہ جاۓ گا۔۔؟؟ عاٸشہ نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔

ہمیں اللہ پاک کی پیدا کردہ مخلوق کی خدمت کرنی ہے۔۔ اس لیۓ ہم یہ سوچتے ہی نہیں کہ انکا مزہب کیا ہے کیا نہیں۔۔ بس ہمارے لیۓ یہ بے سہارا لوگ ہیں جنہیں سہارے کی ضرورت ہے۔۔ 

اور ہاں کافی لوگوں نے یہاں اسلام قبول کیا ہے۔۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر غیر مسلمز اسلام قبوک کرتے تھے۔ ہم بھی انہی کے راستے پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔ اللہ پاک ہمیں کامیابی عطا کرے۔۔ عاٸشہ نے مسکراتے ہوۓ بتایا۔۔

آمین۔۔ ایش نے صدق دل سے جواب دیا۔

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیسے ممکن ہے۔۔ ایش ولیم۔۔ پروفيسر جوزف حرم کی طرف بڑھے۔ 

ایش کے نام پر حرم چونکی تھی۔۔ وہ ایک قدم ڈر کر پیچھے ہوٸ۔۔ 

وہی چہرہ، وہی ڈریسنگ صرف آنکهوں کا کلر چینج ہے۔۔ کون ہو تم۔۔۔؟؟ 

نور۔۔ حرم نور۔۔ پروفيسر۔۔ حرم نے ڈرتے ڈرتے کہا۔۔

 نور۔۔۔۔ اووو یس یاد آیا۔۔ نورالایش۔۔ یور لیٹر نیم واز نورالایش۔۔

پروفيسر آٸ ایم ناٹ ایش۔۔ حرم نے بتایا۔۔ 

آٸ نو۔۔ یور آر ناٹ ایش۔۔ لیکن خطرناک حد تک تم اس سے مشابہت رکھتی ہو۔۔ 

بیٹھ جاٶ۔۔ پروفيسر نے اسے ایک طرف رکھے سٹول کی طرف اشارہ کیا۔۔ اور حرم حیران ہوتے ہوۓ اس پر بیٹھ گٸ۔۔ 

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پورے آدھے گنٹے بعد وہ لیب سے باہر آٸ تھی۔۔۔ 

بیلا جو چینگ کو اپنی ساٸیکل کے پیچھے بٹھاۓ لیب کے باہر اسے گول گول داٸرے میں چکر لگوا رہی تھی۔۔ سامنے دیکھ کر وہ حیران رہ گٸ۔۔ 

دھڑام سے وہ اپنی ساٸیکل سمیت نیچے گری۔۔ اسکے ساتھ ہی پیچھے بیٹھی چینگ بھی۔۔ 

کاکٹیل پیتے رون کا کا منہ حیرت سےکھلا اور کاکٹیل اسکے منہ سے فوارے کی طرح باہر نکلی۔
 
پریشانی سے چکر لگاتا ریم بھی اسے دیکھ کر اپنی جگہ پر جم گیا۔

واصے کے ہاتھ سے موبائل نیچے گرا۔۔۔ شالے حرم کو دیکھ کر چکرا کر خود نیچے گر گٸ تھی۔ 

یہ کیسے ممکن ہے۔۔؟؟ زی کا منہ حیرت سے کھل گیا تھا۔۔

حرم پروفيسر مورگن کے ساتھ لیب سے باہر نکل رہی تھی۔۔ پروفيسر مورگن ہنس رہے تھے۔۔یہ تو معجزہ ہو گیا تھا۔۔ 

گڈ لک ماۓ سن۔۔ پروفيسر مورگن نے پیار سے حرم کو کہا اور واپس اپنی لیب میں چلے گۓ۔۔ جب حرم کی نظر باقی سب پڑی تو اسے لگا کہ وہاں انسان نہیں پتلے کھڑے ہیں۔۔ پتھر کے پتلے۔۔

بیلا ایسی گری کہ اٹھ ہی نا پاٸ۔۔ چینگ نیچے گری اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں کو مزید سکوڑے اسے دیکھ رہی تھی۔۔ سب پر جیسے سکتہ ہو گیا تھا۔۔ 

منہ تو بند کرو انکل۔۔۔ حرم نے رون کے پاس آکر اسکا منہ بند کرتے ہوۓ کہا جو حیرت کے باعث کھل گیا تھا۔۔۔ اور بند ہونا بھول گیا تھا۔۔

وہ مسکراتی سب پر ایک پراسرا سی نظر ڈالتی آگے بڑھ گٸ۔۔

مم۔۔ میں نے کہا تھا نا وہ جادوگرنی ہے۔۔ جمی کی مشکل سے آواز نکلی تھی۔۔ 

سب پر چھایا سکتہ ایک جھٹکے سے ٹوٹا۔۔ 

حرم۔۔ رکو۔۔ عرش کو جیسے ہوش آیا۔۔۔ وہ حرم کے پیچھے بھاگی۔۔ بیلا نے اپنی ساٸیکل وہیں چھوڑی اور گرتے پڑتے وہ بھی اسکے پیچھے بھاگی۔۔

کہا تھا نا میں نے کہ
Haram noor is a magical girl.. 
جمی نے اونچی آواز سے کہا۔۔

رون کو تو یقین نہیں ہو رہا تھا۔کہ یہ سب ہوا کیا ہے۔۔ 

اس نے کوٸ جادو کیا ہوگا۔ دیکھا تھا تم لوگوں نے پروفيسر مورگن مسکرا رہے تھے۔۔

ہے لٹل لیڈی۔۔ پہلی بار رون دی ڈون کسی لڑکی کے پیچھے بھاگا تھا۔

رومان شاہ کو واقعی اس دن احساس ہوا تھا کہ حرم نور واقعی ایک طلسماتی لڑکی ہے۔۔ جسکا طلسم روما پر بھاری پڑھ گیا تھا۔۔

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہیپی برتھ ڈے ٹو یو۔۔ ہیپی برتھ ڈے ڈیٸر حورعین۔۔ اس دن حورعین کا برتھ ڈے تھا۔۔ 25 مٸ۔۔ اسد نے اسے واٸس میسج بھیجا تھا۔۔ وہ بہت خوش تھی۔۔ اتنا خوش اسنے اپنے آپ کو کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔۔ 

لیکن کیا یہ خوشیاں صدا رہنے والی تھیں۔۔ 

اسد بھاٸ۔۔ شہرین اسد کے کمرے میں آٸ تھی۔۔ وہ لیپ ٹاپ کھولے انٹرنيٹ پر حرم کیلیۓ کوٸ گفٹ سلیکٹ کر رہا تھا۔۔

ہممم بولو۔۔ 

مجھے آپکا سیل فون چاہیۓ کچھ دیر کیلیۓ۔۔ وہ میرا فون آن نہیں ہو رہا میں نے اپنی فرینڈ کو ایک ضروری کال کعنی ہے۔۔ شہرین نے کہا۔۔

وہ رکھا ہے لے جاٶ۔۔ اس نے ٹیبل پر رکھے فون کی طرف اشارہ کیا۔۔ اور شہرین حیران رہ گٸ اسے امید نہیں تھی کہ اسد اتنی جلدی مان جاۓ گا۔

تھینک یو سو مچ بھاٸ۔۔ وہ خوشی خوشی موبائل اٹھاتے باہر نکل گٸ۔۔ 

باہر آنے کے بعد اس نے سب سے پہلے حورعین کے دونوں نمبر بلوک لسٹ میں لگاۓ۔۔ پھر اس نے ایک میسج ٹاٸپ کیا۔۔ ٹاٸپنگ کے وقت اسکے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ دھوڑ رہی تھی۔۔ ٹاٸپ کرنے کے بعد اس نے وہ میسج حورعین کو سینڈ کیا۔۔ اسد کے موبائل سے اسے ڈیلیٹ کیا۔۔ 

تم نے مجھ میری خوشیاں مجھ سے چھینی۔۔ مجھے رلایا۔۔ اب میں رلاٶں گی تمہیں حرم۔۔ تمہاری بہن کو تکلیف پہنچا کر۔۔ 

یہ لو اسد بھاٸ۔۔ وہ موبائل واپس اسکے کمرے میں لے گٸ۔۔ 

ہوگٸ بات۔۔۔؟؟ وہ پوچھ رہا تھا۔۔

جی ہوگٸ تھینکس۔۔ شہرین نے مسکرا کر جواب دیا۔۔ آج کل وہ بہت سیدھی بنی ہوٸ تھی۔۔ لیکن اسد نہیں جانتا تھا وہ اسے ہی ڈسنے والی ہے۔۔ 

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بتاٶ حرم۔۔۔ تم نے ایسا کیا کیا کہ پروفيسر مورگن نے تمہیں کچھ بھی نہی کہا۔

میں نے کیا کرنا تھا۔۔ میں نے ان سے سوری کیا۔۔ انہیں بتایا کہ میری مجبوری ہے۔۔ 

اور وہ مان گۓ۔۔۔ کیسے۔۔؟؟ بیلا حیران ہوٸ۔۔ 

سچ بتاٶ لٹل لیڈی تم اندر کونسا منتر پھونک کر آٸ ہو۔۔؟؟ رون نے غصے سے پوچھا۔۔ وہ ہار گیا تھا۔۔ حرم نے اسکی دی ہوٸ dare پوری کردی تھی۔۔ 

میری اساٸمنٹ مسٹر رون۔۔؟؟ حرم نے ہاتھ اسکے سامنے کیا۔۔ 

پہلے بتاٶ کہ۔۔ 

اب رون دی ڈون رونے لگ جاۓ گا۔۔ حرم نے اسکی بات کاٹی۔۔ 

یہ لو اپنی اساٸمنٹ۔۔ اور میں سچ جان کر رہوں گا۔۔ وہ اسکی اساٸمنٹ پھینکتا غراتے ہوۓ وہاں سے ناک آٶٹ کر گیا۔۔

بتاٶ نا سسٹر تم نے کیا کہا پروفيسر سے کہ وہ مان گۓ۔۔ واصے نے پوچھا۔۔

سیریسلی میں نے پروفیسر مورگن سے اور کچھ نہں کہا۔۔ میں نے بس انہیں یہ بتایا کہ میری مجبوری ہے۔۔

اور وہ مان گۓ۔۔۔ سٹوڈنٹس کے ہجوم کو یقین نہیں ہو رہا تھا۔۔

میں نے فرسٹ ڈے ہی ریم سے کہا تھا کہ حرم نور ایک میجیکل گرل ہے۔۔ پر کسی نے میری بات نہیں مانی۔۔ لیکن آج سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا نا۔۔ 

she is a magical girl..

ہاں ہم نے مانی لیا۔۔ سٹوڈنٹس نے جمی کی بات پر یقین کرتے ہوۓ کہا۔۔ کیونکہ آج جو ہوا تھا وہ ایک جادوگر ہی کر سکتا تھا۔

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

سب حرم کو ایک جادوگرنی سمجھ رہے تھے۔۔ حالانکہ حقیقت کچھ اور تھی۔۔ وہ نام وہ زات جس سے اسے چڑ ہو رہی تھی۔ آج اسی نام اسی زات کی وجہ سے حرم کی عزت بچی تھی۔۔ وہ اسی کی وجہ سے یونی میں موجود تھی۔۔ 

ایش۔۔ ہاں وہی تو تھی اسکی مسیحا۔۔ 

ہوا کچھ یوں تھا کہ تین سالے پہلے پروفيسر کسی جڑی بوٹی کی تلاش میں جنگل گۓ تھے۔ جہاں انہیں کسی زہرہلے سانپ نے کاٹ لیا تھا۔۔ اور پھر خونخوار جنگلی درندوں نے ان پر حملہ کر دیا تھا۔۔ 

ایش بھی اس جنگل میں گٸ تھی۔۔۔ ایڈونچرز کیلیۓ اپنے گروپ کے ساتھ۔۔ وہ اس جنگل میں پروفیسر مورگن کی جان بچانے میں کامياب ہو گٸ تھی۔۔ پروفیسر مورگن اسکے بہت بڑے احسان مند تھے۔۔ ایش انہیں اپنے بچوں کی طرح عزیز تھی۔۔ 

تین دن جنگل میں ایش کے گروپ کے ساتھ گزارنے کے بعد پروفيسر ایش کے فین ہو گۓ تھے۔۔ اس ٹور کے بعد ایش انہیں نہیں ملی۔۔ پھر اچانک انہیں وہ ایک دن ملی۔۔ وہ پوری بدل گٸ تھی۔۔ 

نورالایش نام رکھ لیا تھا اس نے۔۔ سیم ویسی ڈریسنگ تھی اسکی جیسی حرم کرتی ہے۔۔ پھر اسکے بعد اب تک۔۔ تین سال گزر گۓ تھے۔۔ تلاش کرنے کے باوجود بھی پروفیسر کو ایش نہیں ملی۔۔ اسے کچھ بری خبریں بھی ملی تھیں۔۔ ایش کے حوالے سے۔۔ 

اور پھر آج تین سال بعد۔۔ وہ اسے اپنی ہی لیب میں مل گٸ تھی۔۔لیکن اسکی آنکهوں کا رنگ بدل گیا تھا۔۔ یا شاید وہ ایش تھی ہی نہیں۔۔ 

لیکن وہ ایش ہی تو تھی۔۔ وہی باتیں۔۔ وہی سوچ۔۔ سب کچھ وہی تھا۔۔ 
پروفيسر نے ساری سٹوری حرم کو سنا دی تھی۔۔ اور حرم حیران رہ گٸ تھی کہ کوٸ لڑکی اس سے اس قدر مشابہت کیسے رکھ سکتی ہے۔۔ 

پروفيسر مورگن تو حرم کے روپ میں ایش کو پا کر خوش تھے۔۔ حرم یہ بات کسی کو نہیں بتانا چاہتی تھی۔۔ 

کیونکہ کچھ راز، راز ہی رہیں تو اچھا ہوتا ہے۔۔ 

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تین ماہ گزر چکے تھے۔۔ سمعان نے ایش کو بہت ڈھونڈا۔۔ ماٸیک نے بھی ڈھونڈا لیکن وہ نہیں ملی۔۔۔ اسے ملنا ہوتا تو وہ ملتی نا۔۔ 

وہ خود تو چلی گٸ تھی ساتھ پیلس تو کیا پورے ٹاٶن کی رونق اپنے ساتھ لے گٸ تھی۔۔ مسٹر پارکر اور ارد گرد کے دیگر لوگ حیران تھے کہ ایش کا گھنٹا نہیں بجتا اب۔۔ 

گرینی بیمار رہنے لگی تھیں۔۔ وہ ایش کو یاد کرتی تھیں۔۔ لیکن اپنے بیٹے کی ضد کے آگے مجبور تھی۔۔ مسز ولیم بھی ایش کو بہت یاد کرتی تھی۔۔ آخر کو ایش انکی اکلوتی بیٹی تھی۔۔

لیکن مسٹر ولیم اپنی ضد پر اڑے رہے۔۔انکی وجہ سے کوٸ ایش کا نام پیلس میں نہیں لیتا تھا۔۔

سمعان نے اسے دیکھنے کی بہت دعائيں مانگی تھی۔۔ مگر وہ تو ناجانے روما چھوڑ گٸ تھی۔۔ کبھی پلٹ کر دیکھا ہی نہیں۔ ماٸیک بھی اکثر اسکے پاس آجاتا تھا کہ شاید ایش اس سے ملنے آٸ ہو۔۔ مگر نہں۔۔ اسے آنا ہی نہیں تھا۔۔ تو پھر وہ کیوں آتی۔۔

اس دن سمعان ایک چیک دینے مسٹر احمد کے اولڈ ہاٶس گیا تھا۔۔وہ اولڈ ہاٶس کا جاٸزہ لینے کے بعد مسٹر احمد کے ساتھ پارکنگ کی طرف جا رہا تھا جب اچانک اسکی نظر ایک نفوس پر پڑی۔۔ اور پھر پلٹنا بھول گٸ۔۔ 

سلیکے سے ڈوپٹہ سر پر جماۓ شال کو کندھوں پر لپیٹے۔۔ ٹخنوں تک آتی سفید فراک پہنے وہ کوٸ پری زاد معلوم ہو رہی تھی۔۔ سمعان نے اپنا چشمہ اتار کر اسے گھور سے دیکھا۔۔ مگر اسکی آنکھیں دوکھا نہیں کھا سکتی تھیں۔۔ 

وہ ایش ہی تھی۔۔ مسکراتی۔۔ کسی سے بات کرتی۔۔ شاید وہ کچھ سمجھا رہی تھی۔۔

مسٹر حیدر کیا ہوا۔۔ مسٹر احمد نے سمعان کو دماغی طور پر غیر حاضر پایا تو پوچھا۔۔ 

لیکن سمعان کو ہوش کہاں تھا۔۔ اسے ہر چیز سلو موشن میں نظر آ رہی تھی۔۔

مسٹر احمد نے سمعان کی نظروں کا تعاقب کیا تو اسے پتا چلا کہ وہ ایش کو دیکھ رہا ہے۔۔

آر یو اوکے۔۔؟؟ اب کی بار انہوں نے سمعان کو کندھے سے پکڑ کر ہلایا۔ 

ہن۔۔ ہاں جی۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔ اوکے پھر ملتے ہیں۔۔ وہ اس سے مصاحفہ کرتا آگے بڑھ گیا۔۔ کیونکہ ایش بھی وہاں سے جا چکی تھی۔۔ 

وہ تین مہینوں سے جس لڑکی کیلیۓ مارا مارا پھر رہا تھا وہ اسے ملی بھی تو کہاں۔۔ ہر تین ماہ بعد وہ اس اولڈ ہاٶس میں چیک دینے آتا تھا۔۔ درمیان میں وہ وہاں چکر ضرور لگاتا رہتا تھا۔۔اس بار وہ زیادہ بزی تھا۔۔اس لیۓ پورے تین ماہ بعد آیا تھا۔۔ اور اسے ایش مل گٸ۔۔ 

کاش میں یہاں پہلے آیا ہوتا۔۔۔ وہ گاڑی ڈرائيو کرتے سوچ رہا تھا۔۔اسکی حالت ٹھیک نہیں رہی تھی ایش کو دیکھ کر اس لیۓ اسے وہاں سے بھاگنا پڑا۔۔ نیکسٹ اسے کیا کرنا ہے وہ یہ سوچ رہا تھا۔۔

         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سارا کام ٹھیک طریقے سے ہونا چاہیۓ میری۔۔ سمجھ رہی ہو نا۔۔ میں نہیں چاہتی آپی عاٸشہ یا احمد بھاٸ کو کوٸ شکایت ہو۔۔ایش اسے سمجھا رہی تھی۔۔

ڈونٹ وری میم۔۔ ہر چیز پرفیکٹ ہوگی۔۔ 

اولڈ ہاٶس کیلیۓ چیریٹی شو کیا جا رہا تھا۔۔وجہ وہاں موجود بوڑھے نفوس بھی خوش ہوجاتے اور اولڈ ہاٶس کیلیۓ انہیں مدد بھی مل جاتی۔۔

کیسے ہیں مسٹر ایلڈ۔۔ ایش نے ایک روم میں آنے کے بعد وہاں موجود بوڑھے آدمی سے پوچھا۔۔

میں ٹھیک ہوں ایش۔۔ ایشور تمہیں ہر خوشی دے۔۔ وہ مسکراۓ۔۔ ایش سب کا دل لگاۓ رکھتی تھی۔۔ 

ایشور نہیں مسٹر ایلڈ خدا کہیں۔۔ دل کو سکون ملتا ہے۔۔ ایش نے مسکرا کر کہا۔

ایش دیکھو یہ ایلڈ مجھے بہت تنگ کر رہا تھا۔۔ تمہارے آنے سے پہلے۔۔۔ ساتھ والے بیڈ پر موجود بوڑھے آدمی نے ایش سے ایلڈ کی شکایت کی۔۔

کیو مسٹر ایلڈ۔۔ میرے دادا جی کو تنگ کیوں کر رہے ہیں آپ۔۔؟؟ ایش نے مصنوعی غصے سے پوچھا۔۔

ایش کیا تم نے کبھی محبت کی ہے۔۔؟؟ اچانک ایک اور بزرگ نے سوال کیا۔۔ جو مسلم تھا۔۔ جسکا نام علوی تھا۔۔

اس سوال پر ایش کا رنگ فق ہوا تھا۔۔ ان تین مہینوں میں اسکی زندگی پوری بدل گٸ تھی۔۔ وہ یہاد موجود ہر شخص کی جان بن گٸ تھی۔۔ وہ خود ساری بدل گٸ تھی۔۔ اسکی عادتیں بدل گٸ تھیں۔۔ اگر کچھ نہیں بدلا تھا تو وہ اسکی سمعان سے محبت۔۔ وہ اسے یاد کرنا نہیں بولی تھی۔۔ اسکی زندگی کے ایک ایک پل میں وہ بستا تھا۔۔

بتاٶ نا ایش۔۔ کمرہ کافی بڑھا تھا۔۔ اور ایک کمرے میں چار بیڈ لگے تھے۔۔ وہ چاروں ایش کی طرف متوجہ تھے۔۔ 

آپ لوگ ایسا کیوں پوچھ رہے ہیں۔۔۔؟؟ ایش زبردستی مسکراٸ۔۔

کیونکہ آج مجھے اپنی ٹین ایج کی محبت یاد آٸ ہے بہت۔۔ ایش جس کو دادا جی کہتی تھی اس نے بتایا۔ اور ایش مسکرادی۔۔ 

محبت تو سبھی کرتے ہیں نا دادا جی۔۔ محبت ہر کسی کو مل جاۓ یہ ضروری تو نہیں ہوتا۔۔ایش نے کھوۓ کھوۓ سے لہجے میں کہا۔

وہ چاروں چپ کر گۓ۔۔شاید انہوں نے بھی اپنی محبت کھوٸ تھی۔۔ 

اب آپ لوگ آرام کریں مجھے تھوڑا سا کام ہے میں وہ کر کے آتی ہوں۔۔ ایش کہتے ہوۓ وہاں سے اٹھ گٸ۔۔

اس نے کاریڈور سے گزرتے ہوۓ اپنی شال کو مزید اپنے اوپر لپیٹا۔۔ سردیوں کی آمد ہو رہی تھی۔۔ 

وہ اداس ہو گٸ تھی۔۔ وہ آہستہ آہستہ قدم بڑھا رہی تھی۔۔اولڈ ہاٶس میں موجود شور اب آہستہ آہستہ کم ہو رہا تھا۔۔

من میرا ماٹی کا دیا 
نا ٹوٹے نا جڑتا ساٸیں۔۔

سو سو دیے جلا کر ہاری
پریت کا در نا کھلتا ساٸیں۔۔

چاہت چاہت کرتی پھرتی
چاہت بیج نا پھلتا ساٸیں۔۔

تیری دھوپ کی چھاٶں نرالی
شب سورج نا ڈھلتا ساٸیں۔۔

عشق کا روگ لگا کر بیٹھی
من شیشہ نا دھلتا ساٸیں۔۔

بات کہی اور مان گنوایا
مان کبھی نا جڑتا ساٸیں۔۔

تو چاہے من مندر کردے
چاہے پھیر دے قبلہ ساٸیں۔۔

تو چاہے تو پتھر کردے 
چاہے موم پگھلتا ساٸیں۔۔

دنیا تیری ریشم دھاگہ
رستوں بیچ الجھتا ساٸیں۔۔

مجھ الجھی کو
سلجھا کردے۔۔۔۔۔

تو واحد تو یکتا ساٸیں۔۔ 
تو واحد تو یکتا ساٸیں۔۔

وہ سیڑھیاں اترتی اولڈ ہاٶس سے گزتی اب اپارٹمنٹس کی طرف جارہی تھی۔۔ جو وہاں موجود سٹوف کے رہنے کیلیۓ تھے۔۔ جب سے ایش نے یہ جاب سٹارٹ کی تھی۔۔ وہ انہی میں سے ایک اپارٹمنٹ میں رہتی تھی۔۔ 

آج پھر وہ اسے شدت سے یاد آیا تھا۔۔ اور آج ہی پھر اس نے شدت سے اللہ کو یاد کیا تھا۔۔

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حورعین سارا دن پریشان رہی تھی وجہ اسد تھا۔۔ وہ اسے کتنی بار کال کر چکی تھی۔۔ مگر اس نے ایک بار بھی ریسیو نہیں کی۔۔ اسکا نمبر بزی جا رہا تھا۔۔ اور اوپر سے اسکا میسج۔۔ جس میں اس نے حورعین کی برتھ ڈے کو ریسٹورینٹ میں سیلیبریٹ کرنے کی اطلاع دی تھی۔۔ اور اسے یہ کہا تھا کہ وہ شرجیل کے ساتھ وہاں آ جاۓ۔۔ 

مگر وہ شرجیل کے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھی۔۔ وہ یہ بات اسد سے کرنا چاہتی۔۔ مگر اسکا نمبر ملتا تب نا۔ اور نمبر کیسے ملتا۔۔؟؟ شہرین اسے بلاک لسٹ میں ڈال چکی تھی۔۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا ہے آنی کہ کسی لڑکی نے زی کو شاکڈ کیا ہو۔۔ وہ لڑکی۔۔ وہ حرم نور۔۔۔ وہ عام سی دکھتی ہے آنی مگر وہ عام نہیں ہے۔۔ 

بہت پراسرار سی ہے۔۔ جمی کو لگتا ہے وہ جادوگرنی ہے۔۔ زی جمی کی بات کو یاد کرکے خود ہی ہنس دی۔۔ 

 اچھاااا ایسا کیا خاص کام کیا ہے اس نے جو زی شاکڈ ہو گٸ ہے۔۔ ؟ آنی نے پوچھا۔۔ وہ دونوں ٹیرس پر کھڑی تھیں۔۔ 

زی کی نیلی آنکھیں کسی سوچ میں ڈوبی تھی۔۔ اسکے خوبصورت بال ہوا چلنے کے باعث اڑ اڑ کر اسکے چہرے کو چھو رہے تھے۔۔ 

پروفیسر مورگن اس سے امپریس ہو گۓ ہیں۔۔ وہ انکی لیب میں گٸ تھی اور انہوں نے حرم کو کچھ بھی نہیں کہا۔۔

ایسا کیا ہے آنی اس میں جو وہ لوگوں کے دل جیت لیتی ہے۔۔ ؟؟ 

یہ تو میں اس لڑکی سے ملنے کے بعد ہی بتا سکتی ہوں۔ میں نے تو ابھی تک اسے دیکھا بھی نہیں۔۔ آنی نے جواب دیا۔

کبھی کبھی مجھے لگتا ہے آنی جیسے اسکی زات کے گرد کچھ لپٹا ہے۔۔ جیسے کسی کا پہرہ ہے۔۔ جیسے کوٸ چیز اسکی حفاظت کرتی ہے۔۔ وہ رون کے قہر سے اکثر بچ جاتی ہے۔۔ ایسا کیا ہے اس میں آنی جو سامنے ہو کر بھی پوشیدہ ہے۔۔؟؟ 

بس کرو زی تمہاری باتیں سن کر مجھے بہت سسپنس ہو رہا ہے۔۔ میرا دل بھی کر رہا ہے کہ میں اس لڑکی کو دیکھوں۔۔ آنی نے صاف گوٸ سے کہا۔۔

اور زی کیسے بتاتی کہ وہ ہر روز اسے خواب میں دیکھتی ہے۔۔ ناجانے کیوں۔۔وہ ا س سے شدید نفرت کرنا چاہتی ہے۔۔ پر کر نہیں پا رہی۔۔ 

ہر روز کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ زی چونک جانے پر مجبور ہو جاتی ہے۔۔ 

نہیں آنی۔۔ مجھے بھی وہ سایہ وہ چیز چاہیۓ جو اسکے گرد لپٹی ہے۔۔ وہ چیز جس کا حرم پر سایہ ہے۔۔۔ وہ کچھ انمول سا ہے آنی۔۔ میں چاہ کر بھی اسے دیکھ نہیں پا رہی۔۔ لیکن میں جلد ہی جان جاٶں گی۔۔۔ زی کے لہجے میں اعتماد تھا۔۔۔ آنی بس دیکھ کر رہ گٸیں۔۔ 

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حرم۔۔ فرہاد نے اسے پکارہ تھا۔۔۔ وہ لاٶنج میں موجود گھر کے پچھلے جانب کھلنے والی ونڈو کے سامنے کھڑی تھی۔۔ عموماً حرم اس وقت پڑھتی تھی مگر آج وہ وہاں کھڑی تھی۔۔ 

جی۔۔۔ وہ جیسے چونکی۔۔ 

یہاں کیوں کھڑی ہو۔۔؟؟

ویسے ہی۔۔ 

نہیں ویسے ہی نہیں۔۔ کیا سوچاجا رہا ہے۔۔؟؟ وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔۔ 

اور حرم مسکرادی۔۔۔ وہ واحد شخص تھا جو حرم کو اندر تک پڑھ لیتا تھا۔۔ 

ہادی آپ کیسے جان لیتے ہیں کہ میں کب کچھ سوچ رہی ہوتی ہوں۔۔ حرم نے مسکرا کر پوچھا۔۔

اور وہ اسے کیا بتاتا کہ جب وہ اس سے میلوں دور تھی۔۔ تب بھی وہ اسکی تڑپ کو محسوس کر لیتا تھا۔ تو سامنے ہو کر کیسے نا جان پاتا۔۔؟؟

میں ایک کال کر کے آتا ہوں۔۔ پھر بات کرتے ہیں۔۔ وہ مسکراتا باہر کی طرف بڑھ گیا۔۔

تبھی حرم کے موبائل نے واٸبریٹ کیا تھا۔۔ 

کوٸ وعدہ نہیں ہم میں۔۔۔
نہ آپس میں بہت باتیں۔۔ 

نا ملنے میں کوٸ شوخی۔۔ 
نا آخرشب منا جاتیں۔۔ 

مگر اک ان کہی سی ہے۔۔
جو ہم دونوں سمجھتے ہیں۔۔

عجب سرگوشی سی ہے۔۔
جو ہم دونوں سمجھتے ہیں۔۔

یہ سارے دلربا منظر۔۔
طلسمی چاند راتیں۔۔

سنہری دھوپ کے موسم۔۔
یہ ہلکی سکھ کی برساتیں۔۔

سبھی اک ضد میں رہتے ہیں۔۔
مجھے اکثر یہ کہتے ہیں۔۔ 

محبت یوں ہی اچھی ہے۔۔
محبت یوں ہی اچھی ہے۔۔

             داستان_محبت۔۔

حرم کسی ٹانس کے زیر اثر وہ پوٸٹری پڑھی رہی تھی۔۔ آخر میں لکھا داستان محبت کا نام پڑھ کر اسکی پیشانی پر سلوٹیں ابھریں۔ 

           ❤❤❤❤❤
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔ 

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─