┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄
ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 38
پارٹ 2
جانے یہ کون پاگل شخص ہے۔۔ حرم کو عجیب سا احساس ہوا تھا۔۔
یقین نہیں ہوتا روما میں بھی لوگوں کے پاس ایسی حرکتیں کرنے کیلیۓ وقت ہوتا ہے۔۔ اتنی بزی لاٸف میں یہ شخص متواتر سے میسجز کر رہا ہے۔۔
کیا مجھے ہادی کو بتا دینا چاہیۓ۔۔۔؟؟ وہ سوچ رہی تھی۔
نہیں انہیں اتنی چھوٹی سی بات کیلیۓ کیوں پریشان کروں۔۔
حرم۔۔۔ فرہاد نے اسے پکارہ تھا۔۔
جی۔۔ وہ چونکی۔۔
کیا ہوا۔۔؟؟ کوٸ پرابلم ہے کیا۔۔؟؟ وہ اسکی خاموشی بھی سمجھ جاتا تھا۔۔
نہیں۔۔ وہ مسکراٸ۔
آٶ باہر چلتے ہیں۔۔ وہ اسے لے کر باہر لان میں آگیا۔۔ سردی تھوڑی کم ہوگٸ تھی۔۔ باہر چلتی ٹھنڈی ہواٸیں روح کو سکون بخش رہی تھیں۔
بیٹھ جاٶ۔۔ وہ اسے اپنے سامنے بٹھا چکا تھا۔۔
حرم فرہاد کے اس قدر کیٸر کرنے پر حیران ہوتی تھی۔۔
آج کل کچھ پریشان ہو۔۔؟؟ وہ سنجیدہ سا پوچھ رہا تھا۔
نہیں تو۔۔ وہ مکر گٸ۔
اونہوں۔۔ جھوٹ نہیں۔۔
جی بس اگزامز کی ٹینشن ہے۔۔
ٹینشن کیوں ہے تیاری نہیں ہے کیا۔۔؟؟
ہے تو۔۔ لیکن اتنی اچھی نہیں ہے کہ میں زی کو کمپیٹیٹ کر سکوں۔۔ آپ نہیں جانتے ہادی مجھ سے کمپیٹیشن سے نہیں پڑھا جاتا۔۔مجھے ایسا فیل ہوتا ہے جیسے کمپیٹیشن سے حسد پیدا ہوتا ہے دل میں۔۔ اور حسد کامیابی کو کھا جاتا ہے۔۔
اور میں اپنی کاميابی کو حسد کے ہاتھوں بھینٹ چڑھتے نہیں دیکھ سکتی۔۔
تو تم یہ بھول جاٶ کہ کوٸ کمپیٹیشن ہے تمہارا۔۔ نیوٹرل ہو کر پڑھو۔۔۔ بس خود پر فوکس کرو۔۔ کسی کی بات پر بھی دھیان مت دو۔۔ اور میں جانتا ہوں میری حرم کبھی کسی کی کاميابی سے جیلس نہیں ہو سکتی۔۔ فرہاد نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوۓ کہا۔
جی آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔۔۔ حرم نے مسکرا کر سر ہلایا۔۔
تو پھر۔۔۔؟؟
مجھے بہت سے ٹاپکس نہیں کلیٸر۔۔ بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔
میں تمہیں پڑھادوں۔۔ فرہاد نے مشورہ پیش کیا۔۔
آپ۔۔۔؟؟ حرم حیران ہوٸ۔۔
جی میں۔۔ ویسے تو میں ڈاکٹر ہوں لیکن یقین مانو ساٸنس کا مجھے کوٸ آٸڈیا نہیں۔۔ بس کبھی کبھی۔۔ فرہاد کے لہجے میں شرارت تھی۔۔ وہ جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑ گیا۔
ہادی۔۔۔۔۔ حرم اسکی بات سمجھ گٸ تھی۔۔ بس کریں اب وہ تب مجھے یاد نہیں رہا تھا۔۔ حرم شرمندہ ہو گٸ تھی۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔ فرہاد کا قہقہہ ابھرا۔۔ڈونٹ وری مزاق کر رہا تھا۔۔
راج ہنس کی اس جوڑی کو کبھی کبھی اس طرح اکٹھے ہونے کا موقع ملتا تھا۔۔ اور جب وہ دونوں ایک ساتھ ہوتے تھے تو ہر چیز مکمل ہو جاتی تھی۔۔ کیونکہ وہ دونوں مکمل ہو جاتے تھے۔۔ انکا رشتہ ہی ایسا تھا۔۔ اللہ پاک نے ان دونوں کو ایک دوسرے کو مکمل کرنے کیلیۓ بنایا تھا۔۔
آدم اور ہوا کا صدیوں پرانا ساتھ تھا۔۔ اور صدیوں تک اسے رہنے تھا۔۔
ایک بات کہوں ہادی۔۔
ہمممم کہو۔۔۔
آپ بہت اچھے ہیں۔۔
مکھن لگایا جا رہا ہے۔۔وہ مسکرایا۔۔
نہیں۔۔ وہ بھی مسکرا دی۔۔
کبھی کبھی آپ مجھے اپنے جیسے لگتے ہیں۔۔ وہ کہہ نا سکی
میں تمہارے لیۓ ہی تو بنا ہوں۔۔اس لیۓ تمہارے جیسا بنایا گیا ہوں۔۔ وہ کہہ گیا۔۔ وہ اسکے دل کی بت سن چکا تھا۔۔
آپ۔۔کیسےجان لیتے ہیں جو میں سوچتی ہوں۔۔؟؟ وہ حیران ہوٸ۔۔
وہ مسکرادیا۔۔۔ پیاری سی مسکراہٹ۔۔۔ جو حرم کو مسمراٸز کرتی تھی۔۔
اگر تمہارے دل کی دھڑکن نہیں سنوں گا تو کس کی سنوں گا۔۔ اور ویسے بھی میں ڈاکٹر ہوں۔۔ ہارٹ بیٹ اچھے سے سن لیتا ہوں۔۔ بات کے آخر میں اسکا لہجہ ہمیشہ شرارتی ہو جاتا تھا۔
ہادی۔۔۔۔ حرم بس اتنا ہی کہہ پاٸ۔۔
جی ہادی کی جان۔۔ وہ کہنا چاہتا تھا۔۔ مگر کہہ نا پایا۔۔
جی۔۔۔ جی۔۔۔ وہ مسکرایا۔۔
چاۓ۔۔۔؟؟
فرہاد جو کسی اچھی سی بات کی امید کر رہا تھا چاۓ کا سب کر اچھلا۔۔
اتنے اچھے موسم میں بھی تمہیں چاۓ کی پڑی ہے۔۔
ہاں تو اور کیا۔۔ مجھے نشا لگ گیا ہے آپکے ہاتھ کی چاۓ کا۔۔ نا پیوں تو رات کو جیسے نیند ہی نہیں آتی۔۔۔
لو جی حرم میڈم کے کام ہی الٹے تھے۔۔ لوگ نیند بگانے کیلیۓ چاۓ پیتے ہیں۔۔ اور وہ اس لیۓ پیتی تھی کہ نیند آ جاۓ۔۔
تم پاگل ہو حرم۔۔۔ وہ مسکرایا۔۔
تھینکس۔۔ میری تعریف بعد میں کیجیۓ گا پہلے چاۓ بناٸیں۔۔ حرم نے حکم دیا۔۔
جو آپکا حکم۔۔۔ وہ مسکراتے ہوۓ اٹھ کھڑا ہوا۔۔
چلو اندر۔۔
میں یہیں بیٹھی رہتی ہوں۔۔
نہیں اندر چلو۔۔ میں یہاں تمہیں اس وقت اکیلے نہیں بیٹھنے دے سکتا۔۔ وہ سنجیدہ سا کہہ رہا تھا۔۔
اور حرم ضد کیۓ بنا اٹھ گٸ۔۔ جہاں وہ شخص ہوتا تھا اسے وہاں رہنا اچھا لگتا تھا۔۔ مضبوط پناہ محسوس ہوتی تھی۔۔ وہ اسکے ساتھ ہی اندر آ گٸ۔۔
یہاں بیٹھو میں پانچ منٹ میں چاۓ بنا کر لاتا ہوں۔۔ وہ کہہ کر کچن کی طرف مڑ گیا۔۔
حرم کی نگاہیں اسکی پشت پر جمی تھیں۔۔
مجھے محسوس ہوتا ہے۔۔
وہ بالکل میرے جیسا ہے۔۔
کہ جیسے عکس پانی میں۔۔
یا سایہ روبرو میرے۔۔
وہی لہجہ وہی، وہی باتیں۔۔
وہی آنکھوں سے ہنس دینا۔۔
کبھی جو روٹھنا تو
بے رخی کی حد ہی کر دینا۔۔
کبھی آنکھوں کے رستے سے
کہیں دل میں اتر جانا۔۔
کبھی بےچین رکھنا خود کو
مجھ کو بھی سزا دینا۔۔
کبھی تو برف سا لہجہ
نگاہ سا سرد کر لینا۔۔
کبھی تتلی سے سارے رنگ
میرے دامن میں بھر دینا۔۔
مجھے اکثر یہ لگتا ہے
وہ بالکل میرے جیسا ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حورعین اسد کا نمبر ملا ملا کر تھک چکی تھی۔۔ مگر نمبر مسلسل بزی جا رہا تھا۔۔ وہ پریشان ہوگٸ تھی۔۔ آج اسکا برتھ ڈے تھا۔۔اتنا سپیشل دن تھا لیکن وہ پتا نہیں کہاں تھا۔
چلیں حورعین۔۔ شرجیل بار بار اسکے پاس آ رہا تھا۔۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اسد نے اسے کہا ہے کہ وہ حورعین کو لے کر ریسٹورینٹ میں آ جاۓ۔۔
لیکن حورعین کا دل نا جانے کیوں آج ڈر رہا تھا۔۔اسے عجیب سا احساس ہو رہا تھا۔
میری اسد سے بات نہیں ہو رہی۔۔ میں ان سے بات کرنا چاہتی ہوں پہلے۔۔ پلیز آپ ایک بار میری ان سے بات کروادیں۔۔ حورعین نے شرجیل کی منت کی۔
اسد کے نمبر سے جواب نہیں مل رہا۔۔ اسے کوٸ ضروری کام تھا آج۔۔ شاید اسی چکر میں پھنسا ہوا ہے۔۔ ویسے اگر آپکو یقین نہیں ہورہا تو یہ میسج دیکھ لیں۔۔ مجھے اسد نے کیا ہے۔۔ شرجیل نے اپنا موبائل اسکے سامنے کیا۔
وہ نمبر اسد کا ہی تھا۔۔ جس میں اس نے شرجیل کو یہ کہا تھا کہ وہ حورعین کو لے کر ریسٹورینٹ پہنچ جاۓ۔
ادھر اسد حورعین کو کال اور میسجز کر کر کے تھک چکا تھا۔۔ مگر اس نے ایک بھی ریپلاۓ نہیں تھا۔۔ وہ آفاق تایا کے ساتھ تھوڑا مصروف تھا۔۔ مگر اس نے رات کو حرم کو سرپراٸز دینے کا پلان بنایا ہوا تھا۔
آفاق تایا اسے اپنی فیکٹری لے گے تھے۔۔ اس لیۓ وہ اس قدر بزی ہو گیا تھا کہ یہ سوچ ہی نا پایا کہ حورعین کبھی ایسا نہیں کرتی۔۔ تو پھر آج کیوں۔۔؟؟
تو پھر چلیں۔۔۔؟؟ شرجیل نے ایک بار پھر پوچھا۔۔
یونيورسٹی سے چھٹی کو ایک گھنٹا گزر گیا تھا۔۔ اور حورعین اسی کشمکش میں تھی کہ وہ شرجیل کے ساتھ جاۓ یا نا جاۓ۔۔
کچھ سوچتے ہوۓ بالآخر اس نے اثبات میں سر ہلادیا اور شرجیل کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گٸ۔۔
حورعین آگے چل رہی تھی۔۔ شرجیل نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔ پیچھے ایک لڑکی کھڑی اسے ویلڈن کا اشارہ کر رہی تھی۔۔ یہ تھی حورعین کی دوست۔۔ صرف نام کی دوست۔۔ لیکن دل میں وہ حورعین کیلیۓ بغض رکھتی تھی۔۔۔ اور آج اسے یہ بغض باہر نکالنے کا موقع مل گیا تھا۔۔ صبح یونيورسٹی آتے ہی اس نے حورعین کا موبائل لیا تھا۔۔ اور پھر اس نے اسد کا نمبر بلاک کیا۔۔ تبھی حورعین اور اسد ایک دوسرے کو کنٹیکٹ نہیں کر پا رہے تھے۔۔
شرجیل کا مقصد پورا ہونے جار رہا تھا۔۔ اسکی آنکھوں میں شیطانی مسکراہٹ دھوڑ رہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایش رات کو سو نہیں پاٸ تھی۔۔ سمعان کیا یاد آیا اسے اپنے گھر والے سبھی یاد آگۓ تھے۔۔ اسے پچھلی ایک ایک بات یاد آگٸ تھی۔۔ پچھلے تین ماہ سے اس نے اپنے آپ کو اتنا بزی کرلیا تھا کہ سارا دن اولڈ ہاٶس میں بزی رہنے کے بعد وہ تھک جاتی تھی۔۔ یادوں سے بھاگنے کیلیۓ اس نے خود کو اس قدر مصروف کرلیا تھا۔۔ لیکن جیسے ہی وہ آنکھیں بند کرنے کے بعد بستر پر لیٹتی تھی۔۔ چھم سے سمعان کا چہرہ اسکے سامنے آ جاتا تھا۔۔اور پھر یادوں کا زہر اسکی رگ رگ میں اترنا شروع ہو جاتا تھا۔
ابھی بھی وہ چیٸر پر آنکھیں موندے لیٹی تھی جب اچانک اسکے موبائل پر بیل ہوٸ تھی۔۔
ایش چونکی تھی۔۔ نمبر دیکھا تو عاٸشہ کی کال تھی۔۔
اسلام علیکم آپی۔۔ ایش نے مسکرا کر جواب دیا۔۔ان تین مہینوں میں عاٸشہ اور اسکی فیملی ایش کی سب کچھ بن گٸ تھی۔۔
وعلیکم اسلام۔۔
میں تم سے بہت ناراض ہوں ایش۔۔۔
ہاٸیں۔۔ پر کیوں۔۔ ایش حیران ہوٸ۔۔
تم تو اپنی آپی کو بھول ہی گٸ ہو۔۔ تمہارے لیۓ سب کچھ اب اولڈ ہاٶس ہے۔۔ ہم کچھ نہیں لگتے تمہارے۔۔ عاٸشہ شکوہ کر رہی تھی۔۔ اسکی آواز میں واضح ناراضگی تھی۔۔ ایش مسکرادی۔۔
ایسی بات نہیں ہے آپی۔۔
ایسی ہی بات ہے۔۔ اگر ایسی بات نہیں ہے تو پھر آٸ کیوں نہیں گھر۔۔
آج تھوڑا کام زیادہ تھا۔۔ صبح آٶں گی ان شاء اللہ۔۔
روز تم یہی بہانہ لگاتی ہو۔۔ جانتی ہوں تمہار اولڈ ہاٶس سے باہر نکلنے کو دل نہیں کرتا۔۔ عاٸشہ واقعی غصے میں تھی۔۔
اور سناٸیں آپکی طبیعت کیسی ہے۔۔ ایش نے بات بدلنا چاہی۔۔
میں تو ٹھیک ہوں لیکن گل تم سے بہت ناراض ہے۔۔ آج اسے بخار تھا۔۔ اس نے تمہیں بہت یاد کیا۔۔
کیا۔۔ گل کو بخار تھا۔۔۔ ایش ایک دم سیدھی ہوٸ۔۔
لیکن احمد بھاٸ نے تو مجھے نہیں بتایا۔۔
میں نے انہیں منع کیا تھا۔۔ تم بلاوجہ پریشان ہوتی۔۔ لو بات کرو گل سے۔۔ عاٸشہ نے فون گل کو پکڑایا۔
ہیلو۔۔ گل کیسی ہو میری پرنسز۔۔؟؟ ایش نے پیار سے پوچھا۔۔ چھ سالہ گل میں اسکی جان بسنے لگی تھی۔۔
میں آپ سے بہت ناراض ہو آنی۔۔ گل نے منہ بنایا۔۔
لیکن کیوں۔۔ آنی کی پرنسز آنی سے ناراض کیوں ہے۔۔؟؟ ایش کو گل کے اس طرح منہ پھلانے پر ہنسی آٸ تھی جسے وہ دبا گٸ۔
آپ آٸیں نہیں۔۔
میں صبح آٶنگی۔۔ ایش نے کہا۔
پکا پرامس۔۔؟؟
جی پکا پرامس۔۔۔ ایش مسکرادی۔۔
کافی دیر وہ گل سے بات کرتی رہی تھی۔۔ اسکا زہن کافی بھٹک گیا تھا۔۔ اور پھر اسکے بعد وہ نیند کی وادیوں میں اتر گٸ تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ شرجیل کے ساتھ کافی دیر سے ریسٹورینٹ میں بیٹھی تھی مگر اسد نہیں آیا تھا۔۔
شرجیل بھاٸ اسد نہیں آۓ ابھی تک۔۔؟؟ حورعین نے پریشان ہوتے ہوۓ پوچھا۔ اسکا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔اسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔
سر یہ روم کی Key ہے۔۔
ابھی شرجیل نے کوٸ جواب بھی نہیں دیا تھا کہ اچانک ایک ویٹر نے ایک روم کی key شرجیل کے سامنے رکھتے ہوۓ کہا۔
روم۔۔کک۔۔ کس لیۓ۔۔ ؟؟ حورعین دنگ رہ گٸ۔
ویٹر واپس چلا گیا۔
یہ روم اسد نے بک کروایا تھا۔۔ اس نے روم میں سبھی ارینجمینٹس کی ہوٸ ہیں۔۔
نہیں۔۔ اسکی کوٸ ضرورت نہیں ہے۔۔ چلیں شرجیل بھاٸ گھر چلتے ہیں۔۔ مجھے مزید یہاں نہیں ٹہرنا۔۔ حورعین ایک دم کھڑی ہوگٸ۔۔ روم کا نام سن کر وہ ڈر گٸ تھی
ریلیکس حورعین بیٹھ جاٶ۔۔اسد آتا ہی ہوگا۔۔
نہیں۔۔ مجھے نہیں بیٹھنا ۔۔ مجھے گھر جانا ہے اور میں جا رہی ہوں۔۔
اچھا بات سنو۔۔ شرجیل نے اسے روکا۔
ایک نظر دیکھ تو لو روم کو۔۔ اسد نے اتنی محنت کی ہے۔۔ اسے کتنا برا لگے گا جب اسے پتا چلا گا کہ حورعین نے اسکی محنت کو اک نظر دیکھا بھی نہیں۔۔
حورعین کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔
لیکن شرجیل بھاٸ امی گھر میرا انتظار کر رہی ہیں۔۔
کوٸ بات نہیں حورعین گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔میں سب سنبھال لونگا۔۔ بس تم ایک نظر دیکھ لو پھر جیسا تم چاہو گی ویسا ہی ہوگا۔۔
جی ٹھیک ہے۔۔۔ حورعین نے ناچاہتے ہوۓ بھی ہاں بھری۔
کیز اٹھانے کے بعد وہ روم کی طرف آٸ تھی۔۔ روم اوپن کرنے کے بعد اسے بہت حیرانگی ہوٸ تھی۔۔ کمرہ بہت اچھے سے ڈیکوریٹ تھا۔۔
وہ ٹرانس کی کیفیت میں اندر داخل ہوٸ۔۔ کمرے کا اچھے سے جاٸزہ لینے کے بعد اسکے چہرے پر ۔سکراہٹ پھیل گٸ۔۔ اس نے موبائل نکال کر اسد کا نمبر ملایا۔۔ مگر وہ بزی جا رہا تھا۔۔
وہ کمرے کی ونڈو میں آگٸ۔۔ کچھ سوچتے ہوۓ وہ باہر دیکھ رہی تھی۔۔ اچانک اسے عجیب سا احساس ہوا۔۔ وہ پلٹی اور پھر پاس ہی کھڑے شخص سے ٹکرا گٸ۔۔
آپ۔۔ یہاں۔۔ وہ شرجیل تھا جو دبے پاٶں کمرے میں آیا تھا۔۔ اسے دیکھ کر حورعین کے چہرے پر واضح ناگواری پھیلی۔
وہ حورعین اسد کی کال آٸ ہے۔۔اسکی طبیعت کافی خراب ہے۔ وہ گھر ہے۔۔ ہمیں وہیں جانا ہوگا۔۔
کک۔ کیا ہوا یے اسد کو۔۔۔ حورعین سب کچھ بھول گٸ۔۔
پتا نہیں۔۔ بس ہمیں جانا ہے۔۔
جی جلدی چلیں۔۔ حورعین نے باہر کی طرف قدم بڑھاۓ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفاق تایا کام کے سلسلے میں اسلام آباد گۓ تھے۔۔ اسد نے فوراً گھر آنے کے بعد تیاریاں شروع کی تھیں۔۔ اسکے پورے ڈراٸنگ روم کو بہت اچھے سے ڈیکوریٹ کیا تھا۔۔ شہرین نے بھی خوشی خوشی اسکی مدد کی تھی۔۔ نفیسہ تاٸ بھی خاموش تھیں۔۔ کیونکہ کچھ دیر بعد جو وہاں ہونے جا رہا تھا وہ نفیسہ تاٸ کیلیۓ کافی تھا۔۔
ویسے اسد بھاٸ آپکی حورعین سے بات ہوٸ۔۔؟؟ شہرین نے بات شروع کی۔
نہیں صبح سے نہیں ہوٸ۔۔میں نے بہت بار ٹراۓ کیا مگر اسکا نمبر آف ہے۔۔
اووو اچھا تو آپ چچی کے نمبر پر کال کر لیں۔۔ حورعین گھر ہوگی آپکی بات ہو جاۓ گی۔۔
اسد کو شہرین کی بات درست لگی تھی۔۔ اس نے کچھ سوچتے ہوۓ صابرہ خاتون کا نمبر ملایا۔۔
لیکن وہاں سے اسے جو خبر ملی وہ حیران رہ گیا۔۔
حورعین ابھی تک گھر نہیں گٸ تھی۔۔
موسم خراب ہے۔ اس موسم مٕں وہ کہاں ہوگی۔۔؟؟اسد پریشان ہو گیا۔۔
چھوٹے صاحب۔۔ یہ باہر کوٸ آپکے لیۓ دے کر گیا ہے۔۔ ملازم نے اسے ایک بڑا سا انویلپ لا کر دیا تھا۔۔
یہ کیا ہے۔۔؟؟ اسد نے اسے الٹ پلٹ کر دیکھا۔۔۔ اس پر اسد کا ہی نام لکھا تھا۔۔
کچھ سوچتے ہوۓ اس نے اس انویلپ کو کھولا۔۔ اندر سے جو نکلا تھا۔۔ اسے دیکھ کر اسد کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گٸ تھیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Walk with me,
I have a long way to go..
It is a very horrible way..
It is full of troubles
i want to go straight..
You should help me..
So please walk with me,
i have a long way to go..
There is a silence on my way...,
There is a darkness on my way..,
I am afraid of darkness
I am afraid of the ghoost
I am afraid of the Devil..
present on my way..
You should become a
light for my eyes..
You should become a guider for me..
So,
walk with me..
I have a long way to go.....!!!
میم آپسے ملنے کوٸ آیا ہے۔۔
وہ انہماک سے ڈائری لکھ رہی تھی جب میری نے آکر اسے بتایا۔۔ ایش چونکی۔۔ اس سے ملنے کون آ سکتا ہے بھلا۔
جب وہ اکیلی یا فارغ ہوتی تھی تو ایسے ہی ڈائری پر کچھ نا کچھ لکھنا شروع کر دیتی تھی۔۔
ٹھیک ہے میں آ رہی ہوں۔۔ شاید کوٸ شو کے سلسلے میں آیا ہو۔۔ایش نے سوچا۔۔ وہ اپنے آفس روم میں تھی۔۔
میری کے جانے کے بعد اس نے ڈائری بند کی۔۔ ٹیبل کے نیچے بنے لاکر میں رکھی۔۔ شال کو کندھوں پر اچھے طریقے سے لپیٹتے ہوۓ وہ اٹھی، فاٸل اٹھاٸ اور کمرے کا دروازہ کھولنے کے بعد سٹاف روم کی بڑھ گٸ۔۔
جیسے ہی اس نے سٹاف روم کا دروازہ کھولا۔۔ کوٸ شخص دوسری طرف چہرہ کر کے کھڑا تھا۔۔
جی۔۔۔ ایش نے کہا۔۔
اور وہ پلٹا۔۔
سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر وہ حیران رہ گٸ تھی۔۔ فاٸل اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر چکی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمزہ لیپ ٹاپ لے سامنے بیٹھا تھا۔۔ کوٸ پراجیکٹ جو وہ تیار کر رہا تھا۔۔
شکر ہے HD ہوگیا مکمل۔۔ ویسے یار ایچ ڈی تو بڑی کام کی چیز ہے۔۔ سب کچھ اکیلے ہی کرلیتا ہے ۔۔ وہ خود اپنی تعریفوں میں مگن تھا۔۔
وہ وہیں بیڈ پر لیٹ گیا۔۔ پھر کچھ سوچتے ہوۓ اٹھا اور لیپ ٹاپ پر ویڈیو سونگز لگا لیے۔۔ کچھ دیر وہ دیکھتا رہا پھر اٹھ کر واشروم کی طرف بڑھ گیا۔۔پورے کمرے میں میوزک کی آواز گونج رہی تھی۔۔
کچھ دیر بعد وہ واشروم سے نکلا تھا۔۔ ٹاول اسکے کندھے پر پڑا تھا۔۔ جیسے ہی واشروم کا دروازہ بند کرنے لگا اچانک اسکی کمر پر ٹھاہ کی آواز سے کوٸ چیز لگی۔۔ وہ کراہ کر پلٹا۔۔
اسکے بیڈ کے پاس دادو کھڑی جارحانہ تیور لیۓ اسے گھوم رہی تھی۔۔ اور انہی کی فلاٸنگ چپل حمزہ کی کمر پر لگی تھی۔۔
ناس مارے۔۔ نا شرم نام کی کوٸ چیز بچی ہے تجھ میں یا نہی۔۔؟دادو کی گرج دار آواز گونجی۔۔
اور HD صاحب جو کسی سے بھی نہیں ڈرتا تھا دادو کے سامنے اسکی بولتی بند ہو جاتی تھی۔۔
اچانک حمزہ کی نظر لیپ ٹاپ پر چلتے گانے پر پڑی۔۔ جسکی ویڈیو شرمناک تھی۔۔
وہ سارا معاملہ سمجھ گیا۔۔دادو نے وہ ویڈیو دیکھ لی تھی۔
وہ دادو۔۔ وہ میں۔۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا۔۔
اس کلموہے کو تو آج میں توڑ کر رہوں گی۔۔ دادو نے جھک کر اپنی دوسری چپل نکالی۔۔ اب کی بار وہ چپل اسکی جگہ لیپ ٹاپ کی شکل پر پڑنے والی تھی۔
حمزہ تڑپ کر آگے بڑھا۔۔
دادو اسکا کوٸ قصور نہی۔۔ حمزہ نےبھاگ کر اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا۔۔
قریب تھا کہ دادو کی چپل HDیا اسکے لیپ ٹاپ کو اپنا نظرانہ پیش کرتی وہ فوراً بول پڑا۔۔
دادو۔۔ اسکی کوٸ غلطی نہیں ہے۔۔ وہ خود ہی آن ہو گیا۔۔ میں ابھی بند کرتا ہوں۔۔ حمزہ نے فوراً لیپ ٹاپ بند کیا۔۔
انسان بن جاٶ حمزہ۔۔ نہیں تو میں گاٶں جا کر اپنی پوتی سے تیری شادی پکی کر آٶں گی۔۔ دادو نے سب سے بڑی وارننگ دی۔
نہیں دادو۔۔ حمزہ تو گاٶں کے نام پر تڑپ ہی گیا تھا۔۔ اسے اپنے چچا یا تایا زاد کزنز میں کوٸ انٹرسٹ نہیں تھا۔ دادو بھی گاٶں کی تھیں۔۔ وہی اسے جینے نہیں دیتی تھی۔۔اگر ایک اور گاٶں کی اس گھر میں آ جاتی تو حمزہ گھر سے باہر ہوتا۔۔
سوری دادو آٸندہ آپکو شکایت کا موقع نہیں دونگا۔۔
یہ جملہ روز سنتی ہوں میں۔۔ کتے کی دم بھی سیدھی ہو جاۓ لیکن یہ مجال ہے جو حمزہ صاحب سدھر جاۓ۔۔ دادو نے سارے حساب برابر کیۓ۔۔
حمزہ کو تو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ دادو کے خطابات پر وہ ہنسے یا روۓ۔۔ صد شکر کہ یونی کی کوٸ لڑکی یہاں پر موجود نہیں تھی ورنہ وہ تو بے ہوش ہی ہو جاتی۔۔
یونيورسٹی میں مشہور ہیکر HD کی گھر میں اس طرح سے عزت افزاٸ ہوتی تھی یہ دیکھ کر۔۔
اب یہ لنگور کی طرح منہ لٹکا کر کیوں کھڑے ہو۔۔؟
حمزہ نے مشکل سے اپنی ہنسی روکی۔۔
دس منٹ میں نیچے آ جاٶ کھانا تیار ہے میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔ دادو گرجدا آواز میں حکم دیتی چلی گٸیں۔۔
انکے جانے کے بعد حمزہ نے اپنا رکا ہوا سانس بحال کیا۔۔
وہ لیپ ٹاپ ساٸیڈ پر رکھنے کے بعد بیڈ پر لیٹ گیا۔ آج اسے عجیب سی بے چینی ہورہی تھی۔۔
بار بار حورعین کا خیال آ رہا تھا۔ دل اس سے بات کرنے کو کر رہا تھا مگر وہ کر نہیں سکتا تھا۔
نا جانے یہ بےچینی کیسی تھی۔۔
❤❤❤❤❤❤
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─