┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: لو_مان_لیا_ہم_نے
از: فاطمہ_خان
قسط_نمبر_16

"یہ تم صرف چاٹ مصالحہ کیوں اٹھا لائی ہوں گئی تم دونوں تھی پر مجال ہے جو کبھی کوئی ڈھنگ کا کام کر لیا ہوں"
شارق نے رانیہ کو چھاڑ پلائی 
"زیادہ شوخے بنے کی کوشش مت کروں تمہارے ہاتھ پاؤں تو سلامت ہے ناں جا کر لے آؤ اندار سے جو چاہئے"
اس نے لمحے میں شارق کو دو کھوڑی کا کر دیا تھا 
"شرم تو تم میں بلکل بھی نہیں ہے روما میری پیاری بہن جا کر زرا اندار باسکٹ اور چھڑی لے آؤ "
شارق نے رانیہ کو گھور کر روما کو پیار سے کہا 
"بس رہنے دوں بھائی میرے یہ مسکہ کہی اور جا کر لگاؤ مجھے ضرورت نہیں ہے "
روما نے فٹ نہ کیا 
"بدتمیز لڑکی بڑوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے تمہیں"
شارق نے اس کے سر پر ایک زور کی لگائی 
"تمہاری اتنی ہمت میری منگیتر کو مارنے کی جرات کیسے کی تم نے"
عمار کے آنکھوں میں خون اتر آیا وہ آگے بڑھ کر شارق کو گریبان سے پکڑ کر ہیرو بنے ہی والا تھا کے روما نے اپنا پاؤں اس کے پاؤں پر دے مارا
"خبردار جو یہ چیپ حرکتیں کرنے کی کوشش بھی کی تو پاؤ کے ساتھ ساتھ ہاتھ بھی توڑ ڈالوں گی "
روما نے اس کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا بہروز ولید شارق کا قہقہہ بےسہتا تھا 
عمار اپنا سا منہ لے کر پیچھے ہوا 
"لوں اور کر لوں اپنی لاڈلی منگیتر کی طرف داری دل میں تھنڈک پڑھ گئی میرے بھائی کا ساتھ چھوڑ کر منگیتر کا ساتھ دوں گے تو ایسا ہی ہوں گا "
اس نے ہنس کر اسے اور تپایا 
"تقدیر ہے مگر قسمت نہیں کھلتی 
تقدیر ہے مگر قسمت نہیں کھلتی...
ممتاز مل گئی مگر شادی نہیں کرتی"
عمار نے جلے ہوئے دل سے کہا 
روما نے خون خوار نظروں سے عمار کو دیکھا سب کا ہنس ہنس کر برا حال تھا شارق اس کے کندھے پر تھپکی دے کر اسے داد دے رہا تھابہروز کے موبائل پر دامیر کا میسج آیا اس نے سب کو اشارہ کیا سب ہی لمحوں میں وہاں سے غائب ہو گئے عمار البتہ روما کو دکھ بڑی نظروں سے گھورنے میں مگن تھا 
"ارے کمبختوں جلدی سے آگے آؤ پکڑوں یہ کیریاں میں توڑ توڑ کر پھینک رہی ہوں"
زرشالہ اوپر سے چلائی 
زالان اور دامیر نے حیران نظروں سے اوپر دیکھا سامنے چھوٹے سے سٹور نما کمرے میں کھڑے منہ پر ہاتھ رکھے اپنی ہنسی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے تھے 
"شالہ"
زالان نے اونچی آواز میں پکڑا 
"ہاں کہاں ہو سامنے آؤ"
وہ اپنے ہی خیالوں میں بولی پر ایک دم سے خاموشی کا احساس ہوا آواز پر غور کرنے کی کوشش کی تو وہ کچھ کچھ زالان سے مل رہی تھی
"شالہ تم اوپر کیا کر رہی ہوں"
اب کی آواز میں سختی تھی 
"لوں ماری گئی آج تو بہروز کے بچے آج اگر میں زندہ بچ گئی ناں تو دیکھنا تم میرے ہاتھوں آج مردار ہونے والے ہوں "
وہ اونچی آواز میں بڑبڑائی 
"تم آج میرے ہاتھوں بچ گئی تو ضرور اپنا یہ شوق پورا کر لینا "
زالان غصے میں بولا 
"تم اوپر کیا کر رہی ہوں"
"مھکیاں مار رہی ہوں "اس نے دل میں سوچا 
"وہ آج گرمی کچھ زیادہ ہی لگ رہی تھی مجھے تازہ ہوا لینے اوپر چڑھی ہوں"
زرشالہ نے بےتکا سا جواب دیا 
دامیر اپنی ہنسی کنڑول کیے وہاں کھڑا تھا 
"ماشاءاللہ ہماری زرشالہ تو کافی عقل مند نہیں ہو گئی اتنا اچھا آئیڈیا تمہارے ذہن میں آیا کہاں سے"
زالان نے طنزیہ لہجے میں کہا
"بس دیکھ لے آپ کی شالہ کتنی سمجدار ہو گئی ہے آپ نے کبھی غور ہی نہیں کیا میری عقل پر "
وہ فخر سے بولی اس کی بات سن کر زالان کا بی پی ہائی ہو رہا تھا
"تم ایک منٹ کے اندر اندر نیچے نہ اتری آگے تین منٹوں میں میں اوپر آ کر تمہیں اوپر سے نیچے پھینک دوں گا"
اس نے دانت چبا کر کہا 
زرشالہ شاخ کی اوٹ میں ہو کر نیچے جھانکی سامنے زالان کے ساتھ دامیر کھڑا تھا "آہ نو اج میر بھائی کے سامنے بےعزتی ہو جانی ہے بہروز اللّٰہ کریں تم میں کیڑے مکوڑے پڑے کمبخت انسان سب کے سب بےایمان نکلے ایسے بھاگے جیسے گدھے کے سر سے سینگ "
وہ دل ہی دل میں انہیں بددعائیں دینے لگی 
"تم سن رہی ہوں یاں نہیں"
وہ ایک پھر چلایا 
"میر بھائی میر بھائی"
زرشالہ نے لاگ لگائی
"سو بار کہا ہے لڑکی مجھے میر مت کہا کروں مجال ہے جو تمہیں میری بات سمجھ آ جائے"
دامیر نے اوپر دیکھ کر اسے ڈانٹا 
"بس رہنے دے میر بھائی میرے ماتھے نہ لگے یہاں سے زندہ بجی تو اس بےرحی کا بدلہ سود سمیت واپس لوں گئی"
اس نے دانت پیس کر کہا 
"مجھ سے کیا چاہتی ہوں"
دامیر نے لھٹ مار انداز میں پوچھا
"اپنے اس کھڑورس خان کو یہاں سے لے جائے قسم سے اس کے بعد میرا وعدہ رہا میں آپ کو کبھی بھی تنگ نہیں کروں گی"
اسنے معصوم سی آورز میں جواب دیا 
"تمہیں میں اتنا بےوقوف دیکھائی دیتا ہوں میری بہن تم جیسی فتنہ سے اللّٰہ بجائے مجھ سے ایسی کوئی امید مت رکھوں کہ میں تمہارے کام آؤ گا"
اس نے ہری جھنڈی دیکھائی 
"شالہ تم نیچے آ رہی ہوں یاں میں آؤ اوپر "
زالان تحمّل سے بولا 
"میر بھائی آپ کو قسم ہے جب کھڑورس خان اوپر چڑھنے لگے آپ ان کی ویڈیو بنا کر فیس بک پر اپلوڈ کر دینا ساتھ لکھنا اے اس پی زالان پلس کھڑورس خان بندوں کی طرح درخت پر چڑھتے ہوئے ہائے یقین مانے بہت مشہور ہو جائے گے یہ "
زرشالہ نے ہنس کر کہا 
"ہاہاہا زبردست آئیڈیا ہے اس بات پر میں تمہارے ساتھ ہوں"
اس نے قہقہہ لگا کر کہا 
زالان نے گھو کر دامیر کو دیکھا
"تم کس خوشی میں بتیسی نکال رہے ہوں منہ بند کروں "
اس نے سارا غصہ دامیر پر نکالا 
"لو جی بہروز سچ کہتا ہے تم اس فتنے کا غصہ آس پاس کے معصوم لوگوں پر ہی نکالتے ہوں کھڑورس خان کہی کہ"
اس نے منہ بنا کر جواب دیا
زالان نے اسے کھڑورس کہنے پر گھورا 
"میر بھائی یہ جو آپ نے فتنہ فتنہ لگا رکھا ہے مجھے ایک بار بچ جانے دے سارے بدلے سود سمیت واپس نہ لیے میرا نام بدل دیجئے گا "
اس نے دانت پیس کر کہا 
"تم اتار رہی ہوں یاں نہیں"
اب کے زالان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا 
"زالان جب میں پیدا ہوئے تھی تو آپ کتنے سال کے تھے"
اس نے معصومیت سے پوچھا
"اس بےتکے سوال کا مطلب"
اس نے چڑ کر جواب دیا
"پہلے آپ بتائیں ناں"
اس نے ضد کی
"ظاہر سی بات ہے تیری سال کا تھا اور کتنے سال کا تھا"
اب کے انداز میں جھنجھلاہٹ دی 
"آپ نے جب مجھے پہلی بار اٹھایا تھا تو مما پاپا نے کیا کہا تھا "
وہ تھوڑا نیچے کو اتری 
"انہوں نے کہا تھا آج سےیہ باربی ڈول تہماری ہوں گئی کیونکہ تم اس وقت بہت کیوٹ اور معصوم تھی میری ہی مت ماری گئی تھی جو خوشی خوشی ان کی بات پر ہاں کر دی اب اور کوئی فضول سوال پوچھا جان سے مار ڈالوں گا تمہیں"
زالان نے غصّے سے اوپر کی طرف دیکھ کر جواب دیا
"اللّٰہ اللّٰہ کل کو روز محشر اللّٰہ کو کیا منہ دیکھائے گئے جب مما پاپا پوچھے گئے زالان تم نے ہماری بیٹی کا یہ خیال رکھا تھا اسے ڈانٹے رہے تھے "
اس نے آواز میں روہنسی پن پیدا کر کے کہا زالان کا اپنا سر دیوار سے مارنے کو کیا 
"سچ کہتے ہوں میر یہ لڑکی پورا فتنہ ہے"
اس نے تنگ آ کر میر کو دیکھا جو اپنی ہنسی کنڑول کرنے کے چکر میں لال انگار ہو رہا تھا
"مجھے نہیں پتا تھا تم بڑی ہو کر اتنی فتنہ چیز بنو گئی پتا ہوتا اسی وقت اٹھا کر پھینک دیتا "
اس نے دانت پیس کر کہا
"آپ رونے اور افسوس کرنے کا کیا فائدہ جو ہونا تھا ہوں چکا "
اوپر سے شاخ سے سر نکال کر جواب ملا دامیر نے منہ پھیر کر اپنی ہنسی کو ضبط کرنے کے بجائے قہقہہ لگنا مناسب سمجھا اس کی ہنسی دیکھ کر زرشالہ کو آگ ہی لگ گئی یہاں اس کی جان پر بنی تھی وہاں میر بھائی ہنس رہے تھے اس کے شیطانی دماغ میں طوفانی حیال ایا ایک دم سے شاخ کی اوٹ میں چھپ گئی ایک کچا آم توڑا وہی سے ایک آنکھ بند کر کے دامیر کے ناک پر نشانہ پکا کیا اس کے بعد کوئی چیز تیر کی طرح ا کر دامیر کے ناک کو لگی 
"وائے اللّٰہ "
وہ ناک پکڑ کر چلایا زالان کی نظر اس کے لال انگار ناک پر پڑی اب ہسنے کی باری اس کی تھی 
"ظالم انسان مجھے دن میں تارے نظر ا رہے ہیں اور تم ہنس رہے ہوں"
اس نے ناک پکڑ کر اسے غصّے سے دیکھا
"ہائے میر بھائی کیا ہوا"
شاخ سے پتے سائیڈ پر کر کے بولی 
"تم تو چپ کروں فتنے پہلے امریکہ کی طرح چپ کر وار کرتی ہوں پھر دنیاکے سامنے آکر ہمدردی جتاتی ہوں "
وہ غصّے سے ڈھارا زرشالہ اپنا چہرہ واپس گم کر گئے دامیر کی ناک دیکھ کر اسے ہنسی روکنا مشکل ہو رہی تھی 
زرشالہ کے پورشن کا پیچھلا دروازا کھولا زالان نے مڑ کر دیکھا داجی آنکھوں میں نیند کا حمار لیے ان کی طرف آ رہے تھے
"داجی آپ یہاں اس وقت"
زالان نے حیرانی سے پوچھا کیوں کہ یہ وقت ان کے سونے کا ہوتا تھا
"کیا بتاؤ کسی کمبخت نے لین لائن پر فون پر فون کر کے ناک میں دم کر دیا تھا مجبوراً مجھے جگنا پڑا پر فون اٹھایا تو تو تو کی آواز آئی پتا نہیں کون کمبخت تھا میری نیند اڑا گیا پھر مجھے لان سے باتوں کی آواز آئی تو چلا آیا مجھے لگا سارے شیطانوں کا ٹھولہ یہاں ہو گا پر تم دونوں یہاں کیا کر رہے ہوں"
داجی نے تعجب سے عینک کے اوپر سے دیکھ کر پوچھا
"وہ داجی ہم دونوں یہاں چہل قدمی کرنے آئے تھے"
"ہے یہ کون سا وقت ہے چہل قدمی کا اتنی دھوپ میں لڑکے دماغ وماغ تو نہیں سٹیاں گیا تمہارا "
انہوں نے گھور کر پوچھا
"وہ داجی میر کااندار کمرے میں سانس بند ہو رہا تھا اس لیے سوچا دھوپ میں چہل کر لے"
داجی نے ایسے دیکھا جیسے لڑکے کے دماغی حالت پر افسوس کر رہے ہوں 
بنا کچھ کہے واپس جانے لگے اسی وقت عمار کہی سے نمودار ہوا
"داجی داجی غذب ہو گیا "
وہ ڈرامائی انداز میں بولا 
"کیا ہو گیا لڑکے اتنا بھوکھلایا ہوا کیوں ہے"
انہوں نے گھور کر دیکھا 
"داجی نہ پوچھے کیا کیا ہو گیا ہے میں بتا نہیں سکتا"
"چلو نہیں پوچھتا یار ہٹو اندار جانے دوں پتا نہیں آج سب کے ہوش کہاں گم ہے سب کے سب ہی بونگیاں مار رہے ہوں"
انہوں نے زالان کی طرف گردن مڑ کر دیکھا جو ترچی نظروں سے اوپر درخت کو گھور رہا تھا
"داجی ہماری زرشالہ'
"کیا ہوا "
انہوں نے روک کر پوچھا
"داجی زرشالہ صبح سے ناراض ناراض گھوم رہی تھی'
اس نے روہنسی آواز میں کہا 
"بلا وہ کیوں"
داجی نے تعجب سے پوچھا اوپر شاخ میں چھپی بیٹھی زرشالہ کے کان کھڑے ہو گئے 
"داجی وہ کہ رہی تھی داجی مجھ سے بلکل پیار نہیں کرتے انہیں میرا بلکل حیال نہیں ہے میرا کوئی نہیں ہے ..."
اس نے روک کر زالان کو دیکھا جو خون خوار نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا
"یہ کیا اول فول بول رہے ہوں تم دماغ تو جگہ پر ہے ناں تمہارا وہ بلا ایسے کہ سکتی ہے"
"داجی اس نے ایسا ہی کہا ابھی کچھ ٹائم پہلے باہر کی طرف جا رہی تھی کہنے لگی اسی زندگی سے موت اچھی ہے یہاں تو کوئی بھی میرا نہیں ہے مجھے مر جانا چاہیے"
اس نے افسوس سے سر ہلا کر کہا داجی نے آنکھیں پھاڑے اسے گھورا زرشالہ کی ہمت یہی تک تھی جلدی جلدی نیچے اترتے ہوئے چلائی
"عمار کے بچے مرے میرے دشمن میں کیوں مرنے لگی تمہاری تو آج تم میرے ہاتھون زندہ بچ کر دیکھنا توبہ استغفار میں کیوں کروں خودکشی تمہارے منہ میں کیڑے پڑے خبردار جو میرے داجی کو میرے خلاف بھڑکانے کی یا ورغلانے کی کوشش بھی کی تو "
وہ درخت سے لٹکتے ہوئے شروع ہو گئی تھی داجی نے حیران پریشان ہو کر اپنی لاڈلی پوتی کو دیکھا 
"اور آپ کھڑورس خان اللّٰہ معاف کریں یہ دوپہر کو کون سی چہل قدمی کرنے آئے تھے کچھ خدا کا خوف کریں کل کو اللّٰہ کو منہ دیکھنا ہے داجی سے جھوٹ بولتے آپ کا دل نہیں کانپا ۔۔۔"
اس کی زبان کو بریک تب لگا جب داجی نے آگے بڑھ کر اسے کان سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا 
"تمہیں تو میں آج بتاتا ہوں سو بار منا کیا ہے یہ لڑکوں والے کام کرنا چھوڑ دوں مگر نہیں تم پر میری بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا ناں اس گھر کے لڑکے لڑکیاں بنی گھومتے ہیں اور تم سے ہر لڑکوں والے کام کرواں لوں کر لوں گئی کبھی غلطی سے ایک کپ چائے بنانے کا کہ دے کوئی موت آ جاتی ہے تم پر "
داجی آج فل موڈ میں تھے ڈانٹنے کے ویسے بھی ان کی نیند خراب ہوئی تھی زرشالہ کا منہ حیرت سے کھولا کا کھولا رہ گیا 
"اور تم زرا بھاگ کر بولاو سب کو "
داجی نے عمار کی طرف دیکھ کر حکم دیا 
"یہ کیا بلائے گا داجی وہ سب سامنے سٹور نما کمرے میں بند کھی کھی کر رہے تھے صبح سے شرافت سے باہر آؤ سب کے سب "
زالان نے داجی کو اطلاع دے کر انہیں آواز لگائی سب کے سب شرمندہ شرمندہ سے آگے پیچھے باہر آئے 
"سب کے سب لائن میں کھڑے ہو جاؤ"
داجی نے گرج کر کہا 
"کیوں داجی قومی ترانہ پڑھوانا ہے کیا"
وہ شارق ہی کیا جو چپ رہ جائے 
"برخوردار تم سب کی آج وہ خبر لوں گا کہ یاد رکھوں گے ہنجاوں کل عیشاء کی نماز میں پرورش کے لڑکے نے روک دیا کہنے لگا انکل آپ کے گھر کے لڑکے بہت بھوکے اور نادیدے ہے میں نے پوچھا ہوا کیا ہے کہنے لگا آپکے پوتے نے میرے پانچ سالہ بیٹے کے ہاتھ سے چیپس کا پیکٹ چھین کر بھاگ گیا وہ بچارہ پورے دو گھنٹے روتا رہا اور میں وہاں کھڑا شرمندگی سے اس لڑکے سے نظر ملانے کے قابل بھی نہیں تھا "
داجی نے ایک قہر بھری نگاہ سب پر ڈال کر زالان کو بتایا جو حیرت سے ان کا کارنامہ سن رہا تھا پاس کھڑے دامیر کا منہ تو پورا کا پورا ہی کھول گیا 
"تو داجی بچے کو کس نے کہا تھا وہ یوں کسی کے سامنے کھڑے ہو کر مزے لے لے کر کھائے بندہ بشر ہے منہ میں پانی آ گیا تو کچھ بھی کر جاتا ہے"
ولید بنا سوچے سمجھے بول اٹھا شارق نے کہنی مار کر اسے ہوش میں لایا پر تب تک تیر کمان سے نکل چکا تھا 
"ماشاءاللہ ماشاءاللہ تو یہ کارنامہ تمہارا ہے '
زالان نے سر سے پاؤں تک اسے گھور کر دیکھا 
"نہ... نہیں میں کیوں کروں گا میں تو بس ویسے ہی کہ رہا تھا "
وہ گربڑا کر بولا داجی نے حاصے ناگواری سے سے دیکھا ایک سے بڑھ کر ایک نمونہ تھا ان کے گھر میں 
"چلو شاباش اب سب لائن میں لگ کر اٹھاک بیٹھک کروں سو دفع "
داجی نے زرشالہ کو کان سے چھوڑ کر حکم دیا 
"واٹ یہ..یہ کیا کہ رہے ہیں داجی اس میں ہم سب کی کیا غلطی ہے "
بہروز نے روہنسی آواز میں کہا
"نہ تمہیں کیا لگتا ہے مجھے پتا نہیں ہے تم سب سانس ایک دوسرے کے بنا نہیں لے سکتے ایسے کارنامے کیسے ایک دوسرے کے بنا کر سکتے ہوں "
داجی نے گھور کر کہا 
"داجی بہت گرمی ہے خدا کو مانے "
زرشالہ نے منہ بنا کر کہا 
"ابھی ابھی تو تازی ہوا لینے درخت پر چڑھی تھی ابھی گرمی کہاں سے آ گئی "
زالان نے طنزیہ انداز میں کہا
"کھڑورس خان اللّٰہ آپ سے پوچھے معاف نہیں کروں گی آپ کو "
اس نے ناراضگی سے اسے دیکھا
"اور تم سب لگوں لائن میں جس نے بھی غداری کی تھی اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی ماری ہے وہ کیا ہے نہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تمہیں بھی لے ڈوبیں گے "
اس نے شہد میں ڈبو ڈبو کر لفظوں کے تیر مارے اس کے بعد اتنی تیز دھوپ میں سب نے سو باراتھک بیٹھک کیا زالان وہی کھڑا ان پر نظر رکھے ہوئے تھا دامیر بھی اپنی ناک پر رومال رکھے ان کی انوکھی سزا دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہا تھا یہ سب اس کے لیے .
                      ................
آدھی رات کا وقت تھا حورین کے بابا کی طبعیت اچانک خراب ہو گئی تھی اس کے ہاتھ پاؤں باپ کی ایسی حالت دیکھ کر پھول گئے 
"بابا آپ ٹھیک تو ہے ناں پلیز آنکھیں کھولے مجھے آپ کی ایسی حالت دیکھ کر ڈر لگ رہا ہے پلیز بابا"
وہ نیم بےہوشی میں تھے بامشکل اپنی آنکھیں کھول کر اسے دیکھا
"بیٹا.....و...وہ ..کاڈ...فون...ن... نمبر"
وہ مشکل سے یہی الفاظ ادا کر پائے ان کی سانس پھولنے لگی 
"بابا ہمت کریں دیکھے مت کرو میری ساتھ ایسا میں مر جاؤ گئی"
رو روتے ہوئے مسلسل ان کے ہاتھ پاؤں دبا رہی تھی
"وہ.. "
انہوں نے سائیڈ ٹیبل کی طرف اشارہ کیا وہ بھاگ کر وہاں گئی ٹیبل پر ایک ویزیٹنگ کاڈ پڑا تھا اس نے جلدی سے اٹھا کر بابا کے پاس لایا 
"فو ....فون ....کرو...."
حورین نے ان کی بات غور سے سمجنے کی کوشش کی اٹھ کر موبائل لایا کاڈ پر دامیر کا نمبر لکھا تھا اس نے بنا سوچے گئی نبند ملایا یہ حیال کیے بنا کے اس وقت رات کا درمیانی پہر ہے اسے اپنے باپ کی زندگی چایئے تھی اس کے علاقے وہ کچھ بھی سوچنا نہیں چاہتی تھی
تین بیل کے بعد فون اٹھا دیا گیا تھا
"ہیلو دامیر ارسلان سپیکنگ"
اس کی نیند میں ڈوبی آواز آئی 
"میں.. حورین با ...بار کر رہی ہوں"
اس نے روتے ہوئے کہا 
"حور آپ ٹھیک تو ہے ناں"
دامیر کی ساری نیند پل بھر میں اڑ گئی تھی وہ بیڈ پر آٹھ بیٹھا
"بابا کی طبعیت بہت حراب ہے"
"میں آ رہا ہوں تم پریشان مت ہوں میرے بس پہنچاتا ہوں "
اس نے بیڈ سے اٹھ کر الماری سے اپنے کپڑے نکلے اس کی حورین پریشان تھی اس کا بس چلتا وہ اڑ کر وہاں پہنچ جاتا
"جلدی پلیز بابا کی طبعیت نہیں حراب ہے"
"تم ٹینشن مت لوں سب ٹھیک ہو جائے گا"
"انشاء اللہ"
اس نے فون بند کر کے ابا کے ہاتھ پکڑ کر سہلانے شروع کر دیے 
           ......................
"ڈاکٹر میرے ابا کیسے ہیں"
ای سی یو سے نکتے ڈاکٹر کو دیکھ کر حورین ان کی طرف بھاگی دانیال بھی متوقع ہوا 
"وہ اب پہلے سے بہتر ہے آپ کچھ ٹائم بعد ان سے مل سکتے ہیں"
ڈاکٹر پروفیسنل انداز میں کہتا وہاں سے چلا گیا
"تھینک یو سو مچ آپ اگر وقت پر ناں آتے تو ناجائز کیا ہو جاتا"
وہ دامیر کی طرف تشکر بھری نگاہ سے دیکھ کر کہا
"یہ کسی اجنبیوں جیسی باتیں کر رہی آپ یہ تو میرا فرض تھا"
"فرض نہیں تھا یہ تو آپ کا احسان ہے ہم پر ورنہ کون اس دور میں کسی کے کام آتا ہے"
"بس رہنے دے حود چلے آپ کو بابا سے ملوا لوں "
اس نے حورین کی سرخ ہوتی آنکھوں کو دیکھا وہ پنک شیفون کے سوٹ میں بہت پیاری لگ رہی تھی 
وہ اسے لے کر اندار گیا ابا کو آکسیجن لگا ہوا تھا وہ بھاگ کر ان کے پاس گئی ابا نے دھیرے سے آنکھیں کھول دی 
"ابا کتنا ڈرا دیا تھا آپ نے مجھے آپ کو زرا میری پرواہ نہیں ہے کوئی ایسا بھی کرتا ہے"
اس نے اپنا کے سرہانے بیٹھ کر روتے ہوئے ان کے سر پر ہاتھ رکھ کر شکوہ کیا
"حورین ہمت کریں انکل بلکل ٹھیک ہو جائے گے انشاء اللہ"
دامیر نے قریب آکر اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی حورین نے سر اثبات میں ہلایا 
"می.... میرے ..پ...پاس .. آؤ"
ابا نے دامیر کی طرف اشارہ کر کے پاس آنے کو کہا وہ چلاتا ہوا ان کے بیڈ کے سائیڈ پر کھڑا ہو گیا اور ابا کا ہاتھ تھاما
"جی انکل کہیے میں سن رہا ہوں"
اس نے سر ان کے چہرے کی طرف جھکا کر نرمی سے کہا حورین نے بھی آنسو پونچھ کر ابا کے بولنے کا انتظار کیا 
"تم.... ابھ۔۔۔۔ابھی ....ای۔...ایسی وقت... میرے.... حورین....سے نکاح... کر..لوں"
انہیں بولنے میں دھکت ہو رہی تھی بہت مشکل سے اپنی بات پوری کر کے درد سے آنکھیں موند لی ہاتھ ابھی بھی دامیر کے ہاتھ میں تھا 
"ابا یہ آپ کیا کہ رہےہیں"
وہ صدمے سے ابا کو دیکھنے لگی 
"میری... آخری... خواہش.. سمجھ...کر میری... بات... مان۔۔۔۔لوں"
انہوں نے حورین کو اذیت بھری نگاہ سے دیکھا وہ ابھی تک شاک میں تھی 
"آپ فکر ناں کریں آنکل میں انتظام کرتا ہوں"
"یہ آپ کیا کہ رہے ہیں آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ابا بیمار ہے انہیں سمجھ نہیں آ رہی آپ پریشان مت ہوں ابا ٹھیک ہو جائے گے"
حورین نے سر انکار میں ہلایا 
دامیر نے اسے اپنے پیچھے باہر آنے کو کہا ابا نے آنکھیں موند رکھی تھی وہ بے حد تکلیف میں تھے 
"حورین جو کام کل کو ہونا ہے وہ آج ہی ہو جائے تو اچھا ہے یہ انکل کی بھی خواہش ہے پلیز اپنا نہیں ان کا سوچے وہ تکلیف میں ہے"
"مگر نکاح نہیں آپ کا بہت شکریہ آپ نے ہماری اتنی مدد کی اب آپ جائے یہاں سے "
اس نے بےرحی سے جواب دیا 
"میں کہی نہیں جا رہا اور آپ بھی اپنا مائنڈ بنانا لے میں زالان کو فون کر کے مولوی صاحب کو بولانے کا کہتا ہوں"
وہ اس کی کوئی بھی بات سنے کو تیار نہیں تھا 
"میں ایسا کچھ نہیں کروں گی آپ میرے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کر سکتے"
"میں زبردستی کر سکتا ہوں یاں نہیں یہ بات رہنے دوں مجھے اس وقت انکل کی ٹینشن ہے اللّٰہ نہ کریں انہیں کچھ ہو پر اگر انہیں کچھ ہوا ناں تو پوری عمر بیٹھ کر رو گئی تم "
وہ تلخی سے کہتا وہاں سے چلا گیا وہ غائب دماغی سے ہاسپٹل کے کوریڈور کی کرسی پر بیٹھ گئی اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام کر بےبسی سے ای سی یو کی طرف دیکھنے لگی 
                 .......................
جاری ہے....... 

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─