┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄
ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 39
پارٹ 1
آپ۔۔۔ آپ یہاں۔۔؟؟ ایش بامشکل بول پاٸ تھی۔
سمعان سینے پار ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔۔ اس نے کوٸ جواب نا دیا تو ایش نظریں جھکا گٸ۔۔
وہ جینز کی پاکٹس میں ہاتھ ڈالتا ہوا آگے بڑھا۔۔ عین اسکے سامنے آکر رکا۔ ایش ایک قدم پیچھے ہوٸ۔۔ اسکی اس حرکت پر سمعان کے لبوں پر مسکعاہٹ پھیل گٸ۔۔
کیا یہ وہی ایش تھی جو گاڑی میں اسکے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھتی تھی۔اور سمعان کے کہنے کے باوجود بھی پیچھے نہیں جاتی تھی۔
تمہیں کیا لگا تھا میں تمہیں ڈھونڈ نہیں پاٶں گا۔۔؟؟ اس نے الٹا سوال کیا۔
ایش خاموش رہی۔۔ اسکی نظریں سمعان کے جوتوں پر جمی تھی۔۔
جانتی بھی ہو کتنا ڈھونڈا میں نے تمہیں۔۔
ایش نے چونک کر اسکی طرف دیکھا۔۔
مم۔۔ میرا مطلب ماٸیک کے ساتھ مل کر۔۔ اسے تمہاری بہت فکر تھی۔۔ وہ بات بدل گیا۔۔
ہونے دیں۔ میرا کوٸ لینا دینا نہیں ہے ماٸیک سے۔۔ ایش نے سرد سے لہجے میں کہا۔۔
اور مجھ سے۔۔؟؟ وہ پوچھ رہا تھا۔
آپکو میری شکل نہیں دیکھنی تھی۔ میں نے کوشش کی کہ آپکو میری شکل نظر نا آۓ۔۔ کوشش کے باوجود بھی ایش کی پلکیں نم ہوٸیں۔۔
وہ کیا بتاتا اسی چہرے کو دیکھنے کیلیۓ وہ پچھلے تین ماہ سے مارا مارا پھر رہا ہے۔۔
ویسے یہ ڈریسنگ تم پر بہت سوٹ کرتی ہے۔۔ خاص طور پر یہ شال۔۔ سمعان نے بات کا رخ موڑ دیا۔
شکریہ۔۔ ایش بس اتنا ہی کہہ پاٸ۔۔
بیٹھنے کو نہیں کہو گی۔۔؟؟
میں نے آپکو نہیں کہا کہ آپ کھڑے رہیں۔۔ بیٹھنا چاہتے ہیں تو بیٹھ جاٸیں۔۔ مگر میں اس وقت ڈیوٹی پر ہوں۔۔
اچھااااا۔۔۔ سمعان کو اسکی بات سن کر ہنسی آٸ تھی جسے وہ چھپا گیا تھا۔
ویسے مجھے یاد ہے کسی دور میں ایش ولیم کو سمعان حیدر سے محبت تھی۔۔ اتنی شدید محبت کہ سمعان کو روزانہ دیکھنے کیلیۓ ایش نے خود کا ایکسیڈینٹ۔۔۔ وہ بات ادھوری چھوڑ گیا۔۔
ایش نے تڑپ کر اسکی طرف دیکھا تھا۔۔ سرخ آنکهوں میں ازیت کی لہر دھوڑ گٸ تھی۔۔سمعان تو اسکی سرخ آنکهيں دیکھ کر گنگ رہ گیا تھا۔
ایش ولیم کو تھی سمعان حیدر سے محبت۔۔ مگر میں ایش ولیم نہیں ہوں۔۔ میں نورالایش ہوں۔۔ وہ مضبوط لہجے میں بولی تھی۔۔
سمعان چپ رہا۔۔ وہ کچھ دیر اسکے چہرے کو جانچتی نگاہوں سے دیکھتا رہا اور پھر بنا کچھ کہے چلا گیا۔۔
اسکے جانے کے بعد ایش کانپتی ٹانگوں کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گٸ تھی۔۔اسکا دل دھڑک رہا تھا۔ یہ کیا ہو گیا تھا۔۔ بےشک وہ ایک دن بھی سمعان کو نہیں بھولی تھی۔۔ لیکن اس نے نہیں چاہا تھا کہ سمعان کو اسکی شکل دوبارہ دیکھنی پڑے۔۔ اور آج وہ خود آگیا تھا۔۔ ناجانے قدرت کو کیا منظور تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاٶنج میں خاموشی چھاٸ تھی۔۔ اسد صدمے کی حالت میں تھا۔۔ جبکہ شہرین اور نفیسہ تاٸ بھی خاموش بیٹھی تھیں۔
مجھے پہلے ہی پتا چل گیا تھا اسد بھاٸ کہ حورعین کا شرجیل سے افیٸر چل رہا ہے۔۔شہرین نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
اسد نے گھور کر سے دیکھا۔۔
اسے کیوں گھور رہے ہو۔۔؟؟ اسکا بھی پہرہ دیا ہوتا کہ وہ کیا گھل کھلا رہی ہے۔۔ نفیسہ تاٸ نے بولنا شروع کیا۔
تبھی لاٶنج کا دروازہ کھلا تھا۔۔ شرجیل کے پیچھے حورعین اندر داخل ہوٸ تھی۔
اسد دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر چونک گیا تھا۔۔ وہ جو سوچ رہا تھا کہ اسے جو تصاویر بیجھی گٸ ہیں شاید وہ فیک ہوں۔۔ شاید کسی نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہو۔۔ لیکن جب دونوں کو دیکھا تو حیران رہ گیا۔۔ کیونکہ حورعین نے وہی ڈریس پہنا ہوا تھا جو تصویروں میں نظر آ رہا تھا۔۔
اسلام علیکم۔۔ حورعین نے سب کو مشترکہ سلام کیا تھا۔۔ اتنی خاموشی دیکھ کر اسے خوف محسوس ہوا تھا۔
تم۔۔ تم یہاں کیا لینے آٸ ہو۔۔ دل نہیں بھرا تمہارا شرجیل کے ساتھ کمرے میں وقت گزار کر جو اب یہاں چلی آٸ۔۔ شہرین اسے دیکھتے ہی پھنکاری۔۔
حورعین کا تو رنگ فق ہو گیا۔۔ اس نے تڑپ کر اسد کی طرف دیکھا مگر وہ خاموش سرد نگاہوں سے اسکی طرف دیکھ رہا تھا۔۔ گہری جانچتی،کاٹتی نگاہیں۔۔ حورعین کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تھا۔۔
اسد۔۔۔ طبیعت کیسی ہے اب آپکی۔۔؟؟؟ حورعین نے اسکی طرف بڑھتے ہوۓ پوچھا۔۔
اے لڑکی۔۔ رک جاٶ وہیں۔۔ خبردار جو میرے بیٹے کی طرف ایک قدم بھی بڑھایا۔۔ نفیسہ تاٸ گرجی۔۔
اسد۔۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔ حورعین کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔ اچانک اسکی نظر اسد کے سامنے میز پر پڑیں تصویروں پر پڑی۔۔ وہ شاکڈ رہ گٸ۔۔
اسد یہ۔۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی۔ ۔
اسد اٹھا۔۔ غصے کو ضبط کرنے کے باعث اسکا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔۔
وہ چلتا ہوا اسکے قریب آیا۔۔
اسد میں۔۔ نہیں۔۔ یہ سب جھوٹ۔۔ اس سے پہلے وہ اپنی بات پوری کرتی چٹاخ کی آواز گونجی اور اسد کا ہاتھ اسکے نازک گال پر اپنے نشان چھوڑ گیا۔۔
اسد۔۔ حورعین تو بےیقینی کے عالم میں کچھ بول ہی نا پاٸ۔۔
کہاں کمی رہ گٸ تھی میرے پیار میں حورعین۔۔؟؟ وہ بولا تو اسکی آواز میں درد تھا۔۔
اسد آپ غلط سوچ رہے ہیں۔۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ وہ تڑپ کر آگے بڑھی۔۔
بس۔۔ دور۔۔ دور رہو مجھ سے۔۔ گن آرہی ہے مجھے تمہارے وجود سے۔۔ اسد نے نفرت آمیز لہجے میں ہاتھ سے اسے دور رہنے کا اشارہ کیا۔
اور تم۔۔ گھٹیا انسان تمہیں میں نے زمہ داری سونپی تھی۔۔ تم نے ہی سانپ کی طرح ڈس لیا مجھے۔۔ دفع ہو جاٶ یہاں سے۔۔ اسد نے آگے بڑھتے ہوۓ گھونسا شرجیل کے منہ پر مارا تھا۔۔
بھاٸ۔۔ اسکی کوٸ غلطی نہیں ہے۔۔ اسے حورعین نے ورغلایا تھا۔۔ شہرین آگے بڑھی۔۔
یہ آپ لوگ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔۔ یہ سب جھوٹ ہے۔۔ حورعین نے کہا۔
کیا جھوٹ ہے۔۔؟؟ کیا یہ تصویریں جھوٹی ہیں۔۔ کیا تم شرجیل کے ساتھ ہوٹل میں نہیں گٸ تھی۔۔ کیا تم دونوں ایک ساتھ ایک روم میں نہیں تھے۔۔؟؟ شہرین نے اسکی بات کاٹی۔
ہاں میں گٸ تھی کیونکہ اسد نے مجھے میسج کیا تھا کہ میں شرجیل کے ساتھ اس ہوٹل میں چلی جاٶں۔۔ برتھ ڈے سیلیبریٹ کرنے کیلیۓ۔۔ حورعین نے سچ کہا۔
اسد کو حورعین کے اس طرح جھوٹ بولنے پر انتہا کا غصہ آیا کیونکہ اس نے تو کوٸ میسج کیا ہی نہیں تھا۔۔
اچھا۔۔ہوٹل میں سیلیبریشن۔۔ تو پھر یہ سب کس لیۓ ہے۔۔ شہرین نے لاٶنج میں کی گٸ ڈیکوریشن کی طرف اشارہ کیا۔۔حورعین نے اب دیکها تھا۔۔ پورے لاٶنج کو سجایا گیا تھا۔
اسد میرا یقین کریں۔۔ ایسی کوٸ بات نہیں ہے۔۔ مجھے آپکا میسج ملا تھا۔۔ میں سچ بول رہی ہوں۔۔وہ اسد کی طرف بڑھی۔
اسد بھاٸ تو تمہیں صبح سے کال کر رہے ہیں۔۔ میں نے کہا نہیں تھا اسد بھاٸ لیکن مجھے پتا چل گیا تھا کہ حورعین نے آپکا نمبر بلاک کر دیا ہے۔۔ شہرین نے مزید آگ لگاٸ۔۔
تم دو منٹ چپ کروگی۔۔ حورعین چینخی۔
اسد پلیز۔۔ آپ میری بات سمجھنے کی کوشش کریں۔۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔ میں آپکے میسج کے بعد ہی شرجیل بھاٸ کے ساتھ گٸ تھی۔۔ آپ نے صبح میسج کیا تھا مجھے۔۔ اور آپ نے شرجیل بھاٸ کو بھی سیم میسج کیا تھا نا۔۔
شرجیل بھاٸ آپ بتاٸیں نا اسد کو انہیں کوٸ غلط فہمی ہو گٸ ہے۔۔
استغفار۔۔ کتنی بےشرم لڑکی ہے۔۔
اپنے عاشق کو سب کے سامنے اب اپنا بھاٸ بنا لیا۔۔۔ نفیسہ تاٸ نے ہاتھ میں پکڑی تسبیح گھماتے ہوۓ کہا۔۔
اسد کا غصے سے برا حال تھا۔۔ جس لڑکی وہ اتنا چاہتا تھا۔۔ وہ اسے دھوکا دے رہی تھی۔۔ جھوٹی محبت کر رہی تھی اس سے۔۔
شرجیل بھاٸ آپ تو سب جانتے ہیں نا۔۔ آپ کیوں خاموش ہیں۔۔ آپ بتاٸیں نا اسد کو۔۔ وہ شرجیل کی طرف بڑھی۔۔اسد نے شرجیل کو گھور کر دیکھا۔۔
یہ سچ ہے۔۔ مم۔۔ میں اور حورعین ایک دوسرے کو بہت۔۔
چاہتے ہیں۔۔ اور آج ہم یہاں یہی بتانے آۓ تھے۔۔ شرجیل نے مشکل سے کہا۔۔
حورعین کو لگا تھا جیسے لاٶنج کی چھت اسکے اوپر گر گٸ ہو۔۔
نہیں۔۔ یہ جھوٹ ہے۔۔ حورعین ایک قدم پیچھے ہوٸ۔۔
کیا جھوٹ ہے۔۔؟؟ ہاں۔۔ کیا جھوٹ ہے۔۔؟؟ اسد دھاڑا تھا۔۔
کیا یہ جھوٹ ہے۔۔ اس نے تصویریں اٹھا کر حورعین کے منہ پر ماریں۔۔
یا جو شرجیل کہہ رہا ہے وہ جھوٹ ہے۔۔؟؟ میں نے سوچا بھی نہیں تھا حورعین تم میرے ساتھ ایسا کرو گی۔۔ سچ کہتی تھی امی۔۔ تم جیسی لڑکیاں کبھی کسی کی نہیں ہو سکتیں۔۔
اسد۔۔ حورعین بس اتنا ہی کہہ پاٸ۔۔ اسے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ یہ سب اسد کہہ رہا ہے۔
میں نے کچھ غلط نہیں کیا اسد۔۔ وہ اتنا ہی کہہ پاٸ۔۔ آنسوں پلکوں کی باڑ توڑ کر رخساروں پر پھسل گۓ۔۔
اچھا۔۔ تو کھاٶ میری قسم کہ تم اس وقت ریسٹورینٹ سے نہیں آرہی۔۔ اسد نے پوچھا۔۔
ہاں میں ریسٹورینٹ گٸ تھی۔۔ کیونکہ آپ نے میسج کیا تھا مجھے۔۔ وہ روتے روتے کہہ رہی تھی۔
اچھا دکھاٶ میسج۔۔؟؟ اسد نے کہا۔۔
حورعین نے بیگ سے موبائل نکالا۔۔ لیکن جیسے ہی اس نے انباکس کھولا وہ حیران رہ گٸ کیونکہ جو میسج اسے صبح اسد نے کیا تھا وہ انباکس میں تھا ہی نہیں۔۔ وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے موبائل کو دیکھتی رہی۔۔
کیا ہوا۔۔؟؟ نہیں ملا میسج۔۔ اسد ہنسا۔۔ طنزیہ ہنسی۔۔
ادھر دکھاٶ مجھے موباٸل۔۔ اسد نے اسکے ہاتھ سے موبائل پکڑا۔۔
یہ دیکھو۔۔ شہرین سچ کہہ رہی تھی تم نے میرا نمبر بلاک کیا ہوا ہے۔۔ اسد نے بلاک لسٹ اسکے سامنے کی۔۔ سب سے اوپر اسد کا نمبر تھا۔
صبح سے ہزار فون کر چکا ہوں تمہیں۔۔ مگر تمہیں کیا۔۔ تمہیں تو مجھ سے زیادہ امیر مل گیا۔۔
یہ میں نے نہیں کیا۔۔ حورعین تو حیرت سے گنگ تھی۔
میں نے تو پہلے ہی کہا تھا۔۔ جیسی بڑی بہن ویسی چھوٹی۔۔ حرم ایک دن کے اندر میری بیٹی کی خوشیوں کو چھین کر لے گٸ تھی۔۔ تو یہ کیسے تم سے وفا کرتی۔۔ نفیسہ تاٸ کے لہجے میں انتہا کی نفرت تھی۔۔
حورعین خاموش رہی۔۔ لاٶنج میں ایک بار پھر خاموشی چھا گٸ۔۔ باہر چلتی ٹھنڈی ہواٸیں اب آندھی طوفان کا رخ دھار چکی تھیں۔۔
حورعین نے جھک کر تصویریں اٹھاٸ۔۔ وہ اسکی تصویریں تھیں۔۔ کچھ ریسٹورینٹ میں موجود کمرے کی تھیں۔ جب شرجیل اسکے پیچھے کھڑا تھا اور وہ مڑی اس سے ٹکرا گٸ تھی۔۔
کچھ کیفے کی تھیں۔۔ جب کسی نے شرجیل کو دھکہ دیا تھا اور وہ حوعین سے ٹکرایا تھا۔۔
اور کچھ انتہائی شرمناک حلیے میں تھیں۔۔ وہ اسکی نہیں تھی۔انہیں ایڈیٹ کیا گیا تھا۔۔ چند اسکی تصویروں کے علاوہ ساری فیک تھیں۔۔ صرف چہرہ اسکا تھا۔
یہ میری تصویریں نہیں ہیں۔۔ حورعین نے فیک تصویروں کی طرف دیکھ کر کہا۔
اچھا۔۔ یہ تمہاری نہیں ہیں۔۔ یہ کٹے بال تمہارے ہیں۔۔ یونيورسٹی میں تم ننگے سر گھومتی ہو۔۔ اور تم کہہ رہی ہو یہ تمہاری نہیں ہیں۔۔
اسد غرایا تھا۔۔
مجھے ماڈرن اور سٹائلش لڑکیاس پسند ہیں حورعین جو میرے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلیں۔۔ ہر وقت سر کو بہن جی کی طرح ڈھانپ کر رکھنے والی نہیں۔۔ اسکے زہن میں کچھ ماہ پہلے کہی گٸ اسد کی باتیں گونجی۔۔
حجاب کرلیا کرو حورعین۔۔ ہمارا ڈھکا ہوا سر ہماری عزت کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے۔۔ حرم نے اسے کہا تھا۔
یہ دیکھو یہ شوخ رنگ کے سکارف تم اوڑھتی ہو۔۔ سب کی توجہ حاصل کرنے کیلیۓ۔۔ اسد نے ایک تصویر دیکھنے کے بعد اسکی طرف اچھالی۔۔
حورعین تو خاموش کھڑی رہ گٸ تھی۔۔
اتنے شوخ رنگ کے سکارف مت اوڑھا کرو حورعین۔۔ یہ لڑکوں کو اپنی طرف اٹریکٹ کرتے ہیں۔۔ حرم کی باتیں اسکے زہن میں گونج رہی تھیں۔۔
تم اتنی گھٹیا نکلو گی حورعین میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔۔ اسد اسکے کانوں میں پگھلا سیسہ انڈھیل رہا تھا۔
حوررین نے کھوٸ کھوٸ نظروں سے اسد کی طرف دیکھا۔۔ وہ نفرت سے منہ موڑ گیا۔
پھر اس نے شہریں کی طرف دیکھا جس نے ایک پراسرار سی مسکراہٹ اسکی طرف اچھالی۔۔
پھت اسکی نظریں شرجیل کی طرف اٹھیں۔۔ جو اپنی نظریں چرا گیا تھا۔۔
سب سے آخر میں اس نے نفیسہ تاٸ کی طرف دیکھا جنکے چہرے پر فتح کی مسکراہٹ پھیلی تھی۔۔
وہ سمجھ گٸ تھی سب کچھ ایک پلان کے تحت ہوا تھا۔۔ اسے پتا ہی نہں چلا اسے پھنسایا گیا تھا۔۔
اسد۔۔۔ حورعین نے آخری بار اسے پکارہ۔۔ اسکی آواز میں انتہا کا درد تھا۔۔
مر گیا اسد آج سے تمہارے لیۓ۔۔ اور تم مر گٸ ہو میرے لیۓ۔۔ اب دفع ہو جاٶ یہاں سے اس سے پہلے کہ میں کچھ غلط کروں۔۔ اسد نے زہریلے لہجے میں کہا تھا۔۔
حورعین جانتی تھی۔۔ اب اسد اس پر کبھی یقین نہیں کرے گا۔
میں شرجیل بھاٸ کے ساتھ اپنی مرضی سے ریسٹورینٹ نہیں گٸ تھی۔۔ وہ اسکے سامنے آکر اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی تھی۔۔
کیسے یقین کرلوں میں۔۔ جب تم میرے ساتھ جاسکتی ہو تو شرجیل کے ساتھ بھی جاسکتی ہو۔۔ اسد نے زہر خند لہجے میں کہا تھا۔۔ اور ساتھ ہی زہریلی مسکراہٹ اسکے لبوں پر ابھری۔
میں تم سے محبت کرتی ہوں۔۔ وہ مرے مرے سے لہجے میں بولی تھی۔۔
لعنت بھیجتا ہوں میں تمہاری اس محبت پر۔۔ جو دن میں کسی اور کی ہو اور رات کو کسی اور کی۔۔
اسد نے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی۔۔
کچھ دیر تک وہ اسکی زات کے پرخچے اڑا رہا تھا لیکن اب وہ اسکی محبت پر لعنت بیجھ چکا تھا۔۔
حورعین نظریں جھکا گٸ۔۔ اب یہ نظریں کبھی اٹھنے والی نہیں تھیں۔۔
مرد کانوں کا کچا ہوتا ہے۔۔ وہ محبت تو کرتا ہے اسے نبھانا نہیں جانتا۔۔ اسد نے وہی دیکھا جو اسکی بہن اور اسکی ماں بے اسے دکھانا چاہا۔۔
اور حورعین۔۔ جس نے اسد کیلیۓ خود کو سر سے پاٶں تک بدل لیا تھا۔۔ اسے کیا ملا۔۔ صرف رسواٸ۔۔
جتنا حورعین بول سکتی تھی۔۔ وہ بول چکی تھی اپنی صفائی میں مگر کوٸ فاٸدہ نہیں ہوا۔۔ کچھ ہی پل کے اندر اسد کے دل میں بدگمانی کا بیج تناور درخت بن چکا تھا۔۔ حورعین کچھ بھی کر لیتی وہ کبھی اسکا یقین نا کرتا۔۔
ویسے بھی وہ شخص اپنی محبت ختم کر چکا تھا۔۔
حورعین نے خاموشی سے ہاتھ میں پہنی اسد کے نام کی انگوٹھی اتاری اور جھک کر میز پر رکھ دی۔۔
پھر وہ نفسیہ تاٸ کی طرف بڑھی۔۔
کبھی سوچا ہے آپ نے۔۔ آپ کے گھر بھی ایک بیٹی ہے۔۔ کسی پر تہمت لگانے کا انجام شاید آپ جانتی نہیں ہیں۔۔ حورعین نے نفیسہ تاٸ سے کہا۔۔
بکواس بند کرو اپنی۔۔ میری بیٹی تم جیسی گھٹیا ہرگز نہیں ہے۔۔ نفیسہ تاٸ پھنکاری۔۔ حورعین کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ ابھری تھی۔۔
پھر وہ قدم اٹھاتی شرجیل کی طرف بڑھی۔۔
انسان کی محبت اس مجبور بنا دیتی ہے شرجیل بھاٸ یہ میں جانتی ہوں۔۔ آپ بھی مجبور ہوگۓ ہونگے۔۔ میں سمجھ سکتی ہوں۔۔ لیکن ایک بات یاد رکھیے گا۔۔ شہرین بھی اسد ہی کی بہن ہے۔۔ جب اتنا کچھ کرنے کے بعد مجھے اسد نے یہ صلہ دیا۔۔ تو یاد رکھیے گا آپکو بھی شہرین سے کچھ نہیں ملنا۔۔
شرجیل گڑبڑا کر نظریں جھکا گیا۔۔
بکواس بند کرو اپنی گھٹیا عورت۔۔ شہرین پھنکاری تھی۔۔
اسد نے دونوں کی باتیں سن کر اپنی آنکھیں بند کی۔۔
حورعین نے پلٹ کر ایک نظر بھی اسد کو نہیں دیکھا۔۔ وہ اپنا بیگ اٹھاتی باہر نکل گٸ۔۔
اسے باہر نکل کر پتا چلا تھا کتنی تیز بارش ہورہی تھی۔۔ وہ پاگلوں کی طرح چلی جا رہی تھی۔۔ اسکے آنسوں بارش کے پانی میں مل کر پانی بن گۓ تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”شدت سے یاد کرتا ہے کوٸ۔۔،
مدت سے یہ وہم نہیں جاتا۔۔،“
حمزہ ٹی وی لاٶنج میں بیٹھا نیوز سن رہا تھا۔۔ نیوز کاسٹر لاہور میں ہونے والی طوفانی بارش کی تفصیل بتا رہی تھی۔
بےاختیار ہی اسے حورین یاد آٸ تھی۔۔ جانے وہ کیا کر رہی ہوگی۔۔ ایک دن میں ایک ہزار دفعہ اسکا دل کرتا تھا کہ وہ حورعین کو کال کرکے اسکی آواز سنے۔۔
وہ کسی اور کی ہے ۔۔ یہی سوچ کر وہ رک جاتا تھا۔۔
جب اسکا دل زیادہ ہی گھبرا اٹھا تو اس نے حرم کا نمبر ملایا۔۔
کیسے ہو ہیکر صاحب۔۔؟؟ حرم کی آواز ابھری۔۔
ٹھیک ہوں مگر ناک ناک تک کسی کی یاد میں ڈوبا ہوں۔۔ حمزہ نے جواب دیا۔۔
ہاہاہاہا۔۔ حرم کا قہقہہ ابھرا ۔۔ سچی۔۔؟؟ کون ہے وہ جسکی یاد میں ہیکر صاحب گم ہیں۔
آپکو پتا ہے حرم بھابھی لاہور میں طوفانی بارش ہو رہی ہے۔۔ حمزہ نے بات بدل دی۔۔
کیا واقعی۔۔؟؟ حرم حیران ہوٸ۔
میں کب سے حورعین کا نمبر ٹراۓ کر رہی ہوں۔۔ مگر آف جا رہا ہے۔۔
اچھا۔۔ حمزہ جو سوچ رہا تھا کہ حرم سے حورعین کی خبر مل جاۓ گی حرم کی بات سن کر اداس ہو گیا تھا۔۔
ویسے دادو میری شادی کے چکر میں ہیں آج کل۔۔ حمزہ نے بتایا۔۔
اچھی بات ہے۔۔ کرلو شادی۔ گھر میں رونق ہوجاۓ گی۔
لڑکی ملے تب نا۔۔حمزہ نے مسکرا کر جواب دیا۔
اچھا تو کیسی لڑکی چاہیۓ ہیکر صاحب کو۔۔؟؟ اپنے جیسی شیطانی دماغ والی۔۔؟؟ حرم نے مسکراتے ہوۓ پوچھا۔۔
نہیں۔۔ بالکل بھی نہیں۔۔ آپ جیسی چاہیۓ۔۔ آپکی پرچھاٸ ہو۔۔ حمزہ نے دل کی بات بتاٸ۔
بیشک وہ حورعین کو چاہتا تھا اور حورعین حرم کی بہن تھی مگر وہ ہرگز بھی حرم جیسی نہیں تھی۔۔ اور یہی بات حمزہ کو تکلیف دیتی تھی۔۔خیر اب تو وہ کسی اور کی تھی۔۔
آپ جلدی سے پاکستان آٸیں پھر اپنی جیسی ڈھونڈیے گا۔۔ حمزہ کے لہجے میں شرارت تھی۔۔
اتنی بھی کیا جلدی ہے ہیکر صاحب تھوڑا صبر رکھیں۔۔ حرم مسکراٸ۔
کہہ تو آپ ٹھیک ہی رہی ہیں۔۔ لیکن دادو کا کوٸ بھروسہ نہیں وہ گن پواٸنٹ پر میرا نکاح اپنی گاٶں کہ کسی پوتی سے پڑھوا دیں گی۔۔ حمزہ نے مسکین سی صورت بنا کر کہا۔۔
ہاہاہاہا۔۔ میں کرتی ہوں دادو سے بات۔۔ حرم اسکی باتوں پر ایسے ہی ہنستی تھی۔۔
کچھ دیر وہ حرم سے بات کرنے کے بعد فون بند کرچکا تھا۔۔ مگر آج اسے نیند نہیں آرہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حرم کا صبح پیپر تھا۔۔ وہ ناک ناک پڑھاٸ میں مصروف تھی۔۔ چونکہ فاٸنل اگزامز تھے۔۔ ہاسٹل میں بھی سب سٹڈی میں مصروف نظر آ رہے تھے۔۔ ماٸیکل دوبارہ رون کے منہ نہیں لگا تھا۔۔ البتہ اسکی لور ایملی نے اس سے بریک اپ کرلیا تھا۔۔
رون بھی کتاب کو سامنے رکھے اسے گھور رہا تھا۔۔ یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ پڑھ رہا ہے یا کتاب کو کھانے والا ہے۔۔
حیرت انگیز طور پر وہ سب سے پہلے پیپر یاد کر چکا تھا۔۔ اب آگٸ تھی سٹوڈنٹس کی شامت۔۔
سونگ ہاسٹل کے پچھلے کاریڈور میں بیٹھی اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں پر چشمہ جماۓ رٹے لگانے میں بزی تھی۔۔ رون کی شیطانی نظر سب سے پہلے اس پر پڑی تھی۔۔ وہ جانتا تھا سٹوڈنٹس چھپ چھپ کر پڑ رہے ہونگے۔۔
جانے کہاں سے ایک سانپ سونگ کے کندھے پر چڑ گیا تھا۔۔ اس بیچاری کی تو ڈر کے مارے چینخ بھی نہیں نکل پاٸ تھی۔۔سانپ اسکے کندھے سے پھسلتا ہوا نیچے اتر کر دور چلا گیا تھا۔۔ سونگ کا چہرہ پسینے سے تر ہو گیا تھا۔
اچانک سونگ کے داٸیں ساٸیڈ سے عجیب سی آواز ابھری تھی۔۔ سونگ نے ڈرتے ڈرتے داٸیں طرف دیکھا۔۔ اس طرف تھوڑا اندھیرا تھا۔۔ اچانک وہاں روشنی ہوٸ اور سفید کپڑوں میں ملبوس ایک سایہ سا نظر آیا۔
سونگ تو چینختی۔۔ کتاب وہیں چھوڑ کر بھاگ چکی تھی۔۔
اور پیچھے سے رون کا جناتی قہقہہ ابھرا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہاں ہو تم لوگ۔۔؟؟ حرم نے عرش کو کال کی تھی۔
میں بیلا کے اپارٹمنٹ جا رہی ہوں۔۔ رون نے ناک میں دم کردیا ہے۔۔ خود تو پتا نہیں وہ کچھ پڑھتا ہے یا نہیں۔۔ لیکن دوسروں کو ہرگز پڑھنے نہیں دیتا۔۔
اچھا سہی ہے۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔
اور کتنی تیاری ہوگٸ تمہاری۔۔؟؟ عرش نے پوچھا۔
ابھی رہتی ہے۔۔ ایسا فیل ہو رہا ہے جیسے کچھ آتا ہی نہیں۔۔
ہاہاہا ہاں نا ایسا ہی لگتا ہے ۔۔۔ چلو میں پہنچ کر کال کرتی ہوں۔۔ عرش نے کہنے کے بعد کال کاٹ دی۔۔
اور حرم بےچارگی سے کتابوں کو دیکھ رہی تھی۔۔ اس وقت وہ اسے اپنی سب سے بڑی دشمن نظر آ رہی تھیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حورعین گھر پہنچ گٸ تھی۔۔ اسے نہیں پتا وہ کیسے گھر تک پہنچی تھی۔۔ وہ پوری بارش میں بھیگ چکی تھی۔۔ اسکے ہونٹ مسلسل بارش میں بھیگنے کے باعث نیلے پڑ چکے تھے۔۔ اسکے آنسوں خشک ہوگۓ تھے۔۔
حورعین کہاں تھی تم۔۔؟؟ میں کب سے انتظار کر رہی تھی۔۔صابرہ خاتون بہت پریشان تھیں۔۔
حورعین تو کچھ سن ہی نہیں رہی تھی۔۔ اس بے پتھراٸ نظروں سے صابرہ خاتون کو دیکھا اور پھر اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر لیا۔۔
تمہیں کوٸ حق نہیں حورعین کہ تم اسد کے ساتھ اس طرح گھومو پھرو۔۔
جب تم میرے ساتھ جا سکتی ہو تو شرجیل کے ساتھ بھی جا سکتی ہو نا۔۔
میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا حورعین کہ تم اتنی گھٹیا نکلو گی۔۔
حجاب کرلینا حورعین۔۔ حرم کی آواز گونجی۔
تمہیں عادت ہے ننگے سر گھومنے کی۔۔ اسد کی زہریلی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکراٸ۔۔
جیسی بڑی بہن ویسی ہی چھوٹی۔۔
کیا کمی رہ گٸ تھی میرے پیار میں حورعین۔۔
مر چکی ہو تم آج سے میرے لیۓ۔۔
لعنت بیجھتا ہوں میں تمہاری محبت پر۔۔ جو دن میں کسی اور کی ہے اور رات میں کسی اور کی۔۔
مجھے گھن آ رہی ہے تم سے حورعین۔۔
اسد کے جملے اسکے پیچھا نہیں چھوڑ رہے تھے۔۔
نہیں۔۔۔ حورعین نے دونوں ہاتھ اپنے کانوں پر رکھے تھے۔۔ جیسے اس طرح کرنے سے وہ آوازیں اسکا پیچھا چھوڑ دینگی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلو زی۔۔ اب گھر چلو۔۔ تم نے کافی ڈرنک کرلی ہے۔۔ صبح پیپر بھی ہے۔۔ شالے نے زی سے کہا جو مسلسل ڈرنک کیۓ جا رہی تھی۔۔
تو کیا ہوا اگر پیپر ہے۔۔ زی کو پڑھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔۔زی نے کہا۔۔ وہ ٹن ہوٸ پڑی تھی۔۔ زیادہ ڈرنک کے باعث اسکی آنکھیں نہیں کھل رہی تھیں۔۔ کلب میں کانوں کو پھاڑ دینے والا میوزک بج رہا تھا۔۔
وہ تو ٹھیک ہے۔۔ لیکن ریم کو پتا چلا تو اسے غصہ آۓ گا۔
آنے دو۔۔ میں چاہتی ہوں وہ یہاں آۓ اور مجھے لے کر جاۓ۔۔ اسکی نیلی آنکھوں میں خواہش ابھری۔۔
وہ ڈانٹے گا زی۔۔
وہی تو میں چاہتی ہوں۔۔ جب وہ ڈانٹتا ہے نا تو بہت اچھا لگتا ہے۔۔ اپنا اپنا سا لگتا ہے۔۔
تم پاگل ہو زی۔۔
ہاں میں پاگل ہوں۔۔ ریم شاہ کیلیۓ زی شاہ پاگل ہے۔۔ وہ چلاٸ لیکن میوزک کے شور میں اسکی آواز دب کر رہ گٸ۔۔
اچانک زی کی نظر ایک کونے میں کھڑے شخص پر پڑی۔۔ وہ وہی ہیٹ والا شخص تھا جو اسکے خواب میں آیا تھا۔۔ زی نے آنکھوں کو ہاتهوں کی ہتھیلیوں سے مسلا کہ شاید اسکا وہم ہو۔۔ مگر وہ وہی شخص تھا۔۔ہاں وہی تھا۔۔
ہے رکو۔۔ زی اسکی طرف بڑھی۔
❤❤❤❤❤❤
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─