┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 39
پارٹ 2

 زی اس شخص کے پیچھے بھاگی تھی۔۔ 

رکو زی کہاں جا رہی ہو۔۔ شالے نے اسے روکا۔۔

ششش۔۔ وہ شخص۔۔ وہ جو وہاں کھڑا ہے۔۔ مجھے اس سے ملنا ہے۔۔ زی نے اس شخص کی طرف اشارہ کیا۔

مگر زی وہاں تو کوٸ بھی نہیں ہے۔۔ شالے نے حیرت سے کہا۔

ہے۔۔ تمہیں نظر نہیں آ رہا۔۔ وہ جو ہیٹ اوڑھے کھڑا ہے۔۔ زی کو وہیں کھڑا نظر آرہا تھا۔

لگتا ہے زی تمہیں نشہ چڑھ گیا ہے۔۔ وہاں کوٸ بھی نہیں ہے۔۔

میں پاگل نہیں ہوں مجھے صاف نظر آرہا ہے۔۔ رکو تم میں ابھی آتی ہوں۔۔ زی اسکے منع کرنے کے باوجود بھی اس شخص کٕ پیچھے چلی گٸ۔ زی کو اپنی طرف آتا دیکھ کر وہ شخص کلب سے باہر کی طرف بڑھ گیا۔

ہے رکو۔۔ 
لسن۔۔ تمہیں سن نہیں رہا۔۔ 
زی اسے پکارتی اسکے پیچھے کلب سے باہر نکل آٸ۔ 

باہر اندھیرا تھا۔۔
زی کا ویسے ہی ڈرنک کی وجہ سے دماغ گھوما ہوا تھا۔۔ اسے کچھ صاف نظر نہیں آرہا تھا۔۔ 

کہاں گۓ۔۔؟؟ 

کافی دھیان دینے کے بعد زی کو وہ سڑک کے کنارے کھڑا نظر آیا۔

کون ہو تم۔۔؟؟ زی نے اسکے پاس جا کر پوچھا۔۔ ہمیشہ کی طرح اس شخص کا چہرہ ہیٹ میں چھپا تھا۔

کون ہو تم۔۔؟؟ اور میرا پیچھا کیوں کرتے ہو۔۔؟؟ زی نے دوبارہ پوچھا۔۔

اس لڑکی سے مقابلہ مت کرو۔۔وہ سخت سے لہجے میں بھولا۔۔

کس سے۔۔؟؟ کس کی بات کر رہے ہو تم۔۔۔؟ زی حیران ہوٸ۔۔

نور۔۔۔ نورالایش۔۔ حرم نور۔۔۔ اسکا سخت لہجہ اس نام کے ساتھ ہی عقیدت میں ڈھل گیا۔

کیوں۔۔ کیوں نا کروں۔۔ ؟؟ تم۔۔ تم اسے کیسے جانتے ہو۔۔ زی کا نشہ ہرن ہوا۔

اس سے مت ٹکراٶ۔۔ اس سے ٹکرانا تمہارے بس کی بات نہیں۔۔ اس سے مل جاٶ۔۔ اس میں ڈھل جاٶ۔۔ 
وہ پراسرار سے لہجے میں کہہ رہا تھا۔۔

حرم نور۔۔ کیا رشتہ ہے تمہارا اس سے۔۔؟؟ اور کیا خاص بات ہے اس میں۔۔ میں کیوں اسے کمپیٹ نہیں کر سکتی۔۔؟؟ زی نے جو دل میں تھا وہ پوچھ لیا۔

#محبت۔۔۔ 
محبت کی دیوی ہے وہ۔۔ محبت لپٹی ہے اسکی زات کے گرد۔۔ سایہ ہے اس پر محبت کا۔۔

زی حیران سی سن رہی تھی۔۔ 

#عقیدت۔۔۔ بستی ہے اس میں۔۔تم محبت کا مقابلہ کر سکتی ہو اسکی عقيدت کا نہیں۔۔ 

محبت تو میں نے بھی کی ہے۔۔محبت کی تو پجاری میں بھی ہوں۔۔ تو پھر۔۔ کیا فرق ہے اس میں اور مجھ میں۔۔؟؟ 

اس نے اپنی زات کو خدا کے سپرد کیا ہوا ہے۔۔ جو خود کو خدا کے سپرد کردے۔۔ جو معاملات خدا پر چھوڑ دے۔۔ اس شخص کا کوٸ مقابلہ نہیں کرسکتا۔۔ جو خدا کے سامنے سر جھکاتا ہے خدا اسکو ہمیشہ بلند رکھتا ہے۔۔ 

تم ہو کون۔۔۔؟؟ اسے اتنا کیسے جانتے ہو۔۔؟؟ اور مجھے۔۔ مجھے کیوں بتا رہے ہو سب۔۔ میرا پیچھا کیوں کرتے ہو۔۔ 
زی کو اسکی آدھی باتیں سمجھ آرہی تھیں۔۔ اور آدھی نہیں۔۔

اب جاٶ۔۔ اسکے رنگ میں رنگ جاٶ۔۔ اسکے رنگ میں رنگو کی تو محبت تمہاری ہو جاۓ گی۔۔ 

مگر۔۔ 

زی۔۔۔ 
شالے نے اسے پکارہ۔۔ زی جو کچھ کہنا چاہتی تھی۔۔ شالے کے پکارنے پر اس نے پیچھا مڑ کر دیکھا۔۔

شالے وہ دیکھو۔۔ وہ شخص۔۔ 
لیکن جیسے ہی زی نے پلٹ کر واپس دیکھا تو حیران رہ گٸ۔۔ وہ ہیٹ والا شخص غائب ہو چکا تھا۔۔ زی کا سر چکرا گیا۔۔

کون زی۔۔؟؟ کس کی بات کر رہی ہو۔۔؟؟

زی سمجھ چکی تھی۔۔ معاملہ اسکی سمجھ سے باہر ہے۔۔

کسی کی بھی نہیں۔۔ چلو گھر چلتے ہیں۔۔ زی نا نشہ اتر چکا تھا۔۔

وہ یہ بات شالے کو نہیں بتانا چاہتی تھی۔۔

کچھ راز ،راز ہی رہیں تو اچھا ہے۔۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایسا لگتا تھا جیسی ساری طوفانی بارش آج ہی لاہور شہر میں برسنے کی ضد باندھ چکی تھی۔۔

حورعین کی کیفیت بیان سے باہر تھی۔۔ اسکی خوبصورت آنکھیں سرخ ہونے کے ساتھ ساتھ سوج چکی تھیں۔۔

اسد۔۔ میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔۔ مم۔۔ میں بےوفا نہیں ہوں۔۔ وہ بری طرح سے رو رہی تھی۔

اسکی سسکیاں بارش کی آواز میں دب گٸ تھیں۔۔ 

ایسا کیوں ہوا میرے ساتھ۔۔ میں نے محبت ہی کی تھی نا۔۔ کوٸ گناہ تو نہیں کیا تھا۔۔ پھر۔۔ پھر۔۔ اتنی بری سزا کیوں ملی مجھے۔۔

اللہ اکبر۔۔ اللہ اکبر۔۔ 
اچانک عشا کی اذان شروع ہوٸ تھی۔۔ اور حورعین کے رونے میں شدت آگٸ تھی۔۔ 

اتنی بے عزتی۔۔۔ اسد نے اسکے منہ پر تصویریں ماری تھیں۔۔ جو اسکے تھپڑ مارنے سے زیادہ ازیت ناک تھا۔۔

محبت اسکی رسواٸ کا سبب بن گٸ تھی۔۔ پر کیوں۔۔؟؟ محبت رسواٸ کا سبب کیوں بنی۔

”جو محبت تمہیں خدا سے دور کردے وہ گناہ ہوتی ہے۔۔ حرم کا مسکراتا چہرہ ابھرا۔۔

وہ جو نیچے کارپٹ پر بیٹھی تھی۔۔ حرم کے خیال سے چونک اٹھی۔۔

حرم۔۔ محبت۔۔

ایک محبت تو حرم نے بھی کی تھی۔۔ 

دل تو اسکا بھی ٹوٹا تھا۔۔

ایک دھوکہ تو اس نے بھی کھایا تھا۔۔ 

پھر کیوں کوٸ جان نا پایا۔۔ محبت نے اسے رسوا کیوں نا کیا۔۔؟؟ 

حرم اسکی بہن تھی۔۔ بیشک اسکے اور حرم کے درمیان اتنی فرینک نیس نہیں تھی کہ وہ دونوں محبت کی باتیں کرتی۔۔

لیکن وہ جان گٸ تھی۔۔ حرم کا تڑپنا اس نے بھی دیکھا تھا۔۔

پھر کیوں اسکی محبت ایک راز بن گٸ جو کوٸ نا جان پایا۔۔؟؟ آخر کیوں۔۔؟؟ وہ چینخ رہی تھی۔

نماز پڑھ لیا کرو حورعین۔۔ 

اچھا اس سے کیا فاٸدہ ہوگا۔۔؟؟ اسے اپنی کہی گٸ بات یاد آٸ۔۔

جو اللہ پاک کے سامنے سر جھکا دیں نا اللہ پاک وہ سر کبھی کسی اور کے سامنے جھکنے نہیں دیتا۔۔ حرم نے جواب دیا۔

جب میرا دل کرے گا میں پڑھ لونگی۔۔ تم کیوں کہتی رہتی ہو مجھے۔۔ ویسے بھی ہمارے دین میں زبردستی نہیں۔۔

نماز فرض ہے حورعین۔۔ اس میں دل نا کرنے والی کون سی بات ہے۔۔ 

یار میری مرضی میں پڑھوں یا نا پڑھوں۔۔ وہ غصہ ہوٸ تھی۔۔

تمہاری مرضی نہیں ہے حورعین۔۔ تم خود ہی جھک جاٶ۔۔ اپنا سر جھکا دو اللہ کے سامنے۔۔

اگر نا جھکاٶں تو کیا ہوگا۔۔؟؟ 

تو وہ تمہیں مجبور کردے گا۔۔ اتنا مجبور کہ تم جھکنے پر مجبور ہو جاٶ گی۔۔ 
 Turn to Allah.. before you return to Allah..
حرم نے جواب دیا تھا۔۔

حورعین آپی ماما بلا رہی ہیں کھانا کھا لو۔۔ 
باہر دروازے پر جیا کی آواز ابھری تھی۔۔ وہ چونک کر خیالوں سے باہر آٸ۔۔

اسے شدت سے حرم کی یاد آ رہی تھی۔۔اسکا سمجھانا حورعین کو برا لگتا تھا۔۔ مگر آج اسے سمجھ آٸ تھی۔۔ وہ کیوں کہتی تھی یہ سب۔۔ 

وہ سب کچھ اکیلے ہی سہہ چکی تھی۔۔ زندگی اسے چپکے چپکے سارے سبق پڑھا گٸ تھی۔۔ اور وہ سمجھدار نکلی تھی جو سمجھ گٸ تھی۔۔ 

اس نے کبھی کسی کو محسوس نہیں ہونے دیا کہ اسکے اندر کون بستا ہے۔۔ یہ حورعین بھی نہیں جانتی تھی۔۔ 
اس نے خود اپنی محبت چھوڑ دی تھی۔۔ اور خود محبت چھوڑ دینے کا درد کیا ہوتا ہے۔۔ وہ کوٸ حرم سے پوچھتا۔۔

وہ اپنے درد کو اپنے اندر ہی کہیں دبا گٸ تھی۔۔ اسکے آنسو صرف جاۓ نماز پر نکلتے تھے۔۔ 

حرم۔۔ کیا تھی وہ۔۔؟؟ کیوں تھی وہ ایسی۔۔؟؟ کیا راز چھپا تھا اسکی زات میں۔۔؟؟ پہلی بار حورعین نے حرم کو اتنا سوچا تھا۔

 #حرم۔۔۔ یعنی #حرم_کعبہ۔۔ یعنی کعبہ کی چار دیواری۔۔

جیسے حرم کعبہ مقدس تھا۔۔ ویسے اسکی زات میں کچھ مقدس تھا۔۔ کچھ الگ تھا۔۔

اور وہ تھی اسکی روح۔۔ انسان کا جسم گناہگار ہوتا ہے۔۔ اگر گناہ بڑھتے جاٸیں۔۔ اور انسان سیدھا راستہ ہمیشہ کیلیۓ چھوڑ دے۔۔ وہ توبہ بول جاۓ۔۔ خدا کا قہر بھول جاۓ۔۔ تو اس انسان کی روح مقدس و پاکیزہ نہیں رہتی۔۔ 

کیا خاص بات تھی حرم میں یہ حورعین کو آج پتا چلی تھی۔۔ وہ حورعین تھی۔۔ پھر بھی وہ حرم جیسی نا بن سکی۔۔ 

کیونکہ حرم کے جسم میں ایک مقدس روح پوشیدہ تھی۔۔ ہاں اگر روح پاکیزہ ہو تو وہ انسان کو خود بخود خاص بنا دیتی ہے۔۔ جسم۔کو مقدس بنا دیتی ہے۔۔ جسم کے مقدس ہونے کیلیۓ ضروری ہے روح کا مقدس ہونا۔۔ اور روح کو مقدس بنانا اتنا بھی آسان نہیں۔۔ خود کو کھونا پڑتا ہے۔۔ اپنا آپ مارنا پڑتا ہے۔۔ تب جا کر روح سے وہ نور وہ روشنی پھوٹتی ہے جو جسم کو مقدس بنا دے۔۔ 

شاید تبھی اللہ پاک نے اسکا نام حرم نور لکھا تھا۔۔ صفحہ قرطاس پر۔۔ 

حرم۔۔ 
حورعین پوری قوت سے چلاٸ تھی۔۔
اور ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رودی۔۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو میری۔۔ کک سٹاف سے کہہ دو آج موسم کی مناسبت سے کھانا بناٸیں۔۔ بارش کا موسم ہے تو پکوڑوں کا آڈر دے دو۔ 

ایش نے اپنے اپارٹمنٹ سے میری کو کال کی تھی۔۔

یس میم اوکے۔۔ بٹ عاٸشہ میم۔۔ میری نے کچھ کہنا چاہا۔۔

کچھ نہیں کہتی وہ۔۔ جو asians پرسنز ہیں۔۔ میں نے سیچ کیا ہے وہ بارش کو ایسے ہی انجواۓ کرتے ہیں۔۔ تو کیوں نا انکی یادیں تازہ کردی جاٸیں وہ خوش ہو جاٸیں گے۔ اور ایک روٹین سے ہٹ کر کھانا کھانے میں کوٸ قباحت نہیں۔۔ ایش نے مسکرا کر جواب دیا۔۔۔

اوکے میم۔۔ آپ بہت اچھی ہیں۔۔ سب کے بارے میں سوچتی ہیں۔سب کا خیال رکھتی ہیں۔ تبھی اولڈ ہاٶس کے سارے لوگ آپکے فین ہیں۔۔ 

تھینک یو میری۔۔ پر میں اتنی اچھی بھی نہیں ہوں۔ میں تو جسٹ اپنی ڈیوٹی کرتی ہوں۔۔

نہیں میم آ جسٹ ڈیوٹی نہیں کرتیں۔ یہ کچھ بڑھ کر ہے۔۔ میری نے سچ کہا۔

اچھا ٹھیک ہے۔جو بھی ہے مجھے اچھا لگتا ہے۔۔ ٹھیک ہے میں ادھر ہی آرہی ہوں۔ 

اوکے میم۔
ایش ونڈو کے سامنے کھڑی تھی۔ونڈو گلاس سے پورے اولڈ ہاٶس کی بلڈنگ نظر آرہی تھی۔۔ مگر وہ سٹاف کوارٹرز سے کافی فاصلے پر تھی۔۔ درمیان میں سبزہ پھیلا تھا۔۔ جو نگاہ کو سکون بخشتا تھا۔ موسم اتنا خوشگوار تھا کہ ایش کا موڈ اسے دیکھ کر بہت فریش ہو گی تھا۔۔ ایسا لگتا تھا جیسے ابھی بارش شروع ہو جاۓ گی۔

ایش نے فون ایک طرف رکھا اور چینج کرنے چلی گٸ۔۔ بارش شروع ہونے سے پہلے وہ اولڈ ہاٶس پہنچنا چاہتی تھی۔۔

دس منٹ بعد جب وہ ریڈی ہو کر باہر نکلی تو بارش شروع ہو چکی تھی۔۔

ایش نے شال اپنے گرد لپیٹنے کے بعد چھاتہ اٹھایا اور اولڈ ہاٶس کی طرف بڑھ گٸ۔

وہ تیز تیز قدم اٹھا رہی تھی۔۔ مگر بارش ایک دم تیز ہوٸ تھی۔۔ پانچ منٹ لگے تھے اسے کوارٹرز سے اولڈ ہاٶس پہنچنے میں۔۔ مگر اس دوران چھاتے کے باوجود وہ بھیگ چکی تھی۔

بلڈنگ میں داخل ہونے کے بعد ایش نے چھاتہ بند کیا۔۔ ڈیوٹی پر جو سٹاف تھا وہ بلڈنگ کے پیچھے کی جانب بارش انجواۓ کرنے میں مگن تھا۔۔ یہ سردیوں کی پہلی بارش تھی۔۔ آج کی بارش کے بعد سردی کی شدت میں اضافہ ہو جانا تھا۔۔

اوو میم آپ تو ساری بھیگ چکی ہیں۔۔ اچانک ایک نرس اسکی طرف بڑھی۔

اٹس اوکے نو پرابلم۔۔ ایش اپنے آفس کی طرف بڑھی۔۔ وہاں جا کر اس نے اپنی بھیگی شال اتاری اور ایک کبرڈ سے دوسری شال نکال کر اوڑھی۔۔

اب اسکے قدم وہاں موجود بوڑھے لوگوں کے کمروں طرف اٹھ رہے تھے۔۔ لیکن وہاں جا کر اسے حیرانی ہوٸ۔۔ کیونکہ بہت سارے کمرے خالی تھے۔۔ بس کچھ ہی لوگ تھے جو شاید سوۓ ہوۓ تھے۔۔

پھر وہ کچھ سوچتے ہوۓ پچھلی طرف بڑھی۔ 

وہاں جاکر اسے اور حیرت ہوٸ۔۔کیونکہ وہاں ایک الگ سی رونق لگی تھی۔۔ 

بوڑھے لوگ کاغز کی کشتیاں بنا کر بارش کے پانی میں بہا رہے تھے۔۔ جسے وہ دادا جی کہتی تھی وہ سب سے زیادہ پرجوش تھے۔۔

ارے ایش بیٹا آٶ۔۔ دیکھو کتنا مزہ آرہا ہے۔۔ سب بہت اچھا لگ رہا ہے۔۔ 

ایش مسکرا کر آگے بڑھی۔

جب میں چھوٹا تھا نا تب اسطرح کاغز کی کشتیاں بنایا کرتا تھا۔۔ اور آج کتنے سالوں بعد میں نے یہ کام کیا ہے۔۔ ایسا لگتا ہے جیسے بچپن لوٹ آیا ہے۔۔ ایش دادا جی کے چہرے پر خوشی کی چمک کو محسوس کر سکتی تھی۔

اور یہ سچ ہی تو ہے۔۔ جب انسان بوڑھا ہو جاتا ہے۔۔ تو اکیلا ہو جاتا ہے۔۔ پھر وہ اپنے بچپن میں لوٹ جاتا ہے۔۔ 

اور اولڈ ہاٶس میں موجود سارے بوڑھے لوگ اس وقت اپنے اپنے بچپن میں لوٹ گۓ تھے۔۔

ایش ماۓ چاٸلڈ۔۔ اچانک ایش کو پیچھے سے ایک بوڑھی عورت نے پکارہ۔۔ 

یہ دیکھو یہ میں تمہارے لیۓ بنارہی ہوں۔۔ اس کا رنگ اچھا ہے۔۔ وہ ایش سے پوچھ رہی تھی۔۔ اس بوڑھی عورت کے اتھ میں ایک کروشیہ تھا اور اونی گولے۔۔ جس سے وہ سویٹر بن رہی تھی۔۔ ایش کیلیۓ۔

بہت اچھا ہے مدر۔۔ ایش مسکراٸ۔۔

میں اسے مکمل کر کے لاتی ہوں۔وہ کہتی اپنی چیٸر کی طرف بڑھ گٸ۔۔

دادا جی کاریڈور سے نکل کر بارش میں بھیگنے کیلیۓ جا رہے تھے۔۔ 

آپ کہاں جا رہے ہیں دادا جی۔۔ ایش انکے پیچھے بڑھی۔۔۔
ٹھنڈ لگ جاۓ گی۔۔ چلیں واپس۔۔ آپ صرف دیکھ کر بارش انجواۓ کر سکتے ہیں۔۔ بھیگنے کی پرمیشن نہیں آپکو۔۔ایش انہیں بازو سے پکڑ کر واپس لاٸ۔۔

جب میں چھوٹا تھا نا بارش میں خوب نہایا کرتا تھا۔۔ گلیوں میں کھیلتا تھا۔۔ دادا جی بتارہے تھے۔

میری۔۔ ایش نے میری جو پکارا۔

جی میم۔۔ وہ فوراً بولی۔۔

یہاں موجود سبھی لوگوں کے کوٹ لاٶ۔۔ بس کچھ دیر اور جب تک کھانا نہیں بن جاتا تب تک یہ لوگ یہاں بیٹھ سکتے ہیں۔۔ پھر ہم انہیں اندر لے جاٸیں گے۔۔ ایش نے کہا۔۔

اوکے میم۔۔ میری کہتے چلی گٸ۔۔

اب آپ یہاں سے مت اٹھیے گا میں آپ کیلیۓ پکوڑےلاتی ہوں۔۔ ایش نے دادا جی کو بٹھاتے ہوۓ کہا۔۔ اور پھر وہ میس ایریا کی طرف بڑھ گٸ۔۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ رات حورعین کیلیۓ ایک عزاب تھی۔۔ اسکا دل ٹوٹا تھا۔ اور وہ کسی کو بتا بھی نہیں سکتی تھی۔۔ کیا کہتی۔۔ اسکی بدکرداری کی وجہ سے اسد نے اسے چھوڑ دیا۔۔ 

یا اللہ۔۔ 

پہلی بار اس نے اللہ کو دل سے پکارہ تھا۔

کچھ سوچنے کے بعد وہ اٹھی تھی۔۔ اسکا جسم بخار میں تپ رہا تھا۔ وضو کرنے کے بعد وہ جاۓ نماز پر کھڑی ہوٸ تھی۔۔جانے کتنے عرصے بعد وہ عشا کی نماز پڑھنے لگی تھی۔۔ جیسے ہی اس نے جاۓ نماز پر قدم رکھا تھا۔ ندامت کے آنسو اسکی آنکھوں سے رواں ہو چکے تھے۔۔

نماز پڑھ کر دعا مانگتے وقت وہ بے تحاشہ روٸ تھی۔۔ اپنی غلطیوں کی معافی مانگی۔۔ اسے غنودگی تاری ہورہی تھی۔۔ یا شاید نماز نے اسے سکون عطا کیا تھا۔۔ کچھ دیر بعد وہ وہیں جاۓ نماز پر سو چکی تھی۔۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حرم اور عرش اگزامینیشن ہال سے باہر آۓ تھیں۔۔ اور انکے ساتھ اور ان سے پہلے کافی سٹوڈنٹس نکلے تھے۔۔ انکا پہلا پیپر ہو چکا تھا۔۔یپر سے پہلے وہ لوگ جتنا گھبراۓ ہوۓ تھے اب انکے چہروں پر اتنا ہی اطمینان تھا۔۔ پیپر اچھا ہوگیا تھا۔ 

کچھ کھا کیں مجھے شدید بھوک لگی ہے۔۔ عرش نے کہا۔

ہاں ٹھیک ہے۔۔ بھوک تو مجھے بھی لگی۔۔ واصے اور بیلا آجاۓ پھر چلتے ہیں۔ حرم نے جواب دیا۔

شکر خدا کا پیپر اچھا ہو گیا۔۔

ہاں میں نے بہت دعاٸیں مانگی تھیں۔۔ بہت وظیفے بھی کیۓ ہیں۔ بس اللہ پاک ہمیں کامیابی عطا کرے۔۔ حرم نے کہا۔

تبھی انکی نظر زی پر پڑی تھی۔۔ جو اپنے گروپ کے ساتھ کیفے کی طرف بڑھ رہی تھی۔۔ اسکے چہرے پر ہمیشہ کی طرح چمک تھی۔

اسکو تو پڑھنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ہوگی۔۔ عرش نے اسے دیکھ کر کہا۔۔

ہاں۔۔شاید۔۔ وہ اسکی قسمت۔۔ خدا پاک نے اسکے راستے آسان بناۓ ہیں۔۔ جبکہ ہم جیسے لوگوں کو محنت کرنے کے بعد خود کے راستے آسان کرنے پڑتے ہیں۔۔ حرم نے جواب دیا۔

واقعی ٹھیک کہہ رہی ہو تم۔۔ آٶ بیلا کو دیکھیں۔۔ اس سے پہلے کے اسکا رون سے سامنا ہو اور ہال ہی میں انکی جنگ مچ جاۓ۔۔ عرش نے ہنستے ہوۓ کہا۔ اور وہ دونوں ہال کی طرف بڑھ گٸیں۔۔ 

     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حورعین کی آنکھ اچانک دروازے پر ہونے والی دستک سے کھلی تھی۔۔کوٸ بار بار دروازہ کٹھکٹا رہا تھا۔۔

وہ مشکل سے اٹھی تھی۔۔ غور کرنے پر اسے محسوس ہوا کہ وہ آواز صابرہ خاتون کی تھی۔۔ 

بخار کے باعث اس سے چلا نہیں جارہا تھا۔۔ اسکے پورے جسم میں درد کی لہریں اٹھ رہی تھیں۔ 

اس نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔۔

صابرہ خاتون جارحانہ طیورں کے ساتھ اندر داخل ہوٸیں۔۔

حورعین سمجھ چکی تھی کہ تاٸ نفیسہ نے کال کر کے انہیں سب کچھ بتا دیا ہوگا۔۔ انفیکٹ ایک بات کی چار باتیں بناٸ ہونگی۔۔

امی۔۔ حورعین نے صابرہ خاتون کے اس طرح گھورنے پر کچھ کہنا چاہا تھا۔۔ مگر اس سے پہلے وہ کچھ کہتی صابرہ خاتون نے آگے بڑھ کر ایک زوردار تپھڑ اسکے چہرے پر مارا۔۔

شرم نہیں آٸ تمہیں بے حیا۔۔ یہ گل کھلانے کے بعد اس گھر میں آنے سے اچھا تھا کہیں مر جاتی۔۔ انکے لہجے میں انتہا کی نفرت تھی۔۔

امی میری بات تو سنیں۔۔میں نے کچھ غلط نہیں۔۔ 

چپ۔۔ انہوں نے ایک اور تھپڑ اسکے نازک گال پر رسید کیا۔
بالکل چپ۔۔ 

کاش یہ تپھڑ میں نے تمہیں تب مارا ہوتا جب تم اپنے جزبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسد کی باتوں میں آٸ تھی۔۔

کاش یہ تپھڑ میں نے تمہیں تب مارا ہوتا جب تم نے اسد سے کہا تھ کہ میں تمہارے بنا نہیں رہ سکتی۔۔ 

حورعین جو سوچ رہی تھی کہ امی کو نہیں پتا ہوگا۔۔ اسے آج پتا چلا وہ سب جانتی تھیں۔۔ 

یہ تپھڑ تمہیں تب مارا ہوتا جب تم حرم سے بدتمیزی کرتی تھی۔۔

تب مارا ہوتا جب تم نے کہا تھا کہ تمہں اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینی ہے۔۔ 

حورعین کے آنسو جاری ہوگۓ تھے۔۔ جبکہ صابرہ خاتون کی آواز شدت جزبات کی وجہ سے کانپ رہی تھی۔۔ غصے کی وجہ سے انکا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔شاید مشکل سے انہوں نے اپنے آنسوٶں کو کنٹرول کیا ہوا تھا۔

یہ تپھڑ تمہیں تب مارا ہوتا جب تم اسد کے ساتھ گٸ تھی۔۔ وہ بھی اکیلے۔۔ حیا مر چکی ہے تمہاری حورعین۔۔لیکن تم اتنی بےغیرت ہو جاٶ گی کبھی سوچا نہیں تھا۔۔

حورعین کا سر مزید جھک گیا۔۔ اسکی غلطی تھی۔۔ سارے ثبوت اسکے خلاف تھے۔۔ اس نے کچھ غلط نہیں کیا تھا۔ کوٸ اسکا یقین نا کرتا۔۔ اس نے خاموش رہنا بہتر سمجھا۔۔

میں صرف حرم کی وجہ سے خاموش رہی۔۔ وہ تمہیں خود سمجھاتی رہی۔ مجھے تمہیں کچھ کہنے سے اس لیۓ منع کیا تھا کہ اسے لگتا تھا تم نادان ہو۔۔ جزبات میں آکر کوٸ غلط قدم نا اٹھا لو۔۔ ورنہ میں تم جیسی بےحیا بیٹی کا گلا کب سے گھونٹ دیتی۔۔

غلطی ہوگٸ مجھ سے۔۔ لیکن اب میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی۔۔

صابرہ خاتون نے آگے بڑھ کر اسکا گلا دبایا۔۔ کیونکہ وہ تصویریں دیکھنے کے بعد انکا دل حورعین کو مار دینے کو ہی کر رہا تھا۔۔

پاگل ہوگٸ ہو صابرہ بچی کی جان لو گی کیا۔۔
ساجدہ آنٹی نے آگے بڑھ کر صابرہ خاتون کو پکڑا۔۔

ہاں میں پاگل ہوگٸ ہوں۔۔ اس لڑکی نے مجھے پاگل کردیا ہے۔۔ اتنے عرصے سے میں اسے اور اسکی حرکتوں کو برداشت کر رہی ہوں۔۔ یہ مر ہی جاۓ تو اچھا ہے۔۔ 

حورعین نے کوٸ مزاحمت نہیں کی تھی۔۔ اتنی بدنامی کے ساتھ جینے سے اچھا وہ خود مر جانا چاہتی تھی۔۔

امی چھوڑیں اسے۔۔۔ نبیل نے آگے بڑھ کر صابرہ خاتون کے سے حورعین کو چھڑایا۔۔

سارے گھر والے حورعین کے کمرے میں جمع ہوگۓ تھے۔۔

آنٹی آپ غلط کر رہی ہیں۔۔ نفیسہ تاٸ کو جانتی تو ہیں آپ۔ پھر نیا ڈرامہ کیا ہوگا۔۔شزا نے کہا۔

وہ تصویریں تو جھوٹی نہیں ہے نا۔۔ جو اسکے کرتوتوں کی گواہی دے رہی ہیں۔۔ 

امی خدا کی قسم میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ وہ سب جھوٹ ہے میرا یقین کریں۔۔ حورعین نے روتے ہوۓ اپنی صفاٸ پیش کی۔

خبردار جو آج کے بعد مجھے امی کہا تو۔۔ مر گٸ تمہاری ماں سمجھ آٸ۔ اب تم بھی مر جاٶ۔۔ صابرہ خاتون غصے سے کہتی چلی گٸیں۔۔ ساجدہ آنٹی بھی انکے پیچھے گٸیں۔۔ 

حورعین تم ٹھیک ہو۔۔ شزا اسکی طرف بڑھی۔۔

شزا میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔۔۔ وہ بھیگی آنکھوں سے کہہ رہی تھی۔۔

مجھے تم پر بھرسہ ہے حورعین۔۔ تم اتنا غلط کام کبھی نہیں کر سکتی۔۔ شزا نے آگے بڑھ کر حورعین کو گلے لگایا۔۔ 

حورعین تمہیں تو بہت تیز بخار ہے۔۔ وہ فوراً پیچھے ہوٸ۔۔

تم رکو میں میڈیسن اور چاۓ لاتی ہوں تمہارے لیۓ۔۔ شزا کہتی واپس چلی گٸ۔۔

صبح پانچ بجے کا وقت تھا۔۔ یعنی فجر کی نماز کا وقت تھا۔ حورعین واشروم کی طرف بڑھ گٸ۔۔

دس منٹ شزا واپس آٸ تو حورعین کو جاۓ نماز پر کھڑ پایا۔ اسکی خود کی پلکیں بھیگ گٸیں۔۔ محبت نے اسے بہت گہرا زخم دیا تھا۔۔ 

     ❤❤❤❤❤❤❤
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔ 

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─