┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 40
پارٹ 1

میں تم سے بہت ناراض ہوں ایش۔۔ 
عاٸشہ نے ایش کے سامنے بیٹھتے ہوۓ کہا۔۔ عاٸشہ اور گل ایش سے ملنے اولڈ ہاٶس آٸی تھیں۔

کیوں۔۔ اب کیا کر دیا میں نے۔۔؟
ایش حیران ہوٸ۔

مما آپ بعد میں بتاٸیۓ گا کہ آپ ناراض ہیں یا نہیں۔۔ لیکن ایش آنی کو دیکھ کر میری ساری ناراضگی ختم ہو گٸ ہے۔۔ آپ بہت پیاری ہیں آنی۔۔ گل نے ایش کے گال پر پیار کیا۔
گل کا پورا نام #اوزگل تھا۔ وہ ایک زہین بچی تھی۔

آپ بھی بہت پیاری ہو گل۔۔ ایش نے اسکے پھولے گالوں پر بھوسہ کیا۔

اچھا کتنی پیاری۔۔؟؟ گل نے اپنی گرے آنکهوں کو سکوڑ کر پوچھا۔

بہت پیاری۔۔ اینجل کی طرح۔۔ فیری ٹیلز میں موجود فیری کی طرح۔۔ 
ایش نے جواب دیا۔

نہیں۔۔ میں فیری نہیں ہوں۔۔ گل نے فوراً کہا۔

تو اور کیا ہیں آپ۔۔؟؟ ایش حیران ہوٸ۔

میں ہوں اوزگل۔۔ 
The legend of Roma..
گل نے جواب دیا اور اسکی بات پر ایش اور عاٸشہ دونوں کا قہقہہ ابھرا۔

مجھے فیریز نہیں پسند۔۔ نازک سی ہوتی ہیں وہ۔۔ گل کہہ رہی تھی۔۔

تو کیا پسند ہے آپکو۔۔؟؟ ایش نے حیرانگی سے پوچھا۔

مجھے ڈشوں ڈشوں کرنے والی لڑکیاں پسند ہیں۔۔ جنہیں کراٹے اور کنگ فو آتا ہو۔۔ 

ایش کے چہرے کی مسکراہٹ ایک دم سکڑی۔۔ 

Aish.. the royal princess.. 
جس کو بچپن سے ہی ایکشن سٹوریز پسند تھیں۔۔ 
ایش کو لگا جیسا اسکا بچپن گل کے روپ میں اسکے سامنے کھڑا ہو۔۔

پر آپکو ایسی لڑکیاں کیوں پسند ہیں۔۔؟؟ ایش نے پوچھا۔

وہ اس لیۓ کہ مجھے اسٹرونگ بننا اچھا لگتا ہے۔۔ مجھے بھی اسٹرونگ بننا ہے۔۔ جبکہ فیریز اسٹرانگ نہیں ہوتیں۔۔ وہ نازک ہوتی ہیں۔۔ انہیں لڑنا نہیں آتا۔۔ 
گل کی آنکھوں میں چمک تھی۔

ایش آنی مجھے بھی کنگ فو سیکھنا ہے۔ مجھے بھی ڈشوں ڈشوں کرنا ہے۔۔ مما سے کہیں نا مجھے ڈول نہیں چاہیۓ۔۔ مجھے گن چاہیۓ۔۔ جس سے میں فاٸر کرسکوں۔۔ گل نے ایش سے سفارش کا کہا۔

دیکھ رہی ہو اسکے کام۔۔۔ مجال ہے جو چھوٹی بچیوں کی طرح گڑیوں سے کھیل لے۔۔ اسکے شوق ہی نرالے ہیں۔۔ اب بتاٶ میں اسے یہ سب کیسے سیکھنے دوں۔۔ عاٸشہ کہہ رہی تھی اور ایش کو مسز ولیم یاد آگٸ۔

پتا ہے آپی گل سب سے الگ ہے۔۔ وہ اسٹرانگ بننا چاہتی ہے۔۔ بہت اچھی بات ہے۔ ایش نے جواب دیا۔

ایش آنی پاپا مجھے پرنسز کہتے ہیں۔۔ اور پرنسز بھی تو اسٹرانگ نہیں ہوتیں نا۔۔ آپ پاپا سے کہیۓ گا وہ مجھے پرنسز مت کہا کریں۔۔ 
گل اپنی عمر سے زیادہ سمجھدار اور زہین تھی۔۔

آپ سے کس نے کہا کہ پرنسز اسٹرانگ نہیں ہوتیں۔۔ پرنسز بھی بہت اسٹرانگ ہوتی ہیں۔۔ 

اچھا کیا سچ میں۔۔ گل حیران ہوٸ۔۔

جی بالکل۔۔ اور آپکو پتا ہے فیریز(پریاں) بھی اسٹرانگ ہوتی ہیں۔۔ 

وہ کیسے۔۔؟؟ گل نے دلچسپی سے پوچھا۔۔ جبکہ عاٸشہ دونوں کا لاڈ پیار دیکھ رہی تھی۔

وہ ایسے کہ فیریز کے پاس میجیکل اسٹک ہوتی ہے۔۔ وہ اس سے میجیک کر سکتی ہیں۔۔ اور گنڈے اور برے لوگوں کے ساتھ فاٸٹ کر کے انہیں بھگا سکتی ہیں۔۔

مجھے بھی میجیکل اسٹک چاہیۓ۔۔ اور مجھے بھی کنگ فو سیکھنا ہے۔۔ جیسے کنگ فو پانڈے میں وہ کیوٹ سا پانڈے کرتا ہے۔۔ 

تو کس نے منع کیا آپکو کنگ فو سکیھنے سے۔۔؟؟ ایش نے پوچھا۔۔

مما نے۔۔ وہ مجھے باہر نہیں جانے دیتیں۔۔ گل نے عاٸشہ کی شکایت کی۔۔

اچھا تو یہ مسٸلہ ہے۔۔ کیا میں آپکو کنگ فو سکھا دوں۔۔؟؟ 

کیا۔۔ آپکو کنگ فو آتا ہے۔۔ گل ایک دم اچھلی۔۔ 

جی بالکل۔۔ مجھے بھی اسٹرانگ بننا تھا۔ اس لیۓ میں نے سیکھ لیا۔۔ 

واٶٶٶ آنی آپ نے پہلے نہیں بتایا۔۔ چلیں ابھی چلیں۔۔ مجھے ابھی سکھاٸیں۔۔

ابھی نہیں گل جب میں گھر آٶں گی نا پھر سکھاٶں گی۔۔ ایش نے مسکرا کر کہا۔۔

پکا آپ سکھاٸیں گی نا۔۔؟؟ گل کو جیسے یقین نہیں ہوا تھا۔

پرامس کرتی ہوں۔ آپ کو کنگ فو سکھاٶں گی۔۔ 

گریٹ پھر ہم دونوں مل کر ایک ساتھ برے لوگوں کو ماریں گے۔۔ اور انہیں روما سے بھگا دیں گے۔۔ گل پرجوش سی کہہ رہی تھی۔

جی بالکل۔۔ ہم دونوں برے لوگوں کا مقابلہ کریں گے۔۔ ایش نے جواب دیا۔۔

آپ میرا ساتھ دینگی نا گی نا آنی۔۔۔

کیا آپکو ساتھ نبھانا آتا ہے۔۔۔؟؟ 
گل نے ایش کے کان کے قریب سرگوشی کی۔۔ انداز ایسا تھا جیسے کوٸ بہت ہی سیکریٹ بات ہو۔۔

ایش مسکراٸ۔۔

ہاں مجھے ساتھ نبھانا آتا ہے۔۔ 

جاٶ گل اب سب لوگوں سے مل کر آٶ۔۔ اور دادا جی تمہیں یاد کر رہے تھے۔۔ عاٸشہ نے گل سے کہا۔۔ ورنہ وہ اسے ایش سے بات کرنا کا موقع ہی نا دیتی۔۔

اوکے۔۔ میں سب سے مل کر آتی ہوں۔۔ گل باہر کی طرف بھاگی۔۔

اففف توبہ کتنا دماغ کھاتی ہے یہ لڑکی۔۔ عاٸشہ نے اسکے جانے کے بعد کہا۔

کچھ نہیں ہوتا آپی۔۔ گل بہت اچھی بچی ہے۔۔ 

ویسے میں تو تم سے ناراض ہوں۔۔ عاٸشہ نے نروٹھے پن سے کہا۔

پر کیوں۔۔ آپ کیوں ناراض ہیں مجھ سے۔۔؟؟ 

تم نے مجھے سمعان حیدر کے بارے میں نہیں بتایا کہ تم اسے جانتی ہو۔۔ 
ایش کو لگا عاٸشہ نے دھماکہ کیا ہو۔۔ وہ فق چہرے کے ساتھ عاٸشہ کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔

آپ سیم کو کیسے جانتی ہیں۔۔؟؟ ایش نے حیرت سے پوچھا۔

احمد کا بہت اچھا دوست ہے وہ۔۔ اور اولڈ ہاٶس کیلیۓ بھی چیک دیتا رہتا ہے۔۔ انفیکٹ ہر تین مہینے بعد وہ بڑا چیک دیتا ہے۔۔ عاٸشہ بتا رہی تھی جبکہ ایش کو حیرانگی ہو رہی تھی کہ ایک ٹیکسی ڈرائيور کے پاس اولڈ ہاٶس کیلیۓ ڈونیشن کے طور پر دینے کلیۓ اتنی بڑی رقم کہاں سے آتی ہے۔۔؟؟ 

ایش۔۔۔ کیا ہوا۔۔؟؟ 
عاٸشہ نے اسے سوچ میں ڈوبا پایا تو پوچھا۔

کچھ نہیں۔۔ ایش اپنی جگہ سے اٹھی اور بلاوجہ ٹیبل پر پڑی فاٸلوں کو چیک کرنے لگی۔۔

ویسے کہاں ملا تھا وہ تمہیں۔۔؟؟ 

آپی مجھے اس ٹاپک پر بات نہیں کرنی۔۔ میں اسے نہں جانتی۔۔ ایش اسے یاد نہیں کرنا چاہتی تھی۔
 

مگر وہ تو کہہ رہا تھا کہ تم اسے۔۔ 

آپی پلیز۔۔ وہ میرا پاسٹ تھا۔۔ میں اپنے پاسٹ پیچھے چھوڑ آٸ ہوں۔۔ ایش نے عاٸشہ کہ بات کاٹی۔۔

مجھے کچھ کام ہے میں ابھی آتی ہوں۔۔ ایش کہہ کر کمرے سے نکل گٸ۔۔ 

جبکہ عاٸشہ کو اس سے اتنے شدید ردعمل کی توقع نہیں تھی۔۔

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حورعین یونيورسٹی نہیں گٸ تھی۔ اسکا زہنی توازن ٹھیک نہیں تھا۔۔ وہ جانا چاہتی تھی لیکن کچھ سوچ کر رک گٸ۔۔ شزا نے اسے زبردستی کھانا کھلایا تھا اور پھر میڈیسن دی تھی تاکہ اسکا بخار اتر جاۓ۔۔

صابرہ خاتون کا رونے کے باعث اور پریشانی کی وجہ سے بی پی ہاٸ ہوگیا تھا۔۔ رونا تو حورعین کو بھی شدید آرہا تھا کہ اسکی وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے۔۔

وہ حرم سے بات کرنا چاہتی تھ۔۔ لیکن اسکے پیپر ہو رہے تھے۔
حورعین نے اپنا موبائل آن کیا تھا۔۔ حرم کے اسے کافی میسجز ملے تھے۔۔ پھر اس نے کچھ سوچتے ہوۓ واٹس ایپ آن کی تو حرم کا اسٹیٹس چیک کرنے لگی۔۔ وہ کبھی کبھی اسٹیٹس لگاتی تھی۔۔ 

Sometimes God #break your heart to save your #soul.. ❤❤

یہ جملہ پڑھنے کے بعد حورعین کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھری سارتھ ہی اسکی آنکھوں میں نمی ابھری تھی۔۔ اسکا دل ٹوٹا تھا۔۔ شاید اللہ کچھ بہتر کرنے والا تھا۔۔

حورعین کو اپنے دل میں ایک سکون سا اترتا محسوس ہوا۔۔ اسے لگا یہ الفاظ اسے حوصلہ دے رہیں ہوں۔ جیسے حرم نے اسی کیلیۓ یہ اسٹیٹس لگایا ہو۔۔لیکن وہ تو ابھی کچھ جانتی بھی نہیں تھی۔۔

حرم کے ارد گرد سکون سا بھکرتا ہے۔۔ کیا خاص بات تھی اس میں یہ حورعین نے آج محسوس کی تھی۔

وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ امی پاس جاکر اسے سب سچ بتاتی ہوں۔۔ مجھے ان سے معافی مانگ لینی چاہیۓ۔۔ تبھی اچانک اسے باہر سے آوازیں آنا شروع ہوٸیں۔۔

وہ باہر آٸ تو نفیسہ تاٸ اور شہرین دونوں موجود تھیں۔۔ 

دیکھ لیۓ اپنی بیٹی کے کرتوت۔۔ یہ تربیت ہے تمہاری۔۔ نفیسہ تاٸ زہر اگل رہی تھیں۔۔ جبکہ صابرہ خاتون سر جھکاۓ کھڑی تھیں۔۔

حورعین کے اندر تکلیف کی ایک لہر دھوڑ گٸ تھی۔۔ فون پر اتنا کچھ سنا کر سکون نہیں ملا تھا نفیسہ تاٸ کو جو اب وہ گھر بھی آگٸیں تھیں۔۔

ارے میں تو پہلے سے ہی جانتی تھی یہ لڑکی کچھ نا کچھ گل ضرور کھلاۓ گی۔ میں تو پہلے ہی اس رشتے کے خلاف تھی۔۔ مگر اپنے بیٹے کے آگے مجبور تھی۔

تاٸ آپ اچھی طرح سے جانتی ہیں۔۔ حورعین ایسا کبھی نہیں کرسکتی۔۔ شزا نے کہا۔

کر نہیں سکتی لیکن کر چکی ہے۔۔ میرا بیٹا اب اس سے شدید نفرت کرتا ہے۔ اسے ایسے گرے ہوۓ کردار کی لڑکی ہرگز نہیں چاہیۓ۔۔ 

حورعین کا دل کر رہا تھا کہ زمین پٹھے اور وہ اس میں سما جاۓ۔۔ کچھ ایسی ہی حالت صابرہ خاتون کی بھی تھی۔

میں یہ رشتہ ختم کرتی ہوں۔۔ جو کام اس نے کیا ہے نا اسکے بعد میرا بیٹا تو کیا دنیا کا کوٸ بھی غیرت مند لڑکا اس سے شادی نہیں کرے گا۔۔

شہرین کے سینے میں ٹھنڈ پڑھ گٸ تھی۔ کچھ عرصہ پہلے ایسے اسکا رشتہ ٹوٹا تھا صرف حرم کی وجہ سے اور آج اس نے وہ بدلہ حورعین سے لیا تھا۔۔ حالانکہ وہ دونوں بھول گٸیں تھیں شاید کہ حورعین خود اسد کی پہناٸ رنگ اسی کے سامنے اتار کر رکھ آٸ تھی۔۔ رشتہ وہ ختم کر آٸ تھی۔۔ اسد جیسے شخص سے وہ مر کر بھی شادی نہیں کر سکتی تھی۔۔ جو کانوں کا اتنا کچہ نکلا تھا۔

ارے امی انکے تو خون میں ہی گھٹیا پن ہے۔۔ جو گل حرم نے کھلاۓ۔۔ وہی یہ میڈم۔۔

خبردار ۔۔۔ حورعین ایک دم دھاڑی۔۔

خبردار جو حرم کا نام تم نے اپنی گندی زبان سے لیا تو۔۔ 
وہ انگلی اٹھا کر شہرین کو وارن کر رہی تھی۔۔

تم اس قابل نہیں ہو شہرین کہ تم میری بہن کا نام اپنی زبان سے لو۔۔ 

شہرین کا رنگ فق ہوا۔۔ 
جبکہ صابرہ خاتون سمیت باقی سب حورعین کے اس طرح حرم کی فیور کرنے پر حیران ہوۓ تھے۔۔

کمال ہے۔۔ اس لڑکی کی زبان ابھی بھی چل رہی ہے۔حالانکہ اسکا رشتہ توڑنے آۓ ہیں ہم۔۔ ارے تمہیں تو ڈوب مرنا چاہیۓ۔۔۔ نفیسہ تاٸ پھنکاری۔۔

اگر میں نے کچھ غلط کیا ہوتا تو ابھی تک ڈوب مر چکی ہوتی۔۔ اور کس رشتے کی بات کر رہی ہیں آپ۔۔میں وہ رشتے خود توڑ آٸ تھی۔۔ آپکے بیٹے سے میں مر کر بھی شادی نا کروں۔۔ جسکے پاس اعتبار نام کی کوٸ چیز ہی نہیں۔۔

حورعین اپنی بکواس بند کرو۔۔ صابرہ خاتون نے غصے سے چلا کر کہا۔۔

جی امی۔۔ میں خاموش ہو جاتی ہوں۔۔ لیکن جو بات سچ ہے وہ سچ ہے۔۔ اور نفیسہ تاٸ اچھی طرح سے جانتی ہیں کہ جھوٹا کون ہے۔۔ حورعین نے جواب دیا۔

چلیں امی یہاں سے۔۔ بلاوجہ ان گھٹیا لوگوں کے منہ لگنے آگۓ ہم۔۔ اور ساجدہ آنٹی آپ بھی الگ گھر لے لیں۔۔ ایسا نا ہو کل کو یہ لڑکی آپکے ہی بیٹے پر ڈورے ڈالنے شروع کردے۔۔ شہرین نے اپنی بھڑاس نکالی۔۔

حورعین نے کرب سے آنکھیں بند کرلیں۔۔ اتنی زلالت۔۔ ابھی تو پتا نہیں کیا کیا سہنا باقی تھا۔

ہمیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں یہ ہم اچھے سے جانتے ہیں شہرین۔۔ اور زین بھاٸ اپنی کزنز کو اپنی بہنیں ہی سمجھتا ہے۔۔ دوسرے لوگوں کی طرح گندی نیت اور گندی نظروں سے نہیں تکتا۔۔ اب کی بار جواب ثناء کی طرف سے آیا تھا۔۔اور اسکا اشارہ نادر کی طرف تھا یہ سب سمجھ گۓ تھے۔۔

شہرین اور نفیسہ تاٸ بڑبڑ کرتی باہر کی طرف بڑھیں۔۔ ساجدہ آنٹی نے انہیں روکنے کی بہت کوشش کی مگر وہ نہیں رکیں۔۔ 

صابرہ خاتون وہیں لاٶنج میں ڈھے گٸ تھیں۔۔ جبکہ حورعین اپنے کمرے میں چلی گٸ۔۔

تم لوگوں کو کیا ضرورت تھی بکواس کرنے کی۔۔ ساجدہ آنٹی نے شزا اور ثناء کو گھورا۔۔

اور جو وہ دونوں کر رہی تھیں۔۔ وہ کیا تھا۔۔ بلاوجہ کا تماشہ کھڑا کرنے آگٸ تھیں۔۔ 

میں نے پہلے ہی کہا تھا یہ سب جو ہوا ہے نا یہ ان دونوں ہی کی چال ہے۔۔ وہ اسد کی شادی اپنی مرضی سے کرنا چاہتی ہیں۔ حورعین سے جان چھڑانے کیلیۓ تاٸ نے یہ سب کیا۔۔ شزا بالکل ٹھیک کہہ رہی تھی۔۔

اور جب آپ لوگ خاموش رہیں گی تو ہمیں ہی جواب دینا ہوگا نا۔۔ 
ثناء نے کہا۔

کیا ضرورت تھی جواب دینے کی۔۔ بلاوجہ بدتمیزی کی۔۔

بدتمیزی اور حق بات کرنے میں فرق ہوتا ہے۔۔ اور ہم نے وہی کہا جو سچ تھا۔۔ شزا کہتی حورعین کے کمرے کی طرف بڑھ گٸ۔۔

     جبکہ ساجدہ آنٹی کچھ سوچ کر رہ گٸ تھی۔۔

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حرم جب عرش اور بیلا کے ساتھ کیفے پہنچی تو اچانک اسکے سامنے زی آٸ۔ 

زی کل والا واقع نہیں بھول رہا تھا۔۔ وہ سوچ سوچ کر تھک چکی تھی۔۔ مگر اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔ نا تو اسے وہ ہیٹ والا شخص کا پتا چل رہا تھا اور نا ہی وہ حرم کے خیال سے پیچھا چھڑا پا رہی تھی۔

ہاۓ ۔۔ زی نے کہا۔

حرم تو حیران رہ گٸ تھی کہ زی اسکے پاس آٸ تھی۔۔ وہ بھی خود چل کر۔۔ شاید پھر انسلٹ کرنے آٸ ہو۔۔ حرم نے سوچا۔

مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔۔ زی نے کہا۔

جی کریں۔۔ 

زی نے عرش اور بیلا کی طرف دیکھا کہ وہ انکی موجودگی میں بات نہیں کرنا چاہتی۔۔ وہ دونوں سمجھ گٸ تھیں۔ اس لیۓ خود ہی چکی گٸیں۔۔ 

ہم تمہارا انتظار کر رہے ہیں حرم جلدی آنا۔۔ عرش نے جاتے ہوۓ کہا۔
اوکے ۔۔ حرم نے اثبات میں سر ہلایا۔۔

تمہارا نام حرم نور کیوں ہے۔۔؟؟ زی نے حرم سے پوچھا۔ وہ ایک ٹیبل کی طرف بڑھی۔۔ حرم بھی اسکے پیچھے ہوٸ۔۔

آپکا نام زی کیوں ہے۔۔؟؟ حرم نے الٹا سوال کیا۔۔زی گڑبڑا گٸ۔۔

یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔۔ زی نے سرد سے لہجے میں کہا۔

اسی سوال میں میرا جواب چھپا ہے۔۔ 
حرم نے جواب دیا۔۔

تم ایسی ڈریسنگ کیوں کرتی ہو۔۔۔؟؟ زی نے اسکے کپڑوں کی طرف اشارہ کیا جو کوٹ میں چھپے ہوتے تھے۔۔ نظر بھی نہیں آتے تھے۔

حرم حیران ہوٸ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ ایسے سوال کیوں کر رہی ہے۔۔

آپ کیوں کرتی ہیں ایسی ڈریسنگ۔۔؟؟ حرم نے اسکی جینز کی طرف اشارہ کیا۔

جو پوچھا ہے وہ بتاٶ۔۔ زی کی نیلی آنکهوں میں غصہ ابھرا۔۔

مجھے ایسی ڈریسنگ پسند ہے۔۔ یہ ہمارا کلچر ہے۔۔ ہم ایسی ہی ڈریسنگ کرتے ہیں۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔

کیا سبھی ایشینز لڑکياں ایسی ہی ڈریسنگ کرتی ہیں۔۔؟؟ 

جی زیادہ تر۔۔۔ حرم نے جواب دیا۔

بیلا اور عرش بھی تو ایشینز ہیں۔۔ چلو عرش کی ڈریسنگ تو پھر بھی تم سے ملتی ہے۔۔ بیلا کی تو بالکل بھی نہیں۔۔ ایسا کیوں ہے۔۔؟؟ زی نے پوچھا۔

بیلا نان مسلم ہے۔۔ اسے کیا فرق پڑتا ہے وہ جیسی مرضی ڈریسنگ کرے۔۔ اصل بات تو مسلمز کی ہے۔۔حرم نے جواب دیا۔

اور عرش۔۔ وہ تو مسلم ہے نا۔۔ اسکے بارے میں کیا خیال ہے۔۔؟؟ زی نے ایک اور سوال کیا۔۔ جانے وہ کیا جاننا چاہتی تھی۔

عرش کی ڈریسنگ اتنی قابل اعتراض نہیں ہوتی۔۔ جو اسے پسند ہے وہ وہی پہنتی ہے۔۔ 

اور تم۔۔۔؟؟ کیا تمہارا دل نہیں کرتا ایسی ڈریسنگ کرنے کو۔۔؟؟ 

نہیں۔۔ مجھے پھٹے پرانے کپڑے پہننے کا کوٸ شوق نہیں۔۔ حرم کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔۔اسکی نظریں زی کی گھٹنوں سے پھٹی شرٹ پر گٸ تھیں۔۔ 

زی نے پہلو بدلا۔۔ وہ اسکی بات کا مطلب سمجھ گٸ تھی۔۔ 
یہ پھٹے پرانے کپڑے نہیں ہیں۔۔ میرے ڈریسز برانڈڈ ہوتے ہیں۔۔ شاید ہی یونيورسٹی میں کوٸ اور اتنے مہنگے ڈریس پہنتا ہو۔۔زی کو غصہ آیا تھا۔

وجہ کیا ہے اتنے مہنگے ڈریس پہننے کی۔۔؟؟ حرم نےسوال کیا۔

ریم کو پسند ہیں۔۔ وہ خود برانڈڈ ڈریسنگ کرتا ہے۔۔ اور اسے مسلمز تو بالکل بھی نہیں پسند۔۔ زی نے صاف گوٸ کا مظاہرہ کیا۔

بات صاف ہے۔۔ آپ وہ ڈریسنگ کرتی ہیں جو آپکے #صنم کو پسند ہے۔۔ اور میں ٹراۓ کر رہی ہوں کہ ویسی ڈریسنگ کر پاٶں جو میرے #صمد کو پسند ہے۔۔ 

اب یہ صمد کون ہے۔۔؟؟ زی نے کوفت سے پوچھا۔۔ حرم کی باتیں اسکے زہن میں نہیں آتی تھیں۔۔

آپ مجھ سے زیادہ بہتر ہیں۔۔ پتا ہے کیوں۔۔ ؟؟ حرم اسکے سوال کو نظر انداز کر گٸ تھی۔۔

کیوں۔۔۔ ؟؟ زی نے پوچھا۔۔

جو آپکا صنم چاہتا ہے آپ اس پر پورا اتر گٸ ہیں۔۔ آپکی ڈریسنگ بالکل اسکی پسند کی ہوگٸ ہے۔۔ جبکہ جیسی ڈریسنگ میرا صمد چاہتا ہے۔۔ میں ویسی نہیں کر پاٸ ابھی تک۔۔
حرم کا اشارہ مکمل پردے کی طرف تھا۔۔

جبکہ زی کو اسکی بات کی سمجھ نہیں آٸ تھی۔

خیر چھوڑا مجھے صمد میں کوٸ انٹرسٹ نہیں ہے۔۔ زی نے کوفت سے کہا۔۔

لیکن صمد تو آپ میں انٹرسٹ رکھتا ہے نا۔۔ حرم نے مسکرا کر کہا۔

زی نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا۔۔

کیا تمہارا صمد مجھے جانتا ہے۔۔؟؟ 

جی وہ آپ سمیت سب کو جانتا ہے۔۔

کیا وہ کوٸ wizard ہے یعنی جادوگر۔۔؟؟ زی نے آہستہ سے پوچھا۔۔

نہیں وہ سب کا بنانے والا ہے۔۔حرم مسکراٸ۔۔

اچھا مجھے اب ایک اور سوال کا جواب دو۔۔

تم یہ ڈوپٹہ ایسے کیوں لیتی ہو۔۔؟ زی نے اسکے حجاب کی طرف اشارہ کیا۔۔

کیا آپ اپنے سر پر موجود بالوں کے بنا رہ سکتی ہیں۔۔ ؟؟ حرم نے الٹا سوال کیا۔

واٹ۔۔؟؟ یہ کیا بکواس ہے۔۔

بتاٸیں نا۔۔ 

نہیں۔۔ بالکل بھی نہیں۔۔ بال بہت ضروری ہیں۔۔ اور زی کو اپنے براٶن کلر کے بال بہت پسند تھے۔۔

چہرے کی خوبصورتی ہی بالوں کی وجہ سے ہے۔۔ گاڈ نے انہیں بنایا ہی اس لیۓ ہے کہ چہرہ خوبصورت لگے۔۔ 

بالکل اسی طرح۔۔ حجاب بہت ضروری ہے۔۔ جیسے بال چہرے کو خوبصورت بناتے ہیں۔۔ چہرے کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں بالکل اسی طرح حجاب ایمان کی خوبصورتی کو بڑھاتا ہے۔۔ 

اللہ نے سر کو ڈھانپے رہنا کا حکم دیا ہے۔۔ کیونکہ اس سے عورت کی حیا خوبصورت رہتی ہے۔۔ اسکا کردار خوبصورت ہوتا ہےاسکی عزت مزید بڑھتی ہے۔۔  
حرم کہہ رہی تھی۔۔

جبکہ کیفے میں داخل ہوتے رومان شاہ کے قدم ایک دم رک گۓ تھے۔۔ 
آج مشرق اور مغرب ایک ساتھ بیٹھے تھے۔۔ وہ فوراً زی اور حرم کی طرف بڑھا۔۔

تمہاری باتیں سمجھ سے باہر ہیں۔۔ زی نے کہا۔

کوٸ بات نہیں۔۔ آپکے مزہب میں شاید ان باتوں کی کوٸ اہمیت نا ہو۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔

ہاۓ گاٸز۔۔ 
اس سے پہلے زی کچھ اور پوچھتی رومان وہاں پہنچ گیا۔

اوو ہاۓ۔۔ میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی۔۔ شکر تم آگۓ۔۔ زی نے اٹھتے ہوۓ کہا۔ 

آپکا پیپر کیسا ہوا مس نور۔۔؟؟ وہ حرم کی طرف متوجہ ہوا۔

اچھا ہوگیا۔۔
حرم نے جواب دیا۔۔اس سے پہلے وہ کچھ اور بات کرتا حرم اٹھ کر عرش اور بیلا کی طرف بڑھ گٸ۔۔

چلیں۔۔؟؟ زی نے اس سے پوچھا۔

ہممم۔۔ چلو۔۔۔ وہ ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا تھا۔۔

     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حرم نے رات کو لاہور کال کی تھی۔۔ فون جیا نے اٹھایا تھا۔۔ اور اس نے حرم کو بتادیا تھا کہ مما نے حورعین آپی کو تھپڑ مارا اور اب انکی طبیعت بہت خراب ہے۔۔ 

حرم تو صابرہ خاتون کی خراب طبیعت کا سن کر پریشن ہوگٸ تھی۔۔ ایک تو اسے اگزامز کی ٹینشن تھی۔۔ اوپر سے وہ سب سے اتنا دور تھی۔۔ 
جب صابرہ خاتون گھر نہیں ہوتی تھیں تو حرم سے پڑھا تک نہیں جاتا تھا۔ اور اب وہ اس سے میلوں دور تھی۔۔ کتنی مشکل سے وہ کتاب میں لکھا کچھ یاد کرتی تھی یہ صرف وہی جانتی تھی۔
اوپر سے کمپیٹیشن کی مزید ٹینشن۔۔ حرم کمرے میں بند ہو کر اتنا پڑھتی نہیں تھی جتنا روتی تھی۔۔ 
اسکا دل بہت چھوٹا سا تھا۔۔ بچپن سے ہی اگر کوٸ کام اس سے نا ہو رہا ہوتا اور وہ ضروری ہوتا تو وہ چھپ کر رونے لگ جاتی تھی۔
اسے دنیا میں سب سے زیادہ اپنی ماں عزیز تھی۔۔ اور اکثر وہ سوچتی تھی کہ ایمان تو تب مکمل ہوتا ہے نا جب ہر چیز سے بڑھ کر ہمیں حضرت مُحَمَّد ﷺ عزیز ہوں۔۔ 

اللہ مجھے معاف کردینا۔۔ میں سب سے بہت زیادہ پیار کرتی ہوں۔۔ آپ اور آپکے محبوب مجھے بہت عزیز ہیں۔۔ اور آپ دونوں کے بعد مجھے میری امی عزیز ہیں۔۔ میں صرف یہ کہتی ہوں۔۔ مگر آپ تو شہہ رگ سے زیادہ قریب ہیں۔۔ انسان کی نیت کو تو آپ ہی جانتے ییں مولا جی۔۔ اگر کہیں کوٸ غلطی کوتاہی کر جاٶں تو معاف کردٕنا مجھے۔۔ وہ فوراً یہ دعا مانگتی تھی۔۔

کیا ہوا امی کو۔۔میری بات کرواٶ جلدی ان سے۔۔ حرم نے جیا سے کہا۔۔

اور پھر کچھ دیر بعد جیا نے صابرہ خاتون سے حرم کی بات کروادی تھی۔۔
وہ تو حرم کی آواز سن کر ہی رو دی تھیں۔۔ حرم انکے یوں رونے پر بوکھلا گٸ تھی۔

کیا ہوا امی۔۔ بتاٸیں پکیز روٸیں مت۔۔ حرم کی خود کی آواز بھرا گٸ۔۔

اور پھر صابرہ خاتون نے سب کچھ حرم کو بتادی۔۔ 
حرم کا دماغ گھوم گیا سب سن کر۔۔ وہ جانتی تھی حورعین کبھی اتنا غلط کام نہیں کرسکتی۔۔ لیکن اسے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ سب ہو گیا ہے۔

کچھ دیر وہ ان سے مزید باتیں کرتی رہی اور پھر انہیں کافی تسلیاں دینے کے بعد فون بند کیا۔ 
حرم نے صابرہ خارون کو یقین دلانے کی پوری کوشش کی تھی کہ نفیسہ تاٸ اور شہرین نے کوٸ ڈرامہ کیا ہوگ۔۔ لیکن صابرہ خاتون حورعین ک مستقبل کو سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی۔۔

تو شہرین نے اپنا بدلا لے ہی لیا۔۔
حرم نے سوچ۔۔

یا اللہ پاک ہماری مشکلیں آسان فرما۔۔ میں اپنی امی کو اس طرح پریشان نہیں دیکھ سکتی۔۔ انکے حصے ہی تکلیفیں اور پریشانیاں مجھے دے دیں۔۔ مگر میری امی کی پریشانی ختم کر دیں۔۔ حرم نے عشا کی نماز کے بعد بہت دعاٸیں مانگی تھیں۔۔ اسے حورعین کی بھی بہت فکر تھی۔۔اسکی ابھی تک حورعین سے بات نہیں ہوٸ تھی۔

     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اسی خوبصورت پارک میں آکر بیٹھ گٸ تھی جہاں وہ عاٸشہ سے ملی تھی۔۔ 

ایش کو یہ پارک ہمیشہ فیسی نیٹ کرتی تھی۔۔وجہ وہاں موجود معصوم بچے تھے۔۔ جو کھلکھلاتے تھے تو پارک کی رونق مزید بڑھ جاتی تھی۔۔

ہاۓ۔۔ ایش ولیم۔۔
اچانک کسی شخص نے اسے پکارہ۔۔

ایش پنی جگہ سن رہ گٸ۔۔ وہ اس آواز کو پہچانتی تھی۔۔

      ❤❤❤❤❤❤❤
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔.En#میرے_راہنما
#By_H_noor

#Episode_40 #part_1

میں تم سے بہت ناراض ہوں ایش۔۔ 
عاٸشہ نے ایش کے سامنے بیٹھتے ہوۓ کہا۔۔ عاٸشہ اور گل ایش سے ملنے اولڈ ہاٶس آٸی تھیں۔

کیوں۔۔ اب کیا کر دیا میں نے۔۔؟
ایش حیران ہوٸ۔

مما آپ بعد میں بتاٸیۓ گا کہ آپ ناراض ہیں یا نہیں۔۔ لیکن ایش آنی کو دیکھ کر میری ساری ناراضگی ختم ہو گٸ ہے۔۔ آپ بہت پیاری ہیں آنی۔۔ گل نے ایش کے گال پر پیار کیا۔
گل کا پورا نام #اوزگل تھا۔ وہ ایک زہین بچی تھی۔

آپ بھی بہت پیاری ہو گل۔۔ ایش نے اسکے پھولے گالوں پر بھوسہ کیا۔

اچھا کتنی پیاری۔۔؟؟ گل نے اپنی گرے آنکهوں کو سکوڑ کر پوچھا۔

بہت پیاری۔۔ اینجل کی طرح۔۔ فیری ٹیلز میں موجود فیری کی طرح۔۔ 
ایش نے جواب دیا۔

نہیں۔۔ میں فیری نہیں ہوں۔۔ گل نے فوراً کہا۔

تو اور کیا ہیں آپ۔۔؟؟ ایش حیران ہوٸ۔

میں ہوں اوزگل۔۔ 
The legend of Roma..
گل نے جواب دیا اور اسکی بات پر ایش اور عاٸشہ دونوں کا قہقہہ ابھرا۔

مجھے فیریز نہیں پسند۔۔ نازک سی ہوتی ہیں وہ۔۔ گل کہہ رہی تھی۔۔

تو کیا پسند ہے آپکو۔۔؟؟ ایش نے حیرانگی سے پوچھا۔

مجھے ڈشوں ڈشوں کرنے والی لڑکیاں پسند ہیں۔۔ جنہیں کراٹے اور کنگ فو آتا ہو۔۔ 

ایش کے چہرے کی مسکراہٹ ایک دم سکڑی۔۔ 

Aish.. the royal princess.. 
جس کو بچپن سے ہی ایکشن سٹوریز پسند تھیں۔۔ 
ایش کو لگا جیسا اسکا بچپن گل کے روپ میں اسکے سامنے کھڑا ہو۔۔

پر آپکو ایسی لڑکیاں کیوں پسند ہیں۔۔؟؟ ایش نے پوچھا۔

وہ اس لیۓ کہ مجھے اسٹرونگ بننا اچھا لگتا ہے۔۔ مجھے بھی اسٹرونگ بننا ہے۔۔ جبکہ فیریز اسٹرانگ نہیں ہوتیں۔۔ وہ نازک ہوتی ہیں۔۔ انہیں لڑنا نہیں آتا۔۔ 
گل کی آنکھوں میں چمک تھی۔

ایش آنی مجھے بھی کنگ فو سیکھنا ہے۔ مجھے بھی ڈشوں ڈشوں کرنا ہے۔۔ مما سے کہیں نا مجھے ڈول نہیں چاہیۓ۔۔ مجھے گن چاہیۓ۔۔ جس سے میں فاٸر کرسکوں۔۔ گل نے ایش سے سفارش کا کہا۔

دیکھ رہی ہو اسکے کام۔۔۔ مجال ہے جو چھوٹی بچیوں کی طرح گڑیوں سے کھیل لے۔۔ اسکے شوق ہی نرالے ہیں۔۔ اب بتاٶ میں اسے یہ سب کیسے سیکھنے دوں۔۔ عاٸشہ کہہ رہی تھی اور ایش کو مسز ولیم یاد آگٸ۔

پتا ہے آپی گل سب سے الگ ہے۔۔ وہ اسٹرانگ بننا چاہتی ہے۔۔ بہت اچھی بات ہے۔ ایش نے جواب دیا۔

ایش آنی پاپا مجھے پرنسز کہتے ہیں۔۔ اور پرنسز بھی تو اسٹرانگ نہیں ہوتیں نا۔۔ آپ پاپا سے کہیۓ گا وہ مجھے پرنسز مت کہا کریں۔۔ 
گل اپنی عمر سے زیادہ سمجھدار اور زہین تھی۔۔

آپ سے کس نے کہا کہ پرنسز اسٹرانگ نہیں ہوتیں۔۔ پرنسز بھی بہت اسٹرانگ ہوتی ہیں۔۔ 

اچھا کیا سچ میں۔۔ گل حیران ہوٸ۔۔

جی بالکل۔۔ اور آپکو پتا ہے فیریز(پریاں) بھی اسٹرانگ ہوتی ہیں۔۔ 

وہ کیسے۔۔؟؟ گل نے دلچسپی سے پوچھا۔۔ جبکہ عاٸشہ دونوں کا لاڈ پیار دیکھ رہی تھی۔

وہ ایسے کہ فیریز کے پاس میجیکل اسٹک ہوتی ہے۔۔ وہ اس سے میجیک کر سکتی ہیں۔۔ اور گنڈے اور برے لوگوں کے ساتھ فاٸٹ کر کے انہیں بھگا سکتی ہیں۔۔

مجھے بھی میجیکل اسٹک چاہیۓ۔۔ اور مجھے بھی کنگ فو سیکھنا ہے۔۔ جیسے کنگ فو پانڈے میں وہ کیوٹ سا پانڈے کرتا ہے۔۔ 

تو کس نے منع کیا آپکو کنگ فو سکیھنے سے۔۔؟؟ ایش نے پوچھا۔۔

مما نے۔۔ وہ مجھے باہر نہیں جانے دیتیں۔۔ گل نے عاٸشہ کی شکایت کی۔۔

اچھا تو یہ مسٸلہ ہے۔۔ کیا میں آپکو کنگ فو سکھا دوں۔۔؟؟ 

کیا۔۔ آپکو کنگ فو آتا ہے۔۔ گل ایک دم اچھلی۔۔ 

جی بالکل۔۔ مجھے بھی اسٹرانگ بننا تھا۔ اس لیۓ میں نے سیکھ لیا۔۔ 

واٶٶٶ آنی آپ نے پہلے نہیں بتایا۔۔ چلیں ابھی چلیں۔۔ مجھے ابھی سکھاٸیں۔۔

ابھی نہیں گل جب میں گھر آٶں گی نا پھر سکھاٶں گی۔۔ ایش نے مسکرا کر کہا۔۔

پکا آپ سکھاٸیں گی نا۔۔؟؟ گل کو جیسے یقین نہیں ہوا تھا۔

پرامس کرتی ہوں۔ آپ کو کنگ فو سکھاٶں گی۔۔ 

گریٹ پھر ہم دونوں مل کر ایک ساتھ برے لوگوں کو ماریں گے۔۔ اور انہیں روما سے بھگا دیں گے۔۔ گل پرجوش سی کہہ رہی تھی۔

جی بالکل۔۔ ہم دونوں برے لوگوں کا مقابلہ کریں گے۔۔ ایش نے جواب دیا۔۔

آپ میرا ساتھ دینگی نا گی نا آنی۔۔۔

کیا آپکو ساتھ نبھانا آتا ہے۔۔۔؟؟ 
گل نے ایش کے کان کے قریب سرگوشی کی۔۔ انداز ایسا تھا جیسے کوٸ بہت ہی سیکریٹ بات ہو۔۔

ایش مسکراٸ۔۔

ہاں مجھے ساتھ نبھانا آتا ہے۔۔ 

جاٶ گل اب سب لوگوں سے مل کر آٶ۔۔ اور دادا جی تمہیں یاد کر رہے تھے۔۔ عاٸشہ نے گل سے کہا۔۔ ورنہ وہ اسے ایش سے بات کرنا کا موقع ہی نا دیتی۔۔

اوکے۔۔ میں سب سے مل کر آتی ہوں۔۔ گل باہر کی طرف بھاگی۔۔

اففف توبہ کتنا دماغ کھاتی ہے یہ لڑکی۔۔ عاٸشہ نے اسکے جانے کے بعد کہا۔

کچھ نہیں ہوتا آپی۔۔ گل بہت اچھی بچی ہے۔۔ 

ویسے میں تو تم سے ناراض ہوں۔۔ عاٸشہ نے نروٹھے پن سے کہا۔

پر کیوں۔۔ آپ کیوں ناراض ہیں مجھ سے۔۔؟؟ 

تم نے مجھے سمعان حیدر کے بارے میں نہیں بتایا کہ تم اسے جانتی ہو۔۔ 
ایش کو لگا عاٸشہ نے دھماکہ کیا ہو۔۔ وہ فق چہرے کے ساتھ عاٸشہ کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔

آپ سیم کو کیسے جانتی ہیں۔۔؟؟ ایش نے حیرت سے پوچھا۔

احمد کا بہت اچھا دوست ہے وہ۔۔ اور اولڈ ہاٶس کیلیۓ بھی چیک دیتا رہتا ہے۔۔ انفیکٹ ہر تین مہینے بعد وہ بڑا چیک دیتا ہے۔۔ عاٸشہ بتا رہی تھی جبکہ ایش کو حیرانگی ہو رہی تھی کہ ایک ٹیکسی ڈرائيور کے پاس اولڈ ہاٶس کیلیۓ ڈونیشن کے طور پر دینے کلیۓ اتنی بڑی رقم کہاں سے آتی ہے۔۔؟؟ 

ایش۔۔۔ کیا ہوا۔۔؟؟ 
عاٸشہ نے اسے سوچ میں ڈوبا پایا تو پوچھا۔

کچھ نہیں۔۔ ایش اپنی جگہ سے اٹھی اور بلاوجہ ٹیبل پر پڑی فاٸلوں کو چیک کرنے لگی۔۔

ویسے کہاں ملا تھا وہ تمہیں۔۔؟؟ 

آپی مجھے اس ٹاپک پر بات نہیں کرنی۔۔ میں اسے نہں جانتی۔۔ ایش اسے یاد نہیں کرنا چاہتی تھی۔
 

مگر وہ تو کہہ رہا تھا کہ تم اسے۔۔ 

آپی پلیز۔۔ وہ میرا پاسٹ تھا۔۔ میں اپنے پاسٹ پیچھے چھوڑ آٸ ہوں۔۔ ایش نے عاٸشہ کہ بات کاٹی۔۔

مجھے کچھ کام ہے میں ابھی آتی ہوں۔۔ ایش کہہ کر کمرے سے نکل گٸ۔۔ 

جبکہ عاٸشہ کو اس سے اتنے شدید ردعمل کی توقع نہیں تھی۔۔

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حورعین یونيورسٹی نہیں گٸ تھی۔ اسکا زہنی توازن ٹھیک نہیں تھا۔۔ وہ جانا چاہتی تھی لیکن کچھ سوچ کر رک گٸ۔۔ شزا نے اسے زبردستی کھانا کھلایا تھا اور پھر میڈیسن دی تھی تاکہ اسکا بخار اتر جاۓ۔۔

صابرہ خاتون کا رونے کے باعث اور پریشانی کی وجہ سے بی پی ہاٸ ہوگیا تھا۔۔ رونا تو حورعین کو بھی شدید آرہا تھا کہ اسکی وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے۔۔

وہ حرم سے بات کرنا چاہتی تھ۔۔ لیکن اسکے پیپر ہو رہے تھے۔
حورعین نے اپنا موبائل آن کیا تھا۔۔ حرم کے اسے کافی میسجز ملے تھے۔۔ پھر اس نے کچھ سوچتے ہوۓ واٹس ایپ آن کی تو حرم کا اسٹیٹس چیک کرنے لگی۔۔ وہ کبھی کبھی اسٹیٹس لگاتی تھی۔۔ 

Sometimes God #break your heart to save your #soul.. ❤❤

یہ جملہ پڑھنے کے بعد حورعین کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھری سارتھ ہی اسکی آنکھوں میں نمی ابھری تھی۔۔ اسکا دل ٹوٹا تھا۔۔ شاید اللہ کچھ بہتر کرنے والا تھا۔۔

حورعین کو اپنے دل میں ایک سکون سا اترتا محسوس ہوا۔۔ اسے لگا یہ الفاظ اسے حوصلہ دے رہیں ہوں۔ جیسے حرم نے اسی کیلیۓ یہ اسٹیٹس لگایا ہو۔۔لیکن وہ تو ابھی کچھ جانتی بھی نہیں تھی۔۔

حرم کے ارد گرد سکون سا بھکرتا ہے۔۔ کیا خاص بات تھی اس میں یہ حورعین نے آج محسوس کی تھی۔

وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ امی پاس جاکر اسے سب سچ بتاتی ہوں۔۔ مجھے ان سے معافی مانگ لینی چاہیۓ۔۔ تبھی اچانک اسے باہر سے آوازیں آنا شروع ہوٸیں۔۔

وہ باہر آٸ تو نفیسہ تاٸ اور شہرین دونوں موجود تھیں۔۔ 

دیکھ لیۓ اپنی بیٹی کے کرتوت۔۔ یہ تربیت ہے تمہاری۔۔ نفیسہ تاٸ زہر اگل رہی تھیں۔۔ جبکہ صابرہ خاتون سر جھکاۓ کھڑی تھیں۔۔

حورعین کے اندر تکلیف کی ایک لہر دھوڑ گٸ تھی۔۔ فون پر اتنا کچھ سنا کر سکون نہیں ملا تھا نفیسہ تاٸ کو جو اب وہ گھر بھی آگٸیں تھیں۔۔

ارے میں تو پہلے سے ہی جانتی تھی یہ لڑکی کچھ نا کچھ گل ضرور کھلاۓ گی۔ میں تو پہلے ہی اس رشتے کے خلاف تھی۔۔ مگر اپنے بیٹے کے آگے مجبور تھی۔

تاٸ آپ اچھی طرح سے جانتی ہیں۔۔ حورعین ایسا کبھی نہیں کرسکتی۔۔ شزا نے کہا۔

کر نہیں سکتی لیکن کر چکی ہے۔۔ میرا بیٹا اب اس سے شدید نفرت کرتا ہے۔ اسے ایسے گرے ہوۓ کردار کی لڑکی ہرگز نہیں چاہیۓ۔۔ 

حورعین کا دل کر رہا تھا کہ زمین پٹھے اور وہ اس میں سما جاۓ۔۔ کچھ ایسی ہی حالت صابرہ خاتون کی بھی تھی۔

میں یہ رشتہ ختم کرتی ہوں۔۔ جو کام اس نے کیا ہے نا اسکے بعد میرا بیٹا تو کیا دنیا کا کوٸ بھی غیرت مند لڑکا اس سے شادی نہیں کرے گا۔۔

شہرین کے سینے میں ٹھنڈ پڑھ گٸ تھی۔ کچھ عرصہ پہلے ایسے اسکا رشتہ ٹوٹا تھا صرف حرم کی وجہ سے اور آج اس نے وہ بدلہ حورعین سے لیا تھا۔۔ حالانکہ وہ دونوں بھول گٸیں تھیں شاید کہ حورعین خود اسد کی پہناٸ رنگ اسی کے سامنے اتار کر رکھ آٸ تھی۔۔ رشتہ وہ ختم کر آٸ تھی۔۔ اسد جیسے شخص سے وہ مر کر بھی شادی نہیں کر سکتی تھی۔۔ جو کانوں کا اتنا کچہ نکلا تھا۔

ارے امی انکے تو خون میں ہی گھٹیا پن ہے۔۔ جو گل حرم نے کھلاۓ۔۔ وہی یہ میڈم۔۔

خبردار ۔۔۔ حورعین ایک دم دھاڑی۔۔

خبردار جو حرم کا نام تم نے اپنی گندی زبان سے لیا تو۔۔ 
وہ انگلی اٹھا کر شہرین کو وارن کر رہی تھی۔۔

تم اس قابل نہیں ہو شہرین کہ تم میری بہن کا نام اپنی زبان سے لو۔۔ 

شہرین کا رنگ فق ہوا۔۔ 
جبکہ صابرہ خاتون سمیت باقی سب حورعین کے اس طرح حرم کی فیور کرنے پر حیران ہوۓ تھے۔۔

کمال ہے۔۔ اس لڑکی کی زبان ابھی بھی چل رہی ہے۔حالانکہ اسکا رشتہ توڑنے آۓ ہیں ہم۔۔ ارے تمہیں تو ڈوب مرنا چاہیۓ۔۔۔ نفیسہ تاٸ پھنکاری۔۔

اگر میں نے کچھ غلط کیا ہوتا تو ابھی تک ڈوب مر چکی ہوتی۔۔ اور کس رشتے کی بات کر رہی ہیں آپ۔۔میں وہ رشتے خود توڑ آٸ تھی۔۔ آپکے بیٹے سے میں مر کر بھی شادی نا کروں۔۔ جسکے پاس اعتبار نام کی کوٸ چیز ہی نہیں۔۔

حورعین اپنی بکواس بند کرو۔۔ صابرہ خاتون نے غصے سے چلا کر کہا۔۔

جی امی۔۔ میں خاموش ہو جاتی ہوں۔۔ لیکن جو بات سچ ہے وہ سچ ہے۔۔ اور نفیسہ تاٸ اچھی طرح سے جانتی ہیں کہ جھوٹا کون ہے۔۔ حورعین نے جواب دیا۔

چلیں امی یہاں سے۔۔ بلاوجہ ان گھٹیا لوگوں کے منہ لگنے آگۓ ہم۔۔ اور ساجدہ آنٹی آپ بھی الگ گھر لے لیں۔۔ ایسا نا ہو کل کو یہ لڑکی آپکے ہی بیٹے پر ڈورے ڈالنے شروع کردے۔۔ شہرین نے اپنی بھڑاس نکالی۔۔

حورعین نے کرب سے آنکھیں بند کرلیں۔۔ اتنی زلالت۔۔ ابھی تو پتا نہیں کیا کیا سہنا باقی تھا۔

ہمیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں یہ ہم اچھے سے جانتے ہیں شہرین۔۔ اور زین بھاٸ اپنی کزنز کو اپنی بہنیں ہی سمجھتا ہے۔۔ دوسرے لوگوں کی طرح گندی نیت اور گندی نظروں سے نہیں تکتا۔۔ اب کی بار جواب ثناء کی طرف سے آیا تھا۔۔اور اسکا اشارہ نادر کی طرف تھا یہ سب سمجھ گۓ تھے۔۔

شہرین اور نفیسہ تاٸ بڑبڑ کرتی باہر کی طرف بڑھیں۔۔ ساجدہ آنٹی نے انہیں روکنے کی بہت کوشش کی مگر وہ نہیں رکیں۔۔ 

صابرہ خاتون وہیں لاٶنج میں ڈھے گٸ تھیں۔۔ جبکہ حورعین اپنے کمرے میں چلی گٸ۔۔

تم لوگوں کو کیا ضرورت تھی بکواس کرنے کی۔۔ ساجدہ آنٹی نے شزا اور ثناء کو گھورا۔۔

اور جو وہ دونوں کر رہی تھیں۔۔ وہ کیا تھا۔۔ بلاوجہ کا تماشہ کھڑا کرنے آگٸ تھیں۔۔ 

میں نے پہلے ہی کہا تھا یہ سب جو ہوا ہے نا یہ ان دونوں ہی کی چال ہے۔۔ وہ اسد کی شادی اپنی مرضی سے کرنا چاہتی ہیں۔ حورعین سے جان چھڑانے کیلیۓ تاٸ نے یہ سب کیا۔۔ شزا بالکل ٹھیک کہہ رہی تھی۔۔

اور جب آپ لوگ خاموش رہیں گی تو ہمیں ہی جواب دینا ہوگا نا۔۔ 
ثناء نے کہا۔

کیا ضرورت تھی جواب دینے کی۔۔ بلاوجہ بدتمیزی کی۔۔

بدتمیزی اور حق بات کرنے میں فرق ہوتا ہے۔۔ اور ہم نے وہی کہا جو سچ تھا۔۔ شزا کہتی حورعین کے کمرے کی طرف بڑھ گٸ۔۔

     جبکہ ساجدہ آنٹی کچھ سوچ کر رہ گٸ تھی۔۔

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حرم جب عرش اور بیلا کے ساتھ کیفے پہنچی تو اچانک اسکے سامنے زی آٸ۔ 

زی کل والا واقع نہیں بھول رہا تھا۔۔ وہ سوچ سوچ کر تھک چکی تھی۔۔ مگر اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔ نا تو اسے وہ ہیٹ والا شخص کا پتا چل رہا تھا اور نا ہی وہ حرم کے خیال سے پیچھا چھڑا پا رہی تھی۔

ہاۓ ۔۔ زی نے کہا۔

حرم تو حیران رہ گٸ تھی کہ زی اسکے پاس آٸ تھی۔۔ وہ بھی خود چل کر۔۔ شاید پھر انسلٹ کرنے آٸ ہو۔۔ حرم نے سوچا۔

مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔۔ زی نے کہا۔

جی کریں۔۔ 

زی نے عرش اور بیلا کی طرف دیکھا کہ وہ انکی موجودگی میں بات نہیں کرنا چاہتی۔۔ وہ دونوں سمجھ گٸ تھیں۔ اس لیۓ خود ہی چکی گٸیں۔۔ 

ہم تمہارا انتظار کر رہے ہیں حرم جلدی آنا۔۔ عرش نے جاتے ہوۓ کہا۔
اوکے ۔۔ حرم نے اثبات میں سر ہلایا۔۔

تمہارا نام حرم نور کیوں ہے۔۔؟؟ زی نے حرم سے پوچھا۔ وہ ایک ٹیبل کی طرف بڑھی۔۔ حرم بھی اسکے پیچھے ہوٸ۔۔

آپکا نام زی کیوں ہے۔۔؟؟ حرم نے الٹا سوال کیا۔۔زی گڑبڑا گٸ۔۔

یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔۔ زی نے سرد سے لہجے میں کہا۔

اسی سوال میں میرا جواب چھپا ہے۔۔ 
حرم نے جواب دیا۔۔

تم ایسی ڈریسنگ کیوں کرتی ہو۔۔۔؟؟ زی نے اسکے کپڑوں کی طرف اشارہ کیا جو کوٹ میں چھپے ہوتے تھے۔۔ نظر بھی نہیں آتے تھے۔

حرم حیران ہوٸ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ ایسے سوال کیوں کر رہی ہے۔۔

آپ کیوں کرتی ہیں ایسی ڈریسنگ۔۔؟؟ حرم نے اسکی جینز کی طرف اشارہ کیا۔

جو پوچھا ہے وہ بتاٶ۔۔ زی کی نیلی آنکهوں میں غصہ ابھرا۔۔

مجھے ایسی ڈریسنگ پسند ہے۔۔ یہ ہمارا کلچر ہے۔۔ ہم ایسی ہی ڈریسنگ کرتے ہیں۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔

کیا سبھی ایشینز لڑکياں ایسی ہی ڈریسنگ کرتی ہیں۔۔؟؟ 

جی زیادہ تر۔۔۔ حرم نے جواب دیا۔

بیلا اور عرش بھی تو ایشینز ہیں۔۔ چلو عرش کی ڈریسنگ تو پھر بھی تم سے ملتی ہے۔۔ بیلا کی تو بالکل بھی نہیں۔۔ ایسا کیوں ہے۔۔؟؟ زی نے پوچھا۔

بیلا نان مسلم ہے۔۔ اسے کیا فرق پڑتا ہے وہ جیسی مرضی ڈریسنگ کرے۔۔ اصل بات تو مسلمز کی ہے۔۔حرم نے جواب دیا۔

اور عرش۔۔ وہ تو مسلم ہے نا۔۔ اسکے بارے میں کیا خیال ہے۔۔؟؟ زی نے ایک اور سوال کیا۔۔ جانے وہ کیا جاننا چاہتی تھی۔

عرش کی ڈریسنگ اتنی قابل اعتراض نہیں ہوتی۔۔ جو اسے پسند ہے وہ وہی پہنتی ہے۔۔ 

اور تم۔۔۔؟؟ کیا تمہارا دل نہیں کرتا ایسی ڈریسنگ کرنے کو۔۔؟؟ 

نہیں۔۔ مجھے پھٹے پرانے کپڑے پہننے کا کوٸ شوق نہیں۔۔ حرم کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔۔اسکی نظریں زی کی گھٹنوں سے پھٹی شرٹ پر گٸ تھیں۔۔ 

زی نے پہلو بدلا۔۔ وہ اسکی بات کا مطلب سمجھ گٸ تھی۔۔ 
یہ پھٹے پرانے کپڑے نہیں ہیں۔۔ میرے ڈریسز برانڈڈ ہوتے ہیں۔۔ شاید ہی یونيورسٹی میں کوٸ اور اتنے مہنگے ڈریس پہنتا ہو۔۔زی کو غصہ آیا تھا۔

وجہ کیا ہے اتنے مہنگے ڈریس پہننے کی۔۔؟؟ حرم نےسوال کیا۔

ریم کو پسند ہیں۔۔ وہ خود برانڈڈ ڈریسنگ کرتا ہے۔۔ اور اسے مسلمز تو بالکل بھی نہیں پسند۔۔ زی نے صاف گوٸ کا مظاہرہ کیا۔

بات صاف ہے۔۔ آپ وہ ڈریسنگ کرتی ہیں جو آپکے #صنم کو پسند ہے۔۔ اور میں ٹراۓ کر رہی ہوں کہ ویسی ڈریسنگ کر پاٶں جو میرے #صمد کو پسند ہے۔۔ 

اب یہ صمد کون ہے۔۔؟؟ زی نے کوفت سے پوچھا۔۔ حرم کی باتیں اسکے زہن میں نہیں آتی تھیں۔۔

آپ مجھ سے زیادہ بہتر ہیں۔۔ پتا ہے کیوں۔۔ ؟؟ حرم اسکے سوال کو نظر انداز کر گٸ تھی۔۔

کیوں۔۔۔ ؟؟ زی نے پوچھا۔۔

جو آپکا صنم چاہتا ہے آپ اس پر پورا اتر گٸ ہیں۔۔ آپکی ڈریسنگ بالکل اسکی پسند کی ہوگٸ ہے۔۔ جبکہ جیسی ڈریسنگ میرا صمد چاہتا ہے۔۔ میں ویسی نہیں کر پاٸ ابھی تک۔۔
حرم کا اشارہ مکمل پردے کی طرف تھا۔۔

جبکہ زی کو اسکی بات کی سمجھ نہیں آٸ تھی۔

خیر چھوڑا مجھے صمد میں کوٸ انٹرسٹ نہیں ہے۔۔ زی نے کوفت سے کہا۔۔

لیکن صمد تو آپ میں انٹرسٹ رکھتا ہے نا۔۔ حرم نے مسکرا کر کہا۔

زی نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا۔۔

کیا تمہارا صمد مجھے جانتا ہے۔۔؟؟ 

جی وہ آپ سمیت سب کو جانتا ہے۔۔

کیا وہ کوٸ wizard ہے یعنی جادوگر۔۔؟؟ زی نے آہستہ سے پوچھا۔۔

نہیں وہ سب کا بنانے والا ہے۔۔حرم مسکراٸ۔۔

اچھا مجھے اب ایک اور سوال کا جواب دو۔۔

تم یہ ڈوپٹہ ایسے کیوں لیتی ہو۔۔؟ زی نے اسکے حجاب کی طرف اشارہ کیا۔۔

کیا آپ اپنے سر پر موجود بالوں کے بنا رہ سکتی ہیں۔۔ ؟؟ حرم نے الٹا سوال کیا۔

واٹ۔۔؟؟ یہ کیا بکواس ہے۔۔

بتاٸیں نا۔۔ 

نہیں۔۔ بالکل بھی نہیں۔۔ بال بہت ضروری ہیں۔۔ اور زی کو اپنے براٶن کلر کے بال بہت پسند تھے۔۔

چہرے کی خوبصورتی ہی بالوں کی وجہ سے ہے۔۔ گاڈ نے انہیں بنایا ہی اس لیۓ ہے کہ چہرہ خوبصورت لگے۔۔ 

بالکل اسی طرح۔۔ حجاب بہت ضروری ہے۔۔ جیسے بال چہرے کو خوبصورت بناتے ہیں۔۔ چہرے کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں بالکل اسی طرح حجاب ایمان کی خوبصورتی کو بڑھاتا ہے۔۔ 

اللہ نے سر کو ڈھانپے رہنا کا حکم دیا ہے۔۔ کیونکہ اس سے عورت کی حیا خوبصورت رہتی ہے۔۔ اسکا کردار خوبصورت ہوتا ہےاسکی عزت مزید بڑھتی ہے۔۔  
حرم کہہ رہی تھی۔۔

جبکہ کیفے میں داخل ہوتے رومان شاہ کے قدم ایک دم رک گۓ تھے۔۔ 
آج مشرق اور مغرب ایک ساتھ بیٹھے تھے۔۔ وہ فوراً زی اور حرم کی طرف بڑھا۔۔

تمہاری باتیں سمجھ سے باہر ہیں۔۔ زی نے کہا۔

کوٸ بات نہیں۔۔ آپکے مزہب میں شاید ان باتوں کی کوٸ اہمیت نا ہو۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔

ہاۓ گاٸز۔۔ 
اس سے پہلے زی کچھ اور پوچھتی رومان وہاں پہنچ گیا۔

اوو ہاۓ۔۔ میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی۔۔ شکر تم آگۓ۔۔ زی نے اٹھتے ہوۓ کہا۔ 

آپکا پیپر کیسا ہوا مس نور۔۔؟؟ وہ حرم کی طرف متوجہ ہوا۔

اچھا ہوگیا۔۔
حرم نے جواب دیا۔۔اس سے پہلے وہ کچھ اور بات کرتا حرم اٹھ کر عرش اور بیلا کی طرف بڑھ گٸ۔۔

چلیں۔۔؟؟ زی نے اس سے پوچھا۔

ہممم۔۔ چلو۔۔۔ وہ ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا تھا۔۔

     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حرم نے رات کو لاہور کال کی تھی۔۔ فون جیا نے اٹھایا تھا۔۔ اور اس نے حرم کو بتادیا تھا کہ مما نے حورعین آپی کو تھپڑ مارا اور اب انکی طبیعت بہت خراب ہے۔۔ 

حرم تو صابرہ خاتون کی خراب طبیعت کا سن کر پریشن ہوگٸ تھی۔۔ ایک تو اسے اگزامز کی ٹینشن تھی۔۔ اوپر سے وہ سب سے اتنا دور تھی۔۔ 
جب صابرہ خاتون گھر نہیں ہوتی تھیں تو حرم سے پڑھا تک نہیں جاتا تھا۔ اور اب وہ اس سے میلوں دور تھی۔۔ کتنی مشکل سے وہ کتاب میں لکھا کچھ یاد کرتی تھی یہ صرف وہی جانتی تھی۔
اوپر سے کمپیٹیشن کی مزید ٹینشن۔۔ حرم کمرے میں بند ہو کر اتنا پڑھتی نہیں تھی جتنا روتی تھی۔۔ 
اسکا دل بہت چھوٹا سا تھا۔۔ بچپن سے ہی اگر کوٸ کام اس سے نا ہو رہا ہوتا اور وہ ضروری ہوتا تو وہ چھپ کر رونے لگ جاتی تھی۔
اسے دنیا میں سب سے زیادہ اپنی ماں عزیز تھی۔۔ اور اکثر وہ سوچتی تھی کہ ایمان تو تب مکمل ہوتا ہے نا جب ہر چیز سے بڑھ کر ہمیں حضرت مُحَمَّد ﷺ عزیز ہوں۔۔ 

اللہ مجھے معاف کردینا۔۔ میں سب سے بہت زیادہ پیار کرتی ہوں۔۔ آپ اور آپکے محبوب مجھے بہت عزیز ہیں۔۔ اور آپ دونوں کے بعد مجھے میری امی عزیز ہیں۔۔ میں صرف یہ کہتی ہوں۔۔ مگر آپ تو شہہ رگ سے زیادہ قریب ہیں۔۔ انسان کی نیت کو تو آپ ہی جانتے ییں مولا جی۔۔ اگر کہیں کوٸ غلطی کوتاہی کر جاٶں تو معاف کردٕنا مجھے۔۔ وہ فوراً یہ دعا مانگتی تھی۔۔

کیا ہوا امی کو۔۔میری بات کرواٶ جلدی ان سے۔۔ حرم نے جیا سے کہا۔۔

اور پھر کچھ دیر بعد جیا نے صابرہ خاتون سے حرم کی بات کروادی تھی۔۔
وہ تو حرم کی آواز سن کر ہی رو دی تھیں۔۔ حرم انکے یوں رونے پر بوکھلا گٸ تھی۔

کیا ہوا امی۔۔ بتاٸیں پکیز روٸیں مت۔۔ حرم کی خود کی آواز بھرا گٸ۔۔

اور پھر صابرہ خاتون نے سب کچھ حرم کو بتادی۔۔ 
حرم کا دماغ گھوم گیا سب سن کر۔۔ وہ جانتی تھی حورعین کبھی اتنا غلط کام نہیں کرسکتی۔۔ لیکن اسے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ سب ہو گیا ہے۔

کچھ دیر وہ ان سے مزید باتیں کرتی رہی اور پھر انہیں کافی تسلیاں دینے کے بعد فون بند کیا۔ 
حرم نے صابرہ خارون کو یقین دلانے کی پوری کوشش کی تھی کہ نفیسہ تاٸ اور شہرین نے کوٸ ڈرامہ کیا ہوگ۔۔ لیکن صابرہ خاتون حورعین ک مستقبل کو سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی۔۔

تو شہرین نے اپنا بدلا لے ہی لیا۔۔
حرم نے سوچ۔۔

یا اللہ پاک ہماری مشکلیں آسان فرما۔۔ میں اپنی امی کو اس طرح پریشان نہیں دیکھ سکتی۔۔ انکے حصے ہی تکلیفیں اور پریشانیاں مجھے دے دیں۔۔ مگر میری امی کی پریشانی ختم کر دیں۔۔ حرم نے عشا کی نماز کے بعد بہت دعاٸیں مانگی تھیں۔۔ اسے حورعین کی بھی بہت فکر تھی۔۔اسکی ابھی تک حورعین سے بات نہیں ہوٸ تھی۔

     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اسی خوبصورت پارک میں آکر بیٹھ گٸ تھی جہاں وہ عاٸشہ سے ملی تھی۔۔ 

ایش کو یہ پارک ہمیشہ فیسی نیٹ کرتی تھی۔۔وجہ وہاں موجود معصوم بچے تھے۔۔ جو کھلکھلاتے تھے تو پارک کی رونق مزید بڑھ جاتی تھی۔۔

ہاۓ۔۔ ایش ولیم۔۔
اچانک کسی شخص نے اسے پکارہ۔۔

ایش پنی جگہ سن رہ گٸ۔۔ وہ اس آواز کو پہچانتی تھی۔۔

      ❤❤❤❤❤❤❤
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔ 

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─