┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 40
پارٹ 2

کیسی ہو ایش ولیم۔۔۔؟ وہ اسکے پاس پتھر کے بنے بینچ پر بیٹھ چکا تھا۔
نورالایش۔۔ ایش ولیم نہیں ہوں میں ماٸیک۔۔ ایش نے اسکی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔

اووو سوری میں بھول گیا تھا۔۔ پورے تین ماہ بعد تمہیں دیکھ رہا ہوں آج۔۔ تم تو سر تا پا بدل گٸ ہو۔۔

جو بہتر تھا میں نے وہی کیا۔

میں تمہارا دوست ہوں ایش۔۔ مجھے تو بتادیا ہوتا۔۔

سوری مسٹر ماٸیک۔۔ ہمارے مزہب میں مردوں سے دوستی کی اجازت نہیں۔۔ آپ سے میرا رشتہ ایک کزن کا تھا۔۔ 

تھا۔۔۔ مطلب اب نہیں ۔۔۔؟؟ ماٸیک نے تڑپ کر پوچھا۔

جب میرے نام کے آگے سے ولیم ہٹ چکا ہے۔۔ تو اس سے منسلک ہر رشتہ ختم ہو گیا ہے۔

ایش تم اتنی پتھر دل تو نہیں تھی۔۔ پیلس میں سب تمہیں یاد کرتے ہیں۔۔ گرینی بہت مس کرتی ہے تمہیں۔۔ 

تو میں کیا کروں۔۔؟؟ 

تمہیں ان سے ملنا چاہیۓ۔۔ 

مجھے اس گھر سے دھکے دے کر نکال دیا گیا تھا ماٸیک۔۔ 

تم نے کام بھی تو بہت غلط کیا ہے ایش۔۔ ایک لڑکے کیلیۓ کوٸ اپنے مزہب کو تھوڑی چھوڑتا ہے۔ماٸیک نے کہا۔

اٹس انف مسٹر ماٸیک۔۔ انف۔۔ 
ایش کو اپنے ایمان پر کی گٸ بات برداشت نہیں ہوٸ۔۔ وہ کسہ کو بھی سمجھا نہیں سکتی تھی کہ اس نے سمعان کیلیۓ یہ سب نہیں کیا۔

تم نہیں سمجھو گے ماٸیک۔۔ اور مجھے سمجھانا بھی نہیں۔۔ امید کرتی ہوں آٸندہ تم میرے رستے میں نہیں آٶ گے۔۔ ایش کہہ کر رکی نہیں تھی۔ 

جبکہ ماٸیک اسے پکارتا ہی رہ گیا تھا۔ 

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا یقین کرو حرم میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔۔ حورعین کا لہجہ بھیگا تھا۔۔

جانتی ہوں۔۔ تم نے غلط نہیں کیا لیکن ساری غلطی تمہاری ہے۔۔
بس اس دن کیلیۓ میں تمہیں منع کرتی تھی۔۔ 

میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔۔ پتا نہیں سب کیسے ہوگیا۔۔

چلو چھوڑو۔۔ حرم نے ایک گہری سانس لی۔۔ جو ہوتا ہے اچھے کیلیۓ ہوتا ہے۔۔ میں نے امی سے بات کرلی ہے۔۔ کل سے تم یونيورسٹی جاٶ گی۔۔ اور پلیز دھیان سے اب کچھ غلط مت کرنا۔۔ اسد سے ہرگز رابطہ مت کرنا۔۔ حرم نے اسے سمجھایا۔۔

نہیں۔۔ اب تو کبھی بھی نہیں۔۔ وہ میرے لیۓ مر چکا ہے اور میں اسکے لیۓ۔۔ 

اوکے ٹھیک ہے۔۔ بعد میں بات ہوگی۔۔ میں پیپر یاد کرلوں۔۔ 

حرم۔۔ حورعین نے پکارہ۔۔

جی۔۔ 

سوری۔۔ فار ایوری تھنگ۔۔ 

اٹس اوکے۔۔ حرم مسکراٸ۔۔ اوکے اللہ حافظ۔۔ 

حرم کال ڈراپ کر چکی تھی۔ جبکہ حورعین کے لبوں پر دھیمی سی مسکان ابھری تھی۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن تیزی سے گزرنے لگے۔۔ حرم کے سارے پیپرز ہوچکے تھے۔۔ 

حورعین بدلنے لگی تھی۔۔ وہ اب چادر لپیٹ کر یونيورسٹی جاتی تھی۔۔ شرجیل نے دوبارہ اسکے سامنے آنے کی ہمت نہیں کی تھی۔۔

وہاج بھاٸ نے اسے تھپڑ مار کر گھر سے نکال دیا تھا۔۔ ثانی آپی جانتی تھی یہ سب پلان کے تحت ہوا تھا۔۔ اور ضرور یہ پلان شہرین کا ہوگا۔۔ اس لیۓ انہوں نے اسد کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔

آپی وہ میرے لیۓ مر چکی ہے۔۔ مجھے اسکے نام سے بھی شدید نفرت ہے۔۔ اسد نے غصے سے کہا۔

اسد تم پچھتاٶ گے ایک دن۔۔ 
ثانی آپی نے بس اتنا ہی کہا تھا۔۔ اب وہ ماں کی براٸ تو کرنے سے رہی تھی۔

پچھتا تو اب رہاں ہوں آپی۔۔ کہ میں نے ایک کم ظرف لڑکی سے پیار کیا اسے اپنا بنانا چاہا۔۔

سوچ لو اسد اچھی طرح سے۔کبھی کبھی آنکھوں دیکھا بھی جھوٹ ہوتا ہے۔۔

اب کچھ دیکھنے کی چاہت نہیں رہی۔۔ اوکے میری کلاس کا ٹائم ہو چکا ہے بعد میں بات کرتا ہوں۔۔ وہ کہہ کر کال ڈراپ کر چکا تھا۔۔ جبکہ ثانی آپی کچھ سوچ کر رہ گٸ تھیں۔۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دن حرم کا سیکنڈ لاسٹ پیپر تھا۔۔ اگلے دن اسکا آخری پیپر تھا۔۔ وہ پیپر یاد کر رہی تھی جب اسے حورعین کی کال آٸ۔۔

اس نے کال ریسیو کی تو آگے سے حورعین رو رہی تھی۔۔حرم تو بوکھلا گٸ۔

کیا ہوا حورعین رو کیوں رہی ہو۔۔؟؟ 

وہ حرم۔۔۔ وہ۔۔ 
حورعین سے کچھ بولا نہیں جا رہا تھا۔۔

کچھ بتاٶ تو کیا ہوا ہے۔۔؟؟ حرم ایک دم کھڑی ہوگٸ۔۔

وہ ابو آۓ ہیں۔۔ 
حورعین نے کہا۔۔ حرم کو لگا جیسے کوٸ دھاکہ ہوا ہو۔۔

کتنی ہی دیر وہ کچھ بول نا پاٸ۔۔

تاٸ نے سب کچھ ابو کو بتا دیا ہے۔۔ وہ بہت غصے میں ہیں۔۔ ابو نے امی سے اتنا جھگڑا کیا ہے۔۔ وہ تمہارے پوچھ رہے تھے۔۔ وہ امی سے کہہ رہے ہیں کہ تم نے حرم کو بیچ دیا ہوگا۔۔ 

حرم کے اندر ازیت کی ایک لہر اٹھی تھی۔۔ 

کیا لینے آۓ ہیں اب وہ۔۔ پانچ سال پہلے چھوڑ گۓ تھے۔۔ جب ہمیں انکی ضرورت تھی۔۔ تو اب کیوں آۓ ہیں۔۔ 
غصے کے باعث حرم کی آواز کانپ اٹھی۔
اور انہیں گھر میں کس نے آنے دیا۔۔ انہیں باہر نکالو۔۔ ہمارا ان سے کوٸ رشتہ نہیں ہے۔۔ طلاق دے چکے ہیں وہ امی کو پھر کس منہ سے آۓ ہیں۔۔ 
حرم کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔ شاید ہی اس نے کسی شخص سے اتنی نفرت کی ہو جتنی وہ عمر دراز یعنی اب والد سے کرتی تھی۔

اور باہر سے گزرتے فرہاد کے قدم حرم کے اس طرح بولنے پر تھمے تھے۔۔ حرم کا دماغ گھوما ہوا تھا۔۔

حرم وہ میرا نکاح کرنا چاہتے ہیں۔۔ پتا نہیں کس دوست سے جوا ہار کے آۓ ہیں۔۔ 
وہ امی سے کہہ کر گۓ ہیں کہ ایک بیٹی تم نے بیچ دی دوسری پر میرا حق ہے۔۔ تین دن کا وقت دیا ہے انہوں نے۔۔ حورعین کی آواز میں ڈر اور خوف واضح تھا۔۔

چھی۔۔ کیسا باپ ہے وہ انسان۔۔ کوٸ باپ اپنی اولاد کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے۔۔ انکا کوٸ حق نہیں ہے ہم پر۔۔ اور اگر زیادہ تنگ کرے تو پولیس کو کال کر دینا۔۔ وہ ہمارے لیۓ اسی دن مر گۓ تھے۔ جس دن ہمیں بھوکا چھوڑ کر گۓ تھے۔۔ حرم کے آنسو جاری ہوگۓ تھے۔۔ اسے پانچ سال پہلے کے واقعات آج بھ یاد تھے۔۔

حرم کیا ہوا۔۔ کس سے باتیں کر رہی ہو۔۔؟ فرہاد نے اندر آتے ہوۓ پوچھا۔

ہادی وہ۔۔ وہ۔ اب۔۔ ابو۔۔ وہ میں۔۔ حرم سے بولا نہیں جا رہا تھا۔۔ فرہاد نے اسکی یہ حالت کبھی نہیں دیکھی تھی۔۔

بتاٶ تو ہوا کیا ہے۔۔ فرہاد اسکے قریب آیا۔۔ 

وہ حورعین۔۔ وہ اسد نے رشتہ توڑ دیا۔۔
وہ ابو جوا ہار کے آۓ ہیں وہ حورعین کو۔۔ وہ اسے۔۔ داٶ پر لگا آۓ ہیں۔۔
حرم روتے روتے فرہاد کے گلے لگ گٸ تھی۔وہ اپنی بات بھی سمجھا نہیں پا رہی تھی۔۔ اسے شاک لگا تھا۔۔

فرہاد اسے اس طرح دیکھ کر تڑپ اٹھا تھا۔

پلیز روٶ مت حرم۔۔ چپ کر جاٶ پلیز۔۔ فرہاد نے اسکے گرد اپنا حصار قاٸم کیا۔

ادھر آٶ یہاں بیٹھو۔۔ فرہاد نے اسے بیڈ پر بٹھایا۔۔ یہ لو پانی پیو۔۔ اس نے ساٸیڈ ٹیبل پر رکھا پانی کا گلاس اسکے لبوں سے لگایا۔۔

وہ ہادی۔۔ مم ۔۔ کچھ نہیں کر پاٶں گی۔۔ وہ حورعین کی زندگی برباد کردے گے۔۔
کچھ نہیں ہوتا حورعین کو۔۔ تم پریشان مت ہو۔۔

نہیں۔۔ آپ نہیں جانتے وہ اچھے انسان نہیں ہیں۔۔ 
ہادی وہ۔۔ مم۔۔ میں۔۔ 
وہ کچھ بول ہی نہیں پارہی تھی۔۔

فرہاد نے اسکے گرد اپنے بازو ڈال کر اسے خود کے قریب کیا۔۔ وہ بہت ڈری ڈری لگ رہی تھی۔ جیسے کچھ بہت غلط ہو گیا۔

حرم نے فرہاد کو زور سے پکڑ رکھا تھا وہ چھپ جانا چاہتی تھی۔۔ فرہاد نہیں جانتا تھا کہ اسکے اندر کیا چل رہا ہے۔۔ 

اتنا گھبرا کیوں رہی ہو حرم وہ تمہارے والد ہی تو ہیں۔ وہ کچھ غلط نہیں کریں گے۔۔ فرہاد نے اسے تسلی دی۔

نہیں آپ نہیں جانتے ہادی۔۔ وہ ہم سے زرا پیار نہیں کرتے۔۔ وہ ہمیں پانچ سال پہلے چھوڑ گۓ تھے۔۔ جب ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا۔۔وہ جوے میں اپنا سب کچھ گنوا چکے ہیں۔۔
میری امی نے ہم نے بہت مشکل وقت گزارا ہے ہادی۔۔

میں ان سے بہت پیار کرتی تھی۔ مجھے انکی ضرورت تھی۔ مگر انہوں نے ہمیشہ مجھے خود سے دور رکھا کیونکہ میں ایک لڑکی تھی۔ وہ مجھ سے نفرت کرتے تھے ہادی۔۔انہوں نے کبھی مجھ سے پیار نہیں کیا۔۔
وہ کہہ رہی تھی جب فرہاد کو دکھ ہو رہا تھا کہ حرم کی زندگی میں اتنے اندھیروں میں گزری ہے۔۔

میں نے انہیں بہت مس کیا ہادی۔۔ جب کبھی میں سکول میں فرسٹ آتی تھی۔ وہ نہیں ہوتے تھے۔۔ میرے ساتھ جانے کیلیۓ۔
جب کبھی مجھے انکی ضروت ہوتی تھی۔۔ وہ کبھی میرےپاس نہیں ہوتے تھے۔۔ میں اکیلی رہی ہادی۔۔ اور پھر میرا پیار نفرت میں بدل گیا جس دن وہ ہمیں چھوڑ گۓ۔۔
حرم کو لگ رہا تھا کہ اسکی دماغ کی کوٸ رگ پھٹ جاۓ گی۔۔ سالوں سے چھپا درد دل چیر رہا تھا۔۔

چپ کرجاٶ حرم۔۔ روٶ مت پلیز۔۔ فرہاد کی پوری شرٹ بھیگ چکی تھی۔۔حرم کے آنسو اسے اپنے دل پر گرتے محسوس ہو رہے تھے۔۔

میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ حورعین کو کچھ نہیں ہوگا۔

فرہاد کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا۔ اسے نہیں پتا تھا کہ اسد اور حورعین کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔۔ اسے کیا کرنا ہے وہ اچھی طرح سمجھ چکا تھا۔۔ 

حرم نے اپنے باپ کی محرومی دیکھی تھی۔۔ انکے زندہ ہونے کے باوجود وہ ہمشہ انکے پیار کیلیۓ تڑپی تھی۔۔ ایک بیٹی اپنے باپ سے جتنا پیار کرتی ہے شاید ہی اور کوٸ کرتا ہو۔۔ 

لیکن اگر ایک بیٹی اپنے باپ سے نفرت کرے اسکے پیچھے کوٸ بہت ہی بڑی وجہ ہوتی ہے۔۔ 
حرم کی محرومی اور پیار کی خواہش۔۔ اپنے باپ کے ساتھ کی ضرورت۔۔ اسے نا ملنے پر سب کچھ نفرت میں بدل گیا۔۔

سالوں پہلے جب وہ چھوٹی تھی عمر دراز صابرہ خاتون سے بات بات پر جھگڑا کرتے تھے۔۔ ایک رات جب موسم شدید خراب تھا۔۔ جوے میں ہارنے کے بعد عمر دراز نے صابرہ خاتون سے جھگڑا کرنے کے بعد اس پر ہاتھ اٹھایا تھا۔۔ حرم تب چھوٹی تھی۔۔ وہ سہم گٸ تھی۔ لڑاٸ جھگڑے سے اسے ویسے ہی ڈر لگتا تھا۔۔ وہ یہ منظر دیکھ نا سکی۔۔ اور بیڈ کے نیچے چھپ گٸ۔۔ 
وہاں چھپے وہ روتی رہی۔۔ پھر روٹین بن گٸ۔ جب بھی کوٸ جھگڑا ہوتا وہ کبھی دروازے پیچھے چھپ کاتی تو کبھی بیڈ کے نیچے۔۔۔
وہی ڈر اسکے اندر آج بھی کنڈلی مار کر بیٹھا تھا۔
وہ بیڈ کے نیچے سے نکل آٸ تھی۔۔ وہ بڑی ہو چکی تھی۔۔ لیکن خود کو وہ اسی تاریک رات میں اسی بیڈ کے نیچے چھوڑ آٸ تھی۔۔ وہ اکیلی۔۔ ڈری اور سہمی بچی آج بھی اسکے اندر موجود تھی۔۔ جسے صرف فرہاد نے دیکھا تھا۔۔ آج۔۔ سالوں بعد۔۔

  ہر انسان کی زندگی میں کچھ نا کچھ برا ہوا ہوتا ہے۔۔ جیسا انسان اوپر سے نظر آتا ہے وہ ویسا نہیں ہوتا۔۔ ہر انسان کی ایک الگ داستان ہوتی ہے۔ جسے کوٸ کوٸ پڑھ پاتا ہے۔۔ آج سالوں بعد فرہاد نے حرم کی دکھ بھری داستان پڑی تھی۔۔ اسکے آنسوں سب بیان کر رہے تھے۔۔ 

حرم کو شادی شدہ زندگی نہیں پسند تھی۔۔ اسے مردوں سے ڈر لگتا تھا۔۔ وہ نفرت کرتی تھی مرد زات سے۔۔ اسی لیۓ اسے نادر نہیں پسند تھا۔۔ اسے لگتا تھا کہ جیسی اسکی ماں کی زندگی گزری ہے۔۔ ویسے ہی سب کی گزرتی ہوگی۔۔ اس نے جو دیکھا تھا وہ اسکے دماغ پر نقش ہوگیا تھا۔۔

 اسی لیۓ وہ ہر رات تڑپتی روتی تھی۔۔ وہ ڈائری میں میرے راہنما کے نام بہت سے پیغام لکھتی تھی۔۔ 
تبھی فرہاد کو وہ خواب میں نظر آنے لگی۔۔ اسکی سسکیاں اسے سناٸ دینے لگیں۔۔ 

اگر فرہاد کی جگہ نادر اسے مل جاتا تو شاید وہ اب تک زندہ ناہوتی۔۔ یہ تو فرہاد تھا جو اسے جینا سکھا رہا تھا۔۔ جس کے سنگ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ سبھی مرد ایک جسے نہیں ہوتے۔۔

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

       حرم کا زہن پوری طرح بھٹک چکا تھا۔صبح اسکا پیپر تھا ابھی اسکی تیاری رہتی تھی لیکن وہ کچھ پڑھ نہیں پا رہی تھی۔اسے رہ رہ کر حورعین کا خیال آرہا تھا۔

اب جو بھی کرنا تھا فرہاد کو کرنا تھا۔اس نے سب سے پہلے حمزہ کو کال کی۔حمزہ نے کافی خوشگوار انداز میں اسکی کال ریسیو کی تھی۔ 

ضرور کوٸ کام ہوگا جو اس وقت مجھے فون کیا ہے۔۔ حمزہ کے تیز دماغ نے فوراً بھانپ لیا تھا۔

ہاں تمہاری شادی ہے۔۔ جلدی سے تیاریاں شروع کرو۔۔ فرہاد نے جواب دیا۔۔

ہاہاہاہا۔۔ واقعی۔۔ کتنے مزے کا جوک ہے نا۔۔ حمزہ کا قہقہہ ابھرا۔

یہ جوک نہیں ہے حمزہ۔۔ تمہاری محبت کا امتحان شروع ہونے والا ہے۔۔

محبت۔۔ کک۔۔ کیا مطلب میں کچھ سمجھا نہیں۔۔ حمزہ گڑبڑا گیا۔

صبح تمہیں لاہور جانا ہے۔ جلدی سے پیکنگ کرلو۔۔ میں اور حرم بھی ایک دو دن تک پہنچ جاٸیں گے۔۔ فرہاد نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔

کیا یار پہیلیاں کیوں بھجوا رہے ہو۔۔ صاف صاف بات کرو۔۔ حمزہ بھی سنجیدہ ہوا۔

حورعین سے شادی میں تمہیں کوٸ پرابلم تو نہیں ہے۔۔؟؟ فرہاد نے پوچھا تھا۔۔ جبکہ حمزہ کو تو لگا کہ کوٸ دھماکہ ہوا ہے۔۔ اسکے کانوں نے کچھ غلط سنا ہے۔

کیا۔۔ حورعین سے شادی۔۔ مگر وہ تو۔۔ 

اسد اور اسکا رشتہ ختم ہوچکا ہے۔۔ فرہاد نے اسکی بات کاٹی۔

مگر حورعین تو اسد سے محبت کرتی ہے نا۔۔ مجھے تفصيل سے بتاٶ سب کیا چل رہا ہے۔۔

تم حورعین سے محبت کرتے ہو نا۔۔؟؟ اسی محبت کا امتحان ہے۔۔ کیا تم تیار ہو۔۔؟؟ فرہاد نے پوچھا۔

تت۔۔ تم جانتے ہو کہ میں حورعین کو۔۔ حمزہ نے بات ادھوری چھوڑی۔

تمہاری رگ رگ سے میں واقف ہوں حمزہ۔۔ تمہاری آنکھوں میں اسکا عکس دیکھا ہے میں نے۔۔

اچھا اب تفصيل سے بتاٶ ایسا کیا ہوا ہے۔۔ اور اتنی جلدی سب کچھ کیوں۔۔ 

حمزہ کے پوچھنے پر اگلے دس منٹ میں فرہاد نے اسے س کچھ بتا دیا۔۔ 

غصے سے حمزہ کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ اسے اب پتا چلا تھا کہ وہ اس دن اتنا بےچین کیوں تھا۔حورعین کا خیال اسے بار بار کیوں آرہا تھا۔

ٹھیک ہے میں صبح لاہور پہنچ جاٶں گا۔۔

گڈ۔۔ میں باقی سب سے بات کرلوں۔ تم اپنی پیکنگ کرلو۔ فرہاد نے کہہ کر کال ڈراپ کردی۔۔

جبکہ حمزہ کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اسے اپنی قسمت پر خوش ہونا چاہیۓ یا حورعین کے دل ٹوٹنے پر دکھی۔۔

لیکن جو بھی ہوتا ہے اچھے کیلیۓ ہوتا ہے۔۔ خدا گواہ تھا کہ اس نے کبھی حورعین کو اسد سے چھین کر پانے کی خواہش نہیں کی تھی۔۔ شاید تقدیر کو اسکا صبر پسند آیا تھا۔۔ یا شاید اسکی خاموش محبت۔۔ جو وہ اسکی ہونے جا رہی تھی۔وہ مسرور سا پیکنگ کرنے لگ گیا۔

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپکو کوٸ اعتراض تو نہیں ہے نا آنٹی جان۔۔ 
فرہاد اب صابرہ خاتون سے بات کر رہا تھا۔ اس نے سب کچھ ڈسکس کرلیا تھا۔ وہ حورعین کی زندگی برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔جبکہ صابرہ خاتون کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کس منہ سے فرہاد کا شکریہ ادا کیا۔ وہ اسکی اتنی بڑی پریشانی دور کرنے جا رہا تھا۔۔

نہیں بیٹا مجھے کوٸ اعتراض نہیں۔۔ صابرہ خاتون کی آواز بھرا گٸ۔

ٹھیک ہے آنٹی آپ حورعین سے بات کرلیں۔۔ میں زرا اپنے گھر والوں کو بتادوں۔۔ یہ کام ان شاء اللہ کل ہی ہو جاۓ گا۔آپ پریشان نا ہوں۔۔ حمزہ صبح لاہور پہنچ جاۓ گا۔۔ اور پرسوں تک میں اور حرم بھی۔

خوش رہو بیٹا۔۔ آباد رہو۔۔ 

اور ہاں آنٹی جی ایک بات اور۔۔
آپ لوگ پلیز کوٸ بھی بات حرم کو بتانے سے پہلے مجھے بتایا کریں۔ وہ بہت پریشان ہو جاتی ہے۔۔ فرہاد نے جھجھکتے ہوۓ کہا۔

ٹھیک ہے بیٹا۔۔ صابرہ خاتون اپنی بیٹی کے نصیب پر مسکرا دی تھیں۔۔ جسے اتنا اچھا ہمسفر ملا تھا۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرہاد جب سب سے بات کرنے کے بعد حرم کے کمرے میں آیا تو وہ سوٸ ہوٸ تھی۔۔ فرہاد نے اسے سکون آور دواٸ دی تھی۔

صبح اسکا پیپر تھا۔فرہاد کو تھوڑا افسوس ہو رہا تھا لیکن اسکی صحت زیادہ ضروری تھی۔ 

چنانچہ وہ اپنا لیپ ٹاپ اٹھا کے اسی کے کمرے میں لے آیا تھا۔۔ ابھی اسے ڈاکٹر سمیع سے بھی بات کرنی تھی۔۔ 

وہ حرم کو اب اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔۔ چنانچہ اسکے سامنے ہی صوفے پر بیٹھ گیا۔

وہ لڑکی اپنے اندر پتا نہیں کون کون سے راز چھپاۓ پھرتی تھی۔ آج اسکی زندگی کا جو پہلو فرہاد کے سامنے کھلا تھا وہ فرہاد کو جھنجھوڑ گیا تھا۔۔ 

وہ اسے بہت خوش دیکھنا چاہتا تھا۔ اب وہ اسکے معاملات پر خود نظر رکھنے والا تھا۔۔ 

     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو کام تم کر چکی ہو نا اسکے بعد شکر کرو وہ لڑکا تمہیں اپنانے کو تیار ہے۔۔ صابرہ خاتون حورعین سے کہہ رہی تھیں۔۔ اور وہ سر جھکاۓ سن رہی تھی۔

تمہیں منظور ہو یا نا پر تمہیں اس سے ہی شادی کرنی ہوگی۔۔صابرہ خاتون نے حکم سنایا۔۔

جی امی مجھے کوٸ اعتراض نہیں ہے۔۔ 
حورعین نے خود پر کنٹرول کرتے ہوۓ کہا۔

جبکہ صابرہ خاتون اسکی بات سن کر حیران رہ گٸ تھی۔

ٹھیک ہے جاٶ اب۔۔ 
اور حورعین اپنے کمرے میں آگٸ۔

اسکے خوبصورت چہرے پر آنسوں بھکرے۔۔ 
اسد سے دھوکہ کھانے کے بعد وہ اس قابل نہں رہی تھی کہ کسی اور پر بھروسہ کرتی یا اسکے بارے میں سوچتی۔۔

لیکن اسکےپاس اب کوٸ اوپشن نہیں تھا۔۔ جو اسکے گھر والے کہہ رہے تھے اسے وہی کرنا تھا۔

اور بس حمزہ کی فکر تھی کہ اسے کتنا مجبور کیا گیا ہوگا اس کام کیلیۓ۔۔وہ اسکے بارے میں پتا نہیں کیا سوچتا ہوگا۔۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حرم کی آنکھ صبح پانچ بجے کھلی تھی۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی تھی۔۔  

ہاۓ میرا پیپر۔۔ وہ گھبرا گٸ۔ 
میں کیسے سوگٸ تھی۔۔ مجھے تو پیپر یاد کرنا تھا۔

وہ فوراً بیڈ سے اٹھی۔کتاب ڈھونڈی اور اسے لے کر بیٹھ گٸ۔ 
اسکی آنکھوں میں ایک بار پھر نمی ابھری۔۔ اسکا آخری پیپر تھا۔ کتنی محنت سے پڑھا تھا اس نے اب اگر پیپر کے ٹائم پر تیاری نا ہوٸ تو کیا فائدہ پڑھنے کا۔۔

اٹھ گٸ تم۔۔ فرہاد نے کمرے میں داخل ہوتے کہا۔۔ وہ ابھی ابھی اپنی ساری چیزیں اٹھا کر لے گیا تھا۔۔ اسے پتا تھا کہ اب حرم اٹھنے والی ہے۔۔

ہادی۔۔ میرا پیپر۔۔ میری تیاری نہیں ہوٸ۔۔ وہ رو دینے کو تھی۔

ریلیکس حرم۔۔ وہ اسکی بڑھا۔۔

پیپر سے زیادہ ضروری تمہارے دماغ کا پرسکون ہونا ہے۔۔ اگر تم پرسکون رہو گی تو اچھا لکھ سکو گی۔۔ وہ اسکے ہاتھ پکڑتے بولا تھا۔

مگر۔۔ جب کچھ یاد نہیں ہوگا تو کیسے لکھوں گی۔۔؟؟ 

یار رونے والا فیس مت بنایا کرو۔۔۔ میرا دل گبھرانا شروع ہوجاتا ہے۔۔ جانے اتنا پانی تمہاری آنکھوں میں کہاں سے آ جاتا ہے۔۔ 
اور ہاں ابھی کافی وقت ہے پیپر سٹارٹ ہونے میں تم تب تک آرام سے پڑھو۔۔ مگر پلیز کوٸ ٹیمشن مت لینا سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔وہ اسے تسلی دے رہا تھا۔ اور حرم نے اثبات میں سر ہلادیا۔۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غیر متوقع طور پر اسکا آج کا پیپر کافی اچھا ہوگیا تھا۔۔ وہ خوش تھی لیکن اداس بھی۔۔ 

سارے سٹوڈنٹس اگزامز کے ختم ہونے پر خوشیاں منا رہے تھے ایک وہی جانے کہاں کھوٸ ہوٸ تھی۔ سب نے اسکی خاموشی محسوس کی تھی۔

کیا ہوا حرم اتنی خاموش کیوں ہو۔۔؟؟ عرش نے اس سے پوچھا۔

کچھ نہیں بس ایسے ہی۔۔ حرم چونکی۔

 آج پارٹی کرتے ہیں۔۔ کیا خیال ہے تم لوگوں کا۔۔؟؟ بیلا نے پوچھا۔

ہاں اچھا آٸڈیا ہے۔۔ہے نا حرم۔۔؟؟ 

میں نہیں آ پاٶں گی۔۔میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔ تم لوگوں انجواۓ کرو مجھے گھر جانا ہے۔۔ حرم نے جواب دیا۔

اسکے چہرے سے واقعی ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ ٹھیک نہیں ہے۔۔ عرش اور بیلا نے بھی زیادہ اعتراض نہیں کیا کہ اس نے بہت پڑھا تھا۔۔ وہ کافی ویک ہوچکی تھی۔۔ اسے آرام کی ضرورت تھی اس لیۓ انہوں نے حرم کو جانے دیا۔

گھر آنے کے بعد حرم نے سب سے پہلے صابرہ خاتون کو فون کیا تھا۔۔
انہوں نے جو خبر سنائی اسے سن کر حرم حیران رہ گٸ تھی۔
فرہاد اسے بنا بتاۓ اسکی مشکلات کا حل نکال لیتا تھا۔

وہ کافی پرسکون ہوگٸ تھی۔ صابرہ خاتون نے بتایا تھا کہ حمزہ آنے والا ہے۔۔ اسکے ساتھ ڈاکٹر سمیع اور فاریہ بھابھی بھی ہونگے۔۔

آج صرف نکاح ہونا تھا رخصتی بعد میں۔۔

جب فرہاد گھر آیا تو حرم اسکے پاس گٸ۔۔

آپ اتنے اچھے کیوں ہیں ہادی۔۔؟؟

کتنا اچھا۔۔ وہ مسکرایا۔۔

مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ آپکا شکریہ کیسے ادا کروں۔۔ 

غلط بات حرم۔۔۔ آٸندہ یہ جملہ مت بولنا۔۔ وہ ناراض ہوا۔

کوٹ اتار کر ایک طرف رکھتا وہ بازو کے کف فولڈ کر رہا تھا۔ حرم کو شاید اچھی طرح سے یاد نہیں تھا کہ کل رات وہ اسکی ساری شرٹ کو آنسوٶں سے بگھو چکی تھی۔

یہ لو ٹکٹس۔۔ ہم کل لاہور جا رہے ہیں۔۔ تمہیں بھی یونيورسٹی سے دو ہفتوں کیلیۓ چھٹیاں ہے نا۔۔ وہ ٹکٹ اسکے سامنے کرتے بولا۔۔

حرم خوش ہونے کے ساتھ ساتھ حیران رہ گٸ تھی۔

تھینک یو ہادی۔۔وہ مسکراٸ۔۔

ایسے شکریہ ادا کرتے ہیں کیا۔۔؟؟ فرہاد نے جان بوجھ کر اسے تنگ کرنا چاہا۔۔

جبکہ حرم اسکی بات سمجھتے ہوۓ کچھ کہے بنے ہی اسکے سینے سے لگ گٸ۔۔ 

فرہاد تو حیران ہی رہ گیا تھا۔

وہ شخص جو اسکے لیۓ کر رہا تھا اسکے سامنے اسطرح شکریہ ادا کرنا چھوٹا سا کام تھا۔۔

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکاح کیلیۓ حمزہ، ڈاکٹر سمیع اور فاریہ بھابھی اور نتاشہ بھابھی آۓ تھے۔۔

حمزہ نے سفید رنگ کا کلف لگا سوٹ پہنا تھا۔۔ اوپر بلیک واسکیٹ پہنے وہ انتہائی وجیہہ لگ رہا تھا۔

اسد بھاٸ سے زیادہ پیارے ہیں حمزہ بھاٸ۔۔ ایک دم ہیرو لگ رہے ہیں۔۔ جیا نے حورعین سے کہا۔

جو سادہ سے سرخ جوڑے میں سرخ ڈوپٹہ اوڑھے۔۔ روۓ روۓ چہرے کے ساتھ انتہائی دلکش لگ رہی تھی۔۔

شزا اسکے پاس تھی جبکہ ثناء کام میں مصروف تھی۔۔ سب کچھ اتنی جلدی ہو رہا تھا کہ حورعین کو کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نا ملا۔

کچھ دیر بعد نتاشہ اور فاریہ بھابھی بھی اسکے کمرے میں آگٸ تھیں۔۔ 

ارے حورعین اتنی سادہ کیوں بیٹھی ہو۔۔ تیار نہیں ہوٸ۔۔ 
لاٶ شزا میں اسکو لپ اسٹک لگا دوں۔۔ فاریہ بھابھی نے کہا۔

وہ انکی سب سے چھوٹی دیورانی بننے جا رہی تھی۔۔ سب کو بہت شوق تھا حمزہ کی شادی کا۔۔ مگر نکاح ایک دن میں ہو رہا تھا کہ کسی کو بھی کچھ سمجھ نہیں آیا تھا۔۔

حرم کے گھر سے صرف دو ہی لڑکے تھے۔۔ ایک زین اور دوسرا نبیل۔۔ حرم کا بھاٸ۔۔ عباس چاچو ویسے دوبٸ میں تھے۔۔ آفاق تایا ویسے نا آتے۔۔جبکہ سب دعا کر رہے تھے کہ حورعین کے والد عمر دراز نا آ جاٸیں۔۔

حرم نے ویڈیو کال کی ہوٸ تھی۔ 
وہ حورعین کو پرسکون رہنے کا کہہ رہی تھی۔۔ اتنے خاص موقع پر وہ اتنی دور تھی۔۔

کچھ دیر بعد نکاح کی تقرب شروع ہوٸ تھی۔۔ اور حورعین کا دل کرلانا شروع ہو گیا تھا۔۔ جو بھی تھا۔۔ اس نے اسد کو چاہا تھا۔۔ وہ شخص اسکی پہلی محبت تھا۔۔ کتنے خواب دیکھے تھے اس نے اسد کے ساتھ مل کر۔۔ سب ملیا میٹ ہوگۓ تھے۔

حمزہ بہت اچھا انسان ہے حورعین۔۔ وہ تمہں بہت خوش رکھے گا۔۔ حرم نے اس سے کہا۔

نکاح نامے پر ساٸن حورعین نے جیسے آنکھیں بند کرکے کردیے تھے۔۔

نکاح کے بعد حمزہ کا اتنا دل چاہا کہ وہ ایک نظر حورعین کو دیکھ لے۔۔ مگر وہ کسی سے کہہ نہیں سکا۔۔ کیونکہ حالات معولی نہیں تھے۔

اسکے دل میں حورعین محبت اور عزت ایک دم مزید بڑھ گٸ تھی۔۔ اب وہ اسکی ہوگٸ تھی ہمیشہ ہمیشہ کیلیۓ۔۔ وہ اسکی محرم تھی۔۔ یہ بات ہی اسے سر شار کیۓ جارہی تھی۔۔ اگر حالات ایسے نا ہوتے تو وہ پتا نہیں کیا کیا کر جاتا۔۔ 

لیکن فلحال اسے صبر ہی کرنا تھا۔۔

کچھ دیر مزید ٹہرنے کے بعد وہ لوگ چلے گۓ تھے۔۔ نتاشہ اور فاریہ بھابھی نے حورعین کو بہت پیار کیا تھا۔۔

حمزہ اسے دیکھنے کی چاہت اپنے دل میں ہی لے گیا تھا۔

یہ میرا نمبر ہے آنٹی۔۔ اگر کوٸ پرابلم ہو تو فوراً مجھے کال کر دیجیۓ گا۔۔ حمزہ نے صابرہ خاتون کو اپنا نمبر دیا۔۔

ہماری دلہن کا خیال رکھیے گا۔۔ فاریہ بھابھی نے مسکرا کر کہا تھا۔

حمزہ بھاٸ دیکھنے کی چاہ نہیں ہو رہی آپکو۔۔؟؟ شزا نے حمزہ کے پاس آکر سرگوشی کی۔

ہو تو رہی ہے۔۔ مگر ابھی مجھے صبر سے کام لینا پڑے گا۔۔
میری امانت کا خیال رکھنا اب وہ حمزہ داٶد عرف HD کی منکوحہ ہے۔ خبردار جو کسی نے اسے کچھ بھی کہا تو۔۔ حمزہ نے مصنوعی غصے سے جواب دیا تھا۔۔

شزا ہنس پڑی تھی۔۔ اسے حورعین کے نصیب پر رشک آیا۔۔ بیشک اسد اسکے قابل نہیں تھا۔۔ تبھی اللہ پاک نے اسے اسکی زندگی سے دور کردیا تھا۔۔

وہ لوگ چلے گۓ۔۔ 

ان لوگوں کے جانے کے بعد صابرہ خاتون کافی پرسکون ہو گٸ تھیں۔۔ 

ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ حورعین کے ابو آگۓ۔۔

کیا فیصلہ کیا پھر تم لوگوں نے۔۔ میں نے کہا تھا نا کہ تین دن کا وقت ہے تم لوگوں کے پاس۔۔ مجھے ابھی جواب چاہیۓ۔۔

ابو آپ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔۔ میں تو آپکی لاڈلی بیٹی تھی نا۔ حورعین نے کہا۔۔

وہ سرخ جوڑے میں تھی۔۔ اسے بدلنے کا موقع ہی نا ملا۔

لاڈلی ہو اسی لیۓ تو اپنی پسند کے لڑکے سے تمہارا نکاح کر رہا ہوں۔۔ عمر صاحب نے کہا۔

سب جانتے تھے کہ وہ لڑکا بھی جوا ہی کھیلتا ہوگا۔۔

شزا وہاں سے کھسکی اور فوراً جا کر حمزہ کو کال ملادی جو ابھی ڈاکٹر سمیع کے گھر پہنچا ہی تھا۔

جو ہو رہا ہے ہونے دو میں آرہا ہوں۔۔ حمزہ نے کہا۔

میں لڑکے اور اسکے باپ کو اپنے ساتھ لایا ہوں۔۔ مولوی بھی ساتھ ہے۔۔ تمہارا نکاح کرنے لگا ہوں میں۔۔ عمر صاحب نے کہا۔

جبکہ باقی سب حیران و پریشان رہ گۓ تھے۔

لیکن ابو۔۔

بس میں کچھ اور نہیں سنوں گا۔

وہ باہر گۓ اور ان دونوں باپ بیٹے کو ساتھ لے آۓ۔۔ چہرے سے ہی وہ لڑکا لوفر لگ رہا تھا۔

عمر صاحب نے انہیں بٹھانے اور چاۓ وغیرہ پلانے کے بعد نکاح کا کہا۔۔ 

تبھی اچانک باہر کا دروازہ کھلا تھا اور حمزہ اندر داخل ہوا۔

وہ تیس منٹ کا رستہ دس منٹ میں تہ کر کے آگیا تھا۔

کون ہو تم۔ اور اندر کیسے آۓ۔؟؟ عمر صاحب اسے دیکھ کر غراۓ۔۔

آپ لوگ یہاں سے جاٸیں گے یا میں پولیس کو بلاٶں۔۔حمزہ نے ان دونوں باپ بیٹے کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔۔

حورعین بھی کمرے سے باہر نکل آٸ تھی۔

تم کون ہوتے ہو انہیں بیجھنے والے۔ اور پولیس کس لیۓ۔۔ عمر صاحب نے پھر پوچھا۔۔

پولیس اس لیۓ کہ ایک لڑکی کی زبردستی شادی کروائی جا رہی ہے۔۔ 

مولوی تو حمزہ کی بات سن کر ہی اٹھ گیا۔

زبردستی نہیں وہ میری بیٹی ہے۔۔ جہاں میں چاہوں گا اسکی شادی وہیں ہوگی۔۔ اور تم ہوتے کون ہو مجھے روکنے والے۔ 

آپ لوگ جا رہے ہیں یا۔۔؟؟ حمزہ ایک بار پھر انکی بات کو نظر انداز کر گیا۔۔

یہ لوگ کہیں نہیں جاٸیں گے۔۔ حورعین تم ساٸن کرو۔۔

حورعین اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔۔

عمر صاحب نے آگے بڑھ کر حورعین کا ہاتھ پکڑا اور اسے کھینچتے ہوۓ مولوی کی طرف لے جانے لگے۔۔ 

جسے ہی وہ حمزہ کے پاس سے گزرے حمزہ نے حورعین کا دوسرا ہاتھ پکڑ لیا۔۔

عمر صاحب تو اسکی اس حرکت پر حقہ بقہ رہ گۓ تھے۔۔ 

آپ زبردستی نہیں کر سکتے۔۔ حمزہ کے چہرے پر غصہ ابھرا۔

کیوں نہیں کر سکتا وہ بیٹی ہے میری۔۔ اور تم ہوتے کون ہو مجھے منع کرنے والے۔۔کیا لگتی ہے یہ تمہاری۔۔۔؟؟ عمر صاحب دھاڑے۔

بیوی ہے یہ میری۔۔ نکاح ہو چکا ہے ہمارا۔۔ شریعی اور قانوناً شوہر ہوں میں اسکا۔۔ سمجھ آٸ۔۔
حمزہ نے غصے سے کہتے ہوۓ حورعین کا ہاتھ عمر صاحب کے ہاتھ سے چھڑوایا۔

        ❤❤❤❤❤
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔ 

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─