┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

*《▪♡ شمشیرِ بے نیام ♡▪》*

 *حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ*

*( قسط نمبر-59)*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*مسلمانوں کے جاسوسوں نے اس لشکر کو اجنادین کے علاقے میں خیمہ زن ہوتے دیکھا تھا۔اتنے بڑے اور ایسے منظم لشکر کے مقابلے کیلئے جانا ہی بہت بڑی جرات تھی، مقابلہ تو بعد کا مسئلہ تھا۔*
*۲۴جولائی ۶۳۴ء کے روز خالدؓ اپنی فوج کے ساتھ اجنادین پہنچ گئے ۔وہ بیت المقد س کے جنوب میں پہاڑیوں میں سے گزرے تھے۔ان پہاڑیوں کے ایک طرف میدان تھا۔ خالدؓ نے وہاں قیام کا حکم دیا۔تقریباًایک میل دور رومی فوج خیمہ زن تھی۔اس کا سالارِ اعلیٰ وردان اور سالار قُبقُلارتھا۔رومی فوج تو جیسے انسانوں کا سمندر تھا۔مسلمانوں کی فوج اس کے مقابلے میں چھوٹا سادریا لگتی تھی۔اسلامی فوج کے جو دستے دوسری جگہوں پر تھے وہ آگئے اور مسلمانوں کی تعداد بتیس ہزار ہو گئی۔ایک میل کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا۔ مسلمان اونچی جگہوں پر کھڑے ہوکر رومیوں کی خیمہ گاہ کی طرف دیکھتے تھے۔انہیں حدّ نگاہ تک انسان اور گھوڑے نظر آتے تھے۔دو تین دنوں بعد خالدؓ کو بتایا گیا کہ فوج میں کچھ گھبراہٹ سی پائی جاتی ہے۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ اُن نو ہزار مجاہدین میں ذرا سی بھی گھبراہٹ نہیں تھی جو خالدؓ کے ساتھ تھے۔وہ عیسائیوں غسانیوں اور رومیوں کے خلاف لڑتے چلے آئے تھے۔وہ رومیوں کی اتنی زیادہ فوج سے خوفزدہ نہیں تھے۔دوسرے دستوں کا حوصلہ بڑھانے کیلئے خالدؓ خیمہ گاہ میں گھومنے پھرنے لگے۔وہ جہاں رکتے ان کے اردگردمجاہدین کا مجمع لگ جاتا۔خالدؓنے سب سے ایک ہی جیسے الفاظ کہے:’’اسلام کے سپاہیو!میں جانتا ہوں تم نے اتنی زیادہ رومی فوج پہلے کبھی نہیں دیکھی لیکن تم اتنی بڑی فوج کو پہلے شکست دے چکے ہو۔ خدا کی قسم!تم ڈر گئے تو ہار جاؤ گے،اور اگر تم نے اس لشکر پر فتح پالی تو رومی ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائیں گے۔اپنے اﷲکے نام پر لڑو۔ اسلام کے نام پر لڑو۔ اگر تم نے پسپائی اختیار کی تو دوزخ کی آگ میں جلو گے۔جب لڑائی شروع ہو جائے تو اپنی صفوں میں بد نظمی پیدا نہ ہونے دینا۔ قدم جما کر رکھنا۔ جب تک میری طرف سے حکم نہ ملے، نہ پیچھے ہٹنا نہ حملہ کرنا……اﷲتمہارے ساتھ ہے۔‘‘اُدھر رومیوں کا سالارِ اعلیٰ وردان اپنے کمانداروں سے کہہ رہا تھا:’’اے رومیو!قیصرِ روم کو شکست کی ذلت سے بچانا تمہارا فرض ہے، قیصر روم کو تم پر اعتماد ہے۔اگر تم نے ان عربی مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست نہ دی تو یہ تم پر ہمیشہ کی طرح غالب آجائیں گے ۔یہ تمہاری بہنوں ، بیٹیوں اور بیویوں کو بے آبرو کریں گے۔اپنے آپ کو منتشر نہ ہونے دینا، صلیب کی مددمانگو، فتح تمہاری ہے۔مسلمانوں کی تعدادبہت تھوڑی ہے۔ایک کے مقابلے میں تم تین ہو۔‘‘*
*دو تین دن مزید گزر گئے۔خالدؓ دشمنوں کی صحیح تعداد اور کیفیت معلوم کرنا چاہتے تھے۔وہ کسی بھی جاسوس کو بھیج سکتے تھے لیکن انہیں جس قسم کی معلومات کی ضرورت تھی وہ کوئی ذہین اور دلیر آدمی حاصل کرسکتا تھا۔انہوں نے اپنے سالاروں سے کہا کہ انہیں کوئی آدمی دیا جائے۔’’ابنِ ولید!‘‘سالار ضرار بن الازور نے کہا۔’’کیا میں یہ کام نہیں کر سکوں گا؟خدا کی قسم!مجھ سے بہتر یہ کام کوئی اور نہیں کر سکے گا۔‘‘ضرار وہ سالار تھے جنہوں نے بصرہ کے معرکے میں نہ صرف اپنی زرہ اتار پھینکی بلکہ قمیض بھی اتار کر کمر تک برہنہ ہو گئے اور ایسے جوش سے لڑے کہ سارے لشکر کے جوش و جذبے میں بے پناہ اضافہ ہو گیاتھا۔’’ہاں ابن الازور!‘‘خالدؓنے کہا۔’’ تمہارے سوا یہ کام اور کون کر سکتا ہے۔ تم ہی بہتر جانتے ہو کہ تمہیں وہاں کیا دیکھنا ہے۔‘‘ضرار نے قمیض اتار پھینکی اور کمر تک برہنہ ہو گئے ۔وہ گھوڑے پر سوار ہوئے تو خالدؓ اور دوسرے سالاروں نے قہقہہ لگایا۔’’خدا حافظ میرے رفیقو!‘‘ضرار نے ہلکی سی ایڑ لگا کر کہا۔’’اﷲتجھے سلامت رکھے ابن الازور!‘‘خالدؓنے کہا۔رومیوں کی خیمہ گاہ کے قریب ایک اونچی ٹیکری تھی۔ ضرار نے گھوڑا نیچے چھوڑا اور ٹیکری پر چڑھ گئے۔مسلمانوں اور رومیوں کی خیمہ گاہ کے درمیان ایک میل کا علاقہ خالی تھا۔دونوں فریقین کے گشتی سنتری اس علاقے میں گردش کرتے رہتے تھے۔یہ گشتی سنتری گھوڑ سوار ہوتے تھے۔ضرار کو رومیوں کے گشتی سوار نہیں دیکھ سکے تھے۔ضرار ٹیکری پر چڑھے تو دوسری طرف رومیوں کے سنتری موجود تھے۔انہوں نے ضرار کو دیکھ لیا۔ضرار تیزی سے نیچے اترے اور کود کر گھوڑے پر سوار ہوئے۔انہیں پکڑنے کیلئے رومی سوارٹیکری کے دونوں طرف سے آئے۔ان کی تعداد )مؤرخوں کے مطابق( تیس تھی۔ضرار نے گھوڑے کو ایڑ لگائی لیکن گھوڑے کو تیز نہ دوڑایا۔رومی سواروں نے بھی گھوڑے تیز نہ دوڑائے۔وہ غالباً محتاط تھے کہ مسلمان سنتری کہیں قریب موجود ہوں گے۔پھر بھی رومی سواروں نے ضرار کا تعاقب جاری رکھااور ضرار معمولی رفتار سے چلے آئے۔رومی سوار انہیں گھیرے میں لینے کیلئے پھیلتے چلے گئے اور وہ ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے۔ضرار ان کے بکھرنے کے ہی منتظر تھے۔ان کے پاس برچھی تھی،ان کی اپنی خیمہ گاہ قریب آگئی تھی۔اچانک ضرار نے تیزی سے گھوڑے کو پیچھے موڑا اور ایڑ لگائی۔ان کا رخ اس رومی سوار کی طرف تھا جو ان کے قریب تھا،انہوں نے اس رومی پر برچھی کا وار کیا۔وار بڑا زوردار تھا۔رومی سنبھل نہ سکا۔ ضرار کا حملہ غیر متوقع تھا۔یہ سوار گھوڑے سے گر پڑا۔دوسرے رومی سوار ابھی سمجھ بھی نہ پائے تھے کہ یہ کیا ہوا ہے، کہ ضرار کی برچھی ایک اور رومی کے پہلو میں اتر چکی تھی۔تیسرا سوار ضرار کی طرف آیا تو ضرار کی برچھی میں پرویا گیا۔مسلمانوں کی خیمہ گاہ قریب ہی تھی پھر بھی رومی ضرار کو گھیرے میں لینے کی کوشش کر رہے تھے ۔ضرار مانے ہوئے شہسوار تھے،وہ رومیوں کے ہاتھ نہیں آرہے تھے۔رومیوں کی تعداد اب ستائیس تھی۔ضرار بھاگ نکلنے کے بجائے انہی میں گھوڑا دوڑاتے اور پینترے بدلتے پھر رہے تھے۔ان کی برچھی کا کوئی وار خالی نہیں جاتا تھا۔*
*واقدی اور طبری نے لکھا ہے کہ ضرار نے برچھی کے ساتھ ساتھ تلوار بھی استعمال کی تھی۔ان کی تحریروں کے مطابق ضرار نے تیس میں سے انیس رومی سواروں کو مار ڈالا تھا۔ضرار کو زد میں لینے کی کوششش میں رومی مسلمانوں کی خیمہ گاہ کے اورقریب آگئے تھے۔بہت سے مسلمان سوار ضرار کی مدد کو پہنچنے کیلئے تیار ہونے لگے۔رومیوں نے یہ خطرہ بر وقت بھانپ لیا اور وہ بھاگ گئے۔ضرار اپنی خیمہ گاہ میں داخل ہوئے تو مجاہدین نے دادوتحسین کا شور و غوغا بپا کرکے ان کا استقبال کیا لیکن خالدؓ کے سامنے گئے تو خالدؓ کے چہرے پر خفگی تھی-*

*’’کیا میں نے تجھے کسی اور کام کیلئے نہیں بھیجا تھا؟‘‘خالدؓ نے درشت لہجے میں کہا۔’’اور تو نے دشمن سے لڑائی شروع کر دی۔ کیا تو نے اپنے فرض کے ساتھ بے انصافی نہیں کی؟‘‘’’ابنِ ولید!‘‘ضرار بن الازور نے کہا۔’’خدا کی قسم!تیرے حکم کا اور تیری ناراضگی کا خیال نہ ہوتا تو جو رومی بچ کر نکل گئے ہیں وہ بھی نہ جاتے۔انہوں نے مجھے گھیر لیا تھا۔‘‘اس کے بعد خالدؓ نے کسی کو رومی خیمہ گاہ کی جاسوسی کیلئے نہ بھیجا۔تین چار دن اور گزر گئے۔خالدؓ کے لشکر نے آرام کر لیا لیکن خالدؓکے اپنے شب وروز جاگتے سوچتے اور خیمے میں ٹہلتے گزرے۔اپنے سے تین گنا طاقتور فوج کو شکست دینا تو ذرا دور کی بات ہے، اس کے مقابلے میں اترنا ہی ایک بہادری تھی لیکن خالدؓ فتح کے سوا کچھ اور سوچ ہی نہیں سکتے تھے۔وہ ہر شام سالاروں اور کمانداروں کو بلا کر ان سے مشورے لیتے اور ہدایات دیتے تھے۔رومی کیمپ میں کچھ اور ہی صورتِ حال پیدا ہوگئی تھی۔ان کے سالار قُبقُلار کا حوصلہ جواب دے رہا تھا۔متعدد مؤرخوں نے خصوصاًواقدی نے یہ واقعہ تفصیل سے لکھا ہے۔’’میں بڑا ہی خوش قسمت ہوتا اگر میں مسلمانوں کی فوج سے دور رہتا۔‘‘قُبقُلارنے اپنے سالارِ اعلیٰ وردان سے کہا۔’’ایسے نظر آرہا ہے کہ وہ ہم پر غالب آجائیں گے۔‘‘’’ایسی بے معنی بات میں آج پہلی بار سن رہا ہوں۔‘‘وردان نے کہا۔’’کیا ایک آدمی کبھی تین آدمیوں پر غالب آیا ہے؟’’ایسا کئی بار ہوا ہے۔‘‘قبقلار نے کہا۔’’ہاں ایسا کئی بار ہوا ہے۔‘‘وردان نے کہا۔’’اور وہ تم جیسے تین آدمی تھے جو میدان میں اترنے سے پہلے ہی حوصلہ ہار بیٹھے تھے۔‘‘’’کیا وہ ایک آدمی نہیں تھا جس نے ہمارے تیس میں سے انیس سواروں کو مار گرایا ہے؟‘‘قبقلار نے کہا۔’’تیس سوار ایک سوار پر غالب نہیں آسکے۔‘‘’’وہ سپاہی تھے، بزدل تھے۔‘‘وردان نے کہا۔’’تم سالار ہو، تم یہ بھی بھول گئے ہو کہ میدانِ جنگ میں بزدلی کی سزا موت ہے……لیکن مجھے یہ بتاؤ کہ تمہیں ہوا کیا ہے؟کیا تم پر مسلمانوں کا جادو چل گیا ہے؟‘‘’’جب سے ایک مسلمان نے ہمارے تیس آدمیوں کا مقابلہ کیا اور انیس کو مار گرایا ہے میں سوچ میں پڑ گیا ہوں کہ اس ایک آدمی میں اتنی طاقت اور اتنی پھرتی کہاں سے آگئی تھی؟‘‘سالار قبقلار نے کہا۔’’میں نے ایک عربی عیسائی کو مسلمانوں کے کیمپ میں بھیج رکھا تھا۔وہ تین چار دن مسلمان بن کر ان کی خیمہ گاہ میں رہا ، کل وہ واپس آیا ہے۔اس نے جوکچھ بتایا ہے اس سے مجھے پتا چلا ہے کہ ان کی طاقت کیا ہے۔‘‘’’ا س نے کیا بتایا ہے؟‘‘وردان نے پوچھا۔’’میں اسے ساتھ لایا ہوں۔‘‘قبقلار نے کہا۔’’ساری بات اسی سے سن لیں۔‘‘جاسوس کو بلایا گیا۔وردان نے اس سے پوچھا کہ مسلمانوں کی خیمہ گاہ میں اس نے کیا دیکھا ہے۔’’سالارِ اعلیٰ کا رتبہ قیصرِ روم جتنا ہو۔‘‘جاسوس نے تعظیم سے کہا۔’’میں نے اس خیمہ گاہ میں عجیب لوگ دیکھے ہیں۔وہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں، ہم جیسے نہیں۔‘‘’’تم اتنے دن ان کے درمیان کس طرح رہے؟‘‘وردان نے پوچھا۔’’کیا تم پر کسی نے شک نہیں کیا؟‘‘’’میں ان کی زبان بولتا ہوں۔‘‘جاسوس نے جواب دیا۔’’ان کے طور طریقے جانتا ہوں۔ان کے مذہب اور ان کی عبادت سے واقف ہوں،وہ اپنی فوج میں آپ کی طرح کسی کو بھرتی نہیں کرتے، جو کوئی ان کی فوج میں شامل ہونا چاہتا ہے ، اپنا ہتھیار اور اپنا گھوڑا لے کر شامل ہو جاتاہے۔میں مسلمان بن کر ان کی فوج میں شامل ہو گیا تھا……‘‘’’میں نے ان مسلمانوں میں کچھ نئے اصول دیکھے ہیں۔رات کو وہ عبادت گزار ہوتے ہیں، اور دن کو ایسے جنگجو جیسے وہ لڑنے مرنے کے سوا کچھ جانتے ہی نہ ہوں۔اپنے عقیدے کے تحفظ اور اس کے فروغ کیلئے لڑنے اور جان دینے کو یہ اپنا ایمان کہتے ہیں،ان کا ہر ایک سپاہی اس طرح بات کرتا ہے جیسے وہ کسی سالار کے حکم سے نہیں بلکہ اپنی ذاتی لڑائی کیلئے آیا ہو۔وہ سب ایک جیسے ہیں۔ لباس سے سالار اور سپاہی میں فرق معلوم نہیں کیا جا سکتا……‘‘’’میں نے ان میں مساوات کے علاوہ انصاف دیکھا ہے۔ اگر ان کے حاکم یا امیر کا بیٹا چوری کرے تو اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتے ہیں۔اگر وہ کسی عورت کے ساتھ بد کاری کرتے ہوئے پکڑا جائے تو اسے سرِ عام کھڑا کرکے پتھر مارتے ہیں حتیٰ کہ وہ مر جاتا ہے۔یہ لوگ اتنے مطمئن ہیں کہ انہیں کوئی فکر اور کوئی پریشانی نہیں……‘‘*
*’’سالارِ اعلیٰ اگر مجھے معاف کر دیں تو میں کہوں……ہماری فوج میں وہ وصف نہیں جو مسلمانوں میں دیکھ کر آیا ہوں۔*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*’’۔مسلمانوں کا کوئی بادشاہ نہیں۔ہمارے سپاہی بادشاہ کے حکم سے لڑتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ بادشاہ انہیں نہیں دیکھ رہا تو وہ اپنی جانیں بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔مسلمان ایک خدا کو اپنا بادشاہ سمجھتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ خدا ہر جگہ موجود ہے اور انہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘مشہور مؤرخ طبری نے لکھاہے کہ قبقلار بول پڑا۔’’ میں کہتا ہوں میں اس زمین کے نیچے چلا جاؤں جس زمین پر ان سے مقابلہ کرنا پڑے۔کاش، میں ان کے قریب نہ جا سکوں۔نہ خدا اُن کے خلاف میری نہ میرے خلاف اُن کی مدد کرے۔‘‘وردان نے قبقلار سے کہا کہ اسے لڑنا پڑے گا۔ لیکن قبقلار کا لڑنے کا جذبہ ماند پر گیا تھا۔۲۷ جمادی الاول ۱۳ہجری )۲۹ جولائی ۶۳۴ء( کی شام خالدؓنے اپنے سالاروں کو آخری ہدایات دیں اور اپنے لشکر کی تقسیم کر دی۔۲۸ جمادی الاول ۱۳ ہجری )۳۰ جولائی ۶۳۴ء( کو مجاہدین نے روز مرہ کی طرح فجر کی نماز باجماعت پڑھی۔سب نے گڑگڑاکر بڑے ہی جذباتی اندازمیں دعائیں مانگیں۔بہت سے ایسے تھے جن کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ان میں سے نہ جانے کس کس کی یہ آخری نماز تھی۔نماز کے فوراًبعد انہیں اپنے اپنے دستوں کے ساتھ ان جگہوں پر چلے جاناتھا جو ان کیلئے گذشتہ رات مقرر کی گئی تھیں۔سورج نکلنے سے پہلے پہلے خالدؓ کا لشکر اپنی جگہوں پر پہنچ چکا تھا۔رومیوں نے یہ سوچا تھا کہ وہ اپنی اتنی زیادہ تعداد کے بل بوتے پر اتنا پھیل جائیں گے کہ مسلمان اتنا پھیلے تو ان کی صفوں میں شگاف پڑ جائیں گے۔لیکن خالدؓ نے تعداد کی قلت کے باوجود محاذ پانچ میل لمبا بنا دیا،اس سے یہ خطرہ کم ہو گیا کہ رومی پہلوؤں میں جا کر یا پہلوؤں سے عقب میں جاکر حملہ کریں گے۔خالدؓنے دوسری دانشمندی یہ کی کہ اپنے لشکر کا منہ مغرب کی طرف رکھا تاکہ سورج ان کے پیچھے اور رومیوں کے سامنے رہے اور وہ آنکھوں میں سورج کی چمک پڑنے کی وجہ سے آنکھوں کو کھول نہ سکیں۔*
*حسبِ معمول خالدؓ نے اپنی فوج کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ایک پہلو کے دستوں کے سالار سعید بن عامر تھے، دوسرے کے امیرالمومنین ابو بکرؓ کے بیٹے عبدالرحمٰن،اور قلب کی کمان معاذؓ بن جبل کے پاس تھی۔خالدؓنے دونوں پہلوؤں کے دستوں کی حفاظت کے لئے یا مشکل کے وقت ان کی مدد کو پہنچنے کا یہ اہتمام کیا تھا کہ ان دستوں کے آگے ایک ایک دستہ کھڑا کر دیا تھا۔چار ہزار نفری جس کے سالار یزیدؓ بن ابی سفیان تھے، خالدؓ نے قلب کے عقب میں محفوظہ)ریزرو( کے طور پر رکھ لی، وہاں اس نفری کی موجودگی اس لیے بھی ضروری تھی کہ وہاں عورتیں اور بچے تھے۔خالدؓنے سالاری کے رتبے کے افراد کو اپنے ساتھ رکھ لیا، مقصد یہ تھا کہ جہاں کہیں سالار کی ضرورت پڑے، ان میں سے ایک کو وہاں بھیج دیا جائے، یہ چاروں بڑے قابل اور تجربہ کار سالار تھے۔ عمرؓ کے بیٹے عبداﷲؓ، عمروؓ بن العاص، ضرار بن الازور، اور رافع بن عمیرہ۔سورج طلوع ہوا تورومی سنتریوں نے اپنے سالاروں کو اطلاع دی کہ مسلمان جنگی ترتیب میں تیار ہو گئے ہیں۔ رومیوں کے اجتماع میں ہڑبونگ مچ گئی۔*

*ان کا خدشہ بجا تھا کہ مسلمان حملہ کر دیں گے۔رومی سالاروں نے بڑی تیزی سے اپنے لشکر کو تیار کیااور مسلمانوں کے سامنے کھڑا کر دیا۔دونوں فوجوں کے درمیان فاصلہ تقریباً چار فرلانگ تھا۔خالدؓنے اپنے محاذ کو کم و بیش پانچ میل لمبا کر دیا تھا۔رومی اپنے لشکر کو اس سے زیادہ پھیلا سکتے تھے لیکن انہوں نے اپنے محاذ کی لمبائی تقریباً اتنی ہی رکھی جتنی خالدؓنے رکھی تھی۔اس سے خالدؓکا یہ مسئلہ تو حل ہو گیا کہ رومی مسلمانوں کے پہلوؤں کیلئے خطرہ نہ بن سکے لیکن رومی لشکر کی گہرائی زیادہ بلکہ بہت زیادہ تھی۔دستوں کے پیچھے دستے اور ان کے پیچھے دستے تھے۔مسلمانوں کیلئے ان کی صفیں توڑنا تقریباًناممکن تھا۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ رومیوں کا لشکر جب اس ترتیب میں آیا تو دیکھنے والوں پر ہیبت طاری کرتا تھا۔بہت سی صلیبیں جن میں کچھ بڑی اور کچھ ذرا چھوٹی تھیں ، اس لشکر میں سے اوپر کو ابھری ہوئی تھیں اور کئی رنگوں کے جھنڈے اوپر کو اٹھے ہوئے لہرا رہے تھے۔اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی فوج نہایت معمولی اور بے رعب سی لگتی تھی۔رومیوں کا سالار رودان اور سالار قُبقُلار اپنے لشکر کے قلب کے سامنے گھوڑوں پر سوار کھڑے تھے۔ان کے ساتھ ان کے محافظوں کا ایک دستہ تھا جو لباس وغیرہ سے بڑی شان والے لگتے تھے۔رومیوں کی تعداد اور ان کے ظاہری جاہ وجلال کو دیکھ کر خالدؓ نے محسوس کیا ہوگا کہ ان کے مجاہدین پر رومیوں کا ایسا اثر ہو سکتا ہے کہ ان کا جذبہ ذرا کمزور ہو جائے۔شاید اسی لیے خالدؓ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ گائی اور گھوڑے کا رخ اپنی فوج کے ایک سرے کی طرف کر دیا۔یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے اپنامحاذ اتنا زیادہ پھیلایا تھا،انہوں نے گھوڑا ایک پہلو کے دستے کے سامنے جا روکا۔’’یاد رکھنا کہ تم اس اﷲ کے نام پر لڑنے آئے ہو جس نے تمہیں زندگی عطا کی ہے۔‘‘خالدؓنے ایک ہاتھ اور اس ہاتھ کی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف کرکے انتہائی بلند آواز میں کہا۔’’اﷲکسی اور طریقے سے بھی اپنی دی ہوئی زندگی تم سے واپس لے سکتا ہے۔اﷲنے تمہارے ساتھ ایک رشتہ قائم کر رکھا ہے ،کیا یہ اچھا نہیں کہ تم اﷲکی خاطر اپنی جانیں قربان کردو؟اﷲاس کا اجر دے گا۔ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے کہ تم تھوڑے تھے اور تمہارا مقابلہ اس دشمن سے ہوا جو تم سے دوگنا اور تین گناتھااور اتنا طاقتور دشمن تمہاری ضرب سے اس طرح بھاگا جس طرح بکری شیر کو اور بھیڑ بھیڑیئے کو دیکھ کر بھاگتی ہے……رومیوں کی ظاہری شان و شوکت کو نہ دیکھو۔شان و شاکت ایمان والوں کی ہوتی ہے۔جاہ و جلال ان کا ہے جن کے ساتھ اﷲہے۔اﷲتمہارے ساتھ ہے۔آج اپنے اﷲپر اور اﷲکے رسولﷺ پر ثابت کر دو کہ تم باطل کے پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرنیو الے ہو-*

*یہ تو جذباتی باتیں تھیں جو خالدؓ نے کیں، اور ان کا اثر وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا ، خالدؓنے ان باتوں کے علاوہ کچھ ہدایات دیں، مورخوں نے ان کے صحیح الفاظ لکھے ہیں:’’جب آگے بڑھ کر حملہ کرو تو مل کر دشمن پر دباؤ ڈالو، جیسے ایک دیوار بڑھ رہی ہو، جب تیر چلاؤ تو سب کے تیر اکٹھے کمانوں سے نکلیں اور دشمن پر بوچھاڑ کی طرح گریں، دشمن کو اپنے ساتھ بہا لے جاؤ۔‘‘خالدؓ تمام دستوں کے سامنے رُکے، اور یہی الفاظ کہے۔ اس کے بعد وہ عقب میں عورتوں کے پاس چلے گئے۔’’دعا کرتی رہنا اپنے خاوندوں کیلئے ۔ اپنے بھائیوں اور اپنے باپوں کیلئے!‘‘خالدؓنےعورتوں سے کہا۔’’تم دیکھ رہی ہو کہ دشمن کی تعداد کتنی زیادہ ہے، اور ہم کتنے تھوڑے ہیں، ایسا ہو سکتا ہے کہ دشمن ہماری صفوں کو توڑکے پیچھے آجائے ۔خدا کی قسم!مجھے پوری امید ہے کہ اپنی عزت اور اپنی جانیں بچانے کیلئے تم مردوں کی طرح لڑو گی۔ ہم انہیں تم تک پہنچنے نہیں دیں گے لیکن وہ سب کچھ ہو سکتا ہے جو ہم نہیں چاہتے کہ ہو جائے۔‘‘’’ولید کے بیٹے!‘‘ایک عورت نے کہا۔’’کیا وجہ ہے کہ ہمیں آگے جا کر لڑنے کی اجازت نہیں؟‘‘’’مرد زندہ ہوں تو عورت کیوں لڑے!‘‘خالدؓنے کہا۔’’اور اپنے آپ کو بچانے کیلئے لڑنا تم پر فرض ہے، اور تم پر فرض ہے کہ مرد تھوڑے رہ جائیں، دشمن غالب آرہا ہو تو آگے بڑھو، اور مردوں کی طرح لڑو، اور اپنے اوپر غیر مرد کا غلبہ قبول نہ کرو۔‘‘یہ پہلا موقع تھا کہ خالدؓ نے عورتوں کو بھی دشمن سے خبردار کیا اور انہیں اپنے دفاع میں لڑنے کیلئے تیار کیاتھا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں خاصی تشویش تھی۔انہوں نے کسریٰ کی فوجوں کو شکست پہ شکست دی تھی لیکن رومی فارسیوں کی نسبت زیادہ منظم اور طاقتور تھے۔خالدؓ کے سامنے یقیناً یہ پہلو بھی ہو گا کہ مجاہدین کو گھروں سے نکلے خاصا عرصہ ہو چکا تھا، اور وہ مسلسل لڑائیوں کے تھکے ہوئے بھی تھے۔انہیں اپنے اﷲپر، اﷲکی دی ہوئی روحانی طاقتوں پر اور ایمان پر بھروسہ تھا۔دونوں فوجیں لڑائی کیلئے تیار ہو گئیں۔رومیوں کی طرف سے ایک معمر پادری آگے آیا اور مسلمانوں سے کچھ دور آکر رک گیا۔’’اے مسلمانو!‘‘اس نے بلند آواز سے کہا۔’’تم میں کوئی ایسا ہے جو میرے پاس آکر بات کرے؟‘‘خالدؓنے اپنے گھوڑے کی لگام کو ہلکا سا جھٹکا دیا اور پادری کے سامنے جا گھوڑا روکا۔’’تم سالار ہو۔‘‘بوڑھے پادری نے کہا۔’’کیا تم میں مجھ جیسا کوئی مذہبی پیشوا نہیں؟‘‘’’نہیں!‘‘خالدؓنے جواب دیا۔’’ہمارے ساتھ کوئی مذہبی پیشوا نہیں ہوتا،سالار ہی امام ہوتا ہے۔ میں سپہ سالار ہوں اور میں معزز پادری کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ میں اس وقت تک سپہ سالار رہوں گا جب تک میری قوم اور میری فوج چاہے گی۔اگر میں اپنے اﷲ وحدہ لا شریک کے احکام اور اس کے رسول ﷺکے فرمان سے انحراف کروں گاتومجھے سپہ سالار نہیں رہنے دیا جائے گا۔اگر اس حالت میں بھی سپہ سالار رہوں گا تو سپاہیوں کو حق حاصل ہے کہ وہ میرا کوئی حکم نہ مانیں۔*

*جزاکم اللہ خیرا۔*

*جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*👇🏻
                *اسلامک ہسٹری*

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─