┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

*《▪♡ شمشیرِ بے نیام ♡▪》*

*حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ*

*( قسط نمبر-58)*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*وہ متقی و پرہیزگارہے۔لیکن میدانِ جنگ کو وہ اچھی طرح نہیں سمجھتا۔‘‘مؤرخ واقدی لکھتا ہے کہ ابوعبیدہؓ کو سب خصوصاًخالدؓ بزرگ و برتر سمجھتے تھے۔لیکن جس نوعیت کی لڑائیاں جاری تھیں ان کیلئے ابو عبیدہؓ موزوں نہیں تھے لیکن جہاں نفری کی کمی تھی وہاں سالاروں کی بھی کمی تھی۔بہرحال،مؤرخ لکھتے ہیں کہ ابو عبیدہؓ جذبے اور حوصلے میں کسی سے پیچھے نہیں تھے اور وہ بڑی تیزی سے تجربہ حاصل کرتے جا رہے تھے۔بصرہ پر ان کا حملہ جرات مندانہ اقدام تھا۔خالدؓ قلعے کے باہر اپنی اور شرجیلؓ کی نفری کا حساب کر رہے تھے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش بھی کر رہے تھے کہ قلعے کے اندر کتنی نفری ہے۔ مسلمانوں کے ہاتھ میں چند ایک رومی سپاہی آگئے تھے جو زخمی تھے۔خالدؓ کے لشکرکے آجانے سے مسلمانوں کی نفری تیرہ ہزار کے قریب ہو گئی تھی ،لیکن رومیوں غسانیوں اور عیسائیوں کی تعداد دگنی سے بھی زیادہ تھی۔’’کیا تم بھی ڈر کر بھاگ آئے ہو؟‘‘قلعے کے اندر جبلہ بن الایہم رومی فوج کے سپہ سالار پر غصہ جھاڑ رہا تھا۔’’ کیا تم نے اس فوج کا جو قلعے کے اندر تھی اور شہر کے لوگوں کا حوصلہ توڑ نہیں دیا؟‘‘*
*’’نہیں!‘‘رومی سالار نے کہا۔’’میں مسلمانوں پر باہر نکل کر حملہ کر رہا ہوں،اگر میں ان کے عقب میں گئے ہوئے دستوں کوپیچھے نہ ہٹا لیتا تو ان کے عقب سے مسلمان سالار انہیں بری طرح کاٹ دیتے۔مجھے ان کی نفری کا اندازہ نہیں تھا۔میں صرف ایک دن انتظار کروں گا،ہو سکتا ہے کہ ان کی مز ید فوج آرہی ہو، میں انہیں آرام کرنے کی مہلت نہیں دوں گا۔‘‘*
*’’پھر انہیں قلعے کا محاصرہ کرلینے دو۔‘‘ جبلہ نے کہا۔’’انہیں قلعے کے ا ردگرد پھیل جانے دو، پھر تم قلعے سے اتنی تیزی سے نکلنا کہ انہیں اپنے دستے اکٹھے کرلینے کی مہلت نہ ملے……اور شہر میں اعلان کر دو کہ گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں ، دشمن کو قلعے کے باہر ہی ختم کر دیا جائے گا۔‘‘قلعے کے اندر ہڑبونگ بپا تھی، شہریوں میں بھگدڑ اور افراتفری مچی ہوئی تھی۔رومی فوج کا باہر جاکر لڑنا اور اندر آجانا شہریوں کیلئے دہشت ناک تھا۔ مسلمان فوج کی ڈراؤنی ڈراؤنی سی باتیں تو شہر میں پہلے ہی پہنچی ہوئی تھیں۔مؤرخوں کے مطابق رومیوں نے یہ سوچا تھا کہ مسلمانوں کو آرام کی مہلت ہی نہ دی جائے لیکن انہیں معلوم نہ تھا کہ مسلمان آرام کر نے کے عادی ہی نہیں ، انہیں اتنی ہی مہلت کی ضرورت تھی کہ زخمیوں کو سنبھال لیں اور شہیدوں کی لاشیں دفن کر لیں۔اگلے روز کا سورج طلوع ہونے تک رومی فوج قلعے سے باہر آگئی اور دروزے بند ہو گئے۔خالدؓ نے اپنے لشکر کو جنگی ترتیب میں کر لیا ۔قلعے کے باہر میدان کھلا تھا۔خالدؓنے حسبِ معمول اپنے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا۔ قلب کی کمان اپنے پاس رکھی، اب چونکہ انہیں شرجیلؓ کے چار ہزار مجاہدین مل جانے سے ان کے پاس نفری کچھ زیادہ ہو گئی تھی اس لیے انہوں نے قلب کو محفوظ کرنے کیلئے ایک دستہ قلب کے آگے رکھا، اس دستے کی کمان خلیفۃ المسلمینؓ کے بیٹے عبدالرحمٰن بن ابو بکرؓ کے پاس تھی۔ایک پہلو کے دستوں کے سالار رافع بن عمیرہ اور دوسرے پہلو کے سالار ضرار بن الازور تھے۔*

*جنگ کا آغاز مسلمانوں کے نعرہ تکبیر سے ہوا۔ رومی سپہ سالار اپنے قلب کے آگے آگے آرہا تھا۔عبدالرحمٰنؓ بن ابو بکر جوان تھے۔خالدؓ نے جوں ہی ان کے دستے کو آگے بڑھنے کا حکم دیا، عبدالرحمٰنؓ سیدھے رومی سالار کی طرف گئے۔ لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی ان کی نظریں اس رومی سالار پر لگی ہوئی تھیں۔عبدالرحمٰنؓ نے گھوڑے کو ایڑلگائی اور تلوار سونت کر اس کی طرف گئے مگر اس کی طرف گئے تو وہ بڑی پھرتی سے آگے سے ہٹ گیا۔ عبدالرحمٰنؓ آگے نکل گئے۔رومی سالار نے گھوڑا موڑا اور عبدالرحمٰنؓ کے پیچھے گیا۔عبدالرحمٰن ؓنے گھوڑا موڑتے موڑتے دیکھ لیا، رومی نے وار کر دیا جو عبدالرحمٰنؓ بچاگئے۔ تلوار کا زنّاٹہ ان کے سر کے قریب سے گزرا۔اب عبدالرحمٰنؓ اس کے پیچھے تھے۔رومی گھوڑا موڑ رہا تھا، عبدالرحمٰنؓ نے تلوار کا زورداروار کیا جس سے رومی تو بچ گیا لیکن اس کے گھوڑے کی زین کا تنگ کٹ گیا، اور ضرب گھوڑے کو بھی لگی۔ گھوڑے کا خون پھوٹ آیا اور وہ رومی کے قابو سے نکلنے لگا۔رومی تجربہ کار جنگجو تھا۔اس نے بڑی مہارت سے گھوڑے کو قابو میں رکھا، اور اس نے وار بھی کیے۔ عبدالرحمٰنؓ نے ہر وار بچایا، اور انہوں نے رکابوں میں کھڑے ہوکر وار کیے تو رومی گھبراگیا۔اس کے آہنی خود اور زرہ نے اسے بچالیا لیکن اپنی ایک ٹانگ کو نہ بچا سکا، گھٹنے کے اوپر سے اس کی ٹانگ زخمی ہو گئی۔تابڑ توڑ وار اسے مجبور کرنے لگے کہ وہ بھاگے اور وہ بھاگ اٹھا۔ اسے اپنی جان کا غم تھا یا نہیں ، اسے خطرہ یہ نظر آرہا تھا کہ وہ گر پڑا تو اس کا سارا لشکر بھاگ اٹھے گا۔ یہ سوچ کر کو وہ اپنے لشکر میں غائب ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ عبدالرحمٰنؓ اس کے تعاقب سے نہ ہٹے، وہ ان کے ہاتھ تو نہ آیا لیکن اپنے لشکر کی نظروں سے بھی اوجھل ہو گیا۔*
*خالدؓ نے رومیوں پر اس طرح حملہ کیا کہ سالار رافع بن عمیرہ اور سالار ضرار بن الازور کو حکم دیاکہ وہ باہر کو ہو کر رومیوں پر دائیں اور بائیں سے تیز اور شدید ہلہ بولیں۔ مجاہدین شدید کا مطلب سمجھتے تھے۔ مؤرخوں کی تحریروں کے مطابق یہ حملہ اتنا تیز اور اتنا سخت تھا جیسے مجاہدین تازہ دم ہوں اور ان کی تعداد دشمن سے دگنی ہو۔ دونوں سالاروں کے دستے دیوانگی کے عالم میں حملہ آور ہوئے۔مؤرخ واقدی اور ابنِ قتیبہ لکھتے ہیں کہ سالار ضرار بن الازور نے جوش میں آکر اپنی زرہ اتار پھینکی۔یہ ہلکی سی تھی لیکن جولائی کا آغاز تھا، اور گرمی عروج پر تھی۔ ضرار نے گرمی سے تنگ آکر اور لڑائی میں آسانی پیدا کرنے کیلئے زرہ اتاری تھی۔انہوں نے اپنے دستوں کو حملے کا حکم دیا۔ان کا گھوڑا ابھی دشمن کے قریب نہیں پہنچا تھا کہ انہوں نے قمیض بھی اتار پھینکی، اس طرح ان کا اوپر کا دھڑ بالکل ننگا ہو گیا۔ایسی خونریز لڑائی میں زرہ ضروری تھی، اور سَر کی حفاظت تو اور زیادہ ضروری تھی، لیکن ضرار بن الازور نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ لی تھی۔انہیں اس حالت میں دیکھ کر ان دستوں میں کوئی اور ہی جوش پیدا ہو گیا ۔ضرار دشمن کو للکارتے اور ٹوٹ ٹوٹ پڑتے تھے۔ان کے سامنے جو آیا ان کی تلوار سے کٹ گیا۔وہ سالار سے سپاہی بن گئے تھے۔رافع بن عمیرہ نے رومیوں کے دوسرے پہلو پر ہلہ بولا تھا، ان کا انداز ایسا غضب ناک تھا کہ دشمن پر خوف طاری ہو گیا۔خالدؓ نے جب دیکھا کہ ضرار اور رافع نے دونوں پہلوؤں سے ویسا ہی ہلہ بولا ہے جیسا وہ چاہتے تھے اور دشمن کے پہلو عقب کی طرف سکڑ رہے ہیں تو خالدؓ نے سامنے سے ہلہ بول دیا۔رومی پیچھے ہٹنے لگے لیکن پیچھے قلعے کی دیوار تھی جو دراصل شہر کی پناہ تھی، ان کیلئے پیچھے ہٹنے کو جگہ نہ رہی۔ مجاہدین انہیں دباتے چلے گئے۔’’دروازے کھول دو۔‘‘ دیوار کے اوپر سے کوئی چلایا۔قلعے کے اس طرف کے دروازے کھل گئے اور رومی سپاہی قلعے کے اندر جانے لگے۔انہیں قلعے میں ہی پناہ مل سکتی تھی، مسلمانوں نے دباؤ جاری رکھا، اور رومی جم کر مقابلہ کرتے رہے۔ ان میں سے جسے موقع مل جاتا وہ قلعے کے اندر چلا جاتا۔*

*جو رومی قلعے میں پناہ لینے کو جا رہے تھے وہ ان کی تمام نفری نہیں تھی،ان کی آدھی نفری بھی نہیں تھی۔ان کی آدھی نفری خالدؓ کے دستوں سے نبرد آزما تھی، خالدؓ نے جب دیکھ لیا تھا کہ ان کے پہلوؤں کے سالار وں نے ویسا ہی حملہ کیا ہے جیسا کہ وہ چاہتے تھے تو انہوں نے دشمن کے قلب پر حملہ کر دیا۔رومی بڑے اچھے سپاہی تھے،وہ پسپا ہونے کی نہیں سوچ رہے تھے اور خالدؓانہیں پسپائی کے مقام تک پہنچانے کی سر توڑ کوششیں کررہے تھے۔خالدؓنے شجاعت اور بے خوف قیادت کا یہ مظاہرہ کیا کہ گھوڑے سے اتر آئے اور سپاہیوں کی طرح پا پیادہ لڑنے لگے۔اس کا اثر مجاہدین پر ایساہوا کہ وہ بجلیوں کی مانند کوندنے لگے۔یہ ان کے ایمان کا اور عشقِ رسولﷺ کا کرشمہ تھا کہ مسلسل کوچ اور معرکوں کے تھکے ہوئے جسموں میں جان اور تازگی پیدا ہو گئی تھی ۔یہ مبالغہ نہیں کہ وہ روحانی قوت سے لڑ رہے تھے۔خالدؓ اس کوشش میں تھے کہ رومیوں کو گھیرے میں لے لیں لیکن رومی زندگی اور موت کا معرکہ لڑ رہے تھے۔وہ اب وار اور ہلے روکتے اور پیچھے یادائیں بائیں ہٹتے جاتے تھے۔وہ محاصرے سے بچنے کیلئے پھیلتے بھی جا رہے تھے۔آخر وہ بھی بھاگ بھاگ کر قلعے کے ایک اور کھلے دروازے میں غائب ہونے لگے۔خالدؓ نے بلند آواز سے حکم دیا۔’’ان کے پیچھے قلعے میں داخل ہو جاؤ۔ ‘‘لیکن دیوار کے اوپر سے تیروں کی بوچھاڑیں آنے لگیں۔ برچھیاں بھی آئیں۔مجاہدین کو مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑا، اور رومی جو بچ گئے تھے وہ قلعے میں چلے گئے اور قلعے کا دروازہ بندہو گیا۔باہر رومیوں اور ان کے اتحادی عیسائیوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔زخمی تڑپ رہے تھے۔زخمی گھوڑے بِدکے اور ڈرے ہوئے بے لگام اور منہ زور ہو کر دوڑتے پھر رہے تھے۔چند ایک گھوڑ سواروں کے پاؤں رکابوں میں پھنسے ہوئے تھے اور گھوڑے انہیں گھسیٹتے پھر رہے تھے ۔سوار خون میں نہائی لاشیں بن چکے تھے۔لڑائی ختم ہو چکی تھی۔مجاہدین کے فاتحانہ نعرے گرج رہے تھے۔فتح ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی،دشمن کا نقصان تو بہت ہوا تھا لیکن وہ قلعہ بند ہو گیا تھا۔فتح مکمل کرنے کیلئے قلعے سر کرنا ضروری تھا۔خالدؓ نے اپنے زخمیوں کو اٹھانے کا حکم دیا اور قاصد سے کہا کہ تمام سالاروں کو بلا لائے۔خالدؓنے ایک سوار کو دیکھا جو ان کی طرف آرہا تھا۔وہ دوسروں سے کچھ الگ تھلگ لگتا تھا۔ایک اس لیے کہ اس کا قد لمبا تھا اور جسم دبلا پتلا تھا۔عرب ایسے دبلے پتلے نہیں ہوتے تھے،یہ سوار کچھ آگے کو جھکا ہوا بھی تھا۔اس کی داڑھی گھنی نہیں تھی،اور لمبی بھی نہیں تھی۔اس داڑھی کو اس شخص نے مصنوعی طریقے سے کالا کر رکھا تھا۔وہ اس لیے بھی الگ تھلگ تھا کہ خالدؓ نے اسے لڑتے دیکھا تھا اور اس کاانداز کچھ مختلف سا تھا۔سب کی توجہ اس شخص کی طرف اس وجہ سے بھی ہوئی تھی کہ اس کے ہاتھ میں پیلے رنگ کا پرچم تھا۔یہ وہ پرچم تھاجو خیبر کی لڑائی میں رسولِ اکرمﷺنے اپنے ساتھ رکھا تھا۔خالدؓ اسے پہچان نہ سکے، دھوپ بہت تیز تھی۔اس نے سر پر کپڑا ڈال رکھا تھا جس سے اس کا آدھا چہرہ ڈھکا ہوا تھا،خالدؓ کے قریب آکر وہ شخص مسکرایا تو خالدؓ نے دیکھا کہ اس آدمی کے سامنے کے دو تین دانت ٹوٹے ہوئے ہیں-*

*’’ابو عبیدہ!‘‘خالدؓنےمسرت سے کہا اور اس کی طرف دوڑے۔وہ ابو عبیدہؓ تھے۔مرج راہط سے خالدؓ نے انہیں پیغام بھیجا تھا کہ وہ انہیں بصرہ کے باہر ملیں۔ابو عبیدہؓ حواریں کے مقام پر پراؤ ڈالے ہوئے تھے جہاں سے انہوں نے شرجیلؓ بن حسنہ کو چار ہزار مجاہدین دے کو بصرہ پر حملہ کرایا تھا۔ان کے پاس خالدؓ کا قاصد بعد میں پہنچا تھا۔ابو عبیدہؓ پیغام پر اس وقت بصرہ پہنچے جب خالدؓ رومیوں کے ساتھ بڑے سخت معرکے میں الجھے ہوئے تھے۔انہوں نے تلوار نکالی اور معرکے میں شامل ہو گئے۔ابوعبیدہؓ کی اس وقت عمر پچپن سال کے لگ بھگ تھی۔وہ رسولِ کریمﷺکے خاص ساتھیوں میں سے تھے۔ان کے دادا اپنے وقتوں کے مشہور جراح تھے۔اسی نسبت سے انہوں نے اپنا نام ابو عبیدہ بن الجراح رکھ لیا تھا۔ان کا نام عامر بن عبداﷲبن الجراح تھا۔لیکن انہوں نے ابو عبیدہ کے نام سے شہرت حاصل کی۔دبلا پتلا اور کچھ جھکا ہونے کے باوجود ان کے چہرے پر جلال جیسی رونق رہتی تھی۔وہ دانشمند تھے۔میدانِ جنگ میں بھی ان کی اپنی شان تھی اور ذہانت اور عقلمندی میں بھی ان کا مقام اونچا تھا۔ابو عبیدہؓ کے سامنے کے دانت جنگِ احد میں ٹوٹے تھے۔اس معرکے میں رسولِ اکرمﷺ زخمی ہو گئے تھے۔آپﷺ کے خود کی زنجیروں کی دو کڑیاں آپﷺکے رخسار میں ایسی گہری اتری تھیں کہ ہاتھ سے نکلتی نہیں تھیں۔ابو عبیدہؓ نے یہ دونوں اپنے دانتوں سے نکالی تھیں اور اس کامیاب کوشش میں ان کے سامنے کے دو یا تین دانت ٹوٹ گئے تھے۔ابنِ قتیبہ نے لکھا کہ رسولﷺ ابو عبیدہؓ سے بہت محبت کرتے تھے اور حضورﷺنے ایک بار فرمایا تھا کہ ’’ابو عبیدہ میری امت کا امین ہے ۔‘‘ اس حوالے سے ابو عبیدہ ؓکو لوگ امین الامت کہنے لگے۔اس دور کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ خالدؓ نے جب ابو عبیدہؓ کو بصرہ کے میدان میں دیکھا تو انہیں خدشہ محسوس ہوا کہ ابو عبیدہؓ ان کی سپہ سالاری کو قبول نہیں کریں گے،گو خلیفۃ المسلمینؓ نے ابو عبیدہؓ کو تحریری حکم بھیجا تھا کہ جب خالدؓ شام کے محاذ پر پہنچ جائیں تو تمام لشکر کے سالارِ اعلیٰ خالدؓ ہوں گے لیکن خالد ؓکو احساس تھا کہ معاشرے میں جو مقام اور رتبہ ابو عبیدہؓ کو حاصل تھا وہ انہیں حاصل نہیں تھا۔خالدؓ خود بھی ابو عبیدہؓ کا بہت احترام کرتے تھے۔یہ احترام ہی تھا کہ بصرہ کے میدانِ جنگ میں خالدؓنے انہیں اپنی طرف آتے دیکھا تو خالدؓ دوڑ کر ان تک پہنچے ۔ابو عبیدہؓ گھوڑے سے اترنے لگے۔’’نہیں ابنِ عبداﷲ!‘‘خالدؓ نے ابو عبیدہؓ سے کہا۔’’گھوڑے سے مت اتر۔میں اس قابل نہیں ہوں کہ امین الامت میرے لیے گھوڑے سے اترے۔‘‘ابو عبیدہؓ گھوڑے پر سوار رہے اور جھک کر دونوں ہاتھ خالدؓکی طرف بڑھائے۔خالدؓ نے احترام سے مصافحہ کیا۔’’ابو سلیمان!‘‘ابو عبیدہؓ نے خالدؓ نے سے کہا۔’’ امیر المومنین کا پیغام مجھے مل گیا تھا جس میں انہوں نے تمہیں ہم سب کا سالارِ اعلیٰ مقرر کیا ہے ۔میں اس پر بہت خوش ہوں۔کوئی شک نہیں کہ جنگ کے معاملات میں جتنی عقل تجھ میں ہے وہ مجھ میں نہیں۔‘‘*
*--------------------*

*خدا کی قسم ابنِ عبداﷲ!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’امیرالمومنین کے حکم کی تعمیل مجھ پر فرض ہے ورنہ میں تم پر سپہ سالار کبھی نہ بنتا۔ رتبہ جوتمہیں حاصل ہے وہ مجھے نہیں۔‘‘’’ایسی بات نہ کر ابو سلیمان!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ابو بکر نے بالکل صحیح فیصلہ کیا ہے۔ میں تیرے ماتحت ہوں،تیرے حکم پر آیا ہوں ، ﷲتجھے غسانیوں اور رومیوں پر فتح عطا فرمائے۔‘‘خالدؓ نے بصرہ کومحاصرے میں لینے کا حکم دیا۔رومیوں اور عیسائیوں کی لاشیں جہاں پڑی تھیں۔وہیں پڑی رہیں۔اوپر گِدّھوں کے غول اڑ رہے تھے اور درختوں پر اتر رہے تھے۔مجاہدین اپنے شہیدوں کی لاشیں اٹھا رہے تھے ان کی تعداد ایک سو تیس تھی۔خالدؓنے شہر پناہ کے اردگرد گھوڑا دوڑا کر جائزہ لیا کہ دیوار کہیں سے توڑی جاسکتی ہے یا نہیں۔دیوار کے اوپر سے تیر آرہے تھے لیکن مسلمان ان کی زد سے دورتھے۔قلعے کے اندر مایوسی چھائی ہوئی تھی۔جبلہ بن الایہم اور رومی سپہ سالار خاموشی سے ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے۔’’کیا تم بالکل ہمت ہار بیٹھے ہو؟‘‘جبلہ بن الایہم نے رومی سالار سے پوچھا۔’’تم نے کہاں کہاں ہمت نہیں ہاری!‘‘رومی سالار نے شکست کا غصہ جبلہ پر نکالا اور کہا۔’’مسلمانوں کے راستے میں سب سے پہلے تم اور عیسائی آئے تھے اور مسلمانوں کو نہ روک سکے۔مرج راہط میں بھی تمہاری فوج ناکام رہی۔کیا تو مجھے اور میری فوج کو مروانا چاہتا ہے؟باہر نکل کے دیکھ۔ فوج کی نفری کتنی رہ گئی ہے ہمارے ساتھ۔ کچھ نفری میدانِ جنگ میں ماری گئی ہے، اور مجھے بتایا گیا ہے کہ ہمارے بہت سے سپاہی اور کماندار اجنادین کی طرف بھاگ گئے ہیں۔قلعے میں تھوڑی سی نفری آئی ہے۔دیوار پر جاکر باہر دیکھ اور لاشوں سے حساب کر کہ ہمارے پاس کیا رہ گیا ہے؟‘‘باہر سے مسلمانوں کی للکار سنائی دے رہی تھی:’’رومی سالار باہر آکر صلح کی بات کرے۔‘‘’’رومیو!قلعہ ہمارے حوالے کر دو۔‘‘’’ہم نے خود قلعہ سر کیا تو ہم سے رحم کی امید نہ رکھنا۔‘‘اس کے ساتھ ہی خالدؓ کے حکم سے مجاہدین دروازے توڑنے کیلئے آگے جاتے رہے، مگر اوپر کے تیروں نے انہیں کامیاب نہیں ہونے دیا۔انہوں نے ایک جگہ سے دیوار توڑنے کی کوشش بھی کی۔لیکن کامیابی نہ ہوئی۔شہر کے لوگوں پر خوف طاری تھا،وہ مسلمانوں کی للکار سن رہے تھے۔وہ جانتے تھے کہ فاتح فوجیں شہر کے لوگوں کو کس طرح تباہ کیا کرتی ہیں۔مسلمان کہہ رہے تھے کہ قلعے خود دے دو گے تو شہری اور ان کے گھر محفوظ رہیں گے۔جبلہ بن الایہم اور رومی سالار کمرے سے باہر نہیں آتے تھے۔شہر کے لوگ ایک ایک لمحہ خوف و ہراس میں گزار رہے تھے۔وہ تنگ آکر جبلہ کے محل کے سامنے اکٹھے ہو گئے۔’’مسلمانوں سے صلح کر لو۔‘‘ وہ کہہ رہے تھے۔’’ہمیں بچاؤ، قلعہ انہیں دے دو۔ ہمارا قتلِ عام نہ کراؤ۔‘*

*جبلہ اور رومی سالار نے تین چار دنوں تک کوئی فیصلہ نہ کیا، خالدؓ نے محاصرے کے بہانے اپنے لشکر کو آرام کی مہلت دے دی۔ انہوں نے شہیدوں کا جنازہ پڑھ کر اسے دفن کر دیا۔آخر ایک روز قلعے پر سفید جھنڈا نظر آیا،قلعے کا دروازہ کھلا اور رومی سالار باہر آیا۔ اس نے صلح کی بھیک مانگی۔ خالدؓ نے ان پر یہ شرط عائد کی وہ جزیہ ادا کریں۔رومی سالار نے قلعہ خالدؓ کے حوالے کردیا۔ یہ جولائی ۶۳۴ء )جمادی الاول(کا وسط تھا۔رومی اور غسانی قلعے سے نکلنے لگے۔شرجیلؓ بن حسنہ نے دیکھا تھا کہ رومی سپاہی اجنادین کی طرف بھاگ رہے تھے۔شرجیلؓ نے اپنا ایک جاسوس اجنادین بھیج دیا۔اس جاسوس نے آکر اطلاع دی کہ رومی فوج اجنادین میں جمع ہو رہی ہے اور توقع ہے کہ وہاں نوے ہزار فوج تیار ہو جائے گی۔’’ہماری اگلی منزل اجنادین ہو گی۔‘‘خالدؓ نے کہا۔نپولین ان جرنیلوں میں سے تھا جنہوں نے اپنے اپنے دور میں تاریخ کا پانسہ پلٹا اور کرہ ارض کو ہلا دیا تھا۔فرانس کے تاریخ ساز جرنیل نپولین نے خالدؓبن ولید کے متعلق کہا تھا،اگر مسلمانوں کی فوج کا سپہ سالار کوئی اور ہوتا تو یہ فوج اجنادین کی طرف پیش قد می ہی نہ کرتی۔نپولین کا دور خالدؓکے دور کے تقریباً بارہ سو سال بعد کا تھا۔تاریخ کے اس نامور جرنیل نے ان کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا اور ان کی فوجوں کی کیفیت اور کارکردگی کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ جولائی ۶۳۴ء میں بصرہ کی فتح کے بعد خالدؓ نے اپنی فوج کو اجنادین کی طرف پیش قدمی کا جو حکم دیا تھا وہ مسلمانوں کی فوج کی جسمانی کیفیت اور تعداد کے بالکل خلاف تھا۔ انہیں جاسوس نے صحیح رپورٹ دی تھی، کہ اجنادین میں رومیوں نے جو فوج مسلمانوں کو کچلنے کیلئے اکٹھی کر رکھی ہے، اس کی تعداد نوے ہزار سے زیادہ ہو سکتی ہے کم نہیں۔ یہ فوج تازہ دم تھی۔اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد تیس ہزار کے لگ بھگ تھی اور یہ فوج مسلسل لڑتی چلی جاتی تھی۔صرف بصرہ کی لڑائی میں ایک سو تیس مجاہدین شہید اور بہت سے زخمی ہوئے تھے۔یہاں موزوں معلوم ہوتا ہے کہ اس دور کی اسلامی فوج کے متعلق کچھ تفصیل پیش کی جائے۔اسلامی فوج کی کوئی وردی نہیں تھی۔جس کسی کو جیسے کپڑے میسر آتے تھے وہ پہن لیتا تھا۔ایسا تو اکثر دیکھنے میں آتا تھا کہ کئی سپاہیوں نے بڑے قیمتی کپڑے پہن رکھے ہیں اور سالار، نائب سالار وغیرہ بالکل معمولی لباس میں ہیں۔ وجہ تھی کہ سپاہی مالِ غنیمت میں ملے ہوئے کپڑے پہن لیتے تھے۔اسلامی فوج کی ایک خوبی یہ تھی کہ سالاروں کمانداروں یعنی افسروں کا کوئی امتیازی نشان نہ تھا۔افسری کا یہ تصور تھا ہی نہیں جو آج کل ہے۔بعض قبیلوں کے سردار سپاہی تھے اور انہی قبیلوں کے بعض ادنیٰ سے آدمی کماندار تھے۔عہدے اور ترقیاں نہیں تھیں۔آج ایک آدمی جذبے کے تحت فوج میں سپاہی کی حیثیت سے شامل ہواہے تو ایک دو روز بعد وہ ایک دستے کاکماندار بن گیا ہے۔جذبہ اور جنگی اہلیت دیکھی جاتی تھی،ایسے بھی ہوتا تھا کہ ایک معرکے کا افسر اگلے معرکے میں سپاہی ہو۔*

*اسلام کی تعلیمات کے مطابق افسری اور ماتحتی کا تصور کچھ اور تھا۔ جس کسی کو افسر بنایا جاتا تھا وہ فرائض کی حد تک افسر ہوتا تھا۔ اس کا کوئی حکم ذاتی نوعیت کا نہیں ہوتا تھا۔چونکہ افسر کے انتخاب کا معیار کچھ اور تھا اس لیے اس وقت کا معاشرہ خوشامد اور سفارش سے آشنا ہی نہیں ہوا تھا۔اتنی وسیع اسلامی سلطنت کا زوال اس وقت شروع ہوا تھا جب مسلمان افسر اور ماتحت میں تقسیم ہو گئے تھے اور حاکموں نے ماتحتوں کو محکوم سمجھنا شروع کر دیا تھااور وہ خوشامد پسند ہو گئے تھے۔ہتھیارون کا بھی کوئی معیار نہ تھا۔ فوج میں شامل ہونے والے اپنے ہتھیار خود لاتے تھے۔زِرہ اور خود ہر کسی کے پاس نہیں ہوتی تھی۔مسلمان سپاہی جو زرہ اور خودپہنتے تھے وہ دشمن سے چھینی ہوئی ہوتی تھیں۔ ان میں اس قسم کی یکسانیت نہیں ہوتی تھی جیسی فوجوں میں ہوا کرتی ہے۔اسلامی فوج کا کوچ منظم فوج جیسا نہیں ہوتا تھا۔یہ فوج غیر منظم قافلے کی مانند چلتی تھی۔ان کی خوراک اور رسد ان کے ساتھ ہوتی تھی۔بیل گائیں، دنبے اور بھیڑ بکریاں جو فوج کی خوراک بنتی تھیں، فوج کے ساتھ ہوا کرتی تھیں، رسد کا باقاعدہ انتظام بہت بعد میں کیا گیا تھا۔گھوڑ سوار کوچ کے وقت پیدل چلا کرتے تھے تاکہ گھوڑے سواروں کے وزن سے تھک نہ جائیں۔سامان اونٹوں پر لدا ہوتا تھا، عورتیں اور بچے ساتھ ہوتے تھے انہیں اونٹوں پر سوار کرایاجاتا تھا۔اس وقت کی اسلامی فوج کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ فوج ہے،اس کوقافلہ سمجھا جاتا تھا لیکن اس فوج کی ایک تنظیم تھی۔آگے ہراول دستہ ہوتا تھا جسے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا پورا احساس ہوتا تھا، اس کے پیچھے فوج کا ایک بڑا حصہ، اس کے پیچھے عورتیں اور بچے اور اس کے پیچھے عقب کی حفاظت کیلئے ایک دستہ ہوتا تھا۔اسی طرح پہلوؤں کی حفاظت کا بھی انتظام ہوتا تھا.*
*یہ فوج عموماً دشوار رستہ اختیار کیا کرتی تھی۔ اس سے ایک فائدہ یہ ہوتا تھا کہ منزل تک کا راستہ چھوٹا ہو جاتا تھا، دوسرا فائدہ یہ کہ راستے میں دشمن کے حملے کا خطرہ نہیں رہتا تھا، اگر دشمن حملہ کر بھی دیتا تو اسلامی فوج فوراً علاقے کی دشواریوں یعنی نشیب و فراز وغیرہ میں روپوش ہو جاتی تھی، دشمن ایسے علاقے میں لڑنے کی جرات نہیں کرتا تھا۔جولائی ۶۳۴ء کے آخری ہفتے میں خالدؓ کی فوج اسی طرح اجنادین کی طرف پیش قدمی کر رہی تھی ۔ پہلے سنایا جا چکا ہے کہ مدینہ کی فوج کے چار حصے مختلف مقامات پر تھے ۔خالدؓ نے ان کے سالاروں کو پیغام دیئے تھے کہ سب اجنادین پہنچ جائیں۔*

*خالدؓنے بصرہ پر قبضہ کر لیا تھا، رومیوں اور غسانیوں کیلئے یہ چوٹ معمولی نہیں تھی۔بصرہ شام کا بڑا اہم شہر تھا،یہ مسلمانوں کا اڈہ بن گیا تھا۔سب سے بڑا نقصان رومیوں کو یہ ہوا تھا کہ لوگوں پر اور ان کی فوج پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی تھی۔مسلمانوں نے بصرہ تک شکستیں دی تھیں، کہیں بھی شکست کھائی نہیں تھی،کہیں ایک سالار کو پسپا ہونا پڑا تو فوراً دوسرے سالار نے شکست کو فتح میں بدل دیا۔قیصر روم کی تو نیندیں حرام ہو گئی تھیں،خالدؓنے جب بصرہ کو محاصرہ میں لے رکھا تھا اور صورتِ حال بتا رہی تھی کہ بصرہ رومیوں کے ہاتھ سے جارہا ہے تو شہنشاہِ ہرقل رومی نے حمص کے حاکم وِردان کو ایک پیغام بھیجا تھا:’’کیا تم شراب میں ڈوب گئے ہو یا تم ان عورتوں جیسی عورت بن گئے ہو جن کے ساتھ تمہاری راتیں گزرتی ہیں؟‘‘ہرقل نے لکھا تھا۔’’اور اس میں کوئی شک نہیں کہ تمہارا دن اونگھتے گزرتا ہے ۔کیا ہے ان مسلمانوں کے پاس جو تمہارے پا س نہیں؟اگر میں کہوں کہ قیصرِ روم کی ذلت کے ذمہ دار تم جیسے حاکم ہیں تو کیا جواب دو گے؟تم شاید یہ بھی نہیں سوچ رہے کہ مسلمانوں کی اتنی تیز پیش قدمی اور فتح پہ فتح حاصل کرتے چلے آنے کو کس طرح روکا جا سکتا ہے ۔کیا تمہاری تلواروں کو زنگ نے کھا لیا ہے؟ کیا تمہارے گھوڑے مر گئے ہیں؟لوگوں کو تم بتاتے کیوں نہیں کہ مسلمان تمہارے مال و اموال لوٹ لیں گے۔ تمہاری بیٹیوں کو ، تمہاری بیویوں اور تمہاری بہنوں کو اپنے قبضے میں لے لیں گے!……مجھے بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد تیس ہزار سے ذرا کم یا زیادہ ہے۔تم زیادہ سے زیادہ فوج اکٹھی کرو اور اجنادین کے علاقے میں پہنچ جاؤ ۔محاذ کو اتنا پھیلا دو کہ مسلمان اس کے مطابق پھیلیں تو ان کی حالت کچے دھاگے کی سی ہو جائے……انہیں اپنی تعداد میں جذب کرلو۔انہیں اپنی تعداد میں گم کر دو۔‘‘رومیوں کی بادشاہی میں ہنگامہ بپا ہو گیا تھا۔رومیوں اور عیسائیوں کی عبادت گاہوں میں پادریوں اور پروہتوں نے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز وعظ شروع کر دیئے تھے،وہ کہتے تھے کہ اسلام ان کے مذہبوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دے گااور انہیں مجبوراًاسلام قبول کرنا پڑے گا،اور یہ ایسا گناہ ہوگا جس کی سزا بڑی بھیانک ہوگی۔رومیوں کی فوج ایک منظم لشکر تھا۔ان کے پاس گھوڑوں کی تعداد زیادہ تھی اور ان کے پاس گاڑیاں بھی تھیں جو گھوڑے اور بیل کھینچتے تھے۔رسد کا انتظام بہت اچھا تھا۔عبادت گاہوں میں لوگوں نے وعظ سنے تو وہ فوج میں شامل ہونے لگے۔اس طرح ان کی فوج کی تعداد بڑھ گئی۔حمص کا حاکم وردان جب فوج کے ساتھ اجنادین کو روانہ ہوا اس وقت فوج کی تعداد نوے ہزار تھی۔*

*جزاکم اللہ خیرا۔*

*جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*
          *اسلامک ہسٹری*

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─