┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

*《▪♡ شمشیرِ بے نیام ♡▪》*

*حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ*

*( قسط نمبر-57)*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*خالدؓمرج راہط کے قریب پہنچ رہے تھے اور انہیں میلہ نظر آرہا تھا۔بہت بڑا میلہ تھا۔ یہ غسانیوں کا کوئی تہوار تھا۔ہزار ہا لوگ جمع تھے ، کھیل تماشے ہورہے تھے ، گھڑ دو ڑ اور شتر دوڑ بھی ہو رہی تھی،کہیں ناچ تھا کہیں گانے تھے، ایک وسیع میدان تھا جس میں آدمی ہی آدمی تھے ۔ان کی تعداد بیس ہزار کے لگ بھگ تھی۔خالدؓکا لشکر جب کچھ اور قریب گیا تو تہوار منانے والا یہ ہجوم دیکھتے ہی دیکھتے فوج کی صورت اختیار کرکے جنگی ترتیب میں آگیا۔گھوڑ سوار باقاعدہ رسالہ بن گئے۔ ہر آدمی تلوار یا برچھی سے مسلح تھا، عورتیں اور بچے بھاگ کر قصبے میں چلے گئے اور ہجوم جو فوج کی صورت اختیار کرگیا تھا ، اس طرح دائیں اور بائیں پھیلنے لگا جیسے مجاہدین کو گھیرے میں لینا چاہتا ہو۔مجاہدین کو اپنے پیچھے سر پٹ دوڑتے گھوڑوں کا قیامت خیز شور سنائی دیا۔اُدھر دیکھا ، غسانی سواروں کا ایک دستہ تلواریں اور برچھیاں تانے سمندر کی طوفانی لہروں کی طرح چلا آرہا تھا،یہ تھا وہ جال جو جبلہ بن الایہم نے خالدؓ کیلئے بچھایا تھا۔ممکن نظر نہیں آتا تھاکہ خالدؓ اپنے لشکر کو اس جال سے نکال سکیں گے،مجاہدین کی تعداد نو ہزار بھی نہیں رہ گئی تھی،اور جس دشمن نے انہیں اپنے جال میں لیا تھا اس کی تعداد تین گنا تھی۔مجاہدین تھکے ہوئے بھی تھے۔پانچ روزہ صحرائی سفر کے بعد وہ مسلسل پیش قدمی اور معرکہ آرائی کرتے آرہے تھے۔غسانیوں کے بادشاہ جبلہ نے ٹھیک سوچا تھا کہ مسلمان کوچ کی ترتیب میں آرہے ہوں گے اور انہیں جنگی ترتیب میں آتے کچھ وقت لگے گااور ان پر حملہ اس طرح ہوگا کہ انہیں سنبھلنے کا موقع نہیں ملے گا۔اس نے مسلمانوں کی قلیل تعداد کو بھی پیشِ نظر رکھا تھااور یہ کہ مسلمان میلے کو بے ضرر لوگوں کا میلہ ہی سمجھیں گے۔غسانیوں کو معلوم نہیں تھا کہ خالدؓمیلے پر نہیں آئے تھے۔وہ تجربہ کار سالار تھے۔انہیں اچانک حملوں کا تجربہ ہو چکا تھا،انہیں احساس تھا کہ جوں جوں وہ دشمن ملک کے اندر ہی اندر جا رہے ہیں ، حملوں اور چھاپوں کا خطرہ بڑھتا ہی جا رہا ہے، چنانچہ وہ لشکر کو ایسی ترتیب میں رکھتے تھے کہ اچانک اور غیر متوقع حملے کا فوراًمقابلہ کیا جائے۔ان کے عقب سے غسانیوں کے جو سوار طوفانی موجوں کی طرح آرہے تھے وہی مسلمانوں کو کچلنے کیلئے کافی تھے۔خالدؓ کی توجہ اس رسالے پر تھی اور وہ مطمئن تھے۔مجاہدین ایک مشین کی طرح اس صورتِ حال سے نمٹنے کی ترتیب میں آگئے۔خالدؓ نے خود نعرہ تکبیر بلند کیا جس کا مجاہدین نے رعد کی کڑک کی طرح جواب دیا۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے بلند آواز سے کچھ احکام دیئے۔’’خدا کی قسم!ہم انہیں سنبھال لیں گے۔‘‘خالدؓ نے بلند آواز سے کہا۔’’اﷲکے نام پر، محمد الرسول اﷲﷺ کے نام پر!‘‘*
*غسانیوں کا رسالہ بڑی تیزی سے قریب آرہا تھا۔اس کے پیچھے اور کچھ دائیں سے ایک اور رسالہ نکلا، سینکڑوں گھوڑے انتہائی رفتار سے دوڑے آرہے تھے۔ان کا رخ غسانی سواروں کی طرف تھا۔’’پیچھے دیکھو!‘‘کسی غسانی سوار نے چلّا کر کہا۔’’یہ مسلمان سوار معلوم ہوتے ہیں۔‘*

*پیچھے سے آنے والے سوار مسلمان ہی تھے ۔یہ مجاہدین کے لشکر کا عقبی حصہ )ریئر گارڈ(تھا۔ان سواروں نے غسانی سواروں کو آن لیا، غسانی سوار اس حملے کیلئے تیار نہیں تھے۔ان کا ہلّہ )چارج(بے ترتیب ہوتے ہوتے رک گیا۔ادھر سے خالدؓ نے اپنے سوار دستے کو تیز حملے کا حکم دے دیا۔غسانی سوار گھیرے میں آکر سکڑنے لگے، پھر وہ اتنے سکڑ گئے کہ ان کے گھوڑوں کو ایک قدم بھی دائیں بائیں اور آگے پیچھے ہلنے کی جگہ نہیں ملتی تھی۔اس کے ساتھ ہی خالدؓ نے شتر سوار تیر اندازوں کو میلے والے لشکر پر تیر برسانے کا حکم دے دیا اور دوسرے دستوں کو دشمن کے پہلوؤں پر حملے کیلئے بھیج دیا انہوں نے اپنے دستے کے سامنے سے حملہ کیا۔یہ عقل اور جذبے کی لڑائی تھی۔ غسانی پیادوں کو اپنے گھوڑ سواروں پر بھروسہ تھا جواَب مجاہدین کی تلواروں سے کٹ رہے تھے یا معرکے سے نکل کر بھاگ رہے تھے۔خالدؓکی کوشش یہ تھی کہ دشمن کے لشکر کے عقب میں چلے جائیں تاکہ دشمن شہر میں نہ جا سکے، خالدؓکے حکم سے غسانیوں کے خیموں کو آگ لگا دی گئی۔ یہ خیمے میلے کیلئے لگے ہوئے تھے۔شعلوں نے غسانیوں پر خوف طاری کر دیا۔ان کے حوصلے تو یہی دیکھ کر ٹوٹ گئے تھے کہ انہوں نے جو جال بچھایا تھا وہ بری طرح ناکام ہوگیا تھا۔غسانیوں کے پاؤں اکھڑنے لگے۔ان کا جانی نقصان اتنا زیادہ ہو رہا تھا کہ خون دیکھ کر وہ گھبراگئے۔آخر وہ بھاگنے لگے۔خالدؓ بار بار اعلان کرا رہے تھے کہ اپنے شہر کو تباہی سے بچانا چاہتے ہو تو باہر رہو۔شام تک خالدؓ اس شہر سے مالِ غنیمت اور بہت سے قیدی اکٹھے کر چکے تھے۔شہر میں ان عورتوں کے بَین سنائی دے رہے تھے جن کے خاوند بھائی باپ اور بیٹے مارے گئے تھے۔خالدؓنے رات کو ابو عبیدہؓ کے نام ایک پیغام بھیجا کہ وہ خالدؓ کو بصرہ کے قرب و جوار میں ملیں، بصرہ غسانی حکومت کا پایہ تخت تھا۔ غسانی اور رومی مل کر بصرہ کے دفاع کا انتظام کر رہے تھے۔ مجاہدین کا بڑا ہی سخت امتحان ابھی باقی تھا۔*

*وہ جو محمد ﷺکو اﷲکا بھیجا ہوا رسول نہیں مانتے تھے، اور اﷲکو واحدہ لا شریک نہیں سمجھتے تھے۔ وہ ابھی تک جنگی طاقت کو افراد کی کمی بیشی سے اور ہتھیاروں کی برتری اورکمتری سے ناپ تول رہے تھے۔حیران تو وہ ہوتے تھے کہ مسلمان کس طرح اور کس طاقت کے بل بوتے پر فتح حاصل کرتے آرہے ہیں، لیکن اپنی فوجوں اور گھوڑوں کی افراط اور اپنے ہتھیاروں کی برتری کا ان کو ایسا گھمنڈتھا کہ وہ سوچتے ہی نہیں تھے کہ انسان میں کوئی اور طاقت بھی ہو سکتی ہے اور یہ طاقت عقیدے اور مذہب کی سچائی ہوتی ہے۔غسانیوں کا بادشاہ جبلہ بن الایہم بصرہ میں اس خبر کا انتظار بڑی بے تابی سے کر رہا تھا کہ مرج راہط میں اس کا دھوکا کامیاب رہا ہے اور مسلمانوں کو کاٹ دیا گیا ہے۔اس نے فرض کر لیا تھا کہ مسلمانوں کو شکست دی جا چکی ہے۔اسے آخری اطلاع یہ ملی تھی کہ مسلمانوں کیلئے میلے کی صورت میں پھندا تیار ہوچکا ہے اور مسلمان تیزی سے اس پھندے میں آرہے ہیں۔جبلہ کے طور اور انداز ہی بدل گئے تھے ۔گذشتہ رات اس نے اپنے ہاں جشن کا سماں بنا دیاتھا۔شراب کے مٹکے خالی ہو گئے تھے۔جبلہ بن الایہم شراب میں تیرتا اور نشے میں اڑتا جوان ہو گیا تھا۔اس نے بڑھاپے کا مذاق اڑایا تھا۔اس نے یہ بھی نہیں دیکھا تھا کہ اس کے حرم کی جوان عورتیں من مانی کر رہی ہیں اور ان میں سے بعض اس کی قیدوبند سے آزاد ہو کر اپنی پسند کے آدمیوں کے ساتھ محل کے باغیچوں میں غائب ہو گئی ہیں۔خود جبلہ کی بدمستی کا یہ عالم تھا کہ اس جشنِ مے نوشی میں ایک بڑی حسین اور نوجوان لڑکی اس کے سامنے سے گزری تو اس نے لپک کر لڑکی کو پکڑ لیا اور اسے اپنے بازوؤں میں جکڑ کر بے ہودہ حرکتیں کرنے لگا۔لڑکی اس کے بازوؤں سے آزاد ہونے کو تڑپنے لگی۔’’تیری یہ جرات؟‘‘اس نے لڑکی کو الگ کرکے ایک جھٹکے سے اپنے سامنے کھڑا کیا اور بڑے سخت غصے میں بولا۔’’کون ہے تو جو میرے جسم کو ناپسند کر رہی ہے؟‘‘’’تیری بھانجی!‘‘لڑکی نے روتے ہوئے چلّا کر کہا۔’’تیرے باپ کی بیٹی کی بیٹی!‘‘جبلہ بن الایہم نے بڑی زور سے قہقہہ لگایا۔ ’’فتح کی خوشی کا نشہ شراب کے نشے سے تیز ہوتاہے۔‘‘جبلہ نے کہا۔اس کی آواز لڑکھڑا رہی تھی۔’’کل جب مجھے خبر ملے گی کہ مسلمانوں کو کچل دیا گیا ہے اور ان میں سے کوئی بھی بھاگ نہیں سکا تو میری حالت اور زیادہ بری ہو جائے گی۔‘‘اس کی بھانجی روتی ہوئی جشن سے نکل گئی۔پھر وہ وقت آگیا جب وہ مسلمانوں پر اپنی فتح کی خبر کا منتظر تھا۔اب تک خبر آجانی چاہیے تھی۔ وہ باغ میں جا بیٹھا تھا۔ایک جواں سال خادمہ طشتری میں شراب کی صراحی اور پیالہ رکھے اس کی طرف جا رہی تھی۔اُدھر سے دربان بڑا تیز چلتا اس تک پہنچا۔’’آیا ہے کوئی؟‘‘جبلہ نے بیتاب ہو کر دربان سے پوچھا۔’’کوئی مرج الراہط سے آیا ہے؟‘‘*

*’’قاصد آیا ہے۔‘‘دربان سے دبے دبے سے لہجے میں کہا۔’’زخمی ہے۔‘‘’’بھیجو اسے!‘‘جبلہ نے جوش سے اٹھتے ہوئے کہا۔’’وہ فتح کی خبر لایا ہے۔اسے جلدی میرے پاس بھیجو۔‘‘خادمہ طشتری اٹھائے اس کے قریب کھڑی تھی۔ادھر سے ایک زخمی چلا آرہا تھا۔’’وہیں سے کہو کہ تم فتح کی خبر لائے ہو۔‘‘جبلہ بن الایہم نے کہا۔زخمی قاصد نے کچھ نہ کہا۔وہ چلتا آیا۔اس کے کپڑے اپنے زخموں کے خون سے لال تھے۔اس کا سر کپڑے میں لپٹا ہو اتھا۔’’کیا تم اتنے زخمی ہو کہ بول نہیں سکتے؟‘‘جبلہ نے بلند آواز سے پوچھا۔’’بول سکتا ہوں۔‘‘قاصد نے کہا۔’’لیکن جو خبر لایا ہوں وہ اپنی زبان سے سنانے کی جرات نہیں۔‘‘’’کیا کہہ رہے ہو؟‘‘جبلہ کی آواز دب سی گئی۔’’کیا مسلمان پھندے میں نہیں آئے؟……آکر نکل گئے ہیں؟‘‘’’ہاں!‘‘قاصد نے شکست خوردہ آواز میں کہا۔’’وہ نکل گئے……انہوں نے ایسی چال چلی کہ ہم ان کے پھندے میں آگئے۔اپنی فوج کٹ گئی ہے۔مرج راہط کو انہوں نے لوٹ لیا ہے۔‘‘جبلہ بن الایہم نے طشتری سے شراب کی صراحی اٹھائی ۔خادمہ نے پیالہ اٹھا کر اس کے آگے کیا۔جبلہ نے صراحی بڑی زور سے قاصد پر پھینکی۔ قاصد بہت قریب کھڑا تھا۔صراحی ا س کے ماتھے پر لگی۔وہ تیورا کر گرا۔جبلہ نے خادمہ کے ہاتھ سے پیالہ چھین کر اس کے منہ پر مارا، اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلاگیا۔غسانیوں کے بادشاہ کامحل ماتمی فضاء میں ڈوب گیا، مرج راہط کے بھگوڑے غسانی بصرہ میں آگئے اور بصرہ ماتمی شہر بن گیا۔اصل ماتم تو ان کے یہاں تھا جن کے بیٹے بھائی خاوند اور باپ اس پھندے میں آکر مارے گئے تھے جو انہوں نے خالدؓ کے مجاہدین کیلئے تیار کیا تھا۔اس ماتم کے ساتھ ایک دہشت بھی آئی تھی اور یہ دہشت ہر گھر میں پہنچ گئی تھی۔’’ان کے تیر زہر میں بجھے ہوئے ہوتے ہیں۔کسی کو اس تیر سے خراش بھی آجائے تو وہ مر جاتا ہے۔‘‘’’ان کے گھوڑے پروں والے ہیں، کہتے ہیں ہوا سے باتیں کرتے ہیں۔‘‘’’ان مسلمانوں کا رسول )ﷺ(جادوگر تھا۔اس کا جادو چل رہا ہے۔‘‘’’ان کے سامنے لاکھوں کی فوج بھی نہیں ٹھہر سکتی۔‘‘’’سنا ہے دل کے بڑے نرم ہیں، جو ان کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں انہیں وہ گلے لگا لیتے ہیں۔‘‘’’جس شہر میں ان کا مقابلہ ہوتا ہے اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں۔‘‘’’کسی کو زندہ نہیں چھوڑتے، لڑنے والوں کو پکڑ کر لے جاتے ہیں۔‘‘دبی دبی ایسی آواز بھی سنائی دیتی تھی ۔’’مذہب ان کا سچا معلوم ہوتا ہے۔وہ اﷲاور اس کے رسولﷺکومانتے ہیں، یہی ان کی طاقت ہے ،جنون سے لڑتے ہیں۔‘‘ان لوگوں پر جو حیرت اور دہشت طاری ہو گئی تھی اس میں وہ حق بجانب تھے۔*

*’’تم لوگ بصرہ کو بھی نہیں بچا سکو گے۔‘‘جبلہ بن الایہم قہر بھرے لہجے میں اپنے سالاروں سے کہہ رہا تھا ۔’’تمہاری بزدلی کو دیکھ کر میں نے رومیوں کو مدد کیلئے پکارا ہے،اگر تم مسلمانوں کو شکست دے دیتے تو میں رومیوں کے سینے پر کودتا۔ان پر میری دھاک بیٹھ جاتی۔مگر تم نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔رومی ہمارے پایہ تخت کی حفاظت کرنے آئے ہیں۔‘‘وہ اپنے سالاروں کوکوس ہی رہا تھا کہ اسے اطلاع ملی کہ مسلمانوں کی ایک فوج بصرہ کی طرف بڑھ رہی ہے۔’’اتنی جلدی؟‘‘اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔’’مرج راہط سے وہ اتنی جلدی بصرہ تک کس طرح آگئے ہیں؟رومی سالار کو اطلاع دو۔‘‘رومی فوج جو خالدؓ کی کامیابیوں کی خبریں سن کر جبلہ بن الایہم کی مددکو آئی تھی وہ بصرہ کے باہر خیمہ زن تھی، اس کے سالار کو اطلاع ملی کہ مسلمانوں کی فوج آرہی ہے توسالار نے فوج کو تیاری کا حکم دے دیا،اس فوج میں عرب عیسائی بھی تھے۔فوج جو بصرہ کی طرف بڑھ رہی تھی وہ خالدؓ کی نہیں تھی۔یہ ایک مسلمان سالار شرجیلؓ بن حسنہ کا لشکر تھا، جس کی نفری چار ہزار تھی۔مسلمان لشکر جو شام کی فتح کیلئے بھیجا گیا تھایہ اس کا حصہ تھا۔خلیفۃ المسلمینؓ کے احکام کے مطابق سالار ابو عبیدہؓ نے لشکر کے دوسرے حصوں کو بھی یکجا کرکے اپنی کمان میں لے لیا تھا۔بصرہ پر شرجیلؓ بن حسنہ کے حملے کا پس منظر یہ تھا کہ خلیفۃ المسلمینؓ نے ابو عبیدہؓ کو ایک خط لکھا تھا:’’میں نے خالد بن ولید کو یہ کام سونپاہے کہ رومیوں پر چڑھائی کرے۔تم پر اس کی اطاعت فرض ہے۔کوئی کام اس کے حکم کے خلاف نہ کرنا۔ میں نے اسے تمہارا امیر مقررکیا ہے۔مجھے احساس ہے کہ دین کے باقی معاملات میں تم خالد سے برترہو اور تمہارا رتبہ اونچا ہے لیکن جنگ کی جو مہارت خالد کو ہے وہ تمہیں نہیں۔اﷲہم سب کو صراط المستقیم پر چلنے کی توفیق دے۔‘‘خالدؓ کو اس لشکر کا سالارِ اعلیٰ مقرر کیا گیا۔جس وقت خالدؓ اپنے رستے میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو کچلتے جا رہے تھے، اس وقت ابو عبیدہؓ فارغ بیٹھے تھے۔خالدؓنے جب مرج راہط کے مقام پر بھی دشمن کو شکست دے دی تو ابو عبیدہؓ نے اپنے سالاروں کو بلایا، اس وقت ابو عبیدہؓ کے دستے دریائے یرموک کے شمال مشرق میں ایک مقام حوران میں تھے۔ان کے ماتحت دو سالار تھے ایک شرجیلؓ بن حسنہ اور دوسرے یزیدؓ بن ابی سفیان۔*
*’’رفیقو!‘‘ابو عبیدہؓ نے دونوں سالاروں سے کہا۔’’ہم کس طرح شکر ادا کریں اﷲتبارک وتعالیٰ کا جو ابنِ ولید کو راستے میں آنے والے ہر دشمن پر حاوی کرتا آ رہا ہے۔*
*کیا تم نےنہیں سوچا کہ ہم ابنِ ولید کے کسی کام نہیں آرہے؟وہ جوں جوں آگے بڑھتا جا رہا ہے ، اس کی مشکلات خطرناک ہوتی جا رہی ہیں۔اس کا لشکر تھک کر بے حال ہو چکا ہو گا،آگے دمشق ہے،بصرہ ہے۔ غسانی ہیں، عیسائی اوررومی ہیں، کیا یہ تینوں یہ نہیں سوچ رہے ہوں گے کہ مسلمانوں کو آگے آنے دیں اور جب وہ مسلسل کوچ اورلڑائیوں سے شل ہو جائیں اور ان کی نفری کم ہو جائے تو انہیں کسی مقام پر گھیر کر ختم کر دیا جائے؟‘‘’’رومیونے ایسا ضرور سوچا ہوگا۔‘‘سالار یزیدؓ نے کہا۔’’رومی لڑنے والی قوم ہے،اور اس کے سالار عقل والے ہیں۔‘*
*’’خدا کی قسم!میں رومیوں کو ایسا موقع نہیں دوں گا۔‘‘ ابو عبیدہؓ نے پر جوش لہجے میں کہا۔’’کیا ہم اتنی دور سے ابنِ ولید کی کوئی مدد نہیں کر سکتے؟……بے شک کر سکتے ہیں۔‘‘’’تو نے جو سوچا ہے وہ ہمیں بتا ابو عبیدہ!‘‘شرجیلؓ بن حسنہ نے کہا ۔’’ اﷲاس کا مددگار ہے۔‘‘’’ابنِ ولید کے آگے دمشق اور بصرہ دو ایسے مقام ہیں جہاں رومیوں اور غسانیوں نے اپنی فوجیں جمع کر رکھی ہوں گی۔‘‘ابوعبیدہؓ نے کہا۔’’اس سے پہلے کہ سالارِ اعلیٰ ابنِ ولید بصرہ پہنچے ہم بصرہ پر حملہ کردیتے ہیں۔اس سے یہ ہوگا کہ رومی اور غسانی بھی تازہ دم نہیں رہیں گے……ابنِ حسنہ!‘‘ابو عبیدہؓ نے شرجیلؓ سے کہا۔’’میں یہ کام تمہیں سونپتا ہوں۔چار ہزار نفری کافی ہوگی۔‘‘ابو عبیدہؓ نے سالار شرجیلؓ بن حسنہ کو ہدایات دیں اور بصرہ کو روانہ کر دیا۔اس وقت خالدؓ مرج راہط سے فارغ ہو چکے تھے ،اور انہوں نے ابو عبیدہؓ کے نام یہ پیغام دے کر قاصد روانہ کر دیا تھا کہ ابو عبیدہؓ اپنے دستوں کے ساتھ انہیں بصرہ کے قریب کہیں ملیں، خالدؓ نے مرج راہط کے قصبے کے باہر دو چار روز قیام کیا تھا،۔*
*شرجیلؓ چار ہزار مجاہدین کے ساتھ بصرہ پہنچ گئے……رومی بصرہ کے باہر خیمہ زن تھے ، وہ سمجھے یہ خالدؓکی فوج ہے۔ان کے جاسوسوں نے انہیں بتایا کہ اس فوج کا سالار کوئی اور ہے۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ رومی سالار یہ سمجھے کہ یہ مسلمانوں کی فوج کا ہراول ہے اور پوری فوج پیچھے آرہی ہے……وہ مان نہیں سکتے تھے کہ اتنی فوج اتنے بڑے لشکر کو محاصرے میں لینے آئی ہوگی۔رومی فوج جس کی تعداد بارہ ہزار تھی قلعے کے اندر چلی گئی ۔بصرہ قلعہ بند شہر تھا۔شرجیلؓ نے قلعے کے قریب مغرب کی طرف کیمپ کیا اور اپنے لشکر کو کئی دستوں میں تقسیم کرکے قلعے کے ہر طرف متعین کر دیا۔دودن گزر گئے۔رومی اور غسانی قلعے کی دیواروں کے اوپر سے مسلمانوں کو دیکھتے رہے۔شرجیلؓ نے قلعے کے اردگرد کچھ نہ کچھ حرکت جاری رکھی۔ دشمن قلعے سے دور دور بھی دیکھتا تھا ۔اسے توقع تھی کہ مسلمانوں کی پوری فوج آرہی ہے۔اسے اب اپنے جاسوسوں کے ذریعے کوئی خبر نہیں مل سکتی تھی کیونکہ قلعہ محاصرے میں تھا۔*
*سالار شرجیلؓ بن حسنہ کے متعلق یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ رسولِ کریمﷺکے قریبی صحابیؓ تھے۔جو صحابہ کرامؓ وحی لکھتے تھے ، ان میں شرجیلؓ بن حسنہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔اسی حوالے سے انہیں کاتبِ رسول کہا جاتا تھا۔شرجیلؓ کا زہدوتقویٰ تو مشہور تھا ہی ، وہ فن حرب و ضرب اور میدانِ جنگ میں قیادت کی مہارت رکھتے اور کہا کرتے تھے کہ انہوں نے یہ فن خالدؓ سے یمامہ کی جنگ میں پھر آتش پرستوں کے خلاف لڑائیوں میں سیکھا ہے۔محاصرہ بصرہ کے وقت ان کی عمر ستر سال سے کچھ ہی کم تھی، جذبے اور جوش و خروش کے لحاظ سے وہ جوان تھے اور ان کی شہسواری اور تیغ زنی جوانوں جیسی ہی تھی۔محاصرے کا تیسرا دن تھا، رومیوں کو یقین ہو گیا کہ مسلمانوں کی نفری اتنی ہی ہے جس نے محاصرہ کررکھا ہے۔اگر مزید فوج نے آنا ہوتا تو اب تک آچکی ہوتی۔چنانچہ انہوں نے اپنی بارہ ہزار نفری کی فوج باہر نکال لی۔نفری کی افراط کے بل پر وہ ایسی دلیرانہ کارروائی کر سکتے تھے۔مسلمان کل چار ہزار تھے۔*
*شرجیلؓ نے بڑی تیزی سے اپنے دستوں کو اکٹھاکرکے جنگی ترتیب میں کرلیا۔اس طرح دونوں فوجیں آمنے سامنے آ گئیں۔’’اے رومیو!‘‘شرجیلؓ نے آگے آکر بلند آواز سے کہا۔’’خدا کی قسم!ہم بھاگنے کیلئے نہیں آئے۔اپنی پہلی شکستوں کو یاد کرو، تم ہر میدان میں ہم سے زیادہ تھے۔خون خرابے سے تم بچتے کیوں نہیں؟ہماری شرطیں سن لو اور اپنے شہر اور اپنی آبادی کو تباہی سے بچالو۔‘‘’’ہم شکست کھانے کیلئے باہر نہیں آئے۔‘‘رومی سالارنے آگے آکر کہا۔’’واپس چلے جاؤ اور زندہ رہو، وہ کوئی اور تھے جنہوں نے تم سے شکستیں کھائی ہیں۔‘‘’’خدا کی قسم!ہم لڑائی سے منہ نہیں موڑیں گے۔‘‘شرجیلؓ نے اعلان کیا۔’’لیکن تمہیں ایک موقع دیں گے کہ سوچ لو، آگے آؤاور ہماری شرطیں سن لو۔‘‘مکالموں اور للکار کا تبادلہ ہوا، اور رومی سالاروں نے شرائط پر بات چیت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ان کا سپہ سالار آگے گیا۔ادھر سے شرجیلؓ بن حسنہ آگے گئے۔’’بول اے مسلمان سالار!‘‘رومی سالار نے کہا۔’’اپنی شرائط بتا۔‘‘’’اسلام قبول کرلو۔‘‘ شرجیلؓ نے کہا۔’’یہ منظور نہیں تو جزیہ ادا کرو۔یہ بھی منظور نہیں تو لڑائی کیلئے تیار ہو جاؤ۔‘‘*
*’’ہم اپنا مذہب نہیں چھوڑیں گے اور ہم جزیہ نہیں دیں گے ۔لڑائی کیلئے ہم تیار ہیں۔‘‘اس کے ساتھ ہی رومی سالار نے مسلمانوں پر حملے کا حکم دے دیا۔رومیوں کی تعداد تین گنا تھی۔شرجیلؓ نے اپنے چار ہزار مجاہدین کو جنگی ترتیب میں صف آراء کررکھا تھا۔انہیں اپنی نفری کی قلت کا احساس بھی تھا۔انہون نے اپنے دونوں پہلوؤں کو پھیلا دیا تھا تاکہ دشمن گھیرے میں نہ لے سکے۔رومی جنگجو تھے اور ان کے سالار تجربہ کار تھے۔وہ مسلمانوں کو گھیرے میں لینے کی ہی کوشش کر رہے تھے ،لڑائی گھمسان کی تھی ، شرجیلؓ قاصدوں کو دائیں بائیں دوڑا رہے تھے اور مجاہدین کو للکار بھی رہے تھے ، مجاہدین اپنی روایت کے مطابق بے جگری سے لڑ رہے تھے لیکن رومی بارہ ہزار تھے ۔*
*ان کے سالار انہیں دائیں بائیں پھیلاتے جا رہے تھے ۔شرجیلؓ نے اپنے دائیں اور بائیں دیکھا تو انہیں اپنے دستوں کی صورتِ حال بڑی تشویشناک دکھائی دی۔ایسی صورت حال پسپائی کا مطالبہ کیا کرتی ہے لیکن شرجیلؓ کی للکار پر مجاہدین کا جوش اور جذبہ بڑھ گیا۔وہ پسپائی کے نام سے ناواقف تھے ، ان پر جنونی کیفیت طاری ہو گئی اور چارپانچ گھنٹے گزر گئے۔پھر وہ صورت پیدا ہو گئی جس سے شرجیلؓ بچنے کی کوشش کر رہے تھے ، دشمن کے پہلو پھیل کر مسلمانوں کے پہلوؤں سے آگے نکل گئے تھے۔وہ گھیرے میں آچکے تھے۔’’اندر کی طرف نہیں سکڑنا۔‘‘شرجیلؓ نے اپنے دونوں پہلوؤں کے کمانداروں کو پیغام بھیجے۔’’ باہر کی طرف ہونے کی کوشش کرو۔‘‘شرجیلؓ کی چالیں بے کار ہونے لگیں۔بے شک مسلمانوں کا جذبہ رومیوں کی نسبت زیادہ تھا لیکن رومی تعداد میں اتنے زیادہ تھے کہ مسلمانوں پر غالب آسکتے تھے۔*

*’’اﷲکے پرستارو!‘‘شرجیل نے للکار کر کہا۔’’فتح یا موت……فتح یا موت……فتح یا موت……اﷲسے مددمانگو۔ اﷲکی راہ میں جانیں دیدو۔اﷲکی مدد آئے گی۔‘‘مسلمانوں کیلئے یہ زندگی اور موت کا معرکہ بن گیا تھا۔شرجیلؓ کی پکار اور للکار پر مجاہدین نے بلند آواز سے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کر دیا جس سے انہیں تقویت ملی لیکن رومی ان پر حاوی ہو گئے تھے،مسلمانوں کے جوش اور جذبے میں قہر پیدا ہو گیاتھا۔رومی فوج مسلمانوں کے عقب میں چلی گئی ، اب مسلمانوں کا کچلا جانا یقینی ہو گیا تھا۔رومی جو مسلمانوں کے عقب میں چلے گئے تھے ،انہیں اپنے عقب میں گھوڑے سر پٹ دوڑنے کا طوفانی شور سنائی دیا۔انہوں نے پیچھے دیکھا تو سینکڑوں گھوڑے ان کی طرف دوڑے آرہے تھے۔ان کے آگے دو سوار تھے جن کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں۔ان میں سے ایک کے سر پر جو عمامہ تھا اس کا رنگ سرخ تھا……وہ خالدؓ تھے۔خالدؓ اپنے لشکر کے ساتھ بصرہ کی طرف آرہے تھے۔ان کے راستے میں دمشق آیا تھا لیکن وہ دمشق سے ہٹ کر گزر آئے تھے، پہلے وہ بصرہ کو فتح کرنا چاہتے تھے۔یہ ﷲکے اشارے پر ہوا تھا۔اﷲنے کاتبِ رسولﷺ کی پکار اور دعا سن لی تھی۔ خالدؓ جب کوچ کرتے تھے تو اپنے جاسوسوں کو بہت آگے بھیج دیا کرتے تھے۔ بصرہ کی طرف آتے وقت بھی انہوں نے جاسوسوں کو بہت آگے بھیج دیا تھا۔ؒخالدؓ بصرہ سے تقریباًایک میل دور تھے۔جب ان کا ایک شتر سوار جاسوس اونٹ کو بہت تیز دوڑاتا واپس خالدؓ کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ مسلمانوں کا کوئی لشکر بصرہ کے باہر رومیوں کے گھیرے میں آرہا ہے۔*
*‘ ‘کون ہے وہ سالار؟‘‘خالدؓ نے کہا اور سوار دستوں کو ایڑھ لگانے اور برچھیاں اور تلواریں نکال لینے کا حکم دے دیا۔خالدؓکے ساتھ جو دوسرا سوار گھوڑ سواروں کے آگے آگے آرہا تھا وہ خلیفۃ المسلمینؓ کا بیٹا عبدالرحمٰنؓ تھا۔ اس نے اﷲاکبر کا نعرہ لگایا۔رومیوں نے مقابلے کی نہ سوچی۔ان کے سالاروں نے تیزی دکھائی، اپنے پہلوؤں کے دستوں کو پیچھے ہٹا لیا اور اپنے تمام دستوں کو قلعے کے اندر لے گئے۔ ان کا مسلمانوں کی تلواروں سے کٹ جانا یقینی تھا۔قلعے میں داخل ہوتے ہوتے مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا اور کئی رومیوں کو ختم کردیا۔قلعے کے دروازے بند ہو گئے۔خالدؓغصے میں تھے۔انہوں نے ایک حکم یہ دیا کہ زخمیوں اور لاشوں کو سنبھالو، اور دوسرا حکم یہ کہ تمام لشکر اکٹھا کیا جائے، انہوں نے سالار شرجیلؓ بن حسنہ کو بلایا۔’’ولیدکے بیٹے!‘‘شرجیلؓ نے آتے ہی خالدؓ سے کہا۔’’خدا کی قسم!تو اﷲکی تلوار ہے۔تو اﷲکی مدد بن کر آیا ہے۔‘‘’’لیکن تو نے یہ کیا کیا ابنِ حسنہ!‘‘خالدؓ نے غصے سے کہا۔’’کیا تو یہ نہیں جانتا کہ یہ قصبہ دشمن کا مضبوط قلعہ ہے اور یہاں بے شمار فوج ہوگی؟کیا اتنی تھوڑی نفری سے تو یہ قلعہ سر کر سکتا تھا؟‘‘’’میں نے ابو عبیدہ کے حکم کی تعمیل کی ہے ابنِ ولید!‘‘شرجیلؓ نے کہا-*
*’’آہ ابوعبیدہ!‘‘خالدؓنے آہ لے کر کہا۔’’میں اس کا احترام کرتا ہوں۔*

*جزاکم اللہ خیرا۔*

*جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔* 👇🏻
                 *اسلامک ہسٹری*

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─