┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

*《▪•♡• شمشیرِ بے نیام •♡•▪》*
 *حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ*

*( قسط نمبر-60)*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*مؤرخ لکھتے ہیں کہ معمر پادری پر خاموشی طاری ہو گئی،اور وہ کچھ دیر خالدؓکے منہ کی طرف دیکھتا رہا۔’’شاید یہی وجہ ہے۔‘‘پادری نے ذرا دبی زبان میں کہا۔’’یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ فتح ہمیشہ تمہاری ہوتی ہے۔‘‘’’وہ بات کر معزز پادری جو تو کرنے آیا ہے۔‘‘خالدؓنے کہا۔*
*’’ہاں!‘‘پادری نے جیسے بیدار ہوکر کہا۔’’اے عرب سے فتح کی امید لے کر آنے والے!کیا تو نہیں جانتا کہ جس زمین پر تو فوج لے کر آیا ہے،اس پر کسی بادشاہ کو کبھی پاؤں رکھنے کی جرات نہیں ہوئی تھی؟ تو اپنے آپ کوکیا سمجھ کر یہاں آگیا ہے، فارسی آئے تھے لیکن ان پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ بھاگ گئے کئی دوسرے بھی آئے تھے وہ بڑی بہادری سے لڑے تھے لیکن ناکامی اور مایوسی کے سوا انہیں کچھ حاصل نہ ہوا، اور وہ چلے گئے……تجھے ہمارے خلاف کچھ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں لیکن یہ خیال دماغ سے نکال دے کہ ہر میدان میں فتح تو ہی پائے گا۔‘‘مؤرخوں کے مطابق خالدؓ خاموشی سے سن رہے تھے، اور بوڑھا پادری پُر اثر لہجے میں بول رہا تھا۔’’میرا سپہ سالار وردان جومیرا آقا ہے، تجھ پر کرم اور نوازش کرنا چاہتا ہے ۔‘‘پادری کہہ رہا تھا۔’’اس سے بڑی نوازش اور کیا ہوگی کہ اس نے تیری فوج کو کاٹ دینے کے بجائے مجھے یہ پیغام دے کر تیرے پاس بھیجا ہے کہ اپنی فوج کو ہمارے ملک سے واپس لے جا۔میرا آقا تیرے ہر سپاہی کو ایک دینار، ایک قبا، اور ایک عمامہ دیگا اور تجھے ایک سو عمامے، ایک سو قبائیں، اور ایک سو دینارعطا کرے گا۔تیرے لیے یہ فیاضی معمولی نہیں،کیا تو نہیں دیکھ رہا کہ ہمارا لشکر ریت کے ذروں کی طرح بے حساب ہے؟تو جن فوجوں سے لڑ چکا ہے ہماری فوج ان فوجوں جیسی نہیں۔ تو نہین جانتا کہ اس فوج پر قیصر روم کا ہاتھ ہے۔ اس نے منجھے ہوئے تجربہ کار سالار اور چوٹی کے پادری اس فوج کو دیئے ہیں……بول……تیرا کیا جواب ہے؟ انعام چاہتا ہے یا اپنی اور اپنی فوج کی تباہی؟‘‘’’دو میں سے ایک!‘‘خالدؓنے جواب دیا۔’’میری دو شرطوں میں سے ایک پوری کر دو تو میں اپنی فوج کو لے کر چلاجاؤں گا……اپنے آقا سے کہو کہ اسلام قبول کر لو یا جزیہ ادا کرو،اگر نہیں تو ہماری تلواریں فیصلہ کریں گی۔میں تیرے آقا کے کہنے پر واپس نہیں جاؤں گا……تیرے آقا نے جو دینار قبائیں اور عمامے پیش کیے ہیں وہ تو ہم وصول کر ہی لیں گے۔‘‘’’ایک بار پھر سوچ عربی سالار!‘‘’’عرب کے سالار نے سوچ کر جواب دیا ہے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’جا اپنے آقا تک میرا جواب پہنچا دے۔‘‘بوڑھے پادری نے رومی سپہ سالار وردان کو خالدؓ کا جواب دیا۔’’عرب کے ڈاکوؤں کی یہ جرات؟‘‘وران نے غصے سے پھٹتے ہوئے کہا۔’’کیا وہ نہیں جانتے کہ میں ان سب کو ایک ہی ہلہ میں ختم کر سکتا ہوں؟‘‘اس نے اپنی سپاہ کی طرف گھوڑا گھما کر حکم دیا۔’’تیر انداز آگے جائیں اور ان بد بختوں کو فنا کرنے کیلئے تیار ہو جائیں، فلاخن بھی آگے لے آؤ۔‘‘تیر انداز آگے آئے تو مسلمانوں کے قلب کے سالار معاذؓ بن جبل نے اپنے دستوں کو حملے کی تیاری کا حکم دیا۔’’ٹھہر جا ابنِ جبل!‘‘خالدؓنے کہا۔’’جب تک میں نہ کہوں حملہ نہ کرنا۔*

*سورج سر پر آکر آگے جانے لگے گا تو ہم حملہ کریں گے۔‘‘’’ابنِ ولید!‘‘معاذؓ بن جبل نے کہا۔’’کیا تو نہیں دیکھ رہا کہ ان کی کمانیں ہم سے اچھی اور بڑی ہیں جو بہت دور تک تیر پھینک سکتی ہیں؟وہ ہمارے تیر اندازوں کی زد سے دور ہیں ۔میں ان تیر اندازوں پر حملہ کرکے انہیں بیکار کرناچاہتا ہوں، ان کے فلاخن دیکھو۔ یہ پتھر برسائیں گے۔‘‘’’رومی ترتیب میں کھڑے ہیں ۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ہم نے حملے میں پہل کی تو ہمیں پسپا ہونا پڑے گا ۔ان کی ترتیب ذرا اکھڑنے دو۔ان کا کوئی نہ کوئی کمزور پہلو ہمارے سامنے آجائے گا۔‘‘رومیوں نے کچھ دیر انتظار کیا،مسلمانوں نے کوئی حرکت نہ کی تو وردان کے حکم پر اس کے تیر اندازوں نے تیروں کی بوچھاڑیں پھینکنی شروع کر دیں اور فلاخن سے وہ پتھر پھینکنے لگے۔کئی مسلمان شہید اور زخمی ہو گئے۔خالدؓنے یہ نقصان دیکھ کر بھی حملے کاحکم نہ دیا۔رومی تیر اندازوں کو تیروں سے مؤثر جواب نہیں دیا جا سکتا تھا کیونکہ مسلمانوں کی کمانیں نسبتاً چھوٹی ہونے کی وجہ سے دور تک تیر نہیں پھینک سکتی تھیں۔اُدھر سے تیر اور پتھر آتے رہے۔ تب مسلمانوں میں ہیجان اور اضطراب نظر آنے لگا،وہ حملہ کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں حکم نہیں مل رہا تھا۔سالار ضرار بن الازور دوڑے دوڑے خالدؓکے پاس گئے۔’’ابنِ ولید!‘‘ضرار نے خالدؓ سے کہا۔’’تو کیا سوچ رہاہے؟کیا تو دشمن کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ ہم اس سے ڈر گئے ہیں؟……اگر ﷲہمارے ساتھ ہے تو مت سوچ !حملے کا حکم دے۔‘‘خالدؓکے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی، یہ اطمینان اور سکون کی مسکراہٹ تھی۔ ان کے سالار اور سپاہی پسپائی کے بجائے حملے کی اجازت مانگ رہے تھے۔’’ابن الازور!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تو آگے جا کر دشمن کو مقابلے کیلئے للکار سکتا ہے۔‘‘ضرار نے زرہ اورخود پہن رکھی تھی۔ان کے ایک ہاتھ میں چمڑے کی ڈھال اور دوسرے ہاتھ میں تلوار تھی۔انہوں نے پچھلے ایک معرکے میں یہ ڈھال ایک رومی سے چھینی تھی،ضرار آگے گئے تو رومی تیر اندازوں نے اپنے سالار کے حکم سے کمانیں نیچے کرلیں۔*
*یہ اس زمانے کا رواج تھا کہ فوجوں کی لڑائی سے پہلے دونوں فوجوں میں سے کسی ایک کا ایک آدمی اپنے دشمن کو انفرادی مقابلے کیلئے للکارتا تھا۔اُدھر سے ایک آدمی آگے آتااور دونوں زندگی اور موت کا معرکہ لڑتے تھے۔اس کے بعد جنگ شروع ہوتی تھی۔مقابلے کیلئے للکارنے والا اپنے دشمن کو توہین آمیز باتیں کہتا تھا۔ضرار بن الازور رومیوں کے سامنے گئے اور انہیں للکارا:’’میں سفید چمڑی والوں کیلئے موت کا پیغام لایا ہوں۔‘‘*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*’’رومیو!میں تمہارا قاتل ہوں۔‘‘’’میں خدا کا قہر بن کر تم پر گروں گا۔‘‘’’میرا نام ضرار بن الازور ہے۔‘‘رومیوں کی طرف سے ضرار کے مقابلے کیلئے آنا تھا لیکن چار پانچ رومی سوار آگے آگئے۔ضرار نے پہلے اپنی خود اتاری پھر زرہ اتاری پھر قمیض بھی اتاردی، اور کمر تک برہنہ ہو گئے۔تب ان رومیوں نے انہیں پہچانا جو بصرہ میں انہیں اس حالت میں لڑتے دیکھ چکے تھے،اور وہ یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ اس شخص میں جنات جیسی پھرتی اور طاقت ہے حقیقت بھی یہی تھی۔ضرار ایک سے زیادہ آدمیوں کا مقابلہ کرنے کی خصوصی مہارت رکھتے تھے۔ضرار کے مقابلے میں جو رومی آئے تھے ان میں دوسالار بھی تھے۔ایک طبریہ کا اور دوسرا عمان کا حاکم یا امیر تھا۔باقی بھی کوئی عام سپاہی نہیں تھے۔وہ کمانداروں کے رتبے کے تھے۔انہوں نے ضرار کو گھیرے میں لینے کیلئے گھوڑوں کے رخ موڑے۔ضرار نے اچانک گھوڑے کو ایڑ لگائی اور جب وہ عمان کے حاکم کے قریب سے گزر گئے تو یہ سالار اپنے گھوڑے کی پیٹھ پر ہی دوہرا ہو گیا پھر گھوڑے سے لڑھک کر نیچے جا پڑا۔ضرار کی تلوار اس کے پہلو سے اس کے جسم میں گہری اتر گئی تھی۔حیران کن پھرتی سے ضرار کا گھوڑا مڑااور ایک اور رومی ان کی تلوار سے کٹ کر گرا۔ضرار ایسی چال چلتے اور ایسا پینترا بدلتے تھے کہ رومی سواروں کے دو تین گھوڑے آپس میں ٹکراجاتے یا ایک دوسرے کے آگے آجاتے تھے۔اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ضرار ان میں سے ایک کو تلوار سے کاٹ جاتے تھے۔کوئی رومی سوار گرتا تھا تو مسلمان بڑے جوش سے نعرے لگاتے تھے۔ضرار کا یہ عالم تھا جیسے ان میں مافوق الفطرت طاقت آگئی ہو۔اپنے مقابلے میں آنے والے رومیوں میں سے زیادہ تر کو انہوں نے گرا دیا۔ان میں سے ایک دو ایسے بھی تھے جنہیں مہلک زخم نہیں آئے تھے لیکن وہ دوڑتے گھوڑوں کے قدموں تلے کچلے گئے۔دو رومی سوار بھاگ کر اپنے لشکر میں چلے گئے-*
*ضرارفاتحانہ انداز سے خون ٹپکاتی تلوار کو لہراتے اور رومیوں کو للکار رہے تھے:’’میں سفید چمڑی والوں کا قاتل ہوں……رومیو!میری-تلوار تمہارے خون کی پیاسی ہے۔‘‘مؤرخوں )واقدی، ابنِ ہشام اور طبری(نے لکھاہے کہ دس رومی سوار گھوڑے دوڑاتے آگے آئے۔یہ سب سالاری سے ذرا نیچے کے عہدوں کے رومی تھے۔خالدؓ نے جب دس سواروں کو آگے آتے دیکھاتو اپنے محافظ دستے میں سے انہوں نے دس سوار منتخب کیے اور انہیں آگے لے گئے۔رومی سوار ضرار کی طرف آرہے تھے۔خالدؓ نے نعرہ لگایا۔’’خدا کی قسم!ضرار کو اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔‘‘اس کے ساتھ انہوں نے اپنے دس سواروں کو اشارہ کر کے گھوڑے کو ایڑ لگائی۔دس سوار ان کے ساتھ گئے۔رومی سواروں کی نظریں ضرار پر لگی ہوئی تھیں۔خالدؓ اور ان کے سوار رومی سواروں پر جا جھپٹے۔ضرار کی تلوار بھی حرکت میں آگئی۔رومیوں نے مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن خالدؓ اور ان کے سواروں کی تیزی اور تندی نے رومیوں کی ایک نہ چلنے دی اور سب کٹ گئے۔رومی سالاروں نے اسے اپنی بے عزتی سمجھااور مزید آدمیوں کو انفرادی مقابلوں کیلئے آگے بھیجنے لگے۔ضرار نے ان میں سے دو تین کو ہلاک کر دیا۔*
*مقابلے کیلئے آگے آنے والے ہر رومی کے ساتھ ضرار ہی مقابلہ کرنا چاہتے تھے لیکن خالدؓ نے انہیں پیچھے بلالیا، اور دوسرے مجاہدین )تاریخوں میں ان کے نام نہیں(کو باری باری آگے بھیجا۔ہر مقابلے میں مجاہدین فاتح رہے۔ دونوں فوجوں کے درمیان بہت سے رومیوں کی لاشیں پڑی تھیں۔*

*مؤرخوں کے مطابق یہ مقابلے کم و بیش دو گھنٹے جاری رہے اور سورج اس مقام پر آگیاجس مقام پر خالدؓ چاہتے تھے کہ آجائے تو حملہ کریں گے۔مقابلوں کے دوران تیر انداز اور فلاخن سے پتھر پھینکنے والے خاموش کھڑے تھے۔مقابلہ ابھی جاری تھا، خالدؓ نے حملے کا حکم دے دیا۔یہ عام قسم کا حملہ تھا جسے ہلہ یا چارج کہا جاتا ہے۔اس سے پہلے رومی تیر اندازاور فلاخن بہت بڑی رکاوٹ تھے۔انہیں خاموش دیکھ کر خالدؓ نے حملہ کیا تھا۔حملہ اتنا زور دار تھا اور مجاہدین میں اتنا قہر بھرا ہواتھاکہ رومی سالارِ اعلیٰ وردان کو کوئی چال چلنے کی مہلت ہی نہ ملی۔وہ اپنے لشکر کے آگے کھڑا مقابلے دیکھ رہا تھا، اس نے پیچھے کو بھاگ کر اپنی جان بچائی۔توقع یہ تھی کہ وردان اپنی تعداد کی افراط کے بل بوتے پر اپنے پہلوؤں کو آگے بڑھا کر خالدؓ کے پہلوؤں سے آگے نکلنے اور عقب میں آنے کی کوشش کرے گا لیکن اسے اتنا ہوش ہی نہیں تھا،اس نے اپنے لشکر کو پھیلانے کے بجائے اس کی گہرائی زیادہ کر دی تھی یعنی دستوں کے پیچھے دستے رکھے تھے۔اس کی یہ ترتیب بڑی اچھی تھی،لیکن خالدؓکی چال نے اس کی ترتیب کو اس کیلئے ایک مسئلہ بنا دیا۔مسلمان دستوں نے سامنے سے حملہ کیا تو رومیوں کے اگلے دستے پیچھے ہٹنے لگے۔پچھلے دستوں کو اور پیچھے ہونا پڑا۔پھر ان کی ترتیب گڈ مڈ ہوگئی۔مسلمانوں کو اس سے بہت فائدہ پہنچا، یہ بڑا ہی شدید معرکہ تھا اور بڑا ہی خونریز۔سورج مغرب کی سمت ڈھل گیا تھا۔خالدؓنے محسوس کیا کہ مجاہدین تھک گئے ہوں گے،انہوں نے مجاہدین کو معرکے سے نکلنے کا حکم دیا۔ ایسے لگا کہ رومی سالار بھی یہی چاہتے تھے۔انہوں نے اپنے دستوں کو پیچھے ہٹانا بہتر سمجھا۔جب دونوں فوجیں پیچھے ہٹیں تو پتہ چلا کہ رومی ہزاروں کی تعداد میں مارے گئے ہیں، اور زخمیوں کی تعداد بھی بے شمار ہے۔اس کے مقابلے میں مسلمانوں کا نقصان بہت ہی تھوڑا تھا۔سورج غروب ہونے کو تھا اس لیے دونوں میں سے کوئی بھی فوج حملہ نہیں کر سکتی تھی ۔اس طرح پہلے روز کی جنگ ختم ہو گئی۔رات کو دونوں فوجوں کے سالاروں نے اپنے اپنے نائب سالاروں وغیرہ کو بلایا، اور اپنے اپنے نقصان کا جائزہ لینے لگے اور اگلی کاروائی کے متعلق سوچنے لگے۔رومیوں کے سالارِ اعلیٰ وردان کی کانفرنس میں گرما گرمی زیادہ تھی۔وردان نے صاف کہہ دیا کہ جنگ کی یہی صورتِ حال رہی جو آج ہو گئی تھی تو نتیجہ ظاہر ہے کیا ہو گا اور اس نتیجے کا نتیجہ کیا ہوگا۔’’کیا میں نے پہلے ہی نہیں کہہ دیا تھا؟وردان کے سالار قُبقُلار نے کہا۔’’میں اب بھی کہتا ہوں کہ اور زیادہ سوچو اور وجہ معلوم کرو کہ ہر میدان میں فتح مسلمانوں کی ہی کیوں ہوتی ہے اور وہی خوبی ہماری فوج میں کیوں پیدا نہیں ہوتی،آج کی لڑائی دیکھ کر مجھے اپنی فتح مشکوک نظر آنے لگی ہے۔*

*’’کیا تو یہ کہنا چاہتا ہے کہ ہم میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں؟‘‘وردان نے کہا۔’’میں تم سب کو کہتا ہوں کہ اپنی اپنی رائے اور مشورہ دو کہ ہم مسلمانوں کو کس طرح شکست دے سکتے ہیں۔‘‘قُبقُلار کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ آگئی۔اس نے کچھ بھی نہ کہااور دوسرے سالار اپنی آراء اور مشورے دینے لگے۔ان سالاروں کے مشورے مختلف تھے لیکن ایک بات مشترک تھی ۔سب کہتے تھے کہ مسلمانوں کو شکست دینی ہے اور ایسی شکست کہ ان میں سے زندہ وہی رہے جو جنگی قیدی ہو۔’’اگر خالد ان کا سالار نہ ہو تو انہیں شکست دینا آسان ہو جائے۔‘‘ایک سالا رنے کہا۔’’وہ جدھر جاتا ہے اس کی شہرت اور دہشت اس کے آگے آگے جاتی ہے۔ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ مسلمانوں کے اس سالار میں اتنی زیادہ جنگی مہارت ہے جو بہت کم سالاروں میں ہوتی ہے ……میں ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں۔‘‘سب متوجہ ہوئے۔’’مسلمانوںکو خالد سے محروم کر دیا جائے۔‘‘اس نے کہا۔’’اور اس کا ایک ہی طریقہ ہے……قتل!‘‘’’کل کی لڑائی میں اسے قتل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔‘‘وردان نے کہا۔’’یہ مشورہ کوئی مشورہ نہیں۔‘‘’’لڑائی میں ابھی تک اسے کوئی قتل نہیں کر سکا۔‘‘مشورہ دینے والے سالار نے کہا۔’’میری تجویز یہ ہے کہ ہماری طرف سے ایک ایلچی خالد کے پاس جائے اور کہے کہ ہم مزید خون خرابہ روکنا چاہتے ہیں۔ہمارے پاس آؤ، اور ہمارے ساتھ بات چیت طے کرلو۔وہ جب ہمارے سالارِ اعلیٰ وردان سے ملنے آرہا ہوتو کم از کم دس آدمی راستے میں گھات میں بیٹھے ہوئے ہوں۔وہ خالد کو اس طرح قتل کریں کہ اس کے جسم کی بوٹی بوٹی کردیں۔‘‘’’بہت اچھی تجویز ہے۔‘‘وردان نے کہا۔میں ابھی اس کا بندوبست کرتا ہوں……داؤد کو بلاؤ۔‘‘تھوڑی ہی دیر بعد ایک عیسائی جس کا نام تاریخوں میں داؤد لکھا ہے وردان کے سامنے کھڑا تھا۔’’داؤد!‘‘رودان نے اس عیسائی عرب سے کہا۔’’ابھی مسلمانوں کی خیمہ گاہ میں جاؤاور ان کے سپہ سالار خالدبن ولید کو ڈھونڈ کر اسے بتانا کہ میں رومیوں کے سالار کا ایلچی ہوں۔اسے میری طرف سے یہ پیغام دینا کہ ہم اس کے ساتھ صلح کی بات کرنا چاہتے ہیں۔وہ ہمارے پاس کل صبح آئے اور ہمارے ساتھ بات کرے کہ کن شرائط پر صلح ہو سکتی ہے۔اسے یہ بھی کہنا کہ اس بات چیت میں صرف وہ اور میں اکیلے ہوں گے۔ہم دونوں کے ساتھ ایک بھی محافظ نہیں ہوگا۔‘‘داؤد معمولی آدمی نہیں تھا، نہ وہ فوجی تھا۔وہ قیصرِ روم کا ایک طرح کا نمائندہ تھا، اور اس کا رُتبہ وردان سے ذرا ہی کم تھا۔*
*’’وردان!‘‘داؤد نے کہا۔’’میرا خیال ہے کہ تم قیصرِ روم کے حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہو۔ کیا شہنشاہِ ہرقل نے یہ حکم نہیں بھیجاتھا کہ مسلمانوں کو تباہ و برباد کردو؟میں سمجھ نہیں سکتا کہ تم صلح اور شرائط کی بات کس کے حکم سے کر رہے ہو……میں صلح کا پیغام لے کر نہیں جاؤں گا۔‘‘*
*’’پھر تمہیں اپنے راز میں شریک کرنا پڑے گا۔‘‘وردان نے کہا۔’’میں مسلمانوں کو تباہ برباد کرنے کا ہی منصوبہ بنارہاہوں۔میں خالد بن ولید کو صلح کا دھوکا دے رہا ہوں،وہ اگر آگیا تو مجھ تک اس کی لاش پہنچے گی۔میں نے راستے میں اس کے قتل کا انتطام کر رکھاہے۔‘‘’’اگر یہ کام کرنا ہے تو میں تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘داؤد نے کہا۔’’میں ابھی جاتا ہوں۔‘‘داؤد مسلمانوں کے کیمپ میں چلاگیا۔ہر طرف چھوٹی بڑی مشعلیں جل رہی تھیں۔داؤد نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ رومیوں کا ایلچی ہے، اور ان کے سپہ سالار کیلئے پیغام لایا ہے۔اسے اسی وقت خالدؓکے خیمے تک پہنچا دیا گیا۔داؤد آداب بجالایا اور اپنا تعارف کراکے وردان کا پیغام دیا۔خیمے میں مشعلوں کی روشنی تھی۔خالدؓ نے داؤد سے اتنا بھی نہ کہا کہ وہ بیٹھ جائے۔وہ خالدؓ کے سامنے کھڑا رہا۔خالدؓآہستہ آہستہ اٹھے، اور اس کے تھوڑا اور قریب چلے گئے*
*ان کی نظریں داؤد کی آنکھوں میں گڑ گئی تھیں۔انہوں نے داؤد سے کچھ بھی نہ کہااور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتے رہے، خالدؓدراز قد اور قوی ہیکل تھے۔ان کی شخصیت کا پر تو ان کی آنکھوں کی چمک میں تھا۔اس دور کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ خالدؓ کی آنکھوں کا سامنا کوئی مضبوط دل گردے والا ہی کرسکتا تھا۔یہ ایمان کا جلال تھا اور آنکھوں کی اس چمک میں عشقِ رسولﷺرچا بسا تھا۔اس کے علاوہ خالدؓ شام کے علاقے میں خوف و ہراس کا ایک نام بن گیا تھا۔خالدؓ داؤد کو دیکھے جا رہے تھے۔ داؤد کا ضمیر مجرمانہ تھا، وہ خالدؓکی نظروں کی تاب نہ لا سکا، مؤرخ لکھتے ہیں کہ خالدؓکے چہرے پر ایک یا دو زخموں کے نشان تھے جن سے ان کا چہرہ بگڑا تو نہیں تھا لیکن زخموں کے نشانات کا اپنا ایک تاثر تھا جو داؤد کیلئے غالباً دہشت ناک بن گیا تھا۔’’اے عربی سالار!‘‘داؤد بوکھلائے ہوئے لہجے میں بولا۔’’میں فوجی نہیں ہوں، میں ایلچی ہوں۔‘‘’’سچ بول داؤد!‘‘خالدؓنے اس کے ذرا اور قریب آکر کہا۔’’تو ایک جھوٹ بول چکا ہے ، اب سچ بول اور اپنی جان سلامت لے جا۔‘‘داؤد خالدؓ کے سامنے کھڑا چھوٹا سا آدمی لگتا تھا۔ حالانکہ قد اس کا بھی کچھ کم نہیں تھا۔’’اے عربی سالار!‘‘داؤد نے اپنے جھوٹ کو دہرایا۔’’میں صلح کا پیغام لے کر آیا ہوں، اور اس میں کوئی دھوکا نہیں۔‘‘’’اگر تو دھوکا دینے آیا ہے تو میری بات سن لے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’جتنی مکاری اور عیاری ہم لوگوں میں ہے اتنی تم میں نہیں۔مکروفریب میں ہمیں کوئی مات نہیں دے سکتا۔اگر تمہارے سپہ سالار وردان نے کوئی فریب کاری سوچی ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ رومیوں کی تباہی کا عمل اس سے تیز ہوجائے گا جتنا میں نے سوچا تھا……اور اگر اس نے سچی نیت سے صلح کا پیغام بھیجا ہے تو جاؤ اسے کہو کہ جزیہ ادا کردے پھر ہم صلح کر لیں گے۔*

*جزاکم اللہ خیرا۔*

*جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*اسلامک ہسٹری*

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─