┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

 *《▪♡ شمشیرِ بے نیام ♡▪》*

*حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ*

*( قسط نمبر-55)*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*۔‘‘وہی صحرا جو رات کو خنک تھا سورج نکلتے ہی تپنے لگا اورجب سورج اور اوپر آیا تو زمین سے پانی کے رنگ کے شعلے اٹھنے لگے۔پانی کے رنگ کا جھلمل کرتا ایک پردہ تھا جو آگے آگے چل رہا تھا۔ اسکے آگے کچھ پتا نہیں چلتا تھا کہ کیا ہے۔ جون کا سورج جب سر پر آیا تو لشکر کے افراد ایک دوسرے کو پہچان نہیں سکتے تھے۔ہرکوئی زمین سے اٹھتی ہوئی تپش کے لرزتے پردے میں لرزتا کانپتا یا لٹکے ہوئے باریک کپڑے کی طرح لہروں کی طرح ہلتا نظر آتا تھا۔مجاہدین نے ایک جنگی ترانہ مل کر گانہ شروع کر دیا، خالدؓنے انہیں روک دیا کیونکہ بولنے سے پیاس بڑھ جانے کا امکان تھا۔ اونٹ کئی کئی دنوں تک پیاسا سفر کر سکتا ہے لیکن انسان پیدل جا رہا ہو یا اونٹ یا گھوڑے پر سوار ہو وہ چند گھنٹوں سے زیادہ پیاس برداشت نہیں کر سکتا۔ پہلی شام جب پڑاؤ ہوا تو تمام لوگ پانی پر ٹوٹ پڑے، ان کے جسم جل رہے تھے۔ کھانے کی جگہ بھی انہوں نے پانی پی لیا۔دوسرے دن لشکر کا ہر آدمی محسوس کرنے لگا تھا کہ یہ وہ صحرا نہیں جس میں انہوں نے بے شمار بار سفر کیا ہے۔ یہ تو جہنم ہے جس میں وہ چلے جا رہے ہیں۔ایک تو تپش تھی جو جلا رہی تھی، دوسرے ریت کی چمک تھی جو آنکھیں نہیں کھولنے دیتی تھی۔ریت کا سمندر تھا بلکہ یہ آگ کا سمندر تھا اور لشکر شعلوں میں تیرتا جا رہا تھا۔تیسرے روز کا سفر اس طرح ہولناک اور اذیت ناک ہو گیاکہ ٹیلوں اور نشیب و فراز کا علاقہ شروع ہو گیاتھا۔یہ ریت اور مٹی کے ٹیلے تھے جو آگ کی دیواروں کی مانند تھے۔پہلے تو لشکر سیدھا جا رہا تھا اب تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مڑنا پڑتا تھا۔دیواروں جیسے ٹیلے مجاہدین کو جلا رہے تھے یہاں سب سے زیادہ خطرہ بھٹک جانے کا تھا۔ بعض دیواروں جیسے ٹیلوں کے درمیان جگہ اتنی تنگ تھی کہ اونٹ دونوں طرف رگڑ کھا کر گزرتے تھے۔ اونٹ بدک جاتے تھے کہ ان کے جسموں کے ساتھ گرم لوہا لگایا گیاہے۔تیسری شام پڑاؤ ہوا تو سب کے منہ کھلے ہوئے تھے اور وہ آپس میں بات بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اس شام لشکر نے پانی پیا تو یہ ہولناک انکشاف ہوا کہ باقی سفر کیلئے پانی نہیں رہا۔ پانی کا ذخیرہ پانچ دنوں کیلئے کافی تھا مگر یہ تیسرے روز ہی ختم ہو گیا۔راستے میں بھی مجاہدین پانی پیتے تھے۔*
*چوتھا دن قیامت سے کم نہ تھا۔ پانی کی ایک بوند نہیں تھی۔ پیاس کا اثر جسمانی ہوتا ہے اور ایک اثر صحرا کا اپنا ہوتا ہے۔ جو ذہن کو بگاڑ دیتا ہے، یہ ہوتی ہے وہ کیفیت جب سراب نظر آتے ہیں،پانی اور نخلستان دکھائی دیتے ہیں، شہر اور سمندری جہاز نظر آتے ہیں اور مسافر انہیں حقیقت سمجھتے ہیں ۔ریت کی چمک کا اثر بھی بڑا ہی خوفناک تھا۔ لشکر میں کسی نے چلّا کر کہا ’’وہ پانی آگیا۔پہلے میں پیوں گا ۔‘‘وہ آدمی چلتے اونٹ سے کود کر ایک طرف دوڑ پڑا۔ تین چار مجاہدین اس کے پیچھے گئے۔ ’’اسے اﷲکے سپرد کرو۔‘‘ رافع بن عمیرہ نے دور سے کہا۔’’صحرا نے قربانیاں وصول کرنی شروع کر دی ہیں۔ اس کے پیچھے مت دوڑو، سب مرو گے۔‘‘تھوڑی دیر بعد ایک مجاہد بے ہوش ہو کر اونٹ سے گرا وہ اٹھا اور اونٹ کی طرف آنے کے بجائے دوسری طرف چل پڑا کوئی بھی اس کے پیچھے نہ گیا۔ پیچھے نہ جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سب کی آنکھیں بند تھیں۔ایک ریت کی چمک اور تپش آنکھیں کھولنے ہی نہیں دیتی تھی۔چوتھا دن جو پانی کے بغیر گزر رہا تھا صحیح معنوں میں جہنم کے دنوں میں سے ایک تھا*
*۔ایسے لگتا تھا جیسے سورج اور نیچے آگیا ہو ۔پہلے تو سب خود آنکھیں بند رکھتے تھے کیونکہ چمک اور تپش آنکھوں کو جلاتی تھی اب آنکھیں کھلتی ہی نہیں تھیں۔اونٹ تک ہارنے لگے تھے۔ کوئی اونٹ بڑی خوفناک آواز نکالتا بیٹھنے کیلئے اگلی ٹانگوں کو دوہری کرتا اور ایک پہلو پر لڑھک جاتا تھا۔سوار بھی گرتا مگر اس میں اٹھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔لشکر میں ہر کسی کی آنکھیں بند تھیں اور دماغ بیکار ہو گئے تھے۔ انہیں محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ ان کا کوئی ساتھی اونٹ سے گر پڑا ہے یا یہ کہ اس کا اونٹ بھی گر پڑ اہے اور اسے اٹھا کر اپنے ساتھ اونٹ پر بٹھالیں۔سراب کا شکار ہونے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔خود خالدؓکی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ انہیں کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ لشکر میں کیا ہو رہا ہے۔وہ تو عزم اور ایمان کی قوت تھی جو انہیں زندہ رکھے ہوئے تھی اور یہ اونٹ تھے جو چلے جا رہے تھے۔ اگر اونٹ رک جاتے تولشکر کا کوئی ایک بھی فرد ایک قدم نہ چل سکتا۔ گھوڑوں کے منہ کھل گئے تھے اور زبانیں لٹک آئی تھیں۔ مجاہدین کی زبانیں سوج گئی تھیں حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے۔ اس وجہ سے ان کے منہ بھی کھل گئے تھے۔ وہ تو اب لاشوں کی مانند ہو گئے تھے۔ اونٹوں کی پیٹھوں پر اپنے آپ کو سنبھال نہیں سکتے تھے اسی لیے ان میں سے کوئی نہ کوئی گر پڑتا تھا۔ اب وہ عالمِ نزع کے قریب پہنچ رہے تھے ،جسموں کی نمی خشک ہو چکی تھی ۔رات کو لشکر رکا ۔تمام رات مجاہدین نے جاگتے گزاری جسموں کے اندر سوئیاں چبھتی تھیں۔ زبانوں کی حالت ایسی تھی جیسے منہ میں کسی نے لکڑی کا ٹکڑا رکھ دیا ہو۔*
*سفر کے آخری دن کا سورج طلوع ہوکر مجاہدین کو موت کاپیغام دینے لگا۔ کئی مجاہدین اونٹوں پر بے ہوش ہو گئے۔ وہ خوش قسمت تھے جو لڑھک کر گرے نہیں، یہ لشکر اب ایک لشکر کی طرح نہیں جارہا تھا ۔اونٹ بکھر گئے تھے بعض بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ کئی دائیں اور بائیں پھیل گئے تھے ۔رفتار خطرناک حد تک سست ہو گئی تھی۔ یہ پانی کے بغیر دوسرا دن تھا،اور یہ ایک معجزہ تھا کہ وہ اب بھی زندہ تھے۔کون سی طاقت تھی جو انہیں زندہ رکھے ہوئے تھی؟ وہ اﷲکا وہ پیغام تھا جو رسولِ کریمﷺلائے تھے اور یہ مجاہدین انسانیت کی نجات کے لیے اﷲکا یہ پیغام زمین کے گوشے گوشے تک پہنچانے کیلئے صحرا کی آگ میں سے گزر رہے تھے۔اﷲنے انہیں بڑی ہی اذیت ناک آزمائش میں ڈال دیا تھا اور اسی کی ذات انہیں زندہ رکھے ہوئے تھی. غروبِ آفتاب سے بہت پہلے خالدؓ اپنے اونٹ کو رافع بن عمیرہ کے اونٹ کے قریب لے گئے۔’’ابنِ عمیرہ !‘‘خالدؓ نے بڑی مشکل سے یہ الفاظ زبان سے نکالے۔’’ کیا اب ہمیں اس چشمے پر نہیں ہونا چاہیے تھا۔جس کا تو نے ذکر کیا تھا ۔سویٰ ایک ہی منزل دور رہ گیا ہو گا۔‘‘’’اﷲتجھے سلامت رکھے ولید کے بیٹے!‘‘ رافع بن عمیرہ نے کہا۔’’میں آشوبِ چشم کا مریض تھا۔ اس صحرا نے میری آنکھوں کا نور ختم کر دیا ہے۔ میں اب کیسے دیکھوں ؟‘‘’’کیا تو اندھا ہو گیا ہے؟‘‘خالدؓ نے گھبرائی ہوئی آوز میں پوچھا۔’’جو تو دیکھ سکتا تھا وہ ہم میں سے کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا۔کیا ہم بھٹک گئے ہیں؟‘‘مؤرخ واقدی اور طبری نے لکھا ہے کہ رافع بن عمیرہ کی بینائی ختم ہو گئی تھی ۔اس نے ذہن میں کچھ حساب رکھاہوا تھا۔ ان دونوں مؤرخوں نے اس کے صحیح الفاظ اپنی تحریروں میں نقل کیے ہیں۔*
*’’ابنِ ولید!‘‘ رافع نے کہا۔’’لشکر یہیں روک لے۔اپنے کچھ آدمیوں کو آگے بھیج ،انہیں کہہ کہ وہ عورت کے پستانوں کی شکل کے دو ٹیلوں کو تلاش کریں ۔‘‘خالدؓ نے کچھ آدمیوں کو آگے بھیج دیا یہ آدمی جلد ہی واپس آگئے اور انہوں نے بتایا کہ وہ دو ٹیلے دیکھ آئے ہیں۔رافع نے خالدؓسے کہاکہ اﷲکے کرم سے وہ صحیح راستے پر جا رہے ہیں ۔لشکر کو آگے لے چلو۔’’ابنِ ولید!‘‘ رافع بن عمیرہ نے کہا۔’’اب اپنے آدمیوں سے کہہ کہ ایک درخت کو ڈھونڈیں جس پر کانٹے ہی کانٹے ہوں گے اور وہ کوئی اونچا درخت نہیں ہو گا۔ وہ دور سے اس طرح نظر آئے گا جیسے کوئی آدمی بیٹھا ہوا ہو۔یہ درخت ان دو ٹیلوں کے درمیان ہو گا۔‘‘ آدمی گھوم پھر کر واپس آگئے اور انہوں نے یہ جانکاہ خبر سنائی کہ انہیں ٹیلوں کے درمیان اور اردگرد بلکہ دور دور تک کوئی ایسادرخت نظر نہیں آیا۔*

*رافع بن عمیرہ نے کہا۔’’سمجھ لو کہ ہم سب مر گئے ۔‘‘اس نے کچھ سوچ کر اور قدرے جھنجھلا کر کہا۔’’ایک بار پھر جاؤ ،درخت مل جائے گا،ریت کے اندر ڈھونڈو۔‘‘ آدمی پھر گئے ،برچھیاں اور تلواریں ریت میں مار مار کر مطلوبہ درخت کھوجنے لگے ۔ایک جگہ انہیں ریت کی ڈھیری نظر آئی۔ریت ہٹائی تو وہاں ایک درخت کا ٹنڈ منڈ سا تنا ظاہر ہوا۔یہ خار دار تھا۔’’اکھاڑ دو اس درخت کو ۔‘‘رافع نے کہا۔’’اور اس جگہ سے زمین کھودو۔‘‘زمین اتنی زیادہ نہیں کھودی گئی تھی لیکن پانی امڈ پڑا اور ندی کی طرح بہنے لگا۔اس گڑھے کو کھود کھود کر کھُلا کرتے چلے گئے۔حتٰی کہ یہ ایک وسیع تالاب بن گیا۔لشکر کے مجاہدین اس پانی پر ٹوٹ پڑے ۔واقدی لکھتا ہے کہ یہ پانی اتنا زیادہ تھا کہ اتنے بڑے لشکر نے پیا ،پھر اونٹوں اور گھوڑوں نے پیا، تب بھی یہ امڈتا رہا۔ مجاہدین نے مشکیزے بھر لیے تب انہیں خیال آیا کہ معلوم نہیں ان کے کتنے ساتھی یپچھے رہ گئے ہیں۔اونٹ بھی تروتازہ ہو چکے تھے اور انسان بھی۔اپنے ساتھیوں کا خیال آتے ہی کئی مجاہدین اونٹوں پر سوار ہوئے اور واپس چلے گئے۔ وہ منظر بڑا ہولناک تھا ،جگہ جگہ کوئی نہ کوئی مجاہد اور کوئی اونٹ یا گھوڑا ریت پر بے ہوش پڑا جل رہا تھا۔مجاہدین نے ان کے منہ میں پانی ڈالااور انہیں اپنے ساتھ لے آئے۔ بعض مجاہدین شہید ہو چکے تھے۔ انہیں ان کے ساتھیوں نے وہیں دفن کر دیا۔’’ابنِ عمیرہ !‘‘خالدؓنے رافع بن عمیرہ کو گلے سے لگاکر کہا۔’’ تو نے لشکر کو بچا لیا ہے۔‘‘’’اﷲنے بچایا ہے ابنِ ولید!‘‘رافع نے کہا۔’’میں اس چشمے پر صرف ایک بار آیا تھا اور یہ تیس سال پہلے کا واقعہ ہے۔ میں اس وقت کم سن لڑکا تھااور میرا باپ مجھے اپنے ساتھ لایا تھا۔اس چشمے کو اب ریت نے چھپا لیا تھا لیکن مجھے یقین تھا کہ یہاں چشمہ موجود ہے۔یہ اﷲکا خاص کرم ہے کہ چشمہ موجود تھا۔‘‘ ان مجاہدین کی مہم اس سفر پر ختم نہیں ہو گئی تھی۔ یہ تو آزمائش کی ایک کڑی تھی جس میں سے وہ گزر آئے تھے ۔ان کا اصل امتحان ابھی باقی تھا۔شام کی سرحد تک پہنچنے کیلئے ابھی دو منزلیں باقی تھیں لیکن وہ کٹھن نہیں تھیں۔اصل مشکل یہ تھی کہ رومی ان کے مقابلے کیلئے اور انہیں شام کی سرحدوں سے دور ہی ختم کرنے کیلئے اتنی زیادہ فوج اکٹھی کر رہے تھے جس کے مقابلے میں مسلمانوں کی یہ نفری کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی تھی۔*

*اسلامی فوج کی نفری تو پہلے ہی کم تھی اور خالدؓ نو ہزارنفری کی جو کمک لے کر گئے تھے اس کے ہر فرد کو بالکل خشک اور ناقابلِ برداشت حد سے بھی زیادہ گرم صحرا نے پانچ دنوں میں چوس لیا تھا۔ان کے جسموں میں دم خم ختم ہو چکا تھا۔ان میں کچھ تو شہید ہو گئے تھے اور کچھ ایسے تھے جن پر صحرا نے بہت برا اثر کیا تھا۔وہ آٹھ دس دنوں کیلئے بیکار ہو گئے تھے۔باقی نفری کو بھی دو تین دن آرام کی ضرورت تھی لیکن احوال و کوائف ایسے تھے کہ انہیں آرام کی مہلت نہیں مل سکتی تھی ۔دشمن بیدار اور تیار تھا اور یہ بڑا ہی طاقتور دشمن تھا۔اس وقت کے ملک شام پر رومی حکمران تھے اور ان کی فوج اس دور کی مشہور طاقتور اور مضبوط فوج تھی۔اس دور میں دو ہی شاہی فوجیں مشہور تھیں ۔ایک فارس کی فوج اور دوسری رومیوں کی۔دور دور تک ان دونوں فوجوں کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔نفری زیادہ ہونے کے علاوہ ان کے ہتھیار برتر تھے۔روم کی فوج کے متعلق تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ جس راستے سے گزرتی تھی اس راستے کی بستیاں خالی ہو جاتی تھیں۔فارس کی جنگی طاقت کو تو مسلمانوں نے بڑی تھوڑی نفری سے ختم کر دیا تھااور عراق کے بے شمار علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔اب مسلمان دوسری بڑی جنگی طاقت کو للکار رہے تھے۔رومی اکیلے نہیں تھے۔ان کا اتحادی غسان کا بڑا ہی طاقتور قبیلہ تھا۔رومی جب ان علاقوں میں آئے تھے تو غسان واحد قبیلہ تھا جس نے رومیوں کا مقابلہ کیا تھا۔یہ مقابلہ چند دنوں یا مہینوں پر ختم نہیں ہو گیا تھا بلکہ غسانی بڑی لمبی مدت تک لڑتے رہے تھے۔رومیوں نے شام کے وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا تو بھی غسانی لڑتے رہے۔ وہ رومی فوج کی سرحدی چوکیوں پر شب خون مارتے رہتے اور کبھی رومیوں کے مقبوضہ علاقے میں دور اندر جا کر بھی حملے کرتے رہتے۔غسانی اور رومیوں کی یہ جنگ نسل بعد نسل چلتی رہی۔ آخر رومیوں کو تسلیم کرنا پڑا کہ غسانی ایک قبیلہ نہیں قوم ہیں اور انہیں تہہ تیغ نہیں کیا جاسکتا۔چنانچہ رومیوں نے غسانیوں کی الگ قومی حیثیت تسلیم کرلی اور انہیں شام کا کچھ علاقہ دے کر انہیں اس طرح کی خود مختاری دے دی کہ ان کا اپنا بادشاہ ہوگا اور وہ کسی حد تک روم کے بادشاہ کے ماتحت ہوگا،یہ بڑا پرانا واقعہ ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ غسانی قبیلہ ایسی صورت اختیار کر گیا کہ اس کے شاہی خاندان کو روم کا شاہی خاندان سمجھا جانے لگا۔آج کے اردن اور جنوبی شام پرغسانیوں کی حکمرانی تھی۔ یہ بھی رومیوں کی طرح ایک بادشاہی تھی، جس کی فوج منظم اور طاقتور تھی اور اسے ہتھیاروں کے معاملے میں بھی برتری حاصل تھی۔اس بادشاہی کا پایہ تخت بصرہ تھا۔مسلمان رومیوں اور غسانیوں کو للکار کر بہت بڑا خطرہ مول لے رہے تھے۔ جنگ کا یہ دستور ہے کہ حملہ آور فوج کی نفری اس ملک کی فوج سے تین گنا نہ ہو تو دگنی ضرور ہونی چاہیے کیونکہ جس فوج پر حملہ کیا جاتا ہے وہ قلعہ بند ہوتی ہے اور وہ تازہ دم بھی ہوتی ہے۔*

*حملہ آور فوج بڑا لمبا سفر کرکے آتی ہے اس لیے وہ تازہ دم نہیں ہوتی۔جس فوج پر حملہ کیا جاتا ہے وہ اپنے ملک میں ہوتی ہے جہاں اسے رسد اور کمک کی سہولت موجود ہوتی ہے اس کے مقابلے میں حملہ آور فوج اس سہولت سے محروم ہوتی ہے۔وہاں کا بچہ بچہ حملہ آور فوج کا دشمن ہوتا ہے۔ مسلمان جب شام پرحملہ کرنے گئے تو ان کی نفری ۳۷ ہزار تھی۔ اٹھائیس ہزار پہلے وہاں موجود تھی اورکم و بیش نو ہزار خالدؓ لے کر گئے تھے۔یہ نو ہزار مجاہدین فوری طور پر لڑنے کے قابل نہیں تھے، جس ملک پر وہ حملہ کرنے گئے تھے وہاں کم و بیش ڈیڑھ لاکھ نفری کی تازہ دم فوج موجود تھی اور مقابلے کیلئے بالکل تیار۔ پانچ دنوں کے بھیانک سفر کے بعد جب مجاہدین نے چشمے سے پانی پی لیا کھانا بھی کھا لیا تو ان پر غنودگی کا طاری ہونا قدرتی تھا ۔انہیں توقع تھی کہ انہیں کچھ دیر آرام کی مہلت ملے گی۔ آرام ان کا حق بھی تھا لیکن اپنے سالارِ اعلیٰ خالدؓ کو دیکھا۔ خالدؓ اب اونٹ کے بجائے اپنے گھوڑے پر سوار رتھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ایک لمحے کابھی آرام نہیں ملے گا۔مؤرخ واقدی نے لکھا ہے کہ خالدؓ نے ہلکی سی زرہ پہن رکھی تھی ،انہوں نے یہ زرہ اس چشمے پر آکر پہنی تھی۔ زرہ مسیلمہ کذاب کی تھی۔ خالدؓ نے جب اسے شکست دی تھی تو اس کی زرہ اترواکر اپنے پاس رکھ لی تھی۔یہ ارتداد پر فتح حاصل کرنے کی یادگارتھی ۔اس فتح کی ایک نشانی اور بھی خالدؓکے پاس تھی، یہ تلوار تھی ۔یہ بھی مسیلمہ کذاب کی ہی تھی۔خالدؓ نے وہی تلوار کمر سے باندھ رکھی تھی۔واقدی کے مطابق خالدؓکے سر پر زنجیروں والی خود تھی اور خود پر انہوں نے عمامہ باندھا ہوا تھا۔ عمامہ کا رنگ سرخ تھا۔ خود کے نیچے انہوں نے جوٹوپی پہن رکھی تھی وہ بھی سرخ رنگ کی ہی تھی۔خالدؓ کے ہاتھ میں سیاہ اور سفید رنگ کا پرچم تھا جو صرف اس لئے مقدس نہیں تھا کہ یہ قومی پرچم تھا بلکہ اس لئے کہ یہ پرچم ہر لڑائی میں رسولِ کریمﷺاپنے ساتھ رکھتے تھے اور جب آپ ﷺنے خالدؓ کو سیف اﷲ)اﷲکی تلوار( کا لقب عطا فرمایا تو اس کے ساتھ انہیں یہ پرچم بھی دیا تھا۔ اس پرچم کا نام عقاب تھا۔نو ہزار مجاہدین میں جہاں صحابہ کرامؓ بھی تھے، وہاں خالدؓ کے اپنے فرزند عبدالرحمٰن بھی تھے جن کی عمر اٹھارہ سال تھی اور ان میں امیرالمومنین ابو بکرؓ کے نوجوان فرزند بھی تھے ان کا نام بھی عبدالرحمٰن ہی تھا۔مجاہدین کھاپی کر اِدھر اُدھر بیٹھ گئے، انہوں نے اپنے سالارِ اعلیٰ کو گھوڑے پر سوار اپنے درمیان گھومتے پھرتے دیکھا تو سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ خالدؓنے زبان سے کچھ بھی نہ کہا۔وہ ہر ایک کی طرف دیکھتے اور مسکراتے تھے۔ ان کی خود اور زرہ دیکھ کر اور ان کے ہاتھ میں رسولﷺکا پرچم دیکھ کر مجاہدین سمجھ گئے کہ ان کے سالارِ اعلیٰ چلنے کو تیار ہیں۔تمام مجاہدین کسی حکم کے بغیر اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے اونٹوں کے بجائے گھوڑوں پر سوار ہو گئے۔وہ جان گئے کہ اﷲکی شمشیر تھوڑی دیر کیلئے بھی نیام میں نہیں جائے گی۔*
*خالدؓکی جانفزا مسکراہٹ نے پورے لشکر کی تھکن دور کر دی۔ لشکر چلنے کیلئے تیار ہو گیا۔ ’’ولید کے بیٹے یہ دیکھ!‘‘ایک آدمی پر جوش لہجے میں کہتا اور دوڑتا آرہا تھا۔’’یہ دیکھ ولید کے بیٹے!اﷲنے میری بینائی مجھے لوٹا دی ہے۔ میں دیکھ سکتا ہوں، میں تجھے دیکھ رہا ہوں۔‘‘*

*’’بے شک !اﷲایمان والوں پر کرم کرتا ہے۔‘‘ کسی نے بلندآواز سے کہا۔’’اﷲرحیم و کریم ہے۔‘‘کسی اور نے نعرہ لگایا۔یہ تھا رافع بن عمیرہ جس نے اس لشکرکی رہنمائی اس خطرناک صحرا میں کی تھی ،وہ آشوبِ چشم کا مریض تھا ۔ریت کی چمک اور تپش سے اس کی بینائی ختم ہو گئی تھی لیکن جسم میں چشمے کا پانی گیا اور آنکھوں میں پانی کے چھینٹے پڑے تو رافع کی بینائی واپس آگئی ۔خالدؓ کو اس کی بہت زیادہ خوشی ہوئی جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کے لشکر کا رہنما اور میدانِ جنگ کا شہسوار ہمیشہ کیلئے اندھا نہیں ہو گیاتھا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ رافع بن عمیرہ خالدؓ کا داماد تھا۔مجاہدین بغیر آرام کیے اپنی اگلی منزل کو جا رہے تھے۔ اب ان کا سفر سہل تھالیکن اس دشمن پر فتح سہل نظر نہیں آتی تھی جن سے لڑنے وہ جا رہے تھے۔وہ دشمن بہت طاقتور تھا اس کے وہاں قلعے تھے وہ اس کی زمین اور اس کا ملک تھا۔ مسلمان کھلے میدان میں تھے اور اپنے مستقر سے سینکڑوں میل دور تھے۔ انہیں اپنے لیے اور اپنے جانوروں کیلئے خوراک کا خود ہی انتظام کرنا تھا اور ان کیلئے یہ بہت بڑا مسئلہ تھا۔خالدؓ جب اپنے لشکر کے ساتھ شام کی سرحد کی طرف بڑھ رہے تھے اس وقت غسانی بادشاہ جبلہ بن الایہم اپنے امراء اور سالاروں کو حکم دے چکا تھا کہ مسلمانوں کی فوج سرحدوں پر آگئی ہے اور اسے سرحدوں پر ہی ختم کردینا ہے اس وقت خالد بن سعید کو رومی فوج شکست دے چکی تھی اور مدینہ کا اٹھائیس ہزار مجاہدین کا لشکر چار حصوں میں شام کی سرحد پرپہنچ چکا تھا ۔’’ہم نے رومیوں کو شکستیں دی ہیں۔‘‘ غسانی بادشاہ جبلہ نے اپنے امراء اور سالاروں سے کہا تھا ۔’’رومیوں سے بڑھ کر جابر اور جنگجو اور کون ہو سکتا ہے؟ہم نے اس زبردست فوج کو گھٹنوں بٹھا کر اس سے یہ علاقہ لے لیا تھا جس پر آج ہماری حکمرانی ہے۔ تمہارے سامنے مسلمانوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔یہ مت سوچو کہ مسلمانوں نے فارسیوں کو شکست دی ہے اور انہیں اٹھنے کے قابل نہیں چھوڑا،فارسی بزدل تھے اپنے آباو اجداد کی شجاعت کو یاد کرو ۔اگر تم نے اپنے اوپر مسلمانوں کا خوف طاری کر لیا تو رومی ہی جو آج ہمارے بھائی بنے ہوئے ہیں تم پر چڑھ دوڑیں گے۔ پھر تم دو دشمنوں کے درمیان پس جاؤ گے۔ مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے، وہ زیادہ دن تمہارے سامے نہیں ٹھہر سکیں گے۔‘‘*
*’’شہنشاہ غسان!‘‘ ایک معمر سالار نے کہا۔’’ ان کی تعداد تھوڑی ہے تو کیا وجہ ہے کہ فارس کے تمام نامور سالار ان کے ہاتھوں مارے گئے ہیں؟یہ کہنا ٹھیک نہیں کہ فارسی بزدل تھے ، کیا ہم اپنے آپ کو دھوکا نہیں دے رہے؟کیا مسلمانوں نے فراض کے میدان میں رومیوں اور فارسیوں کی متحدہ فوج کو شرمناک شکست نہیں دی؟‘‘*

*’’ضرور دی ہے۔‘‘جبلہ بن الایہم نے کہا ۔’’میں تمہاری بات کر رہا ہوں، اگر تم نے مسلمانوں کو اپنی تلواروں کے نیچے رکھ لیا تو رومیوں اور فارسیوں پر تمہاری بہادری کی دہشت بیٹھ جائے گی اور تم جانتے ہو کہ اس کا تمہیں کیا فائدہ پہنچے گا۔ میرا حکم یہ ہے کہ سرحد کی ہر ایک بستی میں یہ پیغام پہنچا دو کہ مسلمانوں کا لشکر یا ان کا کوئی دستہ کسی طرف سے گزرے اس پر حملہ کردو اور اسے زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی کوشش کرو، ہر وہ شخص کہ جس نے غسانی ماں کا دودھ پیا ہے وہ اپنے قبیلے کی آن پر جان قربان کردے۔لیکن تین چار مسلمانوں کی جان ضرور لے ۔میں اپنے آپ کو دھوکا نہیں دے رہا، میں ان مسلمانوں کو کمزور نہیں سمجھتا، جو اپنے وطن سے اتنی دور آگئے ہیں، وہ اپنے عقیدے کے بل بوتے پر آئے ہیں ۔ان کا عقیدہ ہے کہ ان کا مذہب سچا ہے،اور وہ خد اکے برتر بندے ہیں، اور خدا ان کی مدد کرتا ہے، اگر تم اپنے عقیدوں کو مضبوطی سے پکڑ لو تو تم انہیں کچل کر رکھ دو۔ قبیلے کے بچے بچے کو لڑاؤ، عورتوں کو بھی لڑاؤ اور ہر کوئی یہ کوشش کرے کہ مسلمانوں کو یہاں سے کھانے کو ایک دانہ نہ ملے۔ پینے کو پانی کی بوند نہ ملے اور ان کے اونٹ اور گھوڑے اس گھاس کی ایک پتی بھی نہ کھا سکیں، جو تمہاری زمین نے اگائی ہے۔‘‘خالدؓ کی اگلی منزل سویٰ تھی جس کے متعلق انہیں بتایا گیا تھا کہ سرسبزوشاداب جگہ ہے ۔ان کے راستے میں پہلی بستی آئی تواس سے کچھ دور کم و بیش چالیس گھوڑ سواروں نے مسلمانوں کے ہراول پر اس طرح حملہ کیا کہ گھوڑے اچانک ٹیلوں کے پیچھے سے نکلے ،سرپٹ دوڑتے آئے اور برچھیوں سے مجاہدین پر ہلہ بول دیا،مجاہدین بھی شہسوار تھے اور اس طرح کی چھاپہ مار لڑائی میں مہارت رکھتے تھے ۔اس لیے انہیں زیادہ نقصان نہیں اٹھانا پڑا ۔کچھ مجاہدین زخمی ہو گئے اور انہوں نے حملہ آور سواروں میں سے تین چار کو گرالیا۔یہ غسانی سوار تھے جنہوں نے پہلے ہلے میں مسلمانوں کو بتا دیا تھا کہ وہ لڑنا جانتے ہیں، اور ان میں لڑنے اور مرنے کا جذبہ بھی ہے۔وہ ہلہ بول کر آگے نکل گئے اور بکھر گئے تھے ۔دور جا کر وہ پھر واپس آئے۔اب مسلمان پوری طرح تیار تھے۔غسانیوں نے ہلہ بولا، وہ برچھیوں اور تلواروں سے مسلح تھے۔مسلمانوں نے انہیں گھیرے میں لینے کی کوشش کی لیکن وہ بے جگری سے لڑتے ہوئے نکل گئے*
*ان کا انداز جم کر لڑنے والا تھا ہی نہیں۔تقریباًاتنے ہی غسانی سواروں نے مجاہدین کے لشکر کے عقبی حصے پر حملہ کیا، یہ بھی چھاپہ مار قسم کا ہلہ تھا، گھوڑے سر پٹ دوڑتے آئے، اور آگے نکل گئے۔خالدؓلشکر کے وسط میں تھے انہیں اطلاع ملی تو انہوں نے لشکر کی ترتیب بدل دی لیکن وہ لشکر کو زیادہ نہ پھیلا سکے کیونکہ وہ علاقہ ہموار نہیں تھا۔کچھ دیر بعد خالدؓ کے سامنے چند ایک غسانی قیدی لائے گئے، انہیں مجاہدین نے گھوڑوں سے گرا لیا تھا، ان سے جب جنگی نوعیت کی معلومات حاصل کی جانے لگیں توان سب نے بڑی جرات سے باتیں کیں۔’’تم جدھر جاؤ گے تم پر حملے ہوں گے۔‘‘ایک قیدی نے کہا۔’’جب آدمی نہیں ہوں گے وہاں تم پر عورتیں حملہ کریں گی۔‘‘ایک اور قیدی نے کہا۔’’تمہیں کس نے بتایا ہے کہ ہم تمہارے دشمن ہیں؟‘‘خالدؓنے پوچھا۔’’دشمن نہیں ہو تو یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘ایک قیدی نے جواب دیا۔*

*ان قیدیوں نے اور کچھ نہ بتایا کہ ان کی فوج کتنی ہے اور کہاں کہاں ہے، ان سے یہ پتہ چل گیا کہ تمام سرحدی بستیوں میں ان کے بادشاہ کا یہ حکم پہنچا تھا کہ مسلمانوں پر حملے کرتے رہیں تاکہ جب مسلمان غسانیوں کی فوج کے مقابلے میں آئیں تو وہ تھکے ہوئے ہوں اور کمزور ہو چکے ہوں۔’’یہاں سے تمہیں اناج کا ایک دانہ نہیں ملے گا۔‘‘ایک قیدی نے کہا۔’’پینے کو پانی کا ایک قطرہ نہیں ملے گا۔‘‘’’تمہارے اونٹوں اور گھوڑوں کو ہم بھوکا مار دیں گے۔‘‘ایک اور قیدی نے کہا۔’’ہماری زمین سے یہ گھاس کی ایک پتی نہیں کھا سکیں گے۔‘‘’’کیا تمہاری موت تمہیں یہاں لے آئی ہے؟‘‘ایک اور قیدی بولا۔’’لڑنے آئے تھے تو خالد بن ولید کو ساتھ لاتے۔‘‘ایک اور قیدی نے کہا۔’’وہ آجاتا تو تم کیاکرتے؟‘‘خالدؓنے پوچھا۔’’سنا ہے اس کے سامنے اس کا کوئی دشمن پاؤں پر کھڑا نہیں رہ سکتا۔‘‘قیدی نے جواب دیا۔’’اور سنا ہے وہ بڑا ظالم آدمی ہے، قیدیوں کو اپنے ہاتھوں قتل کر دیتا ہے۔‘‘’’اگر وہ اتنا ظالم ہوتا،تو تم اس وقت اپنے پاؤں پر کھڑے نہ ہوتے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تمہارے سر تمہارے کندھوں پر نہ ہوتے۔‘‘’’کہاں ہے وہ؟‘‘قیدی نے پوچھا۔’’تمہارے سامنے کھڑا ہے۔‘‘خالدؓ بن ولید نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’میں تمہاری بہادری کی تعریف کرتا ہوں، ایسا حملہ بہادر کیا کرتے ہیں جیسا تم نے کیا ہے۔‘‘تمام قیدیوں پر خاموشی طاری ہو گئی تھی اور وہ حیرت زدہ تاثر چہروں پر لیے خالدؓ کو دیکھ رہے تھے۔’’کیا تم مجھ سے ڈر رہے ہو کہ میں تمہیں قتل کر دوں گا؟‘‘خالدؓنے پوچھا۔ان میں سے کوئی بھی نہ بولا۔’’نہیں۔‘‘خالدؓنے خود ہی اپنے سوال کا جواب دیا۔’’تمہیں قتل نہیں کیا جائے گا، تمہارے بہت سے بھائی ابھی ہماری قید میں آئیں گے۔کسی کو قتل نہیں کیا جائے گا، قتل وہی ہوگا جو ہمارے مقابلے میں آئے گا……کیا تم غسان کے لشکر کے آدمی ہو؟‘‘’’نہیں!‘‘ایک قیدی نے جواب دیا۔’’ہم اس بستی کے رہنے والے ہیں۔‘*

*’’تم میرا نام کس طرح جانتے ہو؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’ابنِ ولید!‘‘ایک ادھیڑ عمر قیدی نے جواب دیا۔’’تیرا نام غسان کے بچے بچے نے سنا ہے۔غسان کی فوج تیرے نام سے واقف ہے۔فارس کی فوج کو شکست دینے والا سالار عام قسم کا انسان نہیں ہو سکتا۔لیکن ابنِ ولید!اب تیرا مقابلہ قبیلہ غسان سے ہے۔‘‘خالدؓ اس شخص کے ساتھ بحث نہیں کرنا چاہتے تھے۔انہوں نے اس کے ساتھ اور دوسرے قیدیوں کے ساتھ دوستانہ انداز میں باتیں جاری رکھیں اور ان سے کچھ باتیں معلوم کرلیں،مؤرخ واقدی نے لکھا ہے کہ خالدؓکو اندازہ ہی نہیں تھا کہ غسانیوں اور ومیوں تک ان کا صرف نام ہی نہیں پہنچا تھا بلکہ ان کے نام کے ساتھ کچھ روائتیں اور حکایتیں بھی پہنچ گئی تھیں، بعض لوگ خالدؓ کو مافوق الفطرت شخصیت سمجھنے لگے تھے۔خالدؓ آگے بڑھتے گئے،غسانیوں کے گروہوں نے دواور جگہوں پر مسلمانوں کے لشکر پر حملہ کیا، ایک حملہ جو چھاپہ مار قسم کا تھا، خاصا سخت تھا۔مسلمان چونکہ چوکس اور تیار تھے اس لیے ان کا زیادہ نقصان نہ ہوا۔حملہ آوروں کا جانی نقصان زیادہ ہوا۔خالدؓکو قیدیوں سے معلوم ہو چکا تھا کہ ان پر ان حملوں کا مقصد کیا ہے۔انہوں نے سوچا کہ اس طرح مزاحمت جاری رہی توانہیں اپنے لشکر کے کھانے پینے کیلئے بھی کچھ نہیں ملے گا۔وہ سویٰ کے قریب ظہر اور عصر کے درمیان پہنچے تو انہیں بڑا ہی وسیع سبزہ زار نظر آیا اس میں بے شمار بھیڑیں ،بکریاں اور مویشی چر رہے تھے۔یہ وسیع چراگاہ تھی اس کے قریب سویٰ کی بستی تھی۔خالدؓ نے اس خیال سے کہ پیشتر اس کے کہ ان پر حملہ ہو،انہوں نے حکم دے دیا کہ تمام بھیڑ بکریاں اور مویشی پکڑ لیے جائیں اور انہیں کھانے کیلئے اور ان میں جودودھ دینے والے جانورتھے انہیں دودھ کیلئے استعمال کیا جائے۔مجاہدین ان جانوروں کو پکڑنے لگے تو بستی والوں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔غسانیوں کے گھوڑے اچھے تھے اور ان کے ہتھیار بھی اچھے تھے لیکن مسلمانوں کے آگے زیادہ دیر نہ ٹھہر سکے۔خالدؓنے چراگاہ پر قبضہ کرلیا،جب بستی میں گئے تو وہاں لڑنے والا ایک آدمی بھی نہیں تھا،وہ بوڑھے تھے اور عورتیں تھیں اور بچھے تھے۔مسلمانوں کو دیکھ کر وہ بھاگنے لگے ۔عورتیں اپنے بچوں کو اٹھائے چھپ گئیں یا بھاگ اٹھیں۔خالدؓ کے حکم سے ان سب کو روک کر کہا گیا کہ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی ۔اگر بستی سے مسلمان لشکرکے خلاف کوئی کاروائی ہوئی تو بستی کو اجاڑ دیا جائے گا۔مخبروں نے خالدؓکو اطلاع دی کہ کچھ دور آگے ایک قلعہ ہے جس میں عیسائی فوج ہے اور اس کا سالار رومی ہے۔یہ اطلاع بھی ملی کہ سویٰ کے بھاگے ہوئے غسانی اس قلعے میں چلے گئے ہیں۔*

*اس قلعے کا نام اَرک تھا۔سورج غروب ہو چکا تھا۔شام گہری ہو گئی،قلعے کے دروازے سورج غروب ہوتے ہی بند ہو گئے تھے۔اس کے بعد قلعے کے سنتریوں کو جو دیوار پر ٹہل رہے تھے گھوڑوں کے ٹاپ سنائی دیئے۔سنتریوں نے خبردار ہوشیار کی صدائیں لگانی شروع کردیں۔کماندار دیوار پر گئے اور نیچے دیکھا۔بہت سے گھوڑے دوڑے آرہے تھے۔وہ قلعے کے بڑے دروازے پر آکر رک گئے۔ابھی اورگھوڑے اور اونٹ آرہے تھے۔’’کون ہو تم لوگ؟‘‘ دروازے کے اوپر ایک بُرج سے ایک کماندار نے پوچھا۔’’ہم غسانی ہیں۔‘‘ باہر سے ایک سوار نے جواب دیا۔’’مسلمانوں کا لشکر آرہا ہے ۔ہم نے سویٰ میں انہیں روکنے کی کوشش کی تھی لیکن ہم ان کے مقابلے میں جم نہ سکے۔ ہم بستی میں جاتے تو مسلمان ہمیں زندہ نہ چھوڑتے۔‘‘’’کیا تم پناہ لینے آئے ہو؟‘‘’’پناہ بھی لیں گے۔‘‘ایک غسانی سوار نے جواب دیا۔’’اور مسلمانوں کے خلاف لڑیں گے بھی۔تمہیں ہماری ضررت ہو گی۔‘‘رومی سالار کو بلایا گیا۔اس نے ان لوگوں سے اپنی تسلی کیلئے کئی سوال کیے اور ان کیلئے قلعے کا دروازہ کھلوادیا۔انہوں نے رومی سالار کو تفصیل سے بتایا کہ مسلمانوں کی نفری کتنی ہے اور اب وہ کہاں ہیں۔اگلی صبح طلوع ہوئی تو خالدؓکا لشکر قلعے تک پہنچ گیا تھا اور قلعے کو محاصرے میں لے رہا تھا۔عیسائی فوج جو قلعے میں تھی قلعے کی دیواروں پر چلی گئی اور فوج کا ایک حصہ قلعے کے بڑے دروازے سے کچھ دور کھڑا ہوگیا۔اس حصے کو ایسی صورتِ حال کیلئے تیاررکھاگیا کہ دروازہ ٹوٹ جائے تو یہ دستہ حملہ آوروں کو اندر نہ آنے دے اور حکم ملنے پر باہر جا کر مسلمانوں پر حملے کرے۔قلعے کے باہر للکار اور نعرے گرج رہے تھے۔’’قلعہ ہمارے حوالے کر دو۔‘‘خالدؓ کے حکم سے رافع بن عمیرہ نے بلند آواز سے کہا۔’’ورنہ ہر غسانی قتل ہونے کیلئے تیار ہو جائے،ہتھیار ڈال دو اور کسی کو باہر بھیجوجو ہمارے ساتھ صلح کی شرطیں طے کرے۔‘‘’’اے مسلمانو!‘‘اوپر سے ایک کماندار نے للکار کر کہا۔’’یہ قلعہ تمہیں اتنی آسانی سے نہیں ملے گا۔‘‘*
*واقدی لکھتا ہے کہ قلعہ میں ایک ضعیف العمر عالم تھا۔اس نے رومی سالار کو بلایا۔اس عالم کی قدرومنزلت تھی اور غسانی اس کا حکم مانتے اور اس کی ہر بات کو برحق تسلیم کرتے تھے۔’’کیا اس فوج کا پرچم کالے رنگ کا ہے؟‘‘عالم نے پوچھا۔’’ہاں مقدس باپ!‘‘رومی سالار نے جواب دیا۔’’ان کا جھنڈا نظر آرہا ہے جو سفید اور کالے رنگ کا ہے۔‘‘*

*جزاکم اللہ خیرا۔*

*جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*👇🏻
     *اسلامک ہسٹری*

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─