┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

*《▪♡ شمشیرِ بے نیام ♡▪》*

*حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ*

*( قسط نمبر-54)*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*’’اﷲ تم سب کا حامی و ناصر ہو۔ ‘‘خلیفۃ المسلمینؓ نے آخری حکم یہ دیا۔’’سالار اپنے اپنے دستے ایک دوسرے سے الگ رکھیں گے۔ اگر رومیو ں کے ساتھ کہیں ٹکر ہو گئی تو سالار ایک دوسرے کو مدد کیلئے بلا سکتے ہیں۔ اگر لشکرکے چاروں حصوں کو مل کر لڑنا پڑا تو ابو عبیدہ بن الجراح تمام لشکر کے سپاہ سالار ہوں گے۔‘‘سب سے پہلے یزیدؓ بن ابی سفیان اپنے دستوں کو ساتھ لے کر مدینہ سے نکلے۔ مدینہ کی عورتیں اور بچے بھی باہر نکل آئے تھے۔چھتوں پر عورتیں کھڑی ہاتھ اوپر کرکے ہلا رہی تھیں۔بوڑھی عورتوں نے دعاکے لیے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے۔کئی بوڑھوں کی آنکھیں اس لیے اشکبار ہو گئی تھیں کہ وہ لڑنے کے قابل نہیں رہے تھے۔یزیدؓ بن ابی سفیان اپنے دستوں کے آگے آگے جا رہے تھے۔یزیدؓ کے ساتھ امیر المومنین ابو بکرؓ پیدل جا رہے تھے، یزیدؓ گھوڑے سے اتر آئے، امیرالمومنینؓ کے اصرار کے باوجود وہ گھواڑے پر سوار نہ ہوئے ، امیرالمومنینؓ ضعیف تھے پھر بھی وہ دستوں کی رفتار سے چلے جا رہے تھے۔ یزیدؓ نے انہیں کئی بار کہا کہ وہ واپس چلے جائیں لیکن ابو بکرؓ نہ مانے، مدینہ سے کچھ دور جاکر یزیدؓ رک گئے۔’’امیرالمومنین واپس نہیں جائیں گے تو میں ایک قدم آگے نہیں بڑھوں گا ۔‘‘ یزیدؓ بن ابی سفیان نے کہا۔’’خدا کی قسم ابو سفیان!‘‘امیرالمومنینؓ نے کہا۔’’تو مجھے سنتِ رسول اﷲﷺسے روک رہا ہے۔ کیا تجھے یاد نہیں کہ رسول اﷲﷺجہاد کو رخصت ہونے والے ہر لشکرکے ساتھ دور تک جاتے اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتے تھے؟ آپﷺفرمایا کرتے تھے، کہ پاؤں جو جہاد فی سبیل اﷲکے راستے پر گرد آلود ہو جاتے ہیں، دوزخ کی آگ ان سے دور رہتی ہے۔‘‘تاریخ کے مطابق امیر المومنینؓ کے لشکر کے اس حصے کے ساتھ مدینہ سے دو میل دور تک چلے گئے تھے۔’’یزید!‘‘امیرالمومنین ؓنے کہا۔’’اﷲتجھے فتح و نصرت عطا فرمائے، کوچ کے دوران اپنے آپ پر اور اپنے لشکر پر کوئی سختی نہ کرنا۔ فیصلہ اگر خود نہ کر سکو تو اپنے ماتحتوں سے مشورہ لے لینا، اور تلخ کلامی نہ کرنا ……عدل و انصاف کا دامن نہ چھوڑنا۔ ظلم سے باز رہنااور بے انصافی کرنے والی قوم کو اﷲپسند نہیں کرتا، اور ایسی قوم کبھی فاتح نہیں ہوتی……میدانِ جنگ میں پیٹھ نہ دکھانا، کہ جنگی ضرورت کے بغیر پیچھے ہٹنے والے پر اﷲکا قہر نازل ہوتا ہے……اور جب تم اپنے دشمن پر غالب آجاؤ تو عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں پر ہاتھ نہ اٹھانا، اور جو جانور تم کھانے کیلئے ذبح کرو ان کے سوا کسی جانور کو نہ مارنا۔‘‘*

*مؤرخین واقدی، ابو یوسف، ابنِ خلدون اور ابنِ اثیر نے امیرالمومنین ابو بکرؓ کے یہ الفاظ لکھے ہیں، ان مؤرخین کے مطابق امیرالمومنین ابو بکرؓ نے یزید ؓبن ابی سفیان سے کہا۔’’ تجھے خانقاہیں یا عبادت گاہیں سی نظر آئیں گی اور ان کے اندر راہب بیٹھے ہوں گے، وہ تارک الدنیا ہوں گے۔ انہیں اپنے حال میں مست رہنے دینا، نہ خانقاہوں اور عبادت گاہوں کو کوئی نقصان پہنچانا، نہ ان کے راہبوں کو پریشان کرنا……اور تمہیں صلیب کو پوجنے والے بھی ملیں گے۔ ان کی نشانی یہ ہوگی کہ ان کے سروں کے اوپر درمیان میں بال ہوتے ہی نہیں ، منڈوادیتے ہیں۔ ان پر اسی طرح حملہ کرنا جس طرح میدانِ جنگ میں دشمن پر حملہ کیا جاتا ہے۔ انہیں صرف اس صورت میں چھوڑنا کہ اسلام قبول کرلیں یا جزیہ ادا کرنے پر آمادہ ہو جائیں……اﷲکے نام پر لڑنا، اعتدال سے کام لینا۔ غداری نہ کرنا، اور جو ہتھیار ڈال دے اسے بلا وجہ قتل نہ کرنا نہ ایسے لوگوں کے اعضاء کاٹنا۔‘‘یہ رسولِ کریمﷺکا طریقہ تھا کہ رخصت ہونے والے ہر لشکر کے ساتھ کچھ دورتک جاتے، سالاروں کوان کے فرائض یاد دلاتے، اور لشکر کو دعاؤں سے رخصت کرتے تھے۔خلیفہ اول ابو بکرؓ نے رسول کریمﷺ کی پیروی کرتے ہوئے چاروں سالاروں کو آپﷺہی کی طرح رخصت کیا۔لشکر اور دستے تو محاذوں پر روانہ ہوتے ہی رہتے تھے لیکن یہ لشکر بڑے ہی خطرناک اور طاقتور دشمن سے نبرد آزما ہونے جا رہا تھا۔ شہنشاہ ہرقل جو حمص میں تھا، صرف شہنشاہ ہی نہیں تھا وہ میدانِ جنگ کا استاد اور جنگی چالوں کا ماہر تھا اس لشکر کو مدینہ سے روانہ کرکے مدینہ والوں پر خاموشی سی طاری ہو گئی تھی اور وہ خاموشی کی زبان میں ہر کسی کے سینے سے دعائیں پھوٹ رہی تھیں۔یہ تھی وہ جنگی مہم جس کیلئے امیر المومنینؓ نے فیصلہ کیا تھاکہ اس کی کمان اور قیادت کیلئے خالدؓ سے بہتر کئی سالار نہیں۔ مدینہ کا یہ اٹھائیس ہزار کا لشکر پندرہ دنوں میں شام کی سرحدوں پر اپنے بتائے ہوئے مقامات پر پہنچ چکا تھا۔حمص میں شہنشاہ ہرقل کے محل میں وہی شان و شوکت تھی جو شہنشاہوں کے محلات میں ہوا کرتی تھی۔مدائن کے محل کی طرح حمص کے محل میں بھی حسین اور نوجوان لڑکیاں ملازم تھیں۔ ناچنے اور گانے والیاں بھی تھیں، اور ایک ملکہ بھی تھی اور جس کی وہ ملکہ تھی اس کی ملکہ ہونے کی دعویدار چند ایک اور بھی تھیں۔شہنشاہ ہرقل کے دربار میں ایک ملزم پیش تھا ،اس کا جرم یہ تھا کہ وہ شاہی خاندان سے تعلق نہیں رکھتا تھا، اس کا تعلق اس خاندان کے ساتھ تھا جوشہنشاہ کا نام سنتے ہی سجدے میں گر پڑتاتھا، یہ ملزم ان لوگوں میں سے تھا جو شہنشاہ کو روزی رساں سمجھا کرتے تھے۔*

*اس ملزم کا جرم یہ تھا کہ شاہی خاندان کی ایک شہزادی اس پر مر مٹی تھی۔ شہزادی غزال کے شکار کو گئی تھی، اور جنگل میں اسے کہیں یہ آدمی مل گیا تھا۔ شہزادی نے تیر سے ایک غزال کو معمولی سا زخمی کر دیا تھا، اور اس کے پیچھے گھوڑا ڈال دیا تھا، لیکن غزال معمولی زخمی تھا، وہ گھوڑے کی رفتار سے کہیں زیادہ تیز بھاگ رہا تھا۔اس ملزم نے دیکھ لیا، وہ گھوڑے پر سوار تھا اور اس کے ہاتھ میں برچھی تھی اس نے غزال کے پیچھے گھوڑا دوڑادیا۔ غزال مڑتا تھا تو سوار رستہ چھوٹا کرکے اس کے قریب پہنچ جاتا تھا، وہ غزال کو اس طرف لے جاتا جدھر شہزادی رُکی کھڑی تھی۔شہزادی نے تین چار تیر چلائے۔ سب خطا گئے۔ اس جوان اور خوبرو آدمی نے گھوڑے کو ایسا موڑا کہ غزال کے راستے میں آگیا، اس نے برچھی تاک کر پھینکی جو غزال کے پہلو میں اتر گئی اور وہ گر پڑا۔شہزادی اپنا گھوڑا وہاں لے آئی تو یہ آدمی اپنے گھوڑے سے کود کر اترا اور شہزادی کے گھوڑے کے قدموں میں سجدہ ریز ہو گیا۔’’میں اگر شہزادی کے شکار کو شکار کرنے کا مجرم ہوں تو مجھے معاف کیا جائے۔‘‘ اس نے ہاتھ جوڑکر کہا۔’’لیکن میں غزال کو شہزادی کے سامنے لے آیا تھاکہ شہزادی اسے شکار کرے۔‘‘*
*’’تم شہسوار ہو۔‘‘ شہزادی نے مسکرا کر کہا۔’’کیا کام کرتے ہو؟‘‘’’ہر وہ کام کر لیتا ہوں جس سے دو وقت کی روٹی مل جائے۔‘‘ اس آدمی نے کہا۔’’میں تجھے محل کے محافظوں میں شامل کروں گی۔‘‘رعایا کے اس ناچیز بندے میں اتنی جرات نہیں تھی کہ انکار کرتا۔شہزادی اسے ساتھ لے آئی اور محافظوں میں رکھوادیا، اسے جب شاہی محافظوں کا لباس ملا اور جب وہ اس لباس میں شاہی اصطبل کے گھوڑے پر سوار ہوا تو اس کی مردانہ وجاہت نکھر آئی۔ وہ شہزادی کا منظورِ نظر بن گیا پھر شہزادی نے اسے اپنا دیوتا بنا لیا۔شہزادی کی شادی ہونے والی تھی لیکن اس نے اپنے منگیتر کے ساتھ بے رخی برتنا شروع کردی۔ منگیتر نے اپنے مخبروں سے کہا کہ وہ شہزادی کو دیکھتے رہا کریں کہ وہ کہاں جاتی ہے اور اس کے پاس کون آتا ہے۔ایک رات شہزادی کے منگیتر کو اطلاع ملی کہ شہزادی شاہی محل کے باغ میں بیٹھی ہوئی ہے۔ وہ محل سے تھوڑی ہی دور ایک بڑی خوبصورت جگہ تھی۔وہاں چشمہ تھا اور سبزہ زار تھا۔ درخت تھے اور پھولدار پودوں کی باڑیں تھیں۔ چاندنی رات تھی۔ شہزادی اور اس کا منظورِنظر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے بیٹھے تھے کہ انہیں بھاری بھرکم قدموں کی دھمک سنائی دی ۔وہ شاہی محافظوں کے نرغے میں آگئے تھے۔*

*اس محافظ کو قید میں ڈال دیا گیا،شہنشاہ ہرقل کو صبح بتایا گیا اور محافظ کو زنجیروں میں باندھ کر دربار میں پیش کیا گیا۔اس پر الزام یہ تھا کہ اس نے ایک شہزادی کی شان میں گستاخی کی ہے۔ یہ الزام دربار میں بلند آواز سے سنایا گیا۔’’شہنشاہِ ہرقل کی شہنشاہی ساری دنیا میں پھیلے!‘‘ملزم نے کہا۔’’شہزادی کو دربار میں بلا کر پوچھا جائے کہ میں نے گستاخی کی ہے یا محبت کی ہے……اور محبت میں نے نہیں شہزادی نے کی ہے۔‘‘’’لے جاؤ اسے!‘‘شہنشاہ ہرقل نے گرج کر کہا۔’’رَتھ کے پیچھے باندھ دو اور رتھ اس وقت تک دوڑتی رہے جب تک اس کا گوشت اس کی ہڈیوں سے الگ نہیں ہوجاتا۔‘‘’’شہنشاہِ ہرقل!‘‘ملزم للکار کر بولا۔’’ تو ایک شہزادی کی محبت کا خون کر رہا ہے۔‘‘اُسے دربار سے گھسیٹ کر لے جا رہے تھے اور اس کی پکار اور للکار سنائی دے رہی تھی……وہ رحم کی بھیک نہیں مانگ رہا تھا۔’’تیرا انجام قریب آرہا ہے ہرقل!‘‘وہ چلّاتا جارہا تھا۔’’اپنے آپ کو دیوتا نہ سمجھ ہرقل!ذلت اور رسوائی تیری طرف آرہی ہے۔‘‘محبت کے اس مجرم کو ایک رتھ کے پیچھے باندھ دیاگیا اور دو گھوڑوں کی رتھ دوڑ پڑی، محل سے شور اٹھا۔ ’’شہزادی نے پیٹ میں تلوار اتار لی ہے۔‘‘یہ خبر شہنشاہ ہرقل تک پہنچی تو اس نے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔وہ تخت پر بیٹھا رہا،درباریوں پر سناٹا طاری تھا۔کچھ دیر بعد اٹھا اور اپنے خاص کمرے میں چلا گیا۔وہ سر جھکائے یوں کمرے میں ٹہل رہاتھا، ملکہ کمرے میں آئی،ہرقل نے اسے قہر کی نظروں سے دیکھا۔’’شگون اچھا نہیں۔‘‘ملکہ نے رُندھی ہوئی آواز میں کہا۔’’صبح ہی صبح دو خون ہو گئے ہیں۔‘‘’’یہاں سے چلی جاؤ۔‘‘* *ہرقل نے کہا۔’’میں شاہی خاندان کی بے عزتی برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘’’میں کچھ اور کہنے آئی ہوں۔‘‘ ملکہ نے کہا۔’’سرحد سے ایک عیسائی آیا ہے۔اس نے تمام رات سفر میں گھوڑے کی پیٹھ پر گزاری ہے۔اسے کسی نے دربار میں داخل ہونے نہیں دیا۔ مجھے اطلاع ملی تو……‘‘’’وہ کیوں آیا ہے؟‘‘ہرقل نے جھنجھلا کر پوچھا۔’’کیا وہ سرحد سے کوئی خبر لایا ہے؟‘‘’’مسلمانوںکی فوجیں آرہی ہیں۔‘‘ملکہ نے کہا۔’’اندر بھیجو اسے!‘‘ہرقل نے کہا۔ملکہ کے جانے کے بعد ایک ادھیڑ عمر آدمی کمرے میں آیا۔اس کے کپڑوں پر اور چہرے پر گرد کی تہہ جمی ہوئی تھی۔وہ سلام کیلئے جھکا۔’’تو نے محل تک آنے کی جرات کیسے کی؟‘‘ہرقل نے شاہانہ جلال سے پوچھا۔’’کیا تو یہ خبر کسی سالار یا ناظم کو نہیں دے سکتا تھا؟‘‘’’یہ جرم ہے تو مجھے بخش دیں۔‘‘ اس آدمی نے کہا۔’’مجھے ڈر تھا کہ اس خبرکو کوئی سچ نہیں مانے گا۔‘‘*

*’’تو نے مسلمانوں کا لشکر کہاں دیکھا ہے؟‘‘’’حمص سے تین روز کے فاصلے پر۔‘‘اس نے جواب دیا۔یہ ایک عیسائی عرب تھا۔جس نے ابو عبیدہؓ بن الجراح کے دستوں کو شام سے کچھ دور دیکھ لیا تھا ۔اسی شام دو اور جگہوں سے اطلاعیں آئیں کہ مسلمانوں کی فوج ان جگہوں پر پڑاؤڈالے ہوئے ہے ۔مسلمانوں کے لشکر کے چوتھے حصے کی اطلاع ابھی نہیں آئی تھی۔رات کو ہرقل نے اپنے جرنیلوں اور مشیروں کو بلایا۔’’کیا تمہیں معلوم ہے سرحد پر کیا ہو رہا ہے؟‘‘ہرقل نے پوچھا۔’’ مدینہ کی فوج تین جگہوں پر آگئی ہے۔اپنی کسی سرحدی چوکی نے کوئی اطلاع نہیں دی ۔کیا وہاں سب سوئے رہتے ہیں؟ کیا تم برداشت کر سکتے ہو کہ عرب کے چند ایک لٹیرے قبیلے تمہیں سرحدوں پر آکر للکاریں،کیا تم ان کے ایک سالار کو اپنی طاقت نہیں دکھا چکے۔وہ خوش قسمت تھا کہ نکل گیا اب وہ زیادہ تعداد میں آئے ہیں وہ مالِ غنیمت کے بھوکے ہیں۔ فوراً تیاری شروع کرو ان کا کوئی ایک آدمی اور کوئی گھوڑا یا اونٹ واپس نہ جائے ۔‘‘’’شہنشاہِ ہرقل!‘‘ شام کی فوجوں کے کمانڈر نے کہا۔’’آپ اتنے نا تجربہ کار تو نہیں جیسی آپ نے بات کی ہے۔ اگر یہ معاملہ کچھ اور ہوتا تو ہم آپ کی تائید کرتے لیکن یہ مسئلہ جنگی ہے آپ جانتے ہیں کہ شکست کے بعد کیا ہوتا ہے۔‘‘’’مجھے سبق نہیں مشورہ چاہیے۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’وہ کیا ہے جو میں نہیں جانتا۔‘‘* *’’شہنشاہ سب کچھ جانتے ہوئے ایسی بات نہ کریں۔ جس نے فارس کے شہنشاہ اردشیر کی جان لے لی تھی۔‘‘رومی فوجوں کے کمانڈر نے کہا۔’’اس کی جنگی طاقت ہماری ٹکر کی تھی۔آپ بھی اس فوج سے لڑ چکے ہیں۔ اس کے بعد آپ کو بھی عراق پر فوج کشی کی جرات نہیں ہوئی۔ اب فراض کے میدان میں ہمیں مسلمانوں کے خلاف فارسیوں کو اتحادی بنانا پڑا اور ہم نے عیسائی قبیلوں کو ساتھ ملایا مگر خالد بن ولید ہمیں شکست دے گیا۔‘‘’’کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ ہمیں مسلمانوں سے ڈرنا چاہیے؟‘‘ہرقل نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔ ’’نہیں شہنشاہ ۔‘‘کمانڈر نے کہا۔’’اردشیر بھی مدائن میں بیٹھا ایسی ہی باتیں کیا کرتا تھا۔جیسی آپ حمص میں بیٹھے کر رہے ہیں۔میں آپ کو یاد دلا رہا ہوں کہ فارسیوں کاانجام دیکھیں ،مدائن کے محل اب بھی کھڑے ہیں لیکن مقبروں کی طرح۔ اردشیر نے پہلے پہل مسلمانوں کو عرب کے بدو اور ڈاکو کہا تھا۔میں نے فارسیوں کی شکست کی چھان بین پوری تفصیل سے کی ہے۔اردشیر کے منہ سے یہی الفاظ نکلتے تھے۔کچل دو۔ مگر اس کا جو بھی جرنیل مسلمانوں کے مقابلے کو گیا وہ چلا گیا۔مسلمان ان کے علاقوں پہ علاقہ فتح کرتے آئے حتیٰ کہ ان کے تیر مدائن میں گرنے لگے۔‘‘ ’’اور شہنشاہِ ہرقل! مجھے معلوم ہوا ہے کہ مسلمان مذہبی جنون سے لڑتے ہیں۔ مالِ غنیمت کیلئے نہیں۔ہم زمین کیلئے لڑتے ہیں مسلمان جنگ کو ایک عقیدہ سمجھتے ہیں۔ہم ان کے عقیدے کو سچا سمجھیں یا نہ سمجھیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔شہنشاہ کو اس پر بھی غور کرنا پڑ ے گا کہ مسلمان ہر میدان میں تھوڑی تعداد میں ہوتے ہیں۔وہ جذبے اور جنگی چالوں کے زور پر لڑتے ہیں۔*

*فراض میں ہم نے اپنے فارسیوں کی اور عیسائیوں کی نفری کو اتنا زیادہ پھیلا دیا تھا کہ مسلمانوں کی تھوڑی سی نفری ہمارے پھیلاؤمیں آکر گم ہو جاتی، لیکن مسلمانوں نے ایسی چال چلی کہ ہمارا پھیلاؤ سکڑ گیا اور ہم پِٹ کر رہ گئے۔‘‘دوسرے جرنیلوں نے بھی اسی طرح کے مشورے دیئے اور ہرقل قائل ہو گیاکہ مسلمانوں کو طاقت ور اور خطرناک دشمن سمجھ کر جنگ کی تیاری کی جائے۔’’لیکن میں اسے اپنی توہین سمجھتا ہوں کہ مسلمان جو کچھ ہی سال پہلے وجود میں آئے ہیں، عظیم سلطنت روم کو للکاریں ۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’ہمارے پاس ہماری صدیوں پرانی تاریخ ہے۔ رومیوں نے ساری دنیا پر دہشت طاری کیے رکھی ہے۔ ہمارا مذہب دیوتاؤں کا مذہب ہے۔ آسمانوں اور زمین پر ہمارے دیوتاؤں کی حکمرانی ہے۔ اسلام ایک انسان کا بنایا ہوا مذہب ہے جس کے پھیل جانے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔میں صرف یہ حکم دوں گاکہ اس مذہب کے پیروکاروں کو اس طرح ختم کرو کہ اسلام کا نام لینے والا کوئی زندہ نہ رہے۔‘‘اگلے ہی روز ہرقل کو اطلاع ملی کہ مسلمانوں کے ساتھ رومی فوج کی ٹکر ہوئی ہے اور رومی فوج بڑی بری طرح پسپا ہوئی ہے۔یہ عمروؓ بن العاص کے دستے تھے جو تبوک سے آگے بڑھے تو رومی فوج کے کچھ دستے ان کی راہ میں حائل ہو گئے۔یہ شام کے عیسائی عربوں کے دستے تھے۔جن کے ذمے سرحدوں کی دیکھ بھال کا کام تھا۔ عمروؓ بن العاص بڑے ہوشیار سالار تھے۔انہوں نے ایسی چال چلی کہ اپنے ہراول دستے کو دشمن سے ٹکر لینے کیلئے آگے بھیجا اور دشمن کو گھیرے میں لینے کی کوشش کی لیکن شام کے عیسائی عربوں کے دستے تھوڑا سا نقصان اٹھا کر پسپا ہو گئے۔عمروؓ بن العاص ایلہ کے مقام پرپہنچ گئے ۔یزیدؓ بن ابی سفیان بھی اپنے دستوں کے ساتھ ان سے آملے۔ جوں ہی مدینہ کے لشکر کے یہ دونوں حصے اکھٹے ہوئے روم کی فوج ان کا راستہ روکنے کیلئے سامنے آگئی۔مؤرخوں کے مطابق روم کی اس فوج کی نفری تقریباً اتنی ہی تھی جتنی کہ مسلمانوں کی تھی۔اب دو مسلمان سالار اکٹھے ہو گئے تھے انہوں نے رومیوں کے ساتھ آمنے سامنے کی ٹکر لی۔ رومیوں نے جم کر مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن قدم جما نہ سکے اور پسپا ہو گئے۔*
*یزیدؓ بن ابی سفیان نے ایک سوار دستے کو ان کے تعاقب میں بھیج دیا۔ رومیوں پر کچھ ایسی دہشت طاری ہو گئی تھی کہ وہ سوائے کٹ کٹ کر مرنے کہ اور کچھ بھی نہ کر سکے۔شہنشاہ ہرقل کو جب اپنے دستوں کی اس پسپائی کی اطلاع ملی تو وہ آگ بگولہ ہو گیا۔ اس نے اپنے جرنیلوں کو ایک بار پھر بلایا اور حکم دیا کہ زیادہ سے زیادہ فوج اکٹھی کرکے شام کی سرحد کے باہر کسی جگہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ لڑی جائے اور انہیں وہیں ختم کیا جائے۔*

*مسلمان سالاروں نے ان جگہوں سے جہاں وہ پڑاؤڈالے ہوئے تھے، چند آدمیوں کو اپنے زیرِ اثر لے لیا،اور انہیں بے انداز انعام و اکرام کا لالچ دیا جس کے عوض وہ مسلمانوں کیلئے جاسوسی کرنے پر آمادہ ہو گئے۔چند دنوں میں ہی وہ مطلوبہ خبریں لے آئے۔ ان کی رپورٹوں کے مطابق رومی جو فوج اکٹھی کر رہے تھے اس کی تعداد ایک لاکھ سے کچھ زیادہ تھی۔ اس فوج کا ایک حصہ اجنادین کی طرف کوچ کر رہا تھا جاسوسوں نے یہ اطلاع بھی دی کہ رومی فیصلہ کن جنگ کیلئے تیار ہو کر آرہے ہیں۔جاسوسوں نے تیاریوں کی پوری تفصیل بیان کی۔ ابو عبیدہؓ بن الجراح کو امیر المومنینؓ نے یہ حکم دیا تھا کہ لشکر کے چاروں حصوں کو اکٹھے لڑنا پڑا تو وہ یعنی ابو عبیدہؓ پورے لشکر کے سالارہوں گے ۔صورت ایسی پیدا ہو گئی تھی کہ لشکر کے چاروں حصوں کو اکٹھا ہونا پڑا۔ابو عبیدہؓ نے پورے لشکر کی کمان لے لی، لیکن لشکر کو مکمل طور پر ایک جگہ اکٹھا نہ ہونے دیا۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے امیرالمومنینؓ کو تیز رفتار قاصد کے ہاتھ پیغام بھیجا جس میں مکمل صورتِ حال لکھی اور یہ بھی کہ رومیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہو گی۔یہ تھے وہ حالات جن کے پیشِ نظر امیر المومنینؓ نے خا لدؓ کو حکم بھیجا تھا کہ وہ شام کی سرحد پر اس جگہ پہنچیں جہاں مدینہ کا لشکر خیمہ زن ہے۔اس حکم میں یہ بھی لکھاتھا کہ اپنا لشکر کچھ مشکلات میں الجھ گیا ہے ۔اس پیغام نے خالدؓ کو پریشان کر دیا تھا۔ یہ سنایا جا چکا تھا کہ انہوں نے امیر المومنینؓ کے حکم کے مطابق اپنے لشکر کو دو حصو ں میں تقسیم کیا، ایک حصہ مثنیٰ بن حارثہ کے حوالے کر دیا۔خالدؓنے فوج کو فوری کوچ کا حکم دے دیا۔انہوں نے جب فاصلے کا اندازہ کیا، تو وہ اتنا زیادہ تھا کہ خالدؓ کو وہاں پہنچتے بہت دن لگ جاتے ۔انہیں ڈر تھاکہ اتنے دن ضائع ہو گئے تو معلوم نہیں کیا ہو جائے گا۔انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ رومیوں کی فوج فارسیوں کی نسبت زیادہ طاقتور اور برتر ہے۔خالدؓان راستوں سے واقف تھے۔ سیدھا اور آسان راستہ بہت طویل تھا۔خالدؓ نے اپنے سالاروں کو بلایا اور انہیں بتایاکہ بہت جلد پہنچنے کیلئے انہیں کوئی راستہ معلوم نہیں۔سالارو ں میں سے کسی کو چھوٹا راستہ معلوم نہیں تھا۔*

*’’ اگر کوئی راستہ چھوٹا ہوا بھی تو وہ سفرکے قابل نہیں ہوگا۔‘‘ایک سالار نے کہا۔’’اگر کسی ایسے راستے سے ایک دو مسافر گزرتے بھی ہوں تو ضروری نہیں کہ وہ راستہ ایک لشکر کیلئے گزرنے کے قابل ہو۔‘‘’’میں ایک آدمی کو جانتا ہوں ۔‘‘ایک اور سالار بولا۔’’ رافع بن عمیرہ۔ وہ ہمارے قبیلے کا زبردست جنگجو ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ خد انے اسے کوئی ایسی طاقت دی ہے کہ وہ زمین کے نیچے کے بھید بھی بتا دیتا ہے۔ وہ اس صحرا کا بھیدی ہے۔‘‘خالدؓ کے حکم سے رافع بن عمیرہ کو بلایا گیااور اس سے منزل بتا کر پوچھاگیا کہ چھوٹے سے چھوٹا راستہ کوئی ہے؟*
*’’زمین ہے تو راستے بھی ہیں۔‘‘رافع نے کہا۔’’یہ مسافر کی ہمت پر منحصر ہے کہ وہ ہر راستے پر چل سکتاہے یا نہیں۔تم منزل تک کسی بھی راستے سے پہنچ سکتے ہو لیکن بعض راستے ایسے ہوتے ہیں جن پر سانپ بھی نہیں رینگ سکتا۔ میں ایک راستہ بتا سکتا ہوں ، لیکن یہ نہیں بتا سکتا کہ اس سے لشکر کے کتنے آدمی منزل تک زندہ پہنیں گے اور میں یہ بھی بتا سکتاہوں کہ گھوڑا اس صحرائی راستے سے نہیں گزر سکتا، گھوڑا اتنی پیاس برداشت نہیں کر سکتا، اور گھوڑوں کیلئے پانی ساتھ لے جایا نہیں جا سکتا۔‘‘ خالدؓنے اپنا بنایا ہوا نقشہ اس کے آگے رکھا اور پوچھا کہ وہ کون سا راستہ بتا رہا ہے؟’’یہ قراقر ہے۔‘‘ رافع بن عمیرہ نے نقشہ پر انگلی رکھتے ہوئے کہا۔’’یہاں ایک نخلستان ہے جو اتنا سر سبز و شاداب ہے کہ مسافروں پر اپنا جادو طاری کر دیتا ہے ،یہاں سے ایک راستہ نکلتاہے جو سویٰ کو جاتاہے۔ سویٰ میں پانی اتنا زیادہ ہے کہ سارا لشکر اور لشکر کے تمام جانور پانی پی سکتے ہیں لیکن یہ پانی اسے ملے گا جو سویٰ تک زندہ پہنچ جائے گا۔ اوپر سورج کی تپش دیکھو دن کو کتناچل سکو گے ، کتنی دور تک چل سکو گے؟یہ میں نہیں جانتا، اتنے اونٹ لاؤ کہ لشکر کا ہر فرد اونٹ پر سوار ہو۔ ابنِ ولید! تم صحرا کے بیٹے ہو مگر اس صحرا سے نہیں گزر سکو گے۔‘‘رافع بن عمیرہ نے جو راستہ بتایا یہ مؤرخوں کی تحریروں کے مطابق اک سو بیس میل تھا، یہ ایک سو بیس میل کا فاصلہ طے کرنے سے منزل تک کئی دن جلدی پہنچا جا سکتا تھا۔خالدؓ وہ سالار تھے جو مشکلات کی تفصیلات سن کر نہیں بلکہ مشکلات میں پڑ کر اندازہ کیا کرتے تھے کہ ان کی شدت کتنی کچھ ہے ، ان کے دماغ میں صرف یہ سمایا ہوا تھا کہ مدینہ کا لشکر مشکل میں ہے، اور اس کی مدد کو پہنچنا ہے ، سیدھے راستے سے فاصلہ چھ سے سات سو میل تک بنتا تھا۔ رافع کے بتائے ہوئے راستے سے جانے سے فاصلہ کم رہ جاتا تھا۔مگر رافع بتاتا تھا کہ اس خطرناک راستے سے جاؤ تو پانچ چھ دن ایسی دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے جو انسان کیا برداشت کرے گا گھوڑا بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ پانی تو مل ہی نہیں سکتا، اور سب سے بڑی مشکل یہ کہ مہینہ مئی کاتھا، جب ریگستان جل رہے ہوتے ہیں۔*

*’’خدا کی قسم ابنِ ولید!‘‘ایک سالار نے کہا۔’’تو اتنے بڑے لشکر کو اس راستے پر نہیں لیجائے گا۔جو تباہی کا اور بہت بری موت کا رستہ ہوگا۔‘‘*
*’’اور جس کا دماغ صحیح ہو گا وہ اس راستے پر نہیں جائے گا۔‘‘ایک اور سالار نے کہا۔’’ہم اسی راستے سے جائیں گے۔‘‘خالدؓنے ایسی مسکراہٹ سے کہا،جس میں عجیب سی سنجیدگی تھی۔*
*’’ہم پر فرض ہے کہ تیری اطاعت کریں۔‘‘ رافع بن عمیرہ نے کہا۔’’لیکن ایک بار پھر سوچ لو۔‘‘’’میں وہ حکم دیتا ہوں جو حکم اﷲمجھے ددیتا ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ہارتے وہ ہیں جن کے ارادے کمزور ہوتے ہیں، اﷲکی خوشنودی ہمیں حاصل ہے اور پھر اﷲکی راہ میں جو مصیبتیں آئیں گی ہم کیوں نہ انہیں بھی برداشت کریں ۔‘‘یہ واقعہ اور یہ گفتگو طبری نے ذرا تفصیل سے بیان کی ہے، خالدؓ کے سالاروں نے ان کے عزم کی یہ پختگی دیکھی تو سب نے پر جوش لہجے میں لبیک کہی، ان میں سے کسی نے کہا۔’’ ابنِ ولید تجھ پر اﷲکا کرم! وہ کر جو تو بہہتر سمجھتا ہے۔ ہم تیرے ساتھ ہیں۔‘‘خالدؓنے اس سفر پر روانگی سے پہلے ایک حکم یہ دیا کہ لشکر کا ہر فرد اونٹ پر سوار ہو گا۔ گھوڑے سواروں کے بغیر پیچھے پیچھے چلیں گے۔ دوسرا حکم یہ کہ عورتوں اور بچوں کو مدینہ بھیج دیا جائے۔ سالاروں کو خالدؓ نے کہا تھا کہ تمام لشکر کو اچھی طرح بتا دیں کہ وہ ایسے راستے پر جا رہے ہیں جس راستے پر پہلے کبھی کوئی لشکر نہیں گزرا۔ ہر کسی کو ذہنی طور پر تیار کیا جائے۔‘‘مئی کا مہینہ اونٹوں کی فراہمی میں گزر گیا۔ جون ۶۳۴ء )ربیع الآخر ۱۳ھ( کا مہینہ شروع ہو گیا۔اب تو صحرا جل رہا تھا۔خالدؓ نے کوچ کا حکم دے دیا۔ان کے ساتھ نو ہزار مجاہدین تھے جو اس خود کُش سفر پر جا رہے تھے۔قراقر تک سفر ویسا ہی تھا جیسا اس لشکر کا ہر سفر ہوا کرتا تھا۔وہ سفر قراقر سے شروع ہونا تھاجسے مسلمان مؤرخوں نے اور یورپی مؤرخوں نے بھی تاریخ کا سب سے خطرناک اور بھیانک سفر کہا ہے۔مثنیٰ بن حارثہ قراقرتک خالدؓ کے ساتھ گئے۔مثنیٰ کو حیرہ واپس آنا تھا۔قراقر سے جس قدر پانی ساتھ لے جایا جا سکتا تھا مشکیزوں میں بھر لیا گیا۔مٹکے بھی اکٹھے کر لیے گئے تھے۔ان میں بھی پانی بھر لیا گیا۔اگلی صبح جب لشکر روانہ ہونے لگا تو مثنیٰ بن حارثہ خالدؓسے اور اس کے سالاروں سے گلے لگ کے ملے۔یعقوبی اور ابنِ یوسف نے لکھا ہے کہ مثنیٰ بن حارثہ پر رقت طاری ہو گئی تھی۔ان کے منہ سے کوئی دعا نہ نکلی، آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ دعائیں ان کے دل میں تھیں۔ انہیں یقین نہیں تھا کہ وہ خالدؓ کو اور ان کے نو ہزار مجاہدین کوپھر کبھی دیکھ سکیں گے۔*
*خالدؓ اونٹ پر سوار ہونے لگے تو رافع بن عمیرہ دوڑتا آیا۔’’ابنِ ولید!‘‘رافع نے خالدؓ کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا۔’’اب بھی سوچ لے، رستہ بدل لے، اتنی جانوں سے مت کھیل!‘‘’’ابنِ عمیرہ!‘‘خالدؓ نے غصے سے کہا۔’’اﷲتجھے غارت کرے، مجھے اﷲکی راہ سے مت روک یا مجھے وہ رستہ بتا جو مدینہ کے لشکر تک جلدی پہنچا دے۔ تو نہیں جانتا، توہٹ میرے سامنے سے، اور حکم مان جو میں نے دیا ہے۔‘‘رافع خالدؓ کے آگے سے ہٹ گیا۔خالدؓ اونٹ پر سوار ہوئے اور لشکر چل پڑا۔سب سے آگے رافع کا اونٹ تھا اسے رہبری کرنی تھی۔*
*مثنیٰ کھڑے دیکھتے رہے۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔’’ امیر المومنین نے ٹھیک کہا تھا کہ اب کوئی ماں خالدجیسا بیٹا پیدا نہیں کرے گی۔*

*جزاکم اللہ خیرا۔*

*جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
     *اسلامک ہسٹری*

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─*《▪♡ شمشیرِ بے نیام ♡▪》*

*حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ*

*( قسط نمبر-54)*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*’’اﷲ تم سب کا حامی و ناصر ہو۔ ‘‘خلیفۃ المسلمینؓ نے آخری حکم یہ دیا۔’’سالار اپنے اپنے دستے ایک دوسرے سے الگ رکھیں گے۔ اگر رومیو ں کے ساتھ کہیں ٹکر ہو گئی تو سالار ایک دوسرے کو مدد کیلئے بلا سکتے ہیں۔ اگر لشکرکے چاروں حصوں کو مل کر لڑنا پڑا تو ابو عبیدہ بن الجراح تمام لشکر کے سپاہ سالار ہوں گے۔‘‘سب سے پہلے یزیدؓ بن ابی سفیان اپنے دستوں کو ساتھ لے کر مدینہ سے نکلے۔ مدینہ کی عورتیں اور بچے بھی باہر نکل آئے تھے۔چھتوں پر عورتیں کھڑی ہاتھ اوپر کرکے ہلا رہی تھیں۔بوڑھی عورتوں نے دعاکے لیے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے۔کئی بوڑھوں کی آنکھیں اس لیے اشکبار ہو گئی تھیں کہ وہ لڑنے کے قابل نہیں رہے تھے۔یزیدؓ بن ابی سفیان اپنے دستوں کے آگے آگے جا رہے تھے۔یزیدؓ کے ساتھ امیر المومنین ابو بکرؓ پیدل جا رہے تھے، یزیدؓ گھوڑے سے اتر آئے، امیرالمومنینؓ کے اصرار کے باوجود وہ گھواڑے پر سوار نہ ہوئے ، امیرالمومنینؓ ضعیف تھے پھر بھی وہ دستوں کی رفتار سے چلے جا رہے تھے۔ یزیدؓ نے انہیں کئی بار کہا کہ وہ واپس چلے جائیں لیکن ابو بکرؓ نہ مانے، مدینہ سے کچھ دور جاکر یزیدؓ رک گئے۔’’امیرالمومنین واپس نہیں جائیں گے تو میں ایک قدم آگے نہیں بڑھوں گا ۔‘‘ یزیدؓ بن ابی سفیان نے کہا۔’’خدا کی قسم ابو سفیان!‘‘امیرالمومنینؓ نے کہا۔’’تو مجھے سنتِ رسول اﷲﷺسے روک رہا ہے۔ کیا تجھے یاد نہیں کہ رسول اﷲﷺجہاد کو رخصت ہونے والے ہر لشکرکے ساتھ دور تک جاتے اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتے تھے؟ آپﷺفرمایا کرتے تھے، کہ پاؤں جو جہاد فی سبیل اﷲکے راستے پر گرد آلود ہو جاتے ہیں، دوزخ کی آگ ان سے دور رہتی ہے۔‘‘تاریخ کے مطابق امیر المومنینؓ کے لشکر کے اس حصے کے ساتھ مدینہ سے دو میل دور تک چلے گئے تھے۔’’یزید!‘‘امیرالمومنین ؓنے کہا۔’’اﷲتجھے فتح و نصرت عطا فرمائے، کوچ کے دوران اپنے آپ پر اور اپنے لشکر پر کوئی سختی نہ کرنا۔ فیصلہ اگر خود نہ کر سکو تو اپنے ماتحتوں سے مشورہ لے لینا، اور تلخ کلامی نہ کرنا ……عدل و انصاف کا دامن نہ چھوڑنا۔ ظلم سے باز رہنااور بے انصافی کرنے والی قوم کو اﷲپسند نہیں کرتا، اور ایسی قوم کبھی فاتح نہیں ہوتی……میدانِ جنگ میں پیٹھ نہ دکھانا، کہ جنگی ضرورت کے بغیر پیچھے ہٹنے والے پر اﷲکا قہر نازل ہوتا ہے……اور جب تم اپنے دشمن پر غالب آجاؤ تو عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں پر ہاتھ نہ اٹھانا، اور جو جانور تم کھانے کیلئے ذبح کرو ان کے سوا کسی جانور کو نہ مارنا۔‘‘*

*مؤرخین واقدی، ابو یوسف، ابنِ خلدون اور ابنِ اثیر نے امیرالمومنین ابو بکرؓ کے یہ الفاظ لکھے ہیں، ان مؤرخین کے مطابق امیرالمومنین ابو بکرؓ نے یزید ؓبن ابی سفیان سے کہا۔’’ تجھے خانقاہیں یا عبادت گاہیں سی نظر آئیں گی اور ان کے اندر راہب بیٹھے ہوں گے، وہ تارک الدنیا ہوں گے۔ انہیں اپنے حال میں مست رہنے دینا، نہ خانقاہوں اور عبادت گاہوں کو کوئی نقصان پہنچانا، نہ ان کے راہبوں کو پریشان کرنا……اور تمہیں صلیب کو پوجنے والے بھی ملیں گے۔ ان کی نشانی یہ ہوگی کہ ان کے سروں کے اوپر درمیان میں بال ہوتے ہی نہیں ، منڈوادیتے ہیں۔ ان پر اسی طرح حملہ کرنا جس طرح میدانِ جنگ میں دشمن پر حملہ کیا جاتا ہے۔ انہیں صرف اس صورت میں چھوڑنا کہ اسلام قبول کرلیں یا جزیہ ادا کرنے پر آمادہ ہو جائیں……اﷲکے نام پر لڑنا، اعتدال سے کام لینا۔ غداری نہ کرنا، اور جو ہتھیار ڈال دے اسے بلا وجہ قتل نہ کرنا نہ ایسے لوگوں کے اعضاء کاٹنا۔‘‘یہ رسولِ کریمﷺکا طریقہ تھا کہ رخصت ہونے والے ہر لشکر کے ساتھ کچھ دورتک جاتے، سالاروں کوان کے فرائض یاد دلاتے، اور لشکر کو دعاؤں سے رخصت کرتے تھے۔خلیفہ اول ابو بکرؓ نے رسول کریمﷺ کی پیروی کرتے ہوئے چاروں سالاروں کو آپﷺہی کی طرح رخصت کیا۔لشکر اور دستے تو محاذوں پر روانہ ہوتے ہی رہتے تھے لیکن یہ لشکر بڑے ہی خطرناک اور طاقتور دشمن سے نبرد آزما ہونے جا رہا تھا۔ شہنشاہ ہرقل جو حمص میں تھا، صرف شہنشاہ ہی نہیں تھا وہ میدانِ جنگ کا استاد اور جنگی چالوں کا ماہر تھا اس لشکر کو مدینہ سے روانہ کرکے مدینہ والوں پر خاموشی سی طاری ہو گئی تھی اور وہ خاموشی کی زبان میں ہر کسی کے سینے سے دعائیں پھوٹ رہی تھیں۔یہ تھی وہ جنگی مہم جس کیلئے امیر المومنینؓ نے فیصلہ کیا تھاکہ اس کی کمان اور قیادت کیلئے خالدؓ سے بہتر کئی سالار نہیں۔ مدینہ کا یہ اٹھائیس ہزار کا لشکر پندرہ دنوں میں شام کی سرحدوں پر اپنے بتائے ہوئے مقامات پر پہنچ چکا تھا۔حمص میں شہنشاہ ہرقل کے محل میں وہی شان و شوکت تھی جو شہنشاہوں کے محلات میں ہوا کرتی تھی۔مدائن کے محل کی طرح حمص کے محل میں بھی حسین اور نوجوان لڑکیاں ملازم تھیں۔ ناچنے اور گانے والیاں بھی تھیں، اور ایک ملکہ بھی تھی اور جس کی وہ ملکہ تھی اس کی ملکہ ہونے کی دعویدار چند ایک اور بھی تھیں۔شہنشاہ ہرقل کے دربار میں ایک ملزم پیش تھا ،اس کا جرم یہ تھا کہ وہ شاہی خاندان سے تعلق نہیں رکھتا تھا، اس کا تعلق اس خاندان کے ساتھ تھا جوشہنشاہ کا نام سنتے ہی سجدے میں گر پڑتاتھا، یہ ملزم ان لوگوں میں سے تھا جو شہنشاہ کو روزی رساں سمجھا کرتے تھے۔*

*اس ملزم کا جرم یہ تھا کہ شاہی خاندان کی ایک شہزادی اس پر مر مٹی تھی۔ شہزادی غزال کے شکار کو گئی تھی، اور جنگل میں اسے کہیں یہ آدمی مل گیا تھا۔ شہزادی نے تیر سے ایک غزال کو معمولی سا زخمی کر دیا تھا، اور اس کے پیچھے گھوڑا ڈال دیا تھا، لیکن غزال معمولی زخمی تھا، وہ گھوڑے کی رفتار سے کہیں زیادہ تیز بھاگ رہا تھا۔اس ملزم نے دیکھ لیا، وہ گھوڑے پر سوار تھا اور اس کے ہاتھ میں برچھی تھی اس نے غزال کے پیچھے گھوڑا دوڑادیا۔ غزال مڑتا تھا تو سوار رستہ چھوٹا کرکے اس کے قریب پہنچ جاتا تھا، وہ غزال کو اس طرف لے جاتا جدھر شہزادی رُکی کھڑی تھی۔شہزادی نے تین چار تیر چلائے۔ سب خطا گئے۔ اس جوان اور خوبرو آدمی نے گھوڑے کو ایسا موڑا کہ غزال کے راستے میں آگیا، اس نے برچھی تاک کر پھینکی جو غزال کے پہلو میں اتر گئی اور وہ گر پڑا۔شہزادی اپنا گھوڑا وہاں لے آئی تو یہ آدمی اپنے گھوڑے سے کود کر اترا اور شہزادی کے گھوڑے کے قدموں میں سجدہ ریز ہو گیا۔’’میں اگر شہزادی کے شکار کو شکار کرنے کا مجرم ہوں تو مجھے معاف کیا جائے۔‘‘ اس نے ہاتھ جوڑکر کہا۔’’لیکن میں غزال کو شہزادی کے سامنے لے آیا تھاکہ شہزادی اسے شکار کرے۔‘‘*
*’’تم شہسوار ہو۔‘‘ شہزادی نے مسکرا کر کہا۔’’کیا کام کرتے ہو؟‘‘’’ہر وہ کام کر لیتا ہوں جس سے دو وقت کی روٹی مل جائے۔‘‘ اس آدمی نے کہا۔’’میں تجھے محل کے محافظوں میں شامل کروں گی۔‘‘رعایا کے اس ناچیز بندے میں اتنی جرات نہیں تھی کہ انکار کرتا۔شہزادی اسے ساتھ لے آئی اور محافظوں میں رکھوادیا، اسے جب شاہی محافظوں کا لباس ملا اور جب وہ اس لباس میں شاہی اصطبل کے گھوڑے پر سوار ہوا تو اس کی مردانہ وجاہت نکھر آئی۔ وہ شہزادی کا منظورِ نظر بن گیا پھر شہزادی نے اسے اپنا دیوتا بنا لیا۔شہزادی کی شادی ہونے والی تھی لیکن اس نے اپنے منگیتر کے ساتھ بے رخی برتنا شروع کردی۔ منگیتر نے اپنے مخبروں سے کہا کہ وہ شہزادی کو دیکھتے رہا کریں کہ وہ کہاں جاتی ہے اور اس کے پاس کون آتا ہے۔ایک رات شہزادی کے منگیتر کو اطلاع ملی کہ شہزادی شاہی محل کے باغ میں بیٹھی ہوئی ہے۔ وہ محل سے تھوڑی ہی دور ایک بڑی خوبصورت جگہ تھی۔وہاں چشمہ تھا اور سبزہ زار تھا۔ درخت تھے اور پھولدار پودوں کی باڑیں تھیں۔ چاندنی رات تھی۔ شہزادی اور اس کا منظورِنظر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے بیٹھے تھے کہ انہیں بھاری بھرکم قدموں کی دھمک سنائی دی ۔وہ شاہی محافظوں کے نرغے میں آگئے تھے۔*

*اس محافظ کو قید میں ڈال دیا گیا،شہنشاہ ہرقل کو صبح بتایا گیا اور محافظ کو زنجیروں میں باندھ کر دربار میں پیش کیا گیا۔اس پر الزام یہ تھا کہ اس نے ایک شہزادی کی شان میں گستاخی کی ہے۔ یہ الزام دربار میں بلند آواز سے سنایا گیا۔’’شہنشاہِ ہرقل کی شہنشاہی ساری دنیا میں پھیلے!‘‘ملزم نے کہا۔’’شہزادی کو دربار میں بلا کر پوچھا جائے کہ میں نے گستاخی کی ہے یا محبت کی ہے……اور محبت میں نے نہیں شہزادی نے کی ہے۔‘‘’’لے جاؤ اسے!‘‘شہنشاہ ہرقل نے گرج کر کہا۔’’رَتھ کے پیچھے باندھ دو اور رتھ اس وقت تک دوڑتی رہے جب تک اس کا گوشت اس کی ہڈیوں سے الگ نہیں ہوجاتا۔‘‘’’شہنشاہِ ہرقل!‘‘ملزم للکار کر بولا۔’’ تو ایک شہزادی کی محبت کا خون کر رہا ہے۔‘‘اُسے دربار سے گھسیٹ کر لے جا رہے تھے اور اس کی پکار اور للکار سنائی دے رہی تھی……وہ رحم کی بھیک نہیں مانگ رہا تھا۔’’تیرا انجام قریب آرہا ہے ہرقل!‘‘وہ چلّاتا جارہا تھا۔’’اپنے آپ کو دیوتا نہ سمجھ ہرقل!ذلت اور رسوائی تیری طرف آرہی ہے۔‘‘محبت کے اس مجرم کو ایک رتھ کے پیچھے باندھ دیاگیا اور دو گھوڑوں کی رتھ دوڑ پڑی، محل سے شور اٹھا۔ ’’شہزادی نے پیٹ میں تلوار اتار لی ہے۔‘‘یہ خبر شہنشاہ ہرقل تک پہنچی تو اس نے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔وہ تخت پر بیٹھا رہا،درباریوں پر سناٹا طاری تھا۔کچھ دیر بعد اٹھا اور اپنے خاص کمرے میں چلا گیا۔وہ سر جھکائے یوں کمرے میں ٹہل رہاتھا، ملکہ کمرے میں آئی،ہرقل نے اسے قہر کی نظروں سے دیکھا۔’’شگون اچھا نہیں۔‘‘ملکہ نے رُندھی ہوئی آواز میں کہا۔’’صبح ہی صبح دو خون ہو گئے ہیں۔‘‘’’یہاں سے چلی جاؤ۔‘‘* *ہرقل نے کہا۔’’میں شاہی خاندان کی بے عزتی برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘’’میں کچھ اور کہنے آئی ہوں۔‘‘ ملکہ نے کہا۔’’سرحد سے ایک عیسائی آیا ہے۔اس نے تمام رات سفر میں گھوڑے کی پیٹھ پر گزاری ہے۔اسے کسی نے دربار میں داخل ہونے نہیں دیا۔ مجھے اطلاع ملی تو……‘‘’’وہ کیوں آیا ہے؟‘‘ہرقل نے جھنجھلا کر پوچھا۔’’کیا وہ سرحد سے کوئی خبر لایا ہے؟‘‘’’مسلمانوںکی فوجیں آرہی ہیں۔‘‘ملکہ نے کہا۔’’اندر بھیجو اسے!‘‘ہرقل نے کہا۔ملکہ کے جانے کے بعد ایک ادھیڑ عمر آدمی کمرے میں آیا۔اس کے کپڑوں پر اور چہرے پر گرد کی تہہ جمی ہوئی تھی۔وہ سلام کیلئے جھکا۔’’تو نے محل تک آنے کی جرات کیسے کی؟‘‘ہرقل نے شاہانہ جلال سے پوچھا۔’’کیا تو یہ خبر کسی سالار یا ناظم کو نہیں دے سکتا تھا؟‘‘’’یہ جرم ہے تو مجھے بخش دیں۔‘‘ اس آدمی نے کہا۔’’مجھے ڈر تھا کہ اس خبرکو کوئی سچ نہیں مانے گا۔‘‘*

*’’تو نے مسلمانوں کا لشکر کہاں دیکھا ہے؟‘‘’’حمص سے تین روز کے فاصلے پر۔‘‘اس نے جواب دیا۔یہ ایک عیسائی عرب تھا۔جس نے ابو عبیدہؓ بن الجراح کے دستوں کو شام سے کچھ دور دیکھ لیا تھا ۔اسی شام دو اور جگہوں سے اطلاعیں آئیں کہ مسلمانوں کی فوج ان جگہوں پر پڑاؤڈالے ہوئے ہے ۔مسلمانوں کے لشکر کے چوتھے حصے کی اطلاع ابھی نہیں آئی تھی۔رات کو ہرقل نے اپنے جرنیلوں اور مشیروں کو بلایا۔’’کیا تمہیں معلوم ہے سرحد پر کیا ہو رہا ہے؟‘‘ہرقل نے پوچھا۔’’ مدینہ کی فوج تین جگہوں پر آگئی ہے۔اپنی کسی سرحدی چوکی نے کوئی اطلاع نہیں دی ۔کیا وہاں سب سوئے رہتے ہیں؟ کیا تم برداشت کر سکتے ہو کہ عرب کے چند ایک لٹیرے قبیلے تمہیں سرحدوں پر آکر للکاریں،کیا تم ان کے ایک سالار کو اپنی طاقت نہیں دکھا چکے۔وہ خوش قسمت تھا کہ نکل گیا اب وہ زیادہ تعداد میں آئے ہیں وہ مالِ غنیمت کے بھوکے ہیں۔ فوراً تیاری شروع کرو ان کا کوئی ایک آدمی اور کوئی گھوڑا یا اونٹ واپس نہ جائے ۔‘‘’’شہنشاہِ ہرقل!‘‘ شام کی فوجوں کے کمانڈر نے کہا۔’’آپ اتنے نا تجربہ کار تو نہیں جیسی آپ نے بات کی ہے۔ اگر یہ معاملہ کچھ اور ہوتا تو ہم آپ کی تائید کرتے لیکن یہ مسئلہ جنگی ہے آپ جانتے ہیں کہ شکست کے بعد کیا ہوتا ہے۔‘‘’’مجھے سبق نہیں مشورہ چاہیے۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’وہ کیا ہے جو میں نہیں جانتا۔‘‘* *’’شہنشاہ سب کچھ جانتے ہوئے ایسی بات نہ کریں۔ جس نے فارس کے شہنشاہ اردشیر کی جان لے لی تھی۔‘‘رومی فوجوں کے کمانڈر نے کہا۔’’اس کی جنگی طاقت ہماری ٹکر کی تھی۔آپ بھی اس فوج سے لڑ چکے ہیں۔ اس کے بعد آپ کو بھی عراق پر فوج کشی کی جرات نہیں ہوئی۔ اب فراض کے میدان میں ہمیں مسلمانوں کے خلاف فارسیوں کو اتحادی بنانا پڑا اور ہم نے عیسائی قبیلوں کو ساتھ ملایا مگر خالد بن ولید ہمیں شکست دے گیا۔‘‘’’کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ ہمیں مسلمانوں سے ڈرنا چاہیے؟‘‘ہرقل نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔ ’’نہیں شہنشاہ ۔‘‘کمانڈر نے کہا۔’’اردشیر بھی مدائن میں بیٹھا ایسی ہی باتیں کیا کرتا تھا۔جیسی آپ حمص میں بیٹھے کر رہے ہیں۔میں آپ کو یاد دلا رہا ہوں کہ فارسیوں کاانجام دیکھیں ،مدائن کے محل اب بھی کھڑے ہیں لیکن مقبروں کی طرح۔ اردشیر نے پہلے پہل مسلمانوں کو عرب کے بدو اور ڈاکو کہا تھا۔میں نے فارسیوں کی شکست کی چھان بین پوری تفصیل سے کی ہے۔اردشیر کے منہ سے یہی الفاظ نکلتے تھے۔کچل دو۔ مگر اس کا جو بھی جرنیل مسلمانوں کے مقابلے کو گیا وہ چلا گیا۔مسلمان ان کے علاقوں پہ علاقہ فتح کرتے آئے حتیٰ کہ ان کے تیر مدائن میں گرنے لگے۔‘‘ ’’اور شہنشاہِ ہرقل! مجھے معلوم ہوا ہے کہ مسلمان مذہبی جنون سے لڑتے ہیں۔ مالِ غنیمت کیلئے نہیں۔ہم زمین کیلئے لڑتے ہیں مسلمان جنگ کو ایک عقیدہ سمجھتے ہیں۔ہم ان کے عقیدے کو سچا سمجھیں یا نہ سمجھیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔شہنشاہ کو اس پر بھی غور کرنا پڑ ے گا کہ مسلمان ہر میدان میں تھوڑی تعداد میں ہوتے ہیں۔وہ جذبے اور جنگی چالوں کے زور پر لڑتے ہیں۔*

*فراض میں ہم نے اپنے فارسیوں کی اور عیسائیوں کی نفری کو اتنا زیادہ پھیلا دیا تھا کہ مسلمانوں کی تھوڑی سی نفری ہمارے پھیلاؤمیں آکر گم ہو جاتی، لیکن مسلمانوں نے ایسی چال چلی کہ ہمارا پھیلاؤ سکڑ گیا اور ہم پِٹ کر رہ گئے۔‘‘دوسرے جرنیلوں نے بھی اسی طرح کے مشورے دیئے اور ہرقل قائل ہو گیاکہ مسلمانوں کو طاقت ور اور خطرناک دشمن سمجھ کر جنگ کی تیاری کی جائے۔’’لیکن میں اسے اپنی توہین سمجھتا ہوں کہ مسلمان جو کچھ ہی سال پہلے وجود میں آئے ہیں، عظیم سلطنت روم کو للکاریں ۔‘‘ہرقل نے کہا۔’’ہمارے پاس ہماری صدیوں پرانی تاریخ ہے۔ رومیوں نے ساری دنیا پر دہشت طاری کیے رکھی ہے۔ ہمارا مذہب دیوتاؤں کا مذہب ہے۔ آسمانوں اور زمین پر ہمارے دیوتاؤں کی حکمرانی ہے۔ اسلام ایک انسان کا بنایا ہوا مذہب ہے جس کے پھیل جانے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔میں صرف یہ حکم دوں گاکہ اس مذہب کے پیروکاروں کو اس طرح ختم کرو کہ اسلام کا نام لینے والا کوئی زندہ نہ رہے۔‘‘اگلے ہی روز ہرقل کو اطلاع ملی کہ مسلمانوں کے ساتھ رومی فوج کی ٹکر ہوئی ہے اور رومی فوج بڑی بری طرح پسپا ہوئی ہے۔یہ عمروؓ بن العاص کے دستے تھے جو تبوک سے آگے بڑھے تو رومی فوج کے کچھ دستے ان کی راہ میں حائل ہو گئے۔یہ شام کے عیسائی عربوں کے دستے تھے۔جن کے ذمے سرحدوں کی دیکھ بھال کا کام تھا۔ عمروؓ بن العاص بڑے ہوشیار سالار تھے۔انہوں نے ایسی چال چلی کہ اپنے ہراول دستے کو دشمن سے ٹکر لینے کیلئے آگے بھیجا اور دشمن کو گھیرے میں لینے کی کوشش کی لیکن شام کے عیسائی عربوں کے دستے تھوڑا سا نقصان اٹھا کر پسپا ہو گئے۔عمروؓ بن العاص ایلہ کے مقام پرپہنچ گئے ۔یزیدؓ بن ابی سفیان بھی اپنے دستوں کے ساتھ ان سے آملے۔ جوں ہی مدینہ کے لشکر کے یہ دونوں حصے اکھٹے ہوئے روم کی فوج ان کا راستہ روکنے کیلئے سامنے آگئی۔مؤرخوں کے مطابق روم کی اس فوج کی نفری تقریباً اتنی ہی تھی جتنی کہ مسلمانوں کی تھی۔اب دو مسلمان سالار اکٹھے ہو گئے تھے انہوں نے رومیوں کے ساتھ آمنے سامنے کی ٹکر لی۔ رومیوں نے جم کر مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن قدم جما نہ سکے اور پسپا ہو گئے۔*
*یزیدؓ بن ابی سفیان نے ایک سوار دستے کو ان کے تعاقب میں بھیج دیا۔ رومیوں پر کچھ ایسی دہشت طاری ہو گئی تھی کہ وہ سوائے کٹ کٹ کر مرنے کہ اور کچھ بھی نہ کر سکے۔شہنشاہ ہرقل کو جب اپنے دستوں کی اس پسپائی کی اطلاع ملی تو وہ آگ بگولہ ہو گیا۔ اس نے اپنے جرنیلوں کو ایک بار پھر بلایا اور حکم دیا کہ زیادہ سے زیادہ فوج اکٹھی کرکے شام کی سرحد کے باہر کسی جگہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ لڑی جائے اور انہیں وہیں ختم کیا جائے۔*

*مسلمان سالاروں نے ان جگہوں سے جہاں وہ پڑاؤڈالے ہوئے تھے، چند آدمیوں کو اپنے زیرِ اثر لے لیا،اور انہیں بے انداز انعام و اکرام کا لالچ دیا جس کے عوض وہ مسلمانوں کیلئے جاسوسی کرنے پر آمادہ ہو گئے۔چند دنوں میں ہی وہ مطلوبہ خبریں لے آئے۔ ان کی رپورٹوں کے مطابق رومی جو فوج اکٹھی کر رہے تھے اس کی تعداد ایک لاکھ سے کچھ زیادہ تھی۔ اس فوج کا ایک حصہ اجنادین کی طرف کوچ کر رہا تھا جاسوسوں نے یہ اطلاع بھی دی کہ رومی فیصلہ کن جنگ کیلئے تیار ہو کر آرہے ہیں۔جاسوسوں نے تیاریوں کی پوری تفصیل بیان کی۔ ابو عبیدہؓ بن الجراح کو امیر المومنینؓ نے یہ حکم دیا تھا کہ لشکر کے چاروں حصوں کو اکٹھے لڑنا پڑا تو وہ یعنی ابو عبیدہؓ پورے لشکر کے سالارہوں گے ۔صورت ایسی پیدا ہو گئی تھی کہ لشکر کے چاروں حصوں کو اکٹھا ہونا پڑا۔ابو عبیدہؓ نے پورے لشکر کی کمان لے لی، لیکن لشکر کو مکمل طور پر ایک جگہ اکٹھا نہ ہونے دیا۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے امیرالمومنینؓ کو تیز رفتار قاصد کے ہاتھ پیغام بھیجا جس میں مکمل صورتِ حال لکھی اور یہ بھی کہ رومیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہو گی۔یہ تھے وہ حالات جن کے پیشِ نظر امیر المومنینؓ نے خا لدؓ کو حکم بھیجا تھا کہ وہ شام کی سرحد پر اس جگہ پہنچیں جہاں مدینہ کا لشکر خیمہ زن ہے۔اس حکم میں یہ بھی لکھاتھا کہ اپنا لشکر کچھ مشکلات میں الجھ گیا ہے ۔اس پیغام نے خالدؓ کو پریشان کر دیا تھا۔ یہ سنایا جا چکا تھا کہ انہوں نے امیر المومنینؓ کے حکم کے مطابق اپنے لشکر کو دو حصو ں میں تقسیم کیا، ایک حصہ مثنیٰ بن حارثہ کے حوالے کر دیا۔خالدؓنے فوج کو فوری کوچ کا حکم دے دیا۔انہوں نے جب فاصلے کا اندازہ کیا، تو وہ اتنا زیادہ تھا کہ خالدؓ کو وہاں پہنچتے بہت دن لگ جاتے ۔انہیں ڈر تھاکہ اتنے دن ضائع ہو گئے تو معلوم نہیں کیا ہو جائے گا۔انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ رومیوں کی فوج فارسیوں کی نسبت زیادہ طاقتور اور برتر ہے۔خالدؓان راستوں سے واقف تھے۔ سیدھا اور آسان راستہ بہت طویل تھا۔خالدؓ نے اپنے سالاروں کو بلایا اور انہیں بتایاکہ بہت جلد پہنچنے کیلئے انہیں کوئی راستہ معلوم نہیں۔سالارو ں میں سے کسی کو چھوٹا راستہ معلوم نہیں تھا۔*

*’’ اگر کوئی راستہ چھوٹا ہوا بھی تو وہ سفرکے قابل نہیں ہوگا۔‘‘ایک سالار نے کہا۔’’اگر کسی ایسے راستے سے ایک دو مسافر گزرتے بھی ہوں تو ضروری نہیں کہ وہ راستہ ایک لشکر کیلئے گزرنے کے قابل ہو۔‘‘’’میں ایک آدمی کو جانتا ہوں ۔‘‘ایک اور سالار بولا۔’’ رافع بن عمیرہ۔ وہ ہمارے قبیلے کا زبردست جنگجو ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ خد انے اسے کوئی ایسی طاقت دی ہے کہ وہ زمین کے نیچے کے بھید بھی بتا دیتا ہے۔ وہ اس صحرا کا بھیدی ہے۔‘‘خالدؓ کے حکم سے رافع بن عمیرہ کو بلایا گیااور اس سے منزل بتا کر پوچھاگیا کہ چھوٹے سے چھوٹا راستہ کوئی ہے؟*
*’’زمین ہے تو راستے بھی ہیں۔‘‘رافع نے کہا۔’’یہ مسافر کی ہمت پر منحصر ہے کہ وہ ہر راستے پر چل سکتاہے یا نہیں۔تم منزل تک کسی بھی راستے سے پہنچ سکتے ہو لیکن بعض راستے ایسے ہوتے ہیں جن پر سانپ بھی نہیں رینگ سکتا۔ میں ایک راستہ بتا سکتا ہوں ، لیکن یہ نہیں بتا سکتا کہ اس سے لشکر کے کتنے آدمی منزل تک زندہ پہنیں گے اور میں یہ بھی بتا سکتاہوں کہ گھوڑا اس صحرائی راستے سے نہیں گزر سکتا، گھوڑا اتنی پیاس برداشت نہیں کر سکتا، اور گھوڑوں کیلئے پانی ساتھ لے جایا نہیں جا سکتا۔‘‘ خالدؓنے اپنا بنایا ہوا نقشہ اس کے آگے رکھا اور پوچھا کہ وہ کون سا راستہ بتا رہا ہے؟’’یہ قراقر ہے۔‘‘ رافع بن عمیرہ نے نقشہ پر انگلی رکھتے ہوئے کہا۔’’یہاں ایک نخلستان ہے جو اتنا سر سبز و شاداب ہے کہ مسافروں پر اپنا جادو طاری کر دیتا ہے ،یہاں سے ایک راستہ نکلتاہے جو سویٰ کو جاتاہے۔ سویٰ میں پانی اتنا زیادہ ہے کہ سارا لشکر اور لشکر کے تمام جانور پانی پی سکتے ہیں لیکن یہ پانی اسے ملے گا جو سویٰ تک زندہ پہنچ جائے گا۔ اوپر سورج کی تپش دیکھو دن کو کتناچل سکو گے ، کتنی دور تک چل سکو گے؟یہ میں نہیں جانتا، اتنے اونٹ لاؤ کہ لشکر کا ہر فرد اونٹ پر سوار ہو۔ ابنِ ولید! تم صحرا کے بیٹے ہو مگر اس صحرا سے نہیں گزر سکو گے۔‘‘رافع بن عمیرہ نے جو راستہ بتایا یہ مؤرخوں کی تحریروں کے مطابق اک سو بیس میل تھا، یہ ایک سو بیس میل کا فاصلہ طے کرنے سے منزل تک کئی دن جلدی پہنچا جا سکتا تھا۔خالدؓ وہ سالار تھے جو مشکلات کی تفصیلات سن کر نہیں بلکہ مشکلات میں پڑ کر اندازہ کیا کرتے تھے کہ ان کی شدت کتنی کچھ ہے ، ان کے دماغ میں صرف یہ سمایا ہوا تھا کہ مدینہ کا لشکر مشکل میں ہے، اور اس کی مدد کو پہنچنا ہے ، سیدھے راستے سے فاصلہ چھ سے سات سو میل تک بنتا تھا۔ رافع کے بتائے ہوئے راستے سے جانے سے فاصلہ کم رہ جاتا تھا۔مگر رافع بتاتا تھا کہ اس خطرناک راستے سے جاؤ تو پانچ چھ دن ایسی دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے جو انسان کیا برداشت کرے گا گھوڑا بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ پانی تو مل ہی نہیں سکتا، اور سب سے بڑی مشکل یہ کہ مہینہ مئی کاتھا، جب ریگستان جل رہے ہوتے ہیں۔*

*’’خدا کی قسم ابنِ ولید!‘‘ایک سالار نے کہا۔’’تو اتنے بڑے لشکر کو اس راستے پر نہیں لیجائے گا۔جو تباہی کا اور بہت بری موت کا رستہ ہوگا۔‘‘*
*’’اور جس کا دماغ صحیح ہو گا وہ اس راستے پر نہیں جائے گا۔‘‘ایک اور سالار نے کہا۔’’ہم اسی راستے سے جائیں گے۔‘‘خالدؓنے ایسی مسکراہٹ سے کہا،جس میں عجیب سی سنجیدگی تھی۔*
*’’ہم پر فرض ہے کہ تیری اطاعت کریں۔‘‘ رافع بن عمیرہ نے کہا۔’’لیکن ایک بار پھر سوچ لو۔‘‘’’میں وہ حکم دیتا ہوں جو حکم اﷲمجھے ددیتا ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ہارتے وہ ہیں جن کے ارادے کمزور ہوتے ہیں، اﷲکی خوشنودی ہمیں حاصل ہے اور پھر اﷲکی راہ میں جو مصیبتیں آئیں گی ہم کیوں نہ انہیں بھی برداشت کریں ۔‘‘یہ واقعہ اور یہ گفتگو طبری نے ذرا تفصیل سے بیان کی ہے، خالدؓ کے سالاروں نے ان کے عزم کی یہ پختگی دیکھی تو سب نے پر جوش لہجے میں لبیک کہی، ان میں سے کسی نے کہا۔’’ ابنِ ولید تجھ پر اﷲکا کرم! وہ کر جو تو بہہتر سمجھتا ہے۔ ہم تیرے ساتھ ہیں۔‘‘خالدؓنے اس سفر پر روانگی سے پہلے ایک حکم یہ دیا کہ لشکر کا ہر فرد اونٹ پر سوار ہو گا۔ گھوڑے سواروں کے بغیر پیچھے پیچھے چلیں گے۔ دوسرا حکم یہ کہ عورتوں اور بچوں کو مدینہ بھیج دیا جائے۔ سالاروں کو خالدؓ نے کہا تھا کہ تمام لشکر کو اچھی طرح بتا دیں کہ وہ ایسے راستے پر جا رہے ہیں جس راستے پر پہلے کبھی کوئی لشکر نہیں گزرا۔ ہر کسی کو ذہنی طور پر تیار کیا جائے۔‘‘مئی کا مہینہ اونٹوں کی فراہمی میں گزر گیا۔ جون ۶۳۴ء )ربیع الآخر ۱۳ھ( کا مہینہ شروع ہو گیا۔اب تو صحرا جل رہا تھا۔خالدؓ نے کوچ کا حکم دے دیا۔ان کے ساتھ نو ہزار مجاہدین تھے جو اس خود کُش سفر پر جا رہے تھے۔قراقر تک سفر ویسا ہی تھا جیسا اس لشکر کا ہر سفر ہوا کرتا تھا۔وہ سفر قراقر سے شروع ہونا تھاجسے مسلمان مؤرخوں نے اور یورپی مؤرخوں نے بھی تاریخ کا سب سے خطرناک اور بھیانک سفر کہا ہے۔مثنیٰ بن حارثہ قراقرتک خالدؓ کے ساتھ گئے۔مثنیٰ کو حیرہ واپس آنا تھا۔قراقر سے جس قدر پانی ساتھ لے جایا جا سکتا تھا مشکیزوں میں بھر لیا گیا۔مٹکے بھی اکٹھے کر لیے گئے تھے۔ان میں بھی پانی بھر لیا گیا۔اگلی صبح جب لشکر روانہ ہونے لگا تو مثنیٰ بن حارثہ خالدؓسے اور اس کے سالاروں سے گلے لگ کے ملے۔یعقوبی اور ابنِ یوسف نے لکھا ہے کہ مثنیٰ بن حارثہ پر رقت طاری ہو گئی تھی۔ان کے منہ سے کوئی دعا نہ نکلی، آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ دعائیں ان کے دل میں تھیں۔ انہیں یقین نہیں تھا کہ وہ خالدؓ کو اور ان کے نو ہزار مجاہدین کوپھر کبھی دیکھ سکیں گے۔*
*خالدؓ اونٹ پر سوار ہونے لگے تو رافع بن عمیرہ دوڑتا آیا۔’’ابنِ ولید!‘‘رافع نے خالدؓ کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا۔’’اب بھی سوچ لے، رستہ بدل لے، اتنی جانوں سے مت کھیل!‘‘’’ابنِ عمیرہ!‘‘خالدؓ نے غصے سے کہا۔’’اﷲتجھے غارت کرے، مجھے اﷲکی راہ سے مت روک یا مجھے وہ رستہ بتا جو مدینہ کے لشکر تک جلدی پہنچا دے۔ تو نہیں جانتا، توہٹ میرے سامنے سے، اور حکم مان جو میں نے دیا ہے۔‘‘رافع خالدؓ کے آگے سے ہٹ گیا۔خالدؓ اونٹ پر سوار ہوئے اور لشکر چل پڑا۔سب سے آگے رافع کا اونٹ تھا اسے رہبری کرنی تھی۔*
*مثنیٰ کھڑے دیکھتے رہے۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔’’ امیر المومنین نے ٹھیک کہا تھا کہ اب کوئی ماں خالدجیسا بیٹا پیدا نہیں کرے گی۔*

*جزاکم اللہ خیرا۔*

*جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
     *اسلامک ہسٹری*

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─