┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

*《▪♡ شمشیرِ بے نیام ♡▪》*

*حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ*

*( قسط نمبر-53)*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*ابوسلیمان!)خالدکا دوسرا نام(پختہ عزم لے کر پیش قدمی کرو۔ اﷲکی حمایت اور مدد سے اس مہم کو پورا کرو۔ اپنے لشکر کو جو اس وقت تمہارے پاس ہے، دو حصوں میں کردو۔ ایک حصہ مثنیٰ بن حارثہ کے سپرد کر جاؤ۔ عراق )سلطنت فارس کے مفتوحہ علاقوں کا(سپہ سالار مثنیٰ بن حارثہ ہوگا۔ لشکر کا دوسرا حصہ اپنے ساتھ لے جاؤ۔ اﷲتمہیں فتح عطا فرمائے۔ اس کے بعد یہیں واپس آجانا اور اس علاقے کے سپہ سالار تم ہوگے……تکبر نہ کرنا، تکبر اور غرور تمہیں دھوکہ دیں گے۔ اور تم اﷲکے راستے سے بھٹک جاؤ گے ۔کوتاہی نہ ہو۔ رحمت و کرم اﷲکے ہاتھ میں ہے، اور نیک اعمال کا صلہ اﷲہی دیا کرتا ہے۔‘‘خط پڑھتے ہی خالدؓ نے اپنے سالاروں کو بلایا اور کچھ کھسیانا سا ہوکے انہیں بتایا کہ ان کے خفیہ حج کا امیر المومنینؓ کو پتا چل گیا ہے۔’’اور میں خوش ہوں اس پر کہ فراغت ختم ہو گئی ہے۔‘‘*
*خالدؓ نے کہا۔’’ہم شام جا رہے ہیں۔‘‘خالدؓ تو جیسے میدانِ جنگ کیلئے پیدا ہوئے تھے۔قلعے اور شہر میں بیٹھنا انہیں پسند نہ تھا۔انہوں نے سالاروں کو خط پڑھ کر سنایا اور تیاری کا حکم دیا۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے لشکرکو دوحصوں میں تقسیم کیا۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خالدؓ نے تمام صحابہ کرامؓ کو اپنے ساتھ رکھا۔صحابہ کرامؓ کو لشکر میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔’’ولید کے بیٹے!‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔’’خدا کی قسم!میں اس تقسیم پر راضی نہیں ہوں جو تو نے کی ہے۔تو رسول اﷲﷺ کے تمام ساتھیوں کو اپنے ساتھ لے جا رہا ہے۔صحابہ کرام کو بھی صحیح تقسیم کر۔ آدھے صحابہ کرام تیرے ساتھ جائیں گے، آدھے میرے ساتھ رہیں گے۔کیا تو نہیں جانتا کہ انہی کی بدولت ﷲہمیں فتح عطا کرتا ہے۔‘‘خالدؓ نے مسکرا کر صحابہ کرامؓ کی تقسیم مثنیٰ بن حارثہ کی خواہش کے مطابق کردی اور اپنے لشکر کے سالاروں کو حکم دیاکہ جتنی جلدی ممکن ہو تیاری مکمل کریں۔’’اور یہ نہ بھولناکہ ہم اپنے ان بھائیوں کی مدد کو جا رہے ہیں جو وہاں مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ضائع کرنے کیلئے ہمارے پاس ایک سانس جتنا وقت بھی نہیں۔‘مسلمانوں کا وہ لشکر جو شام میں جاکر مشکل میں پھنس گیا تھا ،وہ ایک سالار کی جلد بازی کا اور حالات کو قبل از وقت نہ سمجھ سکنے کا نتیجہ تھا۔اس نے شام کے اندر جاکر رومیوں پر حملہ کرنے کی اجازت امیر المومنینؓ سے اس طرح مانگی کہ جس طرح وہ خود آگے کے احوال و کوائف کو نہیں سمجھ سکا تھا، اسی طرح اس نے امیر المومنینؓ کو بھی گمراہ کیا۔ امیرالمومنین ابو بکر صدیقؓ دانشمند انسان تھے۔انہوں نے اس سالار کو حملہ کرنے کی کھلی چھٹی نہ دی بلکہ یہ لکھا:*

*’’……رومیوں سے ٹکر لینے کی خواہش میرے دل میں بھی ہے۔ اور یہ ہماری دفاعی ضرورت بھی ہے۔ رومیوں کی جنگی طاقت کو اتنا کمزور کردینا ضروری ہے کہ وہ سلطنت اسلامیہ کی طرف دیکھنے کی جرات نہ کر سکیں لیکن ابھی ہم ان سے ٹکر نہیں لے سکتے۔ تم ان کے خلاف بڑے یپمانے کی جنگ نہ کرنا، محتاط ہو کر آگے بڑھنا تاکہ خطرہ زیادہ ہو تو پیچھے بھی ہٹ سکو، تم یہ جائزہ لینے کیلئے حملہ کرو کہ رومیوں کی فوج کس طرح لڑتی ہے اور اس کے سالار کیسے ہیں۔‘‘امیر المومنینؓ نے صاف الفاظ میں لکھا کہ اپنے لشکر کو ایسی صورت میں نہ ڈال دینا کہ پسپائی اختیار کرو اور تمہیں اپنے علاقے میں آکر بھی پناہ نہ ملے۔اس سالار کا نام بھی خالد تھا ، خالد بن سعید۔لیکن میدانِ جنگ میں وہ خالدؓ بن ولید کی گَردِ پا کو بھی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اسے جن دستوں کا سالار بنایا گیا تھا وہ سرحدی فرائض انجام دینے والے دستے تھے۔ ان میں لڑنے کی اہلیت تھی اور ان میں لڑنے کا جذبہ بھی تھا لیکن انہیں جنگ کا ویسا تجربہ نہ تھا جیسا خالدؓ بن ولید کے دستوں نے حاصل کر لیا تھا۔امیرالمومنینؓ نے خالد بن سعید کو اپنی سرحدوں پر پہرہ دینے کیلئے بھیجا تھا۔ان دستوں کا ہیڈ کوارٹر تیما کے مقام پر بنایا گیا تھا۔*
*بعض مؤرخوں نے لکھا کہ خالدؓ کی پے در پے کامیابیاں دیکھ دیکھ کر خالدبن سعید کو خیال آیا کہ خالدؓ نے فارس کو شکستیں دی ہیں تو وہ رومیوں کو ایسی ہی شکستیں دے کر خالدؓ کی طرح نام پیدا کرے۔ ابنِ ہشام اور ایک یورپی مؤرخ ہنری سمتھ نے یہ بھی لکھا ہے کہ خلیفۃ المسلمینؓ خالد بن سعید کی قیادت اور صلاحیتوں سے واقف تھے اسی لیے انہوں نے اس سالار کو بڑی جنگوں سے دور رکھا تھا لیکن وہ اس کی باتوں میں آگئے۔خالدؓ نے بھی فراض کے مقام پر رومیوں سے ٹکرلی تھی، لیکن سرحد پر معرکہ لڑا تھا، انہوں نے آگے جانے کی غلطی نہیں کی تھی، خالد بن سعید نے امیرالمومنینؓ کا جواب ملتے ہی اپنے دستوں کو کوچ کا حکم دیا اور شام کی سرحد میں داخل ہو گئے ۔ اس وقت شام میں ہرقل رومی حکمران تھا۔ اسے جنگوں کا بہت تجربہ تھا، رومیوں کی اپنی جنگی تاریخ اور روایات تھیں،وہ اپنی فوج کو انہی کے مطابق ٹریننگ دیتے تھے۔یہ تقریباً انہی دنوں کا واقعہ ہے جب خالدؓ فراض کے مقام پر رومیوں ، فارسیوں اور عیسائیوں کے متحدہ لشکر کے خلاف لڑے اورانہیں شکست دی تھی۔ اس سے رومی محتاط ، مستعد اور چوکس ہو گئے تھے۔ انہوں نے اپنی فوج کو ہر لمحہ تیار رہنے کا حکم دے رکھا تھا۔*

*خالد بن سعید نے آگے کے احوال و کوائف معلوم نہ کیے، کوئی جاسوس آگے نہ بھیجا، اوراندھا دھند بڑھتے گئے۔ آگے رومی فوج کی کچھ نفری خیمہ زن تھی۔ خالد بن سعید نے دائیں بائیں دیکھے بغیر اس پر حملہ کردیا۔ رومیوں کا سالار باہان تھا، جو جنگی چالوں کے لحاظ سے خالدؓ بن ولید کے ہم پلّہ تھا ۔خالد بن سعید نہ سمجھ سکا کہ رومیوں کی جس نفری پر اس نے حملہ کیا ہے ، اس کی حیثیت جال میں دانے کی ہے، وہ انہی میں الجھ گیا۔تھوڑی ہی دیر بعد اسے پتا چلا کہ اس کے اپنے دستے رومیوں کے گھیرے میں آگئے ہیں اور عقب سے رومی ان پر ہلّہ بولنے کیلئے بڑھے آرہے ہیں۔ خالد بن سعید کیلئے اپنے دستوں کو بچانا ناممکن ہو گیا۔ اس نے یہ حرکت کی کہ اپنے محافظوں کو ساتھ لے کر میدانِ جنگ سے بھاگ گیا اور اپنے دستوں کو رومیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ گیا۔مسلمانوں کے ان دستوں میں مشہور جنگجو عکرمہؓ بن ابو جہل بھی تھے۔ اس ابتر صورتِ حال میں انہوں نے اپنے ہراساں دستوں کی کمان لے لی، اور ایسی چالیں چلیں کہ اپنے دستوں کو تباہی سے بچا لائے، جانی نقصان تو ہوا اور زخمیوں کی تعداد بھی خاصی تھی۔ خالدبن سعید کے بھاگ جانے سے تمام دستوں کے جنگی قیدی بننے کے حالات پیدا ہو گئے تھے، عکرمہؓ نے مسلمانوں کو اس ذلت سے بچالیا۔مدینہ اطلاع پہنچی تو خلیفۃ المسلمینؓ نے خالدبن سعید کو معزول کرکے مدینہ بلالیا۔ خلیفۃ المسلمینؓ کے غصے کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے خالد بن سعید کو بھری محفل میں بزدل اور نالائق کہا۔ خالد بن سعید خاموشی کی زندگی گزارنے لگا۔ اس سے زیادہ اور افسردہ آدمی اور کون ہو سکتا تھا ۔آخر خدا نے اس کی سن لی ، بہت عرصے بعد جب مسلمانوں نے شام کو میدانِ جنگ بنالیا تھا ۔خالد بن سعید کو وہاں ایک دستے کے ساتھ جانے کی اجازت مل گئی۔ اس نے اپنے نام سے شکست کا داغ یوں دھویا کہ بے جگری سے لڑتا ہوا شہید ہو گیا۔*
*امیرالمومنین ابو بکر صدیقؓ نے اپنی مجلسِ مشاورت کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا۔اس مجلس میں جو اکابرین شامل تھے ، ان میں عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، عبدالرحمٰنؓ بن عوف، سعدؓ بن ابی وقاص، ابو عبیدہؓ بن الجراح، معاذؓ بن جبل، ابیؓ بن کعب، اور زیدؓ بن ثابت خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔’’میرے دوستو!‘‘خلیفہ ابو بکر صدیقؓ نے کہا۔’’ رسولِ کریم ﷺکا ارادہ تھا کہ شام کی طرف سے رومیوں کے حملہ کا سدّباب کیا جائے ۔آپﷺنے جو تدبیریں سوچی تھیں ،ان پر عمل کرنے کی آپﷺکو مہلت نہ ملی۔آپﷺانتقال فرما گئے۔اب تم نے سن لیا ہے کہ ہرقل جنگی تیاری مکمل کر چکا ہے، اور ہمارا ایک سالار شکست کھا کر واپس بھی آگیا ہے۔ اگر ہم نے رومیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی تو ایک تو اپنے لشکر کے حوصلے کمزور ہوں گے اور وہ رومیوں کو اپنے سے زیادہ بہادر سمجھنے لگیں گے۔ دوسرا نقصان یہ ہوگا کہ رومی آگے بڑھ آئیں گے اور ہمارے لیے خطرہ بن جائیں گے۔ اس صورتِ حال میں تم مجھے کیا مشورہ دو گے؟یہ بھی یاد رکھنا کہ ہمیں مزید فوج کی ضرورت ہے۔‘‘*

*’’امیرالمومنین!‘‘عمرؓ نے کہا۔’’آپ کے عزم کو کون رد کر سکتا ہے۔ میں محسوس کر رہا ہوں کہ شام پر حملے کا اشارہ اﷲکی طرف سے ملا ہے۔*
*لشکر کیلئے مزید نفری بھرتی کریں ، اور جو کام رسول اﷲﷺنے کرنا چاہا تھا اسے ہم پورا کریں۔‘‘’’امیرالمومنین!‘‘عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے کہا۔’’اﷲکی سلامتی ہو تم پر، غور کر لے، رومی ہم سے طاقتور ہیں۔ خالدبن سعید کاانجام دیکھ، ہم رسول اﷲﷺکے ارادوں کو ضرور پورا کریں گے لیکن ہم اس قابل نہیں کہ رومیوں پر بڑے پیمانے کا حملہ کریں۔کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ہمارے دستے رومیوں کی سرحدی چوکیوں پو حملے کرتے رہیں اور ہر حملے کے بعد دور پیچھے آجائیں۔ اس طرح رومیوں کا آہستہ آہستہ نقصان ہوتا رہے گا اور اپنے مجاہدین کے حوصلے کھلتے جائیں گے،اس دوران ہم اپنے لشکر کیلئے لوگوں کو اکھٹا کرتے رہیں۔ امیرالمومنین !لشکر میں اضافہ کرکے تم خود جہاد پر روانہ ہو جاؤ اور چاہو تو قیادت کسی اور سردار کو دے دو۔‘‘مؤرخوں نے اس دور کی تحریروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ تمام مجلس پر خاموشی طاری ہو گئی، عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے بڑی جرات سے اپنا مشورہ پیش کیا تھا۔ ایسالگتا تھا جیسے اب کوئی اور بولے گا ہی نہیں۔’’خاموش کیوں ہو گئے ہو تم؟‘‘ امیرالمومنینؓ نے کہا۔’’اپنے مشورے دو۔‘‘’’کون شک کر سکتا ہے تمہاری دیانتداری پر!‘‘عثمانؓ بن عفان نے کہا۔’’بے شک تم مسلمانوں کی او ردین کی بھلائی چاہتے ہو۔ پھر کیوں نہیں تم حکم دیتے کہ شام پر حملہ کرو۔نتیجہ جو بھی ہوگا ہم سب بھگت لیں گے۔‘‘مجلس کے دوسرے شرکاء نے عثمانؓ بن عفان کی تائید کی اور متفقہ طور پر کہا کہ دین اور رسول اﷲ ﷺکی امت کے وقار کیلئے مسندِ خلافت سے جو حکم ملے گا سے سب قبول کریں گے۔’’تم سب پر اﷲکی رحمت ہو۔‘‘* *خلیفۃ المسلمینؓ نے آخر میں کہا۔’’میں کچھ امیر مقرر کرتا ہوں۔ اﷲکی اور اس کے رسولﷺ کے بعد اپنے امیروں کی اطاعت کرو۔ اپنی نیتوں اور ارادوں کو صاف رکھو۔ بے شک اﷲانہی لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘ امیر المومنین ابو بکرؓ کا مطلب یہ تھا کہ شام پر حملہ ہوگا اور رومیوں کے ساتھ جنگ لڑی جائے گی ۔مجلس پر پھر خاموشی طاری ہو گئی۔ محمد حسین ہیکل لکھتا ہے کہ یہ خاموشی ایسی تھی کہ جیسے وہ رومیوں سے ڈر گئے ہوں یا انہیں امیرالمومنینؓ کا یہ فیصلہ پسند نہ آیا ہو۔ عمرؓ نے سب کی طرف دیکھا اور ان کی آنکھیں جذبات کی شدت سے سرخ ہو گئیں۔’’اے مومنین!‘‘عمرؓ نے گرج کر کہا۔’’ کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ خلیفہ کی آواز پر لبیک کیوں نہیں کہتے؟ کیا خلیفہ نے اپنی بھلائی کیلئے کوئی حکم دیا ہے؟ کیا خلیفہ کے حکم میں تمہاری بھلائی شامل نہیں؟ امتِ رسول کی بھلائی نہیں؟……بولو……لبیک کہو اور آواز اپنے دلوں سے نکالو۔‘‘مجلس کا سکوت ٹوٹ گیا، لبیک لبیک کی آوازیں اٹھیں، اور سب نے متفقہ طور پر کہا کہ وہ رومیوں سے ٹکر لیں گے۔*

*حج سے واپس آکر خلیفۃ المسلمین ابوبکرؓ نے مدینہ میں گھوڑ دوڑ ، نیزہ بازی ، تیغ زنی، تیر اندازی، اور کُشتیوں کا مقابلہ منعقدکرایا۔اردگرد کے قبیلوں کو بھی اس مقابلے میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ تین دن مدینہ میں انسانوں کے ہجوم کا یہ عالم رہا کہ گلیوں میں چلنے کو رستہ نہیں ملتا تھا۔کوئی جگہ نہیں رہی تھی۔ جدھر نظر جاتی تھی گھوڑے اور اونٹ کھڑے نظر آتے تھے۔دف اور نفیریاں بجتی ہی رہتی تھیں۔قبیلے اپنے شہسواروں اور پہلوانوں کو جلوسوں کی شکل میں لا رہے تھے۔تین دن ہر طرح کے مقابلے ہوتے رہے۔ جن قبیلوں کے آدمی جیت جاتے وہ قبیلے میدان میں آکر ناچتے کودتے اور چلّا چلّا کر خوشی کا اظہار کرتے تھے۔ ان کی عورتیں اپنے جیتنے والے آدمیوں کی مدح میں گیت گاتی تھیں، مقابلے میں باہر کا کوئی گھوڑ سوار یا تیغ زن یا کوئی شتر سوارزخمی ہو جاتا تھا تو مدینہ کا ہر باشندہ اسے اٹھا کر اپنے گھر لے جانے کی کوشش کرتا تھا۔مدینہ والوں کی میزبانی نے قبیلوں کے دل موہ لیے۔مقابلوں اور میلے کا یہ اہتمام خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓ نے کیا تھا،مقابلے کے آخری روز مدینہ کا اک آدمی گھوڑے پر سوار میدان میں آیا۔میدان کے اردگرد لوگوں ، گھوڑوں اور اونٹوں کا ہجوم جمع تھا۔’’اے رسول اﷲﷺکے امتیو!‘‘میدان میں اترنے والے سوار نے بڑی بلند سی آواز سے کہا۔’’خدا کی قسم!کوئی نہیں جوتمہیں نیچا دِکھا سکے ۔تم نے اس میدان میں اپنی طاقت اور اپنے جوہر دیکھ لیے ہیں۔کونسا دشمن ہے جو تمہارے سامنے اپنے پاؤں پرکھڑا رہ سکے گا، یہ طاقت جو تم نے اک دوسرے پر آزمائی ہے ، اب اسے دشمن پر آزمانے کا وقت آگیا ہے جو تمہاری طرف بڑھا آرہا ہے……‘‘’’اے مومنین!اپنی زمین کو دیکھو۔ اپنے اموال کو دیکھو، اپنی عور توں کو دیکھو جو تمہارے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں، اپنی جوان اور کنواری بیٹیوں کو دیکھو، جو تمہارے دامادوں کے انتظار میں بیٹھی ہیں کہ حلال بچے پیدا کریں۔ اپنے دین کودیکھو جو اﷲکا سچا دین ہے۔ خدا کی قسم!تم غیرت والے ہو۔ عزت والے ہو، اﷲنے تمہیں برتری دی ہے۔ تم پسند نہیں کرو گے کہ کوئی دشمن اس وقت تم پر آپڑے جب تم سوئے ہوئے ہو گے، اور تمہارے گھوڑے اور تمہارے اونٹ بغیر زینوں کے بندھے ہوئے ہوں گے اور تم نہیں بچا سکو گے اپنے اموال کو، اپنے بچوں کو، اپنی عورتوں کو، اور اپنی کنواری بیٹیوں کو اور دشمن تمہیں مجبور کر دے گا کہ سچے دین کو چھوڑ کر دشمن کے دیوتاؤں کی پوجا کرو۔‘‘’’بتا ہمیں وہ دشمن کون ہے؟ ‘‘ایک شتر سوار نے چلّا کر پوچھا۔ ’’کون ہے جو ہماری غیرت کو للکار رہا ہے۔‘‘’’رومی!‘‘گھوڑ سوار نے اعلان کرنے کے لہجے میں کہا۔’’وہ ملک شام پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں، ان کی فوج ہم سے زیادہ ہے، بہت زیادہ ہے، ان کے ہتھیار ہم سے اچھے ہیں، لیکن وہ تمہارا وار نہیں سہہ سکتے، تم نے اس میدان میں اپنی طاقت اور اپنی ہمت دیکھ لی ہے، اب اُس میدان میں چلوجہاں تمہاری طاقت اور ہمت تمہارا دشمن دیکھے گا۔‘‘*
*’’ہمیں اس میدان میں کون لے جائے گا؟‘‘ ہجوم میں سے کسی نے پوچھا۔’’مدینہ والے تمہیں اپنے ساتھ لے جائیں گے۔‘‘مدینہ کے گھوڑ سوار نے کہا۔’’دیکھو انہیں جو برسوں سے محاذ پر لڑ رہے ہیں۔ کٹ رہے ہیں اور وہین دفن ہو رہے ہیں، انہیں اپنے بچوں کی یاد نہیں رہی، انہیں اپنے گھر یاد نہیں رہے، وہ بڑی تھوڑی تعداد میں ہیں اور اس دشمن کو شکست پہ شکست دے رہے ہیں جوتعداد میں ان سے بہت زیادہ ہے۔ وہ راتوں کو بھی جاگتے ہیں تمہاری عزتوں کیلئے……انہوں نے آتش پرست فارسیوں کا سر کچل ڈالا ہے۔ اب رومی رہ گئے ہیں لیکن ہمارے مجاہدین تھک گئے ہیں۔ محاذ ایک دوسرے سے دور ہیں، وہ ہر جگہ فوراً نہیں پہنچ سکتے……کیا تم جو غیرت اور عزت والے ہو، طاقت اور ہمت والے ہو، ان کی مدد کو نہیں پہنچوگے؟‘‘ہجوم جو پہلے ہی بے چین تھا، جوش و خروش سے پھٹنے لگا۔ امیرالمومنینؓ کا یہی منشاء تھا کہ لوگوں کو اسلامی لشکرمیں شامل کیا جائے۔ قبیلوں کی جو عورتیں مدینہ آئی تھیں۔ انہوں نے اپنے مردوں کو لشکر میں بھرتی ہونے پر اکسانا شروع کر دیا۔اس روز جو مقابلوں کا آخری روز تھا ، مقابلوں میں کچھ اور ہی جوش اور کچھ اور ہی شور تھا۔ مقابلوں میں اترنے والوں کا انداز ایسا ہی تھاجیسے وہ لشکر میں اچھی حیثیت حاصل کرنے کیلئے اپنے جوہر دِکھا رہے ہوں۔ اس کے بعد ان لوگوں میں سے کئی اسلامی لشکر میں شامل ہو گئے۔یمن میں اسلام مقبولِ عام مذہب بن چکا تھا۔ارتداد بھی ختم ہو گیا تھا اور یہاں کا غالب مذہب اسلام تھا۔ خلیفۃ المسلمینؓ نے اہلِ یمن کے نام ایک خط لکھا جو ایک قاصد لے کر گیا۔خط میں لکھا تھا:’’اہلِ یمن !تم پر اﷲکی رحمتیں برسیں۔تم مومنین ہو اور مومنین پر اس وقت جہاد فرض ہو جاتا ہے جب ایک طاقتور دشمن کا خطرہ موجود ہو۔ حکم رب العالمین ہے کہ تم تنگدستی میں ہو یا خوشحالی میں، تمہارے پاس سامان کم ہے یا زیادہ، تم جس حال میں بھی ہو ،دشمن کے مقابلے کیلئے نکل پڑو۔ اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے خدا کی راہ میں جہاد کیلئے نکلو۔ تمہارے جو بھائی مدینہ آئے تھے۔انہیں میں نے بغرضِ جہاد جانے کی ترغیب دی تو وہ بخوشی تیار ہوگئے اور اسلامی لشکر میں شامل ہو گئے۔میں یہی ترغیب تمہیں دیتا ہوں۔میری آواز تم تک پہنچ گئی ہے، اس میں اﷲکا حکم ہے وہ سنو اور جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اس کے حکم کی تعمیل کرو۔‘‘اس دور کے رواج کے مطابق مدینہ کے قاصد نے یمن میں تین چار جگہوں پر لوگوں کو اکٹھا کیا اور امیرالمومنینؓ کا پیغام سنایا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ایک سردار ذوالکلاع حمیری نے نہ صرف اپنے قبیلے کے جوان آدمیوں کو تیار کرلیا بلکہ اپنے زیرِاثر چند اور قبیلوں کے لڑنے والے آدمیوں کو ساتھ لیا اور مدینہ کو روانہ ہو گیا۔*

*مدینہ کا قاصد ہر قبیلے میں گیا تھا تین اور قبیلوں کے سرداروں قیس بن ھبیرمرادی، جندب بن عمرو الدوسی اور حابس بن سعد طائی۔ نے اپنے اپنے قبیلے کے جوانوں اور لڑنے کے قابل افراد کو ساتھ لیا اور شام کی جنگی مہم میں شریک ہونے کیلیئے عازمِ مدینہ ہوئے۔یہ ایک اچھا خاصہ لشکر بن گیا،ہر فرد گھوڑے یا اونٹ پر سوار اور ہر قسم کے ہتھیاروں سے مسلح ہوکر آیا، یہ لوگ تیروں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ بھی ساتھ لے آئے، مدینہ میں اس لشکرکا اجتماع ۶۳۴ء )محرم ۱۳ھ (میں ہوا تھا۔امیرالمومنین ابو بکرؓ نے خود اس اجتماع کے ہر آدمی کواچھی طرح سے دیکھاکہ وہ تندرست ہے اور وہ کسی کے مجبور کرنے پر نہیں بلکہ جہاد کا مطلب اور مقصد سمجھ کرخود آیا ہے۔ پھر اس لشکرکی چھان بین یہ معلوم کرنے کیلئے کی گئی کہ ان میں کئی افراد مرتدین کے ساتھ رہے اور مسلمانوں نے ارتداد کے خلاف جو جنگ لڑی تھی، اس میں وہ مسلمانوں کے خلاف لڑے تھے۔ انہوں نے اسلام تو قبو ل کرلیا تھا لیکن ان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا تھا،مرتدین نے یہ عادت بنالی تھی کہ مرتد بنے رہے، جب مسلمانوں کے ہاتھوں میدانِ جنگ میں پِٹ گئے تو اسلام قبول کر لیا مگر مسلمان ان پر بھروسہ کرکے ان کی بستیوں سے ہٹے تو ان میں سے کئی ایک اسلام سے منحرف ہو کر پھر مرتد ہو گئے۔مدینہ میں چھان بین کی گئی تو ان میں سے بعض کو لشکر سے نکال دیا گیا۔باقی لشکر کو چار حصوں مین بانٹ کر ہر حصے کا سالار مقرر کیا گیا۔ ہر حصے میں سات ہزار آدمی تھے یعنی لشکر کی تعداد اٹھائیس ہزار تھی۔زیادہ تر مؤرخوں نے یہ تعداد تیس ہزار لکھی ہے، ایک حصے کے سالار تھے عمروؓ بن العاص، دوسرے کے یزید ؓبن ابی سفیان ، تیسرے کے شرجیلؓ بن حسنہ اور چوتھے حصے کے سالار ابو عبیدہؓ بن الجراح تھے۔ان سالاروں نے چند دن لشکر کو بڑے پیمانے کی جنگ لڑنے کی ٹریننگ دی جس میں معرکے کے دوران دستوں کا آپس میں رابطہ اور نظم و نسق قائم رکھنا شامل تھا۔اپریل ۶۳۴ء )صفر ۱۳ھ( کے پہلے ہفتے میں اس لشکر کو شام کی طرف کوچ کا حکم ملا۔ہر حصے کے الگ الگ مقامات پر پہنچنا اور ایک دوسرے سے الگ کوچ کرنا تھا۔ عمروؓ بن العاص کو اپنے دستوں کے ساتھ فلسطین تک جانا تھا، یزیدؓ بن ابی سفیان کی منزل دمشق تھی، انہیں تبوک کے راستے سے جانا تھا، شرجیلؓ بن حسنہ کو اردن کی طرف جانا تھا، انہیں کہا گیا تھا کہ یزیدؓ بن ابی سفیان کے دستوں کے پیچھے پیچھے جائیں، ابو عبیدہؓ بن الجراح کی منزل حمص تھی۔ انہیں بھی تبوک کے راستے سے ہی جانا تھا۔*

*جزاکم اللہ خیرا۔*

*جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*👇🏻
            *اسلامک ہسٹری*

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─