┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 34
پارٹ 1

 جب فرہاد حرم کے کمرے میں آیا تو عشا کی نماز ادا کر رہی تھی۔وہ اسے ایک طرف صوفے پر بیٹھ کر دیکھنے لگا۔۔حرم کو دیکھ کر اسکے دل میں عجیب سا اطمينان اوع سکون اترتا تھا۔خاص طور پر جب وہ یوں عبادت میں مصروف ہوتی۔ بیوی خوبصورت ہو نا ہو نیک ضرور ہونی چاہیۓ۔۔ یہ فرہاد کو آج احساس ہو رہا تھا۔ نیک بیوی گھر کو پرسکون جنت کی طرح بنادیتی تھی۔وہ بس اسے خاموشی سے دیکھے جا رہا تھا۔۔نماز پڑھنے کے بعد حرم نے دعا کیلیۓ ہاتھ اٹھاۓ۔۔

جب وہ دعا مانگ کر فارغ ہوٸ تو جاۓ نماز اٹھانے لگی۔۔ 

آپ کب آۓ ہادی۔۔؟؟ وہ بنا دیکھے پوچھ رہی تھی۔۔ 

فرہاد چونکہ وہ جتنی مگن تھی اسکا نہیں خیال تھا کہ اس نے اسکی موجودگی کو محسوس کیا ہوگا۔

تمہیں کیسے پتا چلا کہ میں یہاں ہوں۔۔ وہ الٹا سوال پوچھ رہا تھا۔

ابھی محسوس ہوا۔۔ آپکی خوشبو سے۔۔ وہ جاۓ نماز تہہ کرتے ہوۓ بولی۔

اچھا۔۔ فرہاد کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گٸ۔

لگتا ہے کوٸ خاص بات ہے۔۔ وہ اسکے سامنے بیٹھتے ہوۓ بولی۔۔ فرہاد کی نظریں اسکے چہرے پر جمی تھیں۔۔ سادھا سا چہرہ نماز کیلیۓ کیۓ گۓ گول ڈوپٹے میں لپٹا تھا۔

بات تو بہت خاص ہے مگر تمہارے لیۓ شاید نا ہو۔۔ 

مطلب۔۔۔ حرم سمجھی نہیں۔

حرم میں تم سے کمپیٹیشن کی بات کرنے آیا ہوں۔۔ جو یونيورسٹی میں ہونے والا ہے۔۔

نو۔۔ نیور۔۔ حرم ایک جھٹکے سے اٹھی۔۔ 

بیٹھ جاٶ حرم۔۔ فرہاد نے اسکا ہاتھ پکڑا۔۔ 

پلیز ہادی۔۔مجھ سے نہیں ہوگا۔۔ میں نے کبھی کمپیٹیشن نہیں کیا۔۔ کسی بھی فیلڈ میں نہیں۔ مجھے آتا ہی نہیں۔۔ اور مجھے ڈر بھی بہت لگتا ہے۔۔ وہ روہانسی ہوۓ کہہ رہی تھی۔۔

بیٹھو تو۔۔ وہ ابھی تک کھڑی تھی۔۔ فرہاد کے دوسری دفعہ کہنے پر بیٹھ گٸ۔

کس بات کا ڈر۔۔؟؟ ہار جانے کا۔۔ بتاٶ۔۔ فرہاد پوچھ رہا تھا۔

لڑے بنا ہار جانا سب سے بڑی بزدلی ہے۔۔ اور تم نے پرامس کیا تھا کہ ہر چیز کا مقابلہ کروگی۔۔ حالات کیسے بھی ہوں انہیں فیس کرو گی۔۔ یاد ہے نا حرم۔۔ 

پر ہادی۔۔ آپ زی کو نہیں جانتے۔۔ وہ آلریڈی مجھے پسند نہیں کرتی۔۔ وجہ میں نہیں جانتی اگر میں اسکا مقابلہ کرونگی تو اسکی نفرت مزید بڑھ جاۓ گی۔۔ اور اوپر سے وہ بہت زہین ہے۔۔ میں عام سی لڑکی ہوں ہادی۔۔ مجھ سے نہیں ہوگا۔

کوٸ تمہیں پسند کرتا ہے یا نہیں کرتا۔۔ یہ تمہارا مسٸلہ نہیں ہے حرم۔۔اور رہی بات اسکے زہین ہونے کی تو میں نے سنا تھا کہ حرم زہانت پر نہیں محنت پر یقین رکھتی ہے۔۔ راٸٹ۔۔؟؟ وہ اسکے ہاتھ دباتے ہوۓ بولا۔

جی رکھتی ہوں۔۔ حرم نے آہستہ سے کہا۔

تو پھر کس بات کا ڈر ہے۔۔ اور اگر تم لڑے بنا ہی مقابلے سے باہر ہوٸ تو زی تمہارا زیادہ مزاق اڑاۓ گی۔۔ ہار جیت تو بعد کی بات ہے۔۔ تم ہمت تو کرو۔۔ 

پر ہادی۔۔ وہ منمناٸ۔۔ 

پر ور کچھ نہیں۔۔ میری حرم یہ کمپیٹیشن کر رہی ہے۔۔ اوکے۔۔؟؟ وہ مسکراتے ہوۓ پوچھ رہاتھا۔۔ حرم نے کوٸ جواب نہیں دیا۔

سرواٸیو کرنا سیکھو حرم ہر جگہ پر ہر حالات میں۔۔ یہ دنیا انہی کی ہے جو سرواٸیو کر جاتے ہیں اس میں۔۔ جو دنیا سے چار قدم آگے رہتے ہیں۔۔ تم یہ سب نہیں جانتی حرم۔۔ اور میں چاہتا ہوں تم سمجھ جاٶ سب۔۔ سیکھ جاٶ۔۔ تاکہ اگر کل کو میں تمہارے ساتھ نا ہوں تو تمہیں جینے میں کوٸ پرابلم نا ہو۔۔وہ پیار سے کہہ رہا تھا جبکہ حرم نے اسکی آخری بات پر چونک کر اسے دیکھا۔

کیا مطلب آپ ساتھ نہیں ہونگے۔۔ آپ کہاں جاٸیں گے مجھے چھوڑ کڑ۔۔؟؟ حرم بھڑک اٹھی۔۔

ابھی تو کہیں بھی نہیں جا رہا۔۔ فرہاد نے اسے غصے میں دیکھا تو مسکراتے ہوۓ کہا۔

اور جانا بھی نہیں کہیں۔۔ آپ مجھے چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتے۔۔ سمجھے آپ۔۔؟ اور جہاں تک بات کمپیٹیشن کی ہے وہ میں کرونگی۔۔ بس آپ نیکسٹ ایسی کوٸ بات نہیں کریں گے۔۔ وہ منہ پھلاتے ہوۓ بول رہی تھی۔۔

اور فرہاد نے مشکل سے اپنی ہنسی روکی۔۔ تیر نشانے ہر لگا تھا۔۔ 

اوکے بابا۔۔ کہیں نہیں جاتا۔۔ اب خوش۔۔؟؟ 

ہمممم۔۔۔ حرم نے اثبات میں سر ہلایا۔۔ 

ویسے آج آپ نے چاۓ نہیں بناٸ۔۔ حرم نے اٹھتے ہوۓ کہا۔۔ وہ ڈریسنگ ڈیبل کے سامنے کھڑی ہو کر اپنے کھلے بالوں کو فولڈ کر رہی تھی۔۔ جو شاید گیلے تھے۔۔ 

ہاہ ہ ہ ہ۔۔ حرم ویسے تمہیں شرم نہیں آتی خود چاۓ بنانے کی بجاۓ تم روز مجھے کہہ دیتی ہو۔۔ فرہاد نے حیران ہوتے ہوۓ کہا۔

ہاں تو۔۔ اور کس سے کہوں۔۔ شانو اور آپا تواس وقت تک چلی جاتی ہیں۔۔ آپ ہی ہیں اس گھر میں تو آپ سے ہی کہوں گی نا۔۔ 

کیا بات ہے ویسے۔۔ ایک ڈاکٹر سے تم گھر کے کام کرواتی ہو۔۔وہ ابھی تک مصنوعی صدمے کے زیراثر تھا۔

وہ اس لیۓ کہ مجھے آپکے ہاتھ کی چاۓ اچھی لگتی ہے۔۔ اور دوسری بات یہ کہ آپ جانتے ہیں مجھے گھر کے زیادہ کام نہیں کرنے آتے۔۔ میں بس بکس اور ناولز پڑھ سکتی ہوں۔۔ حرم نے مسکراتے ہوۓ کہا۔

اچھااااا۔۔ جانتا ہوں۔۔ وہ اٹھتے ہوۓ بولا۔۔

ایک بات اور۔۔ میں پرفیکٹ نہیں ہوں۔۔ کسی بھی کام میں نہیں۔۔ اگر آپ کو پرفیکٹ واٸف چاہیۓ تو ایک اور شادی کرلیں۔۔ ویسی لڑکی سے جو ناولز کی ہیروٸن جیسی ہو۔۔ بہت ہی خوبصورت۔۔ جسے دیکھ کر پہلی نظر میں پیار ہو جاۓ۔۔ جو ایک دم پرفیکٹ ہو۔۔ بہت بہادر بھی ہو۔۔ جسے کام کرنے آتے ہوں۔۔ وہ شرارت چہرے پر سجاۓ بول رہی تھی۔۔ میں تو عام سی لڑکی ہوں۔۔عام سے خدوخال کی۔۔ بیشک وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔۔ 

فرہاد چلتا ہوا اسکے قریب آیا۔۔ 

آج کہہ دیا تھا آٸندہ مت کہا۔۔ وہ اسکے دونوں ہاتھوں کو تھام کر بولا۔۔ تم عام نہیں ہو حرم۔۔ بالکل بھی نہیں۔۔ میرے لیۓ تو نہیں۔۔ ہاں لیکن شادی والی بات سوچی جا سکتی ہے۔۔ واقعی ایسی لڑکی جو میرا ہر کام خود اپنے ہاتھوں سے کرے۔۔ وہ آخر میں شریر ہوا۔۔

تو کرلیں کس نے روکا ہے۔۔ میں نے اس سے فرینڈشپ کرلینی ہے۔۔ جو اسے بھی اپنے جیسا بنا لینا ہے۔۔ حرم نے ہاتھ چھڑاتے ہوۓ کہا۔۔ اب وہ باہر کی طرف جارہی تھی۔۔

بس اسی لیۓ۔۔ میں جانتا ہوں۔۔ تم بہت تیز ہو۔۔ فرہاد نے اسے چھیڑا۔۔ 

اور بری بھی ہوں۔۔۔ اگر وہ مجھے پسند نا آٸ تو اسکا مڈر بھی کرونگی۔۔ حرم نے خطرناک لہجے میں کہا۔۔

ہاہاہاا واقعی۔۔ فرہاد کا قہقہہ گونجا۔۔ بہت خطرناک ہو تم۔۔وہ چوہا۔۔ فرہاد نے اسکی طرف اشارہ کیا۔۔ 

اور حرم جو لاٶنج کے صوفے کے اس کھڑی تھی ڈر کر ایک دم صوفے پر چڑھ گٸ۔۔ 

کہاں۔۔ کہاں ہے چوہا۔۔ حرم نے نیچے دیکھتے ہوۓ کہا۔

افففف۔۔۔ ہاہاہاہاہا۔۔۔ فرہاد کھڑا ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔ 

ڈر گٸ۔۔ پہلے چوہے کا تو مڈر کرلو۔۔ 

حرم اسکی شرارت سمجھ چکی تھی۔۔ 

ویری فنی۔۔ حرم نے منہ بنایا۔۔ اور فرہاد مسکراتا ہوا کچن کی طرف بڑھ گیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ رات کی چاۓ اسے ہی بنانی ہوتی ہے۔۔ 

          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریم بدل مارگریٹ۔۔ زی آج مدر کے پاس آٸ تھی جو اپنے آفس میں بیٹھی تھی۔

اسکی نظریں بھٹک رہیں ہیں ۔۔ مدر۔۔۔ ایک عام سی لڑکی ہے جس میں اسے دلچسپی ہو رہی ہے۔۔ 

شاید یہ تمہارا وہم ہو زی۔۔ مدر مارگریٹ نے کہا۔

آپ جانتی ہیں مدر میں ٹھوس ثبوت کے بنا بات نہیں کرتی۔۔ میں نے خود اسے نوٹ کیا ہے وہ رون سے کہہ کر اس لڑکی کو میرے مقابلے پر لے آیا ہے۔۔اسکی اتنی اوقات نہیں کہ وہ زی سے کمپیٹیشن کرے۔۔ زی کے لہجے میں بلا کی نفرت تھی غرور تھا۔ اور کہا جاتا ہے غرور انسان کو ہمیشہ جھکنے پر مجبور کرتا ہے۔۔ 

اونہوں۔۔ زی۔۔ ایسے نہیں کہتے۔۔ مدر مارگریٹ نے اسے ٹوکا۔کسی کے بارے میں برا خیال دل میں نہیں رکھنا چاہیۓ۔۔ تم خود ہی کہہ رہی ہو نا کہ وہ عام سی لڑکی ہے۔۔ تو پھر عام سی لڑکی سے کیسا ڈر۔۔ عام سی لڑکی س کیسا جیلس ہونا۔۔؟؟ مدر مارگریٹ نے پیار سے پوچھا۔

زی نے چونک کر مدر کو دیکھا بیشک وہ ٹھیک کہہ رہی تھیں۔

تو پھر میں کیا کروں۔۔ ریم کی اس میں دلچسپی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔۔ 

جو ہوتا ہے اچھے کیلیۓ ہوتا ہے۔۔ جو ہو رہا ہے اسے ہونے دو۔۔ شاید کچھ اچھا ہی ہو جاۓ۔۔ اور پھر تم ہی تو کہتی ہو ناکہ ریم کو مسلمز گرلز سے انتہا کی نفرت ہے۔۔ تو پھر کس بات کا ڈر ہے۔۔۔؟؟ زی جو ایشور نے تمہارے لیۓ بنایا ہے وہ تمہیں مل کر رہے گا۔۔ اسے تم سے کوٸ نہیں چھین سکتا۔۔اوکے۔۔؟؟ 

جی مدر۔۔ زی مسکراٸ۔۔ مدر مارگریٹ کی باتیں ہمیشہ اسکا حوصلہ بڑھاتی تھیں۔۔

تو پھر ریڈی ہو نا۔۔۔؟؟ مدر مارگریٹ نے پوچھا۔

میں ہمیشہ ہی ریڈی رہتی ہوں مدر۔۔ اسے ہرا کر ریم کے زہن سے اسکا نام اور اسکے دل سے اسکی دلچسپی ختم کر کے ہی دم لونگی۔۔ زی نے عزم سے کہا۔

نو زی۔۔ ماۓ چاٸلڈ۔۔ اسے ہرانے کا مت سوچو۔۔ خود کی جیت کا سوچو۔۔ اگر سارا وقت اسے ہرانے میں گزار دو گی تو خود کیسے جیت پاٶ گی۔۔اسکے بارے میں سوچنا بند کردو۔۔ جیت تو تم نے جانا ہی ہے نا۔۔ پھر اس مسلم لڑکی کیلیۓ اپنے دل سے برے خیالات نکال دو۔۔ وہ ہمیشہ ہی زی کو اچھاٸ کی طرف لاتی تھیں۔۔

ہممم۔۔۔۔ آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں مدر۔۔ نیکسٹ میں ایسا ہی کرونگی۔۔ زی نے مسکراتے ہوۓ کہا۔

گڈ۔۔ مدر مارگریٹ بھی مسکراٸ۔۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا وہ بہت خوبصورت ہے رومان۔۔ آنی نے رومان کے پاس آتے ہوۓ پوچھاجو بالکونی میں کافی کا مگ لیۓ کھڑا سوچوں میں گم تھا۔

کون آنی۔۔ وہ چونکا۔۔

وہی جسکے بارے میں اس وقت سوچ رہے ہو۔۔ 

نہیں تو۔۔ رومان نے جواب دیا۔

اچھا پھر بہت ہی پرفیکٹ ہوگی۔۔ زی کے جیسی۔۔ ہر کام میں ماہر۔۔ ویسی ہی لڑکی جیسی تمہیں پسند ہے۔۔آنی نے پھر پوچھا۔۔

نہیں آنی۔۔ ایسی بات نہیں ہے۔۔ وہ مسکرایا۔۔ 

اچھا تو پھر کیسی بات ہے۔۔؟؟ 

وہ بہت عام سی لڑکی ہے آنی۔۔ اتنی عام اتنی عام کہ اسکا عام پن اسکی سب سے بڑی خاصیت بن چکا ہے۔۔ وہ مسکرا رہا تھا۔ اور زہن میں رون سے لڑتی حرم کی شبیہہ ابھر رہی تھی۔

آخر تمہیں بھی اپنے باپ کی طرح ایک مسلم لڑکی ہی ہسند آٸ۔۔ مجھے اسکے بارے میں تفصيل سے بتاٶ۔۔ آنی کے لہجے میں جانے کیا تھا۔۔ رومان نے چونک کر انہیں دیکھا۔۔

نہیں آنی۔۔ آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔۔ وہ جھوٹ بول رہا تھا۔

تمہارے چہرے پر سب لکھا ہے رومان۔۔۔ آنی نے کہا۔

مجھے آفس جانا ہے آنی۔۔ مینیجر کا فون آیا تھا۔۔ ایک ضروری میٹنگ ہے۔۔وہ مگ بالکونی کی دیوار پر رکھتا واپس مڑا۔۔

اسے بہت کچھ بتانا تھا آنی سے۔۔اپنا ایک ایک احساس حرم کو لے کر وہ شیٸر کرنا چاہتا تھا۔۔ مگر رک گیا۔۔ وہ جانتا تھا آنی کو مسلمز پسند نہیں۔۔

کاش مما آپ آج میرے پاس ہوتیں۔۔ وہ سیڑھیاں اترتے سوچ رہا تھا۔۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے مجھے آپکی کتنی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔۔ وہ اکیلا تھا۔۔ تصور میں اپنی ماں سے باتیں کر رہا تھا۔۔

آپ میرے پاس نہیں ہیں۔۔ مجھے چھوڑ دیا آپ نے۔۔ اس لیۓ میں آپ سے نفرت کرتا ہوں۔۔ وہ اب گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔۔

آنی بالکونی سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔ اور پھر چند پل میں وہ گاڑی بگھاتا لے گیا۔

تم کتنا بھی چھپالو رومان مگر میں جان چکی ہوں جو تمہارے دل میں ہے۔۔ آخر خون تو عالم شاہ کا ہی ہو نا تم۔۔ پھر کیسے محبت کے معاملے میں بدل سکتے ہو۔۔ اور ہو بھی اپنے باپ کی طرح بےوقوف۔۔ جس طرح اس نے اپنی محبت پر بھروسہ نہیں کیا۔۔ پل میں اسے اپنی زندگی سے باہر نکال پھینکا تھا۔۔ بالکل ویسے ہی میں تمہیں بھی اس لڑکی سے شدید نفرت کرنے پر مجبور کردونگی۔۔ آنی خود سے باتیں کر رہی تھی اور پھر اسکے چہرے پر پراسرار سی مسکراہٹ رینگ گٸ۔۔ 

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حرم تم سے ایک بات کرنی تھی۔۔ عرش نے حرم کے ساتھ چلتے ہوۓ کہا جسکا رخ لاٸبریری کی طرف تھا۔۔

بولو عرش پوچھنے کی کیا ضرورت ہے۔۔ حرم مسکراٸ۔

وہ دراصل بیلا کو تمہارا کزن ہادی بہت پسند آیا ہے۔۔ عرش نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ کہیں حرم کو برا نا لگ جاۓ۔۔ اور واقعی جس دن سے بیلا نے فرہاد کو دیکھا تھا وہ اسے بھول نہیں پارہی تھی۔۔ ہر وقت عرش کا دماغ کھاتی رہتی تھی کہ حرم سے بات کرو۔۔ 

اچھا۔۔ وہ ہیں ہی اتنے اچھے سب کو پسند آ جاتے ہیں۔۔ حرم نے فخر سے جواب دیا۔

وہ والا پسند نہیں حرم۔۔ عرش نے کہا۔

اچھا تو اور کونسا پسند۔۔ حرم نے حیرت سے پوچھا۔۔

ہے لیڈی رون۔۔ بیسٹ آف لک فار کمپیٹیشن۔۔ پاس سے گزرتے آرٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک سٹوڈنٹ نے مسکرا کر حرم سے کہا۔ 

جب سے حرم نے رون کو جوتا مارا تھا اور ویڈیو لیک ہوٸ تھی اکثر سٹوڈنٹس نے اسے لیڈی رون بلانا شروع کر دیا تھا کیونکہ اسکی حرکتیں رون جیسی تھیں۔۔ 

اففف لگتا پوری یونيورسٹی کو خبر ہو گٸ ہے۔۔ حرم نے اسکی بات سن کر کوفت سے کہا۔۔

ابھی تو کچھ بھی نہیں آگے آگے دیکھو ہوتا ہے کیا۔۔ وہ دونوں سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں۔۔ عرش نے حرم کی بات سنتے ہوۓ کہا۔

اللہ خیر کرے۔۔ ویسے تم کچھ کہہ رہی تھیں۔۔ حرم نے پوچھا۔

اسے تمہارے کزن ہادی پر کرش ہو گیا ہے۔۔ عرش نے جواب دیا۔۔

کیا واقعی۔۔ حرم کو ہنسی آگٸ۔۔ 

ہاں اور وہ انکا نمبر مانگ رہی ہے۔ اور کہہ رہی ہے کہ حرم ست کہو کہ ہادی سے میری فرینڈ شپ کروادے۔۔ 

عرش کی بات سن کر حرم کی مسکراہٹ ایک دم غاٸب ہوٸ۔۔ وہ شاید دنیا کی پہلی لڑکی تھی جس میں جیلسی کے جراثيم نہیں پاۓ جاتے تھے۔۔ اور حرم کو اپنی یہ خوبی بہت پسند تھی۔۔ کہ کچھ بھی ہوتا رہتا تھا اسے کبھی فرق نہیں پڑتا تھا۔۔ کوٸ کتنا خوبصورت ہے کتنا ماڈرن ہے۔۔ کتنا فیمس ہے اس نے کبھی دھیان نہیں دیا۔۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ جیلس ہونا محبت کی نشانی ہے۔۔ جو عورت جیلس نہیں ہوتی مطلب اسے محبت نہیں ہوٸ۔۔ 

کیا۔۔ مزاق اچھا ہے ویسے۔۔ حرم نے عرش سے کہا۔

یہ مزاق نہیں ہے۔۔ بیلا سیریس ہے۔۔ 

اففف۔۔۔ تمہیں پتا بھی ہے وہ میرڈ ہیں۔۔ حرم نے عرش کے کان کے قریب سرگوشی کی۔۔ 

کیا۔۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔عرش کو حیرت کا جھٹا لگا۔

کیوں نہیں ہونا چاہیۓ کیا۔۔ حرم نے پوچھا۔

نہیں میرا مطلب انہیں دیکھ کر لگتا تو نہیں ہیں کہ وہ میرڈ ہیں۔۔ عرش نے حیرانی سے کہا۔

کیوں۔۔ کیوں نہیں لگتا۔۔ میرڈ دکھنے کے لیۓ کیا چیز لازمی ہے۔۔ حرم عرش کی حیرانگی سے محفوظ ہو رہی تھی۔

میرا مطلب آج کل شادی کے بعد لڑکوں کی حالت ہی بدل جاتی ہے۔۔ آج کل کی بیویاں اپنٕ شوہروں کو نوکر بنا کر رکھتی ہیں۔۔ عرش اپنی راۓ پیش کر رہی تھی۔

ایسی بات نہیں ہے۔۔ انکی واٸف اچھی ہیں۔۔ حرم نے عرش کی بات پر منہ بنایا۔۔ وہ دونوں لاٸبریری کے اندر داخل ہوٸیں۔۔

اچھی ہی ہونگی تبھی انہیں تمہارے ہادی کے ساتھ رہنے سے پرابلم نہیں ہوٸ۔۔ ورنہ کوٸ واٸف یہ کب برداشت کرتی ہے۔۔ 

وہ اس لیۓ کہ میں انکی کزن ہوں۔۔ حرم نے عرش کی بات کاٹی۔۔  

چلو اگر انہیں تمہارے ہادی کے ساتھ رہنے پر کوٸ پرابلم نہیں ہے تو بیلا سے بات کرنے پر بھی نہیں ہوگی۔۔ تو کیا میں انکا نمبر بیلا کو دے دوں۔۔ عرش پوچھ رہی تھی۔۔ 

بالکل بھی نہیں۔۔ حرم کو غصہ آیا اسے جانے کیوں عجیب سا فیل ہو رہا تھا۔

پر کیوں۔۔ بھلا ہی ہوگا بیلا کا۔۔ اتنا سا کام کرنے میں کیا برائی ہے اگر تم ان دونوں کی فرینڈشپ کروا دو گی تو۔۔ ؟؟ 

میں ایسا نہیں کر سکتی۔۔حرم نے جواب دیا۔۔

وہی تو پوچھ رہی ہوں آخر کیوں۔۔؟؟ جب انکی واٸف کو کوٸ پرابلم نہیں ہوگی تو تمہیں کیا۔۔

کیونکہ میں ہی انکی واٸف ہوں۔۔ غصے میں حرم کے منہ سے وہ نکل گیا جو وہ نہیں چاہتی تھی۔۔

کیا۔۔۔؟؟ عرش اتنی زور سے چلاٸ کہ لاٸبریری میں بیٹھے سبھی سٹوڈنٹس نے لاٸبریرین سمیت چونک کر انکی طرف دیکھا۔۔ وہ کب سے کھسر پھسر کر رہیں تھیں۔۔ اب تو عرش نے حد ہی کردی تھی۔۔

سوری۔۔ عرش نے غصے سے دیکھتی لاٸبریرین سے کہا۔

یہ تم کیا کہہ رہی ہو حرم۔۔ عرش کا صدمے سے برا حال تھا۔۔ 

جی یہ سچ ہے۔۔ حرم نے آہستہ سے کہا۔۔ یہاں آنے سے پہلے ہماری شادی ہوٸ تھی۔۔

تم۔۔ تم نے اتنی بڑی بات چھپاٸ۔۔ عرش کو اب غصہ آرہا تھا۔

سوری۔۔میں۔۔ حرم کچھ کہنا چاہتی تھی مگر۔۔ 

اٹھو تم یہاں سے باہر چلو۔۔ عرش نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا۔۔ باہر چل کر بات کرتے ہیں۔۔ وہ اسے لے کر لاٸبریری سے باہر نکل گٸ۔۔

  
       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مام مجھے کچھ بات کرنی ہے آپ سے۔۔ ایش نے مسز ولیم سے کہا۔ وہ، گرینی اور مسز ولیم لنچ کیلیۓ اکٹھے ہوۓ۔۔ اور یہی سہی وقت لگا تھا ایش کو۔

ہاں بولو۔۔ مسز ولیم نے مصروف سے انداز میں کہا۔

یہ میں نے کیا سنا ہے۔۔ ماٸیک کیا کہہ رہا ہے۔۔؟؟ آپ لوگ مجھ سے میری مرضی جانے بنا میری شادی کا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں۔۔ ایش بہت غصے میں تھی اور اس سے بھی زیادہ شدید صدمے میں۔

یہ میرا نہیں تمہارے ڈیڈ کا فیصلہ ہے ایش۔۔ انہیں لگتا ہے کہ تم انکی کسی بات سے بھی انکار نہیں کروگی۔۔ وہ جانتے ہیں کہ تم انکی ہر بات مانتی ہو۔۔۔ مسز ولیم نے جواب دیا۔

وہ تو ٹھیک ہے لیکن پوچھنا تو ضروری سمجھا ہوتا ڈیڈ نے۔۔ وہ ہر بات مجھ سے ڈسکس کرتے ہیں۔۔ اور میری زندگی کی سب سے بڑی بات۔۔ سب سے بڑا فیصلہ بنا مجھے بتاۓ انہوں نے اکیلے کیسے کرلیا۔۔ 

جب وہ آٸیں تو ان سے پوچھ لینا۔۔ مجھ سے بحث کر کے کچھ بھی حاصل نہیں ہونا۔۔ 

پر کیوں مام۔۔ کیوں۔۔ 

کیونکہ میں خود اس فیصلے کے حق میں ہوں۔۔ ماٸیک بہت اچھا لڑکا ہے۔۔ وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا۔۔

اور میری خوشی۔۔ اسکا سوچا آپ لوگوں نے۔۔ 

کیا ہے تمہاری خوشی۔۔؟؟ مسز ولیم نے غصے سے پوچھا۔۔ وہ اپنی اکلوتی بیٹی سے بہت تنگ تھیں۔ جو کبھی لڑکيوں جیسا بی ہیو نہیں کرتی تھی۔۔

کیا تم کسی کو پسند کرتی ہو ایش۔۔۔؟؟ گرینی نے پہلی بار دونوں ماں بیٹی کی بات میں مداخلت کی۔۔

جی گرینی۔۔ ایش نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد صاف صاف بتا دیا۔۔

جبکہ مسز ولیم کا منہ حیرت سے کھل گیا۔
یہ کیا کہہ رہی ہو تم ایش۔۔۔؟

یہی سچ ہے مام۔۔۔ میں بھی ایک عام لڑکی ہوں۔۔ میرے پاس بھی دل ہے۔۔ اور وہ دل کسی پر آ بھی سکتا ہے۔۔

تمارے ڈیڈ کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے۔۔ تم جانتی ہو ایش۔۔ مسز ولیم نے کہا۔

گرینی انہیں بتا دیں کہ یہ میری لاٸف ہے۔ میں اپنی مرضی سے جینا چاہتی ہوں۔۔ مجھے ماٸیک بالکل بھی نہیں پسند۔۔۔ اور ہاں جو لڑکا مجھے پسند ہے وہ مسلم ہے۔۔ ایش نے ایک اور دھماکہ کیا اور اپنابرساتی کوٹ اٹھاتی باہر نکل گٸ۔۔ 

پیچھے مسز ولیم اپنا سر پکڑ کر رہ گٸ تھیں۔۔ 

     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب مجھے سب کچھ بتاٶ یہ کیا چکر ہے۔۔؟؟ عرش اسے یونيورسٹی میں فاٶنٹین کے پاس لے آٸ تھی۔۔ اب وہ دونوں وہاں بیٹھی تھیں۔۔ 

کیا بتاٶں۔۔؟؟ اور کس چکر کی بات کر رہی ہو تم۔۔؟؟ حرم نے پوچھا۔

 کیا تم لوگوں کی لو میرج ہے۔۔؟؟ عرش نے اشتیاق سے پوچھا۔

نہیں۔۔ حرم نے نفی میں سر ہلایا۔۔ 

اوکے۔۔ پھر سب کچھ بتاٶ مجھے۔۔ عرش نے کہا۔۔

اور حرم نے کہنا شروع کیا۔۔ اگلے بیس منٹ میں وہ اسے اب تک کی ساری سٹوری سنا چکی تھی۔۔

واٶٶٶ ناٸس۔۔ عرش نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔

تبھی میں سوچوں وہ تمہاری اتنی کٸیر کیوں کرتے ہیں۔۔ عرش نے شرارت سے کہا۔

تمہیں کیسے پتا۔۔؟؟ حرم حیران ہوٸ۔

میں نے ہاسپٹل میں دیکھا تھا۔۔ جب تم بے ہوش تھی۔۔ انکی حالت دیکھنے والی تھی۔۔ 

ہاں وہ بہت اچھے ہیں۔۔ حرم نے تعریف کی۔

ویسے یار اتنے اچھے شوہر کو جسٹ فرینڈ بنا کر رکھنا بہت بڑی بےوقوفی ہے۔۔ اور تم دنیا کی سب سے بےوقوف ترین لڑکی ہو۔۔ عرش نے معنی خیزی لہجے میں کہا۔۔

بکو مت۔۔ حرم جھینپ گٸ۔

آج میں یہاں ہوں۔۔ اتنی خوش ہوں۔۔ یہ سب ہادی کی وجہ سے ہے۔۔ اور پلیز اب تم سب کو مت بتا دینا۔۔ میں سب کے درميان انکے جیسی بن کر رہنا چاہتی ہوں۔۔ اگر سب کو پتا چلا تو کتنا عجیب فیل ہوگا۔۔ 
تم سمجھ رہی ہو نا عرش۔۔ حرم نے بے چارگی سے کہا۔

ہمممم۔۔۔ میں تمہاری حالت سمجھ سکتی ہوں۔۔ ڈونٹ وری کسی کو بھی پتا نہیں چلے گا۔۔ عرش نے مسکرا کر کہا۔۔

تھینکس۔۔ حرم بھی مسکراٸ۔۔

اور عرش کا زہن کہی الجھا تھا۔۔ وہ دو نیلی آنکھوں کی چمک جو حرم کو دیکھ کر بڑھ جاتی تھی۔۔ انکا کیا ہوگا۔۔؟؟ وہ سوچ رہی تھی۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایش اسٹوڈیو آگٸ تھی۔۔ سنڈے کو اسٹوڈیو میں مختلف ریکارڈنگز ہوتی تھیں۔۔ میوزک کلاس تو نہیں تھی اسکی آج۔۔ البتہ جو ویک اینڈ پر کلاسز لیتے تھے وہ سٹوڈنٹس وہاں جمع تھے۔۔ 

میوزک اسے راحت پہنچاتا تھا۔۔ کافی سٹوڈنٹس اور ٹیچرز اسے جانتے تھے۔۔ وہ سب کو ہیلو ہاۓ کرتی ایک پیانو کی طرف بڑھی۔۔ آج پھر بارش ہو رہی تھی۔۔ یہ موسم ہی بارش کا تھا۔۔ ایش کا برساتی کوٹ بھیگ چکا تھا۔۔ لیکن اسے کہاں پرواہ تھی۔۔

وہ ایک پیانوں کی طرف بڑھی۔۔ بڑے کلاس روم کے کونے میں بڑی سی گلاس ونڈو کے پاس رکھا وہ بلیک کلر کا پیانو اسکا فیورٹ تھا۔۔ اور یہ جگہ بھی۔۔

وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوۓ اسکے پاس آٸ اور پھر پیانو کے پاس رکھے اسٹول پر بیٹھ گٸ۔۔ 

کلاس روم میں سب ہی بہت خوش نظر آرہے تھے۔۔ وجہ ایک تو میوزک کلاس جو دلوں کے تار چھیڑ دیتی تھی۔۔ اور دوسری حسین برستی بارش۔۔ جس میں میوزک کا مزہ دوبالا ہو جاتا تھا۔۔

ایش نے پیانو کی کیز کو چھوا۔۔ ایک سر پورے کلاس روم میں گونج گیا۔۔ 

سب جانتے تھے کہ ایش پیانو بہت اچھا بجاتی ہے۔۔ 

ایش کی نظریں گلاس ونڈو سے باہر برستی بارش پر تھیں۔۔ شام ہو رہی تھی۔۔ بادلوں کی وجہ سے اندھیرا بڑھ رہا تھا۔۔

کم آن ایش۔۔ ایک سٹوڈنٹ نے اسکی طرف دیکھ کر کہا۔۔

Hey Ash....!!! play some awesome meusic.. for this Romantic or dreamy Evening.. 
ایک ٹیچر نے ایش سے کہا۔۔ اور وہ مسکراٸ۔۔ 

پھر اس نے پیانو کی کیز کو چھوا۔۔ میوزک بجنا شروع ہوا۔۔ اسکی بارش کو دیکھتی آنکھیں بند ہوٸیں۔۔ اور پھر ایک سحر طاری ہو گیا۔۔ 

وہ خود سے بے خود ہو کر پیانو بجا رہی تھی۔۔۔ وہاں بیٹھا ہر شخص اس وقت اسکے میوزک کے زیر اثر تھا۔۔

اچانک کسی احساس کے تحت اس نے آنکھیں کھولیں۔۔ اور پھر داٸیں طرف دیکھا۔۔ 

وہاں اسٹوڈیو تھا۔ جہاں لوگ سونگز اور دوسری چیزیں ریکارڈ کرتے تھے۔۔ 

اسٹوڈیو کی ایک ونڈو کلاس روم میں کھلتی تھی۔۔ ایش کی نظر اچانک اس طرف اٹھی تھی۔۔ اور پھر پلٹنا بھول گٸ۔۔ وہ وہی شخص تھا۔۔ ہاں وہ سمعان حیدر تھا جو کانوں سے ہیڈ فون اتار رہا تھا۔۔

ایش کے پیانو کی کیز پر پھسلتے ہاتھ ایک دم رکے۔۔ 

سیم۔۔ وہ زیر لب بڑبڑاٸ۔۔تبھی سمعان نے بھی ونڈو سے کلاس روم کی طرف دیکھا۔۔ شاید ایش کی پکار نے اسکی نظریں کو اس طرف اٹھوادیا تھا۔۔ 

وہ ایش کو دیکھ چکا تھا۔اور پھر وہ وہاں کھڑے شخص سے کچھ کہتا باہر نکل گیا۔۔

سیم۔۔ ایش ایک جھٹکے سے اٹھی۔۔ میوزک بجنا بند ہو چکا تھا۔۔ وہ باہر کی طرف بھاگی۔۔ چھم کر کے میوزک کا طلسم ٹوٹا جو وہاں بیٹھے ہر شخص ہر طاری تھا۔
 
وہ جا چکی تھی کلاس روم سے۔ ۔۔ اور پیچھے لوگ اسکے پیانو کی تعریف کر رہے تھے۔۔ جو انہیں سب کچھ بھول جانے پر مجبور کر دیتا تھا۔۔

سیم۔۔ وہ اسے پکار رہی تھی۔۔آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔ 

سمعان اسکی آواز پر رکا تو ایش نے پوچھا۔۔

میں ایک ریکارڈنگ کیلیۓ آیا تھا۔

پر آپ نے تو کہا تھا کہ آپکو میوزک پسند نہیں۔۔ ایش نے پوچھا۔ 

ریکارڈنگ بنا میوزک کے بھی ہو جاتی ہے۔۔ میڈم۔۔

وہ دونوں اب انسٹیٹیوٹ سے باہر نکل آۓ تھے۔۔ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔۔ کچھ من چلے انجواۓ کر رہے تھے جبکہ کچھ جلدی جلدی میں قدم اٹھا رہے تھے۔۔ یہ ایک پوش علاقہ تھا۔۔ کافی رونق لگی رہتی تھی اس جگہ پر۔۔

وہ کیسے۔۔؟؟ ایش نے پوچھا۔

میں کوٸ گانا گانے نہیں آیا تھا۔۔ یہ قرآن پاک کی تلاوت کی ریکارڈنگ ہے۔۔ میں اسے ریساٸیٹ کرتا ہوں اپنی آواز میں اور یہاں ریکارڈنگ ہوتی ہے۔۔ یہ پچھلی ریکارڈنگ ہے کی کیسٹ ہے۔۔ سمعان نے ہاتھ میں پکڑی کیسٹ کہ طرف اشارہ کیا۔

کیا یہ میں رکھ لوں۔۔ ایش نے پوچھا۔۔ اور سمعان نے کچھ سوچنے کے بعد کیسٹ اسکی طرف بڑھا دی۔

وہ دوبارہ چلنے لگا۔۔ 

مجھے آپ سے کچھ کہنا تھا۔۔ ایش نے ساتھ چلتے ہوۓ کہا۔

ہاں بولو۔۔ وہ خلاف توقع اچھے موڈ میں تھا۔

اور ایش ایک دم ایک گھٹنہ زمین پر رکھ کر بیٹھی۔۔ 

 ” کیا آپ مجھ سے شادی کریں گے سیم۔۔۔
“Will You marry me...??

سہانا موسم۔۔ برستی بارش۔۔ گہرا ہوتا اندھیرا۔۔ روشنییوں سے چمکتا شہر۔۔ 

ہواٸیں تھمی۔۔ وقت مدھم ہوا۔۔ آس پاس کے لوگ ایک دم رکے۔۔ اور ایش سانسیں روکے اس ظالم شخص کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔ 

        ❤❤❤❤❤
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─