┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄
ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 34
پارٹ 2
جانے اسکا جواب کیا ہونے والا تھا۔۔ ایش کے دل کی دھڑکن انتہائی تیز چل رہی تھی۔
سامنے کھڑا شخص حیرت کا بت بنا کھڑا تھا۔۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسکے چہرے کے تاثرات بدلے۔۔ چہرے پر غصے کی پرچھاٸیاں چھانے لگیں۔۔ پھر وہ بنا کچھ بولے ایک جھٹکے سے مڑا اور واپسی کیلیۓقدم بڑھاۓ۔۔
ایش حق بق سی اسےدیکھ رہی تھی۔۔
میں نے کچھ پوچھا ہے آپ سے سیم۔۔ وہ فوراً اٹھ کر اسکے پیچھے بھاگی۔۔
کچھ رکے لوگوں نے دوبارہ چلنا شروع کیا جبکہ کچھ لوگ ابھی بھی وہیں کھڑے تھے۔۔ شاید وہ بھی سمعان کا جواب سننا چاہتے تھے۔
آپ سن رہے ہیں۔۔۔میں کچھ پوچھا رہی ہوں۔۔اسکے جواب نا دینے پر ایش نے دوبارہ پوچھا۔
تمہاری ہمت کیسے ہوٸ یہ سب کرنے کی۔۔؟؟ وہ ایک جھٹکے سے مڑا۔
تم نے سوچا بھی کیسے میں تم جیسی لڑکی سے شادی کرونگا۔۔؟؟ ااسکا غصہ ساتویں آسمان کو چھو رہا تھا۔
کیوں کیا غلط پوچھ لیا میں نے۔ ۔۔ اور کیا کمی یا براٸ ہے مجھ میں جو آپ یہ سب کہہ رہے ہیں۔۔ ایش جو کتنا دکھ ہوا تھا اسکی باتوں سے وہ سمعان اندازہ بھی نہیں لگا سکتا تھا۔
بدنصیب ہو تم ایش ولیم۔۔۔ اور میں ایک بد نصیب لڑکی سے شادی کرونگا۔۔ کیا میرا دماغ خراب ہے۔۔؟؟ سمعان نے نفرت آمیز لہجے میں کہا تھا۔
ایش کا رنگ فق ہوا۔۔ وہ جیسے بولنا بھول گٸ ہو۔۔ کچھ دن پہلے تک جو شخص اسکا مزاق اڑا رہا تھا کہ تم مجھ سے شادی نہیں کر سکتی۔۔ اور جب آج اس نے شادی کا پوچھا تو دل کو چیر دینے والا جواب دیا تھا اس نے۔۔
اس گستاخ شخص کی زبان کاٹ دی جاۓ۔۔ اس نے راٸل پرنسز کو بد نصیب کہا تھا۔۔ ہواٶں نے ایک دم شور مچایا۔
میں۔۔ بد۔۔ بدنصیب۔۔ کک۔۔ کیسے۔۔؟؟ ایش کے منہ سے الفاظ ٹوٹ پھوٹ کر ادا ہو رہے تھے۔
جس لڑکی کے سر پر دوپٹہ نا ہو۔۔۔ جسکے دل میں ایمان کی روشنی نا ہو۔۔ جسے راہ ِحق کی ہدایت نصیب نا ہوٸ ہو وہ بدنصیب نہیں تو اور کیا ہے۔۔ سمعان نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا تھا۔
خود کے حلیے پر کبھی نظر ڈالی ہے۔۔ چلتا پھرتا گناہوں کا اشتہار ہو تم۔۔ خود کی نمائش کرنے کا خاصا شوق ہے نا تمہیں۔۔؟؟ تو سن لو ایش ولیم تم جیسی لڑکیوں کو میں ایک نظر دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا شادی تو دور کی بات ہے۔۔
ایش کی نظر اپنے حلیے پر گٸ تھی۔۔ وہ جینز پہنتی تھی۔۔ لیکن اسکا لباس اتنا برا تو نہیں ہوتا تھا۔۔ وہ لڑکوں سے ہمیشہ دور رہی تھی۔۔ اس نے کبھی بواۓ فرینڈ نہیں بنایا تھا۔۔ وہ ڈرنک نہیں کرتی تھی۔۔ ہاں کبھی زبردستی اسکے فرینڈز پلا دیتے تھے۔۔ اسے فیشن کا شوق تھا لیکن ایک حد تک۔۔ اسکے با کھلے ہوتے تھے۔۔ اسکا کلچر ہی ایسا تھا۔۔ جیسے اسکی پرورش ہوٸ تھی۔۔ باقی لڑکيوں کی نسبت وہ کافی بہتر تھی۔۔ اور وہ شخص پھر بھی اسے بد نصیب کہہ رہا تھا۔۔ کیونکہ وہ ڈوپٹہ نہیں اوڑھتی تھی۔۔ وہ مسلم نہیں تھی۔۔
میری مجبوری تھی جو میں نے اتنے دن تمہیں برداشت کیا۔۔ اب تمہاری نوکری نہیں کرنا چاہتا۔۔ میری مجبوری ختم ہو چکی ہے۔۔ سو گڈ باۓ مس ایش ولیم۔۔ امید ہے مجھے تمہاری شکل آٸندہ دیکھنے کو نہیں ملے گی۔۔ وہ اخلاقیات کی ساری حدیں ےورٹا انتہا کی بدتمیزی سے کہتا وہاں سے آگے بڑھ گیا۔۔
وہ وہیں کھڑی رہ گٸ تھی۔۔ بارش ایک دم تیز ہوٸ تھی۔۔ کاش سمعان حیدر اسکی آنکھوں میں دیکھ پاتا۔۔ کتنا درد ابھرا تھا ان آنکھوں میں اسکی باتوں سے۔۔ پونی ٹیل سے نکلے بال بارش کی وجہ چہرے سے چپک گۓ تھے۔۔
اسے رونا آ رہا تھا۔ وہ رو نہیں پا رہی تھی۔۔
بدنصیب ہو تم ایش ولیم۔۔۔
یہ جملا بار بار اسکے دماغ میں گونج رہا تھا۔اور ہر بار ایک نیا ہتھوڑا اسکے دماغ پر پڑ رہا تھا۔
ہلکی بارش اب طوفانی بارش کا روپ لے چکی تھی۔۔ وہ نہیں رو رہی تھی۔۔ آسمان رو رہا تھا۔۔اسکی بدنصیبی پر۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لگتا ہے یہ رون دی ڈون کافی خطرناک بندہ ہے۔۔ جتنی خوفناک آپ اسکے بارے میں بتا رہی ہیں حرم بھابھی۔۔ کیا وہ شکل سے بھی اتنا ہی خوفناک ہے۔۔ عالیہ فون پر حرم سے پوچھ رہی تھی۔
حرم یونيورسٹی کی باتیں اسے بتاتی رہتی تھی خاص کر رون کی۔۔ اسکی حرکتوں کی وجہ سے عالیہ کے زہن میں اسکی ایک خوفناک سی تصویر بن گٸ تھی۔۔جیسا کوٸ خوفناک شکل والا جن ہو۔۔ یا ظالم دیو۔۔
بالکل بھی نہیں۔۔ حرم نے جواب دیا۔
تو پھر کیسا ہے وہ۔۔؟؟
#ٹویلاٸٹ کا #ایڈورڈ_کلن دیکھا ہے نا۔۔ قسم سے بالکل ویسا ہے۔۔ اگر وہ اپنے بالوں کو کٹوا لے۔۔ اپنے ٹیٹوز چھپا کر ڈھنگ کے کپڑے پہنے نا تو سیریسلی بیلا کا ایڈورڈ لگے۔ پوری یونيورسٹی کی لڑکیاں اس پر لٹو ہو جاٸیں۔۔
کیا واقعی۔۔ عالیہ حیران ہوٸ۔۔
جی ہاں۔۔ جب میں اسے پہلی بار دیھکا تھا تو میں حیران رہ گٸ تھی۔۔ لیکن اسکی کرتوتیں دیکھ دیکھ کر دل بھر گیا۔۔ ہاہاہا۔۔ آخر میں حرم نے قہقہہ لگایا۔۔
میں اسے دیکھنا چاہوں گی۔۔ انفیکٹ ملنا۔۔ اتنے شاندار دماغ والے بندے سے ملنا ضروری ہو گیا ہے۔۔ عالیہ نے کہا۔
مل لینا۔۔ عقل ٹھکانے آ جاۓ گی تمہاری۔۔ حرم نے مسکرا کر کہا۔ وہ کیفے کی طرف جارہی تھی۔۔ سب اسکا وہیں پر انتظار کر رہے تھے۔۔
ہےلٹل لیڈی۔۔
حرم کے عقب سے آواز سنائی دی۔۔
یہ کیسے ہو سکتا تھا۔ رون کی تعریف ہو اور وہ وہاں نا پہنچے۔۔
Think the devil and devil is here..
اوہ ہ ہ ہ۔۔ حرم نے پلٹ کر دیکھا۔۔
رون اسکے پیچھے کھڑا خباثت سے ہنس رہا تھا۔۔
میری تعریف ہو رہی تھی کیا۔۔ وہ پوچھ رہا تھا۔
جبکہ حرم آج اسکے نۓ ہیٸر اسٹاٸل کو دیکھ کر حیران رہ گٸ تھی۔۔
یہ کیا کیا ہوا ہے۔۔ حرم کو ایک دم ہنسی آٸ۔۔
رون نے سر باٸیں طرف والے بالوں کو اکٹھا کر کے ان میں پونی ڈالی ہوٸ تھی۔۔ جبکہ داٸیں طرف والے کھلے ہوۓ تھے۔۔ وہ انتہائی عجیب لگ رہا تھا۔
اٹس نیو ہیٸر اسٹاٸل۔۔ وہ ایک ادا سے بولا تھا۔
جبکہ حرم کی ہنسی بند نہیں ہو رہی تھی۔ رون کو اسکا خود پر یوں ہنسنا برا لگ رہا تھا۔
تمہیں پتا ہے لٹل لیڈی تمہارے آنے سے کچھ دن پہلے بزنس ڈیپارٹمنٹ کے ایک لڑکی کے بالوں میں رات کو سوتے وقت کسی نے ایک کلو ببل چپکے دی تھی۔۔ وجہ اس نے رون کے بالوں کا مزاق اڑایا تھا۔۔ رون نے انتہائی ڈراٶنے لہجے میں کہا تھا۔۔جبکہ حرم کی ہنسی کو ایک دم بریک لگی۔
پھر اسکو سارے بال اتروانے پڑے۔۔ اور اب وہ وگ یوز کرتی ہے۔۔
توبہ۔۔ حرم اندر تک لرز گٸ تھی۔۔ میں تمہارے بالوں پر نہیں ہنسی رون۔۔ حرم نے ایک دم کہا۔۔وہ تو بس ہیٸر اسٹاٸل۔۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی۔۔ وہ نہیں جاہتی تھی اسکا اس لڑکی جیسا حال ہو۔
ہمممم۔ سمجھ گیا میں۔۔ جلدی چلو کیفے میں ایک ضروری بات ہے۔۔ رون دی ڈون اسکے پاٶں کے نیچے سے زمین ہلا کر خود سیٹی بجاتا آگے بڑھ گیا۔۔ اور حرم نے بھی دل میں اپنی سلامتی کی دعا مانگنے کے بعد اسکی پیروی کی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانے کتنی دیر وہ بارش میں بھیگتی رہی تھی۔۔ اور پھر ہوش آنے پر وہ کسی مشین کی طرح چلتے ہوۓ گھر پہنچی تھی۔۔ مسز ولیم نے اسے پکارہ تھا مگر وہ تو جیسے سن ہی نہیں رہی تھی۔۔ اسکی سماعت تو خود کو بدنصیب سننے پر ہی جواب دے گٸ تھی۔۔
ایش۔۔ ابکی بار گرینی نے بھی اسے پکارہ۔۔ مگر وہ سیڑھیاں چڑھتی رہی۔۔۔ اور پھر اسکا کمرہ آگیا۔۔ وہ پتھراٸ نظروں سے اسے کھول کر اندر داخل ہوٸ اور پھر اسے بند کر دیا۔۔ پتا نہیں وہ اب کب کھلنا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حورعین اپنی فرینڈز کے ساتھ کیفے جارہی تھی۔ اچانک اسکی نظر سامنے سے آتے شرجیل پر پڑی تھی۔
افف یہ کیوں نظر آگیا۔۔؟؟ حورعین نے کوفت سے سوچا۔۔ وہ انکی طرف ہی آ رہا تھا۔ اب حورعین کے پاس کوٸ اور چارا نہیں تھا۔وہ وہاں سے جا بھی نہیں سکتی تھی۔
شرجیل اسی کی طرف آ رہا تھا۔وہ حورعین کے پاس آ چکا تھا۔۔ بس تھوڑا سا فاصلہ رہ گیا تھا۔
ہاۓ حورعین۔۔ وہ اسکے پاس کھڑے ہوتے ہوۓبولا۔
اسلام علیکم شرجیل بھاٸ۔۔ حورعین نے زبردستی مسکرانے کی کوشش کی۔
ابھی شرجیل نے کوٸ جواب بھی نہیں دیا تھا کہ اچانک پیچھے سے کسی نے اسے دھکہ مارا اور وہ حورعین کے اوپر گرا۔۔ وہ نیچے گرنے لگی تھی کہ شرجیل نے اسے تھام لیا۔۔ شاید کچھ ہی پل لگے تھے پھر حورعین ایک جھٹکے سے اس سے الگ ہوٸ۔
سوری۔۔ شرجیل نے شرمندہ ہوتے ہوۓ کہا۔
وہاں موجود کافی سٹوڈنٹس کی نظریں ان پر جمی تھیں۔
جبکہ حورعین سے تو کچھ بولا ہی نہیں گیا۔
اچھا میں چلتا ہوں۔ پھر ملتے ہیں۔۔ وہ وہیں سے واپس مڑ گیا۔۔ شاید اسکا کام ہوگیا تھا۔۔وہ جس مقصد کیلیۓ آیا تھا وہ پورا ہو چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقریباً سبھی ڈیپارٹمنٹ کے سٹوڈنٹس کیفے میں جمع تھے۔۔ان میں کثیر تعداد ساٸنس اور بزنس ڈیپارٹمنٹ کے سٹوڈنٹس کی تھی۔
جیسے کہ آپ سب کو پتا ہے ہمیشہ کی طرح اس سمیسٹر میں ہونےوالے کمپیٹینٹس کا انٹروڈکشن ہوگا۔ آج شام کو چھوٹی سی پارٹی ہوگی۔ کمپیٹیشن کی خوشی میں۔۔ اور یہ پارٹی ہاسٹل کے بیسمینٹ میں ہوگی جہاں دونوں کمپیٹنٹس اپنا انٹروڈکشن کروائيں گے۔۔
رون کی نظریں حرم پر جمی تھیں۔۔ جیسے وہ اسے ہی سب بتا رہا تھا۔۔ زی بھی وہاں موجود تھی۔۔ وہ شالے اور میشا کے ساتھ بے نیازی سے ایک ٹیبل پر بیٹھی تھی جیسے اس کیلیۓ یہ سب کوٸ معنی نہیں رکھتا۔۔
اب یہ کیا نیا ڈرامہ ہے۔۔ حرم نے پاس بیٹھی بیلا سے پوچھا۔
ڈرامہ نہیں ہے سویٹ ہارٹ۔۔ اٹس پارٹی۔۔ واٶٶ۔۔ بہت مزہ آۓ گا۔
اور یہ پارٹی ریم کی طرف سے ہوگی۔۔ ریم ہوسٹ ہوگا۔۔ اور سب جانتے ہیں ریم ایک بہت ہی اچھا ہوسٹ ہے۔۔ رون نے مسکرا کر ریم کی طرف دیکھا۔
حرم کی نظر بھی اچانک ریم کی طرف اٹھی جو اسے ہی دیکھ رہا تھا اور حرم کی نظر پڑنے پر وہ اپنی نظریں چرا گیا۔
رات سات بجے۔۔ بزنس اور ساٸنس ڈیپارٹمنٹ کے سٹوڈنٹس ہاسٹل کے بیسمینٹ میں جمع ہو جاٸیں۔۔ ڈنر میری طرف ہوگا۔۔ ریم نے کھڑے ہوتے ہوۓ کہا۔۔ سٹوڈنٹس نے خوش ہوتے کلیپنگ کی۔
اور ان دو ڈیپارٹمنٹس کے علاوہ جو بھی سٹوڈنٹس آنا چاہیں۔۔ رومان شاہ انہیں ویلکم کرتا ہے۔۔ وہ کسی سلطنت کے بادشاہ کی طرح دعوت دے رہا تھا۔
باقی ڈیپارٹمنٹس کے سٹوڈنٹس بھی خوش ہوۓ۔۔ ریم کی طرف سے پارٹی انہیں ہمیشہ ہی اٹریکٹ کرتی تھی۔
میں نہیں آ سکتی۔۔ حرم نے عرش سے کہا۔۔
پاس سے گزرتے ریم نے شاید یہ سن لیا تھا۔
کیوں مس نور۔۔؟؟ کیوں نہیں آ سکتی آپ۔۔؟؟ وہ رکا تھا۔
حرم کو امید نہیں تھی کہ وہ سب لے گا۔۔
وہ ایکچوٸلی۔۔ وہ میں۔۔ حرم سے کوٸ بہانہ نہیں بن رہا تھا۔
مس نور یہ پارٹی آپ اور زی کیلیۓ دی جا رہی ہے۔۔آپ دونوں کا دونوں کو Encourage کرنے کیلیۓ۔۔ سو آپ لازمی آٸیں گی۔۔ اٹس اے رول۔۔ وہ آخر میں رول کہنا نہیں بھولا تھا کیونکہ جانتا تھا اب حرم انکار نہیں کرے گی۔۔ اور سدا کی سادہ حرم نے کبھی کسی سے پوچھا ہی نہیں کہ جتنے رولز کا رومان شاہ دعوہ کرتا تھا وہ سچ میں ہیں بھی یا نہیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایش کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اسے رونا چاہیۓ یا نہیں۔۔ ہزاروں اسکے طلب گار تھے۔۔ اور اس نے جس کی طلب کی تھی وہ شخص اسکی روح تک کے نازک ریشوں کو ٹوڑ گیا تھا۔۔
اسکے ہلک میں ایک گولہ سا اٹکا سا شاید آنسوٶں کا گولا۔ اب وہ بیڈ پر اوندے منہ لیٹی سسک رہی تھی۔۔ کسی کو بتا بھی نہی سکتی تھی کہ اسے کتنا دکھ ہوا ہے۔۔ وہ کتنی تکليف میں۔۔ اسکا پہلا پیار۔۔ کتنا سنگ دل نکلا تھا۔۔
برساتی کوٹ اس نے اب تک پہن رکھا تھا۔۔ وہ خو ساری بھیگی ہوٸ تھی۔۔ اسکی آنکھیں سوج چکی تھیں۔۔ اسکا جسم ہلکہ ہلکہ لرز رہا تھا۔۔ اور پھر شدید بخار نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔۔ اسے پتا ہی نہیں چلا اور روتے روتے وہ اپنے ہوش و ہواس کھو چکی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ وضو کرنے کے بعد اندر آیا تھا۔۔ سامنے بابا جی بیٹھے اسے دیکھ رہے تھے۔
توڑ آۓ اسکا دل۔۔۔؟؟ بابا جی نے پوچھا یا بتایا تھا لیکن سمعان نے کوٸ جواب نہیں دیا۔۔وہ نوافل ادا کرنے کیلیۓ نیت باندھ رہا تھا۔۔
دل توڑنے کا مداوہ عبادت کرنے سے ادا نہیں ہوتا۔۔ بابا جی نے سمعان کو دیکھتے ہوۓ کہا۔
سمعان رکا۔۔ اسکے دل میں عجیب سی ٹھیس اٹھی تھی۔
جانتے ہو سمعان بیٹا انسان کا دل توڑنا کتنا بڑا گناہ۔۔ کوٸ ریاضت قبولیت کا درجہ نہیں پاتی جب تک وہ شخص معاف نا کردے جسکا دل توڑا ہو۔۔
بس کردیں بابا جی۔۔ بس کردیں۔۔
انسان کو دوسرے انسان کی طلب بھی اللہ ﷻ ہی لگاتا ہے۔۔اور۔۔
وہ ایک یہودن ہے۔۔ سمعان نے بابا جی کی بات کاٹی۔
کیا پتا وہ مسلمان ہو جاۓ۔۔
ایسا کبھی نہیں ہوگا بابا جی۔۔ مسٹر ولیم کا کالم پڑا تھا میں نے اخبار میں وہ مسلمانوں سے انتہا کی نفرت کرتا ہے۔۔۔ کبھی اس انسان کا مسلمانوں کے خلاف لیکچر سنیں تو دل پھٹتا ہے۔۔ برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔۔ سمعان جانے کتنا درد کتنا غصہ اپنے اندر لیۓ گھوم رہا تھا۔۔
یہ مت بھولو کہ اسے دیکھنے اور اس سے ملنے کیلیۓ تم نے ہی وظیفہ کیا تھا۔۔بابا جی نے اسے یاد دلایا۔۔
کیا ثبوت ہے کہ وہ لڑکی ایش ولیم ہی ہے جسکو آخرت میں میرا ہمسفر بنایا جاۓ گا۔۔؟؟ سمعان نے غصے سے پوچھا۔
یہ تو تم اپنے دل سے پوچھو سمعان بیٹا۔۔ انسان کا دل سب سے بڑا گواہ ہوتا ہے۔۔۔ بابا جی نے مسکرا کر کہا اور کمرے سے باہر نکل گۓ۔۔
اور سمعان خود نہیں جانتا تھا کہ اسکا دل اتنا کیوں تڑپ رہا ہے۔۔ وہ جو کر کہ آیا تھا وہ اسکے مطابق بلکل ٹھیک تھا۔۔ پھر اسے سکون کیوں نہیں مل رہا تھا۔۔ وہ سر جھٹک کر خود کو سمجھاتا نماز کی طرف متوجہ ہو رہا تھا۔۔
کیا اسے عبادت سکون پہنچا سکتی تھی۔۔ جبکہ وہ ایک معصوم سی لڑکی کا دل توڑ کر آیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایش کی ایک عجیب احساس کے تحت آنکھ کھلی تھی۔۔ وہ مشکل سے سیدھی ہوٸ تھی۔۔ اسکا دم گھٹ رہا تھا۔۔ ایش نے اپنی پوری ہمت جمع کی اور بیڈ سے اٹھی۔۔
اسے زور کا چکر آیا اور وہ دوبارہ بیڈ پر گر گٸ۔۔
آدھے گھنٹے بعد اسکی پھر آنکھ کھلی تھی۔۔ کیونکہ اسکا سانس بند ہو رہا تھا۔۔ایش ایک بار پھر اٹھی تھی۔۔اسکے کمرے کی لاٸیٹ آن تھی۔۔ ایش نے کانپتے ہاتھوں سے اپنا برساتی کوٹ اتارہ تھا۔۔ وہ ونڈو تک جانا چاہتی تھی تا کہ اسے کھول سکے۔۔ مگر کانپتی ٹانگوں نے اسے ایسا کرنا ہی نہیں دیا۔۔
اور ایک بار پھر بیڈ پر لیٹ گٸ۔۔ اسکے دماغ میں شدید ردر ہو رہا تھا۔۔
بدنصیب لڑکی ہو تم ایش ولیم۔۔۔ الفاظ تھے یا ہتھوڑے۔۔ جو بار بار بج رہے تھے۔۔
مام۔۔ ایش نے تکلیف میں اپنی ماں کو پکارہ تھا۔۔ مگر اس وقت اسکی سننے والا کوٸ نہیں تھا۔
وہ اٹھنا چاہتی تھی مگر اسکا جسم اس بات کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔۔ ایش کو لگ رہا تھا جیسے اسکی ٹانگیں جواب دے گٸ ہوں۔۔
وہ ایک بار پھر اپنی پوری ہمت جمع کرکے اٹھی اور دروازے تک آٸ۔۔ وہ اسےکھول کر باہر آٸ تھی۔۔
اسکے ہاتھ پاٶں کانپ رہے تھے۔۔ وہ خود نہیں جانتی تھی کہ اسکے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔۔ اسکا جسم سرد پڑ رہا تھا۔۔ جبکہ اسکا سر آگ کی طرح تپ رہا تھا۔۔
وہ مشکل سے سیڑھیوں تک آٸ تھی۔ ابھی اس نے پہلی سیڑھی پر ہی قدم رکھا تھا کہ اسکی ٹانگوں نے جواب دے دیا۔۔ وہ کسی بال کی طرح لڑھکتی نیچے آٸ تھی۔۔ اتنی اونچاٸ سے وہ سیڑھیوں سے پھسلتی آٸ تھی۔۔ کہاں کہاں چوٹ لگ رہی تھی اسے پتا ہی نا چلا۔۔ اور پھر آخری سیڑھی سے وہ لاٶنج میں گری۔۔ سر سیڑھی کے پاس رکھے گملے سے ٹکرایا تھا۔۔ اور پھر سرخ ماٸع لاٶنج میں بچھے قیمتی کارپٹ پر پھیل گیا۔۔
اسکے منہ سے ایک سسکاری نکلی تھی۔۔ اور پھر وہ خاموش ہوگٸ۔۔ گہری خاموشی۔۔۔ مسٹر ولیم شہر سے باہر گۓ تھے۔۔مسز ولیم اور گرینی اپنے اپنے کمروں میں تھیں۔ سارے نوکر چھٹی پر تھے۔۔ کوٸ اسکی آواز سننے والا نہیں تھا۔۔ اور اب تو وہ کسی کو پکار بھی نہیں سکتی تھی۔۔
خاموشی چھاٸ تھی بس۔۔ گہری خاموشی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرہاد نے گاڑی ہاسٹل کے سامنے روکی تھی۔۔ اور اندر بیٹھی حرک کا دل دھڑک رہا تھا۔۔
ہاسٹل آگیا حرم۔۔ فرہاد نے نرمی سے کہا۔۔ اور حرم نے چونک کر دیکھا۔۔ جانے وہ وہاں تک آتے آتے راستے میں کتنی دعاٸیں مانگتے آٸ تھی۔۔
اب جاٶ۔۔ فرہاد نے اسے کہا۔
آپ بھی آ جاٸیں ہادی۔۔ حرم نے کہا۔
یہ تمہاری لڑاٸ ہے حرم۔۔ اس جنگ کو تم نے جیتنا ہے۔۔ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا۔۔ لیکن اس وقت میں اندر نہیں آ سکتا۔۔ فرہاد نے جواب دیا۔۔ وہ اسے گھر سے سمجھا کر لایا تھا۔وہ واقعی ایک راہنما تھا۔۔ جو ہر قدم پر حرم کی راہنماٸ کرتا تھا۔۔
پر ہادی۔۔ حرم نے کچھ کہنا چاہا۔
پر ور کچھ نہیں ۔۔۔ حرم ایک بہادر لڑکی ہے۔۔ وہ اسے بچوں کی طرح ٹریٹ کر رہا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ حرم اس پر ڈیپنڈ نا رہے۔۔ وہ ساۓ کی طرح اسکے ساتھ رہتا تھا۔۔ پل پل کی خبر کہ وہ کہاں ہے اپنے موبائل پر چیک کرتا رہتا تھا۔۔ وہ اسکے اندر سے ڈر نکال دینا چاہتا تھا۔۔
اوکے۔۔ ٹھیک ہے۔۔ حرم نے کہا اور گاڑی سے اتر گٸ۔۔
بیسٹ آف لک ڈیٸر۔۔وہ مسکرا کر کہتا ہوا گاڑی بڑھا کر لے گیا۔۔
اففف۔۔۔ حرم نے ایک گہرا سانس لیا تھا۔۔ یہ اسکے کمپیٹیشن کی پہلی سیڑھی تھی۔۔ جانے کیا یونے والا تھا۔۔
اس نے موبائل نکال کر عرش کو کال کی۔۔۔
اتنی دیر لگادی حرم۔۔ ہم کب سے انتظار کر رہے ہیں۔۔ کہاں ہو تم۔۔؟؟ عرش بے صبری سے پوچھ رہی تھی۔
میں ہاسٹل کے باہر کھڑی ہوں۔۔ سوری میں لیٹ ہو گٸ وہ میں نماز پڑھ کر آٸ ہوں عشا کی۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔
اوکے تم رکو میں آتی ہوں۔۔ عرش نے کہا اور کال ڈراپ کردی۔
❤❤❤❤❤
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─