┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 35
پارٹ 1

ایش کی ایک بار پھر آنکھ کھلی تھی۔۔ اسکے سر میں شدید درد ہورہا تھا۔۔ وہ کراہتی ہوٸ اٹھی تھی۔۔ 

وہ باہر جانا چاہتی تھی۔۔ وہ کھلی ہوا میں سانس لینا چاہتی تھی۔۔لیکن اس میں اٹھنے کی ہمت نہیں تھی۔۔ پیلس بہت بڑا تھا۔۔ اور لاٶنج کے آخر پر جہاز سازی دروازہ تھا جو باہر لان میں کھلتا تھا۔۔ وہ کسی کو پکارنا چاہتی تھی۔۔ لیکن اسکی آواز نہیں نکل رہی تھی۔۔ 

اتنی بے بس وہ اپنی زندگی میں کبھی نہیں ہوٸ تھی۔۔ سر سے پہنے والا خون اب بند ہو چکا تھا۔۔ ایش نے پلٹ کر پیلس کےپچھلے حصے میں کھلنے والے دروازے کو دیکھا۔۔ وہ قریب تھا۔۔ 

ایش اپنی ہمت جمع کے ایک بار پھر کھڑی ہوٸ۔۔ وہ چل نہیں رہی تھی بلکہ خود کو گھسیٹ رہی تھی۔۔ 

یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔۔ وہ بڑبڑا رہی تھی۔۔

وہ اب دروازے تک پہنچ چکی تھی۔پھر اس نے اپنی پوری قوت لگا کر دروازہ کھولا تھا۔۔ 

ایک ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے اسکا استقبال کیا تھا۔۔ وہ دروازے سے نکل کر راہداری میں آگٸ تھی۔ 

اسکی آنکھیں پھر بند ہو رہی تھیں۔۔ وہ پچھلے لان میں آچکی تھی۔۔ بارش کی ہلکی ہلکی بوندیں اسکے اوپر پڑی تھیں۔۔ وہ مزید نہیں چل سکتی تھی۔۔ وہیں گیلی زمین پر بیٹھ گٸ۔۔ 

ایش نے اپنے ہاتھوں اور ٹانگوں میں واضح کپکپاہٹ دیکھی تھی۔۔ شدید سردی میں وہ پسینے سے شرابور ہو چکی تھی۔۔ 

پھر اسکی آنکھیں آہستہ آہستہ بند ہونا شروع ہوٸیں۔۔

شاید میں مرنے والی ہوں۔۔ 

مما۔۔ ایش نے اپنی ماں کو پکارہ۔۔ جیسے وہ بچپن میں بلاتی تھی۔۔ عجیب بات ہے انسان تکليف میں ہو تو سب سے پہلے زبان سے ماں ہی نکلتا ہے۔۔

لیکن شاید مسز ولیم اس سے انتہا کی ناراض تھی۔۔ تبھی اسکی پکار پر جواب نہیں دیا۔

بدنصیب ہو تم ایش ولیم۔۔۔ 

سیم۔۔

سمعان۔۔۔ پہلی بار انتہائی درد کی حالت میں ایش نے اسے پورے نام سے پکارہ تھا۔

بادل ایک زور سے گرجے تھے۔۔ اور ایش کی سانسوں کی ڈور ٹوٹنے لگی۔۔ وہ مشکل سے سانس لے پارہی تھی۔۔ اس نے اپنی ٹانگوں کو ہلانا چاہا۔۔ لیکن نہیں۔۔ وہ جواب دے گٸیں۔۔ 

انسان اپنی دنیا میں اتنا گم ہو جاتا ہے کہ وہ بھول جاتا ہے ایک خدا بھی ہے۔۔ وہ انسانوں کے درمیان خوش رہتا ہے لیکن وہ اس پل کا تصور نہیں کرتا کہ اگر وہ اکیلا ہوا تو کیسا محسوس کرے گا۔۔ ہم نے اکیلے ہی مرنا ہے۔۔ اتنی تکليف ہم اکیلے ہی برداشت کریں گے۔۔ پھر کیوں ہم اس رب کو بھول بیٹھے ہیں۔۔ کیوں۔۔ آخر ہم ڈرتے کیوں نہیں اس سے۔۔؟؟

اللہ ﷻ تو بندے کا اپنے گھر میں آنا دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔۔ وہ تو چاہتا ہے کہ بندہ اسے پکارے۔۔ اس سے ملے۔۔ ہر درد ہر تکلیف میں اسے یاد کرے۔۔ اور کبھی کبھی تو وہ جان بوجھ کر انسان کو دکھ درد اور تکلیف میں مبتلا کرتا ہے۔۔تاکہ بندہ اپنے رب کو یاد کرے۔۔ 

اور خدا کی قسم تم اسے اپنے درد اپنی تکلیف میں پکار کر تو دیکھو۔۔ وہ سارے دکھ درد ختم کردے گا۔۔ 

ایش کے زہن میں بابا جی کے کہے گۓ جملے گونجے۔۔ 

اس کاٸنات کا خالق تو گاڈ ہے نا۔۔

ہاں پر ہم اسے اللہ ﷻ کہتے ہیں۔۔۔ سمعان کی گٸ بات اسے یاد آٸ۔۔

اللہ۔۔ 

اور ایش کے منہ سے جانے کس جزبے کے تحت اللہ نکلا تھا۔۔

اور پھر اسکی آنکھیں بند ہوگٸیں۔۔ وہ گیلی مٹی میں مٹی بنی پڑی تھی۔۔ 

بادل ایک بار پھر زور سے گرجا۔۔ بجلی ایک بار پھر چمکی۔۔ اور ایک بار پھر خاموشی چھا گٸ۔۔ اب بس ایک آواز آ رہی تھی۔۔ بارش کے برسنے کی آواز۔۔ جو لان کے بیچوں بیچ پڑے وجود کو بھگو رہی تھی۔۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایش۔۔۔ 

سمعان ایک جٹھکے سے اٹھ بیٹھا تھا۔۔ پتا نہیں کیسے عجیب سا احساس تھا ۔۔ اسکی سانسیں تیز چل رہی تھیں۔۔ کتنی مشکل سے اسکی آنکھ لگی تھی رات۔۔ کتنا رونے اور خدا سے معافی مانگنے کے بعد اسکو تھوڑا سا سکون ملا تھا۔ لیکن یہ ہو رہا تھا۔۔ایش ایک پل کیلیۓ بھی اسکے دماغ سے نہیں نکل رہی تھی۔۔ اور ابھی بھی اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اسے پکار رہی ہے۔۔ 

اسکے آنسوٶں سے بھری آنکھیں اسکا سارا چین اڑا چکی تھیں۔۔ 

کتنا مشکل ہوتا ہے نا جس شخص کو ہم چاہتے ہوں خود اپنے ہاتھوں سے اسکا دل توڑ دینا۔۔۔ سمعان اسی کرب سے گزر رہا تھا۔۔ 

رات کے دو بج رہے تھے۔۔ وہ اٹھ کر کمرے میں موجود چھوٹی سی ونڈو کے پاس آیا تھا۔۔ باہر بارش ہو رہی تھی۔۔ اب وہ سو نہیں سکتا تھا۔۔ 

کیا میں اسے کال کروں۔۔ وہ سوچ رہا تھا۔۔ 

ہزاروں میسجز کرنے والی ایش اچانک ہی خاموش ہو گٸ تھی۔۔ 

اور کبھی کبھی کسی کی خاموشی بھی کتنی تکلیف دیتی ہے۔۔ 

ایک طرف ایش تھی۔۔ تو دوسری طرف اسکا مقصد کا۔۔ اسکا دین تھا۔۔ اسکے دین کی حفاظت تھی۔۔ اسکا اللہ تھا۔۔ اور اس نے اپنے اللہ کو چن لیا تھا۔۔۔ وہ ایش کا دل توڑ آیا تھا۔۔ حالانکہ اسکا اپنا دل رو رہا تھا۔۔ 

لیکن وہ کیا کرتا۔۔ مسٹر ولیم کی نفرت کا سامنا نہیں کر سکتا تھا وہ۔۔ وہ بھی ایک یہودی لڑکی کیلیۓ۔۔

کاش ایش تم مسلم ہوتی۔۔ کاش۔۔ 

وہ چلتا ہوا آیا اور صحن میں کھڑا ہوگیا۔۔ 

اللہ پاک مجھے اس آزمائش میں پورا اترنے کیلیۓ ہمت اور حوصلہ عطا کریں۔۔

وہ جانتا تھا یہ اسکی آزمائش ہے۔۔ اور اس آزمائش میں ثابت قدم رہنا ہے۔۔ اس لیۓ وہ بارش میں دعا مانگ رہا تھا۔۔

اور بارش میں مانگی گٸ دعا قبولیت کا درجہ رکھتی ہے۔۔ اس نے سنا تھا۔۔

          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ ہی پل بعد عرش حرم کو لینے آگٸ تھی۔۔ واٸٹ جینز پر اس نے ریڈ ٹاپ پہنا تھا۔۔ اور واٸٹ ہی اپر پہنے وہ کافی پیاری لگ رہی تھی۔۔ بالوں میں اونچی ٹیل پونی کی تھی۔۔ ہلکہ ہلکہ میک کیۓ وہ کافی پیاری لگ رہی تھی۔

واٶ عرش تم تو واقعی ہی پارٹی میں آٸ ہو۔۔ حرم نے اسے دیکھتے ہی اسکی تعریف کی۔۔

اور تمہیں اس چیز کی بھی ضرورت نہیں۔۔ تم سادگی میں بھی پیاری لگتی ہو۔۔

حرم نے واٸٹ کلر کا ٹراٶزر پہنا تھا اس پر بلیک گھٹنوں تک آتی شرٹ پہنی تھی۔۔ اسکا واٸٹ کلر کا اونی کوٹ اسکو مکمل طور پر ڈانپے ہوۓ تھا۔۔ سر پر بلیک سٹولر لیا ہوا تھا۔۔ وہ بنا میک اپ کے تھی۔۔ اور یہی چیز اسے کافی منفرد اور معصوم بناتی تھی۔۔

وہ عرش کے ساتھ چلتے ہوۓ ہاسٹل کے بیسمنٹ میں آٸ تھی۔۔ کافی رونق لگی تھی وہاں۔۔ کافی زیادہ اور تقریباً سبھی ڈیپارٹمنٹس سے سٹوڈنٹس موجود تھے۔۔

بیسمنٹ کو کافی اچھے طریقے سے ڈیکوریٹ کیا ہوا تھا۔۔

یہ سب ارینجمنٹس کس نے کی ہیں۔۔ ؟؟ حرم نے پوچھا

ریم نے۔۔ 

کافی اچھا لگ رہا ہے۔۔ 

بیسمنٹ ہال میں ہلکہ ہلکہ میوزک بج رہا تھا۔۔ حرم کو دیکھ کر بیلا اور واصے جو ایک ٹیبل پر بیٹھے تھے اسکی طرف بڑھے۔۔ وہ دونوں بھی کافی اچھے لگ رہے تھے۔۔

حرم ان سے ملنے کے بعد ان کے ساتھ ہی اسی ٹیبل پر بیٹھ گٸ۔

تمہاری جگہ یہاں نہیں ہے حرم۔۔ بیلا نے کہا۔

تو اور کہاں ہے۔۔؟ وہ حیران ہوٸ۔

وہ دیکھو سسٹر۔۔ اسٹیج کے پاس۔۔ وہاں ہے تمہاری اور زی کی جگہ۔۔ تم دونوں کو وہاں بیٹھنا ہوگا۔۔

ابھی تو یہی ٹھیک ہوں۔۔ جب زی آۓ گی تب دیکھا جاۓ گا۔

ہاں یہ ٹھیک ہے۔۔ عرش نے کہا۔

رون دی ڈون نظر نہیں آرہا۔۔؟؟ 

ہاۓ لٹل لیڈی۔۔ رون اچانک ہی وہاں ٹپکا۔۔ 

حرم رون کو یاد کرے اور وہ حاضر نا ہو ایسا ہو سکتا تھا کیا۔۔

ریڈی ہو نا۔۔۔؟؟ وہ حرم سے پوچھنے لگا۔

ہر حال میں تم نے یہ کمپیٹیشن جیتنا ہے۔۔ ورنہ تمہیں پتا ہے نا کہاں سے دھکہ دونگا میں تمہیں۔۔ رون کہتے کہتے آخر میں دھمکی دینا نا بھولا۔۔ 

اففف۔۔۔ یاد ہے مجھے۔۔ تم میری جان چھوڑ دو۔۔ تمہاری وجہ سے میں اس مصیبت میں پھنسی ہوں۔۔ حرم کو بھی اسکی دھمکی پر غصہ آیا تھا۔۔

ریلیکس۔۔ لٹل لیڈی۔۔ کوٸ اسے کول ڈرنک ڈے۔۔ لٹل لیڈی کافی غصے میں ہے۔۔ رون اسے مزید آگ لگاتا واپس چلا گیا۔۔

یہ مر کیوں نہیں جاتا۔۔ بیلا نے اس کے جانے کے فوراً بعد کہا۔اسکی پشت رون کی طرف تھی۔۔ 

تم سے شادی کرنے کے بعد مروں گا بیلا ڈیٸر۔۔ رون نے بیلا کے کان میں سرگوشی کی۔۔ 

بیلا ایک دم اچھلی۔۔ وہ سمجھی تھی کہ رون جا چکا ہے۔۔ اس لیۓ وہ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے لگی تھی۔۔ لیکن اسکو کیا خبر تھی وہ منحوس پھر کسی بات کیلیۓ واپس آ جاۓ گا۔۔

تم سے شادی کرنے سے بہتر ہے میں ہاسپٹل کی بلڈنگ سے چھلانگ لگا کر مر جاٶں۔۔ بیلا نے غصے سے کہا۔

ہاہاہاہا۔۔۔ چلو رون دی ڈون تمہیں اسکا اوپشن بھی دے گا۔۔ وہ مزید پھیلا۔۔ 

وہ دیکھو ریم اور زی آگۓ۔۔ اس سے پہلے بیلا رون کو مزید کوٸ گالی دیتی۔۔ عرش کی بات پر سب نے چونک کر اس طرف دیکھا۔۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح ہونے والی تھی جب ایک عجیب سے احساس کے تحت ایش کی آنکھ کھلی۔۔ اسے لگا شاید وہ مر چکی ہے۔۔ لیکن جب اس نے خود کو اپنےگھر کے لان میں پایا تو اسےاحساس ہوا کہ وہ ابھی زندہ ہے۔۔

ایش ایک جھٹکے سے اٹھی۔۔ اسے لگا شاید کوٸ ڈراٶنہ خواب دیکھا ہو اس نے۔۔ لیکن نہیں وہ ایک حقيقت تھی۔۔ ایک تلخ اور تکلیف دہ حقیقت۔۔ جسے وہ کبھی کسی کو نہیں بتا پاۓ گی۔۔

رات والی حالت اب نہیں تھی اسکی۔۔ وہ کافی سنبھل گٸ تھی۔۔ بس سر سے ایک ٹھیس اٹھ رہی تھی۔۔ ایش اندر کی طرف بڑھی۔ وہ سب کے اٹھنے سے پہلے اپنے کمرے میں جانا چاہتی تھی۔۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ کوٸ اسے اس حالت میں دیکھے۔۔

رات خدا نے اسے اپنا جلوہ دکھایا تھا۔۔ وہ موت کو چھو کر آٸ تھی۔۔ وہ جو چرچ میں نہیں جاتی تھی۔۔ اب اسے سمجھ آگٸ تھی کہ اسے کہاں جانا ہے۔۔ کیا کرنا ہے۔۔ 

صد شکر کہ ابھی کوٸ نہیں اٹھا تھا۔۔ ہلکہ ہلکہ سا اندھیرا دور ہو رہا تھا۔۔ یہ ایک نٸ صبح تھی۔۔ ایش کو ایک نٸ زندگی ملی تھی۔۔ وہ سمجھدار تھی۔۔ سب سمجھ گٸ تھی کہ رات اسکے ساتھ کیا ہوا تھا۔۔؟؟ اور کیوں ہوا تھا۔۔؟؟ 

وہ بنا کوٸ آہٹ کیۓ اپنے روم میں چلی گٸ۔۔ مگر اس سے پہلے وہ کارپٹ پر پڑے خون کو صاف کرنا نہیں بھولی تھی۔۔

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 یہ کوٸ عام کمپیٹیشن نہیں ہے حرم۔۔ یہ سٹوڈنٹس کے حوصلوں کو ابھارنے کیلیۓ ہوتا ہے تاکہ وہ مزید اپنی سٹڈی پر توجہ دے سکیں۔۔۔ دوسری ایکٹیویٹیز کے ساتھ ساتھ سٹوڈنٹس اپنی سٹڈی کو بھی بھرپور توجہ دیں اس لیۓ ریم یہ سب کرتا ہے۔۔ واصے بتا رہا تھا۔۔

ہاں بہت سے سٹوڈنٹس کی سمیسٹر فی وہ خود سبمٹ کرواتا ہے جنہیں کوٸ پرابلم ہوجاۓ۔۔ یا جنکے پاس پیسے نا ہوں۔۔ ریم انکی پوری مدد کرتا ہے۔۔ عرش نے بتایا۔۔

ہمارے آنے سے پہلے لاسٹ سمیسٹر میں جو کمپیٹیشن ہوا تھا اس میں زی کے مقابلے میں کافی سٹوڈنٹس تھے۔۔ وجہ صرف یہ تھی کہ وہ سٹوڈنٹس اچھا پڑھ سکیں۔۔ جنکی پرسینٹیج 85 سے اوپر تھی اور جو سمیسٹر فی سبمٹ نہیں کروا سکتے تھے ریم نے انکی فی سبمٹ کرواٸ۔۔ ایک طرح سے یہ ایک اچھی ایکٹیویٹی ہے۔۔ سٹوڈنٹس کا حوصلہ بلند ہوتا ہے۔۔ اب کی بار بیلا نے کہا۔۔

وہ تینوں رومان شاہ کی تعریفیں کر رہے تھے۔۔وہ واقعی ہی بہت اچھا انسان تھا یہ حرم کو آج پتا چلا تھا۔۔

اب دیکھو جیتنے والے کو کیا ملے گا۔۔ عرش نے ریم کو دیکھتے ہوۓ کہا۔۔جو سر سے پاٶں تک بلیک ڈریس میں ملبوس اس پارٹی میں سب پر چھایا ہوا تھا۔

ہممم۔۔۔ میری عزت بچ جاۓ۔۔ میس ہاروں نا بس مجھے کچھ اور نہیں چاہیۓ۔۔ حرم نے پہلی بار کچھ کہا تھا۔۔

ان دونوں کا کپل کافی اچھا ہے نا۔۔۔ بیلا نے تصدیق چاہی۔۔ اور حرم نے پہلی بار ریم اور زی کو ایک کپل کی شکل میں دیکھا تھا۔۔

ہمممم اچھا ہے۔۔حرم نے کہا۔۔کیونکہ زی ریم کے پاس کھڑی کافی اچھی لگ رہی تھی۔۔

جبکہ عرش کچھ اور سوچ رہی تھی۔۔ جانے جب ریم کو حرم کی حقیقت پتا چلے گی تو اسے کیسا فیل ہوگا۔۔

وہ کسی کو ڈھونڈ رہا تھا۔۔ اسکی نگاہیں بیسمنٹ ہال کا جاٸزہ لے رہی تھیں۔۔ 

کیا ہوا ریم۔ کسے دیکھ رہے ہو۔۔ جمی شاید اسکی بے چینی بھانپ گیا تھا۔۔تبھی اسکے پاس آتے ہوۓ بولا۔۔

مس نور نہیں آٸ ابھی تک۔۔ ؟؟ ریم نے خود کو سنبهالتے ہوۓ پوچھا۔

آگٸ ہے۔۔ وہ دیکھو۔۔ جمی نے انکے ٹیبل کی طرف اشارہ کیا۔۔

اور جیسے ہی ریم کی نظر بیلا کے ساتھ بیٹھی حرم پر پڑی۔۔ اسکے اندر سکون اتر گیا۔۔

وہ کسی بات پر مسکرا رہی تھی۔۔ اور ریم حیران ہوا۔۔ اسے لگا تھا شاید حرم آج حجاب اوڑھ کر نا آۓ۔۔ آج تو پارٹی تھی نا۔۔ ایک چھوٹی سی پارٹی۔۔ لیکن نہیں۔۔ وہ بلیک سٹالر سر پر لپیٹے۔۔ کافی پرسکون تھی۔۔

اونی اوور کوٹ میں اسکے آدھے ہاتھ تک چھپ گۓ تھے۔۔ وہ نازک سے وجود کے ساتھ ریم کے دل میں مزید گہراٸ کے ساتھ اتر رہی تھی۔۔

پتا نہیں رات کا وقت تھا یا میوزک کا اثر ریم کو وہ آج بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔ بلیک سٹالر میں اسکا چہرہ مزید نکھرہ نکھرہ سا لگ رہا تھا۔۔ مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ وضو کی حالت میں ہے۔۔ تبھی شاید اتنی پاکیزہ لگ رہی تھی۔۔

 ”لوگ زلفوں کے اثیر ہوتے ہیں۔۔
”میں نے اسکے حجاب پر دل ہارا ہے۔۔“

ہے ریم۔۔۔ ڈیرک نے اسے پکارہ تو وہ چونکا۔۔ 

کیا ہوا۔۔ کدھر گم ہو۔۔؟؟ 

کچھ نہیں۔۔۔ تم بتاٶ سب ٹھیک ہے نا۔۔؟؟ ریم نے پوچھا۔۔ 

جی سب ٹھیک ہے۔۔ ہر چیز ریڈی ہے۔۔ 

تو پھر انٹرو سٹارٹ کیا جاۓ۔۔؟؟ ریم نے کچھ سوچتے ہوۓ کہا۔

ہاں۔۔ زی سے پوچھ لو۔۔ حرم بھی آچکی ہے۔۔

اوکے۔۔ لیٹس سٹارٹ۔۔ ریم نے کہا اور زی کی طرف بڑھ گیا جو اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ چکی تھی۔۔

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایش نے اپنے سر پر خود ہی بینڈج کی تھی۔۔ وہ اب کافی پرسکون سی تھی۔۔ اس نے رات جس زات کو محسوس کیا تھا اور اپنے قریب پایا تھا اب باری تھی اس زات کو سب کے سامنے ماننے کی۔۔ 

خیر وہ اپنے وقت پر کمرے سے تیار ہو کر نکلی تھی اور پھر کنگ فو کلاس کیلیۓ چلی گٸ۔۔

ماسٹر ساٸ چن اسے دیکھ کر حیران ہوا تھا۔۔ وہ کچھ بدلی بدلی سی لگ رہی تھی۔۔

آپ نے کہا ماسٹر ساٸ چن کے مجھے اس زات کی کھوج کرنی ہے جو سے محبت کرنے کے بعد انسان دنیا کو فتح کر لیتا ہے۔۔ زی کچھ سوچتے ہوۓ کہہ رہی تھی۔۔

ہممم۔۔۔ ماسٹر ساٸ چن خاموشی سے اسکی باتیں سن رہا تھا۔۔

مجھے وہ زات مل گٸ ہے ماسٹر۔۔ میں نے رات اسے محسوس کیا ہے۔۔ اسکے پورے جلال کے ساتھ۔۔ میرے لیۓ دعا کیجیۓ کہ میرا راستہ آسان ہو جاۓ۔۔ 

تم خوش نصیب ہو ایش۔۔ بہت کم لوگ اسے محسوس کر سکتے ہیں۔۔ جیسے تم نے کیا ہے۔۔ ماسٹر ساٸ چن نے کہا۔

میں نہیں جانتی آج کے بعد میں یہاں آ سکوں گی بھی یا نہیں۔۔ لیکن میں ہمیشہ آپکو یاد رکھوں گی۔۔ ایش مسکراٸ۔۔

جس راستے کو چننے جا رہی ہو ایش۔۔ اسے کبھی مت چھوڑنا۔۔ ثابت قدم رہنا ہمیشہ۔۔ 

شکریہ ماسٹر ساٸ چن۔۔ 

خوش رہو بچے۔۔ وہ بھی مسکرا دیۓ۔۔

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 زی اور حرم ایک صوفے پر بیٹھی تھیں۔۔ دونوں اپنی شان وشوکت کے ساتھ۔۔ پروفيسر جوزف اور یونيورسٹی کے دیگر پروفيسر بھی وہاں جمع ہو چکے تھے۔۔ 

پروفيسر جوزف نے حرم کو بیسٹ آف لک کہا تھا جس پر وہ مسکرا دی۔لیکن اندر سے وہ ابھی بھی ڈری ہوٸ تھی۔وہ نہیں جانتی کیا ہونے والا ہے۔یہ اسکے مقابلے کا پہلا حصہ تھا۔۔ وہ دل ہی دل میں دعائيں مانگ رہی تھی۔۔ 

ہیلو بیوٹی فل لیڈیز۔۔ رومان نے زی اور حرم کے سامنے بیٹھتے ہوۓ کہا۔

کیسی ہیں آپ مس نور۔۔؟؟ وہ حرم کی طرف متوجہ ہوا۔۔اور حرم اسکا مس نور مس نور سن سن کر اک گٸ تھی۔

میں ٹھیک ہوں مسٹر شاہ۔۔ حرم نے بھی اب کی بار حساب برابر کیا۔۔

اور رومان چونکہ۔۔ وہ جسے حرم کے منہ سے رومان شاہ سننا اچھا لگتا تھا وہ آج اسے بس مسٹر شاہ بلا رہی تھی۔۔ یعنی وہ انسان کو اسی کے طریقے سے ہینڈل کرتی تھی۔۔ وہ پھر بھی مسکرا دیا۔۔ 

گڈ۔۔ تو آپ ریڈی ہیں انٹرو کیلیۓ۔۔ وہ نرمی سے پوچھ رہا تھا۔۔ وہ نرمی جو زی سے بات کرتے ہوۓ دکھاٸ نہیں دیتی تھی۔۔ جبکہ زی کو غصہ آ رہا تھا۔۔جی ریڈی ہوں۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔

ویل گڈ۔۔ مجھے اچھا لگا آپ نے کمپیٹیشن کیلیۓ ہاں کہہ دی۔رومان کہہ رہا تھا۔۔

زبردستی کی ہاں کرواٸ گٸ ہے مجھ سے۔۔ حرم نے دل میں سوچا۔

ویل لیٹس سٹارٹ دی انٹرو۔۔آپ دونوں پلیز وہاں چلیں۔۔ رومان نے اسٹیج کی طرف اشارہ کیا۔

کیا مطلب۔۔ یہ کیسا انٹرو ہے۔۔؟؟ اسٹیج پر کیوں۔۔ اور انٹرو ہوگا ہی کیوں۔۔ سب ہمیں جانتے ہیں۔۔ سب کو پتا چل گیا ہے کمپیٹنٹس کا تو پھر یہ سب کیوں۔۔ حرم نے حیران ہوتے ہوۓ پوچھا۔۔

افففف۔۔۔ حد ہے بےوقوفی کی۔۔ زی نے کہا اور جھٹکے سے اٹھ کر چلی گٸ۔۔

جبکہ حرم معصوم سا چہرہ بناۓ رومان کو دیکھ رہی تھی۔

انٹرو کچھ اسطرح سے ہوگا مس نور کہ زی اپنے اباٶٹ کچھ بتاۓ گی۔۔ تو آپ نے بھی وہی چیز اپنے اباٶٹ بتانی ہوگی جو زی بتاۓ گی۔۔ سمجھ آٸ۔۔ 

ہمم۔۔۔ حرم نے اثبات میں سر ہلایا۔ اوکے گڈ۔۔ اب چلیں۔۔؟؟ 

جی۔۔ حرم نے کہا اور اٹھتے ہوۓ اسٹیج کی طرف بڑی جہاں زی اپنی شرٹ کے کالر میں ماٸیک لگا رہی تھی۔۔

       یااللہ خیر۔۔۔ حرم نے ایک بار پھر اللہ کو یاد کیا۔

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایش یہ تمہیں کیا ہوا ہے۔۔؟؟ مسز ولیم نے اسکے سر پر لگی بینڈج کو دیکھتے ہوۓ پوچھا۔

کچھ نہیں مام کنگ فو کرتے ہوۓ گر گٸ تھی۔۔ وہ ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھتے ہوۓ بولی۔

اپنا خیال رکھا کرو بچہ۔۔گرینی نے پیار سے کہا۔

جی گرینی۔۔ وہ بس اتنا ہی کہہ پاٸ۔۔

تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا ایش۔۔ گرینی نے اسکی سوجی آنکھوں کو دیکھ کر پوچھا۔

جی ٹھیک ہوں۔۔ 

مجھے لگ نہیں رہا۔۔ چہرہ اتنا سرخ کیوں ہو رہا ی تمہارا۔۔؟؟

وہ تھوڑا سا ٹمپریچر ہو گیا تھا رات کو۔۔ اب ٹھیک ہوں۔۔ 

میں نے تمہارے ڈیڈ کو کچھ بھی نہیں بتایا ایش۔۔ وہ شہر سے باہر گۓ ہیں۔۔ 

آپکو بتا دینا چاہیۓ تھا مام۔۔ ایش نے مسز ولیم کی بات کاٹی۔۔

 تو تم اپنی ضد سے باز نہیں آٶ گی۔۔مسز ولیم نے غصے سے پوچھا۔

میں ماٸیک سے شادی نہیں کر سکتی مام۔۔ اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔۔ وہ کہتے ایک جھٹکے سے اٹھی اور کالج کیلیۓ چلی گٸ۔۔

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایش 2 بجے گھر آٸ تھی۔ پیلس میں کافی خاموشی چھاٸ تھی۔۔ ایش کا دل زور سے دھڑکا تھا۔۔ اسے یہ خاموشی کسی بڑے طوفان کا پتہ دے رہی تھی۔۔

ایش۔۔ وہ سیڑھیاں چڑ رہی تھی جب مسز ولیم نے اسے پکارہ۔۔

جی مام۔۔ وہ پلٹی۔۔

تمہارے ڈیڈ تمہیں بلا رہے ہیں۔۔سٹڈی روم میں جلدی آ جاٶ۔مسز ولیم کہتے چلی گٸ۔۔ جبکہ ایش نہیں جانتی تھی وہ اپنے ڈیڈ کا سامنا کیسے کرے گی۔۔ اس ڈیڈ کا جس کو اس نے ہمیشہ آڈیالاٸز کیا تھا۔۔ 

وہ مرے مرے قدم اٹھاتی سٹڈی کی طرف بڑھی۔۔

ڈیڈ۔۔ ایش نے مسٹر ولیم کو پکارہ جو ونڈو کی طرف چہرہ کر کے کھڑے تھے۔

کیا حال ہے ایش۔۔؟؟ 

ٹھیک ہوں ڈیڈ۔۔ وہ دھیرے سے بولی۔۔

میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔۔ میں نے ماٸیک سے تمہارا رشتہ کردیا ہے۔۔ نیکسٹ سیچرڈے کو تمہاری اور ماٸیک کی انگیجمنٹ ہے۔۔ مسٹر ولیم نے دھماکہ کیا۔

پر ڈیڈ۔۔ ایش نے کچھ کہنا چاہا۔

کیا تمہیں کوٸ پرابلم ہے ایش۔۔ وہ اسے بنا دیکھے پوچھ رہے تھے۔

جی۔۔ میں ماٸیک سے شادی نہیں کر سکتی۔۔

کیوں۔۔ مسٹر ویلم کے لہجے میں غصہ اور سختی تھی۔

کیونکہ میں کسی اور پسند کرتی ہوں۔۔ 

کون ہے وہ۔۔۔ ؟؟ 

سمعان حیدر۔۔ ایش نے کچھ سوچنے کے بعد کہا۔

ایک مسلمان لڑکے سے تمہاری شادی نہیں ہو سکتی۔۔ وہ غصے سے دھاڑے۔۔ 

سوری ڈیڈ اس سے میری شادی نا بھی ہو لیکن میں ماٸیک سے شادی نہیں کر سکتی۔۔

ایش تم جانتی ہو تم اپنے ڈیڈ کا حکم ٹال رہی ہو۔۔ 

سوری ڈیڈ۔۔ لیکن میرا یہ آخری فیصلہ ہے۔۔ 

گیٹ آٶٹ۔۔ مسٹر ولیم نے انتہائی نفرت آمیز لہجے میں کہا۔

اور ایش سٹڈی سے باہر نکل آٸ۔۔
اسکا رخ اب باہر کی طرف تھا۔۔

ایش۔۔ مسز ولیم نے اسے پکارہ۔۔ 

کہاں جا رہی ہو۔۔ ؟؟ 

میں جا رہی ہوں مام۔۔۔ وہ بس اتنا کہہ پاٸ۔۔

پر کہاں۔۔ وہ ماں تھی انکا دل تڑپا تھا۔۔

پتا نہیں۔۔ 

رک جاٶ ایش۔۔ پاگل مت بنو۔۔ 

سوری مام وہ کہتے پیلس سے باہر نکل گٸ۔۔ مسز ولیم اسے پکارتے ہی رہ گٸ تھی۔۔

لیکن وہ ایش ولیم تھی ۔۔ مسٹر ولیم کی بیٹی۔۔ اپنے فیصلوں اور اصولوں کی پکی۔۔

        ❤❤❤❤
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─