┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

*《▪♡ شمشیرِ بے نیام ♡▪》*

*حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ*

*( قسط نمبر-48)*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*عیسائی اور بت پرست سالار قلعے کے اندر سے بھی فوج کی خاصی نفری باہر لے آئے۔اس طرح ان کی تعداد مسلمانوں کی نسبت کئی گنا زیادہ ہو گئی۔خالدؓنے ایک ایسی چال چلی جس سے دشمن پریشان ہو گیا۔چال یہ چلی کہ ذرا بھی حرکت نہ کی۔دشمن اس انتظار میں تھا کہ مسلمان حملے میں پہل کریں گے لیکن مسلمان تو جیسے بت بن گئے تھے۔عیسائی سردار لڑائی کیلئے بے تاب ہو رہے تھے۔جب بہت سا وقت گزر گیا اور مسلمانوں نے دشمن کی للکار کا بھی کوئی جواب نہ دیا تو دشمن نے عیاضؓ کے دستوں پر ہلّہ بول دیا،اس کے ساتھ ہی جودی نے خالدؓ کے دستوں پر حملہ کردیا۔خالدؓنے اپنے سالاروں کو جو ہدایات دے رکھی تھیں ان کے مطابق مجاہدین کے دستوں میں دشمن کو اپنی طرف آتا دیکھ کر بھی کوئی حرکت نہ ہوئی۔دشمن اور زیادہ جوش میں آگیا۔جب دشمن کے سپاہی مسلمانوں کی صفوں میں آئے تو مسلمانوں نے انہیں رستہ دے دیا۔یہ ایسے ہی تھا جیسے گھونسا کسی کو مارو اور وہ آگے سے ہٹ جائے۔فوراً ہی عیسائیوں اور بت پرستوں کو احساس ہو گیا کہ وہ تو مسلمانوں کے پھندے میں آگئے ہیں۔خالدؓ نے اپنے محافظوں کے ساتھ عیسائیوں اور بت پرستوں کے سب سے بڑے سالار جودی بن ربیعہ کو گھیرے میں لے لیا۔اس کے خاندان کے چند ایک جوان اس کے ساتھ تھے۔وہ تو کٹ گئے اور جودی کو زندہ پکڑ لیا گیا۔خالدؓنے اپنے لشکر کو ایسی ترتیب میں رکھاتھا جو دشمن کیلئے پھندہ تھا۔دشمن کے سپاہی جدھر کو بھاگتے تھے ادھر مسلمانوں کی تلواریں اور برچھیاں ان کا راستہ روکتی تھیں ۔آخر وہ قلعے کی طرف بھاگے مگر دروازہ بند تھا۔مسلمان اوپر آگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے دروازے کے سامنے عیسائیوں اور بت پرستوں کی لاشوں کا انبار لگ گیا۔ایک دروازہ اور بھی تھا۔اپنے آدمیوں کو پناہ میں لینے کیلئے قلعے والوں نے دروازہ کھول دیا۔عیسائی اور بت پرست بھاگ کر دروازے میں داخل ہونے لگے لیکن مسلمان تو جیسے ان کے ساتھ چپکے ہوئے تھے۔اس طرح صورت یہ پیدا ہو گئی تھی کہ دشمن کا ایک آدمی اندر جاتا تو دو مسلمان اس کے اندر چلے جاتے تھے۔عیسائیوں اور بت پرستوں کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔مسلمان قلعے میں داخل ہو گئے تھے۔اب جو کچھ ہو رہا تھاوہ لڑائی نہیں تھی۔وہ عیسائیوں اور بت پرستوں کا قتلِ عام تھا۔خالدؓچاہتے تھے کہ قتلِ عام کا یہ سلسلہ جاری رہے۔یہ اگست ۶۳۳ء کے آخری )جمادی الآخر ۱۲ھجری کے وسط کے(دن تھے۔خالدؓ نے جودی بن ربیعہ اور اس کے تمام ساتھی سالاروں اور سرداروں کو سزائے موت دے دی تھی۔دومۃ الجندل مسلمانوں کے زیرِ نگیں آگیا۔ اسلام دشمن طاقتیں ختم ہونے میں نہیں آتی تھیں۔ایران کے آتش پرستوں کو جس طرح اسلام کے علمبرداروں نے شکست پہ شکست دی اور جتنا جانی نقصان انہیں پہنچایا تھا،اتنا کوئی قوم برداشت نہیں کر سکتی تھی۔لیکن وہاں صرف آتش پرست نہیں تھے۔تمام غیر مسلم قبیلے جن میں اکثریت عربی عیسائیوں کی تھی،ان کے ساتھ تھے۔آتش پرستوں نے اب ان قبیلوں کو آگے کرنا شروع کر دیا تھا۔جیسا مہراں بن بہرام نے عین التمر میں کیا تھا۔آتش پرستوں کے سالار میدانِ جنگ سے بھاگ بھاگ کر مدائن میں اکھٹے ہوتے جا رہے تھے۔ان کے نامور سالار بہمن جاذویہ نے جب مہراں بن بہرام کو اپنی فوج کے ساتھ واپس آتے دیکھا تو اسے اتنا صدمہ ہوا تھا کہ اس پر خاموشی طاری ہو گئی تھی۔’’مت گھبرا بہمن!‘‘مہراں نے اسے کہا تھا۔’’دل چھوٹا نہ کر۔آخر فتح ہماری ہو گی۔میں شکست کھا کر نہیں آیا۔شکست بدوی قبیلوں کو ہوئی ہے۔‘‘’’اور تو لڑے بغیر واپس آگیا ہے؟‘‘سالار بہمن جاذویہ نے کہا تھا۔’’تو اتنا بڑا شہر اپنے دشمن کی جھولی میں ڈال آیا ہے تو خوش قسمت ہے کہ تجھے یہاں سزا دینے والا کوئی نہیں۔سزا دینے والے آپس میں لڑ رہے ہیں۔وہ جانشینی پر ایک دوسرے کے خون بہا رہے ہیں۔‘‘ ’’بہمن!‘‘مہراں نے طنزیہ لہجے میں کہا۔’’کیا تومجھے سرزنش کر رہا ہے؟کیا تو مسلمانوں سے شکست کھانے والوں میں سے نہیں؟اگر تو میدان میں جم جاتا تو آج مدینہ والے یوں ہمارے سر پر نہ آبیٹھتے۔شکستوں کی ابتداء تجھ سے ہوئی ہے۔میری تعریف کر کے میں اپنے لشکر کو بچا کر لے آیا ہوں۔میں اسی لشکر سے مسلمانوں کو شکست دوں گا۔مدائن میں اس وقت جو لشکر جمع ہو چکا ہے اسے ہم ایک فیصلہ کن جنگ کیلئے تیار کریں گے۔‘‘اس وقت مدائن میں فارس کے جتنے بھی نامور سالار تھے وہ سب خالدؓ سے شکست کھا کر آئے تھے۔انہوں نے اسے ذاتی مسئلہ بنالیا تھا،ورنہ وہاں حکم دینے والا کوئی نہ تھا،حکم دینے والے شاہی خاندان کے افراد تھے جو تخت کی وراثت کیلئے جوڑ توڑ میں لگے ہوئے تھے ۔وہ سالاروں کو بھی اپنی سازشوں میں استعمال کرنا چاہتے تھے لیکن سالار فارس کی شہنشاہی کے تحفظ کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔یہ چند ایک سالار ہی تھے جنہوں نے مدائن کا بھرم رکھا ہوا تھا ورنہ کسریٰ کی بنیادیں ہِل چکی تھیں اور یہ عمارت زمین بوس ہوا ہی چاہتی تھی۔اس وقت خالدؓ مدائن سے کم و بیش چار سو میل دور دومۃ الجندل میں تھے۔آتش پرستوں اور عیسائیوں کو ابھی معلوم نہ تھا۔وہ سمجھتے تھے کہ خالدؓعین التمر میں ہیں۔خالدؓ کو دراصل حیرہ واپس آنا تھا۔ایک تو وہ مفتوحہ علاقوں کے انتظامات وغیرہ کو بہتر بنانا چاہتے تھے،دوسرے یہ کہ فوج کو کچھ آرام دینا تھااور تیسرا کام یہ تھا کہ فوج کو از سر نو نظم کرنا تھا۔ایک تو یہ مجاہدین تھے جو میدانِ جنگ میں دشمن کے آمنے سامنے آکر لڑتے تھے، دوسرے مجاہدین وہ تھے جو دشمن کے مختلف شہروں میں بہروپ دھار کر خفیہ سرگرمیوں میں مصروف تھے۔وہ جاسوس تھے۔وہ ہر لمحہ جان کے خطرے میں رہتے تھے۔وہ دشمن کی نقل و حرکت اور عزائم معلوم کرتے اور پیچھے اطلاع بھجواتے یا خود اطلاع لے کر آتے تھے۔تاریخ میں ان میں سے کسی کا بھی نام نہیں آیا۔)دوچار سے دنیا واقف ہے گمنام نہ جانیے کتنے ہیں( ان میں بعض پکڑ لیے گئے اور دشمن کے جلادوں کے حوالے ہوئے۔ان جاسوسوں کی بروقت اطلاعوں پر خالدؓ کئی بار دشمن کے اچانک حملے اور شکست سے بچے۔خالدؓ جب دومۃ الجندل میں تھے تو مفتوحہ علاقوں کیلئے ایک خطرناک صورتِ حال پیدا ہوگئی۔مدائن پر کسریٰ کی شکست اور زوال کی سیاہ کالی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں۔لوگوں پر خوف و ہراس طاری تھا۔کسریٰ کی اس تلوار پر زنگ لگ چکا تھا جس کا خوف بڑی دور تک پہنچا ہوا تھا مگر دو چار سالار تھے جو اس ڈوبتی کشتی کو طوفان سے نکال لے جانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ ان حالات میں ایک گھوڑا مدائن میں داخل ہوا اور بہمن جاذویہ تک پہنچا۔’’اب اور کیا بُری خبر رہ گئی تھی جو تو لایا ہے؟‘‘بہمن نے پوچھا۔’’کہاں سے آیا ہے تو؟کیا مسلمانوں کا لشکر مدائن کی طرف آرہا ہے؟‘‘’’نہیں۔‘‘اس آدمی نے کہا۔’’مسلمانوں کا لشکر چلا گیا ہے۔‘‘ ’’چلا گیا ہے؟‘‘بہمن جاذویہ نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔’’تو ان لشکریوں میں سے معلوم ہوتا ہے جنہیں مسلمانوں کی دہشت نے پاگل پن تک پہنچا دیا ہے۔کیا تو نہیں جانتا تیرے جرم کی سزا موت ہے؟‘‘یہ آدمی گھوڑے سے اتر چکا تھا۔اس کی اطلاع پر بہمن جاذویہ باہر آگیاتھا۔*
*۔اس نے اس آدمی کو اندر لے جا کر عزت سے بٹھانے کے قابل نہیں سمجھا تھا۔سزائے موت کانام سنتے ہی اس آدمی نے گھوڑے کی باگ چھوڑدی اور تیزی سے آگے ہوکر سالار بہمن جاذویہ کے قدموں میں بیٹھ گیا۔’’میں عین التمر سے آیا ہوں۔‘‘اس نے گھبرائی ہوئی ملتجی آواز میں کہا۔’’بے شک میں شکست کھانے والوں میں سے ہوں۔لیکن ان میں سے بھی ہوں جو شکست کو فتح میں بدلنا چاہتے ہیں۔پہلے وہ بات سن لیں جو میں بتانے آیا ہوں پھر میرا سر کاٹ دینا لیکن میری بات کو ٹالو گے تو یہ نہ بھولنا کہ تم میں سے کسی کا بھی سر مسلمانوں کے ہاتھوں سلامت نہیں رہے گا۔‘‘’’بول،جلدیبول!‘‘ بہمن نے کہا۔’’کیا بات ہے جو مجھے اتنی دور سے سنانے آیا ہے؟‘‘بہمن جاذویہ کی ایک بیٹی جو جوان تھی ،ایک آدمی کو اپنے باپ کے قدموں میں بیٹھا دیکھ کر قریب آگئی۔وہ دیکھ رہی تھی کہ جب سے اس کا باپ شکست کھا کر آیا ہے وہ غصے سے بھرا رہتا ہے اور سزائے موت کے سوا اور کوئی بات نہیں کرتا۔لڑکی تماشہ دیکھنے آئی تھی کہ اس کا باپ آج ایک اور سپاہی کو جلاد کے حوالے کرے گا۔’’خالدعراق سے چلا گیا ہے۔‘‘عین التمر سے آئے ہوئے آدمی نے کہا۔’’میں خود نہیں آیا۔ مجھے شمشیر بن قیس نے بھیجاہے۔آپ اسے جانتے ہوں گے۔مسلمانوں کے سالار خالدنے عین التمر پر قبضہ کرکے وہیں کے سرکردہ افراد کو عمال مقرر کر دیا ہے۔اس کا اور باقی سب حملہ آور مسلمانوں کا سلوک مقامی لوگوں کے ساتھ اتنا اچھا ہے کہ سب ان کے وفادار ہو گئے ہیں۔لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس موقع کی تلاش میں ہیں کہ مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں۔میں خود دیکھ رہا تھا کہ مسلمانوں کی فوج اچانک عین التمر سے نکل گئی۔‘‘’’زرتشت کی قسم!‘‘بہمن جاذویہ نے کہا۔’’خالدان شکاریوں میں سے نہیں جو پنجوں میں آئے ہوئے شکار کو چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں……کیا اس کی ساری فوج ہمارے علاقے سے نکل گئی ہے؟‘*
*میں پوری خبر لایا ہوں سالار!‘‘اس آدمی نے کہا۔’’عین التمر ،حیرہ اور دوسرے شہروں میں جن پر مسلمانوں کا قبضہ ہے ،مسلمانوں کی بہت تھوڑی فوج رہ گئی ہے اورایک ایک سالار ہے۔معلوم ہوا ہے کہ مسلمانوں کا بڑا لشکر دومۃ الجندل چلا گیا ہے جہاں ان کی کسی کے ساتھ لڑائی ہو رہی ہے۔شمشیر بن قیس نے مجھے آپ کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا ہے کہ یہ وقت پھر نہیں آئے گا۔اس وقت اپنے مفتوحہ علاقے مسلمانوں سے چھڑائے جا سکتے ہیں۔‘‘کچھ اور سوال و جواب کے بعد بہمن جاذویہ کو یقین ہو گیا کہ یہ آدمی غلط خبر نہیں لایا ہے۔بہمن کو معلوم تھا کہ دومۃ الجندل کتنی دور ہے اور وہاں تک پہنچنے اور واپس آنے میں کتنا وقت لگتا ہے۔ تفصیل سے پڑھئے*
*’’تم واپس چلے جاؤ۔‘‘بہمن جاذویہ نے اس آدمی سے کہا۔’’اور شمشیر بن قیس سے کہنا کہ اتنا بڑا انعام تمہارے نام لکھ دیا گیا ہے جسے تم تصور میں بھی نہیں لا سکتے۔ایک آدمی تمہارے پاس تاجر کے روپ میں آئے گا ،اس کے ساتھ تمہاری بات ہوگی۔وہ تمہارا سائل ہوگا۔ہم بہت جلد حملے کیلئے آرہے ہیں۔اندر سے دروازے کھولنا تمہارا کام ہوگا۔‘‘’’کیا ہو گیا ہے محترم باپ؟‘‘بہمن کی بیٹی نے عین التمر کے سوار کے جانے کے بعد بہمن سے پوچھا۔’’مسلمان کہاں چلے گئے ہیں؟‘‘’’اوہ میری پیاری بیٹی!‘‘بہمن نے بیٹی کو فرطِ مسرت سے گلے لگا لیا اور پر جوش اور پر عزم آواز میں بولا۔’’مسلمان وہیں چلے گئے ہیں جہاں سے آئے تھے۔میں نے کہا تھا کہ وہ مدائن تک پہنچنے کی جرات نہیں کریں گے۔انہوں نے جو فتح حاصل کرنی تھی وہ کر چکے ہیں۔اب ہماری باری ہے۔اب میں اپنی بیٹی کو مسلمانوں کی لاشیں دِکھاؤں گا۔‘‘’’کب؟‘‘بیٹی نے بچوں کے سے اشتیاق سے پوچھا۔’’مجھے خالدکی لاش دِکھانا محترم پدر!یہاں سب کہتے ہیں کہ وہ انسانوں کے روپ میں آیا ہوا جن ہے۔‘‘بہمن جاذویہ نے بڑی زور کا قہقہہ لگایا۔بہمن جاذویہ کا یہ فاتحانہ اور طنزیہ قہقہہ پہلے کسریٰ کے محلات میں پہنچا،وہاں سے سالاروں تک گیا پھر مدائن کی ہزیمت خوردہ فوج نے سنا اور پھر یہ احکام او رہدایت کی صورت اختیار کر گیا۔بہمن جاذویہ کی بیٹی نے اپنی تمام سہیلیوں اور شاہی محل کی عورتوں کو اور جس کے ساتھ بھی اس نے بات کی،یہ الفاظ کہے۔’’میں تمہیں خالد کی لاش دِکھاؤں گی۔‘‘’’خالد کی لاش؟‘‘تقریبٍاًہر لڑکی اور ہر عورت کا رد عمل یہی تھا۔’’کہتے ہیں خالدکو کوئی نہیں مار سکتا۔وہ انسان نہیں۔اسے دیکھ کر فوجیں بھاگ جاتی ہیں۔‘‘شاہی اصطبل میں جہاں شاہی خاندان اور سالاروں کے گھوڑے ہوتے تھے گہما گہمی بڑھ گئی تھی۔سائیسوں کو حکم ملا تھا کہ گھوڑے میں ذرا سا بھی نقص یا کزوری دیکھیں تو اسے ٹھیک کریں یا اسے الگ کر دیں۔بہمن جاذویہ کی بیٹی اس طرح ہر طرف پھدکتی پھر رہی تھی جس طرح عید کاچاند دیکھ کر نئے کپڑوں کی خوشی میں ناچتے کودتے ہیں۔وہ اصطبل میں گئی ۔وہاں اس کے باپ کے گھوڑوں کے ساتھ اس کا اپنا گھوڑا بھی تھا جو باپ نے اسے تحفے کے طور پر دیا تھا۔*

*’’میرے گھوڑے کا بہت سا را خیال رکھنا۔‘‘اس نے اپنے خاندان کے سائیس سے کہا۔ایک ادھیڑ عمر سائیس جو تین چار مہینے پہلے اس اصطبل میں آیا تھا۔دوڑا آیا اور لڑکی سے پوچھا کہ اپنی فوج کہیں جا رہی ہے یا مدینہ کے لشکر کے حملے کا خطرہ ہے؟’’اب تم مدینہ والوں کی لاشیں دیکھو گے۔‘‘لڑکی نے کہا۔باقی گھوڑوں کے سائیس بھی اس کے اردگرد اکھٹے ہو گئے تھے۔وہ بھی تازہ خبر سننا چاہتے تھے۔لڑکی نے انہیں بتایا کہ خالد تھوڑی سی فوج پیچھے چھوڑ کر زیادہ تر فوج اپنے ساتھ لے گیا ہے اور وہ عراق سے دور نکل گیاہے۔)یہ تمام تر علاقہ جو خالدنے فارس والوں سے چھینا تھا،عراق تھا(لڑکی نے سائیسوں کو بتایا کہ اب اپنی فوج پہلے عین التمرپر پھر دوسرے شہروں پر حملے کرکے انہیں دوبارہ اپنے قبضے میں لے لے گی۔اگر خالد واپس آیابھی تو اسے اپنی شکست اور موت کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔’’کیا اسے زندہ پکڑا جائے گا؟‘‘ادھیڑ عمر سائیس نے مسرور سے لہجے میں پوچھا۔’’زندہ یا مردہ!‘‘بہمن کی بیٹی نے کہا۔’’اسے مدائن لایا جائے گا۔اگر زندہ ہوا تو تم اس کا سر قلم ہوتا دیکھو گے۔‘‘تین چار روز گزرے تو یہ ادھیڑ عمر سائیس لا پتا ہو گیا۔اسے سب عیسائی عرب سمجھتے تھے۔ہنس مکھ اور ملنسار آدمی تھا۔صرف ایک سائیس نے اس کے متعلق بتایا تھا کہ وہ کہتا تھا کہ وہ اپنے قبیلے میں واپس جانا چاہتا ہے جہاں وہ قبیلے کی فوج میں شامل ہوکر مسلمانوں کے خلاف لڑے گا۔وہ اپنے خاندان کے ان مقتولین کا انتقام لیناچاہتا تھا جو دو جنگوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔جس وقت شاہی اصطبل میں اس سائیس کی غیر حاضری کے متعلق باتیں ہو رہی تھیں ،اس وقت وہ مدائن سے دور نکل گیا تھا۔مدائن سے وہ شام کو نکلا تھا،جب شہر کے دروازے ابھی کھلے تھے۔اس کے پاس اپنا گھوڑا تھا۔کسی کو بھی نہیں معلوم تھاکہ وہ عیسائی نہیں مسلمان تھا اور وہ اسی علاقے کا رہنے والا تھا جس پر ایران کے آتش پرستوں کا قبضہ رہا تھا۔وہ مثنیٰ بن حارثہ کا چھاپہ مار جاسوس تھا،اس نے مدائن میں جاکر شاہی اصطبل کی نوکری حاصل کرلی تھی۔بہمن جاذویہ کی بیٹی سے اس نے عراق سے خالدؓاور ان کے لشکر کی روانگی اور مدائن کے سالاروں کے عزائم کی تفصیل سنی تو وہ اسی شام مدائن سے نکل آیا،یہ اطلاع بہت قیمتی تھی۔سورج نے غروب ہوکر جب اس کے اور مدائن کی شہر پناہ کے درمیان سیاہ پردہ ڈال دیا تو اس مسلمان جاسوس نے گھوڑے کو ایڑھ لگا دی۔اس کی منزل انبار تھی جہاں تک وہ اڑ کر پہنچنے کی کوشش میں تھا۔جہاں گھوڑا تھکتا محسوس ہوتا۔وہ اس کی رفتار کم کر دیتا ۔صرف ایک جگہ اس نے گھوڑے کو پانی پلایا۔اگلے روز کا سورج افق سے اٹھ آیا تھا جب وہ انبار میں داخل ہوااور کچھ دیر بعد وہ سالار زبرقان بن بدر کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔وہ ہانپ رہا تھا۔اس نے ہانپتے ہوئے سنایا کہ مدائن میں کیا ہو رہا ہے۔’’میں اسی روز آجاتا جس روز مجھے بہمن کی بیٹی سے یہ خبر ملی تھی۔‘‘اس نے سالار زبرقان سے کہا۔’’لیکن میں وہاں تین دن یہ دیکھنے کیلئے رُکا رہا کہ دشمن کیا کیا تیاریں کر رہا ہے،اور وہ سب سے پہلے کہاں حملہ کرے گا۔‘‘*

*اس جاسوس نے جسے تاریخ نے ’’ایک جاسوس‘‘لکھا ہے،مدینہ کی فوج کے سالار زبرقان بن بدر کوجو تفصیلی رپورٹ دی ،وہ تاریخ کا حصہ ہے اور تقریباً ہر مؤرخ نے بیان کیا ہے۔خالد ؓجب عین التمر سے عیاضؓ بن غنم کی مدد کیلئے دومۃ الجندل کیلئے روانہ ہوئے تو عین التمر سے ایک عیسائی عرب نے مدائن اطلاع بھیج دی کہ خالدؓعراق سے چلے گئے ہیں۔ان کی منزل دومۃ الجندل بتائی گئی،اس سے مدائن کے تجربہ کار سالار بہمن جاذویہ نے یہ رائے قائم کی کہ مسلمان تخت و تاراج اور لوٹ مار کرنے آئے تھے اور اپنے کچھ دستے برائے نام قبضہ برقرار رکھنے کیلئے پیچھے چھوڑ کر چلے گئے اور یہ دستے ذرا سے دباؤ سے بھاگ اٹھیں گے۔اس زمانے میں اکثر یوں ہوتا تھا کہ کوئی بادشاہ بہت بڑی فوج تیار کرکے طوفان کی مانند یکے بعد دیگرے کئی ملکوں پر چڑھائی کرتا اور قتلِ عام اور لوٹ مار کرتا اپنے پیچھے کھنڈر اور لاشوں کے انبار چھوڑ جاتا تھا۔وہ کسی بھی ملک پر مستقل طور پر قبضہ نہیں کرتا تھا۔مدائن کے محل میں خالدؓ کے کوچ کے متعلق یہی رائے قائم کی گئی لیکن خالدؓ نے عراق میں فارس کے جو مقبوضہ شہر اور بڑے قلعے فتح کیے تھے ،وہاں وہ ایک ایک سالار اور کچھ دستے چھوڑ گئے تھے ۔یہ صورتِ حال کسریٰ کے سالاروں کو کچھ پریشان کر رہی تھی۔’’فوج کو مدائن سے نکالواور حملے پہ حملہ کرو۔‘‘کسریٰ کے دربار سے حکم جاری ہوا۔’’ہم تیار ہیں۔‘‘شیر زاد نے کہا۔جو حاکم ساباط تھا اور انبار سے مسلمانوں سے شکست کھا کر بھاگا تھا ۔’’ہم بالکل تیار ہیں۔‘‘مہراں بن بہرام نے کہا جو عین التمر کا بھگوڑا تھا۔’’مگر لشکر تیار نہیں۔‘‘بہمن جاذویہ نے کہا جو تجربہ کار سالار تھا ۔شکست تو اس نے بھی کھائی تھی لیکن اس نے کچھ تجربہ حاصل کیا تھا۔’’کیا کہہ رہے ہو بہمن؟‘‘کسریٰ کے اس وقت کے جانشین نے کہا۔’’کیا ہم نے اس لشکر کو اس لئے پالا تھا کہ شکست کھا کر ہمارے پاس بھاگ آئے اور ہم ان سپاہیوں اور کمانداروں کو سانڈوں کی طرح پالتے رہیں؟‘‘’’اگر ان سپاہیوں اور کمانداروں کو سزا دینی ہے تو آج ہی کوچ کا حکم دے دیں۔‘‘بہمن جاذویہ نے کہا۔’’اپنے لشکر کی حالت مجھ سے سنیں۔‘‘اس نے اپنے لشکر کی جو کیفیت بیان کی وہ،مؤرخوں اور بعد کے جنگی مبصروں کے الفاظ میں یوں تھی کہ ’’فارس کی اس جنگی طاقت کے پرانے اور تجربہ کار سپاہیوں کی بیشتر نفری مسلمانوں کے ہاتھوں چار پانچ جنگوں میں ماری جا چکی تھی یا جسمانی لحاظ سے معذور بلکہ اپاہج ہوگئی تھی۔خاصی تعداد جنگی قیدی تھی اور لشکر کے جو سپاہی اور ان کے کمانڈر بچ گئے تھے وہ ذہنی معذور نظر آتے تھے ۔تین الفاظ مدینہ،خالد بن ولید،اور مسلمان۔ان کیلئے خوف کا باعث بن گئے تھے۔وہ فوری طور پر میدانِ جنگ میں جانے اور لڑنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ان کا جوش اور جذبہ بُری طرح مجروح ہوا تھا۔گھوڑوں کی بھی کمی واقع ہو گئی تھی۔‘‘*

*جزاکم اللہ خیرا۔*

*جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*👇🏻
            *اسلامک ہسٹری*

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─