┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

*《▪♡ شمشیرِ بے نیام ♡▪》*

*حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ*

*( قسط نمبر-47)*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*’’دشمن کا تعاقب کرو۔‘‘خالدؓ نے اپنی سپاہ کو حکم دیا۔’’زخمیوں کو سنبھالنے کیلئے کچھ آدمی یہیں رہنے دو اور بہت تیزی سے عین التمر کا محاصرہ کرلو۔‘‘عین اس وقت مثنیٰ بن حارثہ گھوڑا سر پٹ دوڑاتا آیا اور خالدؓ کے پاس گھوڑا روک کر اترا۔وہ خالدؓسے بغلگیر ہو گیا۔*

*’’ولید کے بیٹے!‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’قسم رب العالمین کی!دشمن عین التمر سے بھاگ گیا ہے۔‘‘’’کیا تیرا دماغ اپنی جگہ سے ہِل تو نہیں گیا؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’یوں کہہ کہ دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے خالدؓکو بتایا کہ اس نے جو جاسوس عین التمر کے اردگرد بھیج رکھے تھے ،انہوں نے اطلاع دی ہے کہ فارس کی جو فوج شہر میں تھی ،شہر سے نکل گئی ہے۔’’کیا تو نہیں سمجھ سکتا کہ یہ فوج ہمارے عقب پر اس وقت حملہ کرے گی جب ہم عین التمر کو محاصرے میں لیے ہوئے ہوں گے؟‘‘خالدؓنے کہا۔’’ابنِ ولید!‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’مہراں اپنی فوج کے ساتھ جا چکا ہے۔اگر وہ فوج یہاں کہیں چھپی ہوئی ہوتی تو میرے چھاپہ مار اسے چَین سے نہ بیٹھنے دیتے۔آگے بڑھ اور اپنی آنکھوں سے دیکھ۔عین التمر تیرے قدموں میں پڑا ہے۔‘‘یہ خبرجب مجاہدین کے لشکر کو ملی تو ان کے جسم جو تھکن سے ٹوٹ رہے تھے تروتازہ ہوگئے۔انہوں نے فتح و نصرت کے نعروں کی گرج میں عین التمر تک کے دس میل طے کر لیے۔مثنیٰ کے جو آدمی پہلے ہی وہاں موجودتھے ،انہوں نے بتایا کہ شہر کے تمام دروازے بند ہیں۔خالدؓکے حکم سے شہر کا محاصرہ کر لیا گیا۔بدوی عیسائی اور ان کے دیگر ساتھی جو شہر میں پناہ لینے آئے تھے، مقابلے پر اتر آئے۔انہوں نے شہرِ پناہ کے اوپر جا کر مسلمانوں پر تیر برسانے شروع کر دیئے۔’’عقہ بن ابی عقہ کو اور تمام جنگی قیدیوں کو آگے لاؤ۔‘‘خالدؓ نے حکم دیا۔ذرا سی دیر میں تام بدوی قیدیوں کو سامنے لے آئے۔خالدؓ نے عقہ کو بازو سے پکڑ ا اور اسے اتنی آگے لے گئے جہاں وہ شہرِ پناہ سے آنے والے تیروں کے زد میں تھے۔’’یہ ہے تمہارا سردار!‘‘خالدؓنےبڑی بلند آوازسے کہا۔’’تم اسے بہادروں کا بہادر سمجھتے تھے،اسی نے تمہاری دوستی فارس والوں سے کرائی تھی۔کہاں ہیں تمہارے دوست؟‘‘خالدؓ نے عقہ کو آگے کرکے کہا۔’’اس سے پوچھومہراں اپنی فوج کو بچا کر کہاں لے گیا ہے؟‘‘پھر بے شمار قیدیوں کو آگے کر دیاگیا۔’’یہ ہیں تمہارے بھائی!‘‘خالدؓنےکہا۔’’چلاؤتیر!سب ان کے سینوں میں اتریں گے۔‘‘یہ خبر کسی طرح شہر میں پھیل گئی کہ قلعے کے باہر مسلمان بنی تغلب اور دیگر قبیلوں کے قیدیوں کو لائے ہیں۔ان قیدیوں میں سے کئی ایک کے بیوی بچے اور لواحقین شہر میں تھے۔ان کی بستیاں تو کہیں اور تھیں لیکن ان کی سلامتی کیلئے انہیں عین التمر میں لے آئے تھے ۔جنگ کی صورت میں وہ انہیں اپنی بستیوں میں محفوظ نہیں سمجھتے تھے۔ان عورتوں اور بچوں کو جب پتا چلا کہ ان کے قبیلوں کے قیدی باہر آئے ہیں تو مائیں اپنے بچوں کو اٹھائے شہر کی دیوار پر آگئیں۔میدانِ جنگ میں جانے والوں میں سے جو واپس نہیں آئے تھے ،ان کی بیویاں ،بہنیں،مائیں اور بیٹیاں اس امید پر دیوار پر آئی تھیں کہ ان کے آدمی قیدیوں میں ہوں گے۔*

*ان عورتوں نے دیوار کے اوپر ہنگامہ بپا کر دیا۔وہ اپنے آدمیوں کر پکار رہی تھیں۔جنہیں اپنے آدمی قیدیوں میں نظر نہیں آرہے تھے ،وہ آہ و زاری کر رہی تھیں،تیر انداز انہیں پیچھے ہٹا رہے تھے مگر عورتیں پیچھے نہیں ہٹ رہی تھیں۔’’ہم تمہیں زیادہ مہلت نہیں دیں گے۔‘‘خالدؓ کے حکم سے ان کے ایک محافظ نے بلند آواز سے کہا۔’’ہتھیار ڈال دو اور دروازے کھول دو۔اگر ہمارے مقابلے میں تم ہار گئے اور دروازوں میں ہم خود داخل ہوئے تو تم سب کا انجام بہت برا ہوگا۔‘‘’’ہم اپنی دو شرطوں پر دروازہ کھولنے پر آمادہ ہیں۔‘‘دیوار کے اوپر سے آواز آئی۔’’تمہاری کوئی شرط نہیں مانی جائے گی۔‘‘خالدؓ کی طرف سے جواب گیا۔’’ہتھیار ڈال دو۔دروازے کھول دو،تمہاری سلامتی اسی میں ہے۔‘‘بنی تغلب اور ان کے اتحادی قبیلے جانتے تھے کہ ان کی سلامتی اسی میں ہے کہ ہتھیار ڈال دیں اور مسلمانوں سے رحم کی درخواست کریں چنانچہ انہوں نے دروازے کھول دیئے اور مسلمان شہر میں داخل ہوئے۔اس وقت کی تحریروں سے پتہ چلتاہے کہ مسلمانوں نے کسی شہری کو پریشان نہیں کیا ،البتہ مسلمانوں کے خلاف جو بدوی لڑے تھے،ان سب کو قیدی بنا لیا گیا۔یہ ان قیدیوں کے لواحقین پر منحصر تھا کہ وہ خالدؓ کا مقرر کیا ہوا فدیہ ادا کرکے اپنے قیدیوں کو رہا کرالیں۔تمام شہر کی تلاشی لی گئی۔شہر میں ایک عبادت گاہ یا درس گاہ تھی جس میں پادری بننے کی تعلیم دی جاتی تھی۔اس وقت چالیس نو عمر لڑکے زیرِ تعلیم تھے۔ان سب کو پکڑ لیا گیا۔ان میں سے اکثر نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا اور ان میں سے ایک کو تاریخ ِ اسلام کی ایک نامور شخصیت کا باپ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔اس لڑکے کا نام نصیر تھا۔ا س نے اسلام قبول کیااور ایک مسلمان عورت کے ساتھ شادی کی جس نے موسیٰ بن نصیر کو جنم دیا۔یہ موسیٰ بن نصیر شمالی افریقہ کے امیر مقرر ہوئے۔انہوں نے ہی طارق بن زیاد کو اندلس فتح کرنے کو بھیجا تھا۔دو تین متعصب مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خالدؓ نے بنی تغلب ،نمر اور ایاد کے ان تمام آدمیوں کو قتل کر دیا جو ان کے خلاف لڑے تھے ۔یہ ایک مفروضہ ہے جو خا لدؓکو بدنام کرنے کیلئے گھڑا گیا تھا۔مؤرخوں کی اکثریت نے ایسے قتلِ عام کا ہلکا سا بھی اشارہ نہیں دیا۔محمد حسین ہیکل نے متعدد تاریخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ عقہ بن ابی عقہ کو کھلے میدان میں لا کر خالدؓنے اپناعہد پورا کرتے ہوئے اس کا سر تن سے کاٹ ڈالا۔خالدؓنے اعلان کیا تھا کہ بدوی غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیں تو وہ بڑے برے انجام سے محفوظ رہیں گے ۔دشمن نے مسلمانوں کی شرائط پر ہتھیا ر ڈالے تھے۔ان کے قتلِ عام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔*

*عین التمر کی فتح کے بعد خالدؓ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ انبار اورعین التمر کا مالِ غنیمت اکٹھا کرکے مجاہدین میں تقسیم کیا اور خلافت کا حصہ الگ کرکے ولید بن عقبہ کے سپرد کیا کہ وہ مدینہ امیرالمومنینؓ کو پیش کریں۔انہوں نے امیر المومنینؓ کیلئے ایک پیغام بھی بھیجا۔ولید بن عقبہ نے مدینہ پہنچ کر امیرالمومنین ابوبکرؓ کو انبار اور عین التمر کی لڑائی اور فتح کی تفصیل سنائی ،مالِ غنیمت پیش کیا پھرخالدؓ کا پیغام دیا۔پہلے سنایا جا چکا ہے کہ خلیفۃ المسلمین ابوبکرؓ نے خالدؓ کے لیے حکم بھیجا تھا کہ وہ عیاضؓ بن غنم کے انتظار میں حیرہ میں رُکے رہیں۔اس وقت عیاضؓ دومۃ الجندل میں لڑ رہے تھے لیکن لڑائی کی صورتِ حال عیاضؓ کیلئے اچھی نہ تھی۔خالدؓ نے خلافت کے حکم کو نظر انداز کر دیا اور حیرہ سے کوچ کرکے انبار کو محاصرے میں لے لیا۔فتح پائی پھر عین التمر کا *(معرکہ لڑا اور کامیابی حاصل کی۔خالدؓنے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ وہ حیرہ میں بیٹھے رہتے تو فارس والوں کو اپنی شکستوں سے سنبھلنے کا اور جوابی حملے کی تیاری کا موقع مل جاتا۔خالدؓکی کوشش یہ تھی کہ دشمن کو کہیں بھی قدم جمانے کا اور جوابی وار کرنے کا موقع نہ مل سکے۔انہوں نے آتش پرستوں کی فوج کو نفسیاتی لحاظ سے کمزور کر دیا۔خالدؓنے امیر المومنینؓ کی حکم عدولی *(تو کی تھی لیکن عملاًثابت کر دیا تھا کہ یہ حکم عدولی کتنی ضروری تھی۔عیاضؓ بن غنم ابھی تک دومۃ الجندل میں پھنسے ہوئے تھے اور ان کی کامیابی کی توقع بہت کم تھی۔خالدؓ نے جو مناسب سمجھا وہ کیا۔خیفہ ابو بکرؓ نے ولیدبن عقبہ سے کہا۔’’اس نے جو سوچا تھا وہی ہوا۔عیاض کی طرف سے اطلاعیں آرہی ہیں وہ امید افزاء نہیں ۔دومۃ الجندل پر ہمارا قبضہ بہت ضروری تھا لیکن اب مجھے عیاض کے متعلق تشویش ہونے لگی ہے……ابنِ عقبہ!تم عین التمرواپس نہ جاؤ۔دومۃ الجندل چلے جاؤاور وہاں کی صورتِ حال دیکھ کہ خالد کے پاس جاؤ اور اسے کہو کہ عیاض کی مدد کو پہنچے۔‘‘ولید بن عقبہ روانہ ہو گئے۔عیاضؓ بن غنم خود بھی پریشان تھے۔اس کے ساتھ جو سالار تھے ،وہ انہیں کہہ رہے تھے کہ اس صورتِ حال سے نکلنے کیلئے مدد کی ضرورت ہے ورنہ شکست کا خطرہ صاف نظر آرہا تھا۔آخر)مؤرخ طبری اور ابو یوسف کی تحریروں کے مطابق(عیاضؓ بن غنم نے خالدؓ کو ایک تحریری پیغام بھیجا جس میں انہوں نے اپنی مخدوش صورتِحال اور اپنی ضرورت لکھی۔ولید بن عقبہ بھی عیاضؓ کے پاس پہنچ گئے۔ان کا جلدی پہنچنا آسان نہ تھا۔مدینہ سے دومۃ الجندل کافاصلہ تین سو میل سے کچھ کم تھااور زیادہ ترعلاقہ صحرائی تھا۔پہنچنا جلد تھا۔ولید جب عیاضؓ کے پاس پہنچے تو وہ جیسے ہوش و حواس میں نہیں تھے۔انہوں نے آرام کی نہ سوچی،عیاضؓ کی صورتِ حال دیکھی۔’’میں نے خالدکو مدد کیلئے کل ہی پیغام بھیجا ہے۔‘‘عیاضؓ بن غنم نے ولید بن عقبہ سے کہا۔’’معلوم نہیں وہ خود کس حال میں ہے،لیکن میرے لیے اور کوئی چارا نہیں،تم دیکھ رہے ہو۔‘‘*

*’’الحمدﷲ!‘‘ولیدنے کہا۔’’خالد نے آتش پرستوں کی شہنشاہی اور ان کی جنگی طاقت کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا ہے۔امیر المومنین نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے کہ تمہاری ضرورت کا جائزہ لے کر انہیں بتاؤں لیکن تمہیں فوری مدد کی ضرورت ہے۔میں مدینہ جانے کے بجائے عین التمر چلا جاتا ہوں ۔خالدتمہاری مدد کو آئے گا۔‘‘یہ اس دور کی فرض شناسی اور جذبہ تھا جس میں خوشامد، دکھاوے اور کام چوری کا ذرا سا بھی عمل دخل نہ تھا،ولید بن عقبہ نے یہ نہ سوچا کہ وہ واپس مدینہ جائیں اور خلیفہ کے حکم کے مطابق انہیں اپنی کار گزاری بڑھا چڑھا کر سنائیں اور ساتھ یہ کہیں کہ حضور عیاض تو بڑا نالائق سالار ہے۔اگر اس کی جگہ میں ہوتا تو یوں کرتا مگرولید نے دیکھا کہ صورتِ حال مخدوش ہے تو وہ اپنے حاکم خود بن گئے اور مدینہ کے بجائے عین التمر کو گھوڑا دوڑادیا۔ان کے سامنے پورے تین سو میل صحرائی مسافت تھی۔عراق اور شام کے صحرا اسی علاقے میں ملتے اور مسافروں کیلئے جان کا خطرہ بن جاتے۔ولید نے اپنے گھوڑے پر ،اپنے آپ پر،اپنے چار محافظوں اور ان کے گھوڑوں پر یہ ظلم کیا کہ کم سے کم آرام کیلئے کہیں رُکے۔وہ موسم گرمی کے عروج کا تھا۔ مہینہ اگست ۶۳۳ء تھا۔دومۃ الجندل بہت بڑا تجارتی شہر تھا،دور دراز ممالک کے تاجر یہاں آیاکرتے تھے،تجارت کے علاوہ یا تجارت کی بدولت ،اس شہر کو دولت اور زروجواہرات کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔رسولِ اکرمﷺ نے اس شہر اور اس سے ملنے والی شاہراہوں کی جغرافیائی پوزیشن دیکھ کر اس پر فوج کشی کی تھی۔یہ مہم غزوہ تبوک کے نام سے مشہور ہوئی،اس وقت دومۃ الجندل کا حاکم اور قلعہ دار اُکیدر بن عبدالملک تھا۔ اس نے مسلمانوں کا مقابلہ بے جگری سے کیا تھا۔خالدؓبھی اس معرکے میں شریک تھے۔انہوں نے اُکیدر کو غیر معمولی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے زندہ پکڑ لیا تھا اور اس کی سپاہ نے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔اُکیدر بن عبدالملک نے رسولِ کریم ﷺ کی اطاعت قبول کرلی اور وفاداری کا حلف اٹھایا۔اس نے اسلام بھی قبول کرلیا تھا،اس طرح یہ اتنا بڑا شہر مسلمانوں کے زیرِ نگیں آگیا تھا۔رسول اﷲﷺکی وفات کے ساتھ ہی ارتداد کا فتنہ طوفان کی طرح اٹھاتھا۔ اُکیدر بھی مدینہ سے منحرف ہو گیااور اس نے اطاعت اور وفاداری کے معاہدے کو الگ پھینک دیا۔اس نے دومۃ الجندل کو ایک ریاست بنالیا جس کے باشندے بھی عیسائی تھے اور بت پرست بھی۔عیسائیوں کا سب سے بڑا اور طاقتور قبیلہ کلب تھا۔امیرالمومنینؓ نے اُکیدر بن عبدالملک کی سرکوبی کیلئے اور اسے اپنی اطاعت میں لانے کیلئے عیاضؓ بن غنم کو ایک لشکر دے کر بھیجا تھا۔وہاں جا کر عیاضؓ نے دیکھا کہ ان کا لشکر تو بہت تھوڑا ہے،اور دشمن کئی گنا طاقتور ہے لیکن مدینہ سے تقریباًتین سو میل دور آکر واپس چل پڑنا تو مناسب نہ تھا۔دومۃ الجندل کی دیوار اونچی اور مضبوط تھی۔پورا شہر بڑا مضبوط قلعہ تھا۔*

*عیاضؓ نے شہر کا محاصرہ کیا جو مکمل نہ تھا۔ایک طرف راستہ کھلا تھا،اکیدر کی سپاہ کی کچھ نفری خالی طرف سے باہر آتی اور مسلمانوں پر حملہ کرتی،کچھ دیر لڑائی ہوتی ،اور یہ نفری بھاگ کر قلعے میں چلی جاتی،ان حملوں کے علاوہ قلعے کی دیواروں سے مسلمانوں پر تیروں کا مینہ برستا رہتا اور اس کے جواب میں مسلمان تیر اندازدیواروں پر تیر پھینکتے رہتے۔انہوں نے قلعے کے دروازوں پربھی ہلّے بولے مگر قلعے کا دفاع توقع سے زیادہ مضبوط تھا۔مسلمانوں کے خلاف جنگ کا پانسہ اس طرح پلٹ گیا کہ قبیلہ کلب کے عیسائیوں نے عقب سے آکر مسلمانوں کو گھیرے میں لے لیا۔وہ مسلمانوں پر بڑھ بڑھ کر حملے کرتے تھے اور مسلمان جان کی بازی لگا کر حملوں کو روکتے اور پسپا کرتے تھے،مسلمانوں کی اس بے خوفی کو دیکھ کر عیسائیوں نے حملے کم کر دیئے۔مگر مسلمانوں کو گھیرے میں رکھا تاکہ وہ پسپا نہ ہو سکیں،اور رسد وغیرہ کی کمی سے پریشان ہوکر ہتھیار ڈال دیں۔عیاضؓ نے یہ انتظام کر رکھا تھا کہ ایک جگہ راستہ کھلا رکھا اور اس کی حفاظت کیلئے آدمی مقرر کر دیئے تھے،یہ صورتِحال مسلمانوں کیلئے بڑی خطرناک تھی۔ان کا جانی نقصان خاصہ ہو چکا تھا۔زخمیوں اور شہیدوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔مسلمان زندہ رہنے کیلئے لڑ رہے تھے ،صاف نظر آرہاتھا کہ شکست انہی کی ہوگی۔دن پہ دن گزرتے جا رہے تھے۔خالدؓعین التمرکو اپنے انتظام میں لانے کے کام سے فارغ ہو چکے تھے ۔انہوں نے عمال مقرر کر دیئے تھے۔دوچار دنوں میں ہی وہاں کے شہریوں کو یقین ہو گیا تھا کہ مسلمان نہ انہیں زبردستی مسلمان بنا رہے ہیں نہ ان کے حقوق پامال کر رہے ہیں،نہ ان کی عورتوں پر بُری نظر رکھتے ہیں اور ان کے گھر اور اموال بھی محفوظ ہیں۔اس لیے وہ اسلامی حکومت کے وفادار بن گئے۔خالدؓکے پاس عیاضؓ بن غنم کا قاصد پہنچااور ان کا تحریری پیغام دیا۔عیاضؓ جس مصیبت میں پھنس گئے تھے وہ لکھی تھی۔تفصیل قاصد نے بیان کی۔دوسرے ہی دن ولید بن عقبہ پہنچ گئے۔انہوں نے خالدؓ سے کہا کہ ایک گھڑی جو گزرتی ہے وہ عیاض اور اس کے مجاہدین کو شکست اور موت کے قریب دھکیل جاتی ہے۔’’شکست؟‘‘خالدؓ نے پُر جوش لہجے میں کہا۔’’خدا کی قسم!اسلام کی تاریخ میں شکست کا لفظ نہیں آنا چاہیے……کیا اُکیدر بن عبدالملک مجھے بھول گیا ہے؟ کیا وہ ہمارے رسولﷺکو بھول گیا ہے جنہوں نے اسے اطاعت پر مجبور کیا تھا؟کیا وہ ہمارے اﷲکو بھول گیا ہے جس نے ہمیں اس پر فتح عطا کی تھی؟‘‘تاریخ شاہد ہے کہ بدلے ہیں تو انسان بدلے ہیں۔اﷲنہیں بدلا۔اﷲنے فتوحات کو شکستوں میں اس وقت بدلا تھا جب مسلمان بدل گئے تھے اور خدا کے بندوں کے ’’خدا‘‘بن گئے تھے۔*
*خالدؓ نے عیاضؓ بن غنم کو پیغام کا تحریری جواب دیا۔اُس دور میں عربوں کی تحریروں کاانداز شاعرانہ ہوا کرتا تھا۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خالدؓکا جواب منظوم انداز کا تھا۔انہوں نے لکھا:*
:
*’’منجانب خالد بن ولیدبنام عیاض بن غنم۔میں تیرے پاس بہت تیز پہنچ رہا ہوں۔تیرے پاس اونٹنیاں آ رہی ہیں جن پر کالے اور زہریلے ناگ سوارہیں۔فوج کے دستے ہیں جن کے پیچھے بھی دستے آگے بھی دستے ہیں۔ذرا صبر کرو۔گھوڑے ہوا کی رفتار سے آرہے ہیں۔ان پر تلواریں لہرانے والے شیر سوار ہیں۔دستوں کے پیچھے دستے آرہے ہیں۔‘‘پیغام کا جواب قاصد کو دے کر خالدؓنے اسے کہا کہ وہ جتنی تیزی سے آیا تھا اس سے زیادہ تیز دومۃ الجندل پہنچے اور عیاض ؓکو تسلی دے۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے ایک نائب سالار عویم بن کاہل اسلمی کو بلایا۔*
*’’ابنِ کاہل اسلمی!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’کیا تو جانتا ہے کہ میں تجھے کتنی بڑی ذمہ داری سونپ رہا ہوں؟‘‘’’اﷲمجھے ہر اس ذمہ داری کو نبھانے کی ہمت و عقل عطافرمائے جو مجھے سونپی جائے۔‘‘عویم نے کہا۔’’میری ذمہ داری کیا ہوگی ابنِ ولید؟‘‘’’عین التمر!‘‘خالدؓنےکہا۔’’اس کا انتظام اوراس کی حفاظت۔اندر سے بغاوت اٹھ سکتی ہے،باہر سے حملہ ہو سکتا ہے۔میں تجھے اپنا نائب بنا کر دومۃ الجندل جا رہاہوں۔عیاض بن غنم مشکل میں ہے۔‘‘’’اﷲتجھے سلامتی عطا کرے۔‘‘عویم نے کہا۔’’عین التمر کو اﷲکی امان میں سمجھ۔‘‘خالدؓ کے ساتھ ابتداء میں جو سپاہ تھی وہ جانی نقصان کے علاوہ اس وجہ سے بھی کم ہو گئی کہ ہر مفتوحہ جگہ ایک دو دستے چھوڑ دیئے گئے تھے۔عین التمر تک پہنچتے نفری اور کم ہو گئی تھی۔اس علاقے کے مسلمان باشندوں سے نفری بڑھانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ان کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔کچھ نو مسلم بھی سپاہ میں شامل ہو گئے تھے لیکن ابھی ان پر پوری طرح اعتماد نہیں کیاجا سکتاتھا۔خالدؓنےکچھ دستے عین التمر میں چھوڑے ،چھ ہزار سوار اپنے ساتھ لیے اور دومۃ الجندل کو روانہ ہو گئے ۔فاصلہ تین سو میل تھا۔خالدؓنے تین سو میل کی یہ صحرائی مسافت صرف دس دنوں میں طَے کرلی۔وہ ابھی رستے میں تھے کہ جب اُکیدر کے آدمیوں نے اس لشکر کو دیکھ لیا۔وہ مسافر ہوں گے۔انہوں نے خالدؓکے پہنچنے سے پہلے دومۃ الجندل میں اطلاع دے دی کہ مسلمانوں کا ایک لشکر آرہا ہے۔بعض مؤرخوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ دومۃ الجندل والوں کو یہ بھی پتہ چل گیا تھا کہ اس اسلامی لشکر کے سالارِ اعلیٰ خالدؓہیں۔اس وقت تک عیسائیوں کے تین بڑے قبیلے،بنو کلب، بنو بہراء اور بنو غسان۔جنگ میں شریک تھے۔اُکیدر بن عبدالملک کو اطلاع ملی تو اس نے بڑی عجلت سے عیسائیوں اور بت پرستوں کے چھوٹے چھوٹے قبیلوں کو بھی جنگ میں شریک ہونے کیلئے بلاوا بھیج دیا۔خالدؓکے پہنچنے تک ان چھوٹے قبیلوں نے اپنے آدمی بھیجنے شروع کردیئے تھے۔*

*خالدؓ طوفان کی مانند پہنچے۔مجاہدین نے خالدؓکے کہنے پر جوش و خروش سے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔عیاضؓ بن غنم کے لشکرنے یہ نعرے سنے تو سارے لشکر نے نعرے لگائے۔ان کے ہارے ہوئے حوصلے تروتازہ ہو گئے۔خالدذؓ نے میدانِ جنگ کا جائزہ لیا پھر قلعے کے اردگرد گھوڑا دوڑا کر قلعے کی دیواروں کا جائزہ لیا اور قلعے کی دیوارون پر کھڑے دشمن کو دیکھا۔دشمن کی فوج کے دو حصے تھے۔ایک کا سالارِ اعلیٰ اُکیدر بن عبدالملک اور دوسرے کا جودی بن ربیعہ تھا جوقلعے کے باہر تھا۔ قلعے کے باہر ان چھوٹے چھوٹے قبیلوں کے آدمی بھی جمع ہو گئے تھے جو اُکیدر کے بلاوے پر ابھی ابھی آئے تھے۔ان کیلئے قلعے کاکوئی دروازہ نہ کھلا کیونکہ خالدؓ کی آمد قلعے کیلئے بڑی خطرناک تھی۔خالدؓ ایک دہشت کا دوسرا نام تھا۔خالدؓ دشمن پر جو نفسیاتی وار کرتے تھے اس کا اثر مستقل ہوتا تھا۔ایسا ہی ایک زخم اُکیدر بن عبدالملک پہلے ہی خالدؓ کے ہاتھوں کھا چکا تھا۔خالدؓ تو سوچ رہے تھے کہ وہ قلعے میں کس طرح داخل ہو سکتے ہیں لیکن ان کی دہشت قلعے کئے اندر پہنچ چکی تھی۔اُکیدر نے عیسائی سرداروں کو بلا رکھا تھا اور انہیں کہہ رہا تھا کہ وہ خالدؓسے ٹکر نہ لیں اور صلح کر لیں۔عیسائی سردار اس کامشورہ نہیں مان رہے تھے۔’’میرے دوستو!‘‘تقریباًتمام مؤرخوں نے اس کے یہ الفاظ لکھے ہیں۔’’ خالد سے جتنا میں واقف ہوں اتنا تم نہیں ہو۔میں نہیں بتا سکتا کہ اس میں کیسی طاقت ہے۔میں اتنا جانتا ہوں کہ قسمت ہر میدان میں اس کے ساتھ ہوتی ہے۔میدانِ جنگ کا اور قلعوں کی تسخیر کا جو کمال اس میں ہے وہ کسی اور میں نہیں۔تم سوچ رہے ہوگے اور وہ تمہارے سر پر کھڑا ہوگا۔خالد کے مقابلے میں جوقوم آتی ہے ،خواہ طاقتور خواہ کمزور، وہ خالد کے ہاتھوں پِٹ جاتی ہے۔میرا مشورہ تسلیم کرو اور خالد سے صلح کرلو۔‘‘عیسائیوں نے خالدؓسے شکستیں کھائی تھیں ۔وہ انتقام لینا چاہتے تھے۔’’تم اس سے لڑو گے تو ہار جاؤ گے۔‘‘اُکیدر نے کہا۔’’پھر وہ تم پر رحم نہیں کرے گا۔اگر لڑے بغیر صلح کرلو گے تو وہ تمہاری جان، تمہاری عورتوں اور تمہارے اموال کی حفاظت کرے گا مگر تم اس کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتے کیونکہ تم اس کی چالیں نہیں سمجھتے۔’’ہم لڑے بغیر شکست تسلیم نہیں کریں گے۔‘‘عیسائی سرداروں نے متفقہ فیصلہ دے دیا۔’’پھر تم میرے بغیر لڑو گے۔‘‘اُکیدر نے کہا۔’’میں اتنا بڑا شہر تباہ نہیں کراؤں گا۔‘‘*
*عیسائی سردار لڑنے کے ارادے سے چلے گئے۔انہیں اُکیدر کے ارادوں کا اس کے سوا کچھ علم نہیں تھا کہ وہ لڑنا نہیں چاہتا۔رات کا پہلا پہر تھا۔خالدؓکا سالار عاصم بن عمرو قلعے کے اس طرف گشت پر پھر رہا تھا،جدھر علاقہ خالی تھا۔اسے چار پانچ آدمی قلعے سے نکل کر اس کھُلے علاقے میں آتے دکھائی دیئے۔وہ سائے سے لگتے تھے ۔عاصم بن عمرو کے ساتھ چند ایک محافظ تھے انہیں عاصم نے کہا کہ ان آدمیوں کو گھیرے میں لے کر روک لیں۔محافظوں کو معلوم تھا کہ کس طرح بکھر کر گھیرا ڈالا جاتا ہے،وہ آدمی خود ہی رک گئے۔سالار عاصم ان تک پہنچے۔*

*’’میں دومۃ الجندل کا حاکم اُکیدر بن عبدالملک ہوں۔‘‘ان میں سے ایک نے کہا۔’’اپنے اور اپنے آدمیوں کے ہتھیار میرے آدمیوں کے حوالے کردو۔‘‘عاصم نے کہا۔’’مجھے خالد کے پاس لے چلو۔‘‘اُکیدر نے اپنی تلوار ایک محافظ کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔’’میں نہیں لڑوں گا۔خالدکے ساتھ صلح کی بات کروں گا۔‘‘’’میں تمہیں معاف نہیں کرسکتا ابنِ عبدالملک!‘‘خالدؓ نے اپنے خیمے میں اس کی بات کو سن کر کہا۔’’تو میرا مجرم نہیں میرے رسولﷺ کا مجرم ہے۔تو نے اﷲکے رسول ﷺسے بد عہدی کی تھی۔تو نے اسلام قبول کیا پھر ارتداد کے سرداروں کے ساتھ جا ملا۔‘‘اُکیدر نے اپنی صفائی میں بہت کچھ کہا۔بہت کچھ پیش کیا۔عیسائی قبیلوں سے لا تعلق ہو جانے کا عہد کیا۔’’اگر یہ لڑائی میری اور تیری ہوتی،یہ دشمنی میری اور تیری ہوتی،توتجھے بخش دینے سے کوئی نہ روک سکتا۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’مگر تو میرے رسولﷺ کا ،میرے مذہب کا دشمن تھا۔خدا کی قسم!میں تجھے بخش نہیں سکتا۔تجھے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں دے سکتا۔‘‘خالدؓ نے حکم دیا۔’’لے جاؤ اسے،کل کا سورج اسے زندہ نہ دیکھے۔‘‘رات کو ہی اُکیدر بن عبدالملک کا سر قلم کر دیا گیا۔صبح طلوع ہوتے ہی خالدؓ نے عیاضؓ بن غنم کو بلایااور اسے بتایا کہ اب وہ اپنی سپاہ کا خود مختار سالار نہیں،اس حکم کے ساتھ ہی خالدؓ نے عیاضؓ کی سپاہ اپنی کمان میں لے لی۔’’اب لڑائی قلعے کے باہر ہوگی۔‘‘خالدؓنے اپنے سالاروں سے کہا۔’’اتنے مضبوط قلعے پر وقت اور طاقت خرچ کرنا محض بیکار ہوگا۔پہلے اس دشمن کو ختم کرنا ہے جو قلعے کے باہر ہے۔‘‘خالدؓنے اپنی تمام سپاہ کو ترتیب میں کیا۔عیاض کی سپاہ میں جو مجاہدین نوجوان اور جوان تھے، انہیں الگ کرکے اس طرف بھیج دیاجدھر ایک راستہ عرب کی سمت جاتا تھا۔خالدؓ نے ان جوانوں سے کہا کہ دشمن اِدھر سے بھاگنے کی کوشش کرے گا ،اُسے زندہ نہ نکلنے دیا جائے۔خالدؓ نے کچھ دستے اپنی زیرِ کمان لے کر ایک عیسائی سردار جودی بن ربیعہ کے مقابل رکھے اور عیاضؓ کو کچھ دستے دے کر دشمن کے دو سرداروں ابنِ حدر جان اور الایہم کے دستوں کے سامنے کھڑا کر دیا۔اپنے دونوں سالاروں عاصم بن عمرو اور عدی بن حاتم کو حسبِ معمول پہلوؤں پررکھا۔*

*جزاکم اللہ خیرا۔*

*جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔👇🏻
*اسلامک ہسٹری*

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─