┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

*《▪♡ شمشیرِ بے نیام ♡▪》*

*حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ*
 
*( قسط نمبر-46)*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*اس نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ فارس کی فوج مسلمانوں کو روکنے میں نہ صرف ناکام رہی ہے بلکہ سپاہیوں نے اپنے اوپر مسلمانوں کی دہشت طاری کرلی ہے۔اس خطرے کو ختم کرنے اور اپنی نفری بڑھانے کیلئے اس نے عیسائی اور دیگر عقیدوں کے قبیلوں کو عین التمر میں اکٹھا کرلیاتھا۔*
*ان میں بنی تغلب ،نمر اور ایاد کے قبیلے خاص طور پر قابلِ ذکر تھے ۔یہ سب عرب کے بدو تھے۔ان کے سردار عقہ بن ابی عقہ اور ہذیل تھے۔یہ دونوں اس وقت کے مانے ہوئے جنگجو تھے،یہ قبیلے کسریٰ کی رعایا تھے۔ایک تو وہ خود اپنے آقاؤں کو خوش کرنا چاہتے تھے ،دوسرے یہ کہ مہراں بن بہرام نے انہیں بہت زیادہ مراعات اور انعامات دینے کا وعدہ کیا تھا اور فارس سے وفاداری کی تیسری وجہ یہ تھی کہ ان قبیلوں کے سرداروں اور دیگر بڑوں کو احساس تھا کہ مسلمان صرف ملک فتح کرنے نہیں آئے بلکہ وہ ان کے عقیدوں پر حملہ کرنے آئے ہیں اور ان پر اپنا عقیدہ مسلط کریں گے۔اس رات عین التمر میں بہت بڑی ضیافت دی گئی،یہ جشن کا سماں تھا،ایران کی بڑی حسین ناچنے اور گانے والیاں اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔یہ ضیافت ان بدوی قبیلوں کے سرداروں اور سرکردہ افراد کے اعزاز میں دی گئی تھی۔شراب پانی کی طرح بہہ رہی تھی۔ان بدوؤں نے ایسی ضیافت اور ایسی عیاشی کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھی تھی۔بڑی خوبصورت اور جوان عورتیں انہیں شراب پلا رہی تھیں اور ان کے ساتھ فحش حرکتیں بھی کر رہی تھیں۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اس کیفیت میں جب ان پر شراب اور عورت کا نشہ طاری تھا ،بدوی قبیلوں کے ایک سردار عقہ بن ابی عقہ نے مہراں بن بہرام سے کہا کہ وہ اپنی فوج کو پیچھے رکھے اور بدوی قبیلے آگے جا کر مسلمانوں کو عین التمر سے دور جا کر روکیں گے۔’’اگر تم ایسا ہی بہتر سمجھتے ہو تو میں اعتراض نہیں کروں گا۔‘‘مہراں بن بہرام نے کہا۔’’لیکن مجھے ڈر ہے کہ تمہارے قبیلے ہماری فوج کے بغیر نہیں لڑ سکیں گے۔‘‘’’ہم عربی ہیں۔‘‘عقہ نے کہا۔’’عربوں سے لڑنا صرف ہم جانتے ہیں۔عرب کے ان مسلمانوں سے ہمیں لڑنے دو۔فارسیوں نے ان کے مقابلے میں آکر دیکھ لیا ہے۔‘‘مشہور مؤرخ طبری نے مہراں اور عقہ کی یہ گفتگو ان ہی کے الفاظ میں اپنی تاریخ میں شامل کی ہے۔’’میں تسلیم کرتا ہوں۔‘‘مہراں بن بہرام نے کہا۔’’تمہاری بہادری کو میں تسلیم کرتا ہوں عقہ!جس طرح ہم عجمیوں کے خلاف لڑنے کے ماہر ہیں اسی طرح تم عربوں کے خلاف لڑنے میں مہارت رکھتے ہو۔تم ان عربی مسلمانوں کو کاٹ پھینکنے کیلئے آگے چلے جاؤ۔میری فوج تمہارے قریب ہی کہیں موجود ہوگی۔جوں ہی ضرورت پڑی ہم تمہاری مدد کو پہنچ جائیں گے۔‘‘رات گزر گئی۔صبح فارس کی فوج کے دو سالار مہراں بن بہرام کے پاس گئے۔’’رات کو ہم نے آپ کی اور عقہ کی بات چیت میں دخل دینا مناسب نہ سمجھا۔‘‘ایک سالار نے کہا۔’’ہم نے بولنے کی ضرورت اس لئے بھی نہ سمجھی کہ رات کی یہ بات چیت نشے کی حالت میں ہو رہی تھی۔‘‘*

*’’میں پوری طرح ہوش میں تھا۔‘‘مہراں نے کہا۔’’کہو،کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘’’آپ نے جو انبدوی قبیلوں کو اہمیت دی ہے یہ ہمارے لیے اچھی نہیں۔‘‘سالار نے کہا۔’’کیوں اچھی نہیں؟‘‘’’اس سے ان قبیلوں کو یہ تاثر ملا ہے کہ ہم مسلمانوں سے ڈرتے ہیں۔‘‘سالار نے جواب دیا۔’’یا یہ کہ ہم کمزور ہیں۔یہ لوگ اتنی اہمیت کے قابل نہیں۔‘‘’’اگر بدوی قبیلوں نے مسلمانوں کو شکست دے دی۔‘‘دوسرے سالار نے کہا۔’’تو کہا جائے گا کہ یہ فتح ان قبیلوں کی ہے اور اگر یہ نہ ہوتے تو ہم ایک اور شکست سے دوچار ہوتے۔‘‘’’میں نے انہیں جو اہمیت دی ہے یہ آخر تمہیں ملے گی۔‘‘مہراں نے کہا۔’’کیا تم تسلیم نہیں کرتے کہ ہم پر حملہ کرنے وہ شخص آرہا ہے جس نے ہمارے نامور سالاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے،اور اُس )خالدؓ(نے فارس کی شہنشاہی کی بنیادیں ہلاڈالی ہیں؟میں اس اعتراف سے نہیں شرماؤں گا کہ تم خالد کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔میں نے کچھ سوچ کر ان بدوی قبیلوں کو آگے جانے کی اجازت دی ہے۔اگر انہوں نے مسلمانوں کو شکست دے دی تو یہ تمہاری فتح ہوگی۔یہ بدوی قبیلے ہماری رعایا ہیں،اگر یہ مسلمانوں کو شکست نہ دے سکے اور پسپا ہو گئے تو ہم مسلمانوں پر اس حالت میں حملہ کریں گے کہ وہ تھک کر چور ہو چکے ہوں گے اور ہماری فوج تازہ دم ہوگی۔‘‘دونوں سالاروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔ان کے چہروں پر رونق آگئی تھی۔اپنے حاکم کی یہ چال انہیں بہت پسند آئی تھی۔خالدؓ مجاہدین کے لشکر کو لے کر عین التمر کی طرف جا رہے تھے۔انہوں نے دریائے فرات عبور کیا اور بڑی تیزرفتار سے دریا کے کنارے پیشقدمی جاری رکھی۔انہوں نے دیکھ بھال کیلئے جوآدمی آگے بھیج رکھے تھے ،وہ اپنی اطلاعیں قاصدوں کے ذریعے بھیج رہے تھے۔انبار میں خالدؓ اپنے ایک نائب سالار زبرقان بن بدر کو چھوڑ آئے تھے۔عین التمر دس میل دور رہ گیا تھا ۔جب جاسوس اور دیکھ بھال کرنے والے دوسرے آدمی پیچھے آگئے۔انہوں نے خالدؓ کو اطلاع دی کہ ذرا ہی آگے ایک بہت بڑا لشکر پڑاؤڈالے ہوئے ہے اور یہ لشکر فارس کانہیں بلکہ بدوی قبیلوں کا ہے۔اس لشکر کا سالارِ اعلیٰ عقہ بن ابی عقہ اور اس کا نائب ہذیل ہے۔خالدؓ نے اپنے لشکر کو روک لیااور خود آگے دیکھنے گئے۔انہوں نے چھپ کر دیکھا۔انہیں کسریٰ کی فوج کہیں بھی نظر نہیں آئی۔یہ لشکر بدوی قبیلوں کا تھا ۔خالدؓ کا لشکر ابھی کوچ کی ترتیب میں تھا۔جو دراصل ترتیب نہیں تھی ۔منزل ابھی دس میل دور تھی۔ابھی لشکر قافلے کی صورت میں چلا آرہا تھا،عین التمر پہنچ کر شہرکو محاصرے میں لینا تھا لیکن راستے میں ایک انسانی دیوار آگئی جو مسلمانوں کیلئے غیر متوقع تھی۔مؤرخوں نے ان قبیلوں کی تعداد نہیں لکھی سوائے اس کے کہ وہ تعداد میں مدینہ کے مجاہدین سے خاصے زیادہ تھے۔عین التمر کی اپنی فوج اس تعداد کے علاوہ تھی۔اس طرح مسلمانوں کا مقابلہ کم از کم تین گناطاقتور دشمن سے تھا۔خالدؓ نے فوراً اپنے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔پہلے کی طرح وہ خود قلب میں رہے اور اپنے دونوں تجربہ کار سالاروں عاصم بن عمرو اور عدی بن حاتم کو دائیں اور بائیں پہلوؤں میں رکھا۔خالدؓ نے تمام سالاروں کو اپنے پاس بلایا۔*

*’’ہماری ترتیب وہی ہے جو آمنے سامنے کے ہر معرکے میں ہواکرتی ہے۔‘‘خالدؓ نے سالاروں سے کہا۔’’لیکن لڑنے کا طریقہ مختلف ہوگا۔اب قلب سے حملہ نہیں ہوگا۔میرا اشارہ ملتے ہی دونوں پہلو دشمن کے پہلوؤں پر ہلّہ بول دیں اور وہاں دشمن کو پوری طرح الجھا لیں۔تھوڑی دیر بعد اس طرح پیچھے ہٹیں کہ دشمن کو یہ تاثر ملے کہ تم پسپا ہو رہے ہو۔تھوڑا سا پیچھے آکر پھر آگے بڑھواور پھر پیچھے ہٹو،اس طرح دشمن کے پہلوؤں کو آپس میں الجھائے رکھنا کہ اپنے قلب کی انہیں ہوش نہ رہے۔میں سیدھا دشمن کے قلب پر حملہ کروں گا لیکن کچھ دیر بعد۔تم دونوں اس کوشش میں رہنا کہ دشمن کے پہلوؤں سے اس کے قلب کو مدد نہ مل سکے۔*
*‘‘’’ولید کے بیٹے!‘‘دشمن کی طرف سے للکار سنائی دی۔’’آنکھیں کھول……دیکھ تیری موت تجھے کس کے سامنے لے آئی ہے……میں عقہ ہوں ……عقہ بن ابی عقہ!‘‘’’ولید کا بیٹا دیکھ چکا ہے!‘‘خالدؓنے گھوڑے پر سوار ہو کر اور رکابوں میں کھڑے ہوکر للکار کاجواب دیا۔’’تیری مکروہ آواز سنے بغیر دیکھ لیا ہے……کیا کسریٰ کے سالاروں نے محل میں ناچنا اور گانا شروع کر دیا ہے کہ ان کی لڑائی تم لڑنے آگئے ہو؟‘‘’’ابن ولید!‘‘عقہ کی للکار بلند ہوئی۔’’کیا توزندہ واپس جانے کا خواہش مند نہیں؟‘‘’’میں زندہ واپس جاؤں گا۔‘‘خالدؓنے گلا پھاڑ کر کہا۔’’خدا کی قسم!تیرے سر کو تیرے جسم سے الگ کرکے جاؤں گا۔‘‘خالدؓ اپنے سالاروں کی طرف متوجہ ہوئے۔’’ربِ کعبہ کی قسم!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’میں عقہ کو زندہ پکڑوں گا پھر اسے زندہ نہیں رہنے دں گا……تم سب اپنے اپنے دستوں تک پہنچو اور سب کو بتاؤ کہ آج تمہارا مقابلہ دو فوجوں کے ساتھ ہے۔ایک یہ فوج ہے جو تمہارے سامنے سیاہ پہاڑ کی مانند کھڑی ہے اور ایک وہ فوج ہے جو شہر کے اندر ہے یا کہیں روپوش ہے اور نہ جانے کی طرف سے تم پر حملہ کر دے گی۔سب کو بتا دو کہ آج جس نے پیٹھ دکھائی وہ اﷲ کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔‘‘مؤرخ لکھتے ہیں کہ مدینہ کے مجاہدین مسلسل لڑ رہے تھے اور کوچ کر رہے تھے،اور ان کی تعداد بھی کم تھی۔عین التمر میں دشمن کو للکار کر خالدؓ بظاہر غلطی کر رہے تھے لیکن خالدؓکے چہرے پرسنجیدگی ضرور تھی،پریشانی کی ہلکی سی بھی جھلک نہیں تھی۔انہیں دشمن للکار رہا تھا۔خالدؓ نے اشارہ دے دیا۔ایک پہلو سے سالار عاصم بن عدی اور دوسرے پہلو سے سالار عدی بن حاتم نے بدوی قبیلوں لے لشکر کے پہلوؤں پر حملہ کر دیا۔عقہ بن ابی عقہ اپنے لشکر کے قلب میں تھا اور اس کی نظر مسلمانوں کے قلب پر تھی جہاں خالدؓ تھے ،اسے توقع تھی کہ دستور کے مطابق سامنے سے قلب کے دستے حملہ کریں گے مگر خالدؓ دستور سے ہٹ گئے تھے،دونوں فوجوں کے پہلو جب گتھم گتھا ہوئے تو تھوڑی دیر میں اپنی اڑائی ہوئی گرد میں چھپ گئے تھے۔اس گرد سے گھوڑوں کے ہنہنانے ،تلوار اور ڈھالوں کے ٹکرانے کی مہیب آوازیں اور زخمیوں کی کرب ناک صدائیں اٹھ رہی تھیں۔ایک قیامت تھی جو گرد کے اندر بپا تھی۔پہلوؤں کے دونوں سالاروں نے خالدؓ کی ہدایت کے مطابق اپنے دستے پیچھے ہٹائے ۔بدوی قبیلے اس خوش فہمی میں مسلمانوں کے پیچھے گئے کہ مسلمان پسپا ہو رہے ہیں۔وہ جوش و خروش سے نعرے لگا رہے تھے لیکن مسلمان رک گئے اور انہوں نے دشمن پر ایسا دباؤ ڈالا کہ وہ پیچھے ہٹنے لگے۔*

*مسلمان ایک بار پھر پیچھے ہٹنے لگے۔بدوی پھر ان کے پیچھے آگئے۔اس طرح مسلمانوں نے دشمن کے پہلوؤں کو ایسا الجھایا کہ انہیں اپنے قلب کی ہوش نہ رہی،گرد اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ اس کے اندر کیا ہو رہا ہے۔خالدؓ بڑی غور سے دیکھ رہے تھے ۔ان کی نظر عقہ پر تھی جو)مؤرخ بلاذری اور طبری کے مطابق(یہ دیکھ دیکھ کر پریشان ہو رہا تھا کہ مسلمانوں کا قلب کیوں آگے نہیں بڑھتا۔مسلمانوں کے قلب کے دستوں کا انداز کچھ ایسا ڈھیلا ڈھالا سا تھا جیسے وہ حملہ نہیں کرنا چاہتے۔عقہ بن ابی عقہ نے جب مسلمانوں کے قلب کے دستوں کو اس لاتعلقی کی سی حالت میں دیکھا تو اس نے مسلمانوں کے پہلوؤں کے دستوں کو کچلنے کیلئے قلب سے خاصی نفری اپنے پہلوؤں کی مدد کیلئے بھیج دی۔خالدؓ اسے اسی دھوکے میں لانا چاہتے تھے جس میں وہ آگیا۔خالدؓ نے اپنے محافظوں کو ساتھ رکھا۔انہیں وہ بتا چکے تھے کہ عقہ کو زندہ پکڑنا ہے۔خالدؓ نے قلب کے دستوں کو دشمن کے قلب پر حملے کا اشارہ دے دیا۔عقہ کیلئے حملہ اچانک اور غیر متوقع تھا۔خالدؓ نے اپنے محافظوں سے عقہ اور اس کے محافظوں کو گھیرے میں لے لیا،عقہ کے محافظ بے جگری سے لڑ رہے تھے ۔مسلمانوں کو وہ قریب نہیں آنے دے رہے تھے۔عقہ ان کے درمیان میں تھا،مسلمانوں کے دستوں نے بدوی قبائلیوں کے پاؤں اکھاڑ دیئے۔عقہ بھاگ نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔’’سامنے آ عقہ!‘‘خالدؓ نے اسے للکارا۔’’تو مجھے قتل کرنا چاہتا تھا۔‘‘بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خالدؓنے کمند پھینک کر عقہ کو پکڑ لیا۔لیکن مؤرخوں کی اکثریت کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ عقہ خالدؓ کی للکار پر مقابلے میں آگیا۔دونوں گھوڑوں پر سوار تھے۔عقہ کو تاریخ کے ماہر جنگجو اور تیغ زن قرار دیا ہے۔مستند یہی ہے کہ خالدؓ اور عقہ کے درمیان بڑا سخت مقابلہ ہوا۔خالدؓ کو اﷲکے رسولﷺ نے اﷲکی تلوار کا خطاب عطا کیا تھا۔انہوں نے عقہ کا ہر وار بچایااور موقع کی تلاش میں رہے۔انہیں جوں ہی موقع ملا،عقہ کو گھوڑے سے گرادیا۔خالدؓ اپنے گھوڑے سے کود کر اترے۔عقہ ابھی سنبھل ہی رہا تھا کہ خالدؓکی تلوار کی نوک عقہ کے پہلو کے ساتھ لگ چکی تھی۔اس کے ساتھ ہی خالدؓ کے تین چار محافظوں نے برچھیوں کی انّیاں عقہ کے جسم کے ساتھ لگا دیں۔عقہ نے ہتھیار ڈال دیئے۔اس کے کئی محافظ ہلاک اور زخمی ہو چکے تھے۔جو بچ گئے وہ بھاگ اٹھے۔فوراًیہ خبر بدوی قبائل تک پہنچ گئی کہ ان کا سردارِ عالیٰ ہتھیار ڈال چکا ہے۔یہ افواہ بھی پھیل گئی کہ عقہ مارا گیا ہے۔اِدھر مسلمانوں کے سالار عاصم اورعدی دشمن کے پہلوؤں کے دستوں کا بہت نقصان کر چکے تھے۔اس خبر کے ساتھ ہی کہ عقہ مارا گیا یا پکڑا گیا ہے ،پہلوؤں کے سپاہی پسپا ہونے لگے۔تھوڑی دیر تک صورتِ حال یہ ہو گئی کہ بدوی ایک ایک دو دو،عین التمر کی طرف بھاگے جا رہے تھے۔*

*عقہ خالدؓ کا قیدی تھا لیکن وہ پریشان نہیں تھا۔اسے توقع تھی کہ عین التمرکی فارسی فوج اس کی مدد کیلئے پا بہ رکاب ہوگی،اور آہی رہی ہوگی۔وہ مسلمانوں کی حالت دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہاتھا،مسلمان تھک کر نڈھال ہو چکے تھے،خالدؓ نے اپنے قاصدوں کو بلایا۔*
*’’تمام سالاروں اور کمانداروں کو پیغام دو کہ بدوی لشکر کی پسپائی کو ابھی اپنی فتح نہ سمجھیں۔‘‘خالدؓ نے قاصدوں سے کہا۔’’ابھی مالِ غنیمت کی طرف بھی نہ دیکھیں،ایک اور فوج آرہی ہے۔وہ تازہ دم ہوگی۔اس کے مقابلے کیلئے تیار رہو۔‘‘یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ مہراں بن بہرام کی فوج کس طرف سے آئے گی یا وہ عین التمر میں قلعہ بند ہو کر لڑے گی۔اس فوج پر نظر رکھنے کیلئے مثنیٰ بن حارثہ اپنے چھاپہ مار دستے کے ساتھ عین التمر تک کے علاقے میں موجود اور متحرک تھا،اس نے خالدؓ کو بار بار یہی پیغام بھیجا تھا کہ آتش پرستوں کی فوج کہیں بھی نظر نہیں آرہی۔پھر اس کا یہ پیغام خالدؓ تک پہنچا کہ عقہ کے قبائلی خوف و ہراس کی حالت میں بھاگ بھاگ کر عین التمر میں پناہ لے رہے ہیں۔مثنیٰ بن حارثہ کے چھاپہ مار بھاگنے والے بدوی قبیلوں کا تعاقب کرکے انہیں مار رہے تھے۔جب عقہ کے پہلے چند ایک آدمی عین التمر میں داخل ہوئے تو انہیں مہراں کے پاس لے گئے۔’’تم موت سے بھاگ کر آئے ہو۔‘‘مہراں نے انہیں کہا۔’’کیا تم نہیں جانتے کہ یہاں بھی تمہارے لیے موت ہے؟اس نے حکم دیا۔لے جاؤان بزدلوں کو اور انہیں قتل کر دو۔‘‘’’کس کس کو قتل کرو گے؟‘‘ایک بدوی نے پوچھا۔’’پہلے عقہ کو قتل کرو۔‘‘جس نے ہتھیار ڈال کر سارے لشکر میں بزدلی پھیلائی۔‘‘دوسرےنے کہا۔’’مسلمانوں نے جس طرح حملے کیے انہیں ہمارے سردار سمجھ ہی نہ سکے۔‘‘ایک اور نے کہا۔انہوں نے میدانِ جنگ کی صورتِ حال ایسے رنگ میں پیش کی کہ مہراں گھبرا گیا۔مسلمانوں کے لڑنے کے جذبے اور جوش و خروش کو انہوں نے مبالغے سے بیان کیا اور بتایا کہ اپنا جو لشکر مسلمانوں کے ہاتھوں کٹنے سے بچ گیا ہے ،شہر کی طرف بھاگا آرہا ہے۔*
*’’تو کیا ہمارے لیے یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ہم مسلمانوں کو وہاں لے جا کر کاٹیں جہاں ان کا دم ختم ہو چکا ہو؟‘‘مہراں بن بہرام نے اپنے سالارں سے کہا۔’’پھر وہ پسپا ہونے کے بھی قابل نہیں رہیں گے۔‘‘’’کیا سوچ کر آپ نے یہ بات کہی ہے؟‘‘ایک سالار نے کہا۔’’اتنا بڑا شہر چھوڑ کر ہم چلے جائیں گے تو یہ پسپائی ہوگی،یہ کہیں کہ آپ پر مسلمانوں کا خوف طاری ہو گیا ہے اور آپ یہاں سے بھاگنا چاہتے ہیں۔‘‘’’جو میں سوچ سکتا ہوں وہ تم نہیں سوچ سکتے۔‘‘مہراں نے شاہانہ رعب سے کہا۔’’میں یہاں کا حاکم ہوں۔جاؤ،میرے اگلے حکم کا انتظار کرو۔‘*

*سالار خاموشی سے چلے گئے۔وہ سالار تھے۔شہر کا دفاع ان کی ذمہ داری تھی۔وہ مسلمانوں کو شہر پیش کرنے کے بجائے لڑ کر مرنا بہتر سمجھتے تھے۔انہوں نے آپس میں طے کر لیا کہ وہ مہراں کا یہ حکم نہیں مانیں گے ،لیکن میدانِ جنگ سے بھاگ کر آنے والے بنی تغلب،نمر اور ایادکے آدمی ٹولیوں میں شہر کے دروازے میں داخل ہو رہے تھے ،وہ دس میل کی مسافت طے کر کے آئے تھے جو انہوں نے خوف اور بھگدڑ کی کیفیت میں طے کی تھی۔ان میں بعض زخمی تھے۔’’کاٹ دیا……سب کو کاٹ دیا۔‘‘وہ گھبراہٹ کے عالم میں کہہ رہے تھے۔’’ان کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔بڑے زبردست ہیں۔‘‘’’عقہ بن ابی عقہ مارا گیا ہے۔‘‘وہ شہر پر خوف طاری کر رہے تھے۔’’ھذیل لا پتہ ہے۔‘‘’’دروازے بند کر دو۔‘‘بعض چلّا رہے تھے۔’’وہ آرہے ہیں۔‘‘مؤرخوں نے لکھا ہے کہ زرتشت کے پجاریوں پر پہلے ہی مسلمانوں کی دہشت طاری تھی۔مسلمانوں نے ان کے بڑے نامور سالار مار ڈالے تھے،اب عین التمر والے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ یہ جنگجو قبیلے کس حالت میں واپس آرہے ہیں۔دیکھتے ہی دیکھتے اس شہر پر خوف و ہراس طاری ہو گیا۔شہر میں جو فوج تھی اس کی ذہنی حالت ایسے کمزور بزدل کتے جیسی ہوگئی تھی جو دُم پچھلی ٹانگوں میں دبا لیا کرتا ہے۔ان کے سالا روں نے جب اپنی فوج کو اس ذہنی کیفیت میں دیکھا تو انہیں شہر کے حاکم اور سالارِ اعلیٰ مہراں کے اگلے حکم کی ضرورت نہ پڑی۔انہیں یہ اطلاع بھی ملی کہ مہراں خزانہ مدائن بھجوا رہا ہے اور شہر کے لوگ بھی اپنے اموال چھپا رہے تھے یا ساتھ لے کر شہر سے نکل رہے تھے۔خالدؓ کے فن ِ حرب و ضرب کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے میدانِ جنگ میں تو دشمن کو شکست دی ہی تھی ۔دشمن کو انہوں نے نفسیاتی لحاظ سے اتنا کمزور کر دیا تھا کہ اس کے لڑنے کا جذبہ مجروح ہو گیا تھا۔آتش پرستوں کی نفسیاتی کیفیت تو یوں ہو گئی تھی کہ خالدؓ کا یا مسلمانوں کا نام سن کر ہی وہ پیچھے دیکھنے لگتے تھے کہ کمک آ رہی ہے یا نہیں۔یا پسپائی کا راستہ صاف ہے یا نہیں۔پھر وہ وقت جلدی آگیا جب میدانِ جنگ میں لاشیں اور بے ہوش زخمی رہ گئے اور انہیں کچلنے کیلئے وہ گھوڑے رہ گئے جو سواروں کے بغیر بے لگام دوڑتے پھر رہے تھے۔بدوی قبیلے اپنے سرداروں کے بغیر عین التمر جا پہنچے اور شہر کے دروازے بند کر لیے۔انہوں نے شہر میں واویلا بپا کیا کہ مہراں کی فوج وعدے کے مطابق ان کی مدد کو نہیں آئی لیکن وہاں ان کا واویلا سننے والا کوئی نہ تھا۔خوف و ہراس کے مارے ہوئے شہری تھے جو بھاگ نہیں سکتے تھے۔مہراں بن بہرام اپنی فوج سمیت شہر سے جا چکا تھا۔وہ فوج کو مدائن لے کر جا رہا تھا۔وہ عقہ اور ھذیل اور دوسرے قبائلی سرداروں کو کوس رہ
   *اسلامک ہسٹری*
جاری ہے۔۔۔۔۔۔

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─