┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: لو_مان_لیا_ہم_نے
از: فاطمہ_خان
قسط_نمبر_15

"کسی ہوں شہزادی"
فون کے دوسرے طرف وہ یقیناً بالو تھا اس کی آواز سن کر حورین نے فون بند کرنا چاہا پر اس کی آواز میں ایسی تڑپ تھی کہ اس کے دل کو کچھ ہوا 
"کیوں کرتے ہیں آپ فون کیوں میری زندگی میرے لیے مشکل کرنے پر تلے ہوئے ہوں آپ"
وہ جھنجھلا کر بولی 
"کیوں دیتی ہوں مجھے اتنی عزت جب جب تم مجھے آپ کہ کر پکارتی ہوں میرا دل خوشی سے جھوم اٹھنے کو کرتا ہے.. پاگل دل ہے کچھ بھی سوچتا ہے "
اس نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا 
"میرا پیچھا چھوڑ دے"
اس نے تنگ آ کر کہا 
"شہزادی تم نے کبھی محبت کی ہے کیا؟
کبھی کسی کو خدا سے مانگا ہے کیا ؟ میں نے مانگا ہے تمہیں اپنی ہر نماز کے بعد ..."
"آپ جیسے لوگ نماز بھی پڑھتے ہیں کیا"
اس نے اس کی بات کاٹ کر تعجب سے پوچھا
"پہلے ایک عاد مس ہو جاتی تھی پر جب سے تم ملی ہوں ایک نماز بھی مس نہیں کی مجھے لگتا ہے اگر میں نے نماز قضا کر لی تو میں تمہیں کھو دوں گا میں آج سے پہلے کبھی اتنا بے بس نہیں ہوا جتنا تمہیں دیکھنے کے بعد سے ہوا ہوں جانتی ہوں میں نماز کے بعد جب جب ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتا ہوں تم سب سے پہلے میرے سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی ہوں ایسے جیسے تم سچ سچ میں میرے سامنے بیٹھی مجھے دیکھ رہی ہوں میں نہیں جانتا میرا یہ خواب کبھی پورا ہو گا بھی یاں نہیں مگر میں اللّٰہ سے صرف یہی ایک دعا کرتا ہوں مجھے اتنی مہلت ضرور دے کہ میں زندگی کے کچھ پل تمہارے سنگ گزار سکوں"
اس کی آواز میں تڑپ تھی حورین کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا اس کی آواز میں درد تھا دکھ تھا حورین نے کرب سے آنکھیں موند لی 
"آپ جانتے ہوں یہ ناممکن ہے میں آپ جیسے بندے کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے کا سوچ بھی نہیں سکتی "
اس نے بالو کے دل پر وار کیا اس کے الفاظ نے بالو کے دل کو چیڑ ڈالا وہ تڑپ اٹھا تھا
"ایسے مت کہو میں موت سے پہلے مر جاؤ گا "
"آپ سہراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں میں مر کر بھی آپ جیسے انسان کا ساتھ قبول نہیں کر سکتی"
"مجھ جیسے انسان ...کیسا انسان ہوں میں کیا جانتی ہوں میرے بارے میں کچھ بھی تو نہیں پر ایک بات میں تمہیں لکھ کر دینے کو تیار ہوں کہ ایک دن تمہیں مجھ سے محبت نہیں عشق ہو گا شہزادی اس دن تم میرے لیے رو گی تڑپو گئی یہ میرا وعدہ ہے تم سے...اپنا حیال رکھنا خدا خافظ"
اس نے اپنی بات کہ کر فون بند کر دیا حورین نے بےبسی سے موبائل کو دیکھا ایسا کیا تھا بالو میں جو حورین اس کی طرف کھینچتی جا رہی تھی وہ آوارہ انسان تھا گلی محلے کا غنڈہ مگر اس کی باتیں وہ باتوں سے بلکل بھی ایسا نہیں لگتا تھا ایسے لوگ نمازیں بھی پڑھتے ہیں یہ بات اس کے لیے حیرت کے باعث تھی 
" مجھے لگتا ہے اگر میں نے نماز مس کر لی تو میں تمہیں کھو دوں گا"
حورین کو بالو کے لیے الفاظ یاد آئے کتنی تڑپ تھی اس کے لہجے میں وہ جان کر بھی جان نہیں پائی تھی
اچانک فون پر سے بجا اس نے نمبر دیکھا کوئی انجانا نمبر تھا اسے لگا بالو ہی ہو گا 
"اب کیا ہے "
اس نے فون کان نے لگا کر غصے سے کہا 
"آسلام علیکم میں دامیر بات کر رہا ہوں حور انکل کا پتا کرنے کے لیے فون کیا تھا مگر لگتا ہے آپ کافی غصے میں ہے"
دوسری طرف دامیر تھا حورین کا منہ حیرت سے کھولا کا کھولا رہ گیا 
"آپ کے پاس میرا نمبر کہاں سے آیا"
اس نے دل کی بات زبان پر لے ہی آئی دامیر دھیرے سے مسکرایا 
"آپ نے شاید سنا نہیں ڈھونڈنے سے توخدابھی مل جاتا ہے یہ تو پھر بھی بہت معمولی سا کام تھا "
اس نے بےفکری سے جواب دیا
"یہ آپ کے لیے معمولی بات ہو گئی میرے لیے نہیں آج سے پہلے تک میرا نمبر کبھی کسی کے پاس نہیں تھا اب یوں اچانک سے ہر کسی کے پاس میرے نمبر کا موجود ہونا میرے لیے حیرت کی بات ہے"
اس نے حاصے ناگواری سے جواب دیا
"ہر کسی کے پاس سے آپ کا کیا مطلب ہے حورین مجھے باتیں کوئی مسلئہ ہے کیا"
اس نے فکرمندی سے پوچھا
"آپ کون ہوتے ہیں میرے معملات میں دخل اندازی کرنے والے "
حورین پہلے ہی بھری بیٹھی تھی اس کی بات سن کر غصہ میں بولی
"آپکا ہمدرد آپ کا حیر خواہ ہوں میں اگر آپ سمجھے تو "
انداز آپ بھی بےفکری والا تھا 
"دامیر سر آپ میرے ٹیچر ہے میرے لیے بہت محترم ہے ایسی حرکتیں کر کے خود کو میری نظروں میں گرا رہے ہیں"
اس نے حاصے بد تمیزی سے جواب دیا"مس حورین اصولن تو مجھے آپ کی یہ ساری باتیں بری لگنی چاہیے تھی مگر مجھے بری لگ نہیں رہی ہاں بس میرا دل بے ایمانی کرنے لگا ہے کہ کاش میں اس وقت آپ کے رو بہ رو ہوتا اور آپ کو ایسے غصے میں دیکھ سکتا میں شرطیہ یہ بات کہنے کو تیار ہوں آپ غصے میں اور بھی خوبصورت لگتی ہوں گئی"
اس سے پہلے کہ وہ کوئی اور فضول بات کرتا حورین نے غصے سے فون کاٹ کر بیڈ پر پھینک دیا اور اپنا سر ہاتھوں میں لے کر بےبسی سے آنسو بہانے لگی وہ ان دو دو عذابوں سے تنگ آ گئی تھی جہنوں نے اس کا جینا حرام کر کے رکھ دیا تھا بالو اور دامیر دونوں ایک دوسرے سے بھر کر چیپکو ثابت ہو رہے تھے 
           .........................................
"اسلام علیکم دامیر بھائی کیسے ہیں آپ"
وہ آج دامیر سے ملنے اس کے گھر آیا تھا 
"وعلیکم السلام میں تو ٹھیک ٹھاک ہوں تم سناؤ آج میری یاد کیسے آ گی "
"کیوں میں آپ کے گھر آپ سے ملنے نہیں آ سکتا کیا"
اس نے ناراضگی سے کہا
"میں نے ایسا تو کب نہیں کہا پہلے یہ باتوں کیا کھاؤ گے پہلے کچھ کھانے کو مانگوں باتیں تو ساتھ ساتھ ہوتی رہے گی"
اس نے میزبانی نھبائی 
"بس ایک گپ چائے ساتھ اور کچھ بھی نہیں"
"تکلف بھرتے کی کوئی ضرورت نہیں تم بیٹھو میں بس ابھی آتا ہوں"
وہ کہ کر اندار چلا گیا اس نے اردگرد کا جائزہ لیا وہ بہت کم یہاں آیا تھا 
"ہاں اور سناؤ پڑھایا کیسی جا رہی ہے"
اس نے اندار آ کر پوچھا
"سب ٹھیک ہے لاسٹ سمیسٹر جا رہا ہے پھر اس کے بعد آسٹریلیا جانے کا ارادہ ہے"
اس نے تفصیل سے جواب دیا
"ماشاءاللہ یہ تو بہت اچھی بات ہے"
"آپ نے مجھے مبارک باد نہیں دی "
"کس بات کی "
دامیر نے حیرانی سے پوچھا
"میری بات پکی ہونے کی اتنی اہم بات زالان بھائی نے آپ کو تو ضرور بتائیں ہو گئی ناں"
اس نے دامیر کی طرف غور سے دیکھ کر کہا اسے سن کر حیرت ہوئی
"یہ کیا کہ رہے ہوں تم کس سے ہوئی بات پکی"
دامیر کا دل دھڑک اٹھا کہی ... وہ اس سے آگے سوچنا نہیں چاہتا تھا 
"اپنی زرشالہ سے "
اس نے مزے سے کہا
دامیر نے سر اٹھا کر اسے دیکھا جیسے اسے آنے میں غلطی ہو گئی ہوں 
"یقین نہیں آ رہا زالان بھائی کو آپ کو تو بتانا چاہئے تھا مگر وہ کیوں بتائیں گے وہ تو خود ابھی تک شاک سے نہیں نکلے تو "
اس نے تلخی سے مسکرا کر کہا
"او مبارک ہو شاید زالان بتانا بھول گیا ہو گا"
"بس کر جائے بھائی زالان بھائی بتانا نہیں بھولے وہ یہ سب بتا ہی نہیں سکتے ان کی زرشالہ کسی اور کی ہونے جا رہی ہے یہ بات وہ برداشت نہیں کر پا رہے مگر ان کی سو کولڈ آنا انہیں یہ سب کہنے سے منا کر رہی ہے انہیں زرشالہ سے محبت ہے وہ ان کے بنا ادھورے ہے "
بہروز نے چائے کا گپ ہونٹوں سے لگا کر سکون سے جواب دیا 
"یہ .. یہ سب کیا کہ رہے ہوں تم"
دامیر اس کی بات پر بھوکھلا کر رہ گیا 
"وہی جو سچ ہے پلیز بھائی میں بچہ نہیں ہو ناں مجھے بچہ بنائے آپ بھائی ہے وہ میرے اچھے سے جانتا ہوں انہیں اپنی جان سے بڑھ کر عزیز ہے وہ مجھے ان کی خاطر دو سال کے لیے آسٹریلیا جا رہا ہوں یہ فیصلہ کرنا میرے لئے بہت مشکل تھا مگر میں اگر ہاں نہ کرتا تو داجی میرے انکار سن کر غصے میں آجاتے پھر غصے میں وہ زرشالہ کو کسی سے بھی باندھ دیتے ہر کوئی میری طرح بھائی کے دل کا حال نہیں جانتا جو ان کے لیے قربانیاں دیتا پھرے گا"
اس نے چائے کا گپ سائیڈ پر رکھ کر سنجیدگی سے جواب دیا دامیر اس کی بات سن کر کچھ وقت تک حیران رہ گی جو بات زالان خود سے چھپاتا پھر رہا تھا وہ بہروز کتنے یقین سے کہ رہا تھا 
واقعی عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے 
"تم یہ سب کیسے جانتے ہوں"
دامیر پوچھے بنا ناں رہ سکا 
"اس بات کو جانے دے بس آپ کو ان سب میرا ساتھ دینا ہوں گا وہ وہاں جا کر انکار کر دوں گا مگر اس سے پہلے آپ کو بھائی کا مائنڈ بنانا ہے کہ وہ زرشالہ کو اپنانے کے لیے تیار ہو جائے انہوں نے کوئی گناہ نہیں کیا ھو یوں چھپتے پھر رہے ہیں اگر پھر بھی نہیں مانے تو ٹھیک ہے میں ضد میں آکر زرشالہ سے شادی کر لوں گا یاد رکھیے گا"
اس نے آخر غصے سے کہا 
"تم پریشان مت ہو شکر ہے تمہیں سب پتا ہے وہ تو بےوقوف ہے کہتا ہے وہ اپنے اور زرشالہ کے رشتے کو گالی نہیں بنانا چاہتا "
"کوئی گالی نہیں بنے گی گھر والے بھی یہی چاہتے تھے"
"جانتا ہوں میں شکر کروں تمہاری جان اس فتنے سے بچنے والی ہے قسم سے بندے کی ناک میں دم کر کے رکھ دیتی ہے مجھے تو کلاس میں پاگل کیا ہوا ہے زالان کی ہی ہمت ہے برداشت کرنے کی"
دامیر نے ہنس کر اس کے کارنامے بتائیں
"ہاہاہا واقعی بھائی بہت فتنہ چیز ہے تبھی تو بھاگ کر جا رہا ہوں"
بہروز نے قہقہہ لگا کر کہا 
"بہروز مجھے آج تم پر فخر ہے دنیا میں بہت کم بھائی تمہاری طرح ہوتے ہیں جو اپنے بھائی کی خوشیوں کے لیے اپنوں کی دوری برداشت کرنے جا رہا ہے"
دامیر نے اٹھ کر اسے گلے لگایا
" ہم سب کی جان بستی ہے ایک دوسرے میں دامیر بھائی تکلیف ایک کو ہوتی ہے درد سب کو ہوتا ہے میں اتنا خود غرض نہیں ہو کہ آپنے بھائی کی خوشیوں کو چھین لوں دنیا لڑکیوں سے بھری پڑی ہے میرے لیے بھی اللہ نے اچھی سی لڑکی لکھی ہو گئی وہ وہ زرشالہ کبھی نہیں ہو سکتی اسے تو میں نے ہمیشہ بھابھی اور بہن کے روپ میں دیکھا ہے"
اس کے لہجے میں اپنوں کے لیے بےتحاشہ پیار تھا 
"اب آپ بھی شادی کر دے "
اس نے جاتے جاتے دامیر کو مشورہ دیا
"بس دعا کروں میری بھی بات بن جائے"
دامیر نے اسے ساتھ لگا کر مصافحہ کیا 
"بس جلدی کیجیے گا کہی آپ بھی بھائی کی طرح اپنی آنا کی خاطر اپنی خوشیاں اپنے ہاتھوں سے نا چھین لے... اور ہاں ابھی بھائی کو کچھ مت بتائیں گا ان کو ان کی اس خاموشی کی تھوڑی سی سزا تو ملنی چاہئے ناں"
بہروز نے ہنس کر شرارت سے کہا دامیر نے بھی مسکرا کر سر ہلایا آج وہ زالان کے لیے بہت خوش تھا اللہ نے اسے بہت ہی خوبصورت رشتوں سے نوازا تھا کتنا خوش قسمت تھا وہ کہ اس کے اپنے اسے اس کی خوشیاں دینے کے لیے بے چین تھے 
                ........................
وہ سب اس وقت ام کے درخت کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے دوپہر کا وقت تھا گرمی اپنے عروج پر تھی پر انہیں گرمی کی کوئی پرواہ نہیں تھی عمار اپنے کمرے سے سٹینڈ والا پنکھا لے آیا تھا جو ہلکی ہلکی ہوا دینے کا کام سر انجام دے رہا تھا آج وہ لوگ بات پکی ہونے کے بعد پہلی بار ساتھ بیٹھے تھے پر کسی پر بھی نئے رشتے کے حوالے سے کوئی فرق نہیں آیا تھا وہ ابھی بھی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے سے باز نہیں آ رہے تھے 
"یاروں آج کیا خیال ہے کچے آم نہ تورے جائے"
ولید نے گھانس پر لیٹے ہوئے مشورہ دیا
"وہاں کیا زبردست خیال ہے چلو اٹھو درخت پر چڑھوں "
عمار نے خوش ہو کر کہا
"ناں بابا ناں مجھے تو معاف ہی رکھوں پیچھلی بار گرتے گرتے بچا تھا میں"
ولید نے اٹھ کر ہاتھ جوڑ کر کہا 
"ڈرپوک نہ ہوں تو "
افشاں نے افسوس سے سر ہلایا
"ہاں میں تو ڈرپوک ہوں تم چڑھ کر باتوں ناں میں بھی دیکھوں کتنی بہادر ہوں"
افشاں شروع سے اونچائی سے ڈرتی تھی اس لیے وہ آج تک کبھی بھی درخت پر نہیں چڑھی تھی 
"میں کیوں تم سب مردوں کے ہاتھ پاؤں توٹ گئے ہیں کیا جو میں چڑھوں"
اس نے منہ بنا کر کہا
"چلو بحث چھوڑوں ہمارا عمار توڑ کر لائے گا کیوں میرے جوان ٹیھک کہا ناں میں نے"
شارق نے اس کے کمر پر تھپکی دے کر اسے جوش دیلایا 
"او رہنے دوں بھائی مجھے زیادہ جوش دلانے کی ضرورت نہیں پیچھلی بار یاد ہے کیسے گرا تھا کتنا خون ضائع ہوا تھا میرا '
اس نے شارق کا ہاتھ جھٹک کر جواب دیا
"بس بس رہنے دوں جھوٹے ماتھے پر ایک چھوٹا سا سراخ ہوا تھا تین چار قطرے بھی نہیں نکلے تھے"
روما نے اسے یاد دلا کر شرم دلائی
"ہاں تو تمہیں کیا پتا ایک قطرہ کتنی محنت سے بنتا ہے '
اس نے روما کو گھور کر ہڈرھرمی سے کہا
"بس چپ کروں تم سب بہروز اٹھو تم "
زرشالہ نے بہروز کو دیکھ کر کہا 
"میں مر کر بھی نہیں چڑھوں گا لاسٹ ٹائم تم سب داجی کے آنے پر مجھے اوپر چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اس کے بعد داجی کا سارا نزلہ مجھ پر گرا تھا اور تم سب میرے آنے سے پہلے ہی وہ کیریاں کھا کر دفع ہو گئے تھے اس بار مجھ سے یہ امید مت رکھنا سمجھی"
وہ اپنی بےعزتی یاد کر کے پھر سے صدمے میں آگیا 
"دفع دور ہو تم سب "
زرشالہ غصے میں بولی 
"تم چڑھ جاؤ ناں زرشالہ بی بی آوروں کو مفت کا مشورہ دینا بہت آسان ہوتا ہے"
عمار نے اسے چھڑا 
"میں "
اس نے اپنی طرف اشارہ کیا 
"ہاں تم "
اس نے بھی اپنے ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کیا 
"جاؤ بھائی پچھلی بار تم سب بھاگ گئے تھے زالان نے مجھے اتنا ڈانٹا تھا ناں بھائی ناں'
اس نے کانوں کو ہاتھ لگا کر جواب دیا
"پر اج بھائی تو گھر پر نہیں ہے وہ دامیر بھائی کے ساتھ باہر نکلے ہیں"
بہروز نے جھوٹ بولا وہ سب جانتے تھے زرشالہ صرف زالان کے ڈر سے نہیں چڑھ رہی تھی کیونکہ پیچھلی بار اس کا پاؤں سلیپ ہو گیا تھا وہ عین زالان کے پاؤں میں آ کر دھڑام سے گر گئی تھی اس کے بعد سے زالان نے اسے سختی سے منا کیا تھا 
"پر میں نے تو انہیں باہر جاتے ہوئے نہیں دیکھا "
"کیا مطلب میں جھوٹ بول رہا ہوں کیا "
بہروز نے آنکھیں دیکھائی شارق اور ولید کی طرف دیکھ کر آنکھ ماری وہ دونوں بھی اس کی چال سمجھ گئے تھے اس بہانے اس کی ڈانٹ پکی تھی ویسے تو زرشالہ ہر بار ڈانٹ سے بچ جاتی تھی 
زرشالہ نے کچھ سوچ کر سر اثبات میں ہلایا 
وہ سب اٹھ کر درخت کے اردگرد کھڑے ہو گئے 
عمار کچھ زیادہ ہی خوش تھا ادھر سے ادھر چکر لگا کر روما کو تنگ کر رہا تھا روما سے رہا نہیں گیا اس نے اپنا پاؤں زور سے اس کے پاؤں پر مارا 
"ہائے اماں ! مجھ پر مخالف سمت سے حملہ ہو گیا بچاؤ"
وہ اپنا پاؤں پکڑ کر زور سے چلایا 
"تمہیں تو خوابوں میں بھی میرے پاؤں کی یاد آتی رہتی ہے آپ دن کی روشنی میں بھی یاد رکھو گے اور خبردار اگر اب میرے اردگرد بھی نظر آئے تھے اس بار اینٹ اٹھا کر سر پر دے ماروں گئی نادیدے کہی کے"
وہ اسے غصے سے گھورتے ہوئے بولی 
"تم دونوں کی چونچ بند نہ ہوئی تو میں نے تم دونوں کو اٹھا کر گھر سے باہر پھینک دینا ہے مرداروں "
شارق نے گردن موڑ کر انہیں گھوری سے نوازا زرشالہ جلدی جلدی اوپر چڑھ رہی تھی افشاں اور رانیہ اندار کی طرف بھاگی چاٹ مصالحہ کے بنا کیریاں کھانے کا کیا مزہ تھا 
بہروز نے فون نکال کر دامیر کو میسج کیا 
"اگر قدرت آپ کو موقع دے کہ آپ اپنے دشمن سے بدلہ لے سکے تو آپ کیا کریں گے"
"تو میں موقع کا پورا پورا فائدہ اٹھاؤ گا اور دشمن کو اس کے کئے کی سزا دلوا کر رہوں گا"
فوراً جواب موصول ہوا بہروز نے مسکرا کر جواب لکھا 
"تو سمجھ جائے آج اللّٰہ نے آپ کو وہ موقع دے دیا ہے جس کا آپ کو بےصبری سے انتظار تھا "
"مطلب"
"مطلب یہ کہ آپ کی اور ہم سب کی جانی دشمن زرشالہ سے بدلہ لینے کا موقع ملے تو.."
"میرا بس چلے اس فتنے کا گلہ دبا دوں مگر میں ایسا کر نہیں سکتا وہ میرے دوست کی پہلی اور آخری محبت ہے "
"میرے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہے اسے پوری عمر بھابھی کے روپ میں نہ دیکھا ہوتا تو اب تک اس کا کام تمام کر چلا ہوتا"
بہروز نے ایک نظر اوپر درخت پر چڑھتی زرشالہ پر ڈال کر مسکرا کر جواب بیجا 
"کام کی بات کروں مجھے تو سوچ سوچ کر خوشی ہو رہی ہے کہ میں اس فتنہ سے بدلہ لینے والا ہوں "
زالان نے مشکوک نظروں سے میر کو دیکھا جو مسکرا مسکرا کر میسجز ٹایپ کر رہا تھا 
"تو بس پھر بھائی کو لے کر پیچھلے والے لان آ جائے آگے جو ہو گا وہ آپ خود دیکھ کر خوش ہو جائے گے یہ میرا وعدہ ہے ..بس آنے سے پہلے مجھے اطلاع ضرور دیجئے گا تاکہ ہم سب یہاں سے غائب ہونے میں ایک سیکنڈ کی دیر نہ کر سکے"
"اگر کسی نے غداری کر دی تو"
"اس کی فکر آپ ناہ کریں' سب کا اس فتنے کی طرف حساب نکلتا ہے کوئی کچھ نہیں کہے گا سب اس دن کا بےصبری سے انتظار کرتے رہے ہیں اب بس آنے کی کریں "
اس نے مسکرا کر سامنے کھڑے ولید کو دیکھا وہ بھی اسے دیکھ کر ہنس دیا اب جو ہونے والا تھا اس کے بعد سب کے دل پھیپڑوں میں ٹھنڈک پڑھ جانی تھی 
                  .....................
جاری ہے 

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─