┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: لو_مان_لیا_ہم_نے
از: فاطمہ_خان
قسط_نمبر_14

وہ اپنے کمرے میں بیٹھی زالان کے رویے پر غور کر رہی تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا آخر ان گزرے دنوں میں ایسا کیا ہوا تھا جو زالان کو اتنا بدل گیا کوئی بھی ٹھوس وجہ سمجھ نہیں آ رہی تھی اس نے جھنجھلا کر تکیہ زمین پر پٹخ دیا 
دروازے پر آرام سے دستک ہوئی
"آ جائے"
اس نے بےزاری سے کہا
دا جی نے دروازا کھول کر اندر جھانکا
"میری بیٹی آج باہر نہیں آئی کیا ہوا ہے "
"کچھ نہیں داجی آپ آئے بیٹھے"
اس نے چہرے کا زاویہ بدلہ اب وہ مسکرا کر ان سے مخاطب ہوئی
"مجھے بھی بتاؤ گئی"
انہوں نے بیڈ پر اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے کہا 
"داجی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی زالان کا رویہ دن بہ دن میرے ساتھ خراب ہو رہا ہے اوپر سے آج انہوں نے مجھے مبارک باد بھی دی کہ میری بات پکی ہوئی گئی یہ سب میری سمجھ سے بالاتر ہے"
زالان کے سامنے تو اس نے بہت خوشی خوشی کہ دیا تھا کہ اسے فرق نہیں پڑتا مگر اب وہ پریشان تھی کہ وہ ایسا کچھ بھی نہیں چاہتی تھی ناجانے اس کا دل کیوں اداس تھا اسے خود سمجھ نہیں آرہی تھی کچھ تو ایسا تھا جو ایسے بے چین کیے ہوئے تھا شاید زالان کی بےزاری جب سے زالان کا رویہ اس کے ساتھ بدلہ تھا وہ مرجھائی مرجھائی پھر رہی تھی اپنا غم کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتی تھی آج بھی ویسے ہی ہنسی مزاق کرنے والی زرشالہ تھی پر اس کا دل اداس تھا ادھورا ادھورا  
"ہو سکتا ہے وہ کام کی وجہ سے پریشان ہو ورنہ تم جانتی ہوں وہ ایسا نہیں ہے"
انہوں نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر تسلی دی 
"اور جہاں تک رشتے کی بات ہے تو ابھی کہاں ہاں کی ہے میں نے تم سے پوچھے بنا میں ہاں کر بھی نہیں سکتا یہ تمہاری زندگی ہے بچے اس پر تمہارا پورا پورا حق ہے میں آج تمہارے پاس تمہاری ماں تمہارا باپ دنوں بن کر آیا ہوں تم سب سے زیادہ قریب 
زالان اور میرےساتھ رہی ہوں اس لیے میں خود جواب لینے آیا ہوں"
انہوں نے محبت سے اس کی طرف دیکھ کر مسکرا کر کہا 
زرشالہ کے آنکھوں میں آنسو آ گئے آج زندگی میں پہلی بار اسے اپنے ماں باپ شدد سے یاد آرہے تھے نا جانے کیوں مگر شاید اس موقع پرماں باپ کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے اس نے داجی سے نظر بچا کر آنسو صاف کیے 
"داجی پلیز میں ابھی ایسا کچھ نہیں چاہتی مجھے ابھی پڑھنا ہے اس کے بعد آپ جو جائے فیصلہ کر لے فل حال میں ایسا کچھ نہیں چاہتی"
"بیٹا ہم بھی ابھی تمہاری شادی نہیں کرنا چاہتے بس بات گھر کی گھر میں رہ جائے گی ویسے بھی بہروز باہر جانا چاہتا ہے تمہارے بڑے ابو اور بڑی امی کی یہ خواہش ہے کہ تم ان کے گھر کی بہو بنو ہم سب کا تو بہت دل تھا زالان کے ساتھ ہی تمہاری بات پکی کر لیتے مگر زالان نے انکار کر دیا "
انہوں نے گویا دھماکہ کیا
"کیا ..کیا کہا آپ نے زالان آپ سب نے یہ سوچ بھی کیسے لیا داجی مجھے یقین نہیں آ رہا کاش یہ سب سوچنے سے پہلے آپ کو ایک بار میری اور زالان کا خیال آ جاتا میں بھی کہوں آخر انہیں ہوا کیا ہے وہ اس لیے مجھ سے ناراض ہے کیا گزری ہو گئی ان پر داجی وہ اور میں ..."
اس نے افسوس سے سر دائیں بائیں ہلایا آنسو اس کے گال پر گر رہے تھے اس کے لیے یہ بات کسی اذیت سے کم نہیں تھی وہ مر کر بھی اتنی گری ہوئی بات نہیں سوچ سکتی تھی وہ اور زالان... ناممکن 
"زرشالہ ایسا کچھ نہیں ہوا تم خواہ مخواہ پریشان مت ہو ہم نے تو صرف سوچا تھا ایسا کچھ ہوا تو نہیں ناں"
وہ اس کے رونے سے ایک دم پریشان ہو گئے تھے 
"ایسا سوچا بھی کیسے آپ لوگوں نے ... مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا میں کیا کہوں میرا تو دماغ کی کام نہیں کر رہا مجھے افسوس ہو رہا ہے بس "
اس نے ناراض نظروں سے سامنے بیٹھے داجی کو دیکھا 
"میری جان ایم سوری ہم سب کا مقصد تمہیں ہاٹ کرنا نہیں تھا "
وہ اس کے اتنے شدید ردعمل سے بھوکھلا کر رہ گئے تھے انہوں نے اسے گلے لگا کر اسے چپ کرنا چاہا وہ زوروں شور سے رو رہی تھی وہ واقعی ان کی بات سے ہاٹ ہوئی تھی ایسا تو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا وہ سب ان کے رشتے کو کتنا غلط رنگ دینے جا رہے تھے
"آپ.. جہاں میری شادی کروانا چاہتے ہیں کرواں دے پر خدارا آئندہ ایسا کچھ سوچیے گا بھی مت داجی میں مر جاؤ گئی "
اس نے سر اٹھا کر داجی کو دیکھا ان کے آنکھوں میں بھی پوتی کی ایسی حالت دیکھ کر آنسو آگئے تھے انہوں نے اثبات میں سر ہلایا 
زرشالہ بہروز سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی اس کا دل نہیں مان رہا تھا پر آپ حالات کے پیش نظر اسے بنا سوچے سمجھے ہاں کرنی پڑ گئی تھی داجی کے جانے کے بعد وہ کافی ٹائم تک روتی رہی اسے یہی فکر ستا رہی تھی کہ زالان پر یہ سب سنے کے بعد کیا گزری ہو گی ...اس بات سے انجان کے اس بات کے بات زالان کی سوچ اس کے لیے کتنی بدل گئی تھی وہ زالان اب پہلے والا نہیں رہا تھا بڑی مما کی باتوں نے اسے الگ انداز پر سوچنے پر مجبور کر دیا تھا وہ بھی اپنی سوچ اپنے دل پر شرمندہ تھا 
                     ....................

میری تشنگی کا خیال کر۔
میں اداس ہوں مجھے کال کر۔
عمار نے موبائیل فون ہاتھ میں پکڑ کر دکھ بھرے انداز میں کہا
"واہ واہ میرے بھائی کیا ہو گیا ہے خیر تو ہے ناں آج بہت اداس ہو اس کا فون نہیں آیا کیا"
ولید اس کے پاس بیٹھ کر اداسی سے بولا 
"بس یار کیا بتاؤ تینوں میں سے کوئی بھی آج جواب نہیں دے رہی"
عمار نے اداسی سے جواب دیا شارق بھی ان کے پاس آکر بیٹھ گیا 
"اہو یہ تو بہت برا ہؤا تم نے بھی اپنی طرح کی لڑکیو رکھی ہے ناں کوئی بھی کام کی بندی نہیں ہے "
شارق نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے جھوٹی تسلی دی عمار اور دکھی ہو گیا 
"وہ پیار ہے کسی اور کا اسے چاہتا کوئی اور ہے"
عمار نے آفاق سے اپنی جھوٹے آنسو صاف کر کہا 
"یہ سب کیا ہو رہا ہے لاؤنچ کی کیا حالت بنا دی ہے باہر سے کوئی آ گیا تو کیا کہے گا کیسے لوگ ہیں"
صائمہ بیگم نے لاؤنچ میں آکر حالت دیکھی
"یہی کہے گا کہ اس گھر کو ایک عدد بہو کی شدید ضرورت ہے گھر کی مالکن آپ بوڑھی ہو گئی ہے"
ولید نے اٹھ کر مما کے گلے میں بازوں ڈال کر شرارت سے کہا 
"یہ میری بیوی کو بوڑھا کس نے کہا "
پاپا نے اندار آکر ولید کو گھو کر پوچا 
"ہاہاہا پاپا سمجھا کریں ناں اس گھر کو اب بہو کی ضرورت ہے"
ولید نے احمد صاحب کی طرف دیکھ کر شرارت سے کہا 
"یہ تم نے کیا ایک ایک لگا رکھا ہے تم سے پورے تین منٹ بڑا ہوں پہلے میری باری ہے"
شارق کب پیچھے رہنے والا تھا اٹھ کر ولید کے ہاتھ مما کے گردن کے گرد سے ہٹا کر وہاں اپنا قبضہ جمالیا
"فکر مت کروں تمہارا نکاح تین منٹ پہلے کرواں دے گے"
عمار اپنا غم بھول کر اب ان کے ساتھ نوک جھونک کرنے میں لگ گیا
ماما پاپا اس کی بات پر دھیرے سے مسکرا دیے 
"ہاہاہا واقعی یہ تو میں نے سوچھا ہی نہیں "
شارق نے خوش ہو کر عمار کو دیکھا
"بس کروں تم تینوں اور آرام سے یہ سب سمیٹو اس کے بعد مجھے اور تمہارے پاپا کو تم لوگوں سے بہت ضروری بات کرنی ہے"
مما نے شارق کا ہاتھ اپنے گرد سے ہٹا کر پھلاویں کی طرف اشارہ کیا 
"یہ سب تو بعد میں سنھبال لے گئے آپ یہاں بیٹھ کر بات کریں"
عمار نے صائمہ بیگم کو ہاتھ سے پکڑ کر صوفے پر بیٹھایا 
"آپ بھی بیٹھے ناں پاپا"
عمار نے احمد صاحب کو کھڑے دیکھ کر جلدی سے کہا خود بھی وہ تینوں ان کے پاؤں میں موجود کوشن پر چھوکری مار کر بیٹھ گئے 
"میں نے اور پاپا نے تم تینوں کے لیے ایک بہت اہم فیصلہ کیا ہے اب چونکہ ولید اور شارق تم لوگوں کا لاسٹ سمیسٹر جا رہا ہے اس کے بعد پاپا کے ساتھ مل کر بزنس سنھبالوں گے ہم سب نے سوچا کیوں ناں تم دونوں کی منگنی کر دی جائے"
مما نے باری باری دونوں کی طرف دیکھ کر کہا 
"ہائے سچ مما آپ سچ کہ رہی ہے کتنا مزا آئے گا میں تو خوب سارا ہنگامہ کروں گا"
عمار سنتے ہی خوشی سے چلا اٹھا 
ولید اور شارق نے شرمانے کی ناکام کوشش کی
"ہاہاہا تم تو بس بچے ہی بنے رہنا پہلے پوچھ تو لوں لڑکیاں کون ہے"
پاپا نے اس کے سر پر ہلکی سی لگائی 
"ہاں وہ تو میں خوشی میں بھول ہی گیا "
"تمہاری مما اور میں نے شارق کے لیے اپنی رانیہ اور ولید کے لیے افشاں کا ہاتھ مانگا ہے داجی سے"
پاپا نے سنجیدگی سے جواب دیا
"یہ کیا بات ہوئی پاپا ہم لوگوں نے ان کے ہاتھوں کے ساتھ کیا کرنا ہے رہنے دے ہمیں نہیں چاہے ان کے ہاتھ"
شارق سنتے ہی ناراضگی سے گویا ہوا سب اس کی بات پر قہقہہ لگا کر ہنس دیے 
"شریر کہی کے یہ بتاؤ تم لوگوں کو کوئی اعتراض تو نہیں ہے ناں"
مما نے ایک دوست کی طرح اپنے بچوں کی رائے مانگی
"رہنے دے مما دل میں ان دونوں کے لڈو پھوٹ رہے ہیں ان دونوں کو کون اپنی بیٹی دیتا یہ تو ولی چاچو کا ہی دل ہے جو ان کام چوروں کو اپنی بیٹیاں دینے کی ہمت کر دی "
عمار نے بڑے بزرگوں کی طرح ان کی کلاس لی دونوں نے گھور کر اسے دیکھا 
"واقعی یہ تو ان کی ہی ہمت ہے کہ ایک کی جگہ تینوں بیٹیاں ہماری جولی میں ڈال دی"
"ہے کیوں مما آپ انہیں اس عمر میں جھولا جھولائے گئی کیا"
ولید نے حیران ہو کر پوچھا 
پاپا اس کی بات پر قہقہہ لگا کر ہنسے 
"یہ آپ نے تین تین کیوں کہا مما"
شارق نے مما کو دیکھ کر حیرانگی سے پوچھا
"اپنی روما ہمارے عمار کے لیے ناں"
عمار سن کر اچھل پڑا آنکھیں پھاڑے مما پاپا کو دیکھ رہا تھا جو اسے ایسے بدھوں کی طرح اپنی طرف دیکھتے مسکرا رہے تھے
"یہ ...آپ کیا کہ رہی ہے مجھے نہیں کرنی اس افت کی پڑیا سے شادی وادی اس کے پاؤں کو آپ نے نہیں دیکھا اتنا زور کا مارتی ہے بندے کو اپنی مری ہوئی نانی یاد آ جاتی ہے مجھے معاف ہی رکھے توبہ توبہ"
عمار نے کانوں کو ہاتھ لگا کر پناہ مانگی
"چلو ٹھیک ہے تم کہتے ہوں تو تمہارے پاپا ولی بھائی سے معذرت کر لے گئے"
مما نے اپنی ہنسی روک کر سنجیدگی سے کہا عمار کا منہ بن گیا 
"خیر اب میں نے یہ بھی نہیں کہا ایسے تو ولی چاچو کو بہت برا لگے گا ناں میں انہیں دکھی نہیں کر سکتا آپ سب کہتے ہوں تو مجھے کوئی انکار نہیں میں قربانی دینے کے لیے تیار ہوں"
عمار نے ایک دم سے جواب دیا 
ہاہاہا سب ایک ساتھ ہنس دیے 
"نہ نہ بچوں ہمیں تمہاری خوشی زیادہ عزیز ہے تم فکر ناں کروں چاچو سے میں خود بات کر لوں گا"
شارق نے ولید کو آنکھ مار کر کہا 
"ہاں یار تم پریشان ناں ہوں ہم تمہارے ساتھ ہے"
ولید نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنے ہونے کا یقین دلایا 
"ہاں عمار تم پر کوئی زبردستی نہیں ہے"
پاپا بھی اسے تنگ کرنے لگے 
"کیا ہے یار حد ہے اب بندہ مذاق بھی نہیں کر سکتا "
عمار نے روہنسی ہو کر مما کے گھٹنوں پر سر رکھ کر کہا 
"بس خبردار اب کسی نے میرے بیٹے کو تنگ کیا تو"
مما نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے مسکرا کر کہا عمار نے خوشی سے سر اٹھا کر ماما کو دیکھا ان کو مسکراتا دیکھ کر وہ بھی ہنس دیا 
صائمہ نے اللّٰہ شکر ادا کیا سب کچھ ان کی مرضی اور اللّٰہ کی راضا سے بہت آسانی سے ہو گیا تھا 
            .......................
واٹ شادی وہ بھی میری اس جن سے ناممکن مما میری ساری خوشی آپ نے یہ خبر سنا کر حراب کر دی"
روما نے سنتے ہی ناراض نظروں سے ماں کو دیکھا 
"زیادہ نخرے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے جیسے افشاں اور رانیہ ہماری بات مان گئی ہے تم بھی خاموشی سے مان لوں ہم بڑے ہے تمہارے تمہارے لیے اچھا ہی فیصلہ ہی کریں گے"
مما نے اس کی ناراضگی کی پروا کیے بنا سنجیدگی سے جواب دیا
"مما اٹس ناٹ فیئر میری عمر ہی کیا جو ابھی
مجھے نہیں کرنی عمار سے شادی "
رومانے روٹھے انداز میں جواب دیا
"ٹھیک ہے نہ کرو میں آج ہی داجی سے کہہ دیتی ہوں روما کو ہمارے فیصلے پر اعتراض ہے پھر تم جانوں اور تمہارے داجی "
مما نے اٹل فیصلہ سنایا
روما بیچاری اپنا سا منہ لے کر رہ گئی
اور ناراض ہو کر وہاں سے چلی گئی مما نے اسے جاتے ہوئے مسکرا کر دیکھا
"تم لوگ بھی کان کھول کر سن لوں اب میرے دامادوں سے بدتمیزی کی ناں تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا"
صفا بیگم نے ان دونوں کی طرف دیکھ کر وان کیا
"اب ہم نے کیا کر دیا مما "
رانیہ نے منہ بنا کر پوچھا
"ہاں مجھے بھی پتہ ہے تو سب ہی ایک دوسرے سے بھر کر ہو تمیز تو چھو کر نہیں گزری اب اٹھو جا کر کچن دیکھوں ایک چھوٹی کا دن ہوتا ہے اس دن بھی ٹی وی کے سامنے آ کر بیٹھ جاتی ہوں"
صفا بیگم کی ان دونوں کو سنائی 
               ................. 
روما گھر سے نکل کر سیدھا عمار کے پورشن کی طرف گئی سامنے ہی وہ تینوں کسی بات پر بچوں کی طرح لڑ رہے تھے 
عمار کو دیکھ کر روما کا پارہ ہائی ہو گیا 
"عمار کے بچوں تم نے سوچ بھی کیسے لیا میں تم سے شادی کروں گی"
ولید اور شارق کو اگنور کر کے وہ عمار کے سامنے جا کر چلائی
وہ تینوں اپنی اپنی لڑائی بھول کر روما کو دیکھنے لگے جو غصے سے لال پیلی ہو رہے تھی 
"وہ آئے ہماری گھر میں..." عمار نے اسے دیکھ کر کہا
واہ واہ واہ "
ولید نے اس کے کندھوں پر تھپکی دی
"وہ آئے ہمارے گھر میں ہم کبھی ان کو کھبی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں"
عمار کو شروع سے ہی اچھے خاصے شعر کو ستیاناس کرنے کا بہت شوق تھا 
اس کی بات سے روما کو اور آگ لگی 
"کیا ہوا ہے سالی پلس چھوٹی بھابھی صاحبہ خؤش کنڑول نہیں ہو پا رہا تھی جو ابھی ہی بھاگی ڈوری آئی آپ"
شارق نے شرارت سے کہا 
"دیکھوں شارق تم چپ رہوں میں اس الو سے شاد نہیں کروں گی میں بتائی دے رہی ہوں ایسے کہ دوں زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے "
روما نے ناراض نگاہ سے شارق کو دیکھ کر کہا 
"اوئے شرم کروں جیجو ہو تمہارا اب تو زرا عزت دے دوں مجھے "
شارق صدمہ سے چلایا 
"چپ کر جاؤ خبردار جو میرا معصوم سی منگیتر کو کسی نے باتوں سنائی کی کوشش بھی کی تو"
عمار نے شارق کو گریبان سے پکڑ کر کہا 
"ہاہاہا منگیتر وہ تمہیں اپنا منگیتر مانے تو ناں تم زبردست کا رشتہ بنانا کی کوشش مت کروں"
شاعر نے اس کا ہاتھ پیچھا ہٹا کر گھورا
"وہ شرما رہی ہے "
"اوئے عمار کے بچے شرماتی ہے میرا جوتی ابھی بھی وقتاً ہے انکار کر دوں نہیں تو کل کو ہر پچھتاؤ گے"
روما غصّے سے کہتی وہاں سے جانے لگی 
"نہیں کروں گا انکاری مر کر بھی کیا مجھے تمہارے لاتیں کھانے کی عادات ہو گئی ہے بنا لات کھائے مجھے رات کو نیند نہیں آتی "
عمار پیچھے سے اونچی آواز میں ہنس کر بولا روما نے مڑ کر غصہ سے اسے گھورا 
"مرو تم "
"شادی سے پہلے ہی بیوہ ہو جاؤ گی میری جان"
اس کے بات پر روما نے گردن موڑ کر گھوری سے نوازا
"دیکھا کیسے میرے مرنے کا سن کر پریشان ہو گئی"
عمار نے کالر اوپر کر کے فحر سے کہا 
"بس رہن دوں بھائی وہ ہماری سامنا تمہیں ریجیکٹ کر کے گئی ہے افسوس"
ولید نے اسے دیکھ کر مزاق اڑایا 
"جاؤ جاؤ بہت آئے مجھے شرم دلانے والے ابھی جا کر افشاں کو تمہارے افیئرز بتائے ناں لگ پتا جائے گا"
عمار نے منہ بنا کر کہا 
ولید نے اس کے کندھے پر زور سے لگائی 
"بےغیرت انسان بھائی کو بلک میل کرتے شرم نہیں آتی"
"نہیں بلکل بھی نہیں آتی "  
عمار نے کندھا سہلاتے ہوئے غصے میں جواب دیا 
               ...
جاری ہے .....

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─