┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

*《▪♡ شمشیرِ بے نیام♡▪》*

*حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ*

*( قسط نمبر-45)*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*خالدؓ نے شاہِ فارس کے نام حیرہ کے رہنے والے ایک آدمی کے ہاتھ بھیجا اور امراء وغیرہ کے نام خط لے جانے والا انبار کا رہنے والا ایک آدمی تھا۔کسی بھی مؤرخ نے ان دونوں آدمیوں کے نام نہیں لکھے۔انبار جس علاقے میں تھاوہ ساباط کہلاتا تھا۔ساباط آج کل کے ضلعوں کی طرح تھا اور انبار اس ضلعے کا سب سے بڑا شہر تھا۔ساباط کا حاکم یا امیر شیر زاد تھا جو اس وقت انبار میں مقیم تھا۔وہ دانشمند اور عالم تھا۔اس میں عسکری صلاحیت ذرا کم تھی ،لیکن انبار میں فوج اتنی زیادہ تھی کہ اسے عسکری سوجھ بوجھ کی ضرورت ہی نہیں تھی۔وہ اپنی فوج کے علاوہ اسے ساتھ عیسائیوں کی بے شمار نفری تھی۔اتنی زیادہ فوج کے علاوہ انبار کی شہر پناہ بڑی مضبوط تھی اور دفاع کا یہ انتظام بھی تھا کہ شہر کے اردگرد گہری خندق تھی جس میں پانی تھا۔اس طرح انبار کو ناقابلِ تسخیر شہر بنا دیا گیا تھا۔خالدؓکیلئے تو یہ اس لئے بھی ناقابلِ تسخیر تھا کہ ان کی فوج کی کل نفری نو ہزار تھی۔انبار کے جاسوسوں نے مسلمانوں کی فوج کو شہر کی طرف آتے دیکھا تو انہوں نے شیرزاد کو جا بتایا، پھر سارے شہر میں خبر پھیل گئی کہ مدینہ کی فوج آ رہی ہے۔*
*شیرزاد دوڑاگیا اور دیوار پر جا چڑھا۔اسے جاسوسوں نے مدینہ کی فوج کی نفری دس ہزار بتائی تھی۔’’نہیں!یہ دھوکا ہے۔‘‘دیوارپر کھڑے شیرزاد نے مسلمانوں کی فوج کو دیکھ کر کہا۔’’جنہوں نے ہماری اتنی زبردست فوج کو یکے بعد دیگرے چار لڑائیوں میں شکست دی ہے وہ اتنے احمق نہیں ہو سکتے کہ اتنے بڑے قلعے بند شہر پر حملہ کرنے کیلئے اتنی قلیل فوج لائیں۔یہ ان کی فوج کا ہراول ہوگا۔اگر ہراول نہیں تو اتنی ہی فوج پیچھے آرہی ہو گی یا کسی اور سمت سے آرہی ہوگی۔‘‘شہر کے لوگوں میں افراتفری مچ گئی تھی۔انہوں نے مسلمانوں کے بڑے دہشت ناک قصے سنے تھے۔انہوں نے اپنی شکست خوردہ فوج کے زخمیوں کو اور میدانِ جنگ سے بھاگ کر آنے والوں کو دیکھا تھا۔ان کا خوف و ہراس بھی دیکھا تھا۔پسپائی میں اپنے آپ کو حق بجانے ظاہر کرنے کیلئے انہوں نے لوگوں کو جنگ کے ایسے واقعات سنائے تھے جیسے مسلمان جن بھوت ہوں۔اب وہ مسلمان ان کے اتنے بڑے شہر کو محاصرے میں لینے آئے تھے۔انہوں نے اپنے زیورات اور رقمیں اور اپنی جوان لڑکیا ں چھپانی شروع کر دیں۔شہر میں خوف و ہراس اور بھگدڑ زیادہ دیر نہ رہی کیونکہ دیوار کے اوپر سے بلند آوازیں سنائی دینے لگی تھیں کہ مسلمانوں کی تعداد اتنی تھوڑی ہے کہ وہ ساری عمر شہر کی دیوار تک نہیں پہنچ سکیں گے ۔پھر دیوار کے اوپر قہقہے بلند ہونے لگے۔’’مسلمانو!‘‘آتش پرست مسلمانوں پر آوازے کَس رہے تھے ۔’’تمہیں موت یہاں تک لے آئی ہے۔‘‘’’زندہ رہنا ہے تو مدینہ کو لَوٹ جاؤ۔‘‘شہرِ پناہ پر تیر اندازوں کا ہجوم کھڑا تھا۔مسلمانوں نے شہر کو محاصرے میں لے لیا تھااور خندق نے انہیں روک لیا۔طبری اور یاقوت لکھتے ہیں کہ خندق دیوار کے اتنا قریب تھی کہ اس کے قریب آنے والے اوپر سے چھوڑے ہوئے تیروں کی زد میں آجاتے تھے۔ایسا نہ ہوتا تو بھی خندق کو پھلانگنا ممکن نہ تھا۔یہ بہت چَوڑی تھی۔تیر انداز مسلمانوں پر ہنس رہے تھے اور وہ ہزاروں کی تعداد میں دیوار پر یوں کھڑے تھے جیسے مسلمانوں کا تماشہ دیکھ رہے ہوں۔*

*’’خدا کی قسم!‘‘خالدؓنے بڑی بلند آواز سے کہا۔’’یہ لوگ نہیں جانتے جنگ کیا ہے اور کس طرح لڑی جاتی ہے۔‘‘مؤرخ لکھتے ہیں کہ انبار ہر لحاظ سے ناقابلِ تسخیر تھا لیکن خالدؓ کے چہرے پر پریشانی کاہلکاسا بھی تاثر نہیں تھا۔وہ پر سکون تھے۔رات کو انہوں نے اپنے خیمے میں اپنے سالاروں کو یقین دلایا کہ فتح انہی کی ہوگی لیکن قربانی بہت دینی پڑے گی۔انہیں صرف یہ بات فتح کی امید دلا رہی تھی کہ شہر کی دیوار اتنی اونچی نہیں تھی جتنی قلعوں کی ہوا کرتی ہے۔صبح طلوع ہوتے ہی خالدؓ گھوڑے پر سوار ہوئے اور شہر کے اردگرد گھوڑا دوڑانے لگے۔وہ دیوار اور خندق کا جائزہ لے رہے تھے ۔انہوں نے اپنے سالاروں سے کہا کہ انہیں ایک ہزارایسے تیر اندازوں کی ضرورت ہے جنہیں اپنے نشانے پر پورا پورا اعتماد ہو اور جن کے بازوؤں میں اتنی طاقت ہو کہ کمانوں کو کھینچیں تو کمانیں دوہری ہو جائیں اور عام تیر اندازوں کی نسبت ان کے تیر بہت دور جائیں۔*
*’’جلدی۔‘‘ خالدؓنے کہا۔’’بہت جلدی ہمیں شام تک اس شہر میں داخل ہونا ہے ۔‘‘تھوڑی سی دیر میں ایک ہزار تیر انداز آگئے۔یہ چُنے ہوئے تھے اور سب کے سب جوان اور بڑے مضبوط جسموں والے تھے۔’’تم سب خندق تک اس طرح ٹہلتے ہوئے جاؤ کہ کمانیں تمہارے ہاتھوں میں لٹک رہی ہوں۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’ایسا لگے کہ تم ٹہلتے ٹہلتے خندق کے قریب چلے گئے ہو۔جوں ہی خندق کے قریب جاؤ،نہایت تیزی سے ترکشوں سے تیر نکالو ،کمانوں میں ڈالو اور دیوار پر کھڑے دشمن کے تیر اندازوں کی آنکھوں کا نشانہ لے کر تیر چلاؤ۔پیشتر اس کے کہ وہ جان سکیں کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔ایک ایک، اس کے بعد پھر ایک ایک تیر چلاؤ۔‘‘مورخ طبری کے مطابق خالدؓنے حکم دیاتھا۔’’صرف آنکھیں ……صرف آنکھیں۔‘‘ایک ہزار تیر انداز خالدؓ کے حکم کے عین مطابق آہستہ آہستہ خندق تک گئے۔دیوار پر دشمن کے سپاہی ہنس رہے تھے اور بے پروائی سے کھڑے تھے ۔انہیں مسلمانوں کا کوئی ارادہ نظر نہیں آ رہا تھا کہ وہ خندق کو پھلانگنے کی کوشش کریں گے۔خندق کے قریب پہنچ کر ان ایک ہزار تیر اندازوں نے اوپر دیکھا،اِدھر اُدھر دیکھا،خندق میں دیکھا اور احمقوں کی سی حرکتیں کیں۔آتش پرستوں کے تیر اندازوں نے ان پر تیر چلانے کی ضرورت محسوس نہ کی حالانکہ مسلمان تیر انداز ان کی زد میں تھے۔اچانک مسلمان تیر انداز وں نے ترکشوں میں سے ایک ایک تیر نکالا ،پلک جھپکتے تیر کمانوں میں ڈالے، کمانیں آگے ر کھ کے دشمن کی آنکھوں کے نشانے لیے اور تیر چھوڑ دیئے۔ایک ہزار تیروں سے بیشتر آتش پرستوں کے تیر اندازوں کی ایک ایک آنکھ میں اتر گئے۔معاًبعد مسلمان تیر اندازوں نے ایک ہزار تیر چھوڑے ،پھر ایک ہزار اور……‘‘*
*…‘‘یہ کہنا صحیح نہیں ہو سکتا کہ مسلمانوں کا کوئی بھی تیر خطا نہیں گیا تاریخوں میں لکھاہے کہ زیادہ تیر دشمن کی آنکھوں میں لگے اور شہر میں یہ خبر تیز ہوا کی طرح پھیل گئی ہمارے سینکڑوں سپاہیوں کی آنکھیں ضائع ہو گئی ہیں۔اب ان سینکڑوں سپاہیوں کو شہرِپناہ سے اتارا گیا تو شہر کے لوگوں نے ہر ایک کی ایک ایک آنکھ میں تیر اترا ہوا اور ان زخمیوں کو کرب ناک آہ و زاری کرتے دیکھا۔ایک انگریز مبصر سر والٹر نے متعدد مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے تین ہزار تیر اتنی تیزی سے چلے کہ آتش پرست اپنے آپ کو بچا ہی نہ سکے اور تیر جن کی آنکھوں میں نہ لگے ان کے چہروں میں اتر گئے چونکہ فارس کے یہ سپاہی اور ان کی مدد کو آئے ہوئے عیسائی شہر پناہ پر گھنے ہجوم کی طرح کھڑے تھے اس لئے کوئی تیر ضائع نہ گیا ہو۔تیر نے ایک ایک آدمی کو زخمی کیا۔طبری کی تحریر کے مطابق انبا ر کے محاصرے کو ’’ذات العیون‘‘ یعنی آنکھوں کی تکلیف بھی کہا جاتا رہا ہے۔*
*مسلمانوں کے اس وار نے شہر کے لوگوں پر ہی نہیں فارس کی فوج پر بھی خوف طاری کر دیا۔ مسلمانوں نے تو جادو کاکرتب دکھا دیا تھا۔ساباط کا آتش پرست حاکم شیرزاد دانش مند اور دور اندیش آدمی تھا۔اس نے بھانپ لیا کہ اس کی فوج میں جو لڑنے کا جذبہ موجو دتھا وہ ماند پڑ گیا ہے۔اسے یہ بھی احساس تھا کہ اس کی فوج پہلی شکستوں کی بھی ڈری ہوئی ہے۔چنانچہ مزید قتل و غارت کو روکنے کیلئے اس نے خالدؓ سے صلح کرنے کا فیصلہ کرلیا۔اس نے دو امراء کو قلعے کے باہر بھیجا۔خندق کے قریب آکر ان دو امیروں نے مسلمانوں سے پوچھا کہ ان کا سالارِ اعلیٰ کہاں ہے ۔خالدؓ کو اطلاع ملی تو وہ آگئے۔’’ہمارے امیر شیر زاد نے ہمیں بھیجا ہے۔‘‘شیر زاد کے بھیجے ہوئے دو آدمیوں میں سے ایک نے خالدؓ سے کہا۔’’ہم آپ سے صلح کرنا چاہتے ہیں لیکن ایسی شرائط پر جو ہمارے لیے قابلِ قبول ہوں۔اگر صلح ہوجائے تو شیرزاد اپنی فوج کو ساتھ لے کر انبار سے چلا جائے گا۔‘‘’’شیر زاد سے کہو کہ شرطیں منوانے کا وقت گزر گیا ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’اب شرطیں ہماری ہوں گی اور تم لوگ ہتھیار ڈالو گے۔‘‘دونوں آدمی واپس چلے گئے اور شیرزاد کو خالدؓ کا پیغام دیا،شیرزاد نے اپنے سالاروں کی طرف دیکھا۔’’ہم اتنی جلدی ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔‘‘ایک سالارنے کہا۔’’ہمارے پاس فوج کی کمی نہیں۔‘‘دوسرے سالارنے کہا۔’’مسلمان خندق سے آگے نہیں آسکتے۔‘‘شیرزاد نے سر ہلایا۔یہ ایسا اشارہ تھا جس سے پتہ نہیں چلتا کہ وہ شہر کا دفاع جاری رکھنا یا خالدؓ کے پیغام پر غور کرکے کوئی اور فیصلہ کرنا چاہتا ہے۔اس کے سالاروں نے اس کے اشارے کو جنگ جاری رکھنے کا حکم سمجھا اور وہ شہرِ پناہ پر آگئے۔ایک ہزار مسلمان تیر اندازجنہوں نے انبار کے دوہزار سے زائد سپاہیوں کی آنکھیں نکال دی تھیں ،پیچھے ہٹ گئے۔خالدؓ نے شہر کے اردگرد ایک اور چکر لگایا۔اب وہ صرف خندق کو دیکھ رہے تھے ۔انہوں نے خندق پار کرنے کا تہیہ کرلیا تھا۔ایک جگہ خندق کی چوڑائی کم تھی لیکن اتنی کم نہیں تھی کہ دور سے گھوڑا دوڑاتے لاتے اور وہ خندق پھاند جاتا۔خالدؓ کے دماغ میں ایک طریقہ آگیا۔انہوں نے حکم دیا کہ اپنی فوج کے ساتھ جتنے اونٹ کمزور یا بیمار ہوگئے ہیں انہیں آگے لے آؤ۔ایسے بہت سے اونٹ تھے جو پورا سامان اٹھانے کے قابل نہیں رہے تھے۔خالدؓ کے حکم سے ان اونٹوں کو ذبح کرکے خندق میں اس جگہ پھینکتے گئے جہاں خندق کم چوڑی تھی۔اتنے اونٹ ذبح کرکے خندق میں ترتیب سے پھینک دیئے گئے کہ ایک پُل بن گیا۔’’ﷲنے تمہارے لیے گوشت اور ہڈیوں کا پُل بنا دیا ہے۔‘‘خالدؓ نے بلند آواز سے کہا ۔’’اب ہم خندق کے پار جا سکتے ہیں۔‘‘اونٹوں کا یہ پل ہموار نہیں تھا۔ان کے ڈھیر پر چلنا خطرناک تھا۔پاؤں پھسلتے تھے لیکن گزرنا بڑی تیزی سے تھا۔اشارہ ملتے ہی پیادہ مجاہدین کودتے پھلانگتے س عجیب پُل سے گزرنے لگے۔چند ایک مجاہدین پھسلے اور گِرے اور وہ پانی میں سے نکل کر اونٹوں کی ٹانگیں گردنیں وغیرہ پکڑتے اوپرآگئے۔شہرِ پناہ سے دشمن کے تیر اندازوں نے تیروں کا مینہ برسا دیا۔ادھر ’’آنکھیں پھوڑنے والے‘‘مسلمان تیر اندازوں نے بڑی تیزی اور مہارت سے تیر اندازی جاری رکھی۔اب ان کی تعداد ایک ہزار نہیں خاصی زیادہ تھی۔*

*اونٹوں کے پل سے گزرنے والوں میں سے کئی مجاہدین تیروں سے زخمی ہو رہے تھے لیکن وہ رُکے ہوئے سیلاب کی طرح خندق سے پار جاتے اور پھیلتے رہے۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کا یہ اقدام غیر معمولی طور پر دلیرانہ تھا۔ وہ زخمی تو ہوئے، شہید بھی ہوئے ۔لیکن انبار کی فوج پر اس اقدام کا جو اثر ہوا وہ اس کے سپاہیوں کے لڑنے کے جذبے کیلئے مہلک ثابت ہو رہا تھا۔ان پر مسلمانوں کی دہشت پہلے ہی غالب تھی،اب انہوں نے مسلمانوں کا یہ عجیب طریقہ دیکھا کہ اپنے اونٹ ذبح کرکے پُل بنا دیا اور تیروں کی بوچھاڑوں میں اس پُل سے گزرنے لگے تو دیوار سے برسنے والے تیروں میں کمی آگئی۔دشمن کے تیر انداز زخمی ہو کر کم ہو رہے تھے اور ان میں بھگدڑ کی کیفیت بھی پیدا ہو گئی تھی۔خندق پھلانگنے والا صرف ایک دستہ تھا۔اس دستے کا جوش و خروش اس وجہ سے بھی زیادہ تھا کہ خود خالدؓ ان کے ساتھ تھے اور سب سے پہلے مرے ہوئے اونٹوں پر سے گزرنے والے خالدؓ تھے۔تیر ان کے دائیں بائیں سے گزر رہے تھے اور ان کے قدموں میں زمین میں لگ رہے تھے۔مگر خالدؓ یوں بے پرواہ تھے جیسے ان پر بارش کے قطرے گر رہے ہوں۔اﷲاکبر کے نعروں کی گرج الگ تھی اور اس کی گرج میں ﷲکی رجعت اور برکت تھی۔*
*شہر کے لوگوں کا یہ عالم تھا کہ بھاگتے دوڑتے پھر رہے تھے۔شہرِ پناہ سے ان کے زخمی سپاہیوں کو اتارتے تھے تو لوگ ان کی گردنوں میں ،چہروں میں اور سینوں میں ایک ایک ،دودو اور تین تین تیر اترے ہوئے دیکھتے تھے۔زخمیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی اور شہر میں خوف و ہراس زیادہ ہوتا جا رہا تھا۔لوگوں نے چلّانا شروع کر دیا.* *سمجھوتہ کرلو۔صلح کرلو،دروازے کھول دو۔شیرزاد کیلئے صورتِ حال بڑی تکلیف دہ تھی۔وہ دانشمند آدمی تھا۔اس نے جب لوگوں کی آہ و زاری سنی اور جب بچوں اورعورتوں کو خوف کی حالت میں پناہوں کی تلاش میں بھاگتے دوڑتے دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ یہ معصوم بے گناہ مارے جائیں گے۔انہیں بچانے کا اس کے پاس ایک ہی ذریعہ تھا کہ ہتھیار ڈال دے۔اس نے اپنے سالارِ اعلیٰ کو بلا کر کہا کہ وہ مزید خون خرابہ روکنا چاہتا ہے۔’’نہیں!‘‘سالارِ اعلیٰ نے کہا۔’’ابھی کوئی فیصلہ نہ کریں ۔مجھے ایک کوشش کر لینے دیں۔‘‘شیرزاد خاموش رہا۔سالارِ اعلیٰ شہرِ پناہ کے اوپر اپنی سپاہ کی کیفیت دیکھ رہا تھاجو بڑی تیزی سے مخدوش ہوتی چلی جا رہی تھی۔اس نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ مسلمان خندق عبور کر آئے ہیں۔اس نے ایک جرات مندانہ فیصلہ کیا۔اس نے ایک دستہ چنے ہوئے سپاہیوں کا تیار کیا اور قلعے کا دروازہ کھول کر اس دستے کو باہر لے آیا۔اس دستے نے ان مسلمانوں پر ہلّہ بول دیا جو خندق عبور کر آئے تھے۔خندق کے دوسرے کنارے کھڑے مسلمانوں نے دشمن کے اس دستے پر تیر چلانے شروع کر دیئے ۔اس دستے کا مقابلہ مسلمانوں کے ایسے دستے کے ساتھ تھا جس کے قائد خالدؓ تھے۔مسلمانوں کے تیروں کی بوچھاڑوں سے آتش پرستوں کے دستے کی ترتیب اور یکسوئی ختم ہو گئی۔خالدؓ نے اس دستے کو اس طرح لیا کہ اپنے دستے کو دیوار کی طرف رکھا تاکہ خندق کی طرف سے مسلمان تیر اندازدشمن پر تیر برساتے رہیں۔*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*خالدؓ اس دستے کو خندق کی طرف دھکیلنا چاہتے تھے۔گھمسان کا معرکہ ہوا۔آتش پرستوں کے کئی سپاہی خندق میں گرے اور باقیوں کے قدم اکھڑ گئے۔اس دستے کے سالار نے اس ڈر سے دروازہ بند کرادیا کہ مسلمان اندر آجائیں گے۔دروازہ بند ہوتے ہوتے دشمن کے اس دستے کے بچے کھچے سپاہی بھاگ کر اندر چلے گئے۔خالدؓ شہرِ پناہ کا جائزہ لینے لگے۔وہ مجاہدین کو اس دیوار پر چڑھانا چاہتے تھے جو آسان نظر نہیں آتا تھا۔انہیں معلوم نہ تھا کہ دیوار کی دوسری طرف ایرانی فوج اور شہر کے لوگوں کی حالت کیا ہوچکی ہے۔قلعے کا دروازہ ایک بار کھلا۔اب دروازے میں صرف ایک آدمی نمودار ہوا۔اس کے پیچھے دروازہ بند ہو گیا۔اس نے ہاتھ اوپر کرکے بلند آواز سے کہا کہ وہ شہر کا ایلچی ہے اورصلح کی بات کرنے نکلا ہے۔اس کے ساتھ ہی شہرِ پناہ سے تیر برسنے بند ہو گئے۔’’اے آگ کے پوجنے والے!‘‘جب اسے خالدؓ کے سامنے لے گئے توخالدؓ نے اس سے پوچھا۔’’اب تو کیا خبر لایا ہے؟*

*کیا زرتشت نے تم لوگوں سے نظریں پھیر نہیں لیں؟کیا اب بھی تم لوگ اﷲکو نہیں مانوگے؟‘‘’’اے اہلِ مدینہ !میں کسی اور سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔‘‘ایلچی نے کہا۔’’میں حاکم ِ ساباط شیرزاد کا ایلچی ہوں۔شیرزاد نے کہا ہے کہ تم لوگ اسے اور اہلِ فارس کو شہر سے چلے جانے کی اجازت دے دو تو شہر تمہارے حوالے کر دیا جائے گا۔‘‘طبری اور واقدی لکھتے ہیں کہ خالدؓ یہ شرط بھی ماننے کیلئے تیار نہیں تھے۔انہوں نے ایک بار پھر شہر کی دیوار کی بلندی دیکھی اور سوچا کہ اس پر کس طرح چڑھا جا سکتا ہے لیکن بہت مشکل تھا۔’’حاکمِ ساباط شیرزاد سے کہو کہ خالد بن ولید اس پر رحم کرتا ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’اسے کہو کہ وہ فارس کے فوجیوں کو ساتھ لے کر شہر سے نکل جائے لیکن وہ ان گھوڑوں کے سوا جن پر وہ سوار ہوں گے،اپنے ساتھ کچھ نہیں لے جا سکیں گے۔وہ اپنا سب مال اموال پیچھے چھوڑ جائیں گے اور وہ ہماری فو ج کے سامنے سے گزریں گے……اگر اسے یہ شرط منظور نہ ہوتو اسے کہنا کہ تیار ہوجائے اسی تباہی کیلئے جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔‘‘ایلچی واپس چلا گیا۔خالدؓ نے شہر کے اردگرد اپنا حکم پہنچا دیا کہ تیر اندازی روک لی جائے۔کچھ دیر بعد شہر کا دروازہ ایک بار پھر کھلا۔بہت سے سپاہی بڑی موٹی لکڑی کا ایک پانچ چھ گز چوڑااور بہت لمبا تختہ اٹھائے باہر نکلے۔تختے کے ساتھ رسّے بندھے ہوئے تھے ،انہوں نے تختہ خندق کے کنارے پر کھڑا کیا اور رسّے پکڑ لیے۔پھر یہ رسّا آہستہ آہستہ خندق پر گرنے لگااور اس کا اوپر والا سرا خندق کے باہر والے کنارے پر جا پڑا۔یہ پُل تھا جو شیرزاد اور اس کی فوج کے گزرنے کیلئے خندق پر ڈالا گیا تھا۔سب سے پہلے جو گھوڑا باہر آیا اس کی سج دھج بتاتی تھی کہ شاہی اصطبل کا گھوڑا ہے۔اس کا سوار بلا شک و شبہ حاکمِ ساباط شیرزاد تھا۔اس کے پیچھے اس کی بچی کچھی فوج باہر نکلی۔پیادے بھی تھے سوار بھی۔ان میں زخمی بھی تھے جو اپنے ساتھیوں کے سہارے چل رہے تھے۔وہ اپنے مرے ہوئے ساتھیوں کی لاشیں جہاں تھیں وہیں چھوڑ گئے تھے ۔یہ شکست خوردہ فوج ماتمی جلوس کی طرح جارہی تھی اور مسلمان خاموشی سے اس جلوس کو دیکھ رہے تھے۔کسی نے ان کا مزاق نہ اڑایا،پھبتی نہ کسی،فتح کا نعرہ تک نہ لگایا۔*

*خالدؓگھوڑے پر سوار ایک طرف کھڑے دیکھ رہے تھے۔وہ تھکے ہوئے نظر آتے تھے لیکن چہرے پر فتح کی رونق اور زبان پر ﷲکے شکرانے کے کلمات تھے۔یہ جولائی ۶۳۳ء کا ایک دن تھا۔جب آخری سپاہی بھی نکل گیا تو خالدؓ مجاہدین کے آگے آگے شہر کے دروازے میں داخل ہوئے ۔آگے شہر کے امراء اور روسا دست بستہ کھڑے تھے۔شہر کے لوگوں کا شوروغل سنائی دے رہا تھا ۔اس طرح کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔’’وہ آگئے ہیں……مسلمان آگئے* *ہیں……بھاگو……چھپجاؤ۔‘‘خالدؓ گھوڑے سے اترے،انبار کے امراء وغیرہ نے انہیں تحفے پیش کیے۔’’شہر کے لوگ ہم سے ڈر کیوں رہے ہیں؟‘‘خالدؓنے امراء سے کہا۔’’انہیں کہوکہ ان پر کوئی الزام نہیں۔ہم نے اس شہر کو فتح کیا ہے۔شہر کے لوگوں کو نہیں۔انہیں کہو کہ ہم امن اور دوستی لے کر آئے ہیں۔ہم جزیہ ضرور لیں گے لیکن بلاوجہ کسی کی جان نہیں لیں گے۔ہم کسی کی بیٹی پر اپنا حق نہیں جتائیں گے۔کسی کے مال و دولت کو ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ہم صرف ان کے مال اموال کو اپنے قبضے میں لیں گے جو ہم سے شکست کھا کر چلے گئے ہیں……جاؤ۔اپنے لوگوں کو ہماری طرف سے امن اور سکون کا پیغام دو۔‘‘خالدؓ نے اپنی فوج کو ایک حکم تو یہ دیا کہ جو لوگ ان کے خلاف لڑ کر چلے گئے ہیں۔ان کے گھروں سے قیمتی سامان اٹھا کر ایک جگہ اکٹھا کر لیا جائے اور دوسرا حکم یہ کہ شہر میں گھوم پھر کر یہیں کے لوگوں کو دوستی اور امن کا تاثر دیا جائے اور یہ بھی کہ لوٹ مار نہیں ہوگی۔شہر پناہ پر گدھ اتر رہے تھے۔وہاں آتش پرست سپاہیوں کی لاشیں پڑی تھیں۔شدید زخمی بیہوشی کی حالت میں اِدھر اُدھر پڑے ہوئے تھے۔شہر کی فضا میں موت کی بو تھی۔خالدؓ اس مکان میں گئے جس میں شیر زاد رہتا تھا۔وہ تو محل تھا،دنیا کی کون سی آسائش و زیبائش تھی جو اس محل میں نہیں تھی۔خالدؓجو زمین پر سونے کے عادی تھے ،حیران ہو رہے تھے کہ ایک انسان نے اپنے آپ کو دوسرے سے برتر سمجھنے کیلئے کتنی دولت خرچ کی ہے۔خالدؓ نے حکم دیا کہ بیش قیمت اشیاء کو مالِ غنیمت میں شامل کر لیا جائے اور خزانہ ڈھونڈا جائے۔خزانہ ملتے دیر نہ لگی۔اس میں سونے اور ہیرے جواہرات کے انبار لگے ہوئے تھے۔اردگرد کے قبیلوں کے سردار اطاعت قبول کرنے کیلئے خالدؓکے پاس آنے لگے۔خالدؓنے جزیہ کی رقم مقرر کرکے اس کی وصولی کا حکم دیا۔اسدوران جاسوس نے آکر بتایا کہ فارس کی فوج عین التمر میں اکٹھی ہوگئی ہے اور اب مقابلہ بڑا سخت ہوگا۔مدائن میں آتش پرست شہنشاہت کا محل اسی طرح کھڑا تھا جس طرح اپنے شہنشاہوں کی زندگی میں کھڑا رہتا تھا۔یہ کسریٰ کا وہ محل تھا جسے جنگی طاقت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔اس کے باہر والے دروازے کے دائیں بائیں دو ببر شیر بیٹھے رہتے تھے۔یہ کسریٰ کی ہیبت اور دہشت کی علامت تھے لیکن یہ گوشت پوست کے نہیں پتھروں کے تراشے ہوئے مجسمے تھے۔ان مجسموں اور محل کے درمیان ایک مینار کھڑا تھا جو اوپر سے گول اور مینار کی گولائی سے زیادہ بڑا تھا ۔اس جگہ الاؤہر وقت دہکتا رہتا تھا۔جب یہ مینار تعمیر ہوا تھا اس کے اوپرپروہتوں نے یہ آگ جلائی تھی ،کئی نسلیں پیدا ہوئیں اور اگلی نسلوں کو جنم دے کر دنیا سے رخصت ہو گئیں۔یہ الاؤ دہکتا رہا۔*
*اس سے اٹھتا ہوا دھواں محل کی فضاء میں یوں منڈلاتارہتا تھاجیسے زرتشت نے اس محل کو اپنی پناہ میں لے رکھا ہو۔الاؤ اب بھی دہک رہا تھا اس کا دھواں اب بھی کسریٰ کے محل کی فضا میں منڈلا رہاتھا۔لیکن ایسے لگتا تھا جیسے یہ دھواں محل کو پناہ میں لینے کے بجائے خود پناہ ڈھونڈ رہا ہو۔محل جو دوسروں کیلئے کبھی ہیبت کا نشان تھا ،اب خود اس پر ہیبت طاری تھی۔اس کی شان وشوکت پہلے جیسی ہی لگتی تھی، جاہ و جلال بھی پہلے جیسا تھا مگر اس کے مکین اب صاف طور پر محسوس کرنے لگے تھے کہ اس محل پر آسیب کا اثر ہو گیا ہے،موت کی دبی دبی ہنسی کی سِس سِس دن رات سنائی دیتی تھی۔ایک غیبی ہاتھ کسریٰ کے زوال کی داستان اس کے خاندان کے خون سے لکھ رہاتھا۔کہاں وہ وقت کہ اس تخت سے دوسروں کی موت کے پروانے جاری ہوتے تھے ۔کہاں یہ وقت کہ اردشیر کے مرنے کے بعد اس تخت پر جو بیٹھتا تھا وہ پراسرار طور پر قتل ہو جاتا تھا۔دو چار سالار تھے جو فارس کی لرزتی ہوئی ڈولتی ہوئی عمارت کو کچھ دیر اور تھامے رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ایران کی نو خیز حسینائیں اب بھی اس محل میں موجود تھیں مگر رقص کی ادائیں نہیں تھیں۔ساز خاموش تھے، نغمے چپ تھے، شراب کی بو پہلے کی طرح موجود تھی مگر اس میں خون کی بو شامل ہو گئی تھی۔پہلے یہاں عیش و عشرت کیلئے شراب پی جاتی تھی اب اپنے آپ کو فریب دینے کیلئے اور تلخ حقائق سے فرار کی خاطر جام پر جام چڑھائے جا رہے تھے۔اب مدائن کا محل تخت و تاج کے حصول کا میدانِ جنگ بن گیا تھا۔درپردہ جوڑ توڑ ہو رہے تھے۔اسی محل سے خالدؓ اور ان کی سپاہ پر طنز کے یہ تیر چلے تھے کہ عرب کے بدوؤں اور لٹیروں کو فارس کی شہنشاہی میں قدم رکھنے کی جرات کیسے ہوئی؟وہ کبھی واپس نہ جانے کیلئے آئے ہیں،انہیں موت یہاں لے آئی ہے،مگر اب فارسیوں کو خود اپنی شہنشاہی میں قدم جمائے رکھنے کی جرات نہیں ہو رہی تھی۔دوسروں پر دہشت طاری کرنے والے تخت و تاج پر خالدؓ کی اور مدینہ کے مجاہدین کی دہشت طاری ہو گئی تھی۔مدائن میں اب شکست اور پسپائی کے سوا کوئی خبر نہیں آتی تھی۔جولائی ۶۳۳ء کے ایک روز مدائن میں آتش پرستوں کو اپنی ایک اور شکست کی خبر ملی۔خبر لانے والا کوئی قاصد نہیں بلکہ حاکم ساباط شیرزاد تھا اور اس کے ساتھ ا س کی شکست خوردہ فوج کے بے شمار سپاہی تھے،ان کے استقبال کسریٰ کے نامور سالار بہمن جاذویہ نے کیا۔ان کی حالت دیکھ کر ہی وہ جان گیا کہ وہ بہت بری شکست کھا کر آئے ہیں۔’’شیرزاد!‘‘بہمن جاذویہ نے کہا۔’’تمہارے پاس ہتھیار بھی نہیں،میں تم سے کیا پوچھوں؟‘‘*
*’’تمہیں پوچھنا بھی نہیں چاہیے۔‘‘شیرزاد نے تھکی ہاری آواز میں کہا۔’’تم بھی تو ان سے لڑے تھے۔کیا تم پسپا نہیں ہوئے تھے؟‘‘’’کیا تم قلعہ بند نہیں تھے؟‘‘بہمن جاذویہ نے کہا۔’’قلعے کے اردگرد خندق تھی ۔مسلمان اُڑ تو نہیں سکتے ۔اتنی چوڑی خندق انہوں نے کیسے عبور کرلی؟‘‘*
*شیرزاد نے اسے تفصیل سے بتایا کہ مسلمانوں نے اسے کس طرح شکست دی ہے۔’’میرے سالار نا اہل اور بزدل نکلے۔‘‘شیرزاد نے کہا۔’’اور مجھ سے یہ غلطی ہوئی کہ میں نے عیسائیوں پر بھروسہ کیا۔*

*مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ زبردست لڑاکے ہیں۔لیکن انہیں معلوم ہی نہیں کہ لڑائی ہوتی کیا ہے۔‘‘’’تم شاید یہ نہیں دیکھ رہے کہ تم پسپا ہو کر مسلمانوں کو اپنے پیچھے لا رہے ہو۔‘‘بہمن جاذویہ نے کہا۔’’اور تمہیں یہ نہیں معلوم کہ مدائن میں کیا ہو رہا ہے……شاہی خاندان تخت کی وراثت پر آپس میں لہولہان ہو رہا ہے،فارس کی آبرو کے محافظ ہم چار سالار رہ گئے ہیں۔‘‘’’اور جب تخت سالاروں کی تحویل میں آ جائے گا تو وہ شاہی خاندان کی طرح ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے۔‘‘شیرزاد نے کہ۔اور رازداری کے لہجے میں کہنے لگا ۔’’کیا تم ابھی تک محسوس نہیں کر سکے کہ فارس کی شہنشاہی کا زوال شروع ہو چکا ہے؟کیا ہمارا سورج ڈوب نہیں رہا؟‘‘’’شیرزاد!‘‘بہمن جاذویہ نے کہا۔’’اس حلف کو نہ بھولو جو ہم نے زرتشت کے نام پر اٹھایا تھا کہ ہم فارس کو دشمن سے بچانے کیلئے اپنی جانیں قربان کر دیں گے……تم نے غلطی کی ہے جو یہاں چلے آئے ہو۔‘‘’’کہاں جاتا؟‘‘’’عین التمر!‘‘بہمن جاذویہ نے کہا۔’’عین التمر ابھی محفوظ ہے۔بلکہ یہ ہمارا ایک محفوظ اڈا ہے۔قلعہ دار مہراں بن بہرام لڑنا اور لڑانا جانتا ہے۔اطلاع ملی ہے کہ اس نے چند ایک بدوی قبیلوں کو بھی عین التمر میں اکٹھا کر لیا ہے ۔اگر مسلمانوں نے اُدھر رخ کیا تو ایسے ہی ہوگا جیسے وہ پہاڑ سے ٹکرائے ہوں۔ان میں پسپا ہونے کی بھی ہمت نہیں ہوگی۔وہ مسلسل لڑتے آرہے ہیں۔وہ جنات تو نہیں،آخر انسان ہیں۔ان میں پہلے والا دم خم نہیں رہا۔‘‘’’لیکن میں نے انہیں تازہ دم پایا ہے۔‘‘شیرزاد نے کہا۔’’میں نے ان میں تھکن اور کم ہمتی کے کوئی آثارنہیں دیکھے……اور بہمن!مجھے شک ہوتا ہے جیسے وہ نشے میں بد مست تھے ۔ایسی بے جگری سے وہی لڑ سکتا ہے جس نے کوئی نشہ پی رکھا ہو۔‘‘’’میں یہ نہیں کہوں گا کہ ان کا عقیدہ صحیح ہے۔‘‘بہمن جاذویہ نے کہا۔’’لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ ان پر اپنے عقیدے کا نشہ طاری ہے۔ہم اپنی سپاہ میں یہ ذہنی کیفیت پیدا نہیں کر سکتے۔‘‘’’تم کہہ رہے تھے کہ مجھے عین التمر چلے جانا چاہیے تھا۔‘‘شیر زاد نے کہا۔’’کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ میں تمہارے ساتھ رہوں اور اپنی سپاہ کو منظم کرلیں۔پھر مسلمانوں پر جوابی حملے کی تیاری کریں؟‘‘*
*’’اب تمہارا عین التمر جانا بھی ٹھیک نہیں۔‘‘بہمن جاذویہ نے کہا۔’’ہمیں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا پڑے گا۔‘‘عین التمر انبار کے جنوب میں فرات کے مشرقی کنارے سے کئی میل دور ہٹ کر انبار کی طرح ایک بڑا تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا۔آج صرف ایک چشمہ اس کی نشانی رہ گئی ہے۔اس زمانے میں اس شہر کا تجارتی رابطہ دنیا کے چند ایک دوسرے ملکوں کے ساتھ بھی تھا۔قلعہ مضبوط اور شاندار تھا۔وہاں کا حاکم اور قلعہ دار ایک فارسی سالار مہراں بن بہرام چوبین تھا۔مہراں دیکھ رہا تھا کہ مسلمان فارس کی فوج کو ہر میدان میں شکست دیتے آ رہے ہیں اور جو قلعہ ان کے راستے میں آتا ہے وہ ریت کا گھروندا ثابت ہوتا ہے۔اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ مسلمانوں کو شکست دے کر فارس کی تاریخ میں نام پیدا کرے گا۔*

*جزاکم اللہ خیرا۔*

*جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔👇🏻
       *اسلامک ہسٹری*

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─