┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

*《▪♡ شمشیرِ بے نیام ♡▪》*
*حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ*

*( قسط نمبر-44)*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*خالدؓ نے اپنے تین بڑے ہی تیز اور پھرتیلے سالاروں ضرار بن الازور، قعقاع اور مثنیٰ بن حارثہ کو ان دستوں کے ساتھ بھیجاتھا۔ان تینوں کا انداز ایسا جارحانہ تھا کہ جدھر جاتے تھے اُدھر لوگ دبک جاتے اور ان کے سردار آگے آکر اطاعت قبول کرلیتے تھے۔اس طرح جون ۶۳۳ء )ربیع الآخر ۱۲ہجری(میں دجلہ اور فرات کے درمیانی علاقے اسلامی سلطنت میں آگئے۔تخت و تاج کے ہوس کاروں نے اپنی قوموں کو تاریخ کی تاریکیوں میں گم کیااور اپنے ملک دشمن کے حوالے کیے ہیں۔فارس کی شہنشاہی جو ناقابلِ تسخیر سمجھی جاتی تھی اور جس کی فوج زرہ پوش تھی ،اب زوال پزیر تھی۔مسلمانوں کی فوج کی نفری فارس کی فوج کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھی۔یہ نفری زرہ پوش بھی نہیں تھی اور آتش پرستوں کی فوج کی طرح اتنی زیادہ مسلح بھی نہیں تھی مگر آتش پرست شکست پہ شکست کھاتے چلے گئے اور فارس کے دارالحکومت مدائن کو خطرہ پیدا ہو گیا،وہاں اب کسریٰ اُردشیر نہیں تھا وہ صدمے سے مر گیا تھا۔تاریخ گواہ ہے اور یہ قرآن کا فرمان ہے کہ’’ اﷲجس قوم کو اس کے اعمالِ بد کی سزا دینے پر آتا ہے اس پر نااہل اور خود غرض حکمران مسلط کر دیتاہے جو اسی قوم کے افراد ہوتے ہیں ۔‘‘اﷲکا یہ قہر آتش پرستوں پر گرنا شروع ہر گیا تھا ۔مدائن میں اُردشیر کی موت کے بعد اس کے خاندان میں تخت و تاج کی جنگ شروع ہر چکی تھی۔خالدؓ کے جاسوس مدائن میں ہی نہیں،کسریٰ کے محل میں بھی پہنچ چکے تھے۔وہ جو خبریں بھیج رہے تھے وہ خالدؓ کے لیے امید افزاء تھیں۔*
*’’مدائن کا تخت اب وہ تختہ بن چکا ہے جس پر میت کو غسل دیا جاتاہے۔‘‘ایک جاسوس نے مدائن سے آکر خالدؓ کو بتایا۔’’یہ تخت کسریٰ کے تین شہزادوں کی جانیں لے چکا ہے۔اُردشیر کی متعدد بیویاں ہیں اور ہر بیوی کے جوان بیٹے ہیں۔ہر بیوی اپنے بیٹے کے سر پر کسریٰ کا تاج رکھنا چاہتی ہے۔اُردشیر کے مرنے کے بعد ایک شہزادے کو تخت پربٹھایا گیا،دو روز بعد وہ اپنے کمرے میں اس حالت میں مردہ پایا گیا کہ اس کا سر اس کے دھڑ سے الگ تھا۔دو نہایت خوبصورت اور جوان لڑکیوں کو ،دربان کواور دو پہرہ داروں کو جلاد کے حوالے کر دیا گیا۔اس شہزادے کے قتل کے شبہے میں ان سب کے سر قلم کر دیئے گئے……اس کی جگہ اُردشیر کی ایک اور بیوہ کے بیٹے کے سر پر کسریٰ کا تاج رکھا گیا۔تیسرے دن اس نے شراب پی اور بے ہوش ہو گیا اور ذرا دیر بعد مر گیا۔اب سات آٹھ آدمیوں اور تین جوان عورتوں کو شہزادے کو شراب میں زہر پلانے کے شبہے میں قتل کر دیا گیا……سالارِ اعلیٰ!تیسرا شہزادہ تخت پر بیٹھا ۔دوسرے روز وہ محل کے باغ میں ایک بڑی دلکش رقاصہ کے ساتھ ٹہل رہا تھا ،کہیں سے بیک وقت دو تیر آئے ۔ایک اس کی آنکھ میں اور دوسرا اس کی شہ رگ میں اتر گیا۔ کسریٰ کا تخت پھر خالی ہو گیا……*
*تخت ابھی تک خالی ہے۔کسریٰ کے وزیر اور دو سالاروں نے تاجپوشی کا سلسلہ روک دیا ہے۔انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ جو علاقے فارس کی شہنشاہی میں رہ گئے ہیں،انہیں مسلمانوں سے بچایا جائے۔*
*انہوں نے دجلہ کے پار اپنی فوج کو اس طرح پھیلا دیا ہے کہ ہم جس طرف سے بھی پیش قدمی کریں ،ہمیں روک لیا جائے۔‘‘’’ان کی اس فوج کی نفری کتنی ہوگی؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’ہم سے دگنی ہوگی۔‘‘جاسوس نے جواب دیا۔’’اس سے زیادہ ہوگی کم نہیں ہو سکتی۔مدائن دجلہ کے پار ہے۔آتش پرست ہمیں دریا پار نہیں کرنے دیں گے۔‘‘’’اﷲکے دریا اﷲکی راہ میں لڑنے والوں کو نہیں روک سکتے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’آتش پرست ہمیں روکنے کے قابل نہیں رہے۔جس قوم کے سرداروں میں پھوٹ پڑ جاتی ہے اس قوم کی قسمت میں تباہی کے سوا کچھ نہیں رہتا۔‘‘*

*’’ہم مدائن کی طرف کوچ کر رہے ہیں۔‘‘خالدؓ نے اپنے سالاروں سے کہا۔’’ہم دشمن کو سنبھلنے کی مہلت نہیں دیں گے۔‘‘خالدؓاپنے سالاروں کو کوچ کے احکام دے ہی رہے تھے کہ انہیں اطلاع دی گئی کہ مدینہ سے خلیفۃ المسلمینؓ کا قاصد آیا ہے ۔خالدؓنے فوراً قاصد کو اندر بلا لیا۔*
*’’کیا مدینہ کے لوگ ہمیں اچھے نام سے یاد کرتے ہیں؟‘‘خالدؓنے قاصد سے پوچھا۔’’خدا کی قسم!مدینہ کی ہوائیں بھی آ پ کو یاد کرتی ہیں۔‘‘قاصد نے کہا۔’’امیر المومنین ؓمسجد میں آپ کا ذکر کرتے ہیں۔وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کیا اب مائیں خالد جیسا ایک اور بیٹا جَن سکیں گی؟لوگ ہر روز آپ کی خبر کا انتظار کرتے ہیں۔‘‘’’پیغام کیا ہے؟‘‘قاصد نے پیغام خالدؓ کو دے دیا۔خالدؓ پڑھتے جا رہے تھے اور ان کے چہرے کا تاثر بدلتا جا رہا تھا۔وہاں جو سالار موجود تھے وہ پیغام سننے کیلئے بیتاب ہو گئے۔’’امیر المومنین کے سوا مجھے کون روک سکتا تھا؟‘‘خالدؓ نے کہا اور سالاروں سے مخاطب ہوکر بولے۔’’امیرالمومنین نے حکم بھیجا ہے کہ عیاض بن غنم دومۃ الجندل میں لڑ رہا ہے۔اﷲاسے فتح عطا فرمائے۔اُدھر سے فارغ ہوکر وہ ہمارے پاس آجائے گا۔امیرالمومنین نے کہا ہے کہ جب عیاض اپنی فوج لے کر ہمارے پاس آجائے تو ہم آگے بڑھیں ۔اُس کے آنے تک ہم جہاں ہیں وہیں رکے رہیں۔‘‘خالدؓ کے چہرے پر جو رونق اور آنکھوں میں فتح و نصرت کی جو چمک ہر وقت رہتی تھی وہ بجھ گئی اور وہ گہری سوچ میں کھو گئے،سالاروں کے اس اجلاس پر سناٹا طاری ہو گیا جس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ خلیفۃ المسلمینؓ نے پیش قدمی روک دی تھی بلکہ وجہ یہ تھی کہ خالدؓ کے چہرے پر ایسا تاثر کبھی کبھی آیا کرتا تھا اور یہ تاثر ایک طوفان کا پیش خیمہ ہوا کرتا تھا۔کسی بھی سالار کو خلیفہ کے اس حکم کے متعلق کوئی بات کہنے کی جرات نہ ہوئی۔چند منٹ بعد خالدؓ گہری سوچ سے بیدار ہوئے اور قاصد کی طرف دیکھا۔’’اﷲتجھے سفر میں سلامتی اور رحمت عطا کرے!‘‘خالدؓنے کہا۔’’آرام کرنا چاہتا ہے تو کرلے اور واپسی کا سفر اختیار کر……امیر المومنین سے میرا اور میرے ساتھیوں کا سلام کہنا، پھر کہنا کہ جنگ کے حالات کو وہی بہتر سمجھتے ہیں جو میدانِ جنگ میں ہوتے ہیں۔محاذ سے اتنی دور بیٹھ کر کوئی فیصلہ کرنا لڑنے والوں کیلئے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے……پھر کہنا کہ ولید کا بیٹا خلافت کی حکم عدولی کی جرات نہیں کرے گالیکن حالات نے مجبور کیا اور اسلام کو خطرہ لاحق ہوا تو میں حکم کی پرواہ نہیں کروں گا۔میں خلافتِ مدینہ کا امین اور اسلام کا پاسبان ہوں۔میں دشمن کو اپنے اوپر آتا دیکھ کر ایک شخص کے حکم کو ایک طرف رکھ دوں گا۔مجھے خوشنودی اﷲکی درکار ہے ﷲ کے کسی بندے کی نہیں*

*میں معلوم کروں گا کہ سالار عیاض کے محاذ کی صورتِ حال کیا ہے،ہو سکتا ہے اسے مدد کی ضرورت ہو، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے محاذ سے جلدی فارغ نہ ہو سکے اور آتش پرست اس عرصے میں سنبھل جائیں۔اور خلیفۃ المسلمین سے کہنا کہ ہم نے زرتشت کی آگ کو سرد کر دیا ہے اﷲنے ہمیں ایسی فتح عطا کی ہے کہ جس نے کسریٰ کے محل کو شیطان کا بسیرا بنادیا ہے۔اُردشیر کے تخت پر جو کوئی بیٹھتا ہے وہ دو روز بعد اپنے بھائیوں کے ہاتھوں قتل ہو جاتا ہے۔فارس کی شہنشاہی اور اس کی شان و شوکت کو ہم نے دجلہ اور فرات میں ڈبو دیا ہے۔حیرہ جسے فارس کا ہیرا کہتے ہیں ،ہمارا فوجی اڈہ ہے، ہمارے لیے دعاکرتے رہیں۔‘‘قاصد کی روانگی کے بعد خالدؓ نے ایک کماندار کو بلا کر کہا کہ اپنے ساتھ دو بڑے تیز اور توانا سپاہی لے کر بہت تیز رفتار سے دومۃ الجندل جائے اور غور سے دیکھے کہ وہاں کیا صورتِ حال ہے اور سالار عیاض بن غنم کب تک فارغ ہو سکیں گے اور کیا ان کے جلدی فارغ ہونے کا امکان ہے بھی یا نہیں۔کماندار اسی وقت روانہ ہو گیا۔’’خلیفۃ المسلمین کے اس حکم کو جو تم نے سنا ہے، ذہن سے اتار دو۔‘‘خالدؓنے اپنے سالاروں سے کہا۔’’دل میں خلافتِ مدینہ کا پورا احترام رکھتے ہوئے ان حالات کو دیکھوجو ہم نے آتش پرستوں کیلئے پیدا کر دیئے ہیں۔اگر ہم عیاض کے انتظار میں یہیں بیٹھے رہے تو کسریٰ کی فوج کے سنبھلنے کا موقع مل جائے گا۔خدا کی قسم!تم سب یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہو کہ کسریٰ کی فوج پر تم نے جو خوف طاری کر دیا ہے وہ انہیں کسی میدان میں تمہارے مقابلے میں نہیں ٹھہرنے دے گا……اور مدائن کے محلات میں تخت نشینی پر جو قتل و غارت ہو رہی ہے وہ ہمارے حق میں جاتی ہے۔قوم کے سرداروں میں جب تخت نشینی وجہ پیکار بن جاتی ہے تو فوج ایسی تلوار کی مانند ہو جاتی ہے جو بڑے ہی ڈھیلے اور کمزورہاتھوں میں ہو۔‘‘’’ہاں ابنِ ولید!‘‘سالار عاصم بن عمرو نے کہا۔’’کسریٰ کے جن سالارں نے فارس کے بچے ہوئے علاقوں میں اپنی فوج پھیلا دی ہے وہ سالار بھی تخت کے خواہشمند ہوں گے ۔وہ ہم پر فتح حاصل کرکے فارس کے تخت پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔‘‘’’اگرایساہوا تو فارس جلدی تباہ ہوگا۔‘‘سالار عدی بن حاتم نے کہا۔’’سالاروں کے دماغوں پر جب تخت و تاج سوار ہو جاتا ہے تو وہ اپنے ملک اور قوم کو بڑی جلدی تباہ کر دیتے ہیں۔‘‘’’جب توجہ تخت کے لفظ اور اپنی ذات پر مرکوزہو جاتی ہے تو نگاہیں دشمن سے ہٹ جاتی ہیں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’میں ان حالات سے فائدہ اٹھاؤں گا۔اپنی فوج کو تیاری کی حالت میں رکھو۔ہم آخری فیصلہ دومۃالجندل کی صورتِحال معلوم ہو جانے پر کریں گے۔‘‘دومۃ الجندل کی صورتِ حال سالار عیاض بن غنم کیلئے مخدوش تھی۔دومۃ الجندل اس دور کا مشہور تجارتی مرکز تھا۔آج کے عراق اور شام کی شاہراہیں یہیں آکر ملتی تھیں۔رسولِ اکرمﷺنے تبوک پو چڑھائی کی تھی تو اس دوران خالدؓدومۃ الجندل تک پہنچے اور یہاں کے قلعہ سے قلعہ دار اُکیدربن مالک کو گرفتار کرکے رسولِ اکرمﷺ کے حضور پیش کیا تھا۔*

*اُکیدر بن مالک نے اسلام تو قبول نہ کیا، رسول اﷲﷺ کی اطاعت قبول کر لی تھی لیکن حضور ﷺ کی وفات کے بعد ارتدار کا فتنہ اٹھا تو اس شخص نے مدینہ کی وفاداری ترک کردی اور عیسائیوں اور بت پرستوں کو ساتھ ملا کر اس کا سردار بن گیا تھا۔ابو بکرؓ نے اُکیدر بن مالک کی سرداری کو ختم اور اس کے زیرِ اثر غیر مسلم قبائل کو اپنے زیرِ نگیں کرنے کیلئے سالار عیاض بن غنم کو بھیجا تھا۔عیاض تجربہ کار سالار تھے لیکن دومۃ الجندل پہنچے تو دیکھا کہ عیسائیوں کا ایک بہت بڑا قبیلہ جو کلب کہلاتا تھا ،اپنے علاقے کے دفاع کیلئے تیار تھا۔یہ قبیلہ جنگ و جدل میں شہرت رکھتا تھا ۔عیاض نے قلعے کو محاصرے میں لے لیا لیکن عیسائیوں نے باہر سے مسلمانوں کو محاصرے میں لے لیا۔عیاض کی فوج کو آگے بھی اور عقب میں بھی لڑنا پڑا۔اس صورتِ حال نے جنگ کو ایسا طول دیا جوختم ہوتا نظر نہیں آتا تھا۔اور یہ صورتِ حال عیاض کیلئے روز بروز مخدوش ہوتی جا رہی تھی۔خالدؓ کا بھیجا ہوا کماندار واپس آیا تو اس نے خالدؓکو بتایا کہ عیاض بن غنم کیسے آئے گا؟اسے تو خود مدد کی ضرورت ہے۔کماندار نے دومۃ الجندل میں عیاض اور دشمن کی فوجوں کی پوزیشنیں تفصیل سے بیان کیں۔’’خدا کی قسم! میں یہاں انتظا رمیں فارغ نہیں بیٹھ سکتا۔‘‘خالدؓنے پر جوش آواز میں کہا۔’’پیشتر اس کے کہ دشمن آگے آجائے۔میں آگے بڑھوں گا۔مدائن کی شہر پناہ مجھے پکار رہی ہے……کوچ کی تیاری کرو۔‘‘مشہور مؤرخ طبری ار بلاذری نے لکھا ہے کہ خالدؓ کی خود سری اور سرکشی مشہور تھی ۔وہ چَین سے بیٹھنے والے سالار نہیں تھے۔اس صورت میں کہ دشمن چار شکستیں کھا چکا تھا اور اس کا نظام درہم برہم ہو گیا تھا اور مدائن کے شاہی ایوان میں ابتری پھیلی ہوئی تھی ،خالدؓ فارغ بیٹھ ہی نہیں سکتے تھے۔خالدؓکا جاسوسی نظام بڑا تیز اور ذہین تھا۔اس میں زیادہ تر وہ مسلمان تھے جو فارس میں غلاموں جیسی زندگی بسر کر رہے تھے۔وہ ان علاقوں سے واقف تھے اور مختلف قبیلوں کی ذبانیں بول سکتے تھے اور ان کا بہروپ دھار سکتے تھے۔وہ مدائن کے محلات کے اندر کی خبریں لے آئے تھے۔ انہوں نے خالدؓ کو خبریں دینی شروع کر دیں کہ فارس کی فوج کہاں کہاں موجود ہے اور کس جگہ کیا کیفیت ہے۔ان کی اطلاعوں کے مطابق ایرانیوں کی فوج کی زیادہ تر نفری دو شہروں میں تھی۔ایک تھا عین التمر اور دوسرا انبار۔عین التمرحیرہ کے قریب تھا اور انبار اس سے دگنے فاصلے پر آگے تھا،عین التمر دریائے فرات سے دور ہٹ کر واقع تھا اور انبار فرات کے کنارے پر تھا۔خالدؓنے فیصلہ کیا کہ پہلے انبار پرحملہ کیاجائے،یہ بھی تجارتی شہر تھاجس میں غلّے کے بہت بڑے بڑے ذخیرے تھے۔*

*جون ۶۳۳ء کے آخر )ربیع الاول ۱۲ ھ کے وسط(میں خالدؓ نے حیرہ سے کوچ کیا۔ان کے ساتھ ان کی آدھی فوج یعنی نو ہزار نفری تھی جو حملے کیلئے بہت ہی تھوڑی تھی لیکن خالدؓکو اﷲپر اور اپنی جنگی فہم و فراست پر بھروسہ تھا۔وہ مفتوحہ علاقوں کو فوج کے بغیر نہیں چھوڑ سکتے تھے ۔عیسائی اور دیگر قبیلوں نے اطاعت تو قبول کر لی تھی لیکن مسلمانوں کو بڑے تلخ تجربے ہوئے تھے۔اطاعت قبول کرنے والے موقع ملتے ہی اطاعت سے منکر اور باغی ہو جاتے تھے۔حیرہ میں خالدؓ نے قعقاع بن عمرو اور اقرع بن حابس کو چھوڑا تھا۔*
*یہاں ایک غلطی کی وضاحت ضروری ہے۔دو چار تاریخ دانوں نے لکھاہے کہ خالدؓحیرہ میں سالار عیاض بن غنم کے انتظار میں ایک سا لارکے رہے۔یہ غلط ہے،اس دور کی تحریروں سے صاف پتا چلتا ہے کہ خالدؓنے حیرہ میں پورا ایک مہینہ بھی انتظار نہیں کیا نہ انہوں نے امیر المومنینؓ کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ ان کے حکم کے خلاف سالار عیاض بن غنم کا انتظار کیے بغیر مدائن کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔خالدؓ اپنی نَو ہزار سپاہ کے ساتھ فرات کے کنارے کنارے بڑی تیزی سے بڑھتے گئے ۔ان کے جاسوس مختلف بہروپوں میں دریا کے دوسرے کنارے پر آگے آگے جا رہے تھے۔انبار سے تھوڑی دور رہ گئے تو خالدؓ نے فرات عبور کیا اور اس کنارے پر چلے گئے جس پر انبار واقع تھا۔وہاں انہوں نے مختصر سا قیام کیا اور دو خط تحریر کرائے۔ایک کسریٰ کے نام اور دوسرا مدائن کے حکام اور امراء وغیرہ کے نام۔کسریٰ کے نام خالدؓ نے لکھوایا:’’بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم۔خالد بن ولید کی جانب سے شاہِ فارس کے نام۔میں شکر ادا کرتا ہوں اﷲکا جس نے تمہاری بادشاہی کو تہہ و بالا کر ڈالا ہے اور تہاری عیاریوں کو کامیابی سے محروم رکھا ہے اور تم آپس میں ہی دست و گریبان ہو رہے ہو۔اﷲاگر تمہیں مذید مہلت دیتا تو بھی گھاٹے میں تم ہی رہتے۔اب تمہاری نجات کا ایک ہی راستہ ہے ۔مدینہ کی اطاعت قبول کر لو۔اگر یہ منظور ہے تو میں شرائط طے کرنے کیلئے دوستوں کی طرح آؤں گا۔پھر ہم تمہارے علاقے سے آگے نکل جائیں گے۔اگر پس و پیش کرو گے تو تمہیں ایسی قوم کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑیں گے جسے موت اتنی عزیز ہے جتنا تم زندگی کو عزیز رکھتے ہو۔‘‘خالدؓ نے مدائن کے حکام اور امراء کے نام لکھوایا:’’بسم اﷲالرحمٰن الرحیم۔خالد بن ولید کی جانب سے فارس کے امراء کے نام۔تمہارے لیے بہتر صورت یہی ہے کہ اسلام قبول کر لو۔ہم تمہاری سلامتی اور تحفظ کے ذمہ دار ہوں گے ۔اسلام قبول نہ کرو تو جزیہ ادا کرو ،ورنہ سوچ لو کہ تمہارا سامنا ایک ایسی قوم سے ہے جو موت کی اتنی ہی شیدائی ہے جتنے فریفتہ تم شراب پر ہو۔‘‘*

*جزاکم اللہ خیرا۔*

*جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*👇🏻
               *اسلامک ہسٹری*

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─