┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

*《▪♡ شمشیرِ بے نیام ♡▪》*

*حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ*

*( قسط نمبر-43)*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*خالدؓ ذاتی دشمنی کے قائل نہیں تھے ۔متعصّب تاریخ دانوں نے خالدؓ کو ظالم سالار کہا ہے لیکن خالدؓ نے جو بھی علاقہ فتح کیا وہاں کا انتظام مفتوحہ امراء و رؤسا کے سپرد کر دیا۔البتہ ان کے نگران یعنی بالائی حکام مسلمان مقرر کیے جاتے تھے۔حیرہ کو فتح کر کے خالدؓ نے سارے فارس کو فتح نہیں کر لیا تھا۔بلکہ خالدؓ خطروں میں گھر گئے تھے۔آتش پرست ان پر چاروں طرف سے حملے کر سکتے تھے۔اگر بڑے پیمانے پر حملہ نہ کرتے تو شب خون مار مار کر مسلمانوں کی فوج کو نقصان پہنچا سکتے تھے لیکن آتش پرستوں نے ایسی کوئی کارروائی نہ کی۔اس کی اور کئی وجوہات تھیں جن میں ایک یہ تھی کہ مفتوحہ علاقوں کے لوگ مسلمانوں کے سلوک سے متاثر ہوکر ان کے حامی اور معاون بن جاتے تھے۔*
*حیرہ اور نواحی علاقے میں دیر ناطف نام کی ایک بستی تھی جو عیسائیوں کی بستی کہلاتی تھی ۔وہاں ایک بہت بڑا گرجا تھا جس کے پادری کا نام صلوبابن نسطوناتھا۔وہ عیسائیوں کا مذہبی پیشوا ہی نہیں ان کا عسکری قائد بھی تھا۔وہ میدان ِ جنگ میں کبھی نہیں گیا تھا لیکن جنگ و جدل کے فن میں مہارت رکھتا تھا۔فارس کے عیسائی للکار کر مسلمانوں کے مقابلے میں آئے تھے اور مسلمانوں کی تلواروں او برچھیوں سے بری طرح کٹے تھے۔ایسے عیسائیوں کی تعداد خاصی کم ہو گئی تھی جو لڑنے کے قابل تھے۔بوڑھے زندہ رہ گئے تھے یا عورتیں زندہ تھیں،صلوبابن نسطونا اکثر کہا کرتا تھا کہ مذہب صرف ایک زندہ رہے گا اور یہ عیسائیت ہوگی۔’’زرتشت رہے گا نہ مدینہ کا اسلام!‘‘اس نے اپنے وعظ میں کئی بار کہا تھا۔’’سب مٹ جائیں گے اور زمین پر یسوع مسیح کی حکومت ہوگی۔‘‘حیرہ فتح ہونے تک لڑنے والے ہزار ہا عیسائی مٹ گئے تھے،باقی مسلمانوں کے ڈر سے بھاگ کر اِدھر اُدھرجا چھپے تھے۔ان کے سرکردہ افراد نے پادری صلوبابن نسطونا کے ساتھ رابطہ رکھا ہوا تھا۔صلوبا نے کوشش کی تھی کہ عیسائیوں کو یکتا اور متحد کرکے مسلمانوں پر شبخون مارنے کیلئے تیار کرے لیکن عیسائیوں پر مسلمانوں کی ایسی دہشت بیٹھ گئی تھی کہ وہ شب خون اور چھاپہ مار جنگ کیلئے تیار نہ ہوئے۔’’مقدس باپ!‘‘ایک رات ایک نامور جنگجو عیسائی شمیل بورزانہ نے پادری صلوبابن نسطونا سے کہا۔’’کیا تم اس پر یقین رکھتے ہو کہ گرجے کی گھنٹیاں اور تمہارے وعظ اس تباہی کو روک لیں گے جو ہماری طرف تیزی سے بڑھی آرہی ہے؟‘‘’’نہیں!‘‘ پادری صلوبا نے کہا۔’’میرے وعظ اور گرجے کے گھنٹے کی آوازیں اب اس تباہی کو نہیں روک سکتیں۔‘‘’’پھر تم ہمیں اجازت کیوں نہیں دیتے کہ ہم مسلمانوں کی فوج پر ہر رات شبخون ماریں؟‘‘شمیل بورزانہ نے کہا۔’’مدینہ کے مسلمان جن نہیں، بھوت نہیں، انسان ہیں۔ہماری طرح کے انسان ہیں۔‘‘’’شمیل!‘‘پادری صلوبا نے کہا۔’’بے شک وہ انسان ہیں لیکن تمہاری طرح نہیں۔میں نے ان میں کچھ اور ہی بات دیکھی ہے……وہ فتح کا عزم لے کرآئے ہیں۔اگر انہوں نے اپنے جسموں کے متعلق یہی رویہ رکھا توآخری فتح بھی انہی کی ہوگی۔‘‘*

*’’مقدس باپ!‘‘شمیل نے کہا۔’’میں جسموں والی بات نہیں سمجھا۔‘‘’’سمجھنے کی کوشش کرو۔‘‘پادری صلوبا نے کہا۔’’یہ لوگ جنہیں کسریٰ اُردشیر عرب کے بدُّو کہتا رہا ہے، جسمانی آسائشوں اور لذتوں کو قبول نہیں کرتے۔‘‘’’مقدس باپ کی زبان سے دشمن کی تعریف اچھی نہیں لگتی۔‘‘شمیل نے کہا۔’’اگر تم اپنے آپ میں دشمن کے اچھے اوصاف پیدا کرلوتو تم شکست سے بچ سکتے ہو۔‘‘پادری صلوبا نے کہا۔’’کیا تمہارے دوستوں نے مسلمانوں کو جال میں پھانسنے کیلئے پندرہ حسین لڑکیاں نہیں بھیجی تھیں؟کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم لوگ جو کچھ کرتے ہو اس کا مجھے علم نہیں ہوتا؟تمہاری تلواروں کی دھار کند ہو چکی ہے اس لیے تم لوگوں نے عورتوں کو استعمال کیا ہے۔کیا تم انکار کرو گے؟‘‘’’نہیں مقدس باپ!‘‘شمیل نے شرمسار سا ہوکہ کہا۔’’ہمارے ایک بزرگ نے کہا تھا کہ ایک تلوار ایک وار میں ایک آدمی کو کاٹ سکتی ہے لیکن ایک حسین عورت کا ایک وار ایک سو آدمیوں کو گھائل کر دیتا ہے۔مسلمان سوار گھوڑوں کو جھیل سے پانی پلانے لایا کرتے ہیں۔وہ چار چار چھ چھ کی ٹولیوں میں آتے ہیں۔جھیل کے اردگرد اونچی چٹانیں اور گھنا جنگل ہے۔ہماری لڑکیوں نے مسلمان سواروں کو اپنی طرف کھینچنے کی بہت کوشش کی لیکن ان پر کچھ اثر نہ ہوا۔ہماری بعض لڑکیاں نیم برہنہ ہر کر انہیں چٹانوں کے پیچھے چلنے کے اشارے کرتی رہیں لیکن ہوا یہ کہ بعض سوار منہ پھیر لیتے اور بعض ہنس پڑتے تھے۔‘‘’’اور مجھے یہ بھی معلوم ہے شمیل!‘‘پادری صلوبا نے کہا۔’’کہ تم لوگوں نے مسلمانوں کے گشتی سنتریوں کو بھی پھانسنے کی کوشش کی تھی اور تم لوگوں نے یہ بھی سوچا تھا کہ مسلمانوں کے سالاروں اور خالدبن ولید کو قتل کرنے کیلئے لڑکیوں کو استعمال کیاجائے۔‘‘’’ہاںمقدس باپ!‘‘شمیل نے کہا۔’’ہم نے ایسا سوچا تھا۔‘‘’’پھر اس سوچ پر عمل کیوں نہ کیا؟‘‘’’اس لیے نہ کیا کہ جس فوج کے سپاہیوں کا کردار اتنا مضبوط ہے اس کے سالار تو فرشتوں جیسے ہوں گے۔‘‘شمیل نے جواب دیا۔’’اب ہمارے سامنے یہی ایک صورت رہ گئی ہے کہ مسلمان فوج پر شب خون مارنے شروع کر دیں اور انہیں اتنا نقصان پہنچائیں کہ یہ پسپائی پر مجبور ہو جائیں۔‘‘’’کیا تم کسریٰ کی فوج سے زیادہ طاقتور ہو؟‘‘پادری صلوبا نے کہا۔’’وہ جو کہتے تھے کہ زمین پرکوئی طاقت ان کے مقابلے میں اٹھنے کی جرات نہیں کر سکتی اب کہاں ہیں۔ آگ کو پوجنے والوں کے تمام نامور سالار مسلمانوں کے ہاتھوں کٹ گئے ہیں ۔ہم نے ان کی خاطر مسلمانوں سے لڑکر غلطی کی ہے۔‘‘’’تو کیا مقدس باپ!تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نہ رکھیں؟‘‘شمیل نے حیران سا ہو کر پوچھا۔’’ہاں!‘‘پادری صلوبا نے جواب دیا۔’’میں یہی کہنا چاہتا ہوں۔بلکہ میں مسلمانوں کے ساتھ دوستی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘’’مقدس باپ!‘‘شمیل نے کہا۔’’پھر تم کہو گے کہ مسلمانوں کے مذہب کو بھی قبول کرنا چاہتے ہو۔‘‘*

*’’نہیں !ایسانہیں ہوگا۔‘‘پادری صلوبا نے کہا۔’’جب سے حیرہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا ہے۔میں یہی دیکھ رہا ہوں کہ ان سے ہمارے مذہب کو کتنا کچھ خطرہ ہے۔میں نے دیکھ لیا ہے کہ عیسائیت کو کوئی خطرہ نہیں۔مسلمان اپنا مذہب قبول کرنے کی دعوت دیتے ہیں ،وہ زبردستی اپنا مذہب مفتوحہ لوگوں پر نہیں ٹھونستے……کیا انہیں معلوم نہیں کہ یہاں ایک گرجا ہے۔جس میں مجھ جیسا جہاندیدہ اور مذہب پر مر مٹنے والا پادری موجود ہے؟……انہیں معلوم ہے شمیل!میں دو اتوار گرجے میں آنے والے عیسائیوں کے ہجوم میں دو اجنبی آدمیوں کو دیکھتا رہا ہوں۔میں نے ان کے گلوں میں صلیبیں لٹکتی دیکھی تھیں۔وہ ہر لحاظ سے عیسائی لگتے تھے لیکن میری دوربین نگاہوں نے بھانپ لیا تھا کہ وہ دونوں مسلمان ہیں اور وہ مدینہ کے نہیں فارس کے رہنے والے ہیں۔وہ ولید کے بیٹے خالد کے جاسوس تھے ۔میں اپنے وعظ میں محتاط رہا۔‘‘*
*’’مقدس باپ!‘‘شمیل نے کہا۔’’اگر تم مجھے اشارہ کر دیتے تو وہ دونوں زندہ واپس نہ جاتے۔‘‘*
*’’پھر اس گرجے کی اینٹ سے اینٹ بج جاتی۔‘‘پادری صلوبانے کہا۔’’عقل اور جوش میں یہی فرق ہے شمیل!تم میں جوش ہے اور میں عقل سے کام لے رہا ہوں……میں تم لوگوں کو مسلمانوں پر شب خون مارنے اور لڑنے کی اجازت نہیں دوں گا۔‘‘دو تین روز بعد پادری صلوبابن نسطوناگرجے میں تمام عیسائی سرداروں سے کہہ رہا تھا’’ ……حقیقت کو دیکھو۔کسریٰ کی اتنی زبردست فوج مدینہ کی قلیل سی فوج کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکی۔تم نے بھی مسلمانوں کا مقابلہ کرکے دیکھ لیا ہے۔اب مسلمانوں سے ٹکرا کرتم تباہ ہوجانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتے۔وقت کا ساتھ دو۔مسلمانوں نے تمہارے مذہب کیلئے کوئی خطرہ پیدا نہیں کیا۔انہوں نے ہمیں اور آتش پرستوں کو بھی اپنی اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کی اجازت دے رکھی ہے ۔مسلمانوں نے عدل وانصاف میں جو مساوات قائم کی ہے وہ تم خود دیکھ رہے ہو……اور تم یہ بھی دیکھ رہے ہو کہ تم ان کے خلاف آتش پرستوں کے دوش بدوش لڑے تھے لیکن مسلمانوں نے تمہارے خلاف کسی قسم کی انتقامی کارروائی نہیں کی۔انہوں نے کاشتکاروں کی زمینوں پر قبضہ نہیں کیا۔ان کی فصلوں میں اپنے گھوڑے او ر اونٹ نہیں چھوڑے بلکہ آتش پرست حاکم ان غریب کسانوں پر جو ظلم و تشدد کرتے اور ان کی کھیتیوں کی پیداوار اٹھالے جاتے تھے۔یہ لوٹ کھسوٹ ختم ہو گئی ہے۔اس حقیقت سے انکار نہ کرو کہ مسلمان رعایا کو پورے حقوق دے رہے ہیں۔‘‘’’تم پر خدائے یسوع مسیح کی رحمت ہو!‘‘ایک سردار نے پادری صلوبا کو ٹوکتے ہوئے کہا۔’’کیا تم ہمیں یہ ترغیب دے رہے ہو کہ ہم مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لیں؟‘‘’’کیا یہ ہماری بے عزتی نہیں؟‘‘ایک اور سردار نے کہا۔’’مسلمانوں نے تمہاری عزت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔‘‘پادری صلوبا نے کہا۔’’کیا تم نے انہیں پھانسنے اور گمراہ کرنے کیلئے اپنی لڑکیوں کو نہیں بھیجا تھا؟کیا وہ تمہاری لڑکیوں کو اٹھا کر نہیں لے جا سکتے تھے؟……اور مت بھولو کہ کسریٰ کے حاکموں نے تمہاری کتنی لڑکیوں کے ساتھ زبردستی شادی کی تھی۔جسے جو لڑکی اچھی لگی، وہ اسے حکماً لے گیا……*

*اور یہ بھی سوچو کہ فارس کے وہ سالار اور کماندار کہاں ہیں جن کے ساتھ مل کر تم مسلمانوں کے خلاف لڑے تھے ؟کیا انہوں نے تم سے پوچھا ہے کہ تم کس حال میں ہو؟کیا انہوں نے آکر دیکھا ہے کہ تم میں سے جو مارے گئے ہیں ان کی بیویاں کس حال میں ہیں؟ان کے بچے کس حال میں ہیں؟اور مسلمان تمہیں سزا تو نہیں دے رہے؟‘‘’’بے شک وہ ہمیں بھول گئے ہیں۔‘‘ایک بوڑھے سردار نے کہا۔’’تو بجا کہتا ہے مقدس باپ!‘‘ایک اور سردار بولا۔’’اب بتا ہمیں کیا کرنا چاہیے۔تم ہمیں کس راستے پر لے جانا چاہتا ہے؟‘‘’’یہ تمہاری سلامتی کا راستہ ہوگا۔‘‘پادری صلوبا نے کہا۔’’اس میں تمہارے جان و مال کی اور تمہارے مذہب کی سلامتی ہے……میں مسلمانوں کی اطاعت قبول کر رہا ہوں اور میں بانقیا اور بسما کے علاقے کی تمام قابلِ کاشت اراضی کا لگان وصول کرکے مسلمانوں کو ادا کیا کروں گا۔‘‘تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کے حسنِ سلوک ،عدل و انصاف اور اسلوبِ حکومت سے متاثر ہو کر دیرناطف کے پادری صلوبا بن نسطونانے سب سے پہلے خالدؓکے سامنے جاکر اطاعت قبول کی اور دس ہزار دینار خالدؓ کو پیش کیے۔اس رقم کے ساتھ وہ ہیرے اور بیش قیمت موتی بھی تھے جو کسریٰ اُردشیر نے پادری صلوبا کو تحفے کے طور پر دیئے تھے ۔یہ موتی دراصل رشوت تھی جو اُردشیر نے عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑانے کیلئے پادری صلوبا کو دی تھی۔*
*خالدؓ کے حکم سے ایک معاہدہ لکھا گیا:’’یہ معاہدہ مدینہ کے سالار خالد بن ولید اور صلوبا بن نسطونا کی قوم کے ساتھ طے ہوا اور تحریر کیا جاتا ہے۔اس کے مطابق صلوبابن نسطونا عیسائی قوم کی طرف سے دس ہزار دینار سالانہ بطور جزیہ ادا کرے گااور کسریٰ کے ہیرے اور موتی اس رقم کے علاوہ وصول کیے جائیں گے۔جزیہ کی رقم صرف ان عیسائیوں سے ہر سال وصول کی جایا کرے گی جو اس کی استطاعت اور توفیق رکھتے ہیں اور جو کمانے کے قابل ہوں گے۔ہرکسی کو جزیہ کا اتنا ہی حصہ دینا پڑے گا جتنا وہ آسانی سے ادا کرسکے گا۔اس معاہدہ کے رُو سے مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ عیسائیوں کی بستیوں بانقیا اور بسما کو ہر طرح کا تحفظ مہیا کریں۔پادری صلوبا بن نسطونا کو اس کی قوم کا نمائندہ تسلیم کیا جاتا ہے جیسا کہ اسے اس کی قوم نے تسلیم کیا ہے۔اس معاہدے پر جو خالد بن ولید نے کیا ہے،تمام مسلمان رضا مند ہیں اور وہ اس پر عمل کریں گے۔‘‘پادری صلوبا اس علاقے کی نامور شخصیت تھی۔اردگرد کے بڑے بڑے سرداروں اور سرکردہ افراد نے جب دیکھا کہ صلوبا نے خالدؓ کی اطاعت قبول کرلی ہے تو وہ سب حیرہ پہنچے اور خالدؓ کی اطاعت قبول کرنے لگے۔انہوں نے جو نقد جزیہ ادا کیا وہ بیس لاکھ درہم تھا۔مسلمانوں کی شجاعت کی دھاک دور دور تک بیٹھ گئی۔بڑا ہی وسیع علاقہ مسلمانوں کے زیرِ نگین آگیا۔خالدؓ نے وقت ضائع کیے بغیر اس علاقے میں اسلامی حکومت قائم کردی اور انہی سرداروں میں امراء منتخب کرکے مختلف علاقوں میں مقررکر دیئے۔اس کے ساتھ ہی اپنی فوج کے کچھ دستے اس مقصد کیلئے سارے علاقے میں پھیلا دیئے کہ کہیں سے اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت نہ اٹھ سکے۔یہ دستے گھوڑ سوارتھے اور برق رفتار۔*

*جزاکم اللہ خیرا۔*

*جاری ہے۔۔۔👇🏻
    *اسلامک ہسٹری*

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─