┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


*《▪♡شمشیرِ بے نیام ♡▪》*

*حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ*

*( قسط نمبر-49)*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*بہمن جاذویہ نے دربارِ خاص میں بتایا کہ جو عیسائی قبیلے ان کے اتحادی بن کر لڑے تھے،ان کی بھی یہی کیفیت ہے۔مہراں بن بہرام نے انہیں عین التمر میں جو دھوکا دیا تھا اس کی وجہ سے وہ فارس والوں کے ساتھ ملنے سے انکار کر سکتے تھے۔’’پھر بھی انہیں ساتھ ملا لیا جائے گا۔‘‘بہمن جاذویہ نے کہا۔’’لیکن اپنے لشکر کیلئے ہزار ہا جوان آدمیوں کی بھرتی کی ضرورت ہے۔ہمیں اپنے لشکر میں نیا خون شامل کرنا پڑے گا۔ان جوانوں کو ہم بتائیں گے کہ مسلمانوں نے ان کی شہنشاہی کو ،ان کی غیرت کو اور ان کے مذہب کو للکارا ہے۔اگر انہوں نے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا نہ دیا تو ان پر زرتشت کا قہرنازل ہوگا۔ان کی جوان اور کنواری بہنوں کو مسلمان اپنی لونڈیاں بنا لیں گے۔‘‘’’اتنے زیادہ لشکر کی کیا ضرورت ہے؟‘‘مہراں بن بہرام نے کہا۔’’اطلاع تو یہ ملی ہے کہ ہر جگہ مسلمانوں کی نفری برائے نام ہے۔‘‘’’ہر شہر اور ہر قلعے میں ہمارے اپنے آدمی موجود ہیں۔‘‘شیرزاد نے کہا۔’’اس وقت وہ مسلمانوں کی ملازمت میں ہیں لیکن انہیں جب پتہ چلے گا کہ فارس کی فوج نے شہر کا محاصرہ کیا ہے تو……‘‘’’تو وہ اندر سے قلعے کے دروازے کھول دیں گے۔‘‘بہمن جاذویہ نے شیرزاد کی بات پوری کرتے ہوئے کہا۔’’تم جھوٹی امیدوں کے سہارے لڑائی لڑنا چاہتے ہو؟مجھے اطلاعیں ملتی رہتی ہیں ،مسلمان اپنے مفتوح اور محکوم لوگوں کے ساتھ اتنا اچھا سلوک کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی آدمی بے وفائی نہیں کرتا۔اگر فاتح اپنے مفتوح کی جوان اور حسین بیٹیوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے اور اس کی عزت اور اموال کو تحفظ دے تو مفتوح ایسے فاتح کے ساتھ کبھی بے وفائی نہیں کرے گا۔‘‘’’نہ سہی!‘‘شاہی خاندان کے کسی فرد نے کہا۔’’اتنے زیادہ لشکر کی پھر بھی ضرورت نہیں۔‘‘’’یہ ان سالاروں سے پوچھیں جو مسلمانوں سے شکست کھا کر آئے ہیں۔‘‘بہمن جاذویہ نے کہا۔’’میں تو کہتا ہوں کہ مسلمان جتنے تھوڑے ہوتے ہیں اتنے ہی زیادہ طاقتور ہوتے ہیں ،میں کوئی خطرہ مول نہیں لیناچاہتا۔یہ بھی خیال رکھیں کہ مسلمان قلعہ بند ہوں گے۔انہیں زیر کرنے کیلئے ہمارے پاس دس گنا نفری ہونی چاہیے۔میں اپنی جوابی کارروائی کو فیصلہ کن بنانا چاہتا ہوں۔یہ خیال بھی رکھو کہ ہم ایک دن میں مقبوضہ شہر مسلمانوں سے واپس نہیں لے سکتے،مسلمان جہاں مقابلے میں جم گئے وہاں ہمیں مہینوں تک باندھ لیں گے۔اس عرصے میں خالد اپنے لشکرکے ساتھ واپس آ سکتا ہے۔اس کے واپس آجانے سے صورتِحال بالکل ہی بدل جائے گی۔اگر ہمارے لشکر کی نفری کم ہوئی تو اس جنگ کا پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ہم لشکر تیار کرکے اسے کئی حصوں میں تقسیم کریں گے اور ایک ہی وقت ہر جگہ حملہ کریں گے۔‘‘’’کیا خالد کے خاتمے کاکوئی انتظام نہیں ہو سکتا؟‘‘کسریٰ کے جانشین نے پوچھا۔’’یہ انتظام بھی میرے پیشِ نظر ہے۔‘‘بہمن جاذویہ نے کہا۔’’دیکھ بھال کیلئے میں تیز رفتار گھوڑ سوار ہر طر ف پھیلا دوں گا۔خالدجدھر سے بھی آئے گا،مجھے اطلاع مل جائے گی۔میں اسے عراق سے دور روک لوں گا۔‘‘*

*بہمن جاذویہ کو وسیع اختیارات مل گئے۔اس نے اپنےلشکر میں ان سپاہیوں کو زیادہ ترجیح دی جو مسلمانوں سے لڑ چکے تھے۔اس کے ساتھ ہی نئی بھرتی شروع کر دی۔نوجوانوں کو ایسا بھڑکایا گیا کہ وہ ہتھیاروں اور گھوڑوں سمیت لشکر میں آنے لگے۔عیسائیوں کو زیادہ مراعات دے کر فوج میں شامل کیا گیا۔عیسائی قبیلوں کے سرداروں کو مدائن بلایا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ خالدؓ اپنے لشکر کو عراق سے نکال کرلے گیا ہے،اور جو مسلمان فوج پیچھے رہ گئی ہے اسے یہیں ختم کرنا ہے اور زندہ بچے رہنے والے مسلمانوں کو صحرا میں بھٹک بھٹک کر مرنے کیلئے چھوڑ دینا ہے۔’’بنی تغلب سے اب یہ توقع نہ رکھو کہ وہ تمہاری لڑائی لڑیں گے۔‘‘عیسائی قبیلے بنی تغلب کے ایک سالار نے فارس کے سالاروں سے کہا۔’’ہم ایک بار پھر وہ دھوکا نہیں کھانا چاہتے جو ایک بار کھا چکے ہیں۔عین التمر سے مہراں بن بہرام اپنی ساری فوج لے کر نہ بھاگتا تو مسلمان وہیں ختم ہو جاتے۔ہم اپنی لڑائی لڑیں گے ۔ہمیں مسلمانوں سے اپنے سردار عقہ بن ابی عقہ کے خون کا انتقام لینا ہے ۔ہم تمہاری مدد اور تمہارے ساتھ کے بغیر مسلمانوں کو شکست دے سکتے ہیں۔‘‘’’کیا تم اپنی لڑائی الگ لڑو گے؟‘‘بہمن جاذویہ نے پوچھا۔’’کیا ایسا نہیں ہوگا کہ مسلمان ہم دونوں کو الگ الگ شکست دے دیں؟‘‘’’لڑیں گے تمہارے دوش بدوش ہی۔‘‘بنی تغلب کے سردار نے کہا۔’’میری عقل میرے قابو میں ہے۔ہمارا دشمن مشترک ہے۔ہم تمہارے ساتھ ہوں گے لیکن تم پر بھروسہ نہیں کریں گے۔ہمیں خالد کا سر چاہیے۔‘‘’’خالد یہاں نہیں۔‘‘مہراں بن بہرام نے کہا۔’’وہ جا چکا ہے۔‘‘’’جہاں کہیں بھی ہے۔‘‘عیسائی سردار نے کہا۔’’زندہ تو ہے۔ہم پہلے ان کے ان دستوں کو ختم کریں گے جو یہاں ہیں۔پھر ہم خالدبن ولید کے پیچھے جائیں گے……وہ خود آجائے گا۔وہ دستوں کی مدد کو ضرور آئے گا۔لیکن یہاں موت اس کی منتظر ہوگی۔‘‘*
*یہ مسلمان جاسوس مدائن میں عیسائی بن کرشاہی اصطبل میں نوکری کرتا رہا تھا۔اس لیے وہ عیسائیوں میں گھل مل گیا تھا۔اس نے سالار زبرقان بن بدر کو بتایا کہ آتش پرستوں کی نسبت عیسائی قبیلے خالدؓکے زیادہ دشمن بنے ہوئے ہیں یہاں تک کہ انہوں نے فارس کے سالاروں سے کہا کہ وہ پیچھے رہیں،مسلمانوں پر پہلا وار عیسائی قبیلے بنی تغلب،نمر اور ایاد ہی کریں گے۔سالار زبرقان بن بدر نے مدائن کی یہ رپورٹ سنی اور اسی وقت دو قاصد بلائے۔انہیں کہا کہ دو بہترین گھوڑے لیں اور اُڑتے ہوئے دومۃ الجندل پہنچیں۔زبرقان نے انہیں خالدؓ کے نام زبانی پیغام دیا۔*
*’’……اور سالارِ اعلیٰ ابن ِ ولید سے یہ بھی کہنا کہ جب تک انبار میں آخری مسلمان کی سانسیں چل رہی ہوں گی ،دشمن شہر کے اندر نہیں آسکے گا۔‘‘زبر قان بن بدر نے قاصدوں سے کہا۔’’تو آجائے گا تو ہمیں سہولت ہو جائے گی ،نہیں آسکو گے تو وہ اﷲہمارے ساتھ ہے جس کے رسولﷺ کا پیغام ہم اپنے سینوں میں لیے یہاں تک آئے ہیں……اور ابنِ ولید سے کہنا کہ دومۃ الجندل کی صورتِ حال تجھے آنے دیتی ہے تو آ،اور اگر تووہاں مشکل میں پھنسا ہو اہے تو ہمیں اﷲکے سپرد کر،ہم اسی طرح لڑیں گے جس طرح تیری شمشیر کے سائے تلے لڑتے رہے ہیں۔‘‘*

*ان قاصدوں کو روانہ کرکے سالار زبرقان نے چند ایک اور قاصدوں کو بلایا اورہر ایک کو اس کی منزل بتائی۔ان قاصدوں کو ان شہروں میں جانا اور وہاں کے سالاروں کو بتانا تھا کہ خالدؓ کی غیر حاضری سے آتش پرستوں نے کیا تاثر لیا ہے اور وہ حملے کی تیاری کر رہے ہیں،پیغام میں زبرقان نے یہ بھی کہا کہ اس نے دومۃ الجندل کو قاصد بھیج دیا ہے،اگر وہاں سے مدد نہیں آئی تو ہم ایک دوسرے کی مدد کو پہنچنے کی کوشش کریں گے۔مسلمانوں کیلئے بڑی خطرناک صورتِ حال پیدا ہو گئی تھی۔دشمن کے مقابلے میں نفری پہلے ہی تھوڑی تھی۔وہ بھی بکھری ہوئی تھی۔اس صورت میں کہ دشمن بیک وقت تمام اُن شہروں کو جن پر مسلمانوں کا قبضہ تھا،محاصرے میں لے لیتا تو مسلمان ایک دوسرے کی مدد کو نہیں پہنچ سکتے تھے۔دونوں طرف بے پناہ سرگرمی شروع ہو گئی۔عیسائی قبیلوں کے سرداروں نے بستی بستی جاکر لوگوں کو اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔وہ ان چھوٹے چھوٹے قبیلوں کو بھی اپنے سالتھ ملا رہے تھے جو عیسائی نہیں تھے۔وہ بت پرست تھے۔عیسائیوں کی جوان لڑکیاں بھی غیر مسلم بستیوں میں چلی گئیں۔وہ عورتوں کومسلمانوں کے خلاف بھڑکاتی تھیں کہ وہ اپنے مردوں کو،جوان بھائیوں اور بیٹوں کو باہر نکالیں ورنہ تمام جوان لڑکیوں کو مسلمان اپنے ساتھ لے جا کر لونڈیاں بنالیں گے۔ایسے نعرے بھی ان لڑکیوں نے لگائے ’’ہم مسلمانوں کی لونڈیاں بننے جا رہی ہیں۔‘‘اور دوسرا نعرہ جو بستی میں لگ رہا تھاوہ یہ تھا’’اپنے مقتولوں کے انتقام کا وقت آگیا ہے……باہر آؤ۔انتقام لو۔‘‘اُدھر مدائن میں فارس کے لشکر کی تعداد بڑی تیزی سے بڑھتی جا رہی تھی۔اب لشکر میں شامل ہونے والوں میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی جو جوش سے پھٹے جا رہے تھے ۔انہیں میدانِ جنگ میں لڑنے کی تربیت دی جا رہی تھی۔گھوڑ سواری،تیر اندازی، تیغ زنی اور نیزہ بازی تو وہ جانتے تھے، ان میں انہیں مزید طاق کیا جا رہا تھا۔بہمن جاذویہ تو جیسے پاگل ہوا جا رہا تھا۔وہ خود مشقوں کی تربیت اور مشقوں کی نگرانی کرتا تھا۔اس کے ساتھی سالار اسے کہتے تھے کہ حملہ جلدی ہونا چاہیے لیکن وہ نہیں مانتا تھا۔کہتا تھا کہ خالد واپس نہیں آئے گا۔اگر اسے واپس آنا ہی ہوا تو وہ لشکر کے ساتھ اس وقت یہاں پہنچے گا جب عراق کی زمین پر کھڑا ہونے کیلئے اسے ایک بالشت بھر بھی زمین نہیں ملے گی۔مسلمان جن شہروں پر قابض تھے،وہاں کی سرگرمی اپنی نوعیت کی تھی۔ہر شہر میں مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی،انہوں نے کم تعداد سے قلعوں کے دفاع کی مشقیں شروع کر دی تھیں۔لاکھوں کے حساب سے تیر اور پھینکنے والے برچھے تیارہو رہے تھے۔سالاروں نے مجاہدین کا ایک ایک چھاپہ مار جیش تیار کر لیا تھا۔انہیں زیادہ وقت قلعوں کے باہر گزارنا اور عام راستوں سے دور رہنا تھا۔ان کا کام یہ تھا کہ دشمن شہر کا محاصرہ کر لے تو عقب سے اس پر ’’ضرب لگاؤاور بھاگو‘‘ُکے اصول پر چھاپے اور شبخون مارتے رہیں۔خالدؓ کی غیر حاضری میں سالار عاصم بن عمرو کے بھائی قعقاع بن عمرو مفتوحہ علاقوں میں مختلف شہروں میں مقیم دستوں کے سالار تھے۔*

*اس کا ہیڈ کوارٹر حیرہ میں تھا۔اس کی ذمہ داری صرف حیرہ کے دفاع تک محدود نہیں تھی۔عراق کے تمام تر مفتوحہ علاقے کا دفاع اس کی ذمہ داریمیں تھا۔اس نے اس علاقے میں بکھرے ہوئے تمام سالاروں کو ہدایات بھیج دی تھیں۔اس نے سب کو زور دے کر کہا تھا کہ دومۃ الجندل سے خالدؓ اور اپنے لشکر کے انتظار میں نہ بیٹھے رہیں،اپنے اﷲپر بھروسہ رکھیں اور یہ سمجھ کر لڑنے کی تیاری کریں کہ ان کی مدد کو کوئی نہیں آئے گا۔قعقاع نے ایک کارروائی یہ کی کہ خالدؓنے جو دستے دریائے فرات کے پار خیمہ زن کئے تھے، ان میں سے زیادہ تر نفری کو حیرہ میں بلالیا تاکہ اس شہر کے دفاع کو مضبوط کیا جاسکے۔قعقاع کا اپنا جاسوسی نظام تھا۔اس کے ذریعے قعقاع کو اطلاع ملی کہ فارس کا لشکر کہاں کہاں جمع ہو گا۔یہ دو جگہیں تھیں۔ایک حُصید اور دوسری خنافس۔یہ دونوں مقام انبار اور عین التمر کے درمیان تھے ۔قعقاع نے اپنے ایک دستے کو حصید کو اور دوسرے کو خنافس اس ہدایت کے ساتھ بھیج دیا کہ فارس کی فوج وہاں آئے تو اس پر نظر رکھیں اور فوج کسی طرف پیشقدمی کرے تو اس پر چھاپے ماریں اور اس پیشقدمی میں رکاوٹ ڈالتے رہیں۔شبخون بھی ماریں۔یہ دونوں دستے جب ان مقامات پر پہنچے تو دونوں جگہوں پر فارس کے ہراول دستے آئے ہوئے تھے۔وہ جو خیمے گاڑھ رہے تھے ،ان سے پتا چلتا تھا کہ یہ خیمے کسی بہت بڑے لشکر کیلئے گاڑے جا رہے ہیں۔مسلمان دستوں نے ان کے سامنے اسی انداز سے خیمے گاڑنے شروع کر دیئے جیسے وہ بھی بہت بڑے لشکر کا ہراول ہوں۔اِدھر یہ تیاریاں ہو رہی تھیں۔مجاہدینِ اسلام کو خس و خاشاک کی مانند اُڑالے جانے کیلئے بڑا ہی تُند طوفان اُٹھ کھڑا ہوا تھا،اُدھر سالار زبرقان بن بدرکے روانہ کیے ہوئے دونوں قاصد دومۃ الجندل خالدؓ کے پاس پہنچ گئے۔انہوں نے ساڑھے تین سو میل فاصلہ صرف پانچ دنوں میں طے کیا تھا۔خالدؓ جب دومۃ الجندل گئے تھے تو انہوں نے تین سو میل کا فاصلہ دس دنوں میں طے کیا تھا۔اب دو قاصدوں نے ساڑھے تین سو میل سے زیادہ صحرائی اور دشوارمسافت پانچ دنوں میں طے کی۔بھوک او رپیاس سے ان کی زبانیں باہر نکلی ہوئی تھیں ،ان کے چہروں پر باریک ریت کی تہہ جم گئی تھی۔ان کی زبانیں اکڑ گئی تھیں۔انہوں نے پھر بھی بولنے کی کوشش کی۔’’تم پر اﷲکی رحمت ہو۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’خشک جسموں سے تم کیسے بول سکو گے؟‘‘*
*--------------------------------------*
*اب انہوں نے اتنی غارت گری اور اتنا زیادہ خون دیکھا کہ زمین لال ہو گئی تو انہیں ان پرانے سپاہیوں کی باتیں یاد آنے لگیں جو مسلمانوں سے لڑے اور بھاگے تھے۔اب وہ سپاہی زخمی ہو ہو کر گر رہے تھے یا بھاگ رہے تھے۔نوجوانوں کے حوصلے جواب دے گئے۔تلواروں اور برچھیوں پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔آتش پرستوں کے لشکر کا حوصلہ تو پہلے ہی ٹوٹ رہا تھا انہوں نے جب وہ نعرے سنے تو وہ فرار کا راستہ دیکھنے لگے۔’’خدا کی قسم!‘‘ یہ کسی مسلمان کا نعرہ تھا۔’’زرتشت کے پجاریوں کے دونوں سالار مارے گئے ہیں۔‘‘یہ للکار بلند ہوتی چلی گئی۔*

*پھر دشمن کے اپنے سپاہیوں نے چلّانا شروع کر دیا۔’’روزبہ اور زرمہر ہلاک ہو گئے ہیں۔‘‘اس کے ساتھ یہ بھی للکار سنائی دی۔’’خالدبن ولیدآگیا ہے……خالد بن ولید کا لشکر آگیا ہے۔‘‘اس نعرے نے مدائن کے لشکر کا رہا سہا دم خم بھی ختم کر دیا اور لشکر بکھر کرفرداًفرداً بھاگ اٹھا۔بھاگنے والوں کا رخ خنافس کی طرف تھا جہاں مدائن کے لشکرکا دوسرا حصہ خیمہ زن تھا۔خنافس کے لشکر پر حملہ کرنے کیلئے خالدؓ نے سالار ابو لیلیٰ کو اس ہدایت کے ساتھ بھیجا کہ خنافس اور حُصید پر بیک وقت حملے ہوں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔وجہ یہ تھی کہ خنافس حُصید کی نسبت دور تھا۔ابولیلیٰ اپنی پانچ ہزار فوج کو لے کر چلے تو بہت تیز لیکن بر وقت نہ پہنچ سکے۔حُصید پر قعقاع نے پہلے حملہ کر دیا۔تاخیر کا نقصان یہ ہونا تھا کہ دشمن بیدار ہوتا لیکن تاخیر بھی سود مند ثابت ہوئی۔وہ اس طرح کہ ابو لیلیٰ کے پہنچنے سے ذرا ہی پہلے خنافس کے لشکر کو اطلاع مل گئی کہ مسلمانوں نے روزبہ اور زرمہر کو مار ڈالا ہے اور لشکر بُری طر سے کٹ رہا ہے۔ابو لیلیٰ جب دشمن کے سامنے گئے تو دشمن کو لڑائی کیلئے تیار پایا۔دشمن کی تعداد کئی گنا زیادہ تھی ۔ابو لیلیٰ کو سوچ سمجھ کرآگے بڑھنا تھا۔وہ ہلّہ نہیں بول سکتے تھے۔انہیں چالوں کی جنگ لڑنی تھی۔اس انتظار میں کہ دشمن حملے میں پہل کرے ،حُصید سے بھاگے ہوئے سپاہی خنافس کی خیمہ گاہ میں پہنچنے لگے ۔سب سے پہلے گھوڑ سوار آئے ۔ان میں سے بہت زخمی تھے۔یہ ثابت کرنے کیلئے کہ وہ بلا وجہ نہیں بھاگے ،انہوں نے مسلمانوں کے لشکر کی تعداد اور ان کے لڑنے کے قہر و غضب کو مبالغے سے بیان کیااور ایسی دہشت پھیلائی کہ خنافس کے لشکر کا حوصلہ لڑے بغیر ہی ٹوٹ گیا۔بھگوڑوں نے یہ خبر بھی سنائی کہ خالدؓاپنے لشکر کے ساتھ آگیا ہے۔خنافس والے لشکر کی کمان اب ایک اور آتش پرست سالار مہبوذان کے پاس تھی۔زیادہ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مہبوذان اور دیگر تمام سالاروں کو یہ بتایا گیا تھا کہ مسلمان قلعوں میں بند ہیں اور ان کی نفری بہت تھوڑی ہے اور یہ بھی کہ خالد جا چکا ہے۔لہٰذا قلعوں پر حملے کرکے مسلمانوں کو ختم کر دینا ہے۔اب صورتِ حال بالکل ہی بدل گئی تھی ۔مدائن کے سالار مہبوذان نے روزبہ کے لشکر کی حالت سنی اور اپنے لشکر کی ذہنی حالت دیکھی اور یہ سنا کہ خالدؓاپنے لشکر کو لے کر آگئے ہیں تو اس نے لڑائی کا ارادہ ترک کر دیا اور اپنے لشکر کو کوچ کا حکم دے دیا۔ابو لیلیٰ نے بغیر لڑے ہی فتح حاصل کر لی۔اس نے اپنے ایک دوآدمی مہبوذان کے لشکر کے پیچھے بھیجے کہ وہ چھپتے چھپاتے جائیں اور دیکھیں کہ یہ لشکر کہاں جاتا ہے۔*

*خالدؓعین التمر میں تھے۔انہیں پہلی اطلاع یہ ملی کہ حُصیدکا لشکر بھاگ گیا ہے۔بہت دیر بعد ابولیلیٰ کا بھیجا ہواقاصد خالدؓ کے پاس پہنچا اور یہ خبر پہنچائی کہ خنافس والا لشکر بغیر لڑے پسپا ہو گیا ہے اور مضیح پہنچ کر عیسائیوں کے ساتھ جا ملا ہے۔وہاں جوعیسائی عربوں کالشکر جمع تھا ،اس کی کمان ھذیل بن عمران کے پا س تھی۔اس طرح مضیح میں دشمن کا بہت بڑا لشکر جمع ہوگیا۔خالدؓ سوچ میں پڑ گئے۔وہ آتش پرستوں کے مرکزی مقام مدائن پر حملہ کر سکتے تھے۔مدائن فارس کی جنگی طاقت کا دل تھا۔خالدؓ نے سوچا کہ وہ اس دل میں خنجر اتار سکتے ہیں یا نہیں ۔مشہور مؤرخ طبری لکھتا ہے کہ خالدؓ مدائن پر حملہ کرتے تو فتح کا امکان تھا ،لیکن ان پر عقب سے یہ لشکر حملہ کر سکتا تھا جو مضیح میں جمع ہو گیا تھا۔خالدؓنے اپنے سالاروں سے مشورہ کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ پہلے مضیح کی اجتماع گاہ کو ختم کیاجائے۔یہ فیصلہ اور ارادہ کر لیناکہ اس لشکر کو ختم کیا جائے ،آسان تھا عملاًاتنے بڑے لشکر کو اتنی تھوڑی نفری سے ختم کرنا کہاں تک ممکن تھا۔یہ یقینی نہیں تھا مگر خالدؓ اسے یقینی بنانے پر تُلے ہوئے تھے۔وہ نا ممکن کو ممکن کر دکھانے والے جرنیل تھے۔انہوں نے ایسی اسکیم بنائی جسے آج کے جنگی مبصر بے مثال کہتے ہیں۔’’میرے رفیقو!‘‘خالدؓ نے اپنے سالاروں ،نائب سالاروں اور کمانداروں کو بلا کر کہا۔’’خدا کی قسم!تم نے جتنی کامیابیاں حاصل کی ہیں یہ انسانی سطح سے بالاتر تھیں ۔تم نے پانچ گُنا قوی دشمن کو اس سے بھی زیادہ نفری کو جس طرح کاٹا اور بھگایا ہے ،یہ تمہاری مافوق الفطرت طاقت تھی۔یہ ایمان کی قوت ہے۔تمہیں اس کا اجر خدا دے گا……اب میں تمہیں ایک بڑے ہی کٹھن امتحان میں ڈال رہا ہوں۔‘‘’’ابنِ ولید!‘‘سالار قعقاع بن عمرو نے خالدؓکو ٹوک دیا۔’’کیا اتنی باتوں کو ضروری سمجھتا ہے؟ربّ کعبہ کی قسم!ہم اس اﷲکے حکم سے لڑ رہے ہیں جس نے تجھے ہمارا امیر بنایا ہے۔حکم دے کہ ہم آگ میں کود جائیں پھر ہمارے جسموں کو جلتا ہوا دیکھ۔‘‘*
*’’تجھ پر خدا کی رحمت ابنِ عمرو!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’میں نے یہ باتیں اس لئے ضروری سمجھی تھیں کہ میں تمہیں آگ میں کودنے کا حکم دینے والا ہوں۔میں ڈرتا ہوں کہ کوئی مجاہد یہ نہ کہے کہ ولید کے بیٹے نے بڑا ظالم حکم دے دیا تھا……میرے رفیقو!ہمیں جان کی بازی لگانی ہے ۔تمام مجاہدین سے کہو کہ تمہارے صبر اور استقلال کا ایک اور امتحان باقی ہے اور اسے اﷲکا حکم سمجھنا۔‘‘خالدؓ نے اپنی جو سکیم سب کو بتائی تھی وہ یہ تھی کہ دشمن پر رات کے وقت تین اطراف سے حملہ کرنا ہے اور حملے کے مقام تک اتنی خاموشی سے پہنچنا ہے کہ دشمن کو خبر نہ ہونے پائے۔خالدؓ نے اپنی تمام تر فوج کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ہر حصے میں تقریباً پانچ ہزار سوار اور پیادے تھے۔یہ تینوں حصے ایک جگہ نہیں بلکہ ایک دوسرے سے دور مختلف جگہوں پر تھے۔حُصید ،خنافس اور عین التمر۔ان سب کو اپنے اپنے مقام سے مقررہ راستوں سے مضیح تک پہنچنا تھا۔*

*خالدؓ نے حملے کی رات بھی مقرر کر دی تھی اور مقام بھی جومضیح میں دشمن کی اجتما گاہ سے کچھ دور تھا۔تینوں حصوں کو رات کے وقت اس مقام پر پہنچنا تھا۔مضیح میں دشمن کا جو لشکر خیمہ زن تھا ،اس کی تعداد کے متعلق مؤرخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ دشمن کی تعداد ساٹھ اور ستّر ہزار کے درمیان تھی۔اس پر حملہ کرنے والے مجاہدین کی تعداد پندرہ ہزار تھی۔اس قسم کی اسکیم کو پایہ تکمیل تک پہنچانا نا ممکن کی حد تک مشکل تھا۔پانچ پانچ ہزار کے لشکر کیلئے سفر کے دوران خاموشی برقرار رکھنا آسان کام نہیں تھا لیکن بڑی سختی سے خاموشی برقرار رکھنی تھی۔دوسری مشکل خالدؓ کیلئے تھی۔وہ خود عین التمر میں تھے جہاں ان کی فوج کا صرف ایک حصہ تھا۔دوسرے دو حصوں کو حُصید اور خنافس سے چلنا تھا۔انہیں قاصدوں کے ذریعے اپنے رابطے میں رکھنا تھا تاکہ حملے والے مقام پر بروقت پہنچ سکیں۔جو رات مقرر کی گئی تھی وہ نومبر ۶۳۳ء کے پہلے )شعبان ۱۲ ہجری کے چوتھے (ہفتے کی ایک رات تھی۔خالدؓکے مجاہدین کے تینوں حصے اپنے اپنے مقام سے چل پڑے۔گھوڑوں کے منہ باندھ دیئے گئے تھے۔تینوں حصوں نے یہ انتظام کیا تھا کہ چندایک آدمی لشکر کے آگے اور دائیں بائیں جا رہے تھے۔ان کا کام یہ تھا کہ کوئی بھی آدمی رستے میں مل جائے اُسے پکڑ لیں تاکہ وہ دشمن تک خبر نہ پہنچا سکے۔دشمن کے بیدار ہوجانے کی صورت میں مجاہدین کی کامیابی مخدوش ہو جاتی اور دشمن گھات بھی لگا سکتا تھا۔رات کے چلے ہوئے اُسی رات نہیں پہنچ سکتے تھے۔دن کو لشکر کو چھپا کر رکھا گیا۔دیکھ بھال والے آدمی دور دور پھیلے رہے۔خالدؓ نے اپنے جاسوس دشمن کی اجتماع گاہ مضیح تک بھیج رکھے تھے۔وہ دشمن کے متعلق اطلاعیں دے رہے تھے۔ان کی آخری اطلاع یہ تھی کہ دشمن نے ابھی تک کوئی ایسی حرکت نہیں کی جس سے پتہ چلے کہ وہ کسی طرف حملہ کیلئے کوچ کرنے والا ہے۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ دشمن کے سالار اپنے سالارِ اعلیٰ بہمن جاذویہ کے اگلے حکم کا انتظار کر رہے تھے ۔خالدؓ کے آجانے سے ان کیلئے صورتِ حال بدل گئی تھی۔اس کے مطابق انہوں نے اپنی ساری اسکیم بدلنی تھی۔*

*انہیں کھلایا پلایا گیا تو وہ کچھ بولنے کے قابل ہوئے۔’’سالارِ اعلیٰ کو انبار کے سالار زبرقان بن بدر کا سلام پہنچے۔‘‘ایک قاصد نے کہا۔*
*’’وعلیکم السلام!‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’اور وہ پیغام کیا ہے جو لائے ہو؟‘‘’’مدائن میں بہت بڑا لشکر تیار ہو رہا ہے۔‘‘قاصد نے کہا۔’’اور ایک لشکر عیسائیوں کا تیار ہو رہا ہے۔وہ کہتے ہیں ابنِ ولید ان کے علاقوں سے چلاگیا ہے اور وہ تھوڑے سے جو دستے چھوڑ گیا ہے انہیں ایک ہی حملے میں ختم کرکے اپنے علاقے واپس لیں گے۔‘‘دونوں قاصدوں نے خالدؓ کو تمام تر تفصیل بتائی اور کہا کہ خالدؓ کے دومۃ الجندل کے حالات اجازت نہ دیں تو نہ آئیں۔دستے جو فارس کی شہنشاہی کے علاقے میں ہیں وہ اسی طرح لڑیں گے جس طرح خالدؓ کی قیادت میں لڑے تھے۔*
*خالدؓ دومۃ الجندل پر قبضہ مکمل کرچکے تھے۔انہوں نے وہاں کا انتظام ایک نائب سالار کے حوالے کیا اور فوری طور پر کوچ کا حکم دے دیا۔’’خدا کی قسم!‘‘مؤرخوں کے مطابق خالدؓنے ان الفاظ میں قسم کھائی۔’’بنی تغلب پر اس طرح جھپٹوں گا کہ پھر کبھی وہ اسلام کے خلاف اٹھنے کے قابل نہیں رہیں گے۔‘‘مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خالدؓنے مجاہدین سے کہا کہ اتنی تیز چلو کہ صحرا کی ہوائیں پیچھے رہ جائیں ،پیادے گھوڑوں سے آگے نکل جائیں۔یہ ایک امتحان ہے جوبڑا ہی سخت ہے۔یہ ایک دوڑ تھی آتش پرستوں اور حق پرستوں کی۔آتش پرستوں کو اپنے ہی علاقے میں پہنچنا تھا اور یہ مسافت کچھ بھی نہیں تھی۔حق پرست بڑی دور سے چلے تھے۔ان کے سامنے سینکڑوں میلوں کی مسافت ہی نہیں تھی ،بڑا ظالم صحرا تھا۔میل ہا میل کی وسعت میں صحرائی ٹیلے تھے اور باقی سب ریت کا سمندر تھا۔سب سے بڑا مسئلہ پانی کا اور اس سے بڑا مسئلہ رفتار کا تھا جو کم نہیں کی جا سکتی تھی۔نا ممکن کو ممکن کر دکھانا تھا۔چاند اور ستاروں نے انہیں چلتے دیکھا۔سورج نے انہیں چلتے دیکھا۔صحرا کی آندھی بھی انہیں نہ روک سکی۔آندھی،سورج ،پیاس اور بھوک جسموں کو معذور کیا کرتی ہے۔وہ جو تپتے صحراؤں میں پیاس سے مر جاتے ہیں وہ جسم ہوتے ہیں،اور وہ جو خالدؓکی قیادت میں دومۃ الجندل سے چلے تھے وہ اپنے جسموں سے دستبردار ہو گئے۔ان کی قوت ارادی کا اور قوت ایمانی کا کرشمہ یہ تھا کہ انہوں نے جسمانی ضروریات سے نگاہیں پھیر لیں اور روحانی قوتوں کو بیدار کر لیا تھا۔ان کی زبان پر اﷲکا نام تھا۔دلوں میں ایمان اور یقین محکم تھا۔اپنی ہی آواز ان پر وجد طاری کر رہی تھی۔جنگی ترانے گانے والے لشکر کے وسط میں اونٹوں پر سوار تھے۔ان کی آوا زآگے بھی اور پیچھے بھی جاتی تھی۔لشکر کے قدم دفوں اور نفیریوں کیتال پر اٹھتے تھے اور یہ تال بڑی تیز تھی۔کچھ فاصلہ طے کرکے ترانے اور دف خاموش ہو جاتے اور تمام لشکر کلمہ طیبہ کا ورد بلند آواز میں شروع کر دیتا۔ہزار ہا حق پرستوں کی آواز ایک ہو جاتی،پھر یہ آواز ایک گونج بن جاتی اور یوں لگتا جیسے صحرا اور صحرائی ٹیلوں پر وجد طاری ہو گیا ہو۔اسلام کے شیدائیوں کا لشکر اپنی ہی آواز سے مسحور ہوتا چلا جا رہا تھا۔*
*بہمن جاذویہ نے اپنے تیار کیے ہوئے لشکر کو آخری بار دیکھا،اور اسےدو حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصے کو حُصید کی طرف اوردوسرے کو خنافس کی طر ف روانہ کر دیا۔اب اس نے کمان نئے سالاروں کو دے دی تھی۔حُصید والے حصے کا سالار روزبہ تھااور خنافس والے حصے کا زرمہر۔ان کیلئے حکم تھا کہ اپنے اپنے مقام پر جا کر خیمہ زن ہو جائیں اور بنی تغلب اور دوسرے عیسائی قبیلوں کے لشکر کا انتظار کریں ۔قعقاع کے جاسوس نے صحیح اطلاع دی تھی کہ مدائن کے لشکر حُصید اور خنافس کو اجتماع گاہ بنائیں گے اور اگلی کارروائی یہیں سے کریں گے۔*

*عیسائیوں کا لشکر ابھی پوری طرح تیار نہیں ہوا تھا۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ایرانیوں کی طرح عیسائی بھی دو حصوں میں تیار ہو رہے تھے۔ایک کا سردار ہذیل بن عمران تھا اور دوسرے کا ربیعہ بن بجیر۔یہ لشکر حُصید اور خنافس سے کچھ دور دو مقامات ثنٰی اور ذُمیل پر جمع ہو رہے تھے۔مدائن کے لشکر کے دو حصوں اور عیسائیوں کے دو حصوں کو یکجا ہونا تھا۔یہ بہت بڑی جنگی طاقت تھی،مسلمانوں کی تعداد ہر جنگ میں دشمن کے مقابلے میں بہت تھوڑی رہی ہے لیکن اب مسلمان آٹے میں نمک کے برابر لگتے تھے۔اسلام کے فدائیوں کا سامنا اتنے بڑے لشکر سے کبھی نہیں ہوا تھا۔ان چاروں خیمہ گاہوں میں رات کو سپاہی اس طرح ناچتے اور گاتے تھے جیسے انہوں نے مسلمانوں کو بڑی بُری شکست دے دی ہو۔انہیں اپنی فتح صاف نظر آرہی تھی۔حالات ان کے حق میں تھے ،نفری ان کی بے پناہ تھی، ہتھیار ان کے بہتر تھے۔گھوڑوں کی تعداد بھی زیادہ تھی۔انعام و اکرام جو انہیں پیش کیے گئے تھے پہلے کبھی نہیں کیے گئے تھے۔مالِ غنیمت کے متعلق انہیں بتایا گیا تھا کہ سب ان کا ہوگا،ان سے کچھ نہیں لیا جائے گا۔ان میں صرف ان پرانے سپاہیوں پر سنجیدگی سی چھائی ہوئی تھی جو مسلمانوں کے ہاتھ دیکھ چکے تھے۔وہ جب کوئی سنجیدہ بات کرتے تھے تو نوجوان سپاہی ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ایسی ایک اور رات فارس کے لشکر نے گاتے بجاتے اور پیتے پلاتے گذاردی۔صبح ابھی سورج نہیں نکلا تھا، اور حُصیدکی خیمہ گاہ میں مدائن کے ایک لشکر کا ایک حصہ سویا ہوا تھا۔انہیں جاگنے کی کوئی جلدی نہیں تھی،انہیں معلوم تھا کہ مسلمان قلعوں میں ہیں اور تعداد میں اتنے تھوڑے کہ وہ باہر آنے کی جرات نہیں کریں گے۔انہوں نے دیکھا تھا کہ ان سے کچھ دور مسلمانوں نے آکر جو ڈیرے ڈالے تھے وہ واپس چلے گئے ہیں۔مسلمان ایک شام پہلے وہاں سے آگئے تھے۔*
*آتش پرستوں کی خیمہ گاہ کے سنتری جاگ رہے تھے یا چند ایک وہ لوگ بیدار تھے جو گھوڑوں کے آگے چارہ ڈال رہے تھے۔پہلے سنتریوں نے واویلا بپا کیا پھر گھوڑوں کو چارہ وغیرہ ڈالنے والے چلّانے لگے۔ ’’ہوشیار……خبردار……مدینہ کی فوج آگئی ہے‘‘خیمہ گاہ میں ہڑبونگ مچ گئی۔سپاہی ہتھیاروں کی طرف لپکے۔سوار اپنے گھوڑوں کی طرف دوڑے لیکن مسلمان صحرائی آندھی کی مانند آرہے تھے۔ان کی تعداد آتش پرستوں کے مقابلے میں بہت ہی تھوڑی تھی لیکن یہ غیر متوقع تھا کہ ہ حملہ کریں گے ۔مسلمانوں کی تعداد صرف پانچ ہزار تھی۔ ان کا سالار قعقاع بن عمرو تھا۔گذشتہ شام خالدؓ اپنے لشکر سمیت پہنچ گئے تھے۔انہوں نے آرام کرنے کے بجائے صورتِ حال معلوم کی۔انہوں نے شام کو ان مختصر سے دستوں کو حُصید اور خنافس سے واپس بلالیا تھا۔اس سے آتش پرستوں کے حوصلے اور بڑھ گئے۔وہ یہ سمجھے کہ مسلمان ان کے اتنے بڑے لشکر سے مرعوب ہوکربھاگ گئے ہیں۔خالدؓنے دوسرا اقدام یہ کیا کہ پانچ ہزار نفری ایک اور سالار ابو لیلیٰ کو دی اور اسے مدائن کے اس لشکر پر حملہ کرنے کو روانہ کیا جو خنافس کے مقام پر خیمہ زن تھا۔*

*’’تم پراﷲکی رحمت ہو میرے دوستو!‘‘خالدؓنےان دونوں سالاروں سے کہا۔’’تم دونوں صبح طلوع ہوتے ہی بیک وقت پنے اپنے ہدف پر حملہ کرو گے۔خنافس حُصید کی نسبت دور ہے۔ابو لیلیٰ تجھے تیز چلناپڑے گا۔کیا تم دونوں سمجھتے ہو کہ دونوں لشکروں پر ایک ہی وقت کیوں حملہ کرناہے؟‘‘’اس لیے کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کو نہ جا سکیں۔‘‘قعقاع بن عمرو نے جواب دیا۔’’ابنِ ولید!تیری اس چال کو ہم ناکام نہیں ہونے دیں گے۔‘‘’’فتح اور شکست اﷲکے اختیار میں ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تمہارے ساتھ صرف پانچ پانچ ہزار سوار اور پیادے ہیں ۔میں دشمن کی تعداد کو دیکھتا ہوں تو کہتا ہوں کہ یہ لڑائی نہیں ہوگی۔یہ چھاپہ ہوگا۔اتنے بڑے لشکر پر اتنے کم آدمیوں کا حملہ چھاپہ ہی ہوتا ہے……وقت بہت کم ہے میرے رفیقو!جاؤ،میں تمہیں اﷲکے سپرد کرتا ہوں۔‘‘خالدؓخود عین التمر میں اس خیال سے تیاری کی حالت میں رہے کہ عیسائی قبیلے جو ثنّی اور ذمیل میں اکٹھے ہو رہے تھے وہ فارس کے لشکر کے ساتھ جاملنے کو چلیں تو انہیں وہیں اُلجھا لیا جائے۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ خالدؓ کی جنگی ذہانت کا کمال تھا کہ انہوں نے دشمن کی اس صورتِحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی کہ اس کا لشکر ابھی چار حصوں میں بٹا ہوا چار مختلف مقامات پر تھا۔ان چار حصوں کو یکجا ہونا تھا۔خالدؓنے ایسی چال چلی کہ چاروں حصے الگ الگ رہیں اور ایک دوسرے کی مدد کو نہ پہنچ سکیں اور ہ ایک کو الگ الگ شکست دی جائے۔یورپی مؤرخوں نے لکھاہے کہ خالدؓکا یہ حکم تھا۔’’دشمن کو تباہ کرو۔‘‘ان مؤرخوں نے اس حکم کا مطلب یہ لیا ہے کہ جنگی قیدی اکٹھے نہ کیے جائیں ،دشمن کا صفایا کردو۔خالدؓ اتنے طاقتور دشمن کی طاقت کو ختم کرناچاہتے تھے لیکن دیکھنا یہ تھا کہ خالدؓاتنی تھوڑی اور تھکی ہوئی نفری سے تنے طاقت ور دشمن کو ختم کر سکتے تھے؟سالار قعقاع بن عمروتو وقت پر اپنے ہدف پر پہنچ گئے۔دشمن کیلئے ان کا حملہ غیر متوقع تھا۔حُصید کی خیمہ گاہ میں ہڑ بونگ مچ گئی۔مسلمان بند توڑ کر آنے والے سیلاب کی مانند آرہے تھے۔پانچ ہزار نفری کو سیلاب نہیں کہا جا سکتا تھا لیکن ان پانچ ہزار کی تندی اور تیزی سیلاب سے کم نہ تھی۔*
*آتش پرستوں کا سالار رُوزبہ اس صورتِ حال سے گھبراگیا۔اس نے ایک قاصد کو اپنے اس لشکر کے سالار زرمہر کی طرف جو خنافس میں خیمہ زن تھا، اس پیغام کے ساتھ دوڑا دیا کہ مسلمانوں نے اچانک حملہ کردیا ہے اور صورتِ حال مخدوش ہے۔قاصد بہت تیز وہاں پہنچا۔فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔سالار زرمہر اپنے ساتھی روزبہ کے اس پیغام پر ہنس پڑا۔اس نے کہا کہ روزبہ کا دماغ چل گیا ہے،مسلمانوں میں اتنی جرات کہاں کہ باہر آکر حملہ کریں۔قاصد نے اسے بتایا کہ وہ کیا دیکھ آیاہے۔زرمہر اپنے لشکر کو وہاں سے کہیں بھی نہیں لے جا سکتا تھا کیونکہ اس کے سالارِ اعلیٰ بہمن جاذویہ کا حکم تھا کہ کسی اور جگہ کچھ بھی ہوتا رہے، کوئی لشکر بغیر اجازت اِدھر اُدھرنہیں ہوگا۔لیکن قاصد نے زرمہر کو پریشان کر دیا تھا۔اس نے بہتر سمجھا کہ لشکر کو خنافس رہنے دے اور خود حُصیدجاکر دیکھے کہ معاملہ کیا ہے۔*

*وہ جب حُصید پہنچا تو اپنے ساتھی سالار روزبہ کو مشکل میں پھنسا ہوا پایا۔قعقاع کا بڑا زور دار ہلّہ تھا۔اس نے دشمن کو بے خبری میں جا لیا تھا۔دشمن کو یہ سہولت حاصل تھی کہ اس کی تعداد بہت زیادہ تھی ۔اس افراط کے بل بوتے پر آدھا لشکر بڑی عجلت میں لڑنے کیلئے تیار ہو گیا تھا۔زرمہر بھی آگیا تھا۔اس نے روزبہ کا ساتھ دیا۔توقع یہی تھی کہ آتش پرست مسلمانوں پر چھاجائیں گے۔قعقاع خالدؓ والی شجاعت کا مظاہرہ کرنا چاہتے تھے،وہ روزبہ کو للکار رہے تھے۔روزبہ قلب میں تھا۔قعقاع کی بار بار للکار پر وہ سامنے آگیا۔قعقاع اپنے محافظوں کے نرغے میں اس کی طرف بڑھے جا رہے تھے۔وہ اپنے محافظوں کے حصار سے نکل آیا۔اِدھر قعقاع اپنے محافظوں کو چھوڑ کر آگے ہوئے۔دونوں نے ایک دوسرے پر وار کیے۔وار روکے، پینترے بدلے، اور زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ قعقاع کی تلوار روزبہ کے پہلو میں بغل سے ذرا نیچے اُتر گئی۔قعقاع نے تلوار کھینچ لی اور گھوڑے کو روک کر پیچھے کو موڑا۔روزبہ گھوڑے پر سنبھلنے کی کوشش کر رہا تھا۔قعقاع نے پیچھے سے آکر تلوار اس کی پیٹھ میں خنجر کی طرح مار دی جو روزبہ کے جسم میں کئی انچ اُتر گئی۔روزبہ گھوڑے سے اس طرح گرا کہ اس کا ایک پاؤں رکاب میں پھنس گیا۔قعقاع نے دیکھ لیا اور گھوڑے کو روزبہ کے گھوڑے کے قریب کرکے گھوڑے کو تلوار کی نوک چبھوئی۔گھوڑا سر پٹ دوڑ پڑااور روزبہ کو زمین پر گھسیٹتا اپنے ساتھ ہی لے گیا۔زرمہر قریب ہی تھا،کسی بھی مؤرخ نے اس مسلمان کماندار کا نام نہیں لکھا جس نے زرمہر کو دیکھ لیا اوراسے للکارا۔زرمہر مقابلے کیلئے سامنے آیا اور اس کا بھی وہی انجام ہواجو اس کے ساتھی روزبہ کا ہو چکا تھا۔فرق صرف یہ تھا کہ اسے اس کے گھوڑے نے گھسیٹا نہیں تھا۔وہ خون سے لت پت اپنے گھوڑے سے گرا اور مر گیا۔مدائن کے اس لشکر میں ایک تو وہ کماندار اور سپاہی تھے جو پہلے بھی مسلمانوں کے ہاتھوں پٹ چکے تھے اور انہیں بے جگری سے لڑتے دیکھ چکے تھے۔انہیں اپنی شکست کا یقین تھا۔ان کے حوصلے اور جذبے میں ذرا سی بھی جان نہیں تھی۔وہ کٹ رہے تھے یا لڑائی سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔جاذویہ نے جن نوجوانوں کو بھرتی کیا تھا وہ تیغ زنی اور تیر اندازی وغیرہ میں تو طاق تھے اور ان میں جوش و خروش بھی تھا لیکن انہوں نے میدانِ جنگ پہلی بار دیکھا تھا اور مسلمانوں کو لڑتا بھی انہوں نے پہلی بار دیکھا تھا۔انہوں نے تڑپتے ہوئے اور پیاس سے مرتے ہوئے زخمی کبھی نہیں دیکھے تھے۔زخم خوردہ گھوڑوں کو بے لگام دوڑتے اور انسانوں کو کچلتے بھی انہوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔*

*جزاکم اللہ خیرا۔*

*جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔👇🏻
      *اسلامک ہسٹری*

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─