┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


نافرمانی کی دو بنیادیں
از: ابویحییٰ

قرآن میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے قصہ آدم و ابلیس کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس قصے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دو چیزیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی بنیاد ہیں۔ ایک عریانی و فحاشی اور دوسرے اپنی بڑائی کے زعم میں مبتلا ہوکر سرکش ہوجانا۔ تاریخ اس پر گواہ ہے کہ انسانیت انھی دو بنیادوں پر بارہا صراط مستقیم سے بھٹکی ہے۔ یہاں تک کہ مذہبی لوگ بھی ان برائیوں میں پوری طرح مبتلا ہوئے۔ مگر مذہبی لوگ اپنے آپ کو حرف زنی سے بچانے کے لیے ان اعمال کا ارتکاب ہمیشہ دین کے نام ہی پر کرتے ہیں۔

پہلی چیز کی مثال ہمیں سورہ اعراف میں ملتی ہے جہاں قصہ آدم و ابلیس بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ قریش کو ان کی ایک صریح بے حیائی کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کا دستور تھا کہ وہ برہنہ ہوکر حرم کعبہ کا طواف کرتے۔ اس مکروہ عمل کے جواز کے لیے قریش نے ایک مذہبی عذر تراشا تھا۔ ان کے نزدیک باہر سے آنے والے لوگوں کے کپڑے زینتِ دنیا میں شامل ہیں جس کی حج جیسی درویشانہ عبادت میں کوئی گنجائش نہ تھی۔ اس لیے ضروری تھا کہ یا تو وہ قریش میں اپنے کسی جاننے والے سے اُس کے کپڑے مستعار لیں یا برہنہ ہوکر حرم کا طواف کریں۔ اس طرح خود قریش اور ان کے دوست احباب تو اس مکروہ عمل سے بچے رہتے، مگر دیگر لوگ، مرد ہوں یا عورت، برہنہ ہوکر حرم کا طواف کرتے اور قریش کے عیاش طبع لوگوں کے لیے ایک سامان لذت فراہم کرتے
۔
قریش نے اس مکروہ عمل کو ایک مذہبی عمل اور بزرگوں کے دستور کے طور پر رائج کر رکھا تھا۔ وہ اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس پر انتہائی ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور واضح کیا کہ وہ کبھی کسی فحش چیز کا حکم نہیں دیتے۔ قریش کی طرح تاریخ دیگر مذاہب کے نفس پرور لوگوں کی ایسی ہی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ مندروں اور کلیساؤں میں پروہت اور پادری جو کچھ کرتے رہے اور جس طرح اپنی بدکرداری کو مذہبی تقدس دیتے رہے ہیں، اس سے تاریخ کے صفحات سیاہ ہیں۔

فحاشی کے علاوہ، جیسا کہ قصہ آدم و ابلیس کے حوالے سے ہم نے بیان کیا، انانیت اور اپنی بڑائی کا ذہن وہ چیز ہے جو انسانوں کو اللہ کی راہ سے ہٹاتی ہے۔ عام لوگوں کی طرح مذہبی لوگ بھی اپنے دورِزوال میں انانیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ مگر عام لوگوں کے برخلاف ایک دفعہ پھر وہ اپنی انانیت اور تکبر کا جواز بھی مذہب کے نام پر پیش کرتے ہیں۔ قرآن پاک نے اس کی تصویر جگہ جگہ یہودیوں کی اُس سیرت و کردار کی شکل میں پیش کی ہے جنھیں معلوم تھا کہ حضور اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں، مگر وہ اس حقیقت کو مان کر نہیں دیتے تھے۔ یہودیت پر مبنی یہ رویہ آج کے دن تک عام ہے۔

چنانچہ آج جس مذہبی گروہ کو دیکھ لیجیے وہ اپنی بڑائی اور حق پرستی کے زعم میں گم ہوتا ہے۔اسی پر بس نہیں وہ ہر دوسری رائے رکھنے والے کو کافر، مشرک، بدعتی، گمراہ اور مغرب کا ایجنٹ قراردیتا ہے۔ وہ بدگمانی کرتا ہے، برے نام رکھتا ہے، مخالفت میں جھوٹ، دروغ گوئی، بہتان، غیبت، سب و شتم غرض اخلاقی دنیا کے ہر ضابطے کو پامال کرتا ہے اور ساتھ میں یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ ہم دین کے خادم اور اس کا دفاع کرنے والے ہیں۔

ایسے لوگ اپنے پیروکاروں اور اپنے ضمیر کو یہی کہہ کر مطمئن کرتے ہیں کہ سامنے والا فرقہ اور فکر بہرحال غلط ہے۔ اس لیے نہ ان کو جان سے مارنا غلط ہے اور نہ ان کے خلاف بہتان و جھوٹ کے تیر برسانا کوئی جرم ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج مسلمانوں کے تمام فرقے ایک دوسرے کے نزدیک گمراہ، کافر اور واجب القتل ہیں۔

یہ رویہ نبیو ں کی نہیں بلکہ شیطان کی میراث ہے جس نے اپنے تکبر کو خوبصورت الفاظ میں چھپانے کی کوشش کی تھی۔ مگر وہ عالم الغیب کے سامنے موجود تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے فوراً اس پر لعنت کر دی۔ نزول قرآن کے وقت یہی رویہ یہودیوں کا تھا۔ ان پر بھی اللہ کی لعنت ہوگئی۔ آج مسلمانوں میں سے بھی جو لوگ اس رویے کو اختیار کریں گے، ان کا انجام بھی خدا کی لعنت کے سوا اور کچھ نہیں۔ چاہے وہ خود کو کتنا ہی بڑا خادم دین قرار دیں۔ چاہے اپنے پیروکاروں کی نظر میں وہ کتنے ہی بڑے عالم و فاضل کیوں نہ ہوں۔

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─