┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 11
وہ ایک خوبصورت گھر تھا لیکن لگتا تھا کہ اسکے رہنے والے برسوں پہلے چھوڑ کر چلے گۓ ہوں اسے۔۔اس بات کی گواہی اس گھر میں پھیلی ویرانی اور خاموشی دے رہی تھی۔۔ ایسا لگتا تھا کہ سالوں سے اسکی صفائی نہیں کی گٸ ۔۔۔

اور اکثر خوبصورت گھر اور لوگ ویران اور اجھڑے نظر آتے ہیں۔۔ کیونکہ ان میں بسنے والے لوگ۔۔ سالوں پہلے انہیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔۔

وہ مین گیٹ کھول کر اندر داخل ہوا۔۔۔ گھر کے باہر جو لان بنا تھا اس میں لگے پودے اب جھاڑیوں کی شکل اختیار کر چکے تھے۔۔

وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا گھر کے اندر داخل ہونے والے دروازے کے قریب آیا تھا۔۔ اب وہ دروازے کو ان لاک کر رہا تھا۔۔

دروازہ کھل چکا تھا ایک چرچراہٹ کی آواز کے ساتھ۔۔ گھر مسلسل بند رہنے کی وجہ سے اس میں ایک عجیب سی سمیل پھیلی تھی۔۔ لاٶنج میں موجود ہر چیز پر گز گز مٹی کی تہہ جمی ہوٸ تھی۔۔

اب وہ سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔۔اسکے چہرے پر عجیب سی سختی پھیلی تھی۔۔پھر وہ ایک کمرے کے سامنے رکا تھا۔۔ کمرے کا لاک کھولا۔۔ کمرے میں اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔۔ پھر اس نے لاٸیٹ آن کی۔۔ پورا کمرہ چاندنی میں نہا گیا۔۔۔

وہ بہت ہی خوبصورت کمرہ تھا۔۔ کمرے میں موجود فرنیچر اور ہر چیز بہت مہنگی نظر آرہی تھی۔۔ کسی نے بہت محنت سے سجایا تھا اسے۔۔ پورا کمرہ تصویروں سے بھرا ہو تھا۔۔ ہر دیوار پر بہت سی تصویریں لگی ہوٸ تھیں۔۔

سامنے کی دیوار پر ایک بہت بڑی تصویر لگی تھی۔۔ایک بہت بڑے فریم میں۔۔
تصویر میں ایک مرد، عورت اور انکے ساتھ ایک سالا بہت پیارا سا بچہ تھا۔۔ مرد اور عورت دونوں مسکرا رہے تھے۔۔
    کتنا مکمل منظر تھا۔۔

وہ غور سے تصویر دیکھ رہا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسکی آنکھیں جلنے لگیں تھیں۔۔اب ان خوبصورت نیلی آنکھوں میں آنسو جمع ہونے لگے تھے۔۔ لیکن اس نے اپنے دانتوں کو ایک دوسرے پر ایسے جمایا ہواتھا کہ اگر اس نے ایسا نا کیا تو پتا نہیں کیا انہونی ہو جاۓ گی۔۔

پورے کمرے میں اس بچے کی تصویریں لگی ہوٸ تھیں۔۔ ہنستہ مسکراتا ہوا بچہ۔۔

آپ جانتی ہیں میں یہاں کیوں آتا ہوں۔۔ یہ مت سمجھیۓ گا کہ پیار کرتا ہوں آپ سے۔۔ آپکی محبت یہاں کھنچ لاتی ہے۔۔ 

وہ سامنے فریم میں لگی تصویر میں جو عورت تھی اس سے مخاطب تھا۔۔
ہاہا۔۔ ہرگز نہیں۔۔ وہ استزاہیہ ہنسی ہنس رہا تھا۔۔

نفرت میں مجھے آپ سے۔۔ شدید نفرت۔۔ اور یہ نفرت اسکے چہرے اور لفظوں سے صاف چھلک رہی تھی۔۔

اتنی شدید نفرت میں نے دنیا میں کسی سے نہیں کی۔۔ شاید اس دنیا میں کسی انسان نے کسی دوسرے انسان سے نہیں کی ہوگی۔۔۔ جتنی میں آپ سے کرتا ہوں۔۔

اسی بات کی تصدیق کرنے میں روز یہاں آتا ہوں۔۔ کہ بتا سکوں آپکو کہ کتنا زہر بھرا ہے میرے اندر آپکے لیۓ۔۔

آپ کے اس دنیا میں ہوتے ہوۓ بھی میں یتیموں کی سی زندگی گزاری ہے۔۔ 
صرف ایک عورت کو چھوڑ کر دنیا میں موجود ہر عورت زاد سے انتہا کی نفرت کرتا ہوں میں۔۔ صرف اور صرف آپکی وجہ سے۔۔ 

اسکی آواز دکھ اور غصے کی وجہ سے کانپ رہی تھی۔۔

کبھی کسی عورت سے محبت نہیں کر پاٶں گا میں۔۔ یہ سب آپکی وجہ سے ہے۔۔ کبھی معاف نہیں کروں گا میں آپکو۔۔

مجھے نفرت ہے آپ سے۔۔ سنا آپ نے۔۔ شدید نفرت۔۔

اب اس نے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی کانچ کی بوتلوں میں سے ایک اٹھاٸ اور زور سے سامنے لگی تصویر پر ماری تھی۔۔

ایک چھناکے سے کانچ ٹوٹا اور اسکے ٹکرے پورے کمرے میں پھیل گۓ۔۔ ایک آواز ابھری اور معدوم ہوگٸ۔۔

نفرت کرتا ہوں میں آپ سے۔۔ نفرت۔۔ وہ چلا رہا تھ۔۔ اور پھر چلاتے ہوۓ وہ کمرے سے باہر نکلا تھا۔۔ اور پھر پاگلوں کی طرح سیڑھیاں اترتا ہوا گھر سے باہر کی طرف بھاگ رہا تھا۔۔ آنسوں تھے کہ ایک متواتر سے اسکی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔۔۔

         ❤❤❤❤

آپ یہاں۔۔ حرم کی آواز نادر کو دیکھ کر گلے میں ہی اٹک گٸ۔۔

ہاں میں۔۔ وہ مسکراتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔۔

جاٸیں آپ یہاں سے۔۔ حرم نے غصے سے کہا۔۔

اتنی بھی جلدی کیا ہے۔۔؟ چلا جاٶں گا۔۔ ابھی تو یہ بتاٶ کہ منہ کیوں پھیر لیتی ہو مجھے دیکھ کر۔۔؟؟ آخر کو ہونے والا شوہر ہوں تمہارا۔۔ نادر پوچھ رہا تھا۔۔

اووو۔۔ پلیز۔۔ابھی میرا آپ سے کوٸ رشتہ نہیں ہے۔۔ اور اگر اللہ نے چاہا تو کبھی ہوگا بھی نہیں۔۔ کتنی نفرت تھی حرم کے لہجے میں اسکے لیۓ۔۔

 ہوتا وہی ہے جو نادر آفاق چاہتا ہے۔۔ مجھ سے بچنا اتنا آسان نہیں۔۔۔ نادر کو جو چیز پسند آجاۓ وہ اسے ہر قیمت پر چاہیۓ ہوتی ہے۔۔ تمہیں میری ہی ہو کر رہنا ہے۔۔ سمجھ آٸ۔۔ وہ خباثت سے مسکراتا ہوا کہہ رہا تھا۔۔

آپ جا رہے ہیں یہاں سے یا میں۔۔ حرم نے انگلی اٹھا کر وارننگ دی تھے۔۔

کیا میں۔۔ ورنہ کیا کرو گی تم۔۔ نادر نے آگے بڑھ کر اسکی کلاٸ پکڑی۔۔۔ اور حرم کی پاٶں تک کی جان نکل گٸ تھی۔۔

چھوڑو مجھے۔۔ حرم نے غصے سے کہا۔۔

ہاہا۔۔ ایسے کیسے چھوڑ دوں۔۔۔آخر کو تو تم میرا ہی ہونا ہے۔۔ تو چھونے میں کیا برائی ہے۔۔ ویسے بھی تمہیں دیکھ کر رہا نہیں جاتا۔۔ نادر نے ایک ہاتھ سے اسکی کلاٸ پکڑی ہوٸ تھی جبکہ دوسرے ہاتھ سے اسکے گال کو چھوا۔۔ 

اور بس حرم کی برداشت کی حد ختم ہوگٸ تھی۔۔ اس نے ایک جھٹکے سے اپنا بازو چھڑایا۔۔ اور یہ کیا۔۔

چٹاخ۔۔ اور دوسرے ہی پل ایک زور دار تپھڑ نادر کے منہ پر مارا تھا۔۔ 

خبردار جو مجھے چھونے کی ہمت بھی کی تو۔۔ نا جانے اس نازک سے لڑکی میں اتنی ہمت کہاں سے آٸ تھی۔۔۔

تم۔۔۔ گھٹیا لڑکی۔۔ وہ مارنے کے لیۓ آگے ہی بڑا تھا کہ کچن کے دروازے میں کھڑی شزا کی ہلکی سی چینخ نکل گٸ۔۔۔ اس نے دونوں ہاتھ اپنے منہ پر رکھے ہوۓ تھے۔۔ آنکھیں حیرت سے پھیل گٸ تھیں۔۔

دفع ہو جاٶ اب یہاں سے۔۔ حرم نے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔۔

نادر بھی شزا کو دیکھ کر رک گیا تھا۔۔

میں چھوڑوں گا نہیں تمہیں۔۔ بہت جلد۔۔ بہت جلد۔۔ تم میری غلام ہوگی۔۔ یاد رکھنا۔۔ ایک ایک حساب لوں گا۔۔۔ نادر نے غصے سے پھنکارتے ہوۓ کہا اور چلا گیا۔۔

حرم۔۔۔ شزا مری مری آواز سے کہتے ہوۓ اندر آٸ۔۔ اس نے سارا منظر دیکھ لیا تھا۔۔ تو یہ وجہ تھی جو حرم، نادر کو اتنا نا پسند کرتی ہے۔۔ وہ اب سمجھی تھی۔۔

اور حرم کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔۔ وہ وہیں فرش پر بیٹھ چکی تھی۔۔

حرم کیا ہوا ہے تمہیں۔۔ وہ نادر بھاٸ۔۔ شزا کچھ کہہ رہی تھی جبکہ حرم۔۔ اسے تو کچھ سانٸ نہیں دے رہا تھا۔۔ 

حرم جواب دو۔۔ شزا بول بول رہی تھی جبکہ حرم تو پتھرا چکی تھی۔۔ شزا نے اسے کاندھے سے پکڑ کر ہلایا۔۔

کیا مجھے رونا چاہیۓ۔۔ حرم سوچ رہی تھی۔۔ 

حرم۔۔ شزا نے اسکا چہرہ پکڑ کر اپنی طرف کیا۔۔ 

غصے۔۔ درد اور اذیت کی شدت سے حرم کی آنکھیں سرخ انگارہ ہو رہی تھیں۔۔ 

شزا سے ان آنکھوں دیکھا نا گیا۔۔ کتنا درد تھا ان میں۔۔

حرم وہ۔۔ شزا نے ابھی کچھ کہنا تھا کی حرم پھوٹ پھوٹ کر رودی۔۔ باہر بارش متواتر سے ہو رہی تھی اور اندر وہ رو رہی تھی۔۔

اب کی بار ہواٶں کو بھی وقت کی اس ستم ظریفی پر رونا آیا۔۔
ہواٶں نے بھیگی پلکیں اٹھا کر تقدیر کی طرف دیکھا۔۔ 
اور تقدیر تو ہمیشہ مسکراتی ہے۔۔ ابھی بھی اس نے ایک اطمینان کی نظر ہواٶں اور وقت پر ڈالی۔۔ جیسے کہا ہو کہ سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔۔ چلو آگے چلتے ہیں۔۔۔ اور پھر وقت کی کتاب کا ایک پنہ اور آگے کو پلٹ دیا۔۔ 

                               ❤❤❤❤
      مما۔۔۔ مما۔۔ عاليہ پکارتی ہوٸ کمرے میں داخل ہوٸ۔۔

اور زیبا بیگم نے جو تصویر کو پچھلے ایک گھنٹے سے اپنے سامنے لیۓ بیٹھی تھی۔۔ ہڑبڑا کر آنسو صاف کیۓ۔۔ اور تصویر کو تکیے کے نیچے چھپا دیا۔۔

مما سوٸ تو نہیں آپ۔۔ مجھے لگا شاید سو گٸ ہوں۔۔ عاليہ نے انکے پاس بیڈ پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔۔ 

میرا بیٹا گھر نہیں ہے۔۔ بھلا مجھے نیند کیسے آسکتی ہے۔۔؟؟ زیبا بیگم نے مسکراتے ہوۓ جواب دیا۔

اوو۔۔ ہاں۔۔ یہی بتانے آٸ تھی میں آپکو کہ فرہاد بھاٸ آگۓ ہیں۔۔ عالیہ نے مسکراتے ہوۓ کہا اور زیبا بیگم اس تصویر میں اتنا کھوٸ ہوٸ تھی کہ فرہاد کے آنے کا بھی علم نا ہوا انہیں۔۔ 

چلو اللہ کا شکر ہے میرا بیٹا اتنے لمبے سفر سے سلامتے کے ساتھ گھر واپس آگیا۔۔ تم چلو میں آتی ہوں پانچ منٹ میں۔۔ زیبا بیگم نے عاليہ سے کہا۔۔

کیا ہوا ہے مما آپ کچھ پریشان سی ہیں۔۔؟ عاليہ نے انکے چہرے پر کچھ کھوجتے ہوۓ پوچھا۔

ارے نہیں میری جان۔۔ میں بھلا کیوں پریشان ہونگی۔۔ بس زرا تھک سی گٸ ہوں۔۔ انہوں نے پیار سے جواب دیا۔۔ 

ہممم۔۔۔ کالج کی پرنسپل ہونا کونسی آسا ن بات ہے۔۔ اور آپ ویسے کام بھی کچھ ایکسٹرا ہی کرتی ہیں۔۔ زرا خیال نہیں رکھتی اپنا۔۔ عاليہ نے منہ پھلاتے ہوۓ شکوہ کیا۔۔

میں ٹھیک ہوں عالی بیٹا۔۔ دیکھو میری طرف۔۔ انہوں نے عاليہ کے چہرے کا رخ اپنی طرف کیا۔۔
 
پاپا کو یاد کر رہی تھیں نا آپ؟؟ عالیہ نے پوچھا۔۔

ہممم۔۔ زیبا بیگم نے اثبات میں سر ہلایا۔۔

مما پاپا کے جانے کے بعد آپ ہمارے لیۓ سب کچھ ہیں۔۔ آپ خوش رہا کریں۔ عالیہ نے انکے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوۓ کہا۔۔

واہ میری بیٹی تو بڑی سمجھدار ہوگٸ ہے۔۔ زیبا بیگم نے اسکے چہرے پر پیار کیا۔۔

چلو اب شاباش جلدی سے جاٶ۔۔ اپنے بھاٸ کو کھانے کا پوچھو۔۔ بھوک لگی ہوگی اسے۔۔ میں بھی آرہی ہوں۔۔ اور نتاشہ کو مت اٹھا دینا سارے دن کی تھکی ہوتی ہے وہ۔۔ انہوں نے کہا۔

مما میں جانتی ہوں۔۔ اور میں نتاشہ بھابھی کو بالکل بھی نہیں اٹھاٶں گی۔۔ اتنا تو میں خود بھی کر سکتی ہوں۔ عالیہ نے مسکراتے ہوۓ کہا اور کمرے سے چلی گٸ۔۔ 

عاليہ کے جانے کے بعد زیبا بیگم نے تصویر کو تکیے کے نیچے سے نکالا۔۔ اور پھر اسے اپنے ہونٹوں سے لگا لیا۔۔ میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں میرے بچے۔۔ خدا تمہیں ہمیشہ خوش رکھے۔۔۔

         ❤❤❤❤

مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ نادر اتنی جلدی بنا کچھ بتاۓ کیسے چلا گیا۔۔ ثانی آپی کو اپنے بھاٸ کی فکر ہو رہی تھی۔۔ اور حرم کا سوٸ ہوٸ گڑیا پر کمبل اڑھاتا ہوا ہاتھ رکا۔۔ 

کچھ پل ہی آتے تھے اسکی زندگی میں خوشی کے۔۔ کچھ ہی پل ہوتے تھے جن میں وہ دل کر مسکراتی تھی۔۔ اور پھر انہی دنوں میں اتنی بری نظر لگتی تھی اسے کہ وہ اگلے کٸ دنوں تک ہنسنا بھول جاتی تھی۔۔۔

وہ۔۔ آپی۔۔ شزا نے کچھ کہنے کےلیۓ منہ کھولا ہی تھا کہ حرم نے اسکی طرف چپ رہنے کا اشارہ کر دیا۔۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکی اتنی اچھی کزن کو اپنے آوارہ بھاٸ کی وجہ سے انکے سامنے شرمندہ ہونا پڑے۔۔ 

وہ آپی میں نے انہیں جاتے ہوۓ دیکھا تھا لیکن پوچھا نہیں کہ کیوں جا رہے ہیں اتنی جلدی۔۔ شزا نے سمجھتے ہوۓ بات بدل دی۔۔

اچھا ٹھیک ہے اب سو جاٶ سب کافی ٹاٸم ہوچکا ہے۔۔ حرم نے سب کو کہا۔۔ 

ثناء پہلے ہی سو چکی تھی۔۔ ثانی آپی بھی لیٹ گٸ سونے کیلیۓ۔۔ بارش کافی دیر پہلے رک گٸ تھی۔۔ لیکن آسمان پر ہنوز بادل چھاۓ ہوۓ تھے۔۔ 

اوکے۔۔ میں دوسرے روم میں سو جاتی ہوں۔۔ حورعین بھی ادھر ہی سوۓ گی۔۔ وہ ابھی تو پڑھ رہی ہے۔۔ آپ لوگ ادھر آرام سے سو جاٸیں۔۔ شزا نے اٹھتے ہوۓ کہا۔۔ 

شزا لاٸیٹ آف کر دینا جاتے ہوۓ اور دروازہ بھی بند کر دینا۔۔ حرم نے کمبل اوپر لیتے ہوۓ کہا۔۔
وہ سونے لگی تھی۔۔ کیا وہ واقعی سونے لگی تھی۔۔ کیا آج کے واقعے کے بعد سکون کی نیند آسکتی تھی اسے۔۔ 

ارے میرے راہنما۔۔ زرا سنو تو۔۔ دیکھو تو۔۔ وہ سونے نہیں رونے والی تھی شاید۔۔

           ❤❤❤❤

 اور اس رات اگر کوٸ خوش تھا تو وہ حورعین تھی بس۔۔ پچھلے ایک گھنٹے سے وہ چیٹنگ پر مصروف تھی۔۔ ایک بڑی خوبصورت اور دلکش سی مسکراہٹ اسکے چہر ے پر پھیلی ہوٸ تھی۔۔

قسم سے مجھے تو یقین ہی نہیں ہوتا کہ تم اتنی پیاری بھی ہوسکتی ہو حورعین۔۔ تم بالکل اپنے نام کی طرح ہو۔۔ 

وہ سامنے سکرین پر میسج پڑھتے ہوۓ مسکرا رہی تھی۔۔

ہاں جی۔۔ آپکو کیسے پتا ہوگا مسٹر اسد آفاق۔۔ آپ نے تو کبھی ہمارے گھر کا رخ ہی نہیں کیا۔۔ کبھی دیکھا ہی نہیں ہمیں۔ آپکو کیسے پتا ہوگا۔۔ حورعین نے ٹاٸپ کیا اور میسج سینڈ کر دیا۔۔

ارے نہیں یار ایسی بات نہیں ہے۔۔ تین سال پہلے دیکھا تھا۔۔ تب تم چھوٹی تھی۔۔ لیکن اتنی پیاری ہو جاٶ گی اسکا پتا نہیں تھا مجھے۔۔ 

دیر بعد اسے میسج ریسیو ہوا۔۔ مسکراہٹ مسلسل چہرے پر موجود تھی۔۔ 

قسم سے جب تمہیں اس سن دوپہر کو دیکھا تھا نا جب میں نے غلطی سے تمہیں شہرین سمجھ کر تمہاری آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔۔ اس ٹاٸم تم ڈری سہمی۔۔ سیدھا میرے دل پر لگی۔۔ اور اب اس دل کے اندر موجود ہو۔۔ 

حورعین سے اب کوٸ جواب نہیں بن رہا تھا۔۔ شرم و حیا کی لالی اسکے چہرے پر پھیل کر اسے اور بھی دلکش بنا رہی تھی۔۔ 

اچھا اب سو جاٸیں کافی ٹائم ہو چکا ہے۔۔ صبح آپ نے یونيورسٹی بھی جانا ہے۔۔ 

ہاہاہا۔۔ گبھرا گٸ ہو میری باتوں سے۔۔ جان چھڑا رہی ہو مجھ سے۔۔ اسد نے قہقہہ لگایا تھا۔۔ 

نن۔۔ نہیں۔ وہ میں۔۔

ارے جانِ اسد نیند کسے آتی ہے اب تمہیں دیکھنے کے بعد۔۔ میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ اب کب مجھے چھٹیاں ہونگی اور کب میں تمہیں دیکھ سکوں گا۔۔۔

اور حورعین اسکے جزبوں کی شدت پر مسکرا رہی تھی۔۔ 

ایک اور محبت کا آغاز ہوا تھا۔۔ کیا تمام محبتوں کا انجام اچھا ہوتا ہے۔۔ اور کیا ایسی تمام محبتیں حلال ہوتی ہیں۔۔ 

رات کی سیاہی بڑھ رہی تھی۔۔ اندھیرا بڑھ رہا تھا۔۔ اور صحیح ہی تو کہا تھا حرم نے کہ اندھیرا گناہوں کی طرف لے جاتا ہے۔۔

            ❤❤❤

وہ پورا دن سفر میں گزارنے کے بعد اب سکون سے سویا ہوا تھا۔۔ نیند اتنی آٸ ہوٸ تھی اسے کہ مما سے بھی ٹھیک سے بات نہیں کی۔۔ بس تھوڑا سا کھانا کھانے کے بعد سونے کیلیۓ لیٹ گیا۔۔

کیا اسے سکون سے سونا چاہیۓ تھا۔۔ جبکہ کوٸ اور تکلیف میں تھا۔۔

اچانک سسکیوں کی آواز اسکے کانوں سے ٹکراٸ تھی۔۔ مسلسل کوٸ رو رہا تھا۔۔ اور پھر ایک آخری سسکی کے ساتھ ایک چینخ ابھری۔۔

حرم۔۔۔۔ وہ خود چلاتا ہوا نیند سے اٹھ بیٹھا۔۔۔ 

کمرے میں اندھیرا تھا۔۔ فرہاد کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔۔ 

اس نے ساٸیڈ ٹیبل پر رکھا لیمپ آن کیا تھا۔۔ 

کمال ہے نیند میں بھی اسکے منہ سے ایک ہی نام نکلا تھا۔۔ 

اسے لگتا تھا کہ جو لڑکی اسے نظر آتی ہے وہ حرم ہی ہے۔۔ 

کیا ہوا ہے اسے۔۔۔؟؟ وہ ٹھیک تو ہے۔۔ اب وہ کمرے میں ٹہل رہا تھا۔۔ 
کیا مجھے اسے کال کرنی چاہیۓ۔۔ اس نے موباٸل اٹھاتے ہوۓ سوچا۔۔ 
لیکن کیا کہوں گا میں اس سے۔۔۔؟؟ فرہاد نے موبائل واپس رکھ دیا۔۔ 

وہ رو رہی تھی۔۔ آخر کیوں۔۔ حرم۔۔ کیوں روتی ہو تم۔۔ ؟؟ وہ اب اس سے تصور میں مخاطب تھا۔۔ مجھے کچھ کرنا چاہیۓ لیکن کیا۔۔۔۔؟؟ وہ سوچ رہا تھا۔۔۔ جتنا سقچ رہا تھا اتنا ہی اسکا دماغ الجھ رہا تھا۔۔

اور پھر کچھ رشتے ایسے بھی تو ہوتے ہیں۔۔ جن میں رابطہ نا بھی ہو تو دوسرے کے درد کو محسوس کیا جاتا ہے۔۔ 

کیا اسے بھی محبت کہتے ہیں۔۔ ہواٶں نے تقدیر سے پوچھا۔۔۔

نہیں۔۔ یہ محبت سے بھی اوپر کی باتیں ہیں۔۔ جواب وقت کی طرف سے آیا تھا۔۔ 

اور پھر تقدیر نے فرہاد کو مسکرا کر دیکھا۔۔ ایک بار پھر اس نے وقت کے کچھ پنّے آگے کی طرف پلٹ دیے۔۔۔ 

             ❤❤❤❤❤


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─