┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 12
دن تھے کہ پر لگا کر اڑ رہے تھے۔۔ ثانی آپی واپس جاچکی تھیں۔۔ انکے جانے کے بعد سب کچھ معمول پر آگیا۔۔

سردیوں کی چھٹیاں بھی ختم ہو چکی تھیں۔۔ شزا اور حورعین نے پھر سے کالج جانا شروع کر دیا تھا۔۔ایسی ہی ایک صبح تھی جب شزا اور حورعین کالج جانے کیلیۓ تیار ہو رہیں تھیں۔۔

حورعین اتنے شوخ رنگ کے سکارف مت لے کر جایا کرو کالج۔۔۔ حرم نے حوعین کی تیاری کو دیکھتے ہوۓ کہا۔۔ 

وہ پنک اور پرپل کلر کا سٹالر پریس کر رہی تھی۔۔ آج کل ویسے بھی وہ آسمانوں کو چھو رہی تھی۔۔۔ نۓ نۓ اور پہلے پیار کا خمار ہی کچھ اور ہوتا ہے۔۔

اچھا۔۔۔ اس سے کیا ہوگا۔۔۔ کوٸ مجھے کھا جاۓ گا گیا۔۔ حورعین نے غصے سے پوچھا۔۔

نہیں۔۔ مگر شوخ رنگ لڑکوں کو بہت اٹریکٹ کرتے ہیں۔۔ تمہیں احتياط کرنی چاہیۓ۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔

اووو یار پلیز۔۔۔ اپنے کام سے کام رکھا کرو۔۔ مجھے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔۔۔یہ مجھے اچھے سے پتا ہے۔۔ حورعین نے جان والے چھڑانے والے انداز میں کہا۔۔ صاف ظاہر تھا اسے حرم کی مداخلت بالکل بھی پسند نہیں تھی۔۔

اوکے۔۔۔ مجھےکیا۔۔ کرو جو کرنا ہے۔۔۔ حرم کو بھی غصہ آگیا اور وہ کہتے ہوۓ چلی گٸ۔۔۔

           ❤❤❤❤

فرہاد آغا اس وقت ہاسپٹل میں تھا۔۔ سب کچھ نارمل ہو رہا تھا۔۔ لیکن اسکا زہن ابھی بھی حرم میں الجھا تھا۔۔ 

لنچ ٹائم کی بریک تھی۔۔ وہ اکیلا بیٹھا تھا۔۔ کیا مجھے اسے بتانا چاہیۓ کہ کتنا پریشان کیا ہوا ہے اسکے خیال نے مجھے۔۔۔؟؟ وہ سوچ رہا تھا۔۔

پھر اس نے موبائل سے اسکا نمبر نکالا اور نہ چاہتے ہوۓ بھی کال ملادی۔۔۔ بیل جارہی تھی۔۔ پر کسی نے ریسیو نا کیا۔۔ ایک بار اور کرنی چاہیۓ مجھے۔۔۔ اس نے سوچا۔۔

حرم جو ثناء کے ساتھ مزے سے ٹی وی دیکھ رہی تھی۔۔ اس اجنبی نمبر سے کال دیکھ کر وہ جنھجھلا گٸ۔۔۔ اس نے کال دوبارہ کاٹی۔۔ اتنے اچھے کارٹون لگے ہیں میرے۔۔ پتا نہیں کون بدتمیز ہے۔۔ کال کیۓ جا رہا ہے۔۔ وہ بڑبڑاٸ۔۔

حرم کو اینیمیٹڈ موویز اور کارٹونز بہت پسند تھے۔۔ انہیں دیکھتے ہوۓ وہ سب کچھ بھول جاتی تھی۔۔ ابھی بھی وہ انہیں دیکھنے میں ہی مصروف تھی۔۔

بیل پھر ہوٸ۔۔ اب کی بار اس نے غصے سے ریسیو کی۔۔

جی۔۔ کیا مسٸلہ ہے آپکو۔۔ اور کون ہیں آپ۔۔۔؟؟ حرم نے غصے سے پوچھا۔۔

فرہاد تو اسکے اس طرح سے بولنے پر اچھل پڑا تھا۔۔ بھلا یہ کونسا طریقہ تھا بات کرنے کا۔۔ 

اسلام علیکم۔۔۔ میں فرہاد آغا بات کر رہا ہوں۔۔ وہ آرام سے بولا تھا۔۔ 

اور حرم کے زہن میں گھنٹی بجی۔۔ فون کو کان سے ہٹا کر آنکھوں کے سامنے کیا۔۔ نمبر کو غور سے دیکھا۔۔ اووو شٹ۔۔ یہ تو سچ میں اسی کا نمبر ہے۔۔ 

وعلیکم اسلام۔۔حرم نے شرمندہ سی ہو کر جواب دیا۔۔۔ لیکن یہ شخص مجھے کیوں کال کرتا ہے۔۔ 

کیسی ہیں آپ۔۔۔؟؟ کیا ہم بات کر سکتے ہیں۔۔۔ ؟؟ دوسوال کیۓ گۓ۔۔

نہیں ہم بات نہیں کر سکتے۔۔۔ اب کی بار وہ تھوڑا غصے سے بولی تھی۔۔

لیکن کیوں۔۔۔؟؟ کیوں نہیں کر سکتے۔۔ ؟؟ فرہاد آغا نے بھی الٹا سوال کیا۔۔

ریزن بتاٸیں بات کرنے کی۔۔؟ وہ بھی تو حرم نور تھی۔۔

کیا بات کرنے کے لیۓ کسی ریزن کی ضرورت ہوتی ہے۔۔؟؟ وہ پوچھ رہا تھا۔۔

لیکن بات کرنے کے لیۓ کسی رشتے کا ہونا بہت ضروری ہے۔۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔ 

فرہاد خاموش ہوگیا۔۔ پھر اس نے کچھ پل بعد پوچھا۔۔

کس ٹاٸپ کا ریلیشن۔۔۔؟؟ 

حرم نے ایک بار پھر فون کو کان سے ہٹا کر اچنبھے سے دیکھا۔۔ کیا یہ شخص واقعی ڈاکٹر ہے۔۔؟؟ اس نے سوچا اور پھر پوچھ بھی لیا۔۔

کیا آپ واقعی ہی ڈاکٹر ہیں۔۔؟؟ 

کیوں آپ کو میں ڈاکٹر نہیں لگتا کیا۔۔ فرہاد نے حیران ہوتے ہوۓ پوچھا۔۔

 نہیں میرا مطلب ہے ڈاکٹرز تو بہت جینیٸس ہوتے ہیں۔۔ حرم نے جواب دیا۔۔۔

اور واقعی وہ ڈاکٹر کہیں سے بھی نہیں لگتا تھا۔۔ حرم کو تو وہ کسی سلطنت کا شہزادہ ہی لگا تھا۔۔ جسے غلطی سے ڈاکٹر بنا دیا گیا ہو۔۔۔ یہ الگ بات ہے یہ بات وہ اس سے کہہ نا سکی۔۔

ہاہاہاہا۔۔۔۔ اور فرہاد کا حرم کی بات سن کر قہقہہ ابھرا۔۔ 

تو آپکو میرے ڈاکٹر ہونے پر یا جینیٸس ہونے پر شک ہے۔۔۔؟؟ 

اففف۔۔ کوٸ اتنا پیارا بھی ہنستا ہے کیا۔۔ کوٸ عام انسان اسے یوں ہنستا دیکھ لے تو پاگل نا ہوجاۓ۔۔ حرم سوچ رہی تھی۔۔

ویسے آپ نے میری فاٸل تو چیک کی ہی ہوگی۔۔ ثبوت تھا اس میں میرے ڈاکٹر ہونے کا۔۔۔ وہ پوچھ رہا تھا جبکہ ایک دلچسپ سی مسکراہٹ ابھی بھی چہرے پر پھیلی تھی۔۔

نہیں۔۔ میں دوسروں کی چیزیں نہیں چیک کرتی۔۔ حرم ایک دم کسی خواب سے باہر نکلی۔۔ 

کیا واقعی۔۔۔ وہ حیران ہوا۔۔ 

جو چیز میری نہیں ہوتی مجھے اس میں کوٸ انٹرسٹ نہیں ہوتا۔۔ اب کی بار حرم کا لہجہ سخت تھا۔۔ وہ کسی خوشفہمی میں مبتلہ نہیں ہوبا چاہتی تھی۔۔ پھر اس نے یہ بات کہتے ہی کال کاٹ دی۔۔

اور فرہاد موبائل کو دیکھ رہا تھا۔۔ کوٸ انسان ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔؟ وہ سوچ رہا تھا۔۔

جو بات میں نے کرنی تھی وہ تو کی ہی نہیں۔۔ فرہاد نے سوچتے ہوۓ دوبارہ نمبر ملایا۔۔ مگر نمبر بند جارہا تھا۔۔

عجیب لڑکی ہے۔۔لڑکیاں اس بات کے لیۓ بھی مرتی تھی کہ فرہاد آغا انکو کو ایک نظر بھر کر دیکھ ہی لے۔۔ اور ایک یہ تھی جو بات کرنا تو دور بات سننا بھی پسند نہیں کرتی۔۔ اسکی ڈاکٹر والی کہی گٸ بات پر مسکراہٹ ایک بار پھر چہرے کو چھو گٸ۔۔۔

اور یہی وہ وقت تھا جب ڈاکٹر منیشا اندر آٸ۔۔۔ فرہاد کو موبائل پکڑے مسکراتے دیکھا۔۔ اسے یقین نا ہوا کہ ڈاکٹر فرہاد آغا بھی ہنستے ہیں۔۔ اس مسکراہٹ پر وہ پتھر ہی ہو گٸ تھی۔۔ لیکن ایک دم اسکے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بجی تھی۔۔ 

کیا بات ہے اکیلے اکیلے کس سے بات کر کے اتنا مسکرایا جا رہا ہے۔۔۔؟؟ منیشا نے آگے آتے ہوۓ پوچھا۔۔ 

اور منیشا کو دیکھ کر فرہاد کے چہرے پر سے مسکراہٹ غائب ہوٸ۔۔ عجیب الجھن سی ہوتی تھی اس لڑکی سے فرہاد کو۔۔ الجھن تواسے سب ہی لڑکیوں سے ہوتی تھی۔۔ مگر سب اپنی لمٹس میں رہتی تھیں۔۔ ایک وہ ہی پاگل تھی۔۔

کیوں مسکرانا منع ہے کیا۔۔ فرہاد نےالٹا سوال کیا۔۔

نہیں۔۔ لیکن فون کو دیکھ کر مسکرانا۔۔ خطرے والی بات ہے۔۔ منیشا نے کچھ کھوجتے ہوۓ پوچھا۔۔ 

اوو کم آن مس منیشا۔۔۔۔ ایسی فضول باتیں کرنے اور سننے کیلیۓ ہمارے پاس ٹائم نہیں ہونا چاہیۓ۔۔ We are doctors

سو ہمیں اپنے کام پر توجہ دینی چاہیۓ۔۔ وہ آرام سے کہتا ڈاکٹر منیشا کی طبیعت صاف کر چکا تھا۔۔

کچھ بھی ہو کچھ نا کچھ تو گڑ بڑ ہے۔۔ مجھے نظر رکھنی ہوگی۔۔ وہ سوچ رہی تھی۔۔ 

              ❤❤❤❤

آنی کچن میں رات کا کھانا بنانے بنانے میں مصروف تھی جبکہ لاٶنج میں رکھا ہوا فون کب کا رنگ کر رہا تھا۔۔ فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔۔ بالآخر وہ کچن سے باہر آٸیں۔۔ فون اٹھا یا اس سے پہلے وہ کچھ بولتیں۔۔ ایک غصے والی آواز ابھری۔۔

آنی۔۔ زی کہاں ہے۔۔ ریم غصے سے پوچھ رہا تھا۔۔

کیا ہوگیا ہے رومان۔۔ ایسے بات کرتے ہیں کیا۔۔ آنی نے انکی پرورش بہت اچھے انداز سے کی تھی۔۔ انہیں غصہ آتا تھا جب رومان یا زی میں سے کوٸ ایسی حرکت کرے تو۔۔

سوری۔۔ آنی۔۔ لیکن زی کہاں ہے میں کب سے اسکا فون ٹراۓ کر رہا ہوں لیکن آف جا رہا ہے۔۔ وہ اب اپنے غصے پر قابو پاچکا تھا کافی حد تک۔۔۔ 

وہ تو گھر نہیں ہے۔۔ آنی نے بتایا۔۔

واٹ۔۔۔؟؟ گھر نہیں ہے۔۔ آنی میری اتنی امپورٹنٹ میٹنگ ہے ابھی کچھ دیر بعد۔۔ اور جو فاٸل مجھے چاہیۓ وہ زی کے پاس ہے۔۔ اب پتا نہیں وہ کہاں ہے۔۔ حد ہے لاپرواہی کی۔۔ غصہ ایک بار پھر اس پر غالب آگیا تھا۔۔ 

وہ آتی ہی ہوگی۔۔ جیسے ہی وہ گھر آۓ گی میں اسے بیجھ دونگی۔۔ لیکن یہ کونسا ٹائم ہے میٹنگ کا۔۔ گھر آنا چاہیۓ تمہیں اس ٹائم۔۔ آنی کہہ رہی تھی۔۔ 

بتایا تو ہے آنی بہت امپورٹنٹ ہے۔۔ اوکے میں خود گھر آتا ہوں۔۔ وہ مہارانی تو پتا نہیں کہاں سڑکیں ناپتی پھر رہی ہوگی۔۔ ریم نے کہا اور کال بند کردی۔۔

         ❤❤❤❤

رات کے نو بجے کا ٹائم تھا۔۔ دھند پڑھنے کی وجہ سے ایسا لگتا تھا جیسے رات کے ٢ بج رہے ہوں۔۔ جنوری میں اسلام آباد میں تو کیا ہر جگہ سردی بڑھ گٸ تھی۔۔ وہ ہاسپٹ سے واپس آرہا تھا کہ ساتھ والی سیٹ پر رکھا اسکا موبائل بجنا شروع ہوگیا۔۔ فرہاد ڈراٸیو کر رہا تھا اس نے سوچا بعد میں ریسیو کرلونگا۔۔ لیکن نا جانے فون کرنے والے کو کیا جلدی تھی۔۔ بہرہال فرہاد نے فون اٹھایا۔۔ اور سپیکر پر ڈال دیا۔۔ 

اسلام علیکم۔۔ ثانی آپی۔۔ موبائل سے آواز ابھری۔۔ 

وعلیکم اسلام۔۔ کیسی ہو حرم؟؟

ابھی وہ کچھ بولا بھی نہیں تھا کہ موبائل کے اندر سے آتی آوازوں پر حیران ہوا اور پھر ایک جھٹکے سے گاڑی روک دی۔۔ اس نے موبائل اٹھا کر دیکھا کہ آیا یہ واقع میرا ہی ہے۔۔ ہاں موباٸل تو میرا ہی ہے۔۔ لیکن پھر یہ کیا تھا۔۔

میں ٹھیک نہیں ہوں آپی۔۔ حرم کی بھراٸ بھراٸ سی آواز سنائی دی۔۔۔
فرہاد کو تو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔۔

کیوں۔۔ کیا ہوا حرم تم رو کیوں رہی ہو۔۔ ثانی آپی پریشانی سے پوچھ رہی تھی۔۔

آپی مجھے ابھی شادی نہیں کرنی۔۔ پلیز میری مدد کریں۔۔ آپ نادر کو، اور باقی سب کو بھی سمجھاٸیں۔۔ 

حرم جو نادر کے تپھڑ کھا کر جانے اسکے بعد خاموش ہونے پر حیران تھی۔۔ کبھی کبھی اس ڈر لگتا تھا کہ کہیں یہ خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ نا بن جاۓ۔۔ آخر کو نادر یوں چپ بیٹھنے والا نہیں تھا۔۔ اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔۔

کیا ہوا ہے حرم۔۔۔؟؟ مجھے کچھ بتاٶ تو سہی۔۔۔ وہ پوچھ رہی تھیں۔۔ جبکہ فرہاد بیچ سڑک سے گاڑی سٹارٹ کرنے کے بعد اب ایک ساٸیڈ پر کھڑی کر چکا تھا۔۔ دم سادھے فون سن رہا تھا۔۔

آج صبح تاٸ امی کا فون آیا تھا۔۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ اگلے مہینے کے شروع میں شادی کرناچاہتی ہیں۔۔ میری اور نادر کی۔۔ پلیز آپی۔۔ مجھے نہیں کرنی شادی۔۔ آپ سب کوسمجھاٸیں۔۔ پلیز۔۔ 

حرم رو رہی تھی۔۔ اور فرہاد کو لگ رہا تھا کہ کوٸ اسکے دل کو نکال کر اسکے سامنے آری سے کاٹ رہا ہے۔۔ حرم کی شادی۔۔ وہ بھی زبردستی۔۔ 

اچھا روٶ مت حرم۔۔ میں تمہیں روتا ہوا نہیں دیکھ سکتی۔۔ میں کرتی ہوں بات نادر سے۔۔ ثانی آپی اسے تسلی دے رہی تھی۔۔

یہ سب نادر نے کیا ہے۔۔ آپ جانتی ہیں مجھے اپنا ماسٹرز کمپلیٹ کرنا ہے۔۔ اور نادر مجھے کبھی بھی نہیں کرنے دے گا۔۔ آپی جیسی امی نے زندگی گزاری ہے رو رو کر۔۔ اور جیسے میں تڑپتی آٸ ہوں آج تک۔۔ میں اپنی باقی زندگی بھی ایسے نہیں گزارنا چاہتی۔۔ آپی میں سانس نہیں لے پاٶں گی۔۔ 

اچھا بھی رونا تو بند کرو۔۔ میں سب جانتی ہوں۔۔ میں کرتی ہوں کچھ۔۔ 

حرم رو رہی تھی۔۔ ایک بار پھر وہ تکلیف میں تھی۔۔ اور فرہاد سے آگے کچھ بھی نا سنا گیا۔۔ اس نے کال ڈسکنیکٹ کردی۔۔ وہ گاڑی سے باہر نکل چکا تھا۔۔ اتنی ٹھنڈ میں بھی اسکا دم گھٹنا شروع ہو گیا تھا۔۔ 

لیکن یہ ہوا کیسے۔۔ ؟؟ حرم کے موبائل پر آنے جانے والی کال مجھے کیسے سنائی دے رہی ہے۔۔ آخر کیسے۔۔ کس نے کیا یہ سب۔۔؟؟

اور پھر اسکے زہن میں ایک جھماکا ہوا۔۔ کل ہاسپٹل میں حمزہ آیا تھا۔۔ اس نے موبائل لیا تھا میرا۔۔ 

حمزہ سافٹ وٸیر انجينئرنگ کر رہا تھا۔۔ اور ایسے کام کرنا اسکے باٸیں ہاتھ کا کھیل تھا۔۔ تو مطلب حمزہ نے کیا یہ سب۔۔ وہ ایک ڈاکٹر تھا۔۔ زہین تھا۔۔ اب وہ سب سمجھ رہا تھا۔۔

لیکن اسکو کیسے پتا چلا کہ میں حرم سے بات کرنا چاہتا ہوں۔۔ یا اسکی خبر رکھنا چاہتا ہوں۔۔؟؟ 

اووو شٹ۔۔۔ مطلب اس نے میرے موبائل کو بھی ہیک کی ہوا ہے۔۔ حمزہ تم کیا چیز ہو یار۔۔۔۔۔ اب اسے غصہ آرہا تھا۔۔

وقت حمزہ کے ساتھ مل کر اپنی چال چل گیا تھا۔۔ 

اب وہ گاڑی میں بیٹھ چکا تھا اس گاڑی کا رخ حمزہ کے گھر کی طرف تھا۔۔ پتا نہیں وہ جا کر حمزہ کو گھونسا مارنے والا تھا۔۔ یا پھر اسکا شکریہ ادا کرنے والا تھا۔۔ یہ تو آگے چل کر ہی پتا چل سکتا تھا۔۔

حرم رو رہی تھی۔۔ اسکے دماغ میں تو بس یہی بات گھوم رہی تھی۔۔ اب اسے کچھ کرنا تھا لیکن کیا۔۔۔ یہ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔۔

     
       ❤❤❤❤


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─