┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: میرے_رہنما
از: نور راجپوت
قسط نمبر 13
حمزہ لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھا اپنا یونيورسٹی کا پروجيکٹ تیار کر رہا تھا جب اسے گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دی۔۔ وہ بیڈ سے اٹھا اور کھڑکی کے پاس آیا۔۔ نیچے جھانک کر دیکھا تو اسے بلیک کرولا گاڑی گیٹ سے اندر داخل ہوتی نظر آٸ۔۔۔ رات کے ساڑهے نو بج رہے تھے۔۔

ٕیہ تو فرہاد کی گاڑی ہے۔۔ فرہاد اس وقت یہاں۔۔ ؟؟ وہ سوچ رہا تھا۔۔ 

فرہاد کے پاس تو کہیں آنے جانے کا ٹائم نہیں ہوتا۔۔ تو پھر۔۔ 

اوووو شٹ۔۔۔۔ حمزہ کے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بجی۔۔ لگتا ہے فرہاد کو پتا چل گیا۔۔ حمزہ اب تیری خیر نہیں۔۔ کچھ سوچ حمزہ کہاں چپھنا ہے۔۔ حمزہ بڑبڑا رہا تھا۔۔

فرہاد نے گیٹ کے اندر داخل ہو کر گاڑی روکی۔۔ چوکیدار بھاگ کر فرہاد کی گاڑی کی طرف آیا تھا۔۔ سب اسکی گاڑی کو پہچانتے تھے۔۔۔

حمزہ گھر پر ہے۔۔ فرہاد نے گاڑی سے نکلتے ہوۓ پوچھا۔۔

جی صاحب۔۔ حمزہ صاحب اپنے کمرے ہیں۔۔۔ چوکیدار نے جواب دیا۔۔

اوکے۔۔۔ فرہاد کہتا آگے بڑھ گیا۔۔

لاٶنج میں اسے دادو مل گٸیں۔۔ جو ٹی وی پر کوٸ اسلامی شو دیکھ رہی تھیں۔۔ 

اسلام علیکم دادو۔۔۔ فرہاد نے سلام کیا۔۔

وعلیکم اسلام میرابچہ۔۔۔ آج کیسے ہماری یاد آگٸ ڈاکٹر صاحب کو۔۔ دادو اب شکوہ کر رہی تھیں۔۔ 

بس دادو جان۔۔ تھوڑا بزی رہتا ہوں۔۔ وہ انکے پاس بیٹھ چکا تھا۔۔ لیکن اسکا دماغ حمزہ میں ہی الجھا تھا۔۔ 

اللہ پاک تمہیں کامیاب کرے۔۔ ہمیشہ خوش رکھے۔۔ دادو دعائيں دے رہی تھیں۔۔ اور فرہاد کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ دوڑ گٸ۔۔ 

بزرگ لوگ بھی عجیب ہوتے ہیں ۔۔ صرف ایک سلام کے بدلے میں لاکھوں کی دعائيں دے دیتے ہیں۔۔

دادو حمزہ کہاں ہے۔۔؟؟ نظر نہیں آرہا۔۔ فرہاد نے پوچھا۔۔

وہ اپنے کمرے میں ہے۔۔ پڑھاٸ کر رہا ہے۔۔ دادو نے جواب دیا۔۔

مجھے پتا ہے وہ کونسی پڑھاٸیاں کرتا ہے۔۔ آج میں کرواتا ہوں اسے پڑھاٸ۔۔ فرہاد سوچتے ہوۓ اٹھا۔۔

مجھے بھوک لگی ہے دادو۔۔ آپ کھانا لگواٸیں۔۔ میں حمزہ سے مل کر آتا ہوں۔۔ فرہاد کہتے ہوۓ سیڑھیاں چڑھتا اوپر چلا گیا۔۔

دھاڑ سے حمزہ کے کمرے کا دروازہ کھولا۔۔۔ لیکن یہ کیا۔۔ حمزہ تو ہے ہی نہیں۔۔ 

حمزہ۔۔ کہاں ہو۔۔۔؟

حمزہ۔۔ باہر نکلو۔۔ بہت ضروری بات کرنی ہے مجھے تم سے۔۔ فرہاد آواز دے رہا تھا۔۔

حمزہ کا تو آج شام انتقال ہو چکا ہے۔۔۔ حمزہ جانتا تھا کہ وہ اب بچ نہیں سکتا۔۔ چپھنے کا کوٸ فائدہ نہیں۔۔ 

آواز کمرے کے باہر سے آٸ تھی۔۔ فرہاد نے کمرے سے باہر آکر دیکھا۔۔ حمزہ معصوم سا منہ بناۓ سیڑھیوں پر لگی ریلنگ پر بیٹھا تھا۔۔ 

تم۔۔ تمہیں آج میں چھوڑوں گا نہیں۔۔ فرہاد غصے سے کہتا آگے بڑھا۔۔ لیکن حمزہ نے ریلنگ کو پکڑے ہوۓ ہاتھ چھوڑے اور پھسلتا ہوا لاٶنج میں جا پہنچا۔۔ 

وہ فرہاد بھاٸ۔۔ وہ میں۔۔۔۔۔ آج حمزہ نے اپنے آپ کو بچانا تھا تو آج وہ فرہاد کے ساتھ بھاٸ لگا رہا تھا۔۔ 

دادو کچن میں تھیں اس نے حمزہ کی یہ بندروں والی حرکت نہیں دیکھی تھی۔۔ اگر دیکھ لیتیں تو لعنت کے ساتھ ساتھ اپنے جوتے کی زیارت بھی کرواتی حمزہ کو۔۔

تمہیں شرم نہیں آتی دوسروں کے موبائل اور نمبر ہیک کرتے ہوۓ۔۔ کسی کی پرسنل لاٸف بھی ہوتی ہے۔۔ فرہاد کہتے ہوۓ اسکے پیچھے بھاگ رہا تھا جبکہ حمزہ لاٶنج میں رکھے صوفوں کے گول گول چکر کاٹ رہا تھا۔۔

وہ میں نے تو آپکے فائدے کیلیۓ ہی کیا۔۔ مجھے غلط مت سمجھیں۔۔ حمزہ نے صفائی دی۔۔

دادو نے کچن سے لاٶنج کا منظر دیکھا۔۔ لو جی۔۔ لگتا ہے اس حمزہ کے بچے نے پھر نیا گل کھلا دیا۔۔

تبھی فرہاد کے موبائل پر بیل ہوٸ۔۔ 

دیکھ لو فرہاد۔۔ تمہارا موبائل بج رہا ہے۔۔ کیا پتا حرم نور کی کوٸ کال ہو۔۔ حمزہ نے شرارت سے کہا۔۔

اور فرہاد واقعی رک گیا۔۔ لیکن جب تک اس نے موبائل دیکھا کال بند چکی تھی۔۔ یا غالباً حرم نے کاٹ دی تھی۔۔ کیونکہ کال واقعی اسکے نمبر پر آٸ تھی فرہاد کے نہیں۔۔

فرہاد اب صوفے پر بیٹھ چکا تھا۔۔ انتظار کر رہا تھا کہ کال شاید دوبارہ آجاۓ۔۔ 

حمزہ نے اسکو بیٹھتے ہوۓ دیکھا اور خود بھی ریلیکس ہو کر صوفے پر لیٹ گیا۔۔ لیکن فرہادسے فاصلے پر۔۔ کیا پتہ۔۔ بم تو کبھی بھی پھٹ سکتا ہے نا۔۔ 

کیسے کیا تم نے یہ سب۔۔ ؟؟ فرہاد نے پوچھا۔۔

یہ سب HD کا کمال ہے۔۔ حمزہ نے خود اپنی تعریف کی۔۔ 

اور یہ HD کون ہے۔۔۔؟؟

ارے آپ HD کو نہیں جانتے۔۔ حمزہ نے حیرت سے آنکھیں پھیلاٸ۔۔ فرہاد نے غصے سے حمزہ کی طرف دیکھا۔۔

وہ HD مطلب۔۔ حمزہ داٶد۔۔ یعنی کہ میں۔۔ جو آپکے سامنے بیٹھا ہے۔۔ حمزہ نے ایک اداۓ بےنیازی سے کہا۔۔

تبھی بیل دوبارہ ہوٸ۔۔ کال کاٹی جارہی تھی۔۔ بیل مسلسل ہو رہی تھی۔۔ حرم کال کاٹ رہی تھی۔۔ اور کوٸ شخص مسلسل کال کر رہا تھا۔۔ بلآخر کال ریسیو کی گٸ۔۔ 
حمزہ فٹا فٹ اپنی جگہ سے اٹھ کر فرہاد کے پاس آیا۔۔ 

ہاہاہاہاہا۔۔ فون ریسیو کرتے ہی قہقہے کی آواز سنائی دی۔۔ 

کیا ہوا حرم میڈم۔۔؟؟ میرا فون کیوں نہیں اٹھا رہی تم۔۔ ڈر گٸ ہو۔۔۔؟؟ ہاہاہاہاہا۔۔۔ فون کرنے والا خباثت سے ہنس رہا تھا۔۔ 

بہت جلد تم میرے قدموں میں ہوگی۔۔ میں نے چاہا تھا کہ تمہیں پیار سے رکھوں گا۔۔ لیکن لگتا تمہیں عزت راس نہیں۔۔۔ ایک ایک حساب لونگا۔۔ تمہاری زندگی جہنم نا بنا دی تو میرا نام بھی نادر نہیں۔۔ کہنے والا اب غصے سے پھنکار رہا تھا۔۔ جبکہ حرم۔۔ اسکی تو سانس کی آواز بھی نہیں آرہی تھی۔۔

 نادر اور بھی بہت کچھ بک رہا تھا۔۔ حمزہ اور فرہاد دم سادھے سن رہے تھے۔۔

بےشک عزت اور زلت اللہ پاک کے ہاتھ میں ہے۔۔ جس نے اب تک مجھے تم جیسے گھٹیا انسان سے بچایا ہے آگے بھی کوٸ نا کوٸ سبب ڈھونڈ ہی رکھا ہوگا۔۔ آخر حرم نے بھی کوٸ جواب دے ہی دیا۔۔

ہاہاہاہا۔۔ تمہیں بچانے والا کوٸ نہیں آنے والا۔۔ کیونکہ اب نادر آفاق تمہاری تقدیر لکھنے جارہا ہے۔۔ نادر ہنس رہا تھا۔۔ اور حرم نے کال کاٹ دی۔۔ 

فرہاد کا چہرہ غصے سے لال ہوچکا تھا۔۔ اس نے فوراً ہی حرم کا نمبر ملایا لیکن نمبر بند تھا۔۔

دیکھا۔۔ میری یہ حرکت آپکے لیۓ فائدہ مند ثابت ہوٸ۔۔ حمزہ نے کہا۔۔ ہمیں کچھ کرنا چاہیۓ۔۔ اب کی بار حمزہ بھی سیریس ہوچکا تھا۔۔

ارے یہ تم لوگ موبائل کو یوں کیوں غور رہے ہو۔۔ دادو نے انہیں ایک ساتھ بیٹھے دیکھا تو کہا۔۔ 

کچھ نہیں دادو وہ بس ایسے ہی۔۔ 

آجاٶ کھانا کھا لو۔۔ دادو کہتی ہوٸ چلی گٸیں۔۔

فرہاد کی تو بھوک ہی غائب ہوچکی تھی۔۔ پریشانی نے اسکے وجیہہ چہرے کو پوری طرح سے گھیر لیا تھا۔۔

آجاٶ فرہاد کھانا کھاتے ہیں۔۔ حمزہ نے اسے دیکھتے ہوۓ کہا۔

مجھے بھوک نہیں ہے حمزہ۔۔ تم کھاٶ۔۔ 

دادو کا پتا ہے نا۔۔ یار تھوڑا سا کھا لو۔۔ پھر انشااللہ آج ہی اس مسٸلے کا حل بھی نکالتے ہیں۔۔ حمزہ نے اسے تسلی دی۔۔ 

فرہاد بھی کچھ سوچتے ہوۓ اٹھ گیا۔۔

            ❤❤❤❤

اگلی صبح آغا ہاٶس میں فرہاد علی آغا نے ایک دھماکہ کیا ۔۔ بات ہی کچھ ایسی تھی۔۔کہ سب بس فرہاد کو دیکھتے ہی رہ گۓ ۔۔۔۔

ڈاٸنگ ٹیبل پر سب ہی موجود تھے۔۔ زیبا بیگم، آغا جی، سجاد بھاٸ،نتاشہ بھابھی، عالیہ اور سجاد بھاٸ کے دونوں بچے۔۔ جب فرہاد نے سوچا کہ یہی سب وقت ہے۔۔ مجھے بول دینا چاہیۓ۔۔ 

مجھے آپ لوگوں سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔۔ فرہاد نے پوری سنجیدگی سے کہا۔۔

جی کہو برخوردار۔۔۔ اب کس ضروری کام سے اور کہاں جانا ہے آپ نے۔۔۔؟؟ یہ پھر ابروڈ جانا چاہتے ہو اسپیشلاٸزیشن کیلیۓ۔۔؟؟ آغا جی کہ زہن میں جو باتيں آٸ انہوں نے پوچھ لی۔۔ کیونکہ فرہاد کے امپورٹنٹ کام یہی تھے۔۔۔

میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ آرام سے کہا گیا۔۔

عالیہ کو تو اچھو ہی لگ گیا۔۔ سب حیران نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے۔۔ نتاشہ بھابھی کو لگا کہ وہ مزاق کر رہا ہے۔۔ لیکن اس چہرے پر کوٸ شرارت نظر نہیں آرہی تھی۔۔ ویسے بھی وہ ایسے مزاق کہاں کرتا تھا۔۔

سچ بھاٸ۔۔۔ عالیہ نے خوش ہوتے ہوۓ پوچھا۔۔

Are you serious Farhaad..??
زیبا بیگم نے بھی حیران ہوتے ہوۓ پوچھا۔۔

Yes Mom 100%
فرہاد نے ہلکا سا مسکراتے ہوۓ کہا تا کہ گھر والوں کو یقین آجاۓ اسکی بات پر۔۔

بہت اچھی بات ہے نواب صاحب۔۔ شکر ہے آپ نے اپنے بارے میں بھی سوچا۔۔ آغا جی نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔

واٶٶٶ۔۔ ہم آج سے ہی لڑکیاں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔۔ نتاشہ بھابھی بھی خوشی سے بول رہی تھی۔۔ 

کمال کی لڑکی ڈھونڈے گے ہم آپکے لیۓ فرہاد بھاٸ۔۔ عالیہ نے کہا۔۔

لڑکی میں پسند کر چکا ہوں۔۔ ایک اور دھماکہ ہوا۔۔اور اصل دھماکہ تو یہی تھا۔۔

کسی کے زہن میں بھی یہ بات نا آٸ کہ وہ خود بھی تو لڑکی پسند کرسکتا ہے نا۔۔

پچھلی بار کی طرح کہیں اس بار بھی۔۔ عالیہ نے سوچا اور اسکے چہرے کی خوشی مدھم پڑ گٸ۔۔

very good... thats like my brother.. 
میں یہی سننا چاہتا تھا اسی لیۓ اب تک چپ تھا۔۔ بہت اچھا کیا تم نے فرہاد آغا۔۔ سجاد بھاٸ اب خوش ہوۓ تھے کہ چلو فرہاد اپنی زندگی کی طرف واپس آرہا تھا۔۔ 

اور اگر کوٸ ٹھیک معنوں میں پریشان ہوا تھا تو وہ تھی زیبا بیگم۔۔ اس بار بھی فیصلہ فرہاد کا ہی ہے۔۔ کہیں پھر کچھ غلط۔۔ نہیں۔۔ اس سے آگے انہوں نے کچھ نہیں سوچا۔۔ 

سمیع بھاٸ بھی جانتے ہیں اس لڑکی اور اسکی فیملی کو۔۔ اس وقت رق میں ہاسپٹل جارہا ہوں۔۔ آپ ان سے بات کرلیں۔ س کچھ پوچھ لیں۔۔ اور ڈیساٸیڈ بھی کرلیں کہ کل پرسوں تک میرا پرپوزل لے کر کون کون جاۓ گا۔۔ وہ اٹھتے ہوۓ بولا تھا۔۔

سمیع بھاٸ کو کیسے پتا لڑکی کا۔۔ عالیہ نے پوچھ ہی لیا جو سوال اسکے زہن میں گونج رہا تھا۔۔

کیونکہ لڑکی لاہور کی ہے۔۔ اور سمیع بھاٸ کے بیسٹ فرینڈ کی سالی صاحبہ ہیں۔۔ وہ کہتا ہوا چلا گیا۔۔

اچھا۔۔۔ تو یہ ضروری کام تھا۔۔ اس لیۓ بھاگ بھاگ کر لاہور جاتے تھے بھاٸ۔۔ عالیہ سوچ رہی تھی۔۔ لیکن ساتھ ساتھ خوش بھی ہو رہی تھی۔۔چلو کچھ تو اچھا ہونے جارہا تھا۔۔

فرہاد اپنی گاڑی میں ہاسپٹل کی طرف رواں دواں تھا۔۔ اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہی ایک گہری سانس لی تھی۔۔ کتنا مشکل لگ رہا تھا اسے یہ سب کرنا۔۔ مما کو کنوینس کرنا پڑے گا کیونکہ وہ دیکھ چکا تھا کہ وہ کچھ پریشان ہیں۔۔ 

اور بےخبر کو خبر ہی نہیں۔۔ کہ اس کےلیۓ میں اپنی زندگی کے اصول بدل رہا ہوں۔۔ وہ پاگل لڑکی اپنی دنیا میں ہی مصروف ہے۔۔ فرہاد سوچ رہا تھا۔۔

  ”جسے خود سے نہیں فرصتیں۔۔۔
  جسے خیال صرف اپنے کمال سے۔۔ 
  اسے کیا خبر میرے شوق کی۔۔۔۔
  اسے کیا پتا میرے حال کا۔۔۔ “

        ❤❤❤❤

لیکن یہ سب ہوا کیسے تھا۔۔؟؟ فرہاد نے شادی کا فیصلہ کیسے کیا۔۔۔؟؟

 وقت اتنی جلدی سب کچھ کیسے کر گیا تھا۔۔ ہواٶں نے ایک بار پھر شور کیا۔۔ اور تقدیر نے ہواٶں کے کہنے پر وقت کے کچھ پنے پیچھے کی طرف پلٹ دیۓ۔۔ 

وہ اور حمزہ کھانا کھانے کے بعد حمزہ کے کمرے میں آگۓ تھے۔۔ اور سوچ رہے تھے کے کیا کیا جاۓ۔۔

آپ سمیع بھاٸ سے بات کریں شاید وہ آپکی ہیلپ کر سکیں۔۔ حمزہ نے مشورہ دیا اور پھر دس منٹ بعد وہ دونوں لیپ ٹاپ آن کیۓ اسکے سامنے بیٹھے تھے جبکہ دوسری طرف ڈاکٹر سمیع لاٸن پر تھے۔۔ 

فرہاد اسے ساری بات بتا چکا تھا۔۔ کچھ پل کیلیۓ دونوں طرف خاموشی چھا گٸ تھی۔۔

تو تمہیں لگتا ہے کہ جو لڑکی تمہیں خواب میں نظر آتی ہے وہ حرم نور کی ہے۔۔؟؟ ڈاکٹر سمیع پوچھ رہے تھے۔۔۔

جی۔۔۔ مجھے پورا یقین ہے۔۔ فرہاد نے سنجیدگی سے کہا۔۔
حمزہ چاۓ لینے نیچے چلا گیا تھا۔۔ 

تو تم کیا چاہتے ہو اب۔۔ ؟؟ ڈاکٹر سمیع نے ایک بار پھر پوچھا۔۔

میں اسے اس مصیبت سے نکالنا چاہتا ہوں۔۔ اسکے درد کو کم کرنا چاہتا ہوں۔۔
 فرہاد بس بول رہا تھا۔۔ اسے خود بھی نہیں پتا تھا کہ وہ کیا بول رہا ہے۔۔ 

کس حق سے۔۔۔ ؟؟ پوچھا گیا

کس حق سے۔۔ فرہاد نے سوچا لیکن کوٸ جواب نہیں بن پایا۔۔

جی۔۔ڈاکٹر فرہاد آغا صاحب بولیں کس حق سے آپ ایک انجان لڑکی کے درد کو کم کرنا چاہتے ہیں۔۔؟؟ ڈاکٹر سمیع مکمل سنجيدگی کے ساتھ پوچھ رہے تھے۔۔ 

یہی تو میں نہیں جانتا سمیع بھاٸ۔۔ اسی لیۓ تو سب آپ سے شٸیر کر رہا ہوں۔۔ فرہاد نے پریشان سے لہجے میں کہا۔۔

ہمممم۔۔ تو پھر ایک ہی ایسا راستہ ہے جس سے تم اسکی مدد کر سکتے ہو۔۔ 

کونسا۔۔؟؟

اسے اپنا نام دو۔۔ اپنی پہچان دو۔۔ تاکہ کسی اور کی ہمت بھی نا ہو کہ وہ اسے کوٸ نقصان پہنچا سکے۔۔ ڈاکٹر سمیع بول رہے تھے۔۔ اور فرہاد۔۔ وہ تو بس حیران سا دیکھ رہا تھا۔۔

یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔ ؟؟ وہ بولا تھا تو اسے لگا کہ یہ اسکی آواز نہیں ہے۔۔ سچ تو یہ تھا کہ ڈاکٹر سمیع نے اسکے دل کی بات کہی تھی۔۔ 

جی۔۔ شادی کر سکتے ہو اس سے فرہاد آغا؟؟

ہاں جی۔۔ میں بھی یہی چاہتا ہوں۔۔ فرہاد نے جواب دیا۔۔

اور ایک ہلکی سی مسکراہٹ ڈاکٹر سمیع کے چہرے پر پھیل گٸ۔۔ وہ بس یہی جاننا چاہتے تھے کہ فرہاد سیریس بھی ہے یا نہیں۔۔ ؟؟

اور اس فیصلے سے سکون تو فرہاد کے چہرے اور روح میں بھی اترا تھا۔۔ سچ کہا تھا ڈاکٹر سمیع نے۔۔ 

” اور روح کا سکون دل کی خوشی سے بڑھ کر ہوتا ہے۔۔ “

گاڑی فل سپیڈ سے چلتی جارہی تھی۔۔۔ فرہاد اچانک سوچوں سے باہر آیا تھا۔۔ اب بس اسے رات کا انتظار تھا۔۔
    
  ❤❤❤❤


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─